• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رہن میں رکھی چیز استعمال کرنا

علی عامر

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2014
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
25
اسلام علیکم ورحمة الله وبركاته
کیا رہن میں رکھی چیز استعمال کی جا سکتی ہے؟
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
رہن میں رکھی چیز دو طرح کی ہے
جس کو رہن رکھنے پر آپ کے اخراجات اٹھتے ہیں مثلا جانور اس کو چارہ پانی دینا ہے اس سے رہن رکھنے والا فائدہ اٹھا سکتا ہے دودھ پی لے سواری کر لے
جس چیز کو رہن رکھنے پر مرھون کو کچھ خرچ نہیں اٹھانا پڑتا مثلا گھر گاڑی وغیرہ اس سے رہن رکھنے والا فائدہ نہیں اٹھا سکتا
ہر دو قسم کی چیزوں سے رہن رکھوانے والا فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ حدیث ہے لا یغلق الرھن من صاحبہ رھن کو رھن رکھنے والے سے روکا نہیں جا سکتا
آج کل لوگوں نے کاروبار بنایا ہوا ہے قرض لے لے مکان گروہ رکھوا دو اور یہ گروی رکھنے والا مکان کرائے پر لگا کر یا خود رہ کر یا کسی اور کو رکھ کر اس مکان سے فائدہ اٹھاتا ہے تو یہ کام حرام ہے سو کے زمرے میں آتا ہے اس پر صحابہ کے آثار موجود ہیں کہ کل قرض جر منفعۃ فھو ربا ہر وہ قرض جس سے فائدہ حاصل ہو وہ سود ہے

ان تجد عیبا فسد الخللا جل من لا عیب فیہ و علا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مکان گروی رکھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
باہمی رضامندی سے گروی مکان دیا، وہاں گروی پیسے لیے! گروی مکان استعمال کیا، وہاں گروی پیسے استعمال ہوئے! گروی مکان واپس دیا، وہاں گروی پیسے واپس دیے! تو آخر یہ سود کیسے ہوا؟۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی سے کوئی چیز خریدنے یا قرضہ لینے پر بطور ضمانت کوئی چیز حقدار کے پاس رکھنے کو گروی کہا جاتا ہے۔ جب قیمت یا قرض ادا کر دوں گا تو میری چیز مجھے واپس مل جائے گی۔ جائز مقصد کےلیے کوئی چیز گروی رکھنے میں کوئی خرابی یا قباحت نہیں لیکن گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ قرضے یا ادھار قیمت کے عوض کوئی بھی فائدہ اٹھانا سود ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
’’تو ایسی سرزمین (عراق) میں رہتا ہے جہاں سود کی وباء عام ہے، لہٰذا اگر تیرا کسی شخص کے ذمے کوئی حق ہے تو اس سے توڑی یا چارے کا گٹھا یا جَو وغیرہ بطور ہدیہ قبول نہ کرنا کیونکہ یہ سود ہے۔‘‘ (بخاری، المناقب: ۳۸۱۴)
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرض کے عوض کوئی بھی فائدہ اٹھانا سود ہے۔ ہاں گروی رکھی ہوئی چیز پر خرچ کرنا پڑتا ہو تو خرچ کے عوض تھوڑا بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مثلاً کسی نے حقدار کے پاس بطور ضمانت کوئی جانور وغیرہ گروی رکھا ہو تو اسے گھاس یا چارہ ڈال کر اس پر سواری کی جا سکتی ہے یا اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
’’سواری کا جانور اگر گروی ہے تو بقدر خرچ اس پر سواری کی جا سکتی ہے اور اگر دودھ والا جانور گروی ہے تو خرچ کے عوض اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے، سوار ہونے والے اور دودھ پینے والے کے ذمے اس کا خرچہ ہے۔‘‘ (بخاری، الرھن: ۲۵۱۲)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر کسی کے پاس گروی شدہ بکری ہے تو چارے کی قیمت کے مطابق اس کا دودھ پینے میں کوئی حرج نہیں، قیمت سے زیادہ دودھ حاصل کرنا سود ہے۔‘‘ (فتح الباری ص ۱۷۸ ج ۵)
مرھونہ زمین کی صورت میں اگر مرتھن ٹھیکے پردے تو ٹھیکے کی رقم راہن کے قرضہ سے منہا کر دی جائے۔ اگر مرتھن خود کاشت کرے تو پیداوار تقسیم کر کے مالک کے حصہ کے مطابق اس کا قرضہ کم کر دے۔
صورت مسئولہ میں کسی نے قرضہ کے بدلے اپنا مکان گروی رکھا ہے اگر قرضدار اس میں رہائش رکھنا چاہتا ہے تو اس کا کرایہ طے کیا جائے اور اس کرائے کی رقم کو قرضے سے کم کرتا رہے، اگر کرایہ کی رقم کو قرض سے منہا نہیں کرتا تو یہ صریح سود ہے۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ ایسی چیز گروی رکھی جائے جس پر خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ جیسے زیورات وغیرہ تاکہ وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ گروی چیز کی حیثیت ایک امانت کی سی ہے، جب ادھار یا قرض چکا دیا جائے تو وہ چیز مالک کو اصل حالت میں واپس کر دی جائے گی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی

محدث فتوی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
گروی اشیاء سے فوائد اٹھانے کی شرعی حیثیت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ گروی مکان اسلام کی روح سے جائزہے،؟ اور اگر ہے تو اس کے لئے کوئی خاص شرائط ہیں۔ازراہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللہ خیرا

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مکان اور کوئی بھی مالیت والی چیز گروی رکھنا اور رکھوانا جائز ہے لیکن اس میں درج ذیل چیزوں کا خیال رکھا جائے۔

1۔ گروی شدہ چیز کی آمدنی، اجرت، محصول وغیرہ رہنے رکھوانے والے (راہن) کی ملکیت ہے۔
2۔مرتھن (جس کے پاس چیز رہن رکھی گئی ہے) اس چیز میں تصرف کا مجاز نہیں ہے إلا کہ جو نص سے ثابت ہے یعنی جس طرح حدیث میں آیا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
" الظھر یرکب بنفقة إذا کان مرھونا ولبن الدر یشرب بنفقتہ إذا کان مرھونا وعلی الذی یرکب و یشرب النفقة " (صحیح بخاری کتاب الرھن باب الرھن مرکوب و محلوب)
’’رہن رکھے ہوئے جانور پر مصارف و اخراجات کے بدلے سواری کی جاسکتی ہے او ردودھ دینے والے جانور کا دودھ مصارف کے بدلے پیا جاسکتا ہے جبکہ وہ رہن ہو اور جو آدمی سواری کرتا ہے اور دودھ پیتا ہے اس کے اخراجات کا ذمہ دار بھی وہی ہوگا۔‘‘
اس طرح مرہونہ زمین سے فائدہ اٹھانا بھی جائز ہے اگر اس پر جس قدر خرچ کیا جائے اتنا فائدہ اٹھا لیا جائے۔
مذکورہ بالا حدیث کی بنا پر ہر وہ مرتھن چیز جس کی دیکھ بھال نہ کرنے سے تلف ہوجانے کا خدشہ ہو اس سے بقدر خرچ اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن مکان کی صورت حال کچھ اور نوعیت کی ہے۔ مکان گروی رکھنے والا اسے استعمال نہیں کرسکتا اگر استعمال کرنا چاہے تو اس کا راہن سے کرایہ وغیرہ کا طے کرلے کیونکہ آج کل صورت حال یوں ہےکہ ایک آدمی مکان رہن رکھ کے مرتھن سے کچھ رقم لیتا ہے اور مرتھن اس مکان سے فائدہ اٹھاتا ہے یعنی اس میں سکونت اختیار کرتا ہے جبکہ راہن اس کی رقم استعمال کرتا ہے حالانکہ مکان کو جانور وغیرہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جانور کا اگر دودھ وغیرہ نہ دھویا جائے گا اور چارہ وغیرہ نہ ڈالا جائے گا تو اس کے تلف و ضرر کا خدشہ ہے جبکہ مکان میں ایسی کوئی صورت نہیں ہاں اگر وہ راہن سے مکان کا کرایہ طے کرلیتا ہے تو اس میں سکونت اختیار کرسکتا ہے وگرنہ اس کا اس سے فائدہ اٹھانا سود کے زمرے میں آئے گا۔
وبالله التوفيق

فتوی کمیٹی

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اگر راہن گروی رکھی چیز استعمال کرنے کی اجازت دے دے تو کیا پھر بھی یہ ناجائز ہے؟
اگر یہ بات طے ہو چکی کہ مرتہن کا راہن کی چیز کو قرض کے بدلے میں استعمال کرنا ’’ سود ‘‘ میں داخل ہے تو پھر اقرب یہی لگتا ہے کہ یہ ناجائز ہی رہے گا ۔
کیونکہ سودی کار و بار ناجائز ہے چاہے وہ فریق کی مرضی سے ہو یا فریقین کی رضا مندی سے ۔۔ واللہ اعلم ۔
ویسے یہ صورت حال پیش آ چکی ہے یا ویسے ہی احتیاطا پوچھ رہے ہیں ۔؟
 

علی عامر

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2014
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
25
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خضر حیات بھائی جزاکم اللہ خیراً
یہ ایک بھائی کا سوال ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر راہن مرہتن کو گروی رکھی چیز استعمال کرنے کی اجازت دے دے تو پھر جائز ہے. مثلاً اگر گاڑی گروی رکھی ہے تو اگر کچھ عرصہ بعد مرہتن کو دوسرے شہر کوئی کام پڑ جاتا ہے اور وہ راہن سے فون کر کے گاڑی استعمال کرنے کی اجازت لے لیتا ہے تو پھر جائز ہے.
لیکن مجھے یہ بات ٹھیک معلوم نہیں ہوتی کیونکہ سود کی واضح تعریف ہے کہ ہر وہ قرض جس سے فائدہ حاصل ہو وہ سود ہے اور سودی کاروبار ناجائز ہے چاہے وہ فریق کی مرضی سے ہو یا فریقین کی رضامندی سے.

واللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خضر حیات بھائی جزاکم اللہ خیراً
یہ ایک بھائی کا سوال ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر راہن مرہتن کو گروی رکھی چیز استعمال کرنے کی اجازت دے دے تو پھر جائز ہے. مثلاً اگر گاڑی گروی رکھی ہے تو اگر کچھ عرصہ بعد مرہتن کو دوسرے شہر کوئی کام پڑ جاتا ہے اور وہ راہن سے فون کر کے گاڑی استعمال کرنے کی اجازت لے لیتا ہے تو پھر جائز ہے.
لیکن مجھے یہ بات ٹھیک معلوم نہیں ہوتی کیونکہ سود کی واضح تعریف ہے کہ ہر وہ قرض جس سے فائدہ حاصل ہو وہ سود ہے اور سودی کاروبار ناجائز ہے چاہے وہ فریق کی مرضی سے ہو یا فریقین کی رضامندی سے.
واللہ اعلم
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی بات ٹھیک ہے ۔ اصل میں مسئلہ صرف اجازت دینے نہ دینے کا نہیں ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ آپ ایک ایسی چیز سے فائدہ اٹھارہے ہیں جس سے شریعت نے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی ۔
ویسے بھی راہن عموما اس لیے اجازت دے دیتا ہے کیونکہ وہ مرتہن کا مقروض ہوتا ہے ۔ گویا کہ مرتہن راہن کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتا ہے ۔
کیونکہ اگر ان کے درمیان اتنے اچھے تعلقات ہوتے تو ’’ راہن ‘‘ کو اپنی ضرورت کے لیے ’’ قرض ‘‘ لینے کے لیے اپنے استعمال کی چیز مثلا گاڑی یا گھر وغیرہ اس کے پاس نہ رکھوانا پڑتا۔
یہ تو گروی چیز کا معاملہ ہے ، سلف صالحین سے یہ بات منقول ہے کہ اگر انہوں نے کسی کو قرض دیا ہوتا تو وہ اس قدر احتیاط کیا کرتےتھے کہ مقروض کے گھر یا درخت کے سایہ کے نیچے بھی نہیں بیٹھا کرتے تھے کہ کہیں وہ ’’ قرض ‘‘ کے بدلے میں ’’ نفع ‘‘ اٹھانے والوں میں شمار نہ ہوں ۔
 
شمولیت
اگست 07، 2016
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
گروی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

اہلِ لغت کے ہاں رہن یعنی گروی کے لغوی و اصطلاحی (شرعی) معنیٰ و مفاہیم درج ذیل ہیں:
گروی کالغوی معنیٰ:
ما وضع عندک لينُوبَ مناب ما اخذ منک
گروی وہ چیز ہے جو تیرے پاس رکھی جائے تاکہ وہ اس شے کا قائم مقام ہو جائے جو تجھ سے لی گئی ہے۔
گروی کا شرعی و اصطلاحی معنیٰ:
جعل عين مالية و ثيقة بدين لازم
کسی مالی چیز کو لازمی قرض کی ضمانت بنانا۔
سيد محمد مرتضی الحسنی الوسطی الزبيدی، تاج العروس من شرح جواهر القاموس، 9: 221، دار احياء التراث العربی. بیروت
رهن: الرَّهنُما وضع عند الانسان مما ينوب مناب ما اخذ منه, يقال: رَهنْتُ فلاناً دارًا رَهنًا وارْتَهنه اِذا اَخذه رَهناً
رہن: جو چیز کسی انسان کے پاس رکھی جائے اس چیز کے عوض جو اس سے لی گئی ہے، کہا جاتا ہے میں نے فلاں کے پاس مکان گروی رکھا ہے اور میں نے فلاں سے مکان گروی لیا ہے۔
علامه ابن منظور افريقی، لسان العرب، 5: 348، دار احياء التراث العربي بيروت
مَا يُوضَعُ وثِيقَة للدَّيْنِ ... حقيقة ذلک اَن يَدْفَعَ سِلْعة تَقْدِمَة فی ثَمَنِه فَتَجْعلَها رَهينَة لِاِتْمامِ ثَمَنِها.
قرض کی واپسی یقینی بنانے کیلئے کسی چیز کو بطور ضمانت قبضہ میں لینا۔۔۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے جس کی قیمت دَین (قرض) کے برابر یا زائد ہو تاکہ قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں وہ قرض کا معاوضہ ہو سکے (اور دائن [قرض دینے والے] کو مالی نقصان نہ ہو) ۔
المفردات في غريب القرآن: 204، طبع لهور
ابن الاثيرالجزری، النهية، 2: 285، طبع ايران
فقہائے کے نزدیک گروی کی تعریف:
هو جعل الشيی محبوسًا بحق
حق وصول کرنے کیلئے کوئی چیز روک لینا (رہن کہلاتا ہے)
الدرالمختار، 6: 478، طبع کراچيی
هدايه، 4: 437، کتاب الرهن، طبع کراچی
شرعاً اس سے مراد ہے کہ مالی چیز کو روک رکھنا اُس حق (قرض) کے عوض جسے قرضدار سے وصول کرناممکن ہو۔
هو قول الرهن رهنت عندک هذا الشی بمالک علی دين
گروی رکھنے والے کا یوں کہنا کہ آپ کا مجھ پر جو قرض ہے اس کے بدلے میں یہ چیز میں نے آپ کے پاس گروی رکھی۔
علامه زين الدين ابن نجيم الحنفی، البحرالرائق شرح کنز الدقائق، 8: 231، طبع کراچي
امام کاساني حنفي، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 6: 174، دار الکتاب العربي بيروت
فهو جعل عين لها قيمة مالية في نظر الشرع وثيقة بدين بحيث يمکن اخذ الدين او اخذ بعضه من تلک العين
جس چیز کی شرعاً مالی قیمت ہو اُسے قرض وصول کرنے کی دستاویز اور ضمانت قرار دینا تاکہ اس چیز سے پورا قرض یا اس کا کچھ حصہ وصول کرنا ممکن ہو۔
علامه عبدالرحمٰن الجزری، الفقه علی المذهب الاربعة، 2:319، طبع مصر
علامه شمس الدّين اَلسَّرْخَسِی، المبسوط، 11:63، طبع بیروت
قرآن کریم میں گروی کا تصور:
وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِهنٌ مَّقْبُوْضَة
اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو قرض دینے والے کے قبضہ میں کوئی چیز گروی رکھی جائے۔
البقرة، 2: 283
عہدِ نبوی میں گروی کا تصور:
عن عائشة رضی اﷲ عنها ان النبی صلیٰ الله عليه وسلم اشتری طعامًا من يهودی اِلٰی اجل و رهنه دِرعًا من حديد
بخاري، م 256 ه، الصحيح، 2: 729، رقم: 1962، دار ابن کثير اليمامه بيروت، 1407 ه
مسلم، م 261 ه، الصحيح، 3: 1226، رقم: 1603، دار اِحياء التراث العربي بيروت
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مدت تک ادھار غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی ذرع رہن رکھی تھی۔
عن عائشة رضی اﷲ عنها قالت: تُوُفّی رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وسلم و درعه مرهونة عند يهودی بثلاثين صاعًا من شعير
بخاری ، الصحيح ، 3:1068، رقم: 2759
احمد بن حنبل، م 241 ه، المسند، 1: 361، رقم: 3409، مؤسسة قرطبة مصر
نسائي، م 303 ه، السنن الکبری، 4: 49، رقم: 6247، دار الکتب العلمیة بیروت
ابن حبان ، م 354 ه، الصحيح، 13: 262، رقم: 5936، مؤسسة الرسالة بيروت، سن أشاعت 1414 ه
عبد بن حميد، م 249 ه، المسند، 1: 202، رقم: 587، مکتبة السنة القهر ه، سن أشاعت 1408 ه
بيهقي، م 458 ه، السنن الکبری، 6: 36، رقم: 10973، مکتبة دار الباز مکة المکرمة، سن أشاعت 1414 ه
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ کی ذرع ایک یہودی کے پاس تیس (30) صاع جَو کے بدلے رہن رکھی ہوئی تھی۔
خلاصہ کلام:
سفر یا حضر میں ایک شخص یا گروہ کو رقم یا جنس وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ کسی دوسرے کے پاس وہ رقم یا جنس موجود ہے اور وہ ضرورت مند کو قرض دینا چاہتا ہے مگر ساتھ ہی اپنی رقم کے تحفظ اور واپسی وصولی کو یقینی بنانے کیلئے قرض لینے والے سے زمین، مکان،گاڑی یا اسلحہ وغیرہ لیتا ہے تاکہ اس کی رقم یا جنس ضائع نہ ہو جائے۔ قرض لینے والے کو ’مرتہن‘، دینے والے کو ’راہن‘، گروی رکھی گئی شے کو ’مرہونہ‘ اور اس معاہدہ کو ’رہن‘ یا ’رہان‘ کہتے ہیں۔ رہن کے تین ارکان ہیں:
فریقین یعنی راہن اور مرتہن
اشیا معاملہ، اس میں دو چیزیں شامل ہیں: شے مرہونہ، اور اس کے مقابلہ میں دی گئی رقم
الفاظ معاملہ (جو لین دین کے لیے استعمال کیے جائیں)
معاملہ رہن کے درست ہونے کی اہم ترین شرط یہ ہے کہ راہن اور مرتہن دونوں معاملہ بیع کی اہلیت رکھتے ہوں۔ یعنی کوئی مجنون و دیوانہ یا بے شعور و نابالغ نہ ہو۔ رہن شرعاً خرید و فروخت کی طرح جائز ہے کیونکہ (چند استثنائی صورتوں کے علاوہ) ہر وہ شے جس کی بیع جائز ہے اس کو رہن رکھنا بھی جائز ہے۔ رہن کا معاملہ کرنا کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ مگر آج کل اس معاہدے میں بھی نقائص و مفاسد آگئے ہیں اورصدیوں سے انسانی معاشرے پر دیگر مظالم کے ساتھ یہ بھی مسلّط ہیں۔
رہن کے احکام:
گروی رکھی گئی چیز سے دائن (قرض دینے والے) نے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھایا مثلاً زمین سے فصل غلہ، باغ سے پھل وغیرہ کچھ نہیں لیا۔ مکان، دکان، پلاٹ وغیرہ میں رہائش یا کاروبار یا کرایہ وغیرہ کا فائدہ نہیں اٹھایا، تو جب قرضدار قرض ادا کرے تو گروی رکھی چیز اس کو واپس کردی جائے۔
اگر گروی رکھی چیز سے دائن نے مالی فائدہ اٹھایا ہے تو جتنا فائدہ اٹھایا ہے، قرض دی گئی رقم سے اُسے منہا کردیا جائے، گویا قرض دینے والے کو اس کی اتنی رقم مل گئی۔ جتنی رہ گئی ہے اتنی رقم دیکر دائن گروی رکھی چیز اس کے مالک کو واپس کرے۔ رہن کا یہی طریقہ جائز ہے۔ مثلاً ایک شخص نے اگر ایک لاکھ روپیہ قرض دیا ہے اور اس کے عوض گروی چیز (مکان، دکان اور زمین وغیرہ) سے فائدہ اٹھاتا رہا، تو قرض کی وصولی کے وقت اس فائدہ کو اصل قرض سے منہا کر دے گا۔ اگر منہا نہیں کرتا تو یہ سُود ہے، جو کہ حرام ہے۔ بدقسمتی سے آج کل ہی نہیں صدیوں سے یہی حرام رائج ہے۔
مذکورہ بالا دونوں صورتیں مجبوری کی حالت میں قرض لینے پر بطور گارنٹی کوئی شے گروی رکھنے کی ہیں، لیکن اب گروی کی ایک جدید صورت سامنے آئی ہے جس میں لوگ کاروبار کرنے کی خاطر اپنا مکان، پلاٹ، دکان یا زمین وغیرہ گروی رکھ کر قرض لیتے ہیں۔ اس صورت میں ایک فریق (راہن) شئے مَرہونہ سے فائدہ اٹھاتا ہے، جبکہ دوسرا فریق (مُرتَہِن) قرض لی گئی رقم کاروبار میں لگا کر مقررہ مدت تک اچھی خاصی کمائی کر لیتا ہے۔ گویا یہ کاروبار کی ایک نئی شکل ہے۔ کیونکہ اس میں فریقین کسی مجبوری کی بجائے اپنے فائدے کے لیے معاہدہ کرتے ہیں، اور دونوں ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اس لیے یہ صورت بھی جائز ہے۔
لہٰذا کوئی شے گروی رکھ کر قرض لینے کی دو صورتیں ہیں: ایک مجبوری اور بےبسی کی صورت میں لیا گیا قرض، اور دوسرا کاروبار کے لیے لیا گیا قرض۔ انہی دوصورتوں کے مطابق ان کے احکام بھی مختلف ہیں۔ اگر کوئی مجبور اور بےبس اپنی کوئی چیز گروی رکھ کر قرض لے تو اس کے ساتھ پہلی دو صورتوں کے مطابق سلوک ہونا چاہیے، تاکہ ایک مجبور کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ اس کے برعکس اگر کوئی کاروبار کرنے کے لیے قرض لیتا ہے تو اس کی گروی شے سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ اس لیے معادہ طے کرتے وقت ہی ان سب باتوں کی وضاحت کرلینا ضروری ہے کہ قرض لینے اور گروی رکھنے کی وجہ کیا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: عبدالقیوم ہزاروی،(اپلوڈڈ:محمد رمضان قادری)
 
Top