اسلام و علیکم :
لوگ روزہ کو ڈھال بنا کر اپنی روزمرہ کے جائز امور کی انجام دہ سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ اور ایسی غیر معیاری عذر پیش کرتے ہیں جیسے روزہ رکھ کر احسان کررہے ہوں ۔آرام کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اکثر اس بات کا بھی سہارا لیتے ہیں کہ روزہ میں سونا بھی عبادت ہے۔
اس سلسلے میں قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں ۔تاکہ امت مسلمہ کی اصلاح ہو۔ جزاک اللہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
دین پر عمل کرنا نا ممکن یا مشکل نہیں !
کیونکہ شریعت اسلامیہ کے احکام انسانی استطاعت اور حالات کے مطابق ہیں ،
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ (البقرۃ )
اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا،
اور دوسرے مقام پر فرمایا :
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا (التغابن )
تم سے جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرتے (١٤) رہو، اور سنو اور اطاعت کرو،
اور رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا،
سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا ( اور اس کی سختی نہ چل سکے گی ) پس ( اس لیے ) اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو۔ اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتو اور خوش ہو جاؤ ۔
( کہ اس طرز عمل سے تم کو دارین کے فوائد حاصل ہوں گے )( صحیح بخاری 39)
تشریح : سورۃ حج میں اللہ پاک نے فرمایا ہے (
ماجعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم ابراہیم ( الحج: 78 ) یعنی اللہ نے دنیا میں تم پر کوئی سختی نہیں رکھی بلکہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) کی ملت ہے۔
آیات اور احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اسلام ہر طرح سے آسان ہے۔ اس کے اصولی اور فروعی احکام اور جس قدر اوامر و نواہی ہیں سب میں اسی حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ، مگرصد افسوس کہ بعد کے زمانوں میں ایمانی کمزوری اور اسلام ناشناسی کے سبب شرعی احکام کو مشکل بلکہ ناممکن سمجھا جانے لگا اوربہت سارےمسلمانوں نے اسی خود ساختہ صعوبت کے پیش نظر شرعی فرائض کو ترک کرنا وطیرہ بنالیا ۔ اللہ نیک سمجھ دے۔ آمین۔
امام بخاریؒ نے صحیح بخاری ،کتاب الایمان ایک باب کا عنوان یہ رکھا ہے
قول النبي صلى الله عليه وسلم " أحب الدين إلى الله الحنيفية السمحة ".
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ وہ دین پسند ہے جو سیدھا اور سچا ہو۔ (اور یقیناً وہ دین اسلام ہے سچ ہے
ان الدین عنداللہ الاسلام )۔
اللہ جل شانہ کا کا ارشاد ہے :
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اوروہ تمہیں مشکل اورسختی میں نہیں ڈالنا چاہتا البقرۃ ( 185 )
اسلام سلامتی اور خیر خواہی کا دین ہے ،اسلام دین فطرت ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو جس طبیعت پر پیدا کیا ہے اُس کا اصل تقاضا دینِ اسلام ہی ہے۔اسلام ہی انسان کی جسمانی اور روحانی ضرورتوں کا کفیل ہے۔
اور یہ محض کتابی بات ،اور جوشِ خطابت نہیں ،بلکہ قرن اول کے اہل ایمان صحابہ کرام کی سیرت اس حقیقت کی عملی گواہی ہے ،وہ دین و شریعت پر کماحقہ عمل پیرا ہوکر بھی دنیاوی اور معاشی امور بخوبی نبھاتے تھے ، گھر بار ،بیوی بچوں کی پرورش اور ان مادی زندگی کے تقاضے پورے کرتے تھے ،
اور زندگی کی بھاگ دوڑ میں شرعی احکام کی بجا آوری میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔