• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزہ دار کے منہ کی بو (سلسلہ رمضانی دروس حدیث) {6}

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
روزہ دار کے منہ کی بو (سلسلہ رمضانی دروس حدیث) {6}

● ● ● ●
تحریر : کفایت اللہ سنابلی
● ● ● ●
”عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّكُمْ، قَالَ: «لِكُلِّ عَمَلٍ كَفَّارَةٌ، وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ المِسْكِ“
”صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ اللہ کے نبی صلی اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے نقل کیا کہ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے : ہرعمل کا کفارہ ہے اور روزہ میرے لئے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور یقینا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ ہے“[ البخاري رقم 7538]۔

اس حدیث میں‌ روزہ دار کی فضیلت بیان ہوئی ہے اورکہا گیا ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے ۔

اس حدیث میں‌ کئی باتیں ہیں:
✿ اولا:
سب سے پہلی بات یہ کہ اس حدیث میں کہا گیا کہ ’’عِنْدَ اللَّهِ‘‘ (اللہ کے نزدیک‌) روزہ دار کے منہ کی بو مشک کی خوشبو سے بھی بہترہے ۔
یہاں جو یہ کہا گیا کہ ’’اللہ کے نزدیک‘‘ تو اس کا مطلب ؟؟؟
کیا اللہ تعالی بھی خوشبو یا بدبوسونگھتاہے ؟ اورسونگھنے کے بعد اسے معلوم پڑتاہے کہ کس چیز میں‌ خوشبو ہے اورکس چیز میں‌ بدبواورکتنی مقدار میں‌؟؟؟
نہیں ! حدیث میں یہ بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ صحیح مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک مقبولیت ، خوشنودی اوراجروثواب مراد ہے ، اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں ’’ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘ کے اضافہ کے ساتھ یہ الفاظ ہیں : ’’ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ، يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ‘‘ [صحيح مسلم رقم 1151]۔
یعنی یہ معاملہ قیامت کے دن ہوگا ، جس کا مطلب یہ کہ قیامت کے دن اللہ تعالی کے نزدیک اس بو کی اہمیت مراد ہے یعنی اجروثواب کے لحاظ سے ، امام نووی رحمہ اللہ نے اسی مفہوم کو ترجیح دی ہے [شرح النووي على مسلم 8/ 30]۔

✿ ثانیا:
اس حدیث‌ سے متعلق دوسری اہم بات یہ کہ اس میں روزہ دار کے منہ کی بو کو مشک سے بھی بہتر بتایا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ روزہ دار کی یہ بو شہید کے خون سے بھی افضل ہے کیونکہ شہید کے خون کی بوکو حدیث‌ میں صرف مشک کہا گیا ہے جیساکہ نسائی وغیرہ میں ہے :
رِيحُهَا كَالْمِسْكِ، [سنن النسائي 6/ 25 ،صحیح]۔

غورکیجئے کہ اس حدیث‌ میں شہید کے خون کو مشک سے تشبیہ دئ گئی ہے ، جبکہ روزہ دار کے منہ کی بو کو مشک سے بھی زیادہ بہتر بتایا گیا ہے معلوم ہوا کہ روزہ دار کے منہ کی بو، یہ فضیلت میں شہادت کے خون سے بھی بڑھ کرہے ۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شہادت کا عمل روزہ کے عمل سے بہترہے کیونکہ مجموعی لحاظ سے شہادت ہی افضل ہے البتہ شہادت کے ایک جزء ’’خون ‘‘ اور روزہ کے ایک جزء ’’ روزہ دار کے منہ کی بو‘‘ ان دونوں کا موازہ کیا جائے تو روزہ دار کے منہ کی بو فضیلت میں زیادہ ہوگی،[فتح الباري لابن حجر 4/ 106]۔

✿ ثالثا:
اس حدیث سے متعلق تیسری قابل غوربات یہ ہے کہ اس میں‌ روزہ دار کے منہ کی بو کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے ، وہ کیوں ؟ اس کی علت کیا ہے ؟؟؟
اس سلسلے میں علامہ عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ مرعا ة میں فرماتے ہیں: ’’ إن الغرض نهي الناس عن تقذر مكالمة الصائمين بسبب الخلوف هذا‘‘ [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 6/ 410] ۔
یعنی اس بو کی تعریف اس لئے کی گئی ہے تاکہ لوگ روزہ دار کے ساتھ بات چیت کرنے میں ناگواری محسوس نہ کریں ، معلوم ہوا کہ ہمیں روزہ دار کے منہ کی اس بو کو عیب نہیں سمجھنا چاہئے اوراسے ناگوارسمجھتے ہوئے روزہ داروں سے کٹ کرتنہائی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔

✿ رابعا:
اس حدیث سے متعلق چوتھی چیز سمجھنے کی یہ ہے کہ بعض لوگ اس غلط فہمی کے شکارہیں کہ روزہ کی حالت میں‌ مسواک نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے روزہ دار کے منہ کی بو ختم ہوجاتی ہے یہ خیال سراسر غلط ہے کیونکہ مسواک سے دانتوں اورزبان وغیرہ کی صفائی ہوتی ہے اور روزہ دار کے جس بو کی تعریف کی گئی ہے اس سے مراد وہ بو ہے جو معدہ کے خالی ہونے کے سبب پیٹ کے اندر سے آتی ہے اس پر مسواک کا کوئی اثر نہیں پڑتا،[شرح الزرقاني على الموطأ 2/ 300]۔
خلاصہ کلام یہ کہ :
روزہ دار کے منہ کی بو بڑی فضیلت والی ہے ، اللہ تعالی کے یہاں یہ بو بہت مقبول ہے اس کا مرتبہ شہیدکے خون سے بھی بڑھ کرہے ،اس لئے ہمیں اس بو کو عیب نہیں سمجھنا چاہئے ۔
اوریہ بو چونکہ پیٹ کے اندر معدہ سے آتی ہے اس لئے یہ مسواک وغیرہ سے ختم بھی نہیں ہوسکتی ، لہٰذا اس کی وجہ مسواک نہیں چھوڑنا چاہئے۔
(کفایت اللہ سنابلی)
 
Last edited:
Top