- شمولیت
- مارچ 07، 2012
- پیغامات
- 679
- ری ایکشن اسکور
- 743
- پوائنٹ
- 301
روزے كے أحكام و مسائل
الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین أما بعد:
یہ پمفلٹ نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق روزہ رکھنے سے متعلق ہے ،جس میں روزے کے آداب،فوائد،دعائیں اور مفطرات روزہ کو بیان کیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہر چھوٹے بڑے عمل میں اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔
رمضان کا روزہ رکھنا ارکان اسلام میں سے ایک ہے ۔جیسا کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
((بنی الاسلام علیٰ خمس :شھادۃ ان لاّ ا لٰہ الّا اللّٰہ وانّ محمّدا رسول اللّٰہ ،واقام الصّلٰوۃ،وایتاء الزّکوٰۃ،وحجّ البیت ،وصوم رمضان))[بخاری ومسلم]
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے :گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ،نماز قائم کرنا ،زکوٰۃ ادا کرنا،بیت اللہ کا حج کرنا،اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔‘‘
روزے کی تعریف:
طلوع فجر سے لیکر غروب آفتاب تک روزہ توڑنے والی اشیاء کو اللہ کی عبادت سمجھتے ہوئے چھوڑ دینا۔
روزہ رکھنے سے متعلق لوگوں کی اقسام
٭روزہ ہر مسلمان عاقل بالغ قادر مقیم پر واجب ہے ۔کافر روزہ نہیں رکھتا اور نہ ہی اسلام قبول کرنے کے بعد اس پر قضا واجب ہے ۔
٭نابالغ بچے پر روزہ واجب نہیں لیکن عادت ڈالنے کے لئے اس کوروزہ رکھنے کا حکم دیا جائے گا۔
٭مریض پر اگر روزہ رکھنا مشکل ہو تو اس کو اجازت ہے کہ وہ بعد میں اس کی قضا کر لے ۔
٭مجنون پر نہ تو روزہ واجب ہے اور نہ ہی اس کی طرف سے کھانا کھلانا ہے ۔
٭روزہ رکھنے سے عاجز آجانے والا ’’مثلا دائمی مریض اور بوڑھا شخص ‘‘اپنی طرف سے ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا۔
٭حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو نقصان کے پیش نظر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور جب آسان ہو اس کی قضا کر لی جائے۔
٭اسی طرح حیض اور نفاس والی عورتیں بھی بعد میں قضا کریں گی۔
٭مضطر جو کسی کو غرق ہونے یا جلنے سے بچانے کے لئے روزہ افطار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اسے چایئیے کہ بعد میں اس کی قضا کر لے ۔
٭مسافر کو اختیار ہے اگر چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر چاہے تو افطار کر لے اور بعد میں اس کی قضا کر لے ۔
روزے كے أحكام
۱ ۔نیت کرنا:
فرض روزہ کے لئے طلوع فجر سے پہلے پہلے رات کو نیت کرنا واجب ہے ۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
((من لم یجمع الصیام قبل الفجر فلا صیام لہ))[ابو داؤد]
’’جس نے طلوع فجر سے پہلے نیت نہ کی اس کا کوئی روزہ نہیں ہے ۔‘‘
اور نیت کا محل دل ہے ۔تلفظ کے ساتھ نیت کرنا نبی کریمﷺ یا صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں ہے۔
۲۔روزے کا وقت:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
((وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ))[البقرۃ:۱۸۷]ـ
’’تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے۔‘‘
صبح کی دوقسمیں ہیں۔
(۱) صبح کاذب:
اس سے مراد وہ سفیدی ہے جو لمبائی میں افق پراوپر کو اٹھی ہوئی ہو تی ہے ۔اس سے نہ تو کھانا پینا بند کیا جائیگا اور نہ ہی نماز فجر پڑھی جائے گی ۔
(۲)صبح صادق:
اس سے مراد وہ سرخی ہے جو چوڑائی میں افق پر پھیلی ہوتی ہے ۔اس سے نماز فجر واجب ہو جاتی ہے اور روزے دار کے لئے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے۔
جب کہ روزہ افطار کرنے کا وقت غروب آفتاب ہے ۔جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((اذا اقبل اللیل من ھھنا وأدبر النھار من ھھنا، وغربت الشمس فقد أفطر الصائم))[متفق علیہ]
’’جب مشرق کی جانب سے رات آجائے اور مغرب کی جانب سے دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار اپنا روزہ افطار کر لے۔‘‘
اور یہ امر سورج کی ٹکیا غروب ہو جانے سے متحقق ہو جائے گا، اگرچہ روشنی ظاہر ہو۔
۳۔سحری کھانا:
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
((فصل ما بین صیامنا وصیام أھل الکتاب أکلۃ السحور))[مسلم]
’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق ،سحری کھانا ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((البرکۃ فی ثلاثۃ:الجماعۃ،والثرید،والسحور))[طبرانی]
’’تین چیزوں میں برکت ہے ،جماعت،ثرید اور سحری میں۔‘‘
سحری کا برکت ہو نا واضح ہے کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے،اور روزے پر انسان کو قوی کرتی ہے ۔اور مبارک غذا ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((ھلم الی الغذاء المبارک))[ابوداؤد]
’’مبارک غذا کی طرف آئیں۔‘‘
۴۔ممنوع اشیاء :
حالت روزہ میں جھوٹ بولنا یا جھوٹ پر عمل کرنا حرام ہے ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
((من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ أن یدع طعامہ وشرابہ))[بخاری]
’’جس نے جھوٹ اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا ،تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا بند کر دے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((لیس الطعام من الأکل والشرب ،وانما الصیام من اللغو والرفث ،فان سابک أحد أو جھل علیک فقل:انی صائم))[صحیح ابن خزیمہ]
’’کھانے پینے سے رک جانا ہی روزہ نہیں ،بلکہ لغو اور فحاشی کی باتوں سے رکنا روزہ ہے ،اگر کوئی شخص آپ کو گالی دے یا جہالت کا مظاہرہ کرے تو آپ کہہ دیں! میں روزہ دار ہوں۔‘‘
۵۔مباح اشیاء :
٭حالت جنابت میں صبح کرنا:
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ حالت جنابت میں صبح کرتے تھے ، پھر غسل کرتے اور روزہ رکھ لیتے۔
٭مسواک کرنا:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((لولا أن أشق علی أمتی لأمرتھم بالسواک عند کل وضوئ))[متفق علیہ]
’’اگر میں اپنی امت پر بھاری نہ جانتا تو انہیں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔‘‘
اس حدیث کا مطلوب عام ہے جو روزہ دار اور غیر روزہ دار دونوں کو شامل ہے ۔
٭کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا:
نبی کریم ﷺ حالت روزہ میں کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے تھے۔لیکن روزہ دار کو ناک میں پانی ڈالنے وقت مبالغہ نہیں کرنا چاہئیے۔جیسا کہ حدیث میں بھی ہے:
((وبالغ فی الاستنشاق الا أن تکون صائما))[ابو داؤد]
’’ناک میں پانی ڈالتے وقت مبالغہ کریں الا یہ کہ آپ روزہ دار ہوں۔‘‘
٭بدون جماع مباشرت کرنا اور بوسہ لینا:
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنھا سے روایت ہے کہ:
((کان رسول اللّٰہ ﷺ یقبل وھو صائم،ویباشر وھو صائم،ولکنہ کان أملککم لاربہ))[متفق علیہ]
’’نبی کریمﷺ حالت روزہ میں بوسہ لے لیا کرتے تھے ،اور (جماع کے علاوہ )میل جول بھی کرتے تھے،لیکن وہ اپنے اوپر سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔‘‘
بوسہ لینا اور میل جول کرنا نوجوانوں کے لئے مکروہ ہے اور بوڑھوں کے لئے جائز ہے ،جیسا کہ حدیث میں بھی ہے:
((ان الشیخ یملک نفسہ)) [أحمد]
’’کہ بوڑھا شخص اپنے اوپر کنٹرول کر سکتا ہے ۔‘‘
جبکہ نوجوان سے کنٹرول کرنا مشکل ہوتاہے۔
٭خون صاف کروانا یا بدون غذا ٹیکہ لگوانا:
کیونکہ اس ٹیکہ کا اثر معدہ تک نہیں جاتا،اور نہ ہی یہ غذا ہوتا ہے۔
٭کھانا چیک کرنا:
کھانے کا ذائقہ چیک کرنا جائز ہے بشرطیکہ حلق تک نہ پہنچے ۔حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ:
((لا بأس أن یذوق الخل أو الشی ء ما لم یدخل حلقہ وھو صائم))[بخاری]
’’کہ حالت روزہ میں کھانے یا سرکہ کا ذائقہ چکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ حلق تک نہ پہنچے۔‘‘
٭آنکھوں میں سرمہ یا دوائی ڈالنا:
اس سے روزہ افطار نہیں ہوتا خواہ اس کا ذائقہ حلق تک محسوس ہو یا نہ ہو۔امام بخاری اپنی صحیح میں نقل کرتے ہیں کہ انس ،حسن،اور ابراہیم وغیرہ حالت روزہ میں سرمہ ڈالنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔
۶۔روزہ افطار کرنا:
٭افطاری جلدی کرنا:
نبی کریم ﷺ کی سنت ہے کہ وہ جلدی روزہ افطار کر لیا کرتے تھے۔جبکہ یہود ونصاری ستاروں کے ظاہر ہونے پر روزہ افطار کرتے تھے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((لایزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر))[متفق علیہ]
’’لوگ جب تک افطاری جلدی کرتے رہیں گے خیر میں ہوں گے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((لا تزال أمتی علی سنتی ما لم تنتظر بفطرھا النجوم))[ابن حبان]
’’میری امت اس وقت تک میری سنت پر قائم رہے گی جب تک کہ روزہ افطار کرنے کے لئے ستاروںکا انتظار نہ کرے گی۔‘‘
٭نماز مغرب سے پہلے پہلے روزہ افطار کرنا:
حضرت انس سے روایت ہے کہ:
((کان رسول اللّٰہ ﷺ یفطر قبل أن یصلی)) [ابو داؤد]
’’نبی کریم ﷺ نماز مغرب سے پہلے ہی روزہ افطار کر لیاکرتے تھے۔‘‘
٭کس چیز سے روزہ افطار کیا جائے:
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ:
((کان النبی ﷺ یفطر علی رطبات قبل أن یصلی ،فان لم یکن رطبات فتمرات،فان لم یکن تمرات حسا حسوات من مائ))[ابو داؤد]
’’نبی کریم ﷺ نمازمغرب سے پہلے رطب (تازہ کھجور)سے روزہ افطار کرتے تھے،اگر رطب نہ ہوتی تو تمر (خشک کھجور)سے کر لیتے ،اور اگر تمر بھی نہ ہوتی تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔‘‘
٭افطاری کے وقت دعاکرنا:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((للصائم عند فطرہ دعوۃ لا ترد))[ابن ماجہ]
’’روزے دار کی افطاری کے وقت کی گئی کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔‘‘
نبی کریم ﷺ افطاری کے وقت یہ دعا کیا کرتے تھے۔
((ذھب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر ان شاء اللہ))[ابو داؤد]
’’پیاس چلی گئی رگیں تر ہو گئیں اور اللہ کے پاس اجر ثابت ہو گیاان شاء اللہ۔‘‘
۷۔روزے کو فاسد کر دینے والے امور:
٭جان بوجھ کر کھاپی لینا:
خواہ نافع ہو یا نقصان دہ جیسے سگریٹ نوشی۔بھول کر غلطی سے کھانے والے یا زبر دستی کھلائے جانے والے پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
((من نسی فأکل وشرب فلیتم صومہ ،فانما أطعمہ اللّٰہ وسقاہ))[متفق علیہ]
’’جس نے بھول کر کھا پی لیا وہ اپنا روزہ مکمل کرے ،بے شک اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔‘‘
٭جان بوجھ کر قے کرنا:
اور اگر بغیر ارادہ کے قے آگئی ہے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((من ذرعہ القیء فلیس علیہ قضاء ،ومن استقاء فلیقض))[ابو داؤد]
’’جس پر قے غالب آگئی اس پر کوئی قضا نہیں ہے،جس نے جان بوجھ کر قے کی اس پر قضا ہے۔‘‘
٭بیوی سے جماع کرنا:
جس شخص نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کے ساتھ جماع کر لیا اس پر روزہ کی قضا کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی واجب ہے ۔غلام آزاد کرے ،اگر اس کی طاقت نہیں تو دو مہینے کے مسلسل روزے رکھے ،اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
٭غذائی ٹیکہ لگوانا:
ایسا ٹیکہ لگوانا جو غذا شمار ہوتا ہو اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔
٭حیض اور نفاس کا خون شروع ہو جانا:
اگر دن کے کسی بھی حصہ میں حیض یا نفاس کا خون نکل آیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ،جسکی قضا ہو گی۔
٭منی کا نکل آنا:
حالت بیداری میں استمناء بالید سے،مباشرت سے،بوسہ وکنار سے یاملنے سے منی نکل آئے تو روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ ہاں البتہ اگر نیند کی حالت میں احتلام ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ اس میں روزے دار کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
۸۔قضا کے مسائل:
٭رہ جانے والے روزوں کی قضا کرنے میں جلدی کرنامستحب ہے ۔روزوں کی قضا کرنے میں تسلسل واجب نہیں ہے ۔تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ فوت ہو جانے والے کی اگر نمازیں رہ گئی ہیں تو اس کی طرف سے قضا نہیں کی جائے گی۔اگر کوئی شخص زندگی میں ہی روزے رکھنے سے عاجز آگیا ہے تو اس کی طرف سے کوئی قضائی نہیں کرے گا بلکہ وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا ۔لیکن جو شخص مر گیا اور اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کا ولی اس کی طرف سے ان روزوں کی قضائی کرے گا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((من مات وعلیہ صوم صام عنہ ولیہ))[متفق علیہ]
’’جو شخص مر گیا اور اس پر روزے تھے ،اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔‘‘
۹۔حالت روزہ میں نماز نہ پڑھنا:
٭جس شخص نے روزے کی حالت میں نمازیں چھوڑ دیں تو اس کو اس کا روزہ کوئی فائدہ نہیں دے گا جب تک وہ نماز نہیں پڑھتا۔کیونکہ نماز دین کا ستون ہے اور تارک الصلاۃ کافر ہے ۔جبکہ کافر سے کوئی عمل بھی قابل قبول نہیں ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((العھد الذی بیننا وبینھم الصلاۃ فمن ترکھا فقد کفر))[مسند احمد]
’’ہمارے اور ان کے درمیان نماز کا عہد ہے،جس نے نماز کو چھوڑا پس اس نے کفر کیا۔‘‘
۱۰۔قیام اللیل:(تراویح)
٭رمضان میں با جماعت قیام کرنا نبی کریم ﷺ کی سنت ہے ۔آپ ﷺ نے تین دن تک جماعت کروائی مگر بعد میں فرض ہو جانے کے خدشے سے چھوڑ دی۔وتر کے علاوہ نماز تراویح کی رکعات کی تعداد آٹھ ہے ۔حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ:
((ما کان النبی ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ))[متفق علیہ]
’’نبی کریم ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں کبھی بھی گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘
٭جب حضرت عمر بن خطاب نے اپنے دور خلافت میں اس سنت کو زندہ کیا تو لوگوں کو گیارہ رکعات نماز پڑھنے پر جمع کیا۔اور (ایک ضعیف ترین روایت کے مطابق ) انہی کے زمانہ میں تئیس(۲۳) اور انتالیس(۳۹)رکعات بھی پڑھی گئیں۔
۱۱۔زکاۃ الفطر:
٭زکاۃ الفطر ہر چھوٹے بڑے،مرد عورت،غلام آزاد اور امیر غریب مسلمان پر واجب ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ:
((فرض رسول اللّٰہ ﷺ زکاۃ الفطر من رمضان علی الناس))[متفق علیہ]
’’نبی کریم ﷺ نے لوگوں پر زکاۃ الفطر کو واجب کیا ہے۔‘‘اور اس کی مقدار ایک صاع ہے ۔
٭ زکاۃ الفطر نکالنے کا وقت:
عید کے دن عید کی نماز سے پہلے پہلے ادا کر دی جائے ،عید سے ایک دو دن پہلے ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ،لیکن نماز عید کے بعد ادا کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ اب یہ عام صدقہ ہو جائے گا۔
مأخوذ از فتاوی سماحۃ الشیخ/ عبد اللّٰہ بن جبرین
Last edited by a moderator: