• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزِمحشر اللہ کی نظرِ رحمت سے محروم ’بدنصیب‘!

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
الشیخ الزاني (بوڑھا زانی)
الملک الکذاب (جھوٹا بادشاہ)
العائل المتکبر (غریب متکبر)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ثلاثة لا یکلمھم اﷲ یوم القیامة ولا یزکیھم ولا ینظر إلیھم ولھم عذاب ألیم: شیخ زان وملک کذاب وعائل مُتکَبِّر (صحیح مسلم:۱۵۶)
’’تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت والے دن کلام نہیں کریں گے،نہ ہی ان کو پاک کریں اور نہ ان کی طرف دیکھیں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا:بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ،اورغریب متکبر۔‘‘
ان لوگوں کے ساتھ اس وعید کو خاص کرنے کی وجہ قاضی عیاضؒ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’اس وعید کو ان کے ساتھ اس لیے خاص کیا گیا ہے،کیونکہ ان لوگوں نے اس گناہ کا ارتکاب کیا ہے جس کے ارتکاب کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں اور اس گناہ کے ارتکاب کی ان کو حاجت بھی نہیں تھی۔جب بغیر ضرورت اور مجبوری کے اس گناہ کو اختیار کیا گیا تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ان کے نزدیک اللہ کے حکم کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ بلاوجہ گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خریدوفروخت میں کثرت سے قسمیں اُٹھانا
حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا:
ثلاثة لا ینظراﷲ إلیھم یوم القیامة:أشیمط زان وعائل مستکبر ورجل جعل اﷲ بضاعة لا یشتري إلا بیمینہ ولا یبیع إلا بیمینہ
’’تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت والے دن کلام نہیں کرے گا،نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا:بوڑھا زانی،غریب متکبر،اور وہ شخص جو جب بھی خرید وفروخت کرتا ہے تو ساتھ قسم اُٹھاتا ہے۔‘‘ (معجم الکبیر از طبرانی:۶؍۵۷)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
أربعة یبغضھم اﷲ تعالیٰ: البیاع الحلاف والفقیر المختال والشیخ الزاني والإمام الجائر (سنن النسائی:۲۵۲۹)
’’چار شخص ایسے ہیں کہ قیامت والے دن جن سے اللہ تعالیٰ غضبناک ہوں گے: بہت زیادہ قسمیں اُٹھا کر تجارت کرنے والا غریب متکبر بوڑھا زانی اورظالم حکمران۔‘‘
اس چیز میں کوئی شک نہیں کہ چھوٹے یا بڑے معاملے میں مناسب اور غیر مناسب موقعہ پر کثرت سے قسمیں اُٹھانا انسان کو اللہ کے عظیم نام کی حقارت کا عادی بنا دیتا ہے اور جس چیز پر قسم اُٹھائی ہے اس کی حرمت کو پامال کرنے پر جرات مند بنا دیتا ہے۔ جبکہ اسلاف کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو کثرت سے قسمیں اُٹھانے سے منع کیا کرتے تھے۔ ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں:
’’ہمارے اسلاف قسموں اور معاہدوں پر ہمیں مارا کرتے تھے۔‘‘
اور کثرت سے قسمیں اُٹھانے والے بندے کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی مذمت بیان فرمائی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَلاَ تُطِعْ کُلَّ حَلاَّفٍ مَّھِیْن} (القلم :۱۰)
’’اور تو اس شخص کا بھی کہا نہ ماننا جو کثرت سے قسمیں اُٹھانے والا ہے۔‘‘
العاق لوالدیہ (والدین کا نافرمان)
المرأۃ المترجلۃ المتشبھۃ بالرجال (مردوں سے مشابہت کرنے والی عورت)
الدیوث (بے غیرت)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ثلاثة لاینظر اﷲ إلیھم یوم القیامة: العاقُّ لوالدیہ والمرأۃ المترجلة [اللمتشبهة بالرجال] والدیوث وثلاثة لا یدخلون الجنة: العاق لوالدیہ والمدمن الخمر والمنان بما أعطی (سنن النسائی:۲۵۱۵ ،مسنداحمد:۲؍۱۳۴)
’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کی طرف نہیں دیکھیں گے:والدین کا نافرمان، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت،اوردیوث(بے غیرت انسان)
مزید فرمایاکہ تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے: والدین کا نافرمان،ہمیشہ شراب پینے والا،اوراحسان جتلانے والا۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
والدین کا نافرمان:
اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق کو بڑی عظمت سے نوازا ہے،ان کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ ان کے کفر کے باوجود ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔بہت ساری احادیث میں ان کے حقوق کو بڑی تاکید سے بیان کیا گیاہے اور ان کی نافرمانی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا:
أکبر الکبائر:
الإشراک باﷲ وقتل النفس وعقوق الوالدین وشھادۃ الزور (صحیح بخاری:۶۳۶۳)
’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی جان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا سب سے بڑے گناہ ہیں۔‘‘
اسی طرح رسول اللہﷺ نے مزید ارشاد فرمایا:
رضا الرب في رضا الوالدین وسخطہ في سخطھما (جامع ترمذی:۲۱۱۸ صحیح)
’’اللہ تعالیٰ کی رضا والدین کی رضا مندی میں ہے اور ان کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ بھی ناراض ہوجاتے ہیں۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت:
اس سے مراد ایسی عورت ہے جو لباس،طورواطوار ، معمولات اور آواز میں جان بوجھ کر مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہے۔ ایسی عورتوں کے بارے میں اللہ کے نبیﷺ کا واضح فرمان موجود ہے:
لعن رسول اﷲ المُتَشَبِّھین من الرجال بالنساء والمُتَشَبِّھات من النساء بالرجال (صحیح بخاری:۵۴۳۵)
’’رسول اللہﷺ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔‘‘
اسی طرح صحیح بخاری میں ایک اور روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی ہے:
لعن رسول اﷲ المُخنثین من الرجال والمُتَرَجِّلات من النسائ
’’رسول ﷺ نے (عورتوں کی مشابہت اختیارکرکے) عورت بننے والے مردوں پر اور (مردوں کی مشابہت اختیار کرکے) مرد بننے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری:۵۴۳۶)
اس چیز میں کوئی شک نہیں کہ کوئی عورت مرد بننے کی کوشش کرے یا مردوں کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اصل میں فطرتِ الٰہیہ کو توڑنا چاہتی ہے اور اللہ نے اس کے لیے جو مقدر کردیا، وہ گویا اس پر اعتراض کرتی ہے۔اپنے دین کی مخالفت کرتی ہے اور معاشرتی معاملات میں خلل ڈالتی ہے ، اختلاط کا سبب بنتی ہے اور جرائم پھیلاتی ہے۔
دَیوث(بے غیرت):اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے اہل و عیال میں بے حیائی کو برداشت کرے اور عزت کے معاملے میں اس کو کوئی غیرت نہ آتی ہو۔ایسا شخص اخلاقیات سے عاری، ناقص العقل اور بے دین ہے۔اور وہ اس چیز پر رضامند ہوچکا ہے کہ اس کو خنزیر سے مشابہت دے دی جائے کہ جس کو اپنی عزت کی کوئی پرواہ نہیں۔ایسے بندے کی گواہی ناقابل قبول ہے اور وہ تعزیر کامستحق ہے تاکہ سزا کے ساتھ اس شخص کو اس قبیح فعل سے روکا جا سکے۔
لوگوں کو اپنے اہل وعیال کو ایسی چیزوں سے بچانا چاہیے جو بے حیائی اور بے غیرتی کا سبب بنتی ہیں تاکہ وہ مذکورہ وعیدوں سے محفوظ رہ سکیں۔ جیساکہ کافر ممالک کی طرف سفر کرنا اور وہاں جا کر رہنا، ڈش اور کیبل کے ذریعے دکھائے جانے والے وہ مناظرجو غلط جذبات کو اُبھارتے اور نفسانی خواہشات کو برانگیختہ کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ثلاثة لایدخلون الجنة وثلاثة لا ینظر اﷲ إلیہم یوم القیامة: فأما الثلاثة الذین لا یدخلون الجنة: فالعاق لوالدیہ والدیوث والمرأۃ المترجلة من النساء تشبہ بالرجال وأما الثلاثة الذین لا ینظر اﷲ إلیہم: فالعاق لوالدیہ والمدمن الخمر والمنان بما أعطی (معجم کبیر از طبرانی :۵؍۴۹۴’ صحیح‘)
قالوا یارسول اﷲﷺ! أما مدمن الخمر فقد عرفناہ فما الدیوث؟ قال: الذي لا یبالي من دخل علی أھلہ۔ قیل فما الرجلة من النسائ؟ قال التي تشبہ بالرجال ( شعب الایمان :۱۰۸۰۱)
’’تین آدمی جنت میں کبھی بھی داخل نہیں ہوں گے اور تین آدمیوں کی طرف اللہ نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے۔جو تین لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے، وہ یہ ہیں: والدین کا نافرمان، دیوث، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں۔ اور جن تین لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ دیکھیں گے نہیں، وہ یہ ہیں:والدین کا نافرمان، ہمیشہ شراب نوشی کرنے والا، اور کچھ دے کر احسان جتلانے والا۔
صحابہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! شرابی کو توہم جانتے ہیں،لیکن دیوث کیا ہوتا ہے؟ فرمایا: وہ شخص جس کو یہ پرواہ ہی نہ ہو کہ اس کے گھرمیں کون داخل ہوتا ہے۔کہا گیا اور یہ عورت میں مرد بننے سے کیا مراد ہے؟فرمایا: مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں۔‘‘
الذي یأتي امراتہ في دُبُرھا (ہم بستری میں بیوی کی دبر استعمال کرنا)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لا ینظر اﷲ إلی رجل أتی رجلا أو امرأۃ في الدُّبر(جامع ترمذی:۱۰۸۶)
’’قیامت کے دن اللہ اس بندے کی طرف نہیں دیکھیں گے جو کسی مرد یا عورت کے ساتھ بدفعلی کرے۔‘‘
اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ملعون من أتی امرأتہ في دُبرھا (مسند احمد:۲؍۴۴۴، سنن ابوداؤد:۲۱۶۲’صحیح‘)
’’جو شخص اپنی بیوی کی دبر سے آتا ہے، وہ ملعون ہے۔‘‘
علامہ ابن قیمؒ الجوزیہ فرماتے ہیں:
’’بیوی کی دبر کے استعمال کو کسی نبی ؑ نے بھی مباح قرار نہیں دیا اور جو بعض لوگوں سے بیوی کی دبر میں وطی کا جواز کا تذکرہ ملتا ہے تو یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے عارضی نجاست (حیض ونفاس)کی صورت میں شرم گاہ میں جماع سے منع فرمایا ہے تو دائمی نجاست کی جگہ میں یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے؟اس سے انقطاعِ نسل جیسی بڑی بڑی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور انسان عورتوں کی دبر سے بچوں کے ساتھ بدفعلی کا عادی ہو جاتا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا سطور میں ہم نے ان آیات واحادیث کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے جس میں اللہ کی رحمت سے دوری، ان سے کلام نہ کرنے کی وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ البتہ بعض احادیث میں جو ثلاثة لا یکلمھم اﷲ کے حوالے سے مختلف قسم کے الفاظ آئے ہیں تو ان احادیث میں اصلاً کوئی تعارض نہیں کیونکہ ان میں ثلاثة (تین) کا کلمہ بطورِ تعداد ہے، بطورِحصر(التزام) نہیں۔ واللہ اعلم!
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے كى حرمت كے دلائل !!!

مجھے ايك بھائى نے بتايا كہ ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنا حرام ہے، اس كا ثبوت كئى ايك احاديث سے ملتا ہے، ميں اس موضوع كے متعلق آپ كى رائے معلوم كرنا چاہتا ہوں.

الحمد للہ:


آپ كے دوست كى بات حق ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت سارى احاديث ميں ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے سے منع فرمايا ہے ان احاديث ميں سے چند ايك احاديث درج ذيل ہيں:

صحيح بخارى ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" چادر كا جو حصہ ٹخنوں سے نيچے ہے وہ آگ ميں ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5787 ).

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان اس طرح ہے:

" روز قيات اللہ تعالى تين قسم كے افراد كى جانب نہ تو ديكھے گا اور نہ ہى انہيں پاك كريگا، اور انہيں دردناك عذاب ہو گا، ان ميں ايك تو ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے والا ہے، اور دوسرا احسان جتلانے والا، اور تيرا اپنا سامان جھوٹى قسم سے فروخت كرنے والا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 106 ).

اور ايك حديث ميں فرمان نبوى اس طرح ہے:

" قميص اور پگڑى اور تہ بند ميں اسبال ہے، جس نے بھى اس سے كچھ بھى تكبر كے ساتھ لٹكا كر كھينچا اللہ تعالى روز قيامت اس كى جانب نہيں ديكھےگا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4085 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 5334 ) صحيح سند كے ساتھ مروى ہے.

اور ايك حديث ميں نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ٹخنوں سے نيچے چادر لٹكانے والے كى طرف اللہ تعالى نہيں ديكھےگا "

نسائى كتاب الزينۃ باب اسبال الازار حديث نمبر ( 5332 ).

اور حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرى يا اپنى پنڈلى كے عضل ( گوشت والا حصہ ) كو پكڑ كر فرمايا:

" چادر كى يہ جگہ ہے، اگر تم انكار كرو تو پھر اس سے نيچے، اور اگر اس سے بھى انكار كرو تو پھر چادر كو ٹخنوں ميں كوئى حق نہيں ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1783 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے.

اوپر جتنى بھى احاديث گزرى ہيں وہ ٹخنوں سے كپڑا نيچے ركھنے كى ممانعت ميں عام ہيں، چاہے اس كا مقصد تكبر ہو يا نہ ہو، ليكن اگر مقصد تكبر ہو تو بلا شك گناہ اور جرم زيادہ ہو گا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے اپنى چادر تكبر سے نيچے ركھ كر كھينچى تو اللہ تعالى اس كى جانب نہيں ديكھےگا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5788 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2087 ).

اور ايك حديث ميں ہے جابر بن سليم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:

" تم چادر ٹخنوں سے نيچے ركھنے بچا كرو، كيونكہ يہ چيز تكبر ميں سے ہے، اور اللہ تعالى تكبر كو پسند نہيں كرتا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2722 ) اسے ترمذى نے صحيح قرار ديا ہے.

پھر يہ بھى ہے كہ انسان اپنے آپ كو تكبر سے برى نہيں كر سكتا چاہے وہ اس كا دعوى بھى كرے تو بھى اس سے قبول نہيں كيا جائيگا كيونكہ يہ اس كا خود اپنى جانب سے تزكيہ نفس ہے، ليكن جس كے متعلق اس كى گواہى وحى نے دى تو وہ ٹھيك ہے، جيسا كہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر سے كھينچا اور لٹكايا تو اللہ تعالى روز قيامت اسے ديكھے گا بھى نہيں "

تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ميرى چادر ڈھيلى ہو جاتى ہے، ليكن ميں اس كا خيال ركھتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

" يقينا تم ان ميں سے نہيں جو اسے بطور تكبر كرتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5784 ).

ٹخنوں سے نيچے كپڑا اور چادر يا سلوار وغيرہ ركھنا چاہے وہ تكبر كى بنا پر نہ بھى ہو يہ بھى منع ہے، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مسلمان كا لباس نصف پنڈلى تك ہے، نصف پنڈلى اور ٹخنوں كے درميان ہونے ميں كوئى حرج نہيں، اور جو ٹخنوں سے نيچے ہو وہ آگ ميں ہے، اور جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر سے كھينچا اللہ تعالى اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4093 ) اس كى سند صحيح ہے.

دونوں حديثوں ميں مختلف عمل بيان ہوا ہے، اور اس كى سزا بھى مختلف بيان كى گئى ہے.

اور امام احمد نے عبد الرحمن بن يعقوب سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ميں نے ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا: كيا آپ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے چادر كے متعلق كچھ سنا ہے ؟

تو انہوں نے فرمايا: جى ہاں سنا ہے، تم بھى اسے معلوم كر لو، ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

" مومن كا لباس اس كى آدھى پنڈليوں تك ہے، اور اس كے ٹخنوں اور نصف پنڈليوں كے درميان ركھنےميں كوئى حرج نہيں، اور جو ٹخنوں سے نيچے ہو وہ آگ ميں ہے، آپ نے يہ تين بار فرمايا "

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس سے گزار تو ميرى چادر ڈھيلى ہو كر نيچے ہوئى ہوئى تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" اے عبد اللہ اپنى چادر اوپر اٹھاؤ، تو ميں نے اسے اوپر كر ليا، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اور زيادہ كرو، تو ميں نے اور اوپر كر لى.

اس كے بعد ميں ہميشہ اس كا خيال ركھتا ہوں، لوگوں ميں سے كسى نے دريافت كيا: كہاں تك ؟ تو عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے: آدھى پنڈليوں تك "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2086 ) كتاب الكبائر للذھبى ( 131 - 132 ).

تو اسبال جس طرح مردوں ميں ہے اسى طرح عورتوں ميں بھى ہو گا، جس كى دليل ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر كے ساتھ كھينچا اللہ تعالى اس كى جانب نہيں ديكھےگا "

تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: تو پھر عورتيں اپنے چادروں كا كيا كريں ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ ايك بالشت نيچے لٹكا ليا كريں "

ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں: اس طرح تو عورتوں كے پاؤں نظر آيا كرينگے.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ ايك ہاتھ نيچے لٹكا ليا كريں، اس سے زيادہ نہيں "

سنن نسائى كتاب الزينۃ باب ذيول النساء.

اور ہو سكتا ہے تكبر كرنے والے كو آخرت سے قبل اس كى سزا دنيا ميں بھى مل جائے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ايك شخص تكبر كے ساتھ اتراتا ہوا اپنى دو چادروں ميں چلا جا رہا تھا اور اسے اپنا آپ بڑا پسند اور اچھا لگا، تو اللہ تعالى نے اسے زمين ميں دھنسا ديا، تو وہ قيامت تك اس ميں دھنستا ہى چلا جائيگا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2088 ).

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
 
Top