• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رویت ہلال

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
السلام علیکم

میں نے کافی پہلے ایک تھریڈ میں یہ مؤقف اپنایا تھا کہ جدید سائنس سے چاند نظر آنے کی صحیح تاریخ معلوم کرنا ممکن ہے اور اس سے پاکستان میں ہر سال تہواروں پر ہونے والے انتشار کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
آج براعظم امریکہ کے کافی حصوں میں سورج گرہن ہوگا۔ اس سورج گرہن ہونے کی تاریخ 38 سال پہلے ہی بتلادی گئی تھی۔
اگر جدید ذرائع اپنائے جائیں تو کیسے ممکن نہیں کہ ہم چاند نظر آنے یا نہ آنے کی تاریخ معلوم نہ کرسکیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
رویت ہلال : علم فلکیات اہم ہے یا آنکھ سے مشاہدہ

http://www.urdunews.com/node/78886
سعودی عرب 26 مئی ، 2017

جب قمری مہینے مسلمان حکمراں تسلیم کرلے تو پھر تشکیک کی گنجائش نہیں رہتی کیونکہ اجتہادی مسائل میں حاکم کا فیصلہ اختلاف کو رفع کرتا ہے

بدر الحسن القاسمی۔ ہندوستان

قمری مہینوں کے آغاز اور رویت ہلال کے ثبوت کےساتھ روزہ اور حج جیسی اہم عبادتیں جُڑی ہوئی ہیں جبکہ شریعت کے اور دیگر بہت سے مسائل ہجری ماہ وسال اور قمری تقویم کی صحت وانضباط سے جڑے ہوئے ہیں۔امام سبکیؒ نے ایسی دسیوں چیزیں شمار کرائی ہیں جنکی تکمیل اور ادائیگی میں قمری مہینوں کو دخل ہے، جیسے رمضان کے روزے، فریضہ¿ حج کی ادائیگی، عیدین کی نماز، زکاة کی ادائیگی، اعتکاف کی مدت، نذر اور ایلاءکی مدت، بچہ کی شیر خوارگی اور نسب کا ثبوت، عورت کے لباس، دیت کی مدت، اجارہ، سلم، بچہ یا بچی کا سن بلوغ، عقیقہ کی تاریخ اور قربانی کے بکروں کی عمر وغیرہ سے متعلق مسائل وغیرہ ہیں۔

عام طور پر رمضان اور عید کیلئے رویت ہلال کا مسئلہ بڑے انتشار اور تشویش کا باعث بنتا ہے، اسی طرح حج کی تاریخ کی تعیین اور بعض مرتبہ عاشوراءکے دن کی تحدید میں بھی اختلاف واقع ہوتا ہے۔خاص طور پر غیرمسلم ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کو عید اور رمضان کی تاریخوں میںاختلاف سے سخت اُلجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب ایک ہی ملک مثال کے طور پر جرمنی، فرانس یا برطانیہ وغیرہ میں بسنے والے مسلمان2 اور بعض مرتبہ 3 الگ الگ دنوں میں عید کی تقریب مناتے ہیں تو غیرمسلموں پر اسکا جو اثر ہوتا ہو اس سے ہٹ کر اسکول میں بچوں کی تعطیل وغیرہ اور معاملات بھی نزاعی بن جاتے ہیں۔مسئلہ کی اسی نزاکت اور اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے رابطہ عالم اسلامی کے ماتحت چلنے والے” مجمع الفقہ الاسلامی“ کی طرف سے فروری 2012ءمیں خادم حرمین شریفین کی سرپرستی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس کا عنوان”علمائے شریعت اور فلکیات کے ماہرین کی قمری مہینوں کے اثبات سے متعلق عالمی کانفرنس“ تھا۔اس کانفرنس میں دنیا بھر سے فقہائے کرام اور ماہرینِ فلکیات کو جمع کیا گیا تھا۔

شرکائے کانفرنس میں سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز آل الشیخ، چیف جسٹس وامام وخطیب حرم ڈاکٹر صالح بن حمید، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، ڈاکٹر عبد اللہ المصلح، لیبیا کے ڈاکٹر الصادق الغریانی، قطر کے ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی، اُردن کے ڈاکٹر عبد الناصر ابو البصل، صر کے سابق مفتی شیخ نصر فرید واصل وغیرہ کے علاوہ پاکستان سے حضرت مولانا محمد تقی عثمانی اور ہندوستانی فقہ اکیڈمی سے راقم الحروف شامل تھے۔کانفرنس کا آغاز سعودی عرب کے وزیر اوقاف واسلامی ودعوتی اُمور،ڈاکٹر صالح عبد العزیز آل الشیخ نے کیا اور رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبد اللہ عبد المحسن الترکی نے افتتاحی کلمات کہے۔ شرکائے کانفرنس کی نمائندگی ڈاکٹر حسین حامد حسان نے کی۔ سعودی عرب کے مفتی¿ اعظم نے بھی اس اجلاس سے خطاب کیا۔عام طور پر رویت ہلال اور قمری مہینہ کے آغاز اور اختتام کے بارے میں3 طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں

پہلا :رویت ہلال وہی معتبر ہے جو کھلی آنکھوں سے چاند دیکھنے یا دیکھنے والے کی طرف سے شرعی طور پر عینی شہادت کے فراہم ہونے پر مبنی ہو۔ فلکیات کے ماہرین کی تحقیقات اور انکے پاس موجود جدید آلات کی بنیاد پر چاند کے بارے میں انکی شہادت قطعی قابل اعتبار نہیں ۔

دوسرا:حساب اور ریاضیات کو قطعیت کا درجہ حاصل ہے۔ جدید فلکیات نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ لمحہ بہ لمحہ کی چاند کی حرکت کو پوری وضاحت کےساتھ دیکھا اور پورے وثوق کےساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہلالِ رمضان یا ہلالِ عید طلوع ہوا یا نہیں ہوا اور اس کی بنیاد پر آنے والے سالوں کیلئے تاریخوں کی ایسی تقویم تیار کی جاسکتی ہے جسکے ذریعہ بغیر کسی اختلاف کے ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی دن عید منا سکتے ہیں اور ایک ہی دن اپنے روزے کا آغاز کرسکتے ہیں لہذا فلکیاتی حساب کو ہی بنیاد بنا لیا جائے۔

تیسرا:ان دونوں رجحانات کے مقابلہ میں ایک تیسرا رجحان یہ ہے کہ اسلام چونکہ قطعیات کی مخالفت نہیں کرتا اور جدید ترقیوں سے استفادہ کی تلقین کرتا ہے اسلئے ایک طرف جہاں ان شرعی نصوص کی پابندی ضروری ہے جن میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر روزہ کھولنے کی ہدایت کی گئی ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ جدید فلکیات کی روشنی میں چاند نظر آنے کے امکان اور عدم امکان کا جائزہ لیا جائے اور حسابات کی روشنی میں اگر قطعیت کیساتھ یہ کہا جائے کہ علمی وسائنسی تحقیقات کی رُو سے چاند کے نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تو پھر چاند دیکھنے کی شہادت دینے والے کی گواہی کو مسترد کردیا جائے گالیکن اگر فلکیات کے ماہرین محض چاند کی ولادت کی بنیاد پر مہینہ کے آغاز کا دعویٰ کریں تو ایسی صورت میں انکے دعوے کو ہرگز قبول نہیں کیا جائےگا اور آنکھوں کی رویت ہی کی بنیاد پر قمری مہینہ کے شروع یا ختم ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

کانفرنس بڑے پرسکون ماحول میں ہوئی اور علمائے دین یا فقہائے اُمت اور فلکیات کے ماہرین دونوں نے ایک دوسرے کے نظریات اور انکی تحقیقات کو سننے اور سمجھنے اور انکے بارے میں متوازن ومشترک موقف اختیار کرنے میں سنجیدگی کا بھرپور ثبوت دیا اور بڑے کھلے دل ودماغ سے ایک نے دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی جسکے نتیجہ میں کانفرنس کی طرف سے نہایت ہی متوازن مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں مدد ملی جس میں چاند وسورج کی تخلیق اور حساب سے انکے تعلق اور عبادتوں میں انکی گردش پر اعتبار سے متعلق مقدمہ کے بعد کہا گیا ہے کہ:۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ قمری مہینہ کے آغاز اور اختتام کا مدار رویت ہلال پر ہے، خواہ یہ رویت کھلی آنکھوں سے ہو یا رصدگاہوں اور فلکیاتی آلات کی مدد سے ہو لہذا اگر29 تاریخ کو چاند نظر نہ آئے تو 30 دن کی مدت پوری کی جائےگی۔

حضور اکرم ﷺ سے رمضان المبارک کے چاند کے سلسلہ میں متعدد روایتیں منقول ہیں، سیدنا ابوہریرہؓ کی حدیث میں ہے ”
چا ند کو دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے دیکھ کر افطار کرو اور اگر بادباراں کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو گنتی 30پوری کرلو۔“(بخار ی)

حضرت ابن عمرؓ کی روایت میں ہے ”مہینہ 29دن کا ہے، تم روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر بادباراں کی وجہ سے نظر نہ آئے تو 30کی گنتی پوری کرلو“۔
انہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ”تم روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور افطار نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو، اگر وہ نظر نہ آئے تو اندازہ لگا¶“(یعنی30دن کا) (بخاری)۔
ان تمام احادیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ مہینہ کے داخل ہونے اور ختم ہونے کے سلسلہ میں ر ویت ہی اصل ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مہینہ کے آغاز کو جاننے کیلئے چاند کو دیکھنے کی کوشش کرنا اور اُفق پر اسکو تلاش کرنا واجب علی الکفایہ ہے کیونکہ کسی واجب کی ادائیگی جس چیز پر موقوف ہو وہ بھی واجب ہوا کرتی ہے۔حضور اکرم ﷺ کے عمل اور آپﷺ کی تقریر (کسی کام کا مشاہدہ کرنے کے باوجود اس پر نکیر نہ کرنے) سے بھی یہ بات ثابت ہے چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ”رسول اکرمﷺ شعبان کے متعلق اتنے محتاط تھے جتنے کسی دیگر مہینے کے متعلق نہیں تھے۔ آپﷺ رمضان کا روزہ چاند دیکھ کر کیا کرتے تھے مگر کسی وجہ سے چاند نظر نہ آتا تو شعبان کی گنتی30پوری کرتے اور روزہ رکھتے“۔(ابو داو¿د)۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں ” لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی تو میں نے حضور اکرمﷺ کو اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے تو آپﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا“۔

تیسری بات یہ ہے کہ گواہی دینے والے شخص میں شہادت قبول کئے جانے کی مطلوبہ شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ چاند کی رویت میں حائل موانع بھی نہ ہوں چنانچہ گواہی دینے والے کی آنکھوں کا تیز ہونا، رویت کی حالت میں چاند کی کیفیت کا محفوظ رکھنا وغیرہ ضروری ہے تاکہ گواہی کے بارے میں کسی طرح کا شبہ باقی نہ رہے۔

چوتھے یہ کہ فلکیات کا حساب ایک اہم اور مستقل علم ہے اور اسکے اپنے اُصول وضوابط ہیں اور پچھلے زمانوں میں مسلمانوں کا اس علم کی ترقی میں زبردست اثر رہا ہے۔ مسلمان فقہاءکو بھی اس علم سے دلچسپی رہی ہے چنانچہ اس علم کے ذریعے چاند کے بارے میں حاصل ہونے والی بعض معلومات کا لحاظ کرنا ضروری ہے جیسے سورج اور چاند کے درمیان اقتران( یعنی نزدیک یا پاس ہونا)، قرص شمس سے پہلے چاند کے غائب ہونے کا مسئلہ اور اس بات کا علم کے اقتران کے بعد آنے والی رات میں چاند کی بلندی ایک درجہ کی ہوگی یا 2 درجہ اور اس سے زیادہ کی لہذا عینی رویت ہلال کی شہادت کو قبول کرنے کیلئے یہ بات بھی ضروری ہوگی کہ حسابی حیثیت یا فلکیاتی علم کی رُو سے چاند کا دیکھا جانا ناممکن نہ ہو۔ مثال کے طور پر سورج سے پہلے ہی چاند غروب ہوجائے یا سرے سے اقتران ہی نہ ہوا ہو تو ایسی صورت میں فلکیات کے ماہرین کی رائے میں چاند کا نظر آنا ممکن ہوتا ہے۔

مسلم اقلیت والے ملکوں کے کسی ایک علاقہ میں چاند کی رویت ثابت ہوجانے کی صورت میں دوسرے علاقہ کے لوگ بھی اس کے پابند ہوںگے تاکہ انکے روزے اور افطار میں باہم اختلاف نہ ہو۔

ایسے ممالک جہاں مسلمان اقلیت کی حیثیت سے آباد ہوں اور وہاں کسی وجہ سے رویت ہلال ممکن نہ ہو تو انکے ذمہ لازم ہوگا کہ وہ قریب کے اسلامی ملک کی رویت پر اعتماد کریں یا قریب کے ایسے ملک پر جہاں مسلم اقلیت آباد ہوں اور وہاں کے مستند اسلامی سینٹر کی طرف سے چاند کے ثبوت کا اعلان کردیا گیا ہو۔

عبادتوں کی ادائیگی کیلئے قمری مہینوں کے آغاز کا اثبات خالص شرعی مسئلہ ہے اور اسکے بارے میں فیصلہ اُن علمائے شریعت کا کام ہے جنکو اس کےلئے مستند اداروں کی طرف سے اسکی ذمہ داری سونپی گئی ہو۔جہاں تک فلکیات کے ماہرین اور فلکیاتی اداروں کی بات ہے تو انکی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ چاند کی ولادت، اُفق پر اس کے محل وقوع اور سطح زمین کے کس مقام پر رویت ہلال کی کیا صورت ہوگی؟ ان اُمور کے بارے میں دقیق معلومات پیش کریں جو ذمہ دار شرعی اداروں کو رویت ہلال کے بارے میں صحیح فیصلہ کرنے میں مدد دے۔

اسلامی شریعت جدید علوم سے جیسے فلکیاتی حساب اور آسمانی سیاروں کی حرکت کو جاننے کی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے سے منع نہیں کرتی۔

اسلامی شریعت جدید فلکیاتی حساب اور سیاروں کی حرکت پر نظر رکھنے والی ایسی جدیدٹیکنالوجی جس سے انسانوں کے معاملات انجام پائیں اور انکے مصالح پورے ہوں ان سے استفادہ کو ہرگز منع نہیں کرتی کیونکہ اسلام علمی حقائق سے متصادم نہیں ۔

جب قمری مہینہ کا آغاز شرعی حیثیت سے ثابت ہوجائے اور اسلامی ملک کے حکمراں اس کو تسلیم کرلیں تو پھر انکے بارے میں غور وخوض اور تشکیک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کیونکہ اجتہادی مسائل میں حاکم کا فیصلہ اختلاف کو رفع کردیتا ہے۔

کانفرنس تمام اسلامی حکومتوں سے اس بات کی اپیل کرتی ہے کہ وہ رویت ہلال کے وسائل فراہم کریں اور سال کے ہر مہینہ میں چاند کی تلاش اور اسکے دیکھنے کی کوشش کیلئے ایسے مراکز اور ٹھکانے تیار کئے جائیں جہاں اسکا پورا اہتمام کیا جاسکتا ہو۔اس سلسلہ میں یہ کانفرنس بعض ملکوں کی طرف سے رویت ہلال کیلئے کی جانے والی کوششوں کو سراہتی ہے جن میں سرفہرست خود سعودی عرب ہے جہاں ”سائنسی“ علوم اورٹیکنالوجی کا ملک عبد العزیز سینٹر اسی میدان میں کام کر رہا ہے۔

یہ کانفرنس رابطہ عالم اسلامی سے اپیل کرتی ہے کہ وہ علمائے شریعت اور ماہرینِ فلکیات پر مشتمل ایک ایسا بورڈ قائم کرے جو رویت ہلال سے متعلق تمام تحقیقی مقالات، اس موضوع پر منعقد ہونے والے مختلف سمیناروں اور کانفرنسوں میں پیش کئے جانے والے ابحاث اور مختلف فقہی اکیڈمیوں، علماءکونسلوں اور تحقیقاتی اداروں کی طرف سے شائع کردہ فتوو¿ں، قراردادوں اور پچھلے عہد کے علماءکے اجتہادات اور مختلف مذاہب کے علمائے محققین کی آراءکا جائزہ لیکر قمری مہینوں کے آغاز کے معاملہ میں یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کرے اور مکہ مکرمہ کو رصدگاہوں میں مرکزی حیثیت دیکر مشترکہ ہجری تقویم جاری کرنے کی راہ ہموار کرے۔

اس سلسلہ میں رابطہ عالم اسلامی دنیا بھر کے علمائے شریعت اور فلکیاتی ماہرین کیساتھ ربط قائم کرے۔ اس بورڈ کا مرکزی دفتر رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں ہو جو کہ عالم اسلام کا دھڑکتا ہوا دل اور خیر وبرکت کی جگہ ہے۔اس بورڈ کی تشکیل مسلم ملکوں کی فقہی اکیڈمیوں، فتویٰ کے شعبوں اور شریعت اور فلکیات کے ان ماہرین پر مشتمل ہونی چاہئے جنکا نام ان اداروں کی طرف سے پیش کیا جائے اور پھر بورڈ کی طرف سے موجودہ کانفرنس مقالات واَبحاث کے اپنے جائزہ کے نتائج کو رابطہ کی فقہی اکیڈمی کے سامنے پیش کرے۔


...................




چاند کیا ہے؟

چاندزمین کے مرکز سے تقریباً2900میل کے فاصلے پر ہے ،چاندزمین کے گردناقص مدار میں گردش کرتاہے ،ان کے مرکزوں کا اوسط فاصلہ تقریباً 238857میل ہے چونکہ چاند کی محوری گردش اور زمین کے گرد اس کی مداری گردش کی مدت مساوی ہے اس لئے چاند کا ہمیشہ ایک ہی رخ زمین کے سامنے رہتاہے لیکن چاند کے ترقصّ جھولنے کی حرکت (libration)کی وجہ سے اس کی سطح کا تقریبا ً 59فیصد ہر مہینے نظر آسکتاہے چاند کی شکل کی ظاہری تبدیلیاں چاندکی جگہ کے زمین اورسورج کے تعلق سے تبدیل ہوجانے کے باعث اس کی مرئی سطح میں کمی بیشی پیدا ہوجانے سے واقع ہو تی ہیں ،ہلالی صورت اس وقت نظر آتی ہے جب چاند، سورج اورزمین کے درمیان ہو اور پوراچاند اس وقت د کھائی دیتاہے جب زمین سورج اور چاند کے درمیان ہو ،مہینہ چاند کی گردش سے ناپاجاتاہے۔ کوکبی مہینہ (sidereal month) وہ مدت ہے جوچاند کے کسی اور ستارے کے ساتھ اقتران کے توالی (rercurence) میں حائل ہوتی ہے (اوسطاً 27.3یوم) قمری مہینہ (sinodic month) وہ مدت ہے جو سورج کے اعتبار سے چاند کے پھر اسی پہلی جگہ پہنچنے میں درکار ہوتی ہے (مثلاً ایک ہلال سے دوسرے ہلال تک کی درمیانی مدت ) یہ تقریبا ً 29.5یوم ہے، کوکبی اور قمری مہینے کا فرق زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے جو زمین کو سورج کے گرد اپنے راستے میں آگے لے جاتی ہے اور چاند مغرب کی جانب حرکت کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے ، زمین کے گرد چاند کی مدارکی چاند کو صُو رِ سماوی کے اعتبار سے مشرقی جانب حرکت دیتی نظر آتی ہے چونکہ مشرقی جانب یہ ظاہری حرکت سورج کی ظاہری حرکت سے زیادہ تیز ہوتی ہے اس لئے چاند ہر شب اوسطاً 50.5منٹ دیر سے طلوع ہوتاہے ۔
مدیر اعلیٰ ،مولانا حامد علی خان
ماخوذ : اردوجامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول ،صفحہ 509
چیئرمین جسٹس ایس اے رحمان ،ڈائریکٹر مسٹر ڈیٹس سی اسمتھ جونیر

.............




چاند کے ثبوت کا فیصلہ علماء کریں یا ماہرین فلکیات؟

رمضان المبارک کے روزے بصری رویت کی بنیاد پر شروع کئے جائیں یا ماہرین فلکیات کے حساب کے .مطابق رکھے جائیں؟ اس پر برسہا برس سے اختلافات کا سلسلہ چل رہا ہے ۔علماءاور فقہاءمیں بھی اختلاف رائے ہے ۔ فتویٰ دینے والے ادارے اور مختلف مسلکوں کے ماننے والے بھی اس سلسلے میں کسی حتمی رائے تک نہیں پہنچ سکے ۔جب جب رمضان آتاہے تب تب علماءاور ماہرین فلکیات کے درمیان رویت ہلال کا مسئلہ ذرائع ابلاغ کا گرما گرم موضوع بن جاتا ہے۔ ایک بڑا فریق وہ ہے جس کی رائے میں قمری مہینوں کی شروعات اور اختتام کا فیصلہ رویت ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے ، ان کا موقف یہ ہے کہ روزے عبادت ہیں ، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ”چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو“ دوسرے فریق کا کہنا یہ ہے کہ رویت کے ساتھ ساتھ فلکیاتی حساب کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے، تیسرے فریق کی رائے یہ ہے کہ رمضان المبارک کی شروعات اور اختتام کے سلسلے میں فلکیاتی حساب زیادہ موزوں اور مناسب ہے اس کے ذریعے چاند کے ہونے نہ ہونے کا فیصلہ زیادہ دقیق انداز میں ہوتا ہے ۔اختلافات کا نتیجہ اس صورت میں دیکھا جاتا ہے کہ کئی ممالک میں ایک دن روزہ شروع ہوجاتا ہے اور دیگر ممالک کے باشندے اگلے روز جبکہ بعض اور ممالک کے باشندے تیسرے روز روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں۔ مسلم اقلیتوں کا مسئلہ مسلم ممالک کے باشندوں سے زیادہ نازک ہوتا ہے وہ بھی مسلم ممالک کے ان اختلافات سے متاثر ہورہے ہیں۔بعض ممالک کے اقلیت میں رہنے والے مسلمان قریب ترین مسلم ملک کے ساتھ روزہ شروع کردیتے ہیں جبکہ کئی ممالک میں اقلیت کے طور پر رہنے والے مسلمان اپنے اصلی وطن میں رویت کی پابندی کرکے روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔اس موضوع پر الرسالہ اور الوطن کی خصوصی رپورٹ کے ترجمے و تلخیص کے ساتھ دیگر علماءکی آراء نذر قارئین ہیں:۔

فلکیاتی حساب پر انحصارکو ناجائز کہنے والوں کا موقف یہ ہے کہ سعودی عرب کا سربرآوردہ علماءبورڈ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کے خلاف فتویٰ دے چکا ہے۔اس گروہ کی ایک دلیل یہ ہے کہ جادوگری،شعبدہ بازی، ستارہ شناسی اور فلکیاتی حساب کتاب میں روایتی رشتہ پایا جاتا ہے اگر فلکیاتی حساب کی بنیاد پر چاند کے طلوع ہونے کو جائز قراردیدیا جائے تو ایسی صورت میں عوام میں خلفشار پیدا ہوگا کیونکہ وہ ستارہ شناسی اور فلکیاتی حساب دونوں میں واضح فرق نہیں کرپاتے، ان کی نظر میں دونوں فن کے ماہرین اپنے حساب کتاب کی بنیاد ستاروں ہی کو بناتے ہیں۔اس گروہ کی دوسری دلیل یہ ہے کہ سلف صالحین ، فلکیاتی حساب کو قمری مہینوں کی شروعات کے سلسلے میں غیر معتبر قراردیتے رہے ہیں۔ (فتح الباری،ج 4ص ،127، سنن النسائی بشرالسیوطی ج 4ص140مواہب الجلیل للحطاب ج 2ص288عمدة القاری ج10ص9272القلیوبی ج 2ص 49)۔

سلف صالحین کی دلیل یہ رہی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ”چاند دیکھ کر روزہ رکھواور چاند دیکھ کر افطار کرواور اگر آسمان ابر آلود ہوتو 30کی گنتی مکمل کرو“ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺنے چاند کی پیدائش اور قمری مہینوں کی ابتدا کو بصری رویت سے جوڑ دیا ہے ۔اس مضمون کی اور بھی کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔

رمضان المبارک کے روزے ان عبادات میں سے ہیں جن کے احکام میں چوں چرا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ان میں قیاس آرائی اور علت بازی کی اجازت نہیں ۔قواعد شریعت اور اصولِ فقہ میں عبادات کے تعلق سے امور میں مناظرے کی گنجائش نہیں پائی جاتی۔

اسلامی شریعت نے ہمیں روزے اور دیگر عبادات کے اوقات کے سلسلے میں حساب کتاب جاننے کا مکلف نہیں بنایا۔

علامہ ابن حجراور ابن بزیزہ کا موقف یہ ہے کہ فلکیاتی حساب ظن و تخمین پر مبنی ہے اس میں قطعیت نہیں پائی جاتی۔ستاروں کا علم رکھنے والوں کے درمیان فلکیاتی حساب کے نتائج مختلف ہوتے ہیں زرقانی نے شرح مو¿طا (ج 2ص154) میں نووی سے نقل کیا ہے کہ نجومیوں کے حساب کی بنیاد گمان اور تخمین پر ہوتی ہے صرف قبلے کی سمت اور وقت کو جاننے میں اسکا اعتبار کیا جائیگا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی رائے ہے کہ قمری مہینوں کی ابتدادریافت کرنے کیلئے فلکیاتی حساب پر اعتماد ان نجومیوں اور کاہنوں کے عمل کے قبیل سے ہے جو قسمتوں کے احوال اور حادثات عالم کو ستاروں کی گردش سے جوڑتے ہیں۔(دیکھئے: الفتاویٰ ج 25ص183)

ڈاکٹر سعود الفنیسان(سابق ڈین شریعہ کالج ،امام محمد بن سعوداسلامی یونیورسٹی ، ریاض) فقہی دلائل کی بنیاد پر فلکیاتی حساب پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، عصر حاضر میں سعودی علماءبورڈ کا فتویٰ اس حوالے سے اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔

ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالواحد الخمیس(پروفیسر اسلامیات ،شریعہ کالج) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مختلف عبادتیں فرض کی ہیں۔ عبادتوں کے اوقات مقرر کئے گئے ہیں،نماز دن رات میں 5مرتبہ فرض ہے جبکہ حج ذی الحجہ کے مہینے میں کیا جاتا ہے ۔ روزوں کیلئے رمضان کا مہینہ مقرر کیا گیا ہے۔فلکیاتی حساب کا ان عبادتوں سے گہرا تعلق ہے ،قدیم فقہاءرمضان کی شروعات کے سلسلے میں فلکیاتی حساب کو جائز نہیں سمجھتے۔جمہور علماءکا کہنا ہے کہ رمضان کی شروعات کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار جائز نہیں ،اس پر جمہور علماءکا اتفاق ہے البتہ اس حکم کی اساس کے سلسلے میں اختلاف موجود ہے۔اکثر کا کہنا ہے کہ فلکیاتی حساب پر انحصار اسلئے درست نہیں کیونکہ یہ ظن و تخمین پر مبنی ہے۔میری رائے یہ ہے کہ اگر ماہرین فلکیات یہ کہہ رہے ہوں کہ فلاں دن چاند سورج غروب ہونے سے پہلے ہی غائب ہوجائیگا ایسی حالت میں کسی کا یہ کہنا کہ اس نے چاند دیکھا ہے قابل قبول نہیں ہونا چاہیئے۔میری سوچ یہ ہے کہ دن میں چانددیکھنے کا دعویٰ کرنیوالا وہم کا شکار بھی ہوسکتا ہے اور دروغ بیانی کا احتمال بھی اپنی جگہ قائم ہے۔

ڈاکٹر فہد بن عبدالکریم السنیدی(معاون پروفیسر ، ریاض شریعہ کالج)ہمیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کے مسلک پر عمل کرنا چاہیئے،ان کا موقف ہے کہ رمضان المبارک کی شروعات کا فیصلہ رویت پر کیا جائے نہ کہ ماہرین فلکیات کی رائے پر۔ویسے بھی علم الفلک ، اجرام سماوی کی حقیقت ، ان کے تعلق اور ان کی حرکات پر بحث کرنیوالا علم ہے، اس کا امکان ہے کہ اس علم کے ماہر حقیقت پالیں اور صحیح بات تک رسائی حاصل کرلیں۔علم الفلک کے 2حصے ہیں ، ایک تو حساب کتاب والا پہلو ہے ، اس کے ذریعے نماز کے اوقات اور قبلہ کی جہت وغیرہ معلوم کی جاتی ہے، سیاروں کے نام اور انکے کوائف دریافت کئے جاتے ہیں، یہ علم ایسا ہے جسے حاصل کیا جانا چاہیئے۔دوسرا پہلو علم فلک کا استدلالی والا ہے ۔اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیئے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے یہ بات صاف کردی ہے کہ چاند کے ہونے کا فیصلہ صرف رویت سے ہوگا،فلکیات کے حساب پر نہیں کیونکہ ماہرین یہ بات مان چکے ہیں کہ علم الفلک سے تعلق رکھنے والے چاند کی پیدائش اور اسکی رویت کے سلسلے میں دقیق ترین حقائق بیان کرنے پر قادر نہیں ۔ماہرین فلکیات کے حساب کتاب پر انحصار گمراہی ہے ۔

شیخ خالد سیف اللہ رحمانی(سیکریٹری جنرل اسلامی فقہ اکیڈمی ہند)اسلام نے عبادات اور دوسرے احکام میں بھی جن کا تعلق عوام و خواص ہر دوطبقے سے ہو انسان کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں بنایا جس کی دستیابی دشوار ہو، جسکا حصول ہرشخص کیلئے مشکل ہواور جس کو بڑے فلاسفہ ، حکمائ،علماءاور دانشور ہی سمجھ سکیںاور جان سکیں اور عام لوگوں کیلئے ان کا سمجھنا ممکن نہ ہو۔

چاند کے ثبوت کے سلسلے میں فقہاءنے جو قواعد مقررکئے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مطلع ابر آلو د نہ ہوتب تو یقینی خبرمطلوب ہے اسلئے ایسی صورت میں ہوائی جہاز سے اڑکر یا دوربین کے ذریعے رویت کا اعتبار نہیں کیا جائیگا کہ مطلع صاف ہونے کے باوجود معمول کی حالت میں چاند کا نظر نہ آنا چاند کے طلوع ہونے کو مشتبہ کردیتا ہے، مطلع ابر آلود نہ ہوتو گمان غالب کافی ہے لہذا یسی صورت میں ہوائی جہاز یا دور بین کے ذریعے رویت معتبر ہونی چاہیئے بشرطیکہ ہوائی جہاز کے ذریعے پرواز اتنی اونچی نہ کی گئی ہو کہ مطلع بدل جائے، اسی مضمون کا فیصلہ مجلس تحقیقات شریعہ ندوة العلماءلکھنو¿ بھی کئے ہوئے ہے۔

اسلام کے اصول سادہ اور فطری ہیں اس نے مختلف عبادتوں اور تہواروں کے اوقات کیلئے ایسی چیزوں کو معیار بنایا ہے جن کا سمجھنا اور جاننا سب کیلئے ممکن تھا۔اسی کا ایک جزو یہ ہے کہ اس نے قمری مہینوں کے بارے میں تکلفات سے کام لینے کے بجائے چاند دیکھنے یا مہینے کے 30دن مکمل کرلینے کو کسوٹی قراردیا۔اسی لئے امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام احمد اور عام فقہاءکا اتفاق ہے کہ فلکیاتی علوم اور حساب پر عید و رمضان کا فیصلہ درست نہیں ۔دوسری طرف یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اہل فن کی آراءکبھی ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی ہیں اور کبھی غلط بھی ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ آئے دن جنتریوں اور تقویموں کے سلسلے میں دیکھا جارہاہے۔ البتہ فلکیاتی تحقیق سے اس قدر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ جس تاریخ کو طلوعِ ہلال کا امکان نہ ہو اس روز رویت کی شہادت کافی تحقیق اور ناقابل تر دید تعداد کی گواہی کے بغیر تسلیم نہ کی جائے اور جس روز فنی اعتبار سے طلوعِ ہلال کا امکان زیادہ ہو اس دن معمولی خبر پر بھی اعتبار کیا جاسکتا ہے (ماخوذ ازجدید فقہی مسائل ،ص 27تا46)۔

ڈاکٹر علی جمعہ(مفتی مصر) تمام ممالک کے مسلمان اپنے اپنے یہاں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کے پابند ہیں، یہ اصول مسلم معاشروں میں تفرقہ و انتشار روکنے کے لئے بھی ضروری ہے ۔بعض حضرات کسی دوسرے ملک میں رویت ہلال کا فیصلہ ہوجانے پر اپنے یہاں چاند نہ ہونے کے باوجود روزہ رکھنے یا عید منانے پر زوردیتے ہیںیہ درست نہیں۔اسلامی شریعت مسلمانوں میں اس طرح کے تفرقے پر پابندی لگائے ہوئے ہے۔ عصر حاضر میں اسلامی سربراہ کانفرنس (اوآئی سی) اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی یہ فیصلہ کئے ہوئے ہے کہ چاند کی رویت جم غفیر کی شہادت سے ثابت ہوگی اور مخصوص حالات میں کسی ایک مرد یا کسی ایک عورت کی گواہی بھی قابل قبول ہوگی۔یہ فیصلہ 30ستمبر تا27اکتوبر 1966ءکو منعقدہ کانفرنس میں کیا گیا تھا۔
................

سعودی سربرآوردہ علماء بورڈ کا فیصلہ

سعودی سربرآوردہ علماءبورڈ نے 27برس قبل اپنے22 ویں سیشن منعقدہ طائف میں 6نکاتی فیصلہ جاری کیا:۔

پہلا:رویت ہلال کے سلسلے میں رصد گاہوں سے مد دلی جاسکتی ہے ،اس حوالے سے کوئی شرعی قباحت نہیں پائی جاتی۔

دسرا:اگر بصری رویت سے چاند نظر آجائے تو ایسی صورت میں اسی کا اعتبار ہوگا خواہ رصد گاہوں کے ذریعے چاند نظر نہ آیا ہو۔

تیسرا:اگر دور بین کے ذریعے رصد گاہوں میں موجود افراد نے چاند دیکھ لیا تو ایسی حالت میں اسی پر عمل کیا جائیگا خواہ عام افراد نے ننگی آنکھ کے ذریعے چاند نہ دیکھا ہو۔وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”اور تم میں سے جو بھی رمضان کا مہینہ دیکھے تو وہ اس کے روزے رکھے“اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ”رمضان کے روزے نہ رکھو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو اور افطار اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو اگر مطلع ابر آلود ہوجائے تو شعبان کے 30روزے پورے کرلو“حدیث پاک میں رویت ہلال پر روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اب یہ رویت ننگی آنکھ سے ہو یا دور بین کے ذریعے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رویت کے دعوے کو عدم رویت کے دعوے پر ترجیح دی جائیگی ، یہ شرعی قاعدہ ہے۔

چوتھا:رویت ہلال کے فیصلے کا ذمہ دار ادارہ 29تاریخ کو رصد گاہوں سے چاند دیکھنے کی درخواست کریگا، یہ درخواست ایسی صورت میں بھی کی جائیگی جبکہ فلکیاتی حساب کتاب کے بموجب اس روز چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہ ہو۔

پانچواں:سعودی عرب کے چاروں سمتوں میں مکمل رصد گاہوں کا قیام بہتر ہوگا۔یہ رصد گاہیں ماہرین کی مشاورت پر قائم ہوں اور تمام مطلوبہ آلات سے لیس ہوں۔

چھٹا:گشتی رصد گاہوں کا بھی اہتمام کیا جائے یہ ایسے مقامات پر چاند دیکھنے کی کوشش کریں جہاں چاند نظر آنے کا امکان ہو ، ایسے لوگوں کی خدمات سے استفادہ کیا جائے جن کی نظر تیز ہواور جنہیںرویت کے سلسلے میں آزمایا جاچکا ہو۔

.............




فلکیاتی حساب پر عمل قرآن و سنت کے منافی نہیں

عصر حاضر میں علماءکے دوسرے بڑے گروہ کا موقف یہ ہے کہ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کرنا چاہیئے،کیونکہ ایک طرف تو اس سے رمضان المبارک ،حج اور سال کے دیگر مہینوں کے انتظامات میں آسانی پیدا ہوگی، خلفشار دور ہوگا،معاشی امور ومسائل منظم شکل میں انجام دیئے جاسکیں گے اور تمام فرزندان اسلام ذہنی سکون کے ساتھ یکسوئی سے اپنے کام انجام دے سکیں گے۔

ڈاکٹر خالد زعاق(ماہر فلکیات)میرے نقطہ نظر سے فلکیاتی حساب کو نظر انداز کرنا حیرت انگیز ہے،دراصل سربرآوردہ علماءبورڈ کا موقف تضاد کا شکار ہے۔بورڈ ایک طرف تو نمازوں کے اوقات کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کا قائل ہے اور دوسری جانب رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کی مخالفت کررہا ہے(الوطن 12اگست 2009ءص3)۔

رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کے حامی افراد کی رائے یہ ہے کہ اگر فلکیاتی حساب کو رویت ہلال کے حوالے سے معتبر مان لیا جائے تو سب سے پہلے تو مسلم دنیا میں اس حوالے سے پایا جانیوالا فقہی تنازع ختم ہوجائیگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کی بدولت رمضان کے روزوں ،عیدالفطر اور حج کی تاریخیں آسانی سے متعین ہوسکیں گی۔ اس حقیقت سے پورا جہاں واقف ہے کہ حج اور عمرے سے پچاسوں اقتصادی سرگرمیاں جڑی ہوئی ہیں، لاکھوں حاجی دنیا کے تمام علاقوں سے حج کیلئے ارض مقدس پہنچتے ہیں ، یہاں مملکت میں رویت ہلال کے تعین اور عدم تعین سے ہر گھر کے افراد جڑے ہوئے ہیں ،تمام گھر ،کارخانے، نجی و سرکاری شعبے،اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں اس سے جڑی ہوئی ہیں ، فضائی کمپنیوں کی پروازوں کے فیصلے اسی پر معلق رہتے ہیں ۔ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ میں ہوٹلوں کے ریزرویشن کے مسائل اسی رویت سے جڑے ہوئے ہیں۔ہزاروں افراد اپنی زندگی کے دسیوں پروگرام محض اس وجہ سے طے نہیں کرپاتے کیونکہ انہیں حج کی تاریخ پہلے سے معلوم نہیں ہوپاتی یا رمضان اور عید کی تواریخ کا علم نہیں ہوتا۔

مصطفی احمد الزرقا(معروف عالم دین) عصر حاضر میں فلکیاتی حساب کے ذریعے طلوعِ ہلال کا فیصلہ کیا جائے کیونکہ عصر حاضر میں علماءکے درمیان اس حوالے سے اختلاف حیرت انگیز ہے ،سلف صالحین نے جن اسباب کی وجہ سے فلکیاتی حساب کو غیر معتبر قراردیا تھا وہ سارے اسباب اب دور ہوچکے ہیں۔اب ہم ایسے عصر میں زندگی گزار رہے ہیں جب انسان چاند کو تسخیر کرچکا ہے ، مدار میں سیارے بھیج رہا ہے ، خلاءمیں سیر سپاٹے کیلئے جارہا ہے ،ہزاروں نوری سال کی مسافت پر واقع سیاروں کا پتہ لگا رہا ہے۔معلوم ہونا چاہیئے کہ فلکیاتی حساب ظن و تخمین پر مبنی نہیں رہا بلکہ جدید وسائل چاند کے طلوع کا تعین ،منٹ اور سکنڈتک کے حساب سے کررہے ہیں۔جہاں تک یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے روزہ اور افطار شروع کرنے کیلئے چاند کی بصری رویت پر اعتماد کا حکم دے رکھا ہے تو اس سلسلے میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس کی علت بھی بیان کررکھی ہے،علت یہ بتاتی ہے کہ ہم ان پڑھ قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو نہ لکھنا جانتی ہے نہ حساب لگانا جانتی ہے لہذا ان کے پاس طلوع ہلال کو جاننے کیلئے بصری رویت کے سوا کوئی اور طریقہ نہ تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قوم تعلیم یافتہ ہواور حساب کتاب سے واقف ہو تو وہ یقینی علم کا طریقہ اختیار کرکے چاند کے طلو ع ہونے کا پتہ لگا سکتی ہے۔ اگر مسلمان ایسے علم میں دسترس پیدا کرلیں جس کے ذریعے چاند کی شروعات اور انتہاکا علم یقین سے ہوجاتا ہو تو ایسی حالت میں فلکیاتی حساب پر انحصار میں کوئی شرع مانع نہیں ۔یہ بات ناقابل فہم ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ایسے علم سے روکیں جو کائنات کے نظام ،اللہ تعالیٰ کی قدر ت ، اسکی حکمت اور دقیق نظام کو اجاگر کررہا ہو۔اگر ہم علمائے سلف کے زمانے میں ہوتے تو ہم بھی وہی کہتے جو انہوں نے کہا ہے کیونکہ اس وقت سلف کے زمانے میں فلکیاتی حساب پر اعتماد ممکن نہ تھا اس وقت ایسے آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے جو منٹ اور سیکنڈتک بتا کر چاند طلوع ہونے کا تعین کرسکتے۔اگر آج سلف صالحین ہمارے درمیان ہوتے تووہ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصارکے قائل ہوجاتے اور اپنی رائے بدل لیتے۔ چاند کی بصری رویت بذاتہ عبادت نہیں بلکہ یہ روزے کا وقت جاننے کا ذریعہ ہے، ماضی میں ننگی آنکھ سے رویت ہی سہل اور مہیا وسیلہ تھے اب صورتحال بدل گئی ہے۔رویت ہلال کے سلسلے میں کسی ایک حدیث نہیں بلکہ تمام احادیث کو پیش نظر رکھنا چاہیئے۔ عصرحاضر میں علم الفلک شعبدہ بازی ،ستارہ شناس،کہانت اور ستاروں کے ذریعے قسمت کی خبر دینے والے فن سے یکسر الگ ہے لہذا اس حوالے سے علماءمیں جو تحفظات پائے جاتے ہیں ان کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ۔

شیخ عبداللہ بن سلیمان المنیع(مشیر ایوان شاہی ور کن سربرآوردہ علماءبورڈ )23اگست 2009ءہفتے کو رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہوگا،اس سال روزے 29دن کے ہونگے،فلکیاتی حساب کے نتائج پر عمل قرآن و سنت کے منافی نہیں،اس سلسلے میں کئی امور بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ فلکیاتی حساب پر عمل نبی کریمﷺ کے اس ارشاد گرامی کے منافی نہیں جس میں فرمایا گیا ہے”ہم ناخواندہ قوم ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب کتاب کرنا،مہینہ ایسے ہوتا ہے اور ایسے ہوتا ہے“رسول اللہﷺنے اس ارشاد میں اپنے دور کے مسلمانوں کی حالت کو بیان کیا ہے۔اس وقت اکثر مسلمان ناخواندہ تھے ، اب فرزندان اسلام کی یہ حالت تبدیل ہوچکی ہے،اب مسلمان امی نہیں رہے،مسلمانوں میں میڈیسن، انجینیئر نگ ، فزکس ،فلکیات اور سائنس کے ماہر کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ٹیکنالوجی اور ایٹمی توانائی کے ماہرین بھی ہیں لہذا ایسی حالت میں ہمیں شرعی امور میں ایسے روایتی اسباب پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے جن کے نتائج ظن و تخمین کے حامل ہوں ۔یہ انحصار ایسی حالت میں بدرجہ اولیٰ غلط ہوجاتا ہے جبکہ ہمارے پاس یقینی نتائج دینے والے ذرائع مہیا ہوں۔دوسری بات یہ ہے کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی ماہرین فلکیات دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو چاند سورج غروب ہونے کے بعد پیدا ہوگااس کے باوجود چاند غروب آفتاب کے بعد دیکھ لیا جاتا ہے اگر ماہرین فلکیات کے دعوے پر انحصار کرلیا جائے تو ایسی صورت میں ننگی آنکھ سے دیکھی جانے والی حقیقت کو کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے اس سے یہ اشکال بھی پیدا ہوتا ہے کہ فلکیاتی حساب کتاب کے بارے میں یہ دعویٰ کہ وہ مبنی بر حقیقت ہوتا ہے، غلط ثابت ہورہا ہے۔اسکے جواب میں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ ماہرین فلکیات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سال میں ایک بار ایسا ہوتا ہے جبکہ چاند سورج غروب ہونے کے بعد پیدا ہوتا ہے اور غروب کے بعد اسے دیکھا جاسکتا ہے۔یہ بات ایسی نہیں کہ ماہرین فلکیات کی نظروں سے اوجھل ہو۔تیسری بات یہ ہے کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ماہرین فلکیات مہینے کی شروعات متعین کرنے کے سلسلے میں متفق نہیں ،خود ان میں اختلاف ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ماہرین فلکیات کے درمیان چاند کی پیدائش کے لمحے پر کبھی اختلاف نہیں ہوتا اسی طرح چاند کے سورج سے اقتران کے لمحے میں کبھی اختلاف نہیں ہوتا اس حوالے سے اس کے برعکس جو بھی کہا جاتا ہے وہ غلط ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ چاند کی پیدائش اور سورج سے اس کے اقتران کا معاملہ ماہرین فلکیات کے درمیان متفقہ ہے۔چوتھی بات یہ ہے کہ فلکیاتی حساب کتاب سے استفادے پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ کبھی کبھی چاند تواتر سے دیکھا جاتا ہے اور ماہرین فلکیات اسکاانکار کرتے ہیں ۔ ماہرین اسکے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی چاند پیدا ہوجاتا ہے اور سورج غروب ہونے سے پہلے ہی روپوش ہوجاتا ہے لیکن سورج سے اس کا اقتران نہیں ہوپاتا لیکن سورج سے اسکا اقتران سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی ہوا ہوتا ہے۔ایسی حالت میں چاند حقیقت میں اپنی پیدائش سے پہلے نظر آتا ہے لیکن یہ رویت حقیقی نہیں ہوتی۔پانچویں بات یہ ہے کہ ماہرین فلکیات اپنے علم کی بدولت چاند کی پیدائش کا منٹوں کے ساتھ تعین کرلیتے ہیں اس حوالے سے ماہرین فلکیات میں کوئی اختلاف نہیں ، ماہرین میں چاند کی پیدائش کے بعد اسے دیکھے جانے کے امکان کے بارے میں اختلاف ہوتا ہے ۔چھٹی بات یہ ہے کہ مہینوں کی شروعات اور اختتام کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر عمل درآمد کا مسئلہ عصر حاضر کی پیداوار نہیں بلکہ بعض فقہاءاس پر قدیم زمانے سے اظہار خیال کرتے رہے ہیں۔بعض قدیم علماءنے فلکیاتی حساب کتاب پر عمل کا فتویٰ بھی دے رکھا ہے۔ساتویں بات یہ ہے کہ ہم فلکیاتی حساب سے مہینوں کی شروعات کے فیصلے کے سلسلے میں جزوی استفادے کے قائل ہیں کیونکہ ہر حالت میں فلکیاتی حساب کے مطابق رمضان المبارک کی آمد اور اختتام کا فیصلہ قرآن و سنت کے منافی ہے۔

ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبدالرحمن المحمود(ماہر اسلامیات) میری رائے یہ ہے کہ ایک ریاست کے مختلف علاقوں میں کہیں بھی چاند نظر آجائے تو اس ریاست کے دیگر علاقوں کے باشندوں کو اس رویت پر انحصار کرکے رمضان کے روزے رکھنا ضروری ہیں۔یہی اصول رمضان کے اختتام پر بھی لاگو کیا جانا چاہیئے۔یہ فیصلہ اسلامی شرعی سیاست کے تحت اسلئے ضروری ہے تاکہ امت تفرقہ و انتشار کا شکار نہ ہو۔ جہاں تک قریب واقع ممالک کا تعلق ہے ، مثال کے طور پر خلیجی ملکوں کو لے لیجئے تو اس سلسلے میں میرا خیال یہ ہے کہ شرعی سیاست کے تحت ہی خلیج کے تمام ملکوں کو ایک شمار کیا جانا چاہیئے ، ان کا مطلع ایک ماننا چاہیئے،یہ سب سعودی عرب کے ماتحت ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ خلیج کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں حرمین شریفین واقع ہیں، مسلمانوں کا قبلہ بھی یہیں ہے اگر مملکت میں چاند ہوجائے تو خلیج کے دیگر ممالک اسکی پابندی کریں۔علاوہ ازیں اگر 2ایسے ملکوں میں سے کسی ایک میں چاند ہوجائے جن کے تعلقا ت اچھے ہوں تو دوسرے ملک کے مفتی کو جہاں چاند نہ ہوا ہو دوست ملک کی پیروی کرتے ہوئے رویت کا اعلان کردینا چاہیئے۔

ڈاکٹرزکی عبدالرحمن مصطفی( پروفیسر فلکیاتی علوم، کنگ عبدالعزیز سٹی برائے سائنس و ٹیکنا لوجی) عصر حاضر میں فلکیاتی حساب نہایت دقیق ہوتا ہے اس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہوتا ۔ ماہرین فلکیات سورج گرہن، چاند گرہن، اجرام سماوی کے طلو ع و غروب و دیگر احوال و کوائف کے بارے میں جو اعلانات کرتے ہیں وہ 100فیصددرست نکلتے ہیں ۔ فلکیاتی حساب ظن و تخمین پر مبنی نہیں بلکہ ازل سے لیکر عصر حاضرتک اقوام عالم کے مسلسل مطالعے کا ثمر ہیں۔حالیہ برسوں کے دوران مسلمانوں میں علم الفلک نے ترقی کی ہے ۔ روزوں ، حج ،نماز کے اوقات اور قبلہ کی سمت وغیرہ فلکیاتی حساب کتاب کے ذریعے آسانی سے متعین کرلیتے ہیں ۔عصر حاضر میں ہونے والی تبدیلیوں کا تقاضا ہے کہ فقہاءاور ماہرینِ فلکیات دونوں رویت کے سلسلے میں جامع اور صاف شفاف تصور پر اتفاق رائے پیدا کریں۔

................




بین الاقوامی اسلامک فقہ اکیڈمی کا فیصلہ

بین الاقوامی فقہ اکیڈمی نے 8تا 13صفر 1407ھ کے دوران اردنی دارالحکومت عمان میں منعقدہ اپنی تیسر ی کانفرنس کے موقع پر 2فیصلے کئے ۔پہلا فیصلہ یہ کیا کہ اگر کسی ایک ملک میں رویت ہلال ثابت ہوجائے تو ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کو اسکی پابندی کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں یہ عذر قابل قبول نہیں ہوگا کہ جس ملک میں چاند نظر آیا ہے اس کا مطلع ہمارے ملک کے مطلع سے الگ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمیں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر افطار کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ عام ہے لہذا اگر کہیں بھی چاند دیکھ لیا گیا تو ایسی صورت میں دیگر مقامات کے مسلمان اس کے پابند ہوجائیں گے۔ دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا کہ چاند نظر آنے کا انحصار بصری رویت پر ہی ہو البتہ رصد گاہوں کے جدید ترین وسائل اور فلکیاتی حساب کتاب سے رویت کے سلسلے میں مدد لی جائے۔

جدید ٹیکنالوجی کا بائیکاٹ شرمندگی کا باعث

ڈاکٹر محمد عبدالرحمن البابطین(مشیر وزارت انصاف برائے امور رویت) سعودی عرب میں فلکیاتی رصد گاہیں مختلف مقامات پر قائم ہیں ان کے قیام کا محرک طائف میں 1403ھ کے دوران سعودی سربرآوردہ علماءبورڈ کے اجلاس میں پاس ہونیوالی وہ سفارش بنی تھی جس میں صراحت کی گئی تھی کہ چاند دیکھنے کیلئے دوربین سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔تجربات سے پتہ چلا ہے کہ رصدگاہیں اور ٹیلی اسکوپ اور ان سے ملتے جلتے دیگر وسائل درحقیقت ننگی آنکھ سے سامنے آنے والے نتائج میں معاون بنتے ہیں۔بعض اوقات جدید فلکیاتی وسائل بصری رویت کے نتائج پر حرفِ سوال کھڑا کردیتے ہیں ۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر کثیر تعداد میں لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کررہے ہوں اور ماہرین فلکیات چاند نظر نہ آنے کا دعویٰ کررہے ہوں ایسی حالت میں کسی ایک شخص کے اس دعوے کو تسلیم کرلینا کہ اس نے چاند دیکھا ہے کسی طور مناسب نہیں ۔اگر کوئی ایسی حالت میں رویت کا دعویٰ کرے تو مکمل اطمینان حاصل کرنے کیلئے اس سے کڑی جرح ضروری ہوجاتی ہے ۔ویسے بھی جدید ٹیکنا لوجی سے استفادہ نہ کرنا اور جدید ٹیکنالوجی کا بائیکاٹ کرنا شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔

عبداللہ المالکی(ڈائریکٹرریسرچ اینڈ اسٹڈیز سینٹر)مجھے امید ہے کہ ہمارے علماءفلکیاتی حساب پر انحصار کا فیصلہ مستقبل قریب میں کرلیں گے،اس کی شروعات سعودی سپریم کورٹ کے اس اعلان سے ہوگئی ہے جس میں رویت ہلال کیلئے دوربینوں کے استعمال کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور سر برآوردہ علماءبورڈ کے قدیمی فیصلے کا احیاءکیا گیا ہے ۔ سعودی سپریم کورٹ کے شیخ صالح بن حمید ایسے فقہاءاور علماءکی آراءپر انحصار کرتے ہیں جو کھلے ذہن کے مانے جاتے ہیں۔انہوں نے امسال رویت ہلال کے حوالے سے رسد گاہوں کے ماہرین سے دوربینوں سے استفادے کی اپیل کرکے اعلیٰ عدالتی کونسل کی سابق روایت کو نظر انداز کیا ہے جس کے سابق سربراہ شیخ صالح اللحیدان کا موقف یہ تھا کہ چاند کا ثبوت صرف ننگی آنکھ کی رویت ہی کی بنیاد پر ہوگا۔شیخ صالح بن حمید نے نہ صرف یہ کہ 27برس پرانے سعودی علماءبورڈ کے فتوے کا احیاءکیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جدید معلومات کا مطالعہ بھی بڑے پیمانے پر کررکھا ہے۔وہ عالمی درجے کی شخصیت ہیں ،وہ نہ صرف یہ کہ فقہی نظریات کو پیش نظر رکھتے ہیں بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے دھارے کا بھی احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں نہ صرف یہ کہ رمضان اور عید الفطر کے چاند کا مسئلہ ٹھو س بنیادوں پرطے کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے بلکہ قمری مہینوں کی ابتدا و انتہاکا معاملہ بھی فلکیاتی حساب کی اساس پر طے کرالیں گے۔
۔مجھے امید اسلئے بھی ہے کہ ابتدا میں مساجد میں مائیکرو فون کے استعمال کی سخت مخالفت کی گئی تھی لیکن آگے چل کر اسے جائز قراردیدیا گیا۔میرا مشاہدہ یہ ہے کہ فقہی رائے بعض علماءکے مزاج سے متاثر ہوتی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہی آراءکے اجراءاور شرعی فتو¶ں کے سلسلہ میں ادارہ جاتی روایت استوار کی جائے۔ہلال کے ثبوت کا معاملہ میرے نقطہ نظر سے جدید و قدیم بنیاد پرستی اور جدیدیت کے دائرے میں گھوم رہا ہے۔

ڈاکٹر محمد بن صالح العلی(اسکالر شرعی سیاست) ملک میں مذہبی،ثقافتی اور اقتصادی اصلاحات کی ہوا چل رہی ہے،اسکا تقاضا یہ ہے کہ چاروں مسالک کے علماءاور روشن خیال اسکولوں کی آراءسے استفادہ کیا جائے ،مختلف مسائل کے فیصلے یکجہتی اور تال میل پیدا کرکے کئے جائیں۔مختلف مسلکوں اور فقہی اکیڈمیوں کے رجحانات ،نزاعی مسائل کو طے کرنے میں موثر ثابت ہونگے۔قدیم زمانے میںکسی ایک علاقے میں دیئے جانے والے فتوے سے دوسرا علاقہ متاثر نہیں ہوتا تھا اب جبکہ پوری دنیا ایک قریہ میں تبدیل ہوچکی ہے ایسے عالم میں ایک جگہ دیا جانیوالا فتویٰ دیگر مقامات کے فتو¶ں اور حالات پر اثر انداز ہوتا ہے۔


شیخ محمد بن عثیمینؒ(ممتاز سعودی عالم)چاند کا فیصلہ کرنے کیلئے دور بین یا رصد گاہوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اس میں کوئی ہرج نہیں ، اسی طرح طیاروں اور مصنوعی سیاروں کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ طیاروں اور مصنوعی سیاروں کیلئے چاند زیادہ آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ جو لوگ طیارے یا مصنوعی سیارے کی مدد سے چاند دیکھتے ہیں وہ زمین پر کھڑے ہوکر چاند دیکھنے والوں سے کہیں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں، ان کی رویت زیادہ معتبر اور مضبوط ہوتی ہے۔
.............




چاند کا ثبوت، مشاہدہ یا فلکی حساب ؟
اسلامی نقطہ نظر
از:ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ
(مدرس مدرسہ صولتیہ ، مکہ مکرمہ)

اللہ رب العزت نے انسانوں کے لئے اسلام کو مکمل دستور حیات بنایا ، انہیں انسانوں کا نہیں بلکہ اپنی ذات کا محتاج بنایا ہے، اسلام کے احکام عبادات، نماز روزہ اور حج واعیادغیرہ کو اوقات کے ساتھ مشروع فرمایا، تو وقت کی لگام کو اپنے قبضہ میں رکھا۔ اسے حساب دانوں کے سپرد نہیں کیا ارشاد باری تعالی ہے
سمان و زمین اور رات کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

سورج اور چاند جن کے ساتھ بہت سے احکام شرعیہ وابستہ ہیں، ان کا طلوع وغروب اور جریان اللہ کے حکم کے ساتھ ہی خاص ہے۔پھر چاند کی رویت کا ثبوت بھی شرعی نقطہ نظر کے ساتھ قابل اعتبار ہے، محاسبین کے حسابات پر موقوف نہیں جس میں اللہ کے بندوں کی رویت اور مشاہدات مدار حکم ہے، حسابات نہیں۔معین کو مدار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، نہ مدار کو معین پر پرکھا جاسکتا ہے۔ چاند کی رویت کا شرعی ثبوت شرعی ضابطوں کے تحت ہے کیونکہ مسلمانوں کے صیام وقیام ‘انکی اعیاد و حج اور ان کے دیگر کئی تہوار چاند کے ساتھ وابستہ ہے اس کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے
لوگ آپ سے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں آپ فرمادیجئے کہ یہ لوگوں کے لئے اور حج کے اوقات مقررہ کے لئے ہے“۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
تم اسے دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے دیکھ کر افطار کرو۔
پھر نبی کریم ﷺ کے عمل سے رویت کا ثبوت اور اس میں شہود کا نصاب بھی سب کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شاہد سے رمضان کا اور دو سے عید کا فیصلہ فرمایا اس بارے میں احادیث بھی میرے اس مقالہ میں آرہی ہےں ان کا مطالعہ بھی ایمان میں تقویت باعث اور چاند کے ثبوت میں شرعی نقطہ نظر سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

اسی رویت بصری یا مشاہدہ سے چاند کے ثبوت پرمیرے ایک مقالہ کا نوائے وقت کے صفحات پر قارئین نے مطالعہ کیا ہوگا۔جس میں میں نے مشاہدہ اور رویت ہی کو شرعی اعتبار سے معتبر سمجھنے اور سعودی رویت ہلال کی شرعی حیثیت پر گفتگو کی، اور اس کے خلاف تشکیک اور غلط پروپیگنڈہ کرنے والوں سے بھی استدعا کی کہ وہ امت میں فرقت و انتشار سے باز رہيں، کیونکہ کہ امت کواس وقت پہلے سے کہیں زیادہ وحدت و اتحاد کی ضرورت ہے، اللہ رب العزت نے ہم مسلمانوں کو اپنی توحید کو ماننے اور اپنے نبی پر ایمان لانے اور ایک قبلہ کی طرف نماز پڑھنے والے ہونے ، ان تمام وحدتوں کی وجہ سے ہمیں امت واحدہ بنایا۔اور شریعت کے مصادر میں بارہا دفعہ ان امور کی لاج رکھتے ہوئے امت کو اپنی وحدت کو فرقت میں بدلنے سے منع فرمایا۔ مگر افسوس ہے کہ باز لوگ نادانی ، یا اجنبی سازش سے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد اور ڈیڑھ کوڑی کی امت بنانے پر ڈھٹائی سے تلے ہوئے ہیں اور امت کی جگ ہنسائی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

میرااسی عنوان پر پہلا مقالہ نوائے وقت میں چھپا اس کے بعد ”ضرب مومن“ کراچی نے اسے اس انداز سے چھاپا کہ فلکی حسابات کے محبین نے اس بات پر زور قلم لگادیا کہ سعودی عرب کی رویت چونکہ ہمارے فلکی حسابات پر پرکھتے ہوئے ان کے مفروضہ نصاب پر پوری نہیں اترتی لہذا وہ درست نہیں جس کے نتیجہ میں وہاں کی رویت کے بعدکئے گئے جملہ اعمال گویا وقت سے پہلے ادا کردیئے جاتے ہیں۔چونکہ یہ عبادات وقت کے ساتھ مشروط ہے لہذا انہوں نے ان عبادات کے ادا کرنے والوں کو شک میں ڈالنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی۔ انگلینڈ سے مولوی ثمیر الدین ، کراچی سے مولوی سلطان عالم اور مفتی ابو لبابہ نے کچھ اسی انداز سے میرے مقالہ پر اپنا زور قلم لگایا بلکہ ”ایک اور دو گواہوں “پر بھی غیر مناسب گفتگو کی۔

مجھے عرض یہ کرنا ہے کہ چاند کے ثبوت کے لئے اس کی رویت اور مشاہدہ ہی شرعی طور پر معتبر ہے ،اہل اسلام کے لئے گواہوں کی رویت کو فلکی حسابات سے پرکھنے کی کوئی شرط شریعت میں موجود نہیں، اہل اسلام کی رو¿یت کے بارے میں حسن ظن رکھنا ہم شرعا اس کے مامور ہیں پھر جب وہ لوگ شریعت کے عالم اور قاضی ہوں تو ایسے اہل علم کے بارے میں سوءظن پھیلاناایک خطرناک غیر شرعی امر ہے۔ جس کے مخاطر اور مفاسد پر اہل علم نے مفصل طور پر عقائد کی کتابوں میں لکھا ہے، نیز ہمارے جملہ اکابرین جوسعودی عرب میں مقیم رہے یا ان کا آنا جانا رہا وہ شریعت کے ماہرین تھے انہوں نے ہمیشہ سعودی رویت کو معتبر سمجھا، کبھی اسے شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ پھر جب اہل تشکیک نے کسی سازش کی بنا پر سعودی رويت کے خلاف تشکیک کا عمل شروع کیا تو جن بعض مفتیان نے سعودی رویت کے بارے میں کلام کیا تھا انہوں نے بھی معتبر علمائے کرام کی تحقیق کے بعد اپنے سابقہ قول سے نہ صرف رجوع کیا بلکہ شک پھیلانے والوں کو ایسی حرکت سے باز رکھنے کی بھی تلقین کی، یہ اس لئے کیونکہ وہاں پر رویت ہلال کے شرعی طور پر شرعی قضا میں شرعی ضوابط سے ثابت ہوکر ہی سعودی حکومت اعلان کرتی ہے۔ اور اللہ تعالی کی یہ حکمت ہے اور اس کا فضل ہے کہ مسلمانوں کے جملہ اعمال -الحمد للہ- خالق ارض و سماں اور خالق شمس و قمر اور محافظ شریعت خاتم النبیین ﷺ کے فضل و کرم سے درست اوقات میں ادا ہو رہے ہیں۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کا واضح ارشاد ہے کہ میری امت کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی۔ الحمد للہ اسلامی امت کے مفتیان عظام اس بات کا ادراک کر چکے ہیں ۔ لہذا مسلمانوں میں اس سلسلہ میں تشکیک پیدا کرنے کی ضرورت نہیں، نہ یہ کوئی اسلام کی خدمت ہے۔ہماری غرض کسی کا دفع نہیں مگر شریعت کی حمایت اور شرعی اصول کی پاسبانی ہمارا فریضہ ہے۔

اسی لئے ہم اصلاح کی خاطر دعوت فکر دیتے ہیں ان حضرات کو جو فلکیات کی قطعیت کی خاطر شرعی رویت کو ان پر پرکھنے کے داعی ہیں کہ یہ عمل درست نہیں کیونکہ فلکیات کے محاسبین سینکڑوں برس سے موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ، خلفائے راشدین، اور خیر القرون سے آج تک شرعی رویت کو فلکی حسابات پر پرکھنے کی سنت مسلم امت میں رائج نہیں۔ فن فلکیات ہویا دیگر جدید ترقیات شرعی احکام میں ان سے اعانت میں کوئی حرج نہیں مگر انہیں مدار نہیں ٹھہرا سکتے جن حضرات نے سعودی شرعی رویت کو غلط ٹھہرایا وہ نیومون، 1400 سالہ مون ایویگیشن، چاند کے محاق میں ہونا جیسی فلکی موشگافیوں سے شرعی نقطہ نظر اور شرعی رویت کی تضعیف کرتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف انگلینڈ یا پاکستان میں موجود ہیں بلکہ سعودی عرب میں بھی پائے جاتے ہیں مگر معتبر رائے وہی ہے جو اہل علم، اہل شرع اور اہل فقہ کی ہو اور وہ کتاب و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ہو۔ لہذا میں گذارش کروں گا کہ مسلم امت میں فرقت و انتشار اور ان کی عبادات میں تشکیک پیدا کرنانہ اسلام کی خدمت ہے نہ شریعت کی، نہ مسلم امت کی۔ اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اور علمائے امت کا تعامل کیا ہے؟ اسے ملاحظہ فرمائیے۔ پہلے نبی کریم ﷺ سے ایک شہادت سے رمضان اور دو سے عید کا ثبوت کے شرعی ضابطہ ہونے کے بارے میں سن لیں تاکہ اس کی تضحیک سے بھی باز رہیں۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے چاند دیکھا ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا : کیا تو اللہ کے ایک ہونے اور میری رسالت کی گواہی دیتا ہے ؟ تو اس نے کہا: جی ہاں۔ تو آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ صبح روزہ رکھيں۔

حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو اعرابی آئے اور انہوں نے عید کا چاند دیکھنے کی گواہی دی تو حضور نے صبح عید کرنے کا اعلان فرمادیا۔

یہی ضابطہ سعودی رویت ہلال میں معمول بہ ہے کہ رمضان ایک شہادت سے اور عید دو شہادتوں سے ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ چاند کو ایک ہی آدمی دیکھتا ہے یا دو۔ ضابطہ اور امر واقع میں فرق ہوتا ہے۔ گذشتہ نبوی ارشادات میں شہادت برائے رویت ہلال کے ضابطوں کو بیان کیا گیا ہے۔مگر افسوس ہے کہ فلکیات والوں کو شریعت کی یہ بات کیونکر پسند نہ آئی؟

”ضرب مومن“ میں انگلینڈ کے مولوی ثمیر الدین، پاکستان کے مولوی سلطان عالم اور مفتی ابو لبانہ نے سعودی شرعی رویت ہلال کی تغلیط یا تشکیک کرنے کے لئے فلکی حسابات کا سہارا لیا اور اسے اس لئے غیر معتبر قرار دیا کہ سعودیہ میں جس دن رویت کا اعلان ہوتا ہے چاند محاق میں ہوتا ہے، مغربی ویب سائٹ رویت کا ساتھ نہیں دیتی، تو اس سلسلہ میں ہم سنت رسول اللہ ، خلفائے راشدین، علمائے امت کے تعامل اور مفتیان کے فتاوی کو اس لئے نقل کرتے ہیںکہ فلکیات کا سہارا لے کر تشکیک کے اس عمل کو بند ہونا چاہئے اور امت میں افتراق اور انتشار کی یہ کوشش ہر گز ہرگز دین اور امت کی خدمت نہیں۔

یہ حضرات فلکیات کے ماہرین و متخصصین ہونے کے مدعی ہیںیا سمجھے جاتے ہیں یقینا شریعت کے بھی عالم ہوں گے۔ ان کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلکی حسابات کو مُعین کہنے والوں نے شریعت کی پاسداری کئے بغیر اپنے جملہ کلام میں فلکیات کو ہی مدار ٹھہرادیا۔ مجھے مولانا ثمیر الدین نے اسی فن کا طفل مکتب فرمایا حقیقة میں تو ایسے فن کے مکتب میں بیٹھنے یا اس کا طفل بننے سے ضرور اجتناب کروں گا جس کا نتیجہ امت میں انتشار وافتراق، نصوص شرعیہ کی مخالفت ، قرون اول سے سلف صالحین کے منہج اور اکابرین کے طریقہ تعامل اور دور حاضر کے مفتیان کے فتاوی کے خلاف اور اجماع امت جیسے مسلمہ شرعی اصولی ضابطہ پر طعن کا موجب بنے۔ جس کا ذکر بعد میں کرتا ہوں۔

ان حضرات کو یاد رہے کہ سعودی عرب میں بھی ایسے شواذ پائے جاتے ہیں جورویت کے شرعی نظام کے بجائے فلکی نظام کے داعی ہیں۔ مگرشرعی نظام کے پیروکار اور رویت ہلال میں شریعت کے پابندو پاسداراہل علم و فقہ اور اہل قضاءاللہ کے فضل وکرم سے ان پر بھاری ہیںاور ان شاءاللہ غالب رہیں گے ضرب مومن میں جن حضرات نے سعودی شرعی رویت کی مخالفت میں لکھاانہوں نے اہل شریعت پر تو اعتماد نہیں کیا بلکہ ان کے بارے میں سوءظن پھیلانے میں کوشاں ہیں جبکہ ہم علماءاسلام کے لئے شرعا موالات کے پابند ہیں۔ مگرسعودی رویت ہلال میں تشکیک کے لئے انہوں نے اعتماد ان لوگوں پر کیا جو شریعت کے علماءنہیں ان ہی کی طرح فلکیات کے محبین ہیں۔ انہیںوہی معتبر و ثقہ نظر آئے۔ پھران حضرات کے سعودی شرعی رویت کے خلاف پانچوں نکات ان کے بتائے گئے اسی منہج پر مرکوز ہے جو شرعی رویت کو فلکی نظام کے تابع بنانا چاہتا ہے، جنہیں بنیاد بناکر انہوں نے شرعی رویت کو فلکی ضوابط پر پرکھنے میں ہی پورا زور لگا دیا ہے۔ افسوس ہے کہ علمائے دین ہونے کے باوجود انہیں رویت ہلال میں نہ شریعت کی تعلیمات کا پاس رہا نہ علماءشریعت پر اعتماد۔ جب کہ سعودی عرب کے قاضی حضرات کی اتباع شریعت سب کے یہاں معروف و مسلم ہے اور ”ضرب مومن “ کے 18اپریل کے شمارے میں اس کا مطالعہ کرلیا جائے تو خوب بصیرت حاصل ہوجائے گی۔

باقی رہا ان کا یہ اعتراض کہ سعودی عرب میں قمری مہینے26.5 یا 27.5 دن کے بعد رویت کا اہتمام تو وہ بھی اسی بنیاد پر ہے۔ یہی وہ تشکیک اور غلط پروپیگنڈہ ہے جو مولوی ثمیر الدین ایک عرصہ سے کر رہے ہيں جس سے متاثر ہوکر بعض علماءاہل پاک و ہند نے سعودی رویت کے خلاف فتوی دیئے تھے مگر جب ان علماءکرام کے سعودی عرب کے معتمد اہل فقہ وشریعت سے رابطے ہوئے اور انہوں نے وہاں کے نظام رویت کو شرعی سمجھ لیا(جس کا مطالعہ آپ عنقریب کریں گے)تو انہوں نے اپنے سابق فتوی سے نہ صرف رجوع کیا بلکہ سعودی رویت کی تائید میں خوب لکھا۔مولانا کے چاروں نکات میرے ان جوابات کے ارد گرد گھومتے ہیں۔

رہا مولانا ثمر الدین کا 1600 سالہ مون اویگیشن تو اس کی شرعی حیثیت1400 سال پہلے مبعوث ہونے والے ہمارے آقا و مولی اور ہمارے لئے سند اور حجت، قیامت تک کے لئے اللہ کے رسول حضرت خاتم النبی ﷺ کی ہدایات ہيں، نہ کہ ان کے وہ حسابات جن سے نہ آنحضرت ﷺ نے استفادہ کیا نہ خلفائے راشدین نے نہ ان کے بعد آج تک پوری امت نے۔

مولوی ثمیر الدین کا قمر کی ویب سائڈ کے مطالعہ کی دعوت دینا جب کہ وہ خود مولانا ڈاکٹر عبد اللہ عباس کے نام ایک خط میں ان امور پر خود نکیر کر چکے ہیں،انکار منکر کے بعد دعوت الی المنکر ہے۔ لہذا ہم انہیں یہ مشورہ دیں گے کہ وہ شرعی رویت کا اہتمام کریں اور ان ویب سائڈ کے تیار کرنے والوں کی شرعی حیثیت کا بھی مطالعہ کرلیں۔

اس بارے میں مفتی محمد شفیع صاحب اور مفتی رشید احمد کے مضامین سے اصولی طور پر رہنمائی مل سکتی ہے۔جنہیں آپ بخوبی جانتے ہیں۔ ہمیں ان سطور میں سعودی یا غیر سعودی نظام رویت کے غالب و مغلوب کرنے سے یکسر بحث نہیں ، ہمارا ہدف شرعی قطعی نظام کو غیر شرعی ظنی نظام پرغالب کرنے کی سعی کرنا ہے۔

”ضرب مومن“میں سعودی رویت کے خلاف لکھنے والے دوسرے محرر مولوی سلطان صاحب سعودی عرب کے بارے میں لکھتے ہیں : ”وہاں تو چاند دوسری رات کو بھی نظر نہیں آتا“ جواباً عرض ہے کہ
واقعی یہ مقولہ درست ہے کہ” بغض انسان کو اندھا اور بہرہ بنادیتا ہے“ افسوس ہے کہ ایک عالم شریعت کس طرح کسی کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ایسی بے بنیاد بات نہ صرف کہے بلکہ لکھ دے جو اس کے خلاف حجت بن جائے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ان کے اس دعوے کی ان کے پاس حجت کیا ہے؟ کیا وہ اندھے شہود جنہیں دوسری رات کا چاند بھی نظر نہیں آتا یا اس دعوی میں ان کی حجت بھی مولوی ثمیر الدین کا27.5 یا28.5 کا مفروضہ ہے۔ شہادت حق سنیے اور غور کیجئے، میں آپ سے صرف اپنا گذشتہ دوماہ کا مشاہدہ بیان کرتا ہوں
مجھے گذشتہ دو ماہ سے ہر یکم کو قبل از مغرب ایک جماعت کے ساتھ جدہ جانا ہوتا ہے، مغرب کی نماز بھی تقریبا مکہ وجدہ کے مابین ہی ادا کرنا ہوتی ہے جب ہم جدہ کی طرف گاڑی کا رخ کرتے ہیں تو پوری جماعت کے سامنے اس رات جو چاند کی دوسری رات ہوتی ہے چاند اپنی عادی ہیئت و کیفیت میں نمودار رہتا ہے اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں ایک رات پہلے نمودار ہوا تھا۔ کیا ہم پوری جماعت چاند کوکہیں کہ تو بقول ثمیر الدین28.5 کے بعد کیسے طلوع ہوگیا؟ یا بقول مولانا سلطان عالم تو ہمیں کیوں نظر آرہا ہے؟۔ ان دونوں حضرات اور ان کے پروپیگنڈے سے متاثر برادران سے عرض ہے کہ اللہ سے ڈریں۔ ہماری دعا ہے کہ دونوں حضرات کو حق تعالی جلد از جلد زیارت حرمین شریفین اور چاند کو خود دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ شاید امت اس مخمصہ سے محفوظ ہوجائے۔ یقینا ایسی بے بنیاد خبروں کا ”ضرب مومن“ میں چھپنا درست نہیں۔ یہ تو اس کی غرض اشاعت کو سبوتاز کرنے کے مترادف ہے۔

رہا مولانا سلطان کا بدر اور چاند کے بارے میں چودھویں کے بجائے پندرہوں اور سولہویںمیں تمام ہونا، اس بارے میں ان کے لئے وہی جواب ہے جو دوسری رات کے چاند کے بارے میں ہے۔

پھر ہم لوگ مشاہدہ کے شرعا مکلف ہیںاور اپنے برادران کے لئے حسن ظن رکھنے کے اور سوءظن سے اجتناب کے مامور ہیں، خصوصاًعلمائے کرام تو ان کے بارے میں سوءظن پھیلانا عقائد کی کتابوں میں موالات علماءکے خلاف امر ہے۔ اس کے مخاطرعظیمہ کو ملحوظ خاطر لانے کے پیش نظر اس باب میں کتب عقائد کا ضرور مراجعہ کرلیں۔

اکابر کا تعامل اور سعودی رویت ہلال

ہم سعودی رویت میںتشکیک کرنے والے حضرات کو مکرر تامل کی دعوت دیتے ہوئے عرض کرتے ہےں کہ ہمارے تیس سالہ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران ہمارے اکابر علمائے کرام میں سے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب ، حضرت مولانا محمد یوسف بنوری، حضرت قاری محمد طیب مہتمم دار العلوم دیوبند، حضرت مفتی محمود حسن مفتی دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا ابرار الحق، خلیفہ مجاز حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے علاوہ سینکڑوں دیگر علمائے پاک و ہند، مشائخ الحدیث، مشائخ سلوک، فقہا ،محدثین مفتیان عظام، مدرسین علوم شریعت طویل عرصہ تک حرمین شریفین میں قیام فرما رہے، وہ سعودی شرعی رویت کے مطابق ہی رمضان میں صیام و قیام اور اعتکاف اور اعیاد اور مناسک حج ادا کرتے تھے۔ ان کی طویل مجالس میں بیٹھنے اور ان کے بیانات سننے کا بھی موقع ملتا رہا کسی نے بھی سعودی رویت پر تشکیک و تغلیط پر گفتگو نہیں فرمائی جس طرح آج مولانا ثمیر الدین، مولانا سلطان عالم اور ان کے ہمنواوں نے محاذ آرائی شروع کررکھی ہے۔

ان حضرات کا تعامل اور ان کا دینی و شرعی علمی مقام فلکیات کے ان محبین کی تحقیقات کے مقابلہ میں ہمارے لئے قابل اعتماد ہے۔ ان کی فلکی تحقیقات نہیں بلکہ ان کی تشکیک پھر اس پرمحاق و تولید اور ویب سائڈوں کی باتیں محض مغالطات ہیں۔ ہاں اگر ثمیر الدین صاحب ڈھٹائی سے یہ کہیں کہ امت کے یہ جبال علم فلکیات کے ماہر نہیں تھے تو ہم اہل شرع کے متبع ہیں اہل فلک کے نہیں۔

شریعت کے یہ ماہرین جس علم سے بے بہرہ رہے اور شرعی تعلیمات پر عمل کرکے امت کی رہنمائی کرتے رہے ہمارے لئے ان ہی کی رہنمائی اور ان ہی کا طریقہ کار کافی وشافی ہے۔ مولوی ثمیر الدین یا سلطان صاحب کی تحقیقات کی ہمیں یا امت کو حاجت نہیں۔

اگر بقول مفتی صاحب یہ نادر علم صرف چند حضرات کے پاس ہی ہے تو اس کی ندرت اس علم کی شرعی حیثیت کے تعین کی خود کافی شہادت ہے ذرا غور کرلیں! پھر یہ بھی ہم آپ کو بتاتے جائیں کہ فلکیات والوں کی جدید تحقیق کے مطابق نیو مون کے وقت بھی رویت ہلال ممکن ہے یہ امر مزید اس بات کی شہادت ہے کہ فلکی نظام غیر قطعی ہے۔

مزید نصیحت

فلکیات کے متخصصین ومحققین حضرات جب شرعی رویت کی تغلیط کرتے ہیںتو ایک عظیم اسلامی ضابطہ کو بھی نہ صرف ناقابل اعتناءسمجھتے ہیں بلکہ اسے یکسر بھلا دیتے ہیں اور وہ ہے شارع علیہ السلام کا قول گرامی ”لن تجمع امتی علی ضلالة“ میری امت کا گمراہی پر اجماع نہ ہوگا۔

جملہ اہل شریعت نے اس نص شارع سے اجماع کی حجیت پر استدلال فرمایا ہے اور جس سر زمین کی رویت کی تغلیط یہ حضرات فلکیات کا سہارا لیکر کر رہے ہیں وہیں پہ ایسا فریضہ ادا ہوتا ہے جس کی ادائیگی کے لئے امت اطراف عالم سے جمع ہوکر آتی ہے۔ جس میں عوام کے علاوہ ہر خطہ کے معتمد اہل علم اور اولی الامر بھی ہوتے ہیں۔ پوری امت صرف حج کا فریضہ مجتمع ہوکر ایک جگہ اور ایک وقت میں ادا کرتی ہے۔ گویا حج کی ادائیگی میں اجماع امت کی بہترین عملی شکل کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ جب کہ اس کے علاوہ کسی ایک عمل کے لئے ایک وقت میں پوری امت کے اہل حل و عقد مجتمع نہیں ہوتے۔ لہذا سعودی رویت شرعی کی رویت کی تغلیط یا اس بارے میں تشکیک والوں سے یہ سوال ہے کہ کیا وہ رب جس نے تحفظ شریعت خاتم النبیین کی ضمانت دی وہ پوری امت کو باطل و ضلال پر مجتمع کرکے ہماری جگ ہنسائی کا ثبوت فراہم کررہا ہے؟ یا ان شواذ کو فکرو تامل کی دعوت دے رہا ہے جو امت کے اجماع کا بھی لحاظ نہیں رکھتے؟۔

غور کریں کہ بات کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں پہنچتی ہے۔ بات عملی احکام کی نہیں علمی اور اصولی کی ہے۔ اعمال کی نہیں معتقدات کی ہے خدارا غور کریں کہ یہ کس کی خدمت ہورہی ہے؟۔

فتاوی اور اعتراف حق

ہمارے مشاہیر علماءواہل افتاءنے سعودی عرب کے ممتاز اہل علم و شریعت کی وضاحت کے بعد وہاں کی رویت کو شرعا معتبر مانا ہے۔ بلکہ جن بعض حضرات نے اس رویت کے خلاف باطل شہرت اور پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر لکھا انہوں نے اپنے فتوی سے بھی رجوع فرمالیا جو اہل حق کا شیوہ ہے۔ پھر خصوصا حضرت مفتی رشید صاحب جو ماہر فلکیات اور متخصص شریعت وسلوک اکابر میں سے ہیں انہوں نے بھی اسے معتبر سمجھا ہے ۔ جس کا مطالعہ آپ ابھی کریں گے۔ یہ تو خیانت ہوگی کہ ہم فتوی یا رجوع پھر متقدم قول اور متاخر کا فرق ملحوظ خاطر نہ لائیں اور سابق فتاوی کے حوالے سے عوام کو گمراہ کریں، اوریہ سب کچھ صرف اپنی رائے پر ڈھٹائی کی خاطر کریں، شریعت ، اکابر، اجماع کو بھی بروئے اعتناءنہ لائیںسبیل المومنین سے ہٹ کر شذوذ کی راہ اختیار کریں۔

امانت اور اس کا ضیاع

جناب نبی کریم ﷺ نے اپنی امت میں سے سب سے پہلے امانت کے اٹھنے کی خبر دی ہے، یہ امانت مال ہی نہیں، ہر مسولیت کو شامل ہے۔ عالم اپنے علم میں، صحافی اپنی صحافت میں ، ناقل اپنے نقل کرنے میں، مفتی اپنے دائرہ کار میں، محرر و منشی اپنی تحریر و انشاءمیں حاکم اپنی رعیت کے بارے میں اسی طرح ہر ایک اپنے دائرہ کار میں مسول ہے اس میں کوتاہی امانت کا ضیاع کرنا ہے۔

رویت ہلال کو فلکیات پر پرکھنا، تعامل شارع، خلفائے راشدین ، آرائے مفتیان ، ہمارے اکابر کی روش

رویت بصری اور مشاہدہ پھر اسے حسا ب و فلکیات پر پرکھنے کی جو روش مولوی ثمیرا لدین اور ان کے متبعین کی ہے جسے انہوں نے اپنے پانچ نکات میں اور ان سے پہلے7مارچ کے شمارہ ”ضرب مومن “میں مفتی ابولبابہ نے ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے اختیار کی تھی، اور سعودی رویت کو غیر معتبر اس لئے قرار دیا تھا کہ وہ فلکیات کے ضابطوں پر بقول ان کے پوری نہیں اترتی، اس مسئلہ میں سنت شارع علیہ السلام اور سنت خلفائے راشدین کیا ہے؟ ”ضرب مون کے بانی کی زبانی سنئے“پھر ان حضرات پر ثبت ہمارا استفسار یاد رکھئے۔

مفتی رشید احمد صاحب لکھتے ہیں
حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں اگرچہ ناخواندہ عوام کی اکثریت تھی مع ہذا حساب دان بھی موجود تھے۔
حضرت مفتی صاحب کے بقیہ کلام کو نقل کرنے سے پہلے ہمیں کچھ توقف کرنا ہے۔

رویت کو اگر حساب دانوں کے حساب سے پرکھنے کی شرط سنت نبوی یا خلفائے راشدین کی سنت ہوتی تو حدیث کی کتب میں اس کی تصریح ضرور ہوتی، یا فقہائے کرام رویت کو حساب کے ساتھ موافق ہونے کی شرط لگاتے۔ چاند کی ولادت، اس کا محاق میں ہونا،1600 سالہ مون ایویگیشن، ان موشگافیوں سے تعلّی ، اس کا ذکر دور نبوی عہد خلفائے راشدین، ائمہ مجتہدین، اکابر سلف و خلف کے تعامل میں کہیں نہیں ملتا ہے۔ اسی وجہ سے فلکیات والوں نے میرے مضمون کی مخالفت میں جو شرعی نقطہ نظر پر مشتمل تھا، شرعی حوالہ کے بجائے حسابی مفروضوں کا سہارا لیا۔پھر ایک شہادت یا دو شہادتوں کے بارے میں بھی انہوں نے نا مناسب گفتگو کی ہے جسے اللہ معاف فرمائے،انہیں توبہ کرنی چاہئے اور اس سلسلہ میں بار بار مذکورہ احادیث کوپڑھتے رہنا چاہئے

سعودی رویت، شرعی طریقہ اور ہمارے اکابرکا تعامل

شیخ الحدیث مولانا زکریا مہاجر مدنی رحمہ اللہ ایک مدت تک حرمین شریفین میں مقیم رہے انہوں نے کبھی سعودی رویت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا۔بلکہ ان کے ہاں جب سعودی رویت کا اعلان ہوتا تو اسی کے مطابق ذوق شوق سے اپنے معمولات رمضانیہ وغیرہا کا اہتمام فرماتے۔ ”آپ بیتی نمبر7 صفحہ نمبر13“ میں فرماتے ہیں : شروع رمضان میں چونکہ رویت کا ثبوت دیر میں ہوا تھا اس لئے پہلی شب میں قرآن شریف شروع نہیں ہوا، دوسری تاریخ سے شروع ہوا۔ اسی ”آپ بیتی“ میں حج کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ذی الحجہ کو ٹیلی ویژن وغیرہ پر اعلان ہوا کہ تاریخ بدل گئی ، اور اب حج بجائے20 نومبر کے19 نومبر کو ہوگا۔

اس طرح کے بغیر تشکیک کے سعودی رویت کو قبول کرنے کے بیسیوں واقعات حضرت شیخ اور دیگر اکابر کے ہاں معروف اور موجود ہیں۔

سعودی رویت اور ہمارے مفتیان کرام

حکومت سعودی عرب شرعی ضابطہ کی پابندی کرتی ہے۔۔۔۔ لہذا اگر شرعی ضابطہ کے تحت وہاں کی رو¿یت موصول ہوسکتی ہے تو بالکل اعتبار کیا جائے باقی بے سند افواہوں کی کمی نہیں، لیکن ان کا خیال نہ کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم۔ (مفتی حبیب اللہ قاسمی دارالافتاءمدرسہ عربیہ ریاض العلوم، جونپور، یوپی)

انگلستان میں رویت ہلال دشوار ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ بہتر صورت یہی ہوگی کہ آپ لوگ قمری تاریخوں کا تعین مستقل طور پر سعودی عرب ہی کے تابع رکھیں۔ (مفتی عبدالقدوس رومی، دارالافتاءشاہی جامع مسجد آگرہ)

احقر کو بہت پہلے سے یہ معلوم تھا کہ سعودی عرب میں قمری ماہ کی پہلی تاریخ کا تعین رمضان و عیدین وغیرہ کے لئے کسی جنتری یا حساب وغیرہ پر مبنی نہیں کیا جاتا بلکہ شرعی شہادت ، شرعی اصول اور طریق موجب کے مطابق کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ضیاءالدین لاہوری کا مضمون اس کے خلاف شائع ہوا تھا اس وقت بھی احقر نے اسے غلط اور اتہام بے بنیاد سمجھا تھا، چنانچہ اس کے بعد جلد ہی معتمد علماءسعودی عرب کا تردیدی بیان شائع ہوکر حقیقت واضح ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔ برطانیہ کے کسی شخص نے ہمیں لکھا تھا کہ سعودیہ میں مدار ثبوت رویت محض جنتری پر ہوتا ہے ، اس پر احقر نے لکھا تھا کہ واقعی ایسی بات ہے تو سعودیہ کی رویت ناقابل اعتبار ہوگی، اس کے بعد شیخ عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ، دار الافتاءریاض کا اعلان شائع ہوا کہ ہم لوگ جنتری پر رویت کا حکم نہیں دیتے، بلکہ احادیث کے مطابق شرعی ثبوت ملنے پر مدار ثبوت رویت رکھتے ہیں، تو احقر نے اپنی سابق تحریر سے رجوع نامہ بھی بھیج دیا تھا۔ پھر بھی احقر کی جانب ان باتوں کا منسوب کرنا یہ اور ظلم ہوگا۔ (مفتی نظام الدین، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)

محکمہ موسمیات یا رصد گاہ کی اطلاع کو شرعی اعتبار حاصل نہیں ہے اور شرعی امور بالخصوص عبادات کے اثبات کے لئے وہی ذرائع مفید ہوں گے جنہیں شریعت مطہرہ نے معتبر ٹھہرایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دس سچے کافروں کی گواہی پر فیصلہ نہیں ہوسکتا حالانکہ دو دین دار مسلمانوں کی شہادت حجت ہوجاتی ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ مہینوں کی آمد و رفت کا مدار شریعت نے چاند کے دیکھے جانے پر رکھا ہے۔ چاند کے افق پر موجود ہونے پر نہیں۔(مفتی برہان الدین صاحب سنبھلی، ندوة العلماءلکھنو)

شریعت کو وجود ہلال علی الافق سے بحث نہیں کیونکہ وجود تو اس کا عالم کے کسی نہ کسی افق پر ضرور ہوتا ہے۔ ہاں رویت یا ثبوت رویت کا اعتبار کیا ہے اس لئے یہ وجوب کے معقول عذر کی بناءپر تو ساقط ہوسکتا ہے اس کے بعد ہی کسی چیز کو رویت کا خلیفہ قرار دیا جاسکتا ہے اور رویت کا خلیفہ نصاب شہادت ہے۔ وہ نصاب شہادت جو رویت پر مبنی ہو نہ کی خبر پر اور نہ حساب پر۔(مفتی عزیز الرحمن ، دارالافتاء،بجنور)
کیا مولوی ثمیرا لدین کے محاق اور ویب کے مطالعہ کا جواب کافی و شافی نہیں ہوا۔

فلکیات قطعی یا ظنی اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ

آپ ”رویت ہلال“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ بلا شبہ موجودہ دور میں فن ریاضی و فلکیات نے کافی ترقی کرلی ہے لیکن اس کے باوجودیہ نہیں کہا جاسکتا کہ آج ایک محقق ماہر نے جو کچھ کہدیا وہ حرف آخر ہے آئندہ اس کی تغلیط کوئی نہیں کرسکتا۔ مفتی صاحب آگے لکھتے ہیں کہ29 رمضان بروز جمعہ 1380ھ کے چاند کے بارے میں کراچی اور پنجاب کی آبزرویٹی کے آپس کے حساب میں فرق پڑگیا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے محکمہ موسمیات نے بتایا تھا کہ جمعہ کی شام عید کا چاند نظر آنے کا امکان کم ہے جبکہ اسی چاند کے بارے میں کراچی کی موسمیات والوں نے بتایا کہ چاند نظر آنے کا امکان ہے۔ ۔۔۔ ظاہر بات ہے ان دو رصد گاہوں کے دونوں بیانوں میں ایک صحیح ہوگا اور دوسرا غلط لیکن اتنی بات اس اختلاف سے واضح ہوگئی کہ محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی میں بھی غلطی ہوسکتی ہے اور ان کے حساب کو قطعی اور یقینی نہیں کہا جاسکتا۔

محقق عالم شریعت و طریقت مفتی اور ماہر فلکیات کی فیصلہ کن رائے

سبھی جانتے ہیں کہ حضرت مفتی رشید احمد رحمہ اللہ محقق عالم شریعت وطریقت ، مفتی اور ماہر فلکیات تھے ان کی شرعی رویت، فلکی حسابات اور سعودی رویت کے بارے میں رائے یقینا ہمارے لئے فیصلہ کن حَکم کی حیثیت رکھتی ہے، وہ حکومت پاکستان کی رویت ہلال کے سلسلہ میں دینی رہنمائی کرتے ہوئے چاند کے شرعی ثبوت کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں
حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں اگرچہ ناخواندہ عوام کی اکثریت تھی مع ہذا حساب دان بھی موجود تھے۔۔۔۔۔ وہ زمانہ بالکل خالی نہ تھا اس کے باوجود آپ ﷺ کا ثبوت ہلال میں حساب کو باطل قرار دے کر رویت کو شرط قرار دینا اس پر کھلی دلیل ہے کہ شرعا اثبات ہلال کے لئے حسابی طریقہ استعمال کرنا جائز نہیں اور اس اپر پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ پھر اس پر مفتی صاحب اپنے فتاوی میں شرعی دلائل قائم کرنے کے بعد آگے فرماتے ہیں
اگر حسابی طریقہ کی گنجائش ہوتی تو رویت کے حکم کے بجائے اہل حساب سے دریافت کرنے کا حکم فرماتے، بالخصوص جبکہ حسابی فیصلہ میں کئی سہولتیں بھی ہیں مثلا
رویت کے لئے جد وجہد اور مشقت سے نجات
اختلاف و انتشار سے حفاظت
آئندہ معاملات کے لئے تعیینِ تاریخ میں سہولت وغیرہ۔

مع ہذا حضور اکرم ﷺ نے رویت ہی کو شرط قرار دیا، اس میں حکمت یہ ہے کہ عامة المسلمین کے معاملات اور عبادات کسی ایک یا معدودے چند لوگوں کی رائے اور فیصلہ پر موقوف ہونے کی بجائے عام مسلمانوں کے مشاہدہ سے متعلق رہیں، تاکہ وہ اندھی تقلید کی بجائے علی وجہ البصیرہ عبادات ادا کریں، اور اپنے معاملات وعبادات کو چند انسانوں کے قبضہ میں اور ان کے رحم و کرم پر موقوف نہ سمجھیں، اور اس قسم کے شکوک و شبہات میں گرفتار ہوکر پریشان نہ ہوں کہ شاید چاند کے فیصلہ میں محاسب نے سہوا یا کسی مصلحت سے عمدا غلطی کا ارتکاب کیا ہو چنانچہ شمسی کیلنڈر کا یہی حال ہے، مہینہ28 دن کا ہے یا29 دن یا30 یا31 کا اس بارے میں پوری دنیا چند محاسبین کی کورانہ تقلید کر رہی ہے، بس بوجھ بجھکڑ جو کہدے ماننا پڑے گا۔

حضرت مفتی رشید احمد صاحب اور سعودی رویت
مفتی صاحب احسن الفتاوی جلد6 صفحہ نمبر686 میں فرماتے ہیں
سعودی عرب میں ثبوت ہلال کے لئے حسابی طریقہ ہرگز استعمال نہیں ہوتا وہ اس کو حرام قرار دیتے ہیں اور عینی رو¿یت پر شہادت کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں اس سے متعلق سابق رئیس الجامعہ شیخ ابن باز اور حکومت سعودیہ کی وزارت العدل کی تحریریں میرے پاس موجود ہیں ، عند الطلب ان کی فوٹوکاپیاں ارسال کی جاسکتی ہیں۔

رہا یہ سوال کہ وہاں اتنی جلدی رویت کیسے ہوسکتی ہے؟ تو اسکی کئی ایک وجوہ ہیں اور میں اس وقت ان کو تحریر میں لانے کی ضرورت نہیں سمجھتا، چونکہ وہاں روزہ، عید اور حج وغیرہ احکام شرعی قضاءکے تحت ہوتے ہیں اسی لئے ان کی صحت میں کوئی شبہ نہیں۔

رویت ہلال کے بارے میںان سطور میں مذکور کتاب وسنت کی روشنی میں اور سلف صالحین کے تعامل سے جو ہدایات بیان کی گئیں ان میں امت کی وحدت اور رجوع الی الحق کے لئے بہت کچھ ہے۔ ہماری دعا ہے کہ چاند کے سلسلہ میں ہم ڈیڑھ اینٹ کی مسجد اور ڈیڑھ کوڑی کی امت بناکر جگ ہنسائی کا سامان پیدا نہ کریں ، بلکہ رب وحدہ لا شریک اور خاتم النبیین ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہم رویت کے سلسلہ میں امت واحدہ ہونے کا عملی ثبوت پیش کریں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
رویتِ ہلال ایک تحقیقی جائزہ

(قسط -1)
مولانا حافظ کلیم اللہ عمری مدنی
07/07/2016

رمضان اور عیدین کے مواقع پر رؤیت ہلال کے سلسلے میں علماء امت کے درمیان جو اختلاف چلا آرہا ہے وہ امتِ مسلمہ کے لیے پریشان کن مسئلہ بنا ہوا ہے، جس کے نتیجہ میں جہاں رمضان کے روزوں میں تقدیم وتاخیر ہورہی ہے، وہیں یہ افسوسناک صورتحال دیکھنے میں آتی ہے کہ عیدین کے موقع پر ایک ہی شہر کے مسلمان دو دو، بلکہ تین تین دن عید مناتے ہیں ۔ اس صورت حال سے عوام ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ رؤیت ہلال کے سلسلے میں کس کی رائے شرعاً درست ہے؟ اس مسئلہ میں سوال یہ ہے کہ اختلافِ مطالع کا لحاظ کیے بغیر پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن روزہ رکھا جائے اور ایک ہی دن عید منائی جائے، یا اختلاف مطالع کے پیش نظر تبدیلئ مطلع کی صورت میں مختلف دنوں میں روزہ رکھا جائے اور عید منائی جائے۔

جمہور علماء کی رائے میں اختلافِ مطالع کا پاس ولحاظ رکھنا شرعاً ضروری ہے۔اس سلسلے کے دلائل درجِ ذیل ہیں:
(الف) ۔ کتاب اللہ سے استدلال : 1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرۃ: 185) سو جو شخص اس مہینہ (رمضان) کو پائے اسے ضرور اس میں روزہ رکھنا چاہیے۔ اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبیؒ رقم طراز ہیں: ’’جب کوئی خبر دینے والا کسی مقام پر رؤیت ہلال کی خبر دے تو اس کی دو صورتیں ہوں گی۔ یا تو وہ شہرقریب ہوگایا دور۔ اگر مقامِ رؤیت قریب ہو توحکم ایک ہی ہوگا اور اگر مسافت بعید ہوتو ایک جماعت نے کہا ہے کہ ہر شہر والے کے لیے اپنی ہی رؤیت قابلِ قبول ہوگی، حدیثِ کریب اس پر شاہد ہے‘‘۔

شیخ صالح بن فوزان عبداللہ آل فوزان ؒ نے لکھا ہے : ’’ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کی ابتداء اس وقت سے ہے جب ماہِ رمضان داخل ہونے کا علم حاصل ہوجائے۔ اور یہ علم تین ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔ 1۔ رؤیت ہلال رمضان ۔ 2۔ رؤیت پر شرعی شہادت اور اس کی اطلاع کا حاصل ہونا۔ 3۔ تیسویں شعبان کی رات چاند نظر نہ آنے پر شعبان کی تعداد مکمل کرلینا۔ ‘‘2؂ 2۔ دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الأَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (البقرۃ: 189) لوگ آپ سے ہلال (نئے چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کے اوقات کی تعیین اور حج کے وقت کی تعیین کا ذریعہ ہے۔ ہلال کی لغوی تحقیق : ابوالعباس قرطبی نے لفظ ہلال کی لغوی تحقیق میں لکھا ہے: اَصْلٌ اِسْتَھَلَّ مِنَ الْاِھْلَالِ اَلَّذِی ہُوَ رَفْعُ الصَّوْتِ عِنْدَ رُؤْیَۃِ الْہِلَالِ، ثُمَّ غَلَبَ عُرْفَ الْاِسْتِعْمَالِ فَصَارَ یُفْھَمُ مِنْہُ رُؤْیَۃُ الْہِلَالِ، وَمِنْہُ سُمِّیَ الْہِلاَلُ لِمَا کَانَ یُھَلُّ عِنْدَہُ‘‘ استھل، الاہلال سے مشتق ہے جس کے معنی چاندد یکھنے کے وقت آواز بلند کرنے کے ہیں، پھر اس کا استعمال عرف میں صرف رؤیت ہلال کے لیے خاص ہو گیا۔ صاحب ’’المنجد‘‘ فرماتے ہیں : اَہَلَّ الْہِلَالُچاند ظاہر ہوا۔اَہَلَّ الشَھْرُ قمری مہینہ شروع ہوا۔اَہَلَّ القَوْمُ الْہِلَالَ چاندد یکھنے کے وقت لوگوں نے آواز بلند کی۔ اہلالصبیبچے نے رونے میں آواز بلند کی۔ مندرجہ بالا لغوی تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ ہلال کے معنی میں ظاہر ہونے اور واضح ہونے کا مفہوم مسلّم ہے۔ اور ہلال عربی میں چاند کی اس ابتدائی شکل کو کہتے ہیں جو آسمان پر دکھائی دیتی ہے، فلکی چاند جو دکھائی نہیں دیتا، اس کو ہلال نہیں کہتے، اس کا اصطلاحی نام نیو مون New Moonہے، لہذا قرآن کریم نے تاریخ کی تعیین کا ذریعہ جس چیز کو قرار دیا ہے وہ دکھائی دینے والا ہلال ہے، نہ کہ فلکی یا حسابی چاند۔ 5؂ ہلال دنیا میں پہلی بار نظر آنے کے عموما 24 گھنٹوں بعد قطبین کے علاوہ پوری دنیا میں نظر آجاتا ہے لیکن کبھی کبھی یہ وقفہ دو کی بجائے تین مختلف دنوں تک بھی بڑھ جاتا ہے6؂
سبب نزول: مذکورہ بالا آیت (البقرۃ: 189) حضرت معاذبن جبلؓ اور ثعلبہ بن غنمؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان دونوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا راز ہے کہ چاند دھاگہ کے مانند باریک طلوع ہوتا ہے، پھر بڑا ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ بدرِ کامل بن جاتا ہے، پھر گھٹنے لگتا ہے، یہاں تک کہ پہلے کی طرح باریک ہوجاتا ہے ایک حال پر باقی نہیں رہتا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔7؂ مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ نے بیان فرمایا کہ چاند کے ذریعہ لوگ اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لئے اوقات مقرر کرتے ہیں، روزہ افطار،حج، ماہواری کے ایام ، عدت، قرض اور اجرتیں وغیرہ بہت سی شرطوں کی مدت کے سارے مواعید چاند ہی کے ذریعے معلوم کیے جاتے ہیں۔

New Moon کی حقیقت: ایک مرتبہ ایک سعودی شہزادہ نے خلائی طیارہ Rocket کے ذریعہ خلا کی بلندیوں میں جاکر نئے چاند کو دیکھنا چاہا، مگر واپس آکر اس نے اس امر ہی کی تائید کی کہ نو مولود چاند قابلِ دید نہ تھا، کیوں کہ اس وقت اس کا روشن حصہ سورج کی سمت میں ہوتا ہے۔ اس وقت نہایت پیچیدہ SOPHISTICATED اور طاقتور دوربینوں کی مدد سے بھی اسے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ 8؂ 3۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّشَمْسَ ضِیاَءً والْقَمَرَ نُوْرًا وَقَدَّرَہُ مَناَزِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالحِسَاب.( یونس:5) وہ اللہ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو (بھی) نورانی بنایا اور اس کی (چال کے لیے ) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو۔

اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں: ’’چاند کی ان منازل سے اور رفتار سے ہی مہینے اور سال بنتے ہیں جس سے تمہیں ہر چیز کے حساب کرنے میں آسانی رہتی ہے، علاوہ ازیں دنیوی منافع اور کاروباربھی ان منازل قمر سے وابستہ ہیں۔ دینی منافع بھی اس سے حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح ہلال سے حیض و نفاس، صیام رمضان، اشھرحرم اور دیگر عبادات کی تعیین ہوتی ہے ، جن کا اہتمام ایک مومن کرتاہے‘‘۔9؂ 4۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْم۔ (یس: 39) اور چاند کے لیے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ وہ ایسارہ جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی۔

یعنی چاند کی 28 منزلیں ہیں۔ روزانہ ایک منزل طے کرتا ہے، پھر دو راتیں غائب رہ کر تیسری رات کو نکل آتا ہے۔ جب یہ چاند آخری منزل پر پہنچتا ہے تو بالکل باریک اور چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی ہو، جو سوکھ کر ٹیڑھی ہوجاتی ہے ، چاند کی انہیں گردشوں سے سکان ارض اپنے دنوں مہینوں اور سالوں کا حساب اور اپنے اوقات عبادات کا تعین کرتے ہیں ۔10؂

(ب)۔ احادیث نبوی سے استدلال : 1۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا: لاتَصُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْا اَلْہِلَالَ وَ لَا تُفْطِرُوْ حَتّٰی تَرَوْہُ، فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہُ‘‘ ہَذَا لَفْظُ الْبُخَارِی وَ فِی لَفْظِ لَہٗ ’’فَأَکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ثَلاَثِیْنَ۔11؂ یعنی جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ چھوڑو اور اگر بادل کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو اس کا اندازہ لگالو۔

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: تیس (30) دن کی گنتی پوری کرلو۔ ابن منظور نے غَمَّ الہلالُ غمًّا کا معنی یہ بیان کیا ہے: سَتَرَہُ الغَیْمُ وغیرُہ فَلَمْ یُرَ 12؂ یعنی چاند نظر نہ آنے کا سبب مطلع کاابر آلود ہونا ہی نہیں، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اور سبب سے مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند نظر نہ آئے۔

2۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: اِنَّا اُمَّۃٌ اُمِّیَّۃٌ لاَ نَکْتُبُ وَ لاَ نَحْسِبُ، الشَّھْرُ ھٰکَذَا وَ ھٰکَذَا یَعْنِی مَرَّۃً تِسْعًا وَّ عِشْرِیْنَ وَ مَرَّۃً ثَلاَثِیْنَ۔13؂ بے شک ہم ان پڑھ امت ہیں، نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینہ اتنا اور اتنا ہے۔
یعنی کبھی 29 دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30 دن کا۔

3۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہ فَاِنْ غَبِیَ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوْا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلاَثِیْنَ‘‘14؂ و فی روایۃ لمسلم ’’فاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَصُوْمُوْا ثَلاَثِیْنَ یَوْمًا۔ (رمضان کا ) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا )چاند دیکھ کر روزہ چھوڑو اگر تم پر بادل چھاجائے (اور چاند نظر نہ آئے ) تو شعبان کے 30 دنوں کی گنتی پوری کرو ۔ (بخاری ومسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔

اور مسلم کی روایت ہے کہ: اگر تم پر بادل چھا جائے تو 30 دنوں کے روزے رکھو۔ 4۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا: الفِطْرُ یَوْمَ یُفْطِرُ النَّاسُ وَالأَضْحٰی یَوْمَ یُضَحِّی النَّاسُ۔15؂ عیدالفطر اس روز ہے جب لوگ روزے مکمل کرتے ہیں اور عید الاضحی اس روز ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔

حضرت کریب سے مروی ہے کہ حضرت ام الفضل نے انہیں ملک شام حضرت امیر معاویہ کے پاس بھیجا۔ میں ملک شام پہنچا اور ان کی حاجت پوری کی ۔ ابھی میں وہیں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا، میں نے چاند کو جمعہ کی رات میں دیکھا اور مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ آیا حضرت ابن عباسؓ نے مجھ سے پوچھا :تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی رات۔ پھر انھوں نے فرمایا: کیا تم نے دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں میرے علاوہ اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور حضرت معاویہؓ نے بھی چاند دیکھا اور روزہ رکھا۔ پھر انھوں نے فرمایا: ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، پس ہم 30 دن پورا کریں گے۔ یا ہم اس کو دیکھ لیں، میں نے عرض کیا: کیا معاویہؓ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ فرمایا: نہیں، نبی کریم ﷺ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیاہے۔16؂

(ج) صحابہ کرام اور تابعین عظامؓ کا تعامل: صحابۂ کرام میں حضرت عمربن الخطاب و ابن عباس و ابن عمر رضی اللہ عنھم نے رؤیت ہلال کے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر ابن عابدین نے ’احکام ہلال رمضان‘ ابن السبکی نے العلم المنشور فی اثبات الشہور اور دوسرے مسلم ماہرین فلکیات نے رسالے لکھے ہیں۔ شیخ بخیت نے ارشاد اہل الملۃ الی اثبات الأھلۃ، شیخ طنطاوی جوہری نے ’الہلال‘ نامی کتاب تصنیف کی ہے۔

1۔ دور خلافت عمرؓ :اختلافِ مطالع کا اعتبار حضرت عمرؓ کے دور میں بھی تھا ۔ بعض صحابہ کرامؓ اپنی رؤیت کے حساب سے نویں ذی الحجہ کو میدان عرفات میں پہنچ گئے، مگر مکہ مکرمہ کی رؤیت کے حساب سے وہ دسواں دن تھا (یوم النحر) اور وقوفِ عرفہ ختم ہو چکا تھا ۔ حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ قربانی دے کر واپس لوٹ جائیں، اگلے سال پھر حج کے لیے آئیں۔17؂
2۔ خلفاء راشدین کے دور میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ دار الخلافہ میں چاندنظر آنے پر مملکت کے دور دراز علاقوں میں قاصدین کے ذریعہ اطلاع دی گئی ہو اور وہاں کے لوگوں کو رمضان کے آغاز یا اختتام کا حکم دیا گیا ہو۔ حالانکہ اس زمانہ میں تیز رفتار خبر رسانی کا ذریعہ ’برید‘ موجود تھا۔ اس کے باوجود اس کا نظم نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شرعاً مطلوب نہیں ہے۔

3۔ روی عن عکرمۃ انہ قال ’’لِکُلِّ اَھْلِ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ لِمَا رَوَی کُرَیْبٌ۔18؂ یعنی حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حدیث کریب کی روشنی میں کہا کہ ہر شہر والوں کے لئے ان کی اپنی رؤیت ہوگی ۔

4۔ ایک شہر کی رؤیت کو دوسرے تما م شہر والوں کے لیے لازم قراردینا درست ہوتا تو حضر ت عمرؓ اور دیگر خلفائے اسلام اپنے یہاں چاند دیکھنے کے بعد تمام شہر والوں کو اس کی تعمیل کا حکم دیتے اور اس کا خصوصیت کے ساتھ اہتمام کرتے اور لوگوں کو لکھ کر اس سے آگاہ کرتے، اس لیے کہ دینی امور سے ان کا لگاؤاوران کی دلچسپی کسی سے مخفی نہیں۔19؂

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ صحابہ کرام و تابعین عظام کے زمانے میں ہمیشہ بعض اسلامی شہروں میں چاندپہلے اوربعض شہروں میں اس کے بعد دکھائی دیتا تھا اور یہ روز مرہ کی ان باتوں میں سے ہے، جن میں کسی تبدیلی کا سوال نہیں۔اس پس منظر میں اس طرح کی صورتِ حال پیدا ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوسکتا کہ ان تک بعض دوسرے علاقوں کی خبرمہینہ کے اندرکسی وقت پہنچے اور اگر ان کے لیے قضا کرنی ضروری ہوتی تو وہ اس کا پتہ لگا نے میں حددرجہ اہتمام سے کام لیتے کہ تمام عالم اسلام میں چاند کی رؤیت کہاں کس وقت ہوئی؟ جیساکہ وہ اپنے اپنے شہروں میں اس کے دیکھنے کا اہتمام کرتے تھے پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اکثر رمضانوں میں انہیں اپنے چھوٹے ہوے روزوں کی قضا رکھنی پڑتی اور اگر ایسا ہوتا تو یہ چیز ہم تک نقل ہو کر ضرور پہنچتی، لیکن اس طرح کی کوئی بھی بات جب ہم تک نہیں پہنچی تو اس کا مطلب ہے کہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے اور سرے سے اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، حضرت ابن عباسؓ کی مذکورہ بالا حدیث اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے20؂

شیخ الاسلام نے یہ بات اس ضمن میں تحریر فرمائی ہے کہ اگر کسی شہر میں رؤیت نہ ہوئی ہو اور رؤیت والے شہر سے خبر بھی نہ پہنچ سکی ہو جس کی وجہ سے ان کا ایک روزہ چھوٹ گیا ہو تو ایسی صورت میں ان پر روزہ کی قضا واجب نہیں ہے۔ البتہ صحابہ و تابعین کے اس تعامل سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لیے لازم نہیں ہے۔ (د) محدثین عظام کا نقطۂ نظر : محدثین عظام اختلافِ مطالع کی بنیاد پر ہر شہراور ہر علاقہ کے لئے اپنی رؤیت ہی کو تسلیم کرتے تھے ۔کبھی بھی ان لوگوں نے أم القری کی رؤیت کوسارے عالم کے لئے لازم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کی مساعئ جمیلہ یہی تھیں کہ ہر علاقے کے لوگ اپنے اپنے علاقے میں رؤیت ہلال کی بنیاد پر روزہ رکھیں اور عید منائیں۔

ذیل میں محدثین کرام کے نقطہ نظر کی وضاحت پیش کی جارہی ہے۔

1 ۔ امام نووی ؒ نے صحیح مسلم میں یہ باب باندھا ہے ۔ ’’بابُ بیانِ أنَّ لکلِ بلدٍ رؤیتُھم وأنھم اِذَا رأوا الھلالَ ببلدٍلایثبتُ حکمُہ لما بَعُدَ عَنْھُمْ ‘‘ یعنی اس چیز کا بیان کہ ہر علاقہ کے لیے وہاں کے لوگوں کی رویت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کسی علاقہ کے لوگ چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم دوٗر کے لوگوں کے لیے ثابت نہیں ہوگا۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں: ’’لٰکِنَّ ظَاہِرُ حَدِیْثِہِ أَنَّہُ لَمْ یَرُدَّہُ لِھَذَا وَاِنَّمَا رَدَّہُ لِأَنَّ الرُّؤْیَۃَ لاَ یَثْبُتُ حُکْمُہَا فِی حَقِّ الْبَعِیْد ‘‘21؂

حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے مسافت بعیدہ اور اختلاف مطالع کی وجہ سے کریب کی خبر کو رد کردیا نہ کہ ’’خبر واحد ‘‘ہونے کی وجہ سے۔ امام نوویؒ نے دوسری جگہ لکھا ہے: جب ایک شہر والوں نے چاند دیکھا ہے اور دوسرے شہر والوں نے نہیں دیکھا تو اس صورت میں اگر دونوں شہر قریب قریب ہوں تو ان دونوں کا حکم اختلاف کے بغیر ایک ہی ہوگا اور اگر دونوں شہر دور دور ہوں تو دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔

(1)دوسرے شہروالوں پر روزہ رکھنا ضروری نہیں ہوگا۔ (2)ضروری ہوگا کہ روزہ رکھیں۔ ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت ہی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ 21؂۔

الف 2 ۔ امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں اس طرح باب باندھا ہے ’’ باب اذا رؤي الھلال فی بلدٍ قبلَ الآخرین بلیلۃٍ ‘‘ (باب اس بیان میں کہ جب چاند کسی شہر میں دوسروں سے ایک دن قبل نظر آجائے تو کیا کیا جائے؟)
اس حدیث کی شرح میں صاحب عون المعبودؒ فرماتے ہیں : ’’ابن عباسؓ کے قول ھکذا امرنا رسول اللہ ا سے احتمال ہے کہ مراد یہ ہو کہ افطار کے سلسلہ میں خبرواحد کو قبول نہ کریں۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ ہم اپنی ہی رؤیت کا اعتبار کریں گے ۔ محدث کے باب سے دوسرے معنی کی طرف رجحان ظاہر ہوتا ہے۔‘‘22؂ 3 ۔ امام ترمذی ؒ نے اپنی جامع میں یہ باب باندھا ہے ’’ باب لکل أھل بلد رؤیتھم‘‘۔ حدیث کریب نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : العملُ عَلَی ھَذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَ أَھْلِ الْعِلْمِ اَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ 23؂ یعنی اہل علم کے مابین اس حدیث کے مطابق عمل ہے کہ ہرعلاقے کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ 23؂ شارح ترمذی مولانا عبدالرحمن مبارکپوری ؒ نے لکھا ہے : جن شہروں کے مطالع میں اختلاف نہیں ہے ان میں سے ایک کی رؤیت دوسرے شہر کے لئے لازما تسلیم کی جائے گی ۔ایک روایت میں یہی قول اہل عراق کا بتایا گیا ہے۔24؂
4 ۔ امام نسائی ؒ نے : ’باب اختلاف أھل الآفاق فی الرؤیۃ ‘(باب اس حکم کے بیان میں کہ جب مختلف ممالک کے باشند ے رؤیت ہلال کے سلسلے میں مختلف ہوں) کے تحت حدیث کریب (2113) نقل کی ہے۔ امام سندیؒ نے سنن نسائی کے حاشیہ میں لکھا ہے: ’’اِنَّ الْمُرَادَ بِہٖ أَن لاَّ تُقْبَلَ شَھَادَۃُ الْوَاحِدِ فِی حَقِّ الْاِفْطَارِ أَوْ أَمَرَنَا أںْ نَعْتَمِدَ عَلَی رُؤْیَۃِ أَھْلِ بَلَدِنَا وَلاَ نَعْتَمِدَ عَلَی رُؤْیَۃِ غَیْرِھِمْ وَاِلَی الْمَعْنَی الثَّانِی تَمِیْلُ تَرْجَمَۃُ الْمُصَنِّفِ وَغَیْرُہُ لٰکِنَّ الْمَعْنَی الْأَوَّل مُحتَمَلٌ فَلاَ یَسْتَقِیْمُ الْاِسْتِدْلَالُ اِذِ الْاِحْتِمَالُ یُفْسِدُ الْاِسْتِدْلَالَ کَاَنَّھُمْ رأَوْا اَنَّ الْمُتَبَادِرَ ھُوَ الثَّانِیْ فَبَنَوْا عَلَیْہِ الْاِسْتِدْلاَلَ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ ‘‘25؂ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہم افطار کے سلسلہ میں خبر واحد کو قبول نہ کریں یا ہم اپنے شہر کی رؤیت پر ہی اعتماد کریں اور دوسرے شہر کی رؤیت کو تسلیم نہ کریں۔ دوسرے معنی کی طرف ہی محدث اوردوسروں کا میلان ورجحان ظاہر ہوتا ہے۔لیکن پہلا مطلب بھی محتمل ہے، لہٰذا احتمال ہونے کی وجہ سے استدلال درست نہیں ہوگا ۔ گویا انہوں نے متبادرمفہوم کو دیکھا اور اسی پر استدلال قائم کرلیا۔ واللہ اعلم

5 ۔ امام ابن خزیمہؒ نے یہ باب قائم کیا ہے: ’’ اَلدَّلِیْلُ عَلیٰ اَنَّ الْوَاجِبَ عَلیٰ اَھْلِ کُلِّ بَلَدَۃٍ صِیَامُ رَمْضَانَ لِرُؤیَتِھَمْ لاَ رُؤیَۃِ غَیْرِھِمْ‘‘ یعنی اس بات پر دلیل کہ ہر علاقہ والے کے لیے اپنی ہی رؤیت پر رمضان کے روزے کا آغاز کرنا ضروری ہے اور اس کے تحت حدیث کریب کو نقل کیا ہے اور اپنے موقف کی دلیل کے لئے اسی سے استدلال بھی کیا ہے۔26؂

6 ۔ ابن ابی شیبہؒ نے اپنی کتاب مصنف میں اس طرح تبویب کی ہے:’’وَفِی الْقَوْمِ یَرُوْنَ الْھِلَالَ وَلاَ یَرَاہُ الآخَرُوْنَ ‘‘ یعنی قوم کے کچھ لوگ دیکھیں اور کچھ لوگ چاند نہ دیکھیں تو کیا حکم ہے ؟ ایک اور حدیث جس کی روایت ابن ادریس نے عبداللہ بن سعید سے کی ہے کہ مدینہ میں لوگوں نے رؤیت ہلال کا ذکر کیا اورکہا کہ ’اہل استارہ‘نے چاند دیکھا تو سالم اور قاسم نے کہا کہ ’’مَالَنَا وَلِأھْلِ اِسْتَارَۃ ‘‘یہ رؤیت اہل استارہ کے لئے ہے ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہے۔27؂

7 ۔ امام بغوی ؒ نے فرمایا ہے: جب چاند کسی علاقہ میں دیکھا گیا ہو اور دوسریعلاقہ والوں نے ایک دن بعد دیکھا ہو تو اہل علم کا اس میں اختلاف ہے۔ ان میں سے ایک بڑی جماعت کاموقف یہ ہے : ’اِنَّ لِکُلِّ اَھْلِ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ‘ یعنی ہر علاقہ کے لیے وہاں کے لوگوں کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ تابعین میں سے قاسم بن محمد،سالم بن عبداللہ بن عمر ، عکرمہ اورمحدثین میں سے اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ نے حدیث کریب سے ہی استدلال کیا ہے۔28؂ حدیث کریب کی روایت بیہقی نے اپنی السنن الکبری (باب الہلال یری فی بلد ولا یری فی آخر) اور دارقطنی نے اپنی سنن (باب الشہادۃ علی رؤیۃ الہلال) میں کی ہے۔ 8 ۔ محدث العصر ناصر السنۃ علامہ محمد ناصرالدین البانی نے اس سلسلے میں یہ نصیحت کی ہے: ’’جب تک تمام ممالک اسلامیہ کسی نقطۂ اتحادِ رؤیت پر متفق نہ ہوجائیں اس وقت تک ہر ملک کے باشندوں کو میری رائے میں اپنے ملک اور اپنی حکومت کے ساتھ روزہ رکھنا چاہئے۔اختلاف کرکے الگ الگ نہ بٹ جائیں کہ کوئی اپنے ملک کی رؤیت پر اور کوئی دوسرے ملک کی رؤیت پر عمل کرنے لگے ۔ اپنے ملک کی رؤیت پر روزہ رکھنا چاہیے، خواہ دو ایک دن آگے پیچھے ہی کیو ں نہ ہو ۔کیونکہ ایسا نہ کرنے سے ایک ہی ملک والوں کے درمیان اختلاف وانتشار کے وسیع ہونے کا خطرہ ہے، جیساکہ بدقسمتی سے بعض عرب ممالک میں ہورہا ہے۔واللہ المستعان‘‘ 29؂ (ھ)

فقہاء کرام کی آراء :
1۔ صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب ’مختارات النوازل‘ میں ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے: ’’ایک شہر والوں نے رؤیت ہلال کے بعد 29 روزہ رکھے اور دوسرے شہر والوں نے چاند کی رؤیت کی بنا پر تیس روزے رکھے تو اگر ان دونوں شہروں میں مطلع کا اختلاف نہ ہو تو 29 روزے رکھنے والوں کو ایک دن کی قضا کرنی ہوگی اور اگر دونوں شہروں کا مطلع جداگانہ ہو تو قضا کی ضرورت نہیں‘‘۔

2-قدوری میں ہے کہ اگر دو شہروں کے درمیان ایسا تفاوت ہو کہ مطلع تبدیل نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں رؤیت لازم ہوگی۔

3- علامہ عبدالحئی لکھنوی کا فیصلہ اس طرح ہے: ’’عقل و نقل ہر دو اعتبارسے سب سے صحیح مسلک یہی ہے کہ ایسے دو شہر، جن میں اتنا فاصلہ ہو کہ ان کے مطالع بدل جائیں، جس کا اندازہ ایک ماہ کی مسافت سے کیا جاتا ہے، اس میں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لئے معتبر نہیں ہونی چاہیے اور قریبی شہروں میں جن کے مابین ایک ماہ سے کم کی مسافت ہو، ان میں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لئے لازم و ضروری ہوگی‘‘۔30؂

4۔ علامہ ابن رشد ؒ نے لکھا ہے کہ ’’امام مالک ؒ کے مدنی شاگردوں نے ان سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر ایک شہر میں رؤیت ہوجائے تو دوسرے تمام شہر والوں پر یہ رؤیت لازم نہ ہوگی، الاّ یہ کہ حاکم وقت اس کو لازم قرار دے تو اس کی بات مانی جائیگی‘‘ اور یہی بات ابن ماجشون اور امام مالک کے اصحاب میں سے مغیرہ نے کہی ہے31؂

5۔ علامہ ابن قدامہؒ ( متوفی 620ھ) فرماتے ہیں : ’’جب ایک شہر والے چاند دیکھ لیں تو سارے شہر والوں پر روزہ رکھنا لازم ہے۔ یہ لیث بن سعد اور بعض شوافع کا قول ہے ‘‘اس میں سے بعض نے کہا کہ اگر دو شہروں کے مابین اتنی قریبی مسافت ہو جس کی وجہ سے مطالع کا اختلاف لازم نہ آتا ہو جیسے بغداد اور بصرہ۔ ان دونوں شہر والوں پر روزہ رکھنالازم ہے، کسی ایک جگہ کی رؤیت کی وجہ سے ۔ اگر دونوں شہروں کے مابین دوری ہے جیسے عراق و حجازاور شام ، تو ہر شہر والوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہی معتبر ہوگی‘‘۔

6۔ عکرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حدیث کریب سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا: ہر شہر والوں کے لئے ان کی اپنی رؤیت ہوگی یہی قاسم، سالم اور اسحاق بن راھویہ رحمھم اللہ کا مذہب ہے۔32؂

7۔ علامہ ابن کثیر ؒ نے فرمایا: ’’امام شافعی ؒ کے مذہب میں یہ مشہور ہے کہ جب کسی شہر والوں نے چاند دیکھا تو ان پر اور ان لوگوں پر جن کا مطلع ان کے ساتھ متحد ہے، روزہ رکھنا واجب ہے اور اگر مطلع کا اختلاف ہو تو وجوب کا حکم عام نہیں ہو گا‘‘33؂ (و)

جمہور علماء کی رائے اور ان کی مساعی جمیلہ:
1۔ علامہ ابن عبد البر فرماتے ہیں: ’’علماء امت کا اجماع ہے کہ رؤیت ہلال کے سلسلے میں بہت زیادہ مسافت کی دوریاں رکھنے والے دو ملکوں کے مابین ایک دوسرے کی رؤیت کا اعتبار نہ ہوگا، جیسے اندلس جو خراسان سے دور ہے ان دونوں کی رؤیت کا باہمی اعتبار نہ ہوگا، الاّ یہ کہ ملک اگر بڑا ہو تو ایسے ملک جن کے علاقے کی سرحدیں مسلمانوں کے شہر سے قریب ہیں تو وہاں کی رؤیت باہم معتبر ہوگی۔34؂ 2۔ ڈاکٹررواس قلعجی رقم طراز ہیں :حدیث کریب کی روشنی میں دو مسئلے ایسے ہیں جن میں عبداللہ بن عباسؓ کی رائے کا بیان کرنا ازحد ضروری ہے: (1) ممالک کے مختلف ہونے سے مہینہ کی ابتدا اور انتہا کا مختلف ہونا۔ حضرت ابن عباسؓ کی رائے یہ تھی کہ کسی ملک میں مہینہ کا آغاز دوسرے ملک کے آغاز سے مختلف ہو سکتا ہے، لہٰذا جس دن اہل شام رؤیت ہلال کی بنا پر روزہ رکھیں گے اس دن اہل حجاز روزہ رکھنے کے مجاز نہ ہوں گے اس لئے کہ ان کے یہاں چاند نظر نہیں آیا۔ (2) مہینہ کا آغاز رؤیت ہلال سے ہوگا، نہ کہ چاند کے بڑے اور چھوٹے ہونے سے۔ لہٰذا اگر چاند نظر نہ آئے تو نئے مہینہ کے آغاز کے لئے تیس دن پورے کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ ابوالبحتری سعید بن فیروز فرماتے ہیں کہ ہم عمرہ کے لیے نکلے۔ جب ہم وادی نخلہ پہنچے تو ہمیں چاند نظر آیا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تیسری رات کا چاند ہے، بعض نے کہا کہ دوسری رات کا چاند ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہماری ملاقات ابن عباسؓ سے ہوئی میں نے کہا: ہم نے چاند دیکھا، بعض نے اسے تیسری رات کا بتایا تو بعض نے دوسری رات کا شمار کیا۔ حضرت ابن عباسؓ نے دریافت کیا: آپ لوگوں نے چاند کس رات دیکھا تھا، ہم نے کہا: فلاں رات کو۔ ابن عباسؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس کو رؤیت کے لیے دراز کردیا۔ وہ اسی رات کا ہے جس رات کو تم نے دیکھا ہے35؂ 3۔ صاحب سبل السلام فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:اِذَا رَأیْتُمُوْہُ فَصُوْمُوْا ‘‘ یہ مخصوص لوگوں سے خطاب ہے۔ اس مسئلہ میں اہل علم کے متعدد اقوال ہیں۔ ان اقوال میں زیادہ قریب یہی ہے کہ کسی شہر والوں کے لئے اور اس سے متصل علاقوں کے لیے اس جگہ کی رؤیت کو لازم قرار دیا جائے۔ ’’اِذَا رَأیْتُمُوْہُ‘‘خطاب لأناس مخصوصین بہ وفی المسئلۃ أقوال و الأقرب لزوم اھل بلد الرؤیۃوما یتصل بھا من الجھات التی علی سمتھا36؂۔مزید یہ فرماتے ہیں کہ ’’اہل شام کی رؤیت اہل حجاز کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی۔ حضرت کریب ؒ نے 31واں روزہ (شام کے حساب سے) رکھا۔ اس لیے کہ اہل مدینہ کے حساب سے وہ تیسواں روزہ تھا۔37؂ 4۔ جناب شمس پیر زادہ رقم طراز ہیں: ’’ہندوستان کا مطلع ایک ہی ہے، لہٰذا ہندوستان میں عام طور پر تاریخیں یکساں رہتی ہیں، البتہ رمضان اور شوال کے چاند کے سلسلہ میں ایک حصہ اور دوسرے حصے کے درمیان اختلاف رہتا ہے لیکن چونکہ عام طور سے یکسانیت پائی جاتی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ پورے ملک کے لیے ایک مطلع کا حکم نہ لگایا جائے۔ مجلس تحقیقات شرعیہ لکھنو نے واضح طور سے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ایک ملک کے جس گوشے میں بھی چاند دیکھا جائے وہ پورے ملک کے لئے معتبر ہوگا۔ ہندوپاک کے بیشتر حصوں اور بعض قریبی ملکوں مثلاً نیپال وغیرہ کا مطلع ایک ہی ہے۔ علمائے ہند و پاک کا عمل ہمیشہ اس پر رہا ہے۔ اور غالبا تجربہ سے بھی یہی بات ثابت ہے‘‘۔38؂ 5 ۔ حافظ صلاح الدین یوسف نے لکھا ہے ’’ ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقے کے لئے معتبر ہوگی یا نہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے اور دونوں گروہوں کے استدلال کی بنیاد یہی حدیث ہے۔ صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہِ (بخاری ومسلم ) ایک تیسرا گروہ ہے جس کا موقف یہ ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں، یعنی ان کے طلوع وغروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان میں ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقوں کے لئے کافی ہے۔ پاکستان میں تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے تقریبا یہی موقف اختیارکیا ہے، جس کا اظہار مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کی صورت میں مسلسل کئی سالوں سے ہورہا ہے۔ پاکستان میں کسی ایک جگہ رؤیت ہلال کااگر شرعی شہادتوں کی روشنی میں اثبات ہوجاتا ہے تو یہ کمیٹی اسے پورے ملک کے لئے کافی سمجھتی ہے۔ بہرحال یہ ایک معتدل موقف ہے جس پر عمل کی گنجائش ہے۔39؂

مکمل تحریر ➮ http://mazameen.com/?p=6390
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم اسحاق صاحب
السلام علیکم
ساری تفصیل پڑھ لی ہے ۔کتاب کا مطالعہ باقی ہے۔

جس نظام پر شک کر کے چاند کی تصدیق کیلئے رویت لازمی قرارد دیتے ہیں ان سے سوال ہے کہ وہ اسی نظام پر بھروسہ کرکے روزہ کیسے رکھ اور کھول لیتے ہیں۔
جس طرح یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال دیکھ رمضان شروع کر نے اور ختم کر نے کا حکم دیا ہے ۔ اسی طرح قران کی آیت میں یہ حکم بھی تو موجود ہے مفہوم:"تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاه دھاگے سے ظاہر ہوجائے" ۔ اس پر عمل کیوں نہیں کرتے اور نظام اوقات کے کلینڈر پر کیوں بھروسہ کرتے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
ایک امت، ایک چاند، ایک رمضان اور ایک عید

اس سال روئیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا کہ اس دفعہ پورا پاکستان ایک دن رمضان شروع کر رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان درست نہ تھا کیونکہ نہ صرف پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بلکہ وزیرستان کے مسلمان بھی ایک دن پہلے امت مسلمہ کے ساتھ رمضان کی شروعات کر چکے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ پاکستان نے قومیت کی بنیاد پر چاند قبول کرکے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ مفتی منیب صاحب اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا مفتی صاحب امت کو بتا سکتے ہیں کہ کہ قومیت پر مبنی روئیتِ ہلال کی اس بدعت کی شریعت سے کیا دلیل ملتی ہے۔​

استعمار نے خلافت کا خاتمہ کر کے نہ صرف مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں تقسیم کر دیا بلکہ اس نے ہر حصے کو ایک مخصوص قومیت، قومی ترانہ، جھنڈا اور چاند بھی دے دیا۔ جھنڈے مسلمانوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لئے اور چاند امت کی مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نے ایسے افراد بھی عوام کے سروں پر بٹھا دئے جو اس تقسیم کو اسلام سے ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ قومیت کو اسلامی بنا کر پیش کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی مکہ سے فطری محبت کو توجیہ کے طور پر پیش کیا گیا جبکہ ہر قسم کی عصبیت کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی واضح احادیث میں حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح آج قومیت پر مبنی روئیت کو ’’اختلاف مطلع‘‘ کی فقہی رائے میں چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس کا قومی روئیت کی بدعت سے سرے سے کوئی تعلق نہیں۔​

’’اختلاف مطلع‘‘ محض شوافع کے ہاں پایا جاتا ہے جس کا احناف، مالکیہ اور حنابلہ انکار کرتے ہیں اور اس کو قوت دلیل کی بنیاد پر رد کرتے ہیں (اس کی تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیے)۔ یہ رائے اس قدر کمزور دلیل پر مبنی تھی کہ بعد میں آنے والے شافعی فقہاء نے بھی اس سے رجوع کر لیا۔ امام نووی ؒ جنہوں نے شرح مسلم تحریر فرمائی اور جو مسلکاً شافعی ہیں لکھتے ہیں: ’’ ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ کسی ایک جگہ چاند کا نظر آنا تمام روئے زمین کو شامل ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 348)۔ پس ثابت ہوا کہ شوافع بھی اس رائے میں تقسیم ہیں۔ لیکن دیگر مسالک میں ’’اختلاف مطلع‘‘ کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ چنانچہ ’’اختلاف مطلع‘‘ ایک کمزور دلیل پر مبنی ایک اسلامی رائے ضرور رہی ہے لیکن اسے موجودہ قومیت پر مبنی روئیت کے لئے بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اختلاف مطلع کو درست مان لیا جائے تو پشاور کا مطلع جلال آباد کے ساتھ ملتا ہے نہ کہ کراچی کے ساتھ۔ ایسے میں پشاور کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ افغانستان کے علاقے میں دیکھے جانے والے چاند کو قبول کریں نہ کہ کراچی کی روئیت کو۔ یہی معاملہ لاہور اورامرتسر کا ہے اور پاکستانی شہر تفتان اور ایرانی شہر میرجادہ کا۔ 1971 سے قبل ہم بنگلہ دیش کا چاند ماننے کے لئے تیار تھے جو کہ ہزاروں میل دور واقع ہے مگر اب بنگلہ دیش کاچاند، ’’مطلع‘‘ سے باہر ہوگیا ہے؟! کیا بنگلہ دیش نے اپنا مقام بدل لیا ہے یا ہم برصغیر سے باہر نکل کر یورپ چلے گئے ہیں؟! پس ثابت ہوا کہ معاملہ جغرافیائی قربت یا بُعد کا نہیں بلکہ قومیت پر مبنی تقسیم کا ہے۔ لہذا اختلاف مطلع کی شرعی بحث یہاں بے سود ہے۔​

درحقیقت پاکستان کے حکمرانوں کو یہ اجازت ہی نہیں کہ وہ انگریز کی کھنچی ہوئی ’’مقدس‘‘ لکیروں کو کسی بھی بنیاد پر مٹانے کی جسارت کر سکیں۔ استعمار نے اس کی اجازت نہیں دے رکھی کہ ان کے ایجنٹ مسلمانوں میں کسی بھی قسم کی وحدت کو پروان چڑھنے دیں۔ اس کا حکم لارڈ کرزن نے خلافت کے انہدام کے بعد اپنی مشہور تقریر میں دیا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’ہمیں ہر اس چیز کو ٹھکانے لگا دینا چاہئے جو مسلمانوں کی نسل کے درمیان کسی بھی قسم کا اسلامی اتحاد پیدا کرتی ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی خلافت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ لہذا ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ مسلمان میں دوبارہ اتحاد پیدا نہ ہو سکے، نہ فکری اتحاد نہ تمدنی اتحاد‘‘۔​

رہی یہ بات کہ دیگر علاقوں میں نظر آنے والے چاند کی شہادت حاصل کرنامشکل ہے تو یہی فقہاء حج کرتے وقت کیوں سعودی روئیت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں؟ کیا پاکستان کے باہر کوئی بھی قابل قبول اور ثقہ مسلمان نہیں بستا جس کی شہادت قبول کی جاسکے؟ اور عمومی طور پر چاند کئی ممالک میں نظر آتا ہے محض کسی ایک شخص کو نہیں؟ کیا یہاں کی روئیت ہلال کمیٹی دیگر مسلمان ممالک کی روئیت ہلال کمیٹی سے رابطہ کرکے شہادت کی صحت کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتیں؟ یہ سب وہ اقدامات ہیں جو بآسانی کئے جاسکتے ہیں لیکن افسوس ہمارے علماء یہ قدم اٹھا کر اپنے حکمرانوں اور ان کے آقاؤں کو ناراض کرنے کے لئے تیار نہیں۔​

آئیے اب نظر ڈالتے ہیں ان دلائل پر جو رمضان اور عید کے چاند کی روئیت کے بارے میں قرآن و سنت میں وارد ہوئے ہیں:​
۰ حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: صوموا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ فإن غمی علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلاثین یوماً​
’’اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے رکھو اور اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے افطار کر لو، اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو ۳۰ دنوں کی گنتی پوری کر لو‘‘ (بخاری)۔​
O حدیث میں صوموا، افطروا اور لرؤیتہ کے الفاظ قابل غور ہیں
O ’’صوموا‘‘ اور ’’افطروا‘‘ جمع کے صیغے ہیں جو تمام مسلمانوں کو محیط ہیں۔ یعنی تم سب مسلمان روزہ رکھو اور افطار کرو۔
O لفظ ’’لرؤیتہ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’اس کے دیکھے جانے پر‘‘۔ واضح رہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں کو فرداً فرداً چاند دیکھنے کا حکم نہیں دیتی بلکہ کسی اور کے چاند دیکھنے کو کافی قرار دیتی ہے۔
O چنانچہ حدیث کا مطلب ہے کہ چاند کے دیکھے جانے پر تمام مسلمان روزے شروع کریں یعنی رمضان شروع کریں اور تمام مسلمان روزہ رکھنا چھوڑ دیں یعنی عید کریں
O یہ حدیث رمضان کی شروعات اور اختتام کو چاندکے دیکھے جانے کے ساتھ منسلک کرتی ہے جبکہ اس بات کی کوئی تخصیص نہیں کرتی کہ یہ چاند کون دیکھے۔ وہ شخص اچھا مسلمان ہو یا کافر وغیرہ۔ اس کی تخصیص اگلی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

۰ امام سرخسیؒ نے المبسوط میں ابن عباسؓ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے: ’’مسلمانوں نے صبح روزہ نہ رکھا کیونکہ انہیں چاند نظر نہ آیا۔ پھر ایک بدو پہنچا اور اس بات کی شہادت دی کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔ تو رسول اللہ ا نے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ بدو نے کہا: ہاں! آپ ا نے فرمایا: اللہ اکبر!تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے۔ پس آپ ا نے روزہ رکھا اور تمام لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ‘‘ ۔ اس حدیث کو ابو داؤدؒ نے بھی ابن عباسؓ سے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے (سنن ابو داؤد حدیث نمبر ۲۳۳۳)۔​
O آپ ﷺ نے ایک اعرابی کی رویت کو، جسے آپ ﷺ شاید جانتے بھی نہ تھے، قبول کیا جس نے مدینہ کے باہر چاند دیکھا تھا
O یہ حدیث اپنے علاقے سے باہر چاند نظر آنے کے حکم کو بیان کرتی ہے کیونکہ وہ بدو مدینہ کے باہر سے آیا تھا
O آپ ﷺ نے اس کی رؤیت کو قبول کرنے کی محض ایک شرط لگائی یعنی کہ آیا کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں
O مندرجہ بالا دونوں حدیث کو جوڑ کر حکم یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی بھی مسلمان چاند کے دیکھے جانے کی گواہی دے دے تو اس کی گواہی معتبر سمجھی جائیگی اور تمام مسلمانوں پر فرض ہو جائے گا کہ وہ اس کے مطابق رمضان کی شروعات اور اختتام کریں
O رہی بات یہ کہ وہ اگر جھوٹ بول رہا ہو تو گناہ کا وبال اس کے سر ہوگا اور ہم اللہ کے ہاں حکم شرعی پر چلنے کی وجہ سے سرخرو ہوں گے
O اس حدیث میں رسول اللہﷺ کا یہ کہنا کہ ’’تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے‘‘ قابل ذکر ہے اور اس سے رو گردانی نہیں کی جانی چاہئے رمضان کے مسئلے کی وضاحت کے بعد عید کے دن کے مسئلے کی وضاحت بھی ضروری ہے : جیسا کہ رمضان کے آغاز کا فیصلہ چاند نظر آنے پر ہوتا ہے اسی طرح عید کاانحصار بھی چاند کے نظر آنے پر ہے۔ اس سے متعلق ابوہریرہؓ نے رسول اللہ ﷺسے یہ حدیث روایت کی ہے : ’’رسول اللہ ﷺنے دو دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے : عیدالاضحیٰ اور عید الفطرکے دن‘ ‘(بخاری و مسلم)۔
یہ حدیث درست عید کا دن متعین کرنے کو انتہائی اہم مسئلہ بنا دیتی ہے۔ آئیے اب عید سے متعلق احادیث کا مطالعہ کریں:​

۰ ابو عمیر بن انس بن مالک نے روایت کیاہے : ’’ہمیں شوال کا چاند بادلوں کی وجہ سے نظر نہ آیالہٰذا ہم اگلے دن روزے سے رہے۔ لیکن دن کے آخری حصے میں چند مسافر مدینہ آئے اور انہوں نے رسول اللہ ا کے سامنے شہادت دی کہ انہوں نے گذشتہ روز چاند دیکھ لیا تھا، پس رسول اللہ ا نے لوگوں کو روزہ توڑنے اور اگلے روز عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا‘‘(ابن ماجہ)۔​
O لہٰذا اگر مسلمانوں کو اپنے خطے میں چاند نظر نہ آئے اور وہ رمضان کو جاری رکھے ہوئے ہوں لیکن بعد میں انہیں یہ پتہ چلے کہ کسی اور خطے میں چاند نظر آ چکا ہے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ روزہ توڑ دیں ۔ ان واضح دلائل کی بنیاد پر فقہائے حنفی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اختلاف مطلع کا کوئی اعتبار نہیں، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’درمختار‘ میں درج ہے ؛’’مطلع مختلف ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اگر مغربی ممالک والے چاند دیکھ لیں تو مشرقی ممالک کو اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔‘‘(جلد اول، صفحہ 149)۔ احناف کی دیگر کتابوں جیسے فتاویٰ عالمگیری، فتح القدیر، بحرالرائق، طحاوی، زیلعی وغیرہ میں بھی یہی درج ہے۔ مالکی اور حنبلی فقہ کا بھی اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ ’’اختلاف مطلع کے غیر معتبر ہونے پر ہمارا بھی اعتبار ہے اور مالکیوں اور حنابلہ کا بھی۔‘‘ (شامی جلد4، صفحہ 105)۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں: اگر لوگ رمضان سمجھ کر عید الفطر کے دن روزہ رکھ رہے ہوں اور پھر ان تک قطعی ثبوت پہنچ جائے کہ رمضان کا نیا چاند ان کے رمضان شروع کرنے ایک دن پہلے دیکھ لیا گیا تھا اور اب وہ (درحقیقت) اکتیسویں )۳۱) دن میں ہیں، تو انہیں اس دن کا روزہ توڑ لینا چاہئے، چاہے جس وقت بھی ان تک یہ خبر پہنچے۔‘‘ (موطا، کتاب ۱۸، نمبر ۴۔۱۔۱۸) جہاں تک شافعیوں کا تعلق ہے تو وہ ایک رائے پر متفق نہیں جیسا کہ علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ: ’’ ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ کسی ایک جگہ چاند کا نظر آنا تمام روئے زمین کو شامل ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 348) ابن تیمیہ ؒ الفتاویٰ جلد پنجم صفحہ ۱۱۱ پر لکھتے ہیں: ’’ایک شخص جس کو کہیں چاند کے دیکھنے کا علم بروقت ہو جائے تو وہ روزہ رکھے اور ضرور رکھے، اسلام کی نص اور سلف صالحین کا عمل اسی پر ہے۔ اس طرح چاند کی شہادت کو کسی خاص فاصلے میں یا کسی مخصوص ملک میں محدود کر دینا عقل کے بھی خلاف ہے اور اسلامی شریعت کے بھی‘‘۔

جہاں تک برصغیر کے علماء کا تعلق ہے تو ان کا بھی یہی فتویٰ ہے ۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں: ’’ہمارے آئمہ کے صحیح اور معتمد مذہب کے مطابق مسئلہ ہلالِ رمضان و عیدمیں ہلال کی روئیت کے فاصلے کا کوئی اعتبار نہیں۔ مشرق کی روئیت مغرب والوں پر حجت ہے و بالعکس( یعنی کہ اسی طرح مغرب کی روئیت مشرق والوں پر)۔‘‘ ( فتاویٰ رضویہ جلد4، صفحہ 568)۔ مولانا رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں ،’’اگر کلکتہ میں چاند جمعہ کی رات کو نظر آیا اور مکہ میں رمضان جمعرات سے شروع ہو چکا ہو، تو جب بھی اس بات کا پتہ چلے گا تو ان کیلئے ضروری ہو گا کہ وہ عید مکہ والوں کے ساتھ منائیں اور پہلا روزہ قضا کریں۔‘‘(کوکب دری شرح ترمذی صفحہ 336)۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ ’’ اگر کسی بھی جگہ بھی روئیت ثابت ہو جائے‘ اگرچہ وہ کتنی ہی دور جگہ ہو ، اگرچہ ہزاروں کوس دور ہو ، تو یہاں والوں پر بھی حکم روزہ افطار کرنے کا حکم اس کے موافق ہو جائے گا۔‘‘ (جلد 6، صفحہ380) پس رمضان اور شوال کے آغازکا اعلان (یعنی عید الفطر کا اعلان )چاند کو دیکھنے کے اسلامی طریقہ کار کے مطابق ہونا چاہئے۔​

جہاں تک سائنسی حساب کتاب کا تعلق ہے، اس کو بنیاد بنانا شریعت کی رو سے مردود ہے۔ عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: ((اِنَّا أمۃٌ اُمےۃٌ لا نکتب و لا نحسب الشھر ھکذا وھکذا یعنی مرۃ تسعۃ و عشرین و مرۃ ثلاثین))’’ہم ان پڑھ لوگ ہیں، ہم نہ تو لکھتے ہیں اور نہ ہی اندازہ مقرر کرتے ہیں ۔ مہینہ یا تو اس طرح ہوتا ہے یا اس طرح، یعنی کبھی انتیس دن اور کبھی تیس دن ‘‘(بخاری) ۔ یہ حدیث دراصل فصاحتِ بیان کا ایک انداز ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم حساب کتاب نہیں کرتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ ااورآپ کے صحابہ کرامؓ اس دور میں تمام لوگوں سے زیادہ روشن فکرتھے اوروہ زکوۃ،عشر، خراج کا حساب کیا کرتے تھے اور ستاروں کی مدد سے سفر میں سمت کا تعین بھی کیا کرتے تھے۔ لہٰذا اس حدیث میں رسول اللہ ﷺکے یہ الفاظ دراصل چاند کوآنکھ سے دیکھنے کی اہمیت اور حساب کتاب کے ذریعے چاند کی روئیت کے اندازے لگانے کی ممانعت پر دلالت کرتے ہیں۔ حضور ﷺ کی یہ حدیث چاند کو ’’دیکھے‘‘ بغیر روزے شروع کرنے سے منع کرتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ((لا تصوموا حتی تروا الہلال و لا تفطروا حتی تروہ، فإن غمّ علیکم فاقدروا لہ)) ’’تم (لوگ) روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور تم سب افطار (عید) نہ کرو جب تک کہ اسے نہ دیکھ لو اور اگر یہ بادلوں کی وجہ سے نہ دکھائی دے تو اس کا اعتبار کرو(یعنی گنتی پوری کر لو)‘‘ (بخاری و مسلم)۔ یوں حدیث کے مطابق پوری امت مسلمہ میں سے کس نہ کسی کو چاند دیکھنا لازمی ہے محض علم فلکیات کی بنا پر رمضان یا عید نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ اسلام نے اللہ کے احکامات کو محض چند ماہر فلکیات کا مرہونِ منت نہیں بنایا بلکہ ہر مسلمان چاہے وہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ چاند کو دیکھ کر اللہ کے احکامات کی اتباع کر سکتا ہے۔​

جہاں تک اس اشکال کا تعلق ہے کہ چونکہ دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے مسلمان اپنے اپنے اوقات کے مطابق نمازیں ادا کرتے ہیں اس لئے ان کے چاند بھی مختلف ہوں گے لہذا انہیں اپنے اپنے علاقے کی روئیت کے مطابق رمضان شروع کرنا چاہئے۔ تو یہ سوچ رکھنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ نمازوں کے اوقات کا تعین زمین کے اپنے محور پر گردش کے نتیجے میں کیا جاتا ہے جبکہ قمری ماہ کا تعین چاند کی زمین کے گرد گردش کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ یہ دونوں مکمل طور پر مختلف مسائل ہیں اس لئے یہ کہنا کہ چونکہ ہماری نمازیں مختلف اوقات میں ہوتی ہیں اس لئے رمضان بھی مختلف دنوں میں ہوگا ، باطل ہے۔ اگر یہ منطق تسلیم کر لی جائے تو پھر کراچی میں غروب آفتاب لاہور یا پشاور سے کئی منٹ بعد ہوتا ہے تو پھر ہمیں کراچی کا چاند بھی قبول نہیں کرنا چاہئے۔ یوں ہر شہر کا اپنا اپنا چاند ہوگا اور یہ سلسلہ کہاں آ کر ختم ہوگا؟!​

یہ کہنا کہ ساراقصور حکمرانوں کا ہے اور ہم تو مقامی طور پر وحدت اختیار کرنے کے لئے ان کی اتباع کر رہے ہیں سراسر غلط اور غیر شرعی ہے۔ اول یہ کہ جب ہمیں اسلامی حکم کا علم ہو گیا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس حکم شرعی کی اتباع کریں نہ کہ ان حکمرانوں کی، جو اللہ کے حکم کو پس پشت ڈال کر کفر نافذ کررہے ہوں۔ حضرت معاذؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: ’’میں نے کہا: ’اے اللہ کے رسول ﷺ آپ کیا کہتے ہیں اگر ہم ایسے حکمران پائیں جو آپ کی سنت پر نہ چلیں اور وہ آپ کے حکم کی اتباع نہ کریں ان معاملات میں جن میں آپ نے انہیں حکم دیا ہے ‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’ اس شخص کی کوئی اطاعت نہیں جو خود اللہ عز و جل کی اطاعت نہیں کرتا‘ ‘‘۔ چنانچہ ثابت ہو گیا کہ ہمارے حکمران جو رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی کر رہے ہیں کسی اطاعت کے حق دار نہیں۔ رہی بات مقامی طور پر اتحاد و وحدت قائم کرنے کی تو سب سے پہلے ہمیںیہ سمجھنا چاہئے کہ ہم مسلم قوم ہیں نہ کہ ’’پاکستانی قوم‘‘ ۔ ہم مسلم امت سے الگ نہیں لہذا ہر وہ عمل جو ہمیں مسلم امت سے الگ کر کے ایک قومی تشخص دے رہا ہو درحقیقت عصبیت کو ہوا دیتا ہے اور امت میں دراڑیں ڈالتا ہے اور امت کو تقسیم کرتا ہے جو کہ شرعاً حرام ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کو امت واحدہ قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ہٰذہٖ اُمَّتَکُمْ اُمَۃٌ وَّاحِدَہ)’’یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے‘‘۔ ایسے میں ہم کیسے امت کو چھوڑ کر قومیت کی بنا پر اتحاد کی بات کر سکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے، یا عصبیت کے لئے لڑے یا عصبیت کے لئے مرے‘‘۔ (ابو داؤد)۔ رمضان کے آغاز اور عید کے دن پرمسلمانوں میں عدم وحدت کی موجودگی نیا مسئلہ نہیں ہے ۔​

ہر سال ہم اس بیماری سے دوچار ہوتے ہیں جبکہ حکومت نے اس مسئلے کو اسلامی طریقے کے مطابق چاندکی روئیت کے ذریعے حل کرنے کی بجائے سپارکو جیسے اداروں کو یہ ہدایات جاری کیں کہ وہ سائنسی حساب کتاب کو بنیاد بنا کر اس مسئلے کا فیصلہ کریں ، یعنی ایسا طریقہ جو رسول اللہ ا کے حکم سے براہِ راست متصادم ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعمار اور ان کے یہ ایجنٹ حکمران اس بات سے نفرت کرتے ہیں کہ مسلمان اپنی عبادات اور خوشیوں میں وحدت اختیا ر کریں بلکہ وہ امت کو منقسم اور تبا ہ حال دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اور وہ یہ سب کچھ محض اس لئے کرنے میں کامیاب ہوئے کہ مسلمانوں کی ڈھال یعنی خلافت موجود نہیں جو انہیں وحدت بخشتی ہے اور امت کے امور کو اسلام کے تحت چلاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے پہلے ہی ایسے دور سے آگاہ کر دیا تھا،آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’ اسلام کی گرہیں ایک ایک کر کے کھل جائیں گی ، سب سے پہلے جو گرہ کھلے گی وہ ( اسلام کے مطابق ) حکمرانی کی ہو گی اور سب سے آخرمیں نماز کی گرہ کھلے گی‘‘(حاکم ؒ و احمدؒ ) ۔ ہم پہلے ہی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے علاقوں پر اسلام کے مطابق حکمرانی نہیں کی جا رہی اور اب ہم اپنی آنکھوں کے سامنے حکومتی اداروں کے اعلانات کے ذریعے اپنی عبادات کا مذاق اڑتا دیکھ رہے ہیں ۔ ہم پر لازم ہے کہ اگر ہم یہ سنیں کہ دنیا میں کسی بھی جگہ پر مسلمانوں نے چاند دیکھ لیا ہے تو ہم رمضان کا اختتام کر تے ہوئے عید منائیں، جیسا کہ رسول اللہ اکی حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں روزے کو جاری رکھنا رسول اللہ ا کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ بلاشبہ کوئی مسلمان بھی اس دن روزہ رکھنا پسند نہیں کرے گا جس دن شیطان اور اس کے پیروکار روزہ رکھتے ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب تک خلافتِ راشدہ دوبارہ قائم نہیں ہو جاتی مسلمان عدم وحدت کے مرض میں مبتلا رہیں گے ،خواہ یہ رمضان کا موقع ہو یا عید الفطر یا عید الاضحی یا کوئی بھی اور مسئلہ ہو۔ یہ مخلص خلیفہ ہی ہو گا جو رسول اللہ ﷺکے اس ارشاد کے مطابق روئیت ہلال کا اعلان کرے گا: ’’...تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے‘‘ (ابودؤد)۔ بلاشبہ یہ مسلمانوں کاخلیفہ ہی ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مسلمان ایک امت کے طور پر روزہ رکھیں اور ایک امت کے طور پر عید منائیں۔​
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام علیکم
اہل علم کی رائے درکار ہے ۔
بعد نماز مغرب کے آسمان پر ابهی چاند نظر آیا ۔ محسوس ہوا کہ یہ کم از کم دوسری شب کا هلال ہے ۔ یہاں سری لنکا میں ایک گروہ نے تو آج روزہ رکها تها جبکہ ایک گروہ هلال نظر نا آنے پر شعبان کے تیس مکمل کر کے کل سے پہلا رمضان مان کر روزوں کی شروعات کریگا ۔ بالفرض ہلال عید اگر 29 کا ہو کر سادی آنکهوں سے نظر آجائے تب دوسرے گروہ کے محض 28 روزے ہی هونگے ۔ اس صورتحال میں کیا ہوگا ۔ 29 رمضان پورے کیئے جائینگے یا 28 روزوں پر ہی اکتفا کرتے ہوئے عید منا لی جائیگی کیونکہ عید کے روز روزہ رکهنا حرام هے !
از راہ کرم رہنمائی فرمائیں ۔
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
एक उम्मत, एक चांद, एक रमज़ान और एक ईद

आज हिन्द व पाक के मुसलमानों ने कौमियत की बुनियाद पर चांद कुबुल कर के आपने आप को उम्मते मुस्लिमा से अलग कर दिया और उम्मत की वहदत को पारा-पारा कर दिया। और उससे ज़्यादा अफसोस की बात तो यह है कि ऐसे अफराद और मौलवी भी आवाम के सरों पर बैठे है जो इस तक्सीम को इस्लाम से साबित करने की नाकाम कौशिश में लग गए। आज हर मुल्क, हर शहर, हर ईलाके का अपना अलग चांद, अलग रमज़ान, और अलग ईद हो गई है। आईये उनके दलाईल का जायज़ा लिया जाए। और हक़ क्या है समझने की कोशिश की जाए। अल्लाह हम सबको समझने की तौफिक़ अता फरमाये। आमीन
1-
सहीह अल बुखारी की हदीस पेश करके उसपर लोग गलत इस्तदलाल करते है हदीस इस तरह है -
अबु हुरैरा रज़िअल्लाहु तआला अन्हु से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैही वसल्लम ने फरमाया

صوموا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ فإن غمی علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلاثین یوماً
“इस (चांद) के देखे जाने पर तुम सब रोज़े रखों और इस (चांद) के देखे जाने नर तुम सब रोज़ा इफ्तार कर लो, अगर तुमपर बादल छाएं हो तो 30 दिनों की गिनती पुरी कर लो।”
¼بخاری½

पहली बात इस हदीस में
"صوموا، افطروا"
और
" لرؤیتہ"
के अल्फाज़ा काबिल ए ग़ौर है
"صوموا، افطروا"
और
" لرؤیتہ"
जमा के सीगा है जो तमाम मुसलमानों को मुहीत है यानी तुम सब मुसलमान रोज़ा रखों और इफ्तार करों। दुसरी
बात यह कि
" لرؤیتہ"
का लफ्ज़ी माना है “इसके देखे जाने पर”। वाज़ेह रहे कि यह हदीस तमाम मुसलमानों को फरदन-फरदन चांद देखने का हुक्म नहीं देते बल्कि किसी और के चांद देखने को काफी करार देती हैै।
चुनांचे हदीस का मतलब है कि चांद के देखे जाने पर तमाम मुसलमान रोज़े शुरू करें यानी रमज़ान शुरू करें और तमाम मुसलमान रोज़ा रखना छोड़ दे यानी ईद करें।
यह हदीस रमज़ान की शुरूआत में और इख्तेताम को चांद के देखे जाने पर दलाललत करती है जबकि इस बात की कोई तख्सीस नहीं करती कि यह चांद कौन देखें। वह अच्छा मुसलमान और या नहीं इसकी तख्सीसी अगे बयान की जाएगी इंशा अल्लाह।
तो मालूम हुआ की यह हदीस इस बात पर दलालत करती है कि दुनिया में किसी भी जगह मुसलमान चांद देख ले तो उनकी गवाही पर तमाम उम्मत ए मुस्लिमा को चाहिए की रोज़े शुरू कर दे और दुनिया में किसी भी जगह मुसलमान चांद देख ले तो उनकी गवाही पर तमाम मुसलमानों को चाहिए कि ईद मना ले। ना कि यह समझे कि जबतक हम चांद नहीं देख लेते रोज़े नहीं रखेंगें या जबतक हम चांद नहीं देख लेते ईद नहीं मनाएगें। अगर एैसे लोग
" لرؤیتہ"
से यह समझ रहे है कि जबतक हम अपनी आंखों से नहीं देखेंगें तो ईद नहीं मनाऐंगे तो उनको चाहिए कि नबी सल्लल्लाहु अलैही वसल्लम की यह हदीस जो सहीह बुखारी में है
"صـلـّوا كـمـا رأيـتـمـونـي أصـلـّي "
(नमाज़ा पढ़ों जिस तरह मुझे “देखते” हो नमाज़ पढ़ते हुए)

तो अब आप हमें बताए कि क्या आप नबी सल्लल्लाहु अलैही वसल्लम को आपनी आंखों से देख कर के नमाज़ पढ़ रहे हो ? हदीस के अल्फाज़ पर ग़ौर करें
" رأيـتـمـونـي "
के अलफाज़ है तो क्या आपने नबी सल्लल्लाहु अलैही वसल्लम को देखा है ? गवाही कुबुल नहीं करते है चांद की और कहते है कि हर जगह के लोगों को चांद देखना ज़रूरी है तो अब हमें बताए कि हर जगह और इलाके वालों ने क्या नबी सल्लल्लाहु अलैही वसल्लम को देखा है ? अगर नहीं देखा है तो नमाज़ किस बिना पर पढ़ रहे हो ? अगर कोई मौलवी ज़िद करता है और चांद के बारे में देखने को ज़रूरी कहता है तो हमभी यहीं कहेंगें कि नबी सल्लल्लाहु अलेही वसल्लम के बारे में भी यही हदीस है तो अब नबी सल्लल्लाहु अलैही वसल्लम की रूइयत दिखाओ ! आपने पाक व हिन्द वालों को नबी सल्लल्लाहु अलैही वसल्लम को नमाज़ा पढ़ते हुए दिखाया है ? या किसी और ईलाके या मुल्क वालों को आपने दिखाया है ?
सहाबा रज़िअल्लाहु तआला अन्हुम ने नबी सल्लल्लाहु अलेही वसल्लम की रूइयत के बाद उम्मत के सामने उस हदीस को नकल किया तो आप तो सिर्फ गवाही की बुनियाद पर इसको कुबुल कर रहे हो ! अरब के मुहद्दीसीन की गवाही की बुनियाद पर आप यह कुबुल कर रहे है कि सहाबा ने नबी सल्लल्लाहु अलैही वसल्लम को नमज़ पढ़ते हुए देखा। अल्लाह तआला ने सारे आलम के लिए नबी सल्लल्लाहु अलैही वसल्लम को रहनुमा बना कर भेजा है ऐसे पैग़म्बर की बात सारी कायनात के अंदर चलती है चाहे कोई देखे या न देखे लेकिन सहाबा की खबर और गवाही को कुबुल करना हर मुसलमान के लिए जरूरी है। फिर जब अरब अगर चांद देख कर के यह बता देते है कि चांद नज़र आ गया तो आप उसे क्यों कुबुल नहीं करते ?
लिहाज़ा हमें चाहिए कि अगर अरब से या दुनिया की किसी भी जगह से अगर मुसलमान चांद देखने की गवाही देते है तो उनकी गवाही पर तमाम उम्मत ए मुस्लिमा को चाहिए की रोज़े शुरू कर दे और दुनिया में किसी भी जगह मुसलमान चांद देख ले तो उनकी गवाही पर तमाम मुसलमानों को चाहिए कि ईद मना ले।
इब्ने अब्बास रज़िअल्लाहु तआला का एक क़ौल पेश किया जाता हैं मुखालिफीन की तरफ से उसकी वज़ाहत अगली तहरीर में करेंगें इंशा अल्लाह।
 
Last edited:
Top