السلام علیکم
محترمہ آپ کی بات کیاور جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن:
ضروری نہیں عورت کے اوپر ظلم اسی وقت ہو جب وہ گھر سے باہر نکلے ، بلکہ گھر کے اندر بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں ۔ اور ضروری نہیں کہ ایسے واقعات صرف بے پردہ عورت کے ساتھ ہوں آجکل باپردہ خواتین کی بھی عزت محفوظ نہیں ہے ۔
تھوڑا ادھر بھی توجہ فرمائیں۔شہد کی مکھی جب تک کچھ نہیں کہتی جب اس کو نہ چھیڑا جائے۔اسی طرح سے کتا عام طور پرجب تک نہیں کاٹتا جب تک اس کو نہ چھیڑا جائے پاگل کا کوئی علاج نہیں ۔ اس کے باوجود ہر انسان نقصان دینے والی چیزوں سے بچتا ہے یعنی کتے وغیرہ سے کتنا ہی بہادر انسان ہو اپنے آپ کو بچاتا ہے اسی طرح سے یہ جنس پرست عیاش لوگ کتے سے بھی بد تر ہوتے ہیں جب ان پر پاگل پن سوار ہوتا ہے یہ یہ نہیں سوچتے کہ سامنے والا کراٹے کا ماہر ہے یا اس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے وہ تو پاگل کتے کی طرح ہے اس کو کاٹنا ہی ہے کیا اس کا حشر کچھ بھی ہو ۔محترمہ اس طرح کے لوگ پاگل ہی ہوتے ہیں جب کہ ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس چھیڑ خانی یا اس قبیح حرکت کا کیا انجام ہوگا مار بھی لگے گی جان بھی جاسکتی ہے قانونی گرفت میں بھی آسکتے ہیں اور قانون قدرت کا بھی علم ہوتا ہے اس کے باوجود بھی حر کت کرتے ہیں
اس کو سیدھا سا مطلب یہ ہے نہ کھلا ہو ’’در‘‘ اور نہ ہو پھر کسی کا ’’ڈر‘‘
اسلامی قانون ہے کہ گھروں میں عورتیں اکیلی نہ ہو ں بھائی بہن اکیلے نہ ہوں باپ بیٹی تنہا نہ ہوں۔عورت گھر میں کسی وجہ سے اکیلی ہو تو گھر کا دروازہ بند ہو ،عورتیں تنہا گھر سے باہر نہ نکلیں ۔اور نقاب اس طرح کا ہو جس سے یہ معلوم نہ ہوسکے بوڑھی ہے یا جوان جسم وضع قطع معلوم نہ ہو سکے ۔اب اس کا کیا علاج ہے جب مردوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ سامنے بیری کا درخت ہے اور اس پر پھل آرہے ہیں تو پھر تو اس درخت پر ڈھیلے آنے ہی ہیں ۔معلوم یہ ہوا شہوت کے دواعی یہ عورتیں خود ہیں اور شکایت مردوں کی ۔اب دیکھئے ہندوستان میں قانون بنا ہے کہ اگر کوئی لڑکا کسی کو گھور کر دیکھتا ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی ۔لیکن لڑکیوں کو کھلی چھوٹ دیدی کہ وہ اپنے کپڑے اور مختصر کرلیں۔ تو محترمہ بگاڑ عورتوں کی طرف سے ہے کہ مرد پاگل ہوتے ہیں۔
یسے تو ایسے واقعات کی روک تھام حکومتی طور پر حد کے نظام کو لاگو کرنے سے ہوتیں ہیں ۔
پاگلوں کے لیے کوئی قانون نہیں ہوتا؟
لیکن اگر حکومت ہی اسلامی نا ہو تو لوگوں کو اپنی حفاظت کے انتظامات خود کرنے پڑتے ہیں ۔
بس یہ بات صحیح ہے کہ اسلامی قانون میں عافیت اور حفاظت ہے حکومت کوئی سی بھی ہو اگر اسلامی قانون نافذ کردئے جائیں تو پاگل پن کا علاج خود بخود جائےگا۔
ایک چولھا پانڈی کرنے والی خاتون کے گھر ڈاکو گھس آئیں اور وہ گھر میں اکیلی ہو تو وہ کیا کرے
گھر کا دروازہ بند رکھے، لیکن ایک بات اور عرض کردیتا ہوں کہ چور بہت بزدل ہوتا ہے ذرا ہمت دکھاؤ بھاگ جاتا ہے اور اگر اس کو یہ اندازہ ہوجائے کہ سامنے والا خائف ہوگیا ہے تو پھر وہ حاوی ہوجاتا ہے ۔جب تک لڑکی کی طرف سے کوئی اشارہ نہ ہو لڑکا ہمت نہیں کر پاتا۔
اس وقت عورت کی عام زندگی کی بات نہیں ہورہی ہے ۔ بلکہ اس کی عزت کی حفاطت کی بات ہورہی ہے ۔
ایسے موقع پر عورت کو اپنی عزت بچانے کے لیے دوسرے کے قتل کی حد تک جانا چاہیے یا شرماتے رہنا چاہیے
عورت کی عزت کی حفاظت صرف اسلامی تعلیمات میں ہے
عورتوں کو اس طرح کے مواقع ہی فراہم نہیں کرنے چاہیئے کہ کسی کو قتل کرنے کی نوبت آئے ۔جب ان عورتوں کو اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے شرم نہیں آتی تو پھر مرد تو بے شرم ہو ہی جائیں گے
آجکل کے دور میں لوگ ظلم کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ یہ عورت کتنی نیک اور شریف ہے یا نہیں
جی ہاں یہ عورتیں بھی برابر کی ظلم کرتی ہیں یہ نہیں دیکھتی کہ ایک دیندار اور شریف مرد کی دینداری کا کیا ہوگا گھر میں تو رہتی ہیں سادگی کے ساتھ اور جب سڑک پر آتی ہیں تو خوشبوئیں بکھیر تی ہیں اپنی موجود گی اور نسوانیت کا احساس بکھیرتی ہیں اور یہ بھی چاہتی ہیں کہ مردوں کی گردن اڑادیں ۔ان عورتوں کو پہلے اپنی گردن کا خیال کرنا چاہئے پھر مردوں کی گردن کا۔
مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ مرد ، عورت سے اتنے انسکیور کیوں ہیں ۔ اگر عورت سیلف ڈیفینس میں ٹرینڈ ہوگی تو وہ شوہر پر کیوں آزمائے گی
مرد اَن سکییورڈ اس لیے ہوتے ہیں کہ یہ عورتیں اپنے تن من کو چھپانے میں سیکورڈ نہیں ہوتی
ہاں شوہر کی طرف سے بھی اپنے اوپر ظلم نہیں ہونے دے گی
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں مرد کی محافظ بننا چاہتی ہیں یعنی مرد عورتوں کی حفاظت میں آجائیں
تو کیا شوہر بیوی پر ظلم کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں
نہیں بلکہ مرد عورتوں کی خوشامد میں لگے رہتے ہیں