• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزے سے متعلق اہم فتاوے

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال10:
حيض اورنفاس والي عورتوں کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے ؟ اوراگرانہوں نے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا آئندہ رمضان تک موخرکردی تو ان پرکیا لازم ہے؟
جواب :
حيض اورنفاس والي عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ حیض اورنفاس کے وقت وہ روزہ توڑدیں ,حیض اورنفاس کی حالت میں روزہ رکھنا اورنمازپڑھنا جائزنہیں ,اورنہ ہی ایسی حالت کی نماز اورروزہ صحیح ہے, انہیں بعد میں صرف روزوں کی قضا کرنی ہوگی, نمازکی نہیں,عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے, ان سے سوال کیاگیا کہ کیا حائضہ عورت نمازاورروزے کی قضا کرے؟ توانہوں نے فرمایا:
"ہمیں روزوں کی قضا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا اورنمازکی قضا کرنے کا حکم نہیں دیا جاتا تھا"(متفق علیہ)
عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ حدیث پرعلماء –رحمۃ اللہ علیہم- کا اتفاق ہے کہ حیض ونفاس والی عورتوں کو صرف روزوں کی قضا کرنی ہے نماز کی نہیں- اوریہ اللہ سبحانہ کی طرف سے ابک طرح کی رحمت اورآسانی ہے, کیونکہ نمازایک دن میں پانچ مرتبہ پڑھی جاتی ہے, اسلئے نمازکی قضا مذکورہ عورتوں پربھاری تھی,اسکے برخلاف روزہ سال میں صرف ایک بارفرض ہے, اوروہ ماہ رمضان کا روزہ ہے ,اسلئے اسکے قضا میں کوئی مشقت ودشواری نہیں-
رہا مسئلہ چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا میں تاخیرکا, توجس عورت نے رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے کسی شرعی عذرکے بغیردوسرے رمضان کے بعد تک موخرکردئے, اسے قضا کرنے کے ساتہ ہی ہرروزکے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلانا ہوگااوراللہ تعالی سے توبہ کرنی ہوگی,یہی حکم مریض اورمسافرکا بھی ہے, اگرانہوں نے رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے کسی شرعی عذرکے بغیردوسرے رمضان کے بعد تک موخرکردئیے توانہیں قضا کرنے کے ساتہ ہی ہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا اوراللہ سے توبہ کرنی ہوگی, البتہ اگرمرض یا سفردوسرے رمضان تک مسلسل جاری وبرقراررہا تومرض سے شفایاب ہونے اورسفرسے لوٹنے کے بعد صرف روزوں کی قضا کرنی ہوگی, ہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا نہیں کھلانا ہوگا-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 11:
جس شخص کے ذمہ رمضان کے روزوں کی قضا ہو اسکے لئے نفلی روزے مثلاً شوال کے چہ روزے ,عشرذی الحجہ کے روزے اورعاشوراء کا روزہ رکھنا کیسا ہے؟
جواب :
جس کے ذمہ رمضان کے روزوں کی قضا ہوعلماء کے صحیح ترین قول کے مطابق نفلی روزوں سے پہلے اس پررمضان کے روزوں کی قضا واجب ہے ,کیونکہ فرائض نوافل سے اہم ہیں –
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 12:
ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جومریض تھا, پھراس پررمضان کا مہینہ آیا مگروہ روزہ نہ رکہ سکا, اوررمضان کے بعد انتقال کرگیا, کیا اسکی طرف سے روزوں کی قضا کی جائے گی یا مساکین کو کھانا کھلایا جائیگا ؟
جواب :
مسلمان اگررمضان کے بعد بیماری کی حالت میں انتقال کرجائے تواس پرروزوں کی قضا اورمساکین کوکھانا کھلانا نہیں ہے, کیونکہ وہ شرعاً معذورہے, اسی طرح مسافراگرحالت سفرمیں یا سفرسے واپس آتے ہی انتقال کرجائے تواس پربھی روزوں کی قضا اورمسکینوں کو کھانا کھلانا نہیں ہے, کیونکہ وہ شرعا معذورہے-
البتہ وہ مریض جس نے شفایاب ہونے کے بعد روزوں کی قضا کرنے میں سستی برتی, پھرانتقال کرگیا, یا وہ مسافرجسنے سفرسے واپس آنے کے بعد زوزوں کی قضا کرنے میں سستی برتی , پھرانتقال کرگیا ,ایسے لوگوں کے اقرباء کوچاہئے کہ وہ ان کی طرف سے روزوں کی قضا کریں , کیونکہ نبی r کا ارشاد ہے :
"جو شخص انتقال کرگیا اوراسکے ذمہ روزہ تھا تو اسکا ولی اسکی طرف سے روزہ رکھے" ( متفق علیہ)
لیکن اگرانکی طرف سے کوئی روزہ رکھنے والا نہ ہوتو انکے ترکہ میں سے ان کے ہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کونصف صاع ,جو تقریباً ڈیڑھ کلوہوتا ہے, کھانا دینا ہوگا, جیسا کہ عمررسیدہ (بوڑھے ) اوردائمی مریض کی طرف سے دیا جاتا ہے, جیساکہ اسکی تفصیل سوال نمبر9 کے جواب میں گزرچکی ہے –
اسی طرح حیض اورنفاس والی عورتوں سے اگررمضان کے روزوں کی قضا میں سستی ہوئی اورپھروہ انتقال کرگئیں تو اگرانکی طرف سے کوئی روزوں کی قضا کرنے والا نہ ہوتو ہرروزہ کے بدلے ان کی طرف سے ایک ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا –
مذکورہ اشخاص میں سے اگرکسی نے کوئی ترکہ بھی نہیں چھوڑا کہ جس سے مسکینوں کو کھانا دیا جاسکے تواسکے ذمہ کچہ نہیں, اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
) لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا (286) سورة البقرة
اللہ تعالى کسی نفس کو اسکی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا –
اورفرمایا :
] فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ } (16) سورة التغابن
اللہ سے ڈرو جتنا تم میں طاقت ہو- واللہ ولی التوفیق-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 13:
روزه داركے لیے رگ میں اورعضلات میں انجکشن لگوانے کا کیا حکم ہے نیزان دونوں قسم کے انجکشن میں کیا فرق ہے؟
جواب:
صحیح بات یہ ہے کہ رگ مین اورعضلات میں انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ,البتہ غذا کے انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ,اسی طرح چیک اپ کے لئے خون نکلوانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا ,کیونکہ اسکی شکل پچھنہ لگوانے کی نہیں ہے, ہاںبچھنہ لگوانے سے علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق لگوانے والے اورلگانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے ,کیونکہ نبی کریم r کا ارشاد ہے:
"پچھنہ لگانے والے اورلگوانے والے نے روزہ توڑدیا"
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 14:
روزہ دارکے لئے دانت کے پیسٹ (منجن) استعمال کرنے ,نیز کان کے , ناک کے اورآنکہ کے قطرے (دوائیں) ڈالنے کا کیا حکم ہے ؟ اوراگرروزہ دارپیسٹ (منجن) کا اوران قطروں کا اپنی حلق میں ذائقہ محسوس کرے توکیا کرے؟
جواب :
پیسٹ (منجن) کے ذریعہ دانت صاف کرنے سے مسواک کی طرح روزہ نہیں ٹوٹتا , البتہ روزہ دارکواسکا سخت خیال رکھنا چاہئے کہ منجن کا کچہ حصہ پیٹ کے اندرنہ جانے پائے , لیکن غیرارادی طورپراگرکچہ اندرچلا بھی جائے تو س پر قضانہیں ہے-
اسی طرح آنکہ اورکان کے قطرے ڈالنے سے بھی علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق روزہ نہیں ٹوٹتا ,اوراگران قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے تو اس روزہ کی قضا کرلینا احوط ہے , واجب نہیں ,کیونکہ آنکہ اورکان کھانے پینے کے راستے نہیں ہیں, البتہ ناک کے قطرے استعمال کرنا جائزنہیں ,کیونکہ ناک کھانے پینے کا راستہ شمارہوتی ہے ,اوراسی لیے نبی r نے فرمایا ہے:
" اورناک میں (وضوکے وقت) خوب اچھی طرح پانی چڑھاؤ, الایہ کہ تم روزہ سے ہو"
لہذا مذکورہ حدیث نیز اس معنی کی دیگراحادیث کی روشنی میں اگرکسی نے روزہ کی حالت میں ناک کے قطرے استعمال کئے اورحلق میں اسکا اثرمحسوس ہوا تو اس روزہ کی قضا کرنی واجب ہے – واللہ ولی التوفیق-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 15:
کسی شخص نے دانتوں میں تکلیف محسوس کی اورڈاکٹرکے پاس گیا , ڈاکٹرنے دانتوں کی صفائی کردی, یاتکلیف کی جگہ دانت میں کچہ بھردیا, یا کسی دانت کو اکھاڑدیا, توکیا اس سے روزہ پرکوئی اثرپڑتا ہے؟ اوراگرڈاکٹرنے دانت سن کرنے کا انجکشن بھی دیدیا ,توکیا اس سے روزہ متاثرہوتا ہے؟
جواب :
سوال میں مذکورہ صورت پیش آنے سے روزہ کی صحت پرکوئی اثرنہیں پڑتا ,بلکہ یہ چیز معفوعنہ ہے, البتہ اسکے لئے یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ دوا یا خون کا کچہ حصہ نکل نہ جائے- اسی طرح مذکورہ انجکشن سے بھی روزہ کی صحت پرکوئی اثرنہیں پڑتا ,کیونکہ یہ کھانے پینے کے حکم میں نہیں ہے, اورروزہ کا صحیح اوردرست ہونا ہی اصل ہے-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 16:
جس شخص نے روزہ کی حالت میں بھول کرکچہ کھا پی لیا اسکا کیا حکم ہے؟
جواب :
ایسے شخص پرکچہ نہیں, اوراسکا روزہ صحیح ہے , کیونکہ نبی rم کا ارشاد ہے:
] رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا } (286) سورة البقرة
اے ہمارے رب! ہم اگربھول گئے یا غلطی کربیٹھے توہماری گرفت نہ کر-
اس آیت کی تفسیرمیں رسول اللہ r کی صحیح حدیث ہے کہ بندے کے جواب میں اللہ تعالى نے فرمایا :
"میں نے تمہاری بات قبول کرلی "
نیز ابوہریرہ t سے مروی ہے کہ نبی r نے فرمایا :
"جس نے روزہ کی حالت میں بھول کربیوی سے جماع کرلی تو مذکورہ بالاآیت کریمہ اورحدیث شریف کی روشنی میں علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق اسکا روزہ صحیح ہے ,نیزرسول r کی حدیث ہے:
"جس نے رمضان میں بھول کرروزہ توڑدیا تواسپرنہ قضا ہے نہ کفارہ "
اس حدیث کی امام حاکم نے تخریج کی ہے اورصحیح قراردیا ہے-
اس حدیث کے الفاظ جماع اوردیگرتمام مفطرات کو شامل ہیں, اگرروزہ دارنے بھول کرایسا کیا ہو, اوریہ اللہ تعالى کی رحمت اوراسکا فضل واحسان ہے- فللہ الحمد والشکرعلی ذالک –
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 17:
اس شخص كا كيا حكم هے جس نے رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے قضا نہ کئے یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا اوراسکے پاس کوئی عذربھی نہیں تھا, کیا ایسے شخص کے لئے روزوں کی قضا اورتوبہ کرلینا کافی ہے, یا اسکے ساتہ ہی کفارہ بھی دینا ہوگا؟
جواب :
ايسے شخص کے لئے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنے کے ساتہ ہی اللہ تعالى سے سچی توبہ کرنی ہوگی اورہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلانا ہوگا ,جسکی مقدارصاع نبوی –r–سے نصف صاع یعنی تقریباً ڈیڑہ کلو گرام غلہ مثلاً کجھوریا گیہوں یا چاول وغیرہ ہے-
اسکے علاوہ اس پراورکوئی کفارہ نہیں, صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت جسمیں عبد اللہ بن عباس d بھی ہیں ,کا یہی فتوى' ہے – لیکن اگروہ کسی مرض یا سفرکی وجہ سے معذورتھا , یاعورت حمل یا رضاعت (بچہ کودودھ پلانے ) کی وجہ سے معذورتھی اورروزہ رکھنا اسکے لئے دشوارتھا, توایسی صورت میں چھوٹے ہوئے روزوں کی صرف قضا کرنی ہوگی-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 18:
تارک نماز کے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے ؟ اوراگرروزہ رکھے تو کیا اسکا روزہ درست ہے؟
جواب :
صحیح بات یہ ہےکہ عمداً نمازترک کرنے والا کافرہے, لہذا جب تک وہ اللہ تعالى سے توبہ نہ کرلے اسکا روزہ اوراسی طرح دیگرعبادات درست نہیں, کیونکہ اللہ تعالى کا ارشادھے:
] وَلَوْ أَشْرَكُواْ لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ} (88) سورة الأنعام
اوراگرانہوں نے شرک کیا ہوتا تووہ سب اکارت ہوجاتا جووہ کرتے تھے- نیزاس معنی کی دیگرآیات اوراحادیث بھی تارک نماز کے اعمال اکارت ہوجانے کی دلیل ہیں-
لیکن کچہ اہل علم اسطرف گئے ہیں کہ تارک نمازاگرنمازکی فرضیت کا معترف ہے لیکن سستی ولاپروائی کی وجہ سے نمازچھوڑتا ہے , تواسکا روزہ اوردیگرعبادات برباد نہیں ہوں گی , لیکن پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے , یعنی عمداً نمازترک کرنے والا کافرہے , بھلے ہی وہ نماز کی فرضیت کا معترف ہو, کیونکہ اس قول پربے شماردلائل موجود ہیں, انہیں دلائل میں سے رسول r کا یہ ارشاد گرامی ہے:
" بندہ کے درمیان اورکفروشرک کے درمیان بس نماز چھوڑنےکا فرق ہے"
اس حدیث کوامام مسلم نے اپنی صحیح میں جابربن عبد اللہ d کی طریق سے روایت کیا ہے –
اورآپ r کی یہ حدیث بھی :
"ہمارے اوران (کافروں) کے درمیان جومعاہدہ ہے وہ نمازہے, تو جس نے نماز چھوڑدی اسنے کفرکیا"
اس حدیث کو امام احمد نیز ائمہ اربعہ ( ابوداؤد ,نسائی ,ترمذی اورابن ماجہ ) نے بریدہ بن حصین اسلمی t کے طریق سے صحیح سند کے ساتہ روایت کیا ہے-
اس بارے میں امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے نماز کے احکام اورنماز چھوڑنے کے احکام پرمستقل ایک رسالہ میں سیرحاصل گفتگوکی ہے,یہ رسالہ بڑا مفید اورقابل مطالعہ ہے ,اس سے استفادہ کرنا چاہئے-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 19:
جس شخص نے رمضان کے روزہ کی فرضیت کا انکارکئے بغیرروزہ چھوڑدیا اسکا کیا حکم ہےے؟ اورجولاپروائی برتتے ہوئے ایک سے زیادہ مرتبہ رمضان کے روزے چھوڑدے توکیا اسکی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا؟
جواب :
جب کسی نے شرعی عذرکے بغیرعمداً رمضان کا روزہ چھوڑدیا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا, اسکی وجہ سے وہ علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق کافرقرارنہیں دیا جائیگا ,البتہ اسکو چھوڑے ہوئے روزے کی قضا کرنے کے ساتہ ہی اللہ تعالى سے توبہ کرنی ہوگی – بے شماردلائل سے ثابت ہوتاہے کہ روزہ کی فرضیت کا انکارکئے بغیرمحض سستی ولا پروائی کی بنا پراگرکوئی شخص رمضان کا روزہ چھوڑدے تو اسکی وجہ سے وہ کافرشمارنہیں ہوگا , البتہ اگرچھوٹے ہوئے روزوں کی قضا بغیرکسی شرعی عذرکے اس نے دوسرے رمضان تک موخرکردی تو اسے ہرروزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا بھی کھلانا ہوگا, جیسا کہ سوال نمبر17 کے جواب میں گزرچکا ہے –
اسی طرح زکاۃ نہ دینے اوراستطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کا مسئلہ بھی ہے, کہ بندہ اگران کی فرضیت کا منکرنہ ہوتو اسکی وجہ سے وہ کافرنہیں قراردیا جائیگا, البتہ اسے پچھلے سالوں کی زکاۃ نکالنی ہوگی , اورحج کرنا ہوگا, اوران فرائض کی ادائیگی میں جوتاخیرہوئی ہے اس سلسلہ میں اللہ تعالی سے سچی توبہ کرنی ہوگی, کیونکہ اس بارے میں جوشرعی دلائل ہیں وہ عام ہیں , اوراس بات پردلالت کرتے ہیں کہ بندہ اگرزکاۃ اورحج کی فرضیت کا منکرنہ ہو تو ان کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے وہ کافرنہیں قراردیا جائیگا,انہی دلائل میں سے رسول اللہ r کی وہ حدیث بھی ہے جس میں یہ مذکورہے کہ تارک زکاۃ کو قیامت کے دن اسکے مال کے ذریعہ عذاب دیا جائیگا ,پھرجنت یا جہنم کی طرف اسکا ٹھکانہ دکھایا جائیگا-
 
Top