• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزہ اور بیماری

ممتاز علی

مبتدی
شمولیت
جون 27، 2016
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
3
اسلام علیکم سر جی یہ بتاہیں قرآن پاک اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں کے ایک شخص جو صُبح دوپہر شام دوائی کھائے دل کی بیماری کی وجہ سے اور دوسرا شخص جو شوگر کا مرہض ہو وہ بھی صُبح دوپہر شام دوائی لے انسولین تو کیا ان پر روزہ فرض ہو گا اسلام علیکم
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اسلام علیکم سر جی یہ بتاہیں قرآن پاک اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں کے ایک شخص جو صُبح دوپہر شام دوائی کھائے دل کی بیماری کی وجہ سے اور دوسرا شخص جو شوگر کا مرہض ہو وہ بھی صُبح دوپہر شام دوائی لے انسولین تو کیا ان پر روزہ فرض ہو گا اسلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی :
رحمن و رحیم رب نے قرآن مجید میں جہاں روزوں کی فرضیت کا حکم دیا ہے ،وہاں ساتھ ہی مریض اور مسافر کیلئے
رخصت بھی بتائی ہے ؛
وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
یعنی جو مریض یا مسافر ہو وہ (دوران مرض و سفر روزہ چھوڑ دے اور ) بعد میں یہ گنتی پوری پوری کرلے ،
اور ساتھ ہی فرمایا :
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ "اللہ تمہاری آسانی چاہتا ہے ،تمہیں مشقت میں ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتا "
اس لئے ہر وہ مرض جس میں روزہ رکھنے سے تکلیف بڑھنے ،یا تکلیف کا دورانیہ بڑھنے کا اندیشہ اس میں روزہ چھوڑ
دینے کی اجازت ہے ؛
علامہ النووی لکھتے ہیں :
وقال النووي في المجموع: ولا يشترط أن ينتهي إلى حالة لا يمكنه فيها الصوم، بل قال أصحابنا: شرط إباحة الفطر أن يلحقه بالصوم مشقة يشق احتمالها .انتهى.
یعنی مرض سے مراد ایسی حالت نہیں جس میں روزہ رکھنا ممکن ہی نہ ہو ، (کیونکہ اس حالت میں شرعی اجازت کے بغیر بھی روزہ نہ رکھا جائے گا )
بلکہ فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ ایسے مرض میں بھی روزہ کی رخصت ہے جس میںروزے سے تکلیف بڑھنے کا اندیشہ ہو "
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بیماری میں روزے سے متعلق فقہی جواب تو برادرم اسحاق سلفی نے دے دیا اور خوب دیا ہے۔ میرا یہ جواب صرف اور صرف ذیابطیس اور امراض دل میں روزہ رکھنے سے ”متعلق“ ہے۔ اگر ان امراض میں مبتلا مریض چاہیں تو اپنے دیندار ڈاکٹر کے مشورہ سے روزہ رکھ سکتے ہیں اور انہیں کوئی نقصان بھی نہیں ہوگا۔ شرط صرف یہ کہ آیا وہ دل سے روزہ رکھنا چاہتے ہیں یا محض ”بیماری کے بہانے“ سے رخصت کے طلبگار ہیں۔
میں بہت سے ایسے مریضوں کو جانتا ہوں جو ذرا سی احتیاط کے ساتھ پورا مہینہ روزہ رکھتے ہیں۔ میں خود سالہا سال سے ان دونوں امراض میں مبتلا ہوں۔ اور میرا گذارا انسولین اور ادویات پر ہے۔ لیکن الحمد للہ میں روزے بھی پورے رکھتا ہوں۔ ذاتی تجربات اور ڈاکٹر کے مشورے سے حسب ذیل ٹپس پیش ہیں۔ آپ ان پر عمل کیجئے۔ ان شاء اللہ صحت بھی برقرار رہے گی اور روزہ بھی قضا نہیں ہوگا ان شاء اللہ
  1. دل کی بیماری اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض جو دن میں تین مرتبہ (ناشتہ، دوپہر کھانا اور رات کا کھانا) دوائی لیتے ہوں، وہ یہی دوائی ڈاکٹر کے مشورے سے رات میں تین مرتبہ (افطار کے ساتھ، تراویح کے بعد اور سحری ختم ہونے سے ذرا قبل) لے سکتے ہیں۔ بالعموم افطار اور سحر کے اوقات میں بھی یہ ادویہ کافی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر سے مشورے کے بعد تجرباتی طور پر رات میں تین یا دو مرتبہ دوائی کے ساتھ روزہ رکھ کر دیکھئے۔ روزہ کی حالت مین دن کے اوقات میں خود کو ”مانیٹر“ کرتے رہئے کہ کہیں کوئی پرابلم تو نہیں ہورہی۔ ایک دو مرتبہ بلڈ پریشر بھی چیک کرتے رہئے۔ اگر سب کچھ ”قابل برداشت“ ہو تو روزہ مکمل کیجئے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ طبیعت بگڑنے لگے تو روزہ فوراً توڑ کر متعلقہ دوائی لے لیجئے۔ چند یوم کی ”پریکٹس“ سے ایسا مریض بآسانی روزہ رکھنا ”سیکھ“ لیتا ہے۔
  2. صبح و شام یا دن میں تین مرتبہ ذیابطیس کی ادویہ اور انسولین لینے والے مریضوں کو ڈاکٹر عموماً یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ صبح و شام کی ادویات کا ”تبادلہ“ کر لیں یعنی صبح والی خوراک افطار کے ساتھ اور شام والی خوراک سحر میں لے لیں۔
  3. یہ یاد رہے کہ روزہ کی حالت مین انسولین لگانے سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا۔ لیکن بلڈ شوگر لیول اچانک بہت نیچے جاسکتا ہے، جسے ”ہائپو“ کہتے ہیں۔ لہٰذا انسولین صرف افطار سے دس پندرہ منٹ پہلے لگائیں۔ افطار کے بعد شوگر کی دوائی بھی کھائیں۔ افطار میں میٹھی اشیاء (کھجور، شربت، پھل وغیرہ) اعتدال سے کھائیں۔
  4. کھانا اگر تراویح یا عشاء کے بعد کھائیں تو کھانے سے پہلے انسولین اور کھانے کے بعد، کھانے کے بعد والی گولی کھا لیجئے۔
  5. سحری میں شوگر کی کوئی دوائی نہیں کھانی۔ نہ انسولین اور نہ ہی کوئی ٹیبلیٹ۔ (ڈاکٹرز کا صبح و شام کی شوگر کی دوائیوں کے تبادلہ والا فارمولہ تجربات سے غلط ثابت ہوا ہے۔ اور ایسا کرنے والے مریض کو صبح آٹھ نو بجے بھی ”ہائپو“ ہوتا رہ ہے)۔ سحری میں دو باتیں یاد رکھئے۔ شوگر کی کوئی دوائی نہین کھانی، انسولین نہیں لگانا۔ اور میٹھا ضرور کھانا۔ کم از کم دو عدد کھجور اور ایک پیالی سویٹ ڈش کھا لیجئے۔ شام تک بلڈ شوگر تھورا پلس سائیڈ تک رہے گا۔ ان شاء اللہ ہائپو نہیں ہوگا اور کوئی کمزوری نہیں ہوگی۔ دوران روزہ گھر میں خود سے بلڈ شوگر بھی چیک کرتے رہئے۔ 80 سے کم آئے تو فوراً روزہ توڑ لیجئے۔
ذیابطیس ہونے کے ابتدائی برسوں میں میرا شوگر لیول اپ ڈاؤن ہوتا رہا۔ ایک مرتبہ دوپہر کو روزہ توڑنا پرا۔ ایک مرتبہ شام چار بجے کے قریب اور ایک مرتبہ تو افطار سے ایک گھنٹہ قبل بھی روزہ توڑنا پڑا۔ لیکن الحمد للہ اب اتنا ”ایکسپرٹ“ ہوگیا ہوں کہ کبھی روزہ توڑنے کی نوبت نہیں آتی۔ اللہ ہم سب کو اپنی معمول کی بیماریوں مین روزہ ”مینیج“ کرنے کی صلاحیت عطا کرے آمین۔
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
شیخ محترم اسحاق سلفی صاحب ۔جزاک اللہ خیرا
یوسف بھائی ماشاء اللہ بہت اچھے کمنٹس جزاک اللہ خیرا
نمجھے آج سے تقریبا تین سال پہلے پہلا روزہ تقریبا دو گھنٹے افطاری سے قبل توڑنا پڑا۔میرا شوگر ظہر نماز کے بعد ہی لو ہونا شروع ہوگیا لیکن میں نے ضد کی اور روزہ نہ توڑنے کی کوشش کر تا رہا لیکن تقریبا دو گھنٹے افطاری سے قبل توڑنا پڑا۔اس ضد کانقصان یہ ہوا کہ اُس کے بعد حالت اتنی خراب ہوئی کہ پورا ایک ہفتہ بستر پر پڑا رہا کمزوری تھی کہ دور ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔اس لیے میرا خیال ہے کہ اگر کسی نے دل کو مطمئن کرنے کے لیے اس بیماری میں روزہ رکھنا بھی ہے۔ تو ایک دفعہ کا تجربہ ہی کافی ہونا چاہیے جس طرح یوسف بھائی نے کہا کہ مجھے تین مرتبہ روزہ توڑنا پڑا تو میرے خیال میں بعض مرتبہ اس قسم کا تجربہ صحت کے لیے نقصان بھی دے سکتاہے۔جب میں نے روزہ توڑا تو میرے ایک پڑوسی نے کہا کہ میں تو شوگر کے ساتھ روزہ رکھ لیتا ہوں۔لیکن سارا دن ائیر کنڈیشن والے روم میں سویا رہتا ہوں صرف نماز کے وقت اٹھتا ہوں۔توایسے شخص کے لیے میرے خیال میں روزہ پرابلم نہیں کرسکتا کیونکہ اکثر شوگر کے مریضوں کو جب بے حد پسینہ آتا ہے تو شوگر لو ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔جب میں نے روزہ توڑا تھا تو توڑنے سے پہلے شیخ صاحب سے فون پر رابطہ کیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ایسے مریضوں کو سردیوں میں ان روزوں کی قضا کرنی چاہیے۔لیکن جب میں نے سردیوں میں ٹرائی کی تومیں خود بھی حیران ہوگیا کہ صبح گیارہ بجے جسم اتنا کانپنے لگا کہ جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ٹھنڈے پسینے آنے لگے دل گھٹنے لگا۔اور ہارٹ پین ہونے لگا ۔لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات اس قسم کے تجربے صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔اور اللہ رب العالمین نے جو مریضوں کو چھوٹ دی ہے اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ہاں البتہ دل مطمئن ہونا ضروری ہے۔کیونکہ اللہ علیم بذات الصدور ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
زاہد بھائی! جزاک اللہ خیرا
شوگر کے مریضوں کے پاس گلوکو میٹر تو ہر وقت پاس ہی رہنا چاہئے۔ گھر میں بھی اور دفتر میں بھی۔ اور اگر ایسا مریض روزہ رکھے تو بلڈ شوگر کو اپنے ڈائیٹ پلان اور میڈیسن کے ساتھ مینیج کرے۔ ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں اسے دن میں دو تین مرتبہ شوگر چیک کرنا پڑے۔ لیکن بعد ازاں کئی کئی دن تک شوگر چیک کئے بغیر بھی وہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس کا شوگر نارمل ہے یا نہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محترم شیخ اسحاق سلفی صاحب ۔۔۔کیا فدیہ منسوخ ہے ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اگر كوئى شخص بڑھاپے يا دائمی ، مستقل بيمارى جس سے شفايابى كى اميد نہ ہو كى بنا پر رمضان المبارك كے روزے نہ ركھ سكے تو عدم استطاعت كى بنا پر وہ ہر روزے كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائيگا ، یعنی ہر روزہ کے بدلے ایک دن کا کھانا مسکین و غریب کو دے گا؛

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
قال الله تعالى : ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ * أَيَّاماً مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) البقرة/183-184.
ترجمہ :
﴿ اے ايمان والو تم پر روزے ركھنا فرض كيے گئے ہيں جس طرح پہلے لوگوں پر روزے ركھنے فرض تھے، تا كہ تم متقى بن جاؤ، چند گنتى كے دن ہيں چنانچہ تم ميں سے جو كوئى بھى بيمار ہو يا مسافر تو دوسرے دنوں ميں گنتى پورى كرے، اور ان لوگوں پر جو اس كى طاقت ركھتے ہيں ان پر ايك مسكين كا كھانا فديہ ہے، اور جو كوئى خوشى سے نيكى كرے تو اس كے ليے يہ بہتر ہے اور تمہارے ليے روزہ ركھنا بہتر ہے اگر تمہيں علم ہے ﴾البقرۃ ( 183 - 184 ).
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور
وروى البخاري (4505) عن ابْن عَبَّاسٍ قال : ( لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ هُوَ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْمَرْأَةُ الْكَبِيرَةُ لا يَسْتَطِيعَانِ أَنْ يَصُومَا فَيُطْعِمَانِ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا ) .
بخارى ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ يہ آيت منسوخ نہيں، بلكہ يہ بوڑھے مرد اور عورت كے متعلق ہے جو روزہ ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتے، چنانچہ وہ اس كے بدلے ہر دن ايك مسكين كو كھانا كھلايا كريں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4505 ).
اور صحیح البخاری میں امام بخاری ؒ فرماتے ہیں :
وَأَمَّا الشَّيْخُ الكَبِيرُ إِذَا لَمْ يُطِقِ الصِّيَامَ فَقَدْ أَطْعَمَ أَنَسٌ بَعْدَ مَا كَبِرَ عَامًا أَوْ عَامَيْنِ، كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا، خُبْزًا وَلَحْمًا، وَأَفْطَرَ»
" بہت زیادہ بوڑھا جب روزہ نہ سکے ،تو فدیہ دے گا ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب بہت بوڑھے ہوگئے تھے ،تو آخر میں ایک یا دو سال ہر روز ایک مسکین کو روٹی اور گوشت کھلاتے تھے "
صحیح بخاری کتاب التفسیر )
اور مشہور جلیل القدر محدث اور فقیہ امام أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمدابن قدامہ ؒ

قال ابن قدامة في "المغني" (4/396) :
"الشَّيْخُ الْكَبِيرَ وَالْعَجُوزَ إذَا كَانَ يُجْهِدُهُمَا الصَّوْمُ , وَيَشُقُّ عَلَيْهِمَا مَشَقَّةً شَدِيدَةً , فَلَهُمَا أَنْ يُفْطِرَا وَيُطْعِمَا لِكُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا . . . فَإِنْ كَانَ عَاجِزًا عَنْ الإِطْعَامِ أَيْضًا فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ , وَ ( لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إلا وُسْعَهَا ) . . . وَالْمَرِيضُ الَّذِي لا يُرْجَى بُرْؤُهُ , يُفْطِرُ , وَيُطْعِمُ لِكُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا ; لأَنَّهُ فِي مَعْنَى الشَّيْخِ اهـ باختصار
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" بوڑھا آدمى اور بڑھيا عورت دونوں كے ليے اگر روزہ ركھنا مشكل ہو اور شديد مشقت كا باعث بنے تو ان دونوں كے ليے روزہ نہ ركھنا جائز ہے، بلكہ وہ اس كے بدلے ہر دن ايك مسكين كو كھانا كھلا ديا كريں... اور اگر وہ كھانا كھلانے سے بھى عاجز ہوں تو ان كے ذمہ كچھ نہيں، اور ( اللہ تعالى كسى بھى جان كواس كى طاقت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا ) ... اور وہ دائمى اور مستقل مريض جسے شفايابى كى اميد نہ ہو وہ بھى روزہ نہ ركھے اور اس كے بدلے ہر دن ايك مسكين كو كھانا كھلا ديا كرے ؛ كيونكہ وہ بھى بوڑھے شخص كے معنى ميں ہى ہے " اھـ انتہى مختصر.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 4 / 396 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
س: أصبت بمرض خطير في العشر الأواخر من رمضان عام 1395هـ واضطرتني ظروف المرض أن أفطر أربعة أيام من ذلك الشهر المبارك وكان أملي أن أشفى من المرض فأقضيها فيما بعد ولكن المرض استمر بي حتى الآن ونحن نستقبل رمضان جديد ولم أتمكن من قضاء الأيام التي أفطرتها من رمضان الفائت وليس عندي استطاعة في صيام الشهر المقبل رمضان عام 1396هـ نظرا لما أعانيه من هذا المرض وليس عندي يقين في شفائي من المرض فيما بعد. أطلب التكرم بإجابتي تحريريا فيما يلزم مع التكرم ببيان قيمة الإطعام في الوقت الحاضر بالنقود على حسب حالة المطعم والمطعم، وإذا لم يكن هناك مساكين متعددون في القرية فهل أكرر الإنفاق على المساكين المعينين بالقرية؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ج: إذا كان الأمر كما ذكرت فعليك أن تصبر حتى يشفيك الله من هذا المرض ثم تقضي ما فاتك من الأيام التي أفطرتها من شهور رمضان التي تدركها والأصل في ذلك قوله تعالى: {وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ} (1) وكذلك كونك تظن في نفسك أنك لن تشفى فهذا لا يصح أن يبنى عليه الحكم بأنك لن تشفى بأنك تطعم عن الأيام الماضية ويسقط عنك القضاء وعليك حسن الظن بالله ورجاء الشفاء مع الاستعداد للآخرة. شفاك الله من كل سوء وأعانك على أداء الواجب، ومتى قرر الأطباء أن هذا المرض الذي تشكو منه، ولا تستطيع معه الصوم - لا يرجى شفاؤه، فإن عليك أن تطعم عن كل يوم مسكينا نصف صاع من قوت البلد من تمر أو غيره عن الشهور الماضية والمستقبلة، وإذا عشيت مسكينا أو غديته بعدد الأيام التي عليك كفى ذلك أما النقود فلا يجزئ إخراجها.
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... نائب رئيس اللجنة ... الرئيس
عبد الله بن غديان ... عبد الرزاق عفيفي ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ: کسی سنگین بیماری میں مبتلا شخص کے روزہ رکھنے کا حکم
فتوى نمبر:1447
سوال :
’’ رمضان 1395 ھجری کے آخری عشرہ میں میں ایک سنگین بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا اور مرض کی صورتحال نے مجھ سے اس ماہ مبارک کے چار روزے چھڑا دئے تھے۔ میرا خیال تھا کہ بعد میں جب بیماری سے شفایاب ہو جاؤں گا، تو ان روزوں کی قضا کر لوں گا، لیکن اللہ کی مشیت کہ اس مرض کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور ہم ایک نئے رمضان کا استقبال کر رہے ہیں، اس دوران نہ تو میں گزشتہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کر سکا اور مرض کی شدت کے پیش نظر نہ ہی مجھـ میں آنے والے رمضان 1396 ھجری کے روزے رکھنے کی سکتا ہے- اب مجھے اس کا بھی یقین نہیں ہے کہ بعد میں میں شفایاب ہی ہو جاؤں گا؛ لہذا میں گزارش کرتا ہوں کہ آپ تحریری طور پر مجھے بتائیں کہ اس صورتحال میں مجھـ پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟ براہ کرم یہ وضاحت بھی فرما دیں کہ اس وقت نقدی مال سے ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی قیمت کیا ہے؟ جس میں کھانے والے اور کھلانے والے دونوں کی حالت کا اعتبار کیا گیا ہو، اگر میرے گاؤں میں مساکین کی تعداد کم ہو تو کیا میں گاؤں میں موجود متعین مساکین کو بار بار صدقہ دے سکتا ہوں؟
( دائمی کمیٹی برائے فتوی : جلد نمبر 10; صفحہ 198)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :
اگر صورتحال وہی ہے جو آپ نے بیان فرمائی ہے، تو آپ کو صبر سے کام لینا چاہئے تا آنکہ اللہ تعالی آپ کو اس مرض سے شفایاب کر دے، اور پھر آپ ان روزوں کی قضا کر لیں جو رمضان المبارک کے مہینوں میں آپ سے چھوٹ گئے ہیں، اور اس سلسلے میں اصل اللہ تعالی کا یہ قول ہے:
{وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ} (1) اور ﺟﻮ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮔﻨﺘﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﻛﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ‘‘
اسی طرح آپ کا اپنے جی میں یہ سمجھنا کہ آپ اب شفایاب نہیں ہوں گے یہ حکم لگانے کی بنیاد نہیں بن سکتا کہ آپ گزشتہ ایام کے عوض مسکینوں کو کھانا کھلا دیں اور روزوں کی قضا آپ سے ساقط ہو جائے- آپ کو بہرحال اللہ سے حسن ظن اور شفا کی امید رکھنی چاہئے؛ اور اس کے ساتھـ ساتھـ آخرت کی تیاری بھی کرتے رہنا چاہئے- ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو ہر تکلیف سے شفا دے اور ادائے فرض میں آپ کی مدد کرے- لیکن اگر اطباء کا آخری فیصلہ یہی ہو کہ وہ مرض جس میں آپ مبتلا ہیں؛
اور جس کی وجہ سے آپ روزے نہیں رکھـ سکتے ناقابل شفا ہے تو آپ پر فرض ہو جاتا ہے کہ ہر روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائیں جس کی مقدار ملکی غذا (کھجور وغیرہ) کا نصف صاع ہے؛ یہ عمل آپ رمضان کے گزشتہ مہینوں کے تعلق سے بھی انجام دیں اور آنے والے مہینوں کے تعلق سے بھی، اور جب آپ کسی مسکین کو اتنے دنوں کی خوراک (دوپہر یا رات کا کھانا) کھلا دیں جتنے دنوں کی قضا آپ پر واجب ہے تو بس اتنا کافی ہے، اور جہاں تک کھانے کی قیمت کیش یا نقد میں ادا کرنے کا تعلق ہے تو یہ کافی نہیں ہے-
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

الشيخ محمد صالح المنجد
 
Top