وقالت اللجنة في موضع آخر جوابا على سؤال عن الاحتفالات:
أما ما لم يقصد به التبرك ولا المثوبة: كالاحتفال بميلاد الأولاد، وأول السنة الهجرية، أو الميلادية، وبيوم تولي الزعماء لمناصبهم - فهو وإن كان من بدع العادات، إلا أن فيه مضاهات للكفار في أعيادهم، وذريعة إلى أنواع أخرى من الاحتفالات المحرمة، التي ظهر فيها معنى التعظيم والتقرب لغير الله، فكانت ممنوعة؛ سدًّا للذريعة، وبعدًا عن مشابهة الكفار في أعيادهم واحتفالاتهم، وقد قال صلى الله عليه وسلم: ( من تشبه بقوم فهو منهم)
.
http://www.alifta.net/Search/ResultD...stKeyWordFound
دین صرف عقائد و عبادات ہی کا نام نہیں ، بلکہ دین طرز زندگی ،تمدن و تہذیب کے امتیاز کا مطالبہ بھی کرتا ہے ،
اس موضوع پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’ اقتضاء الصراط المستقیم ‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے
سرور و شرور کےمخصوص ایام منانا قوموں کے امتیازی نشان ہوا کرتے ہیں ،
اور مادی و سیاسی طور پر غالب اقوام کے اجتماعی اعمال اور تمدنی رنگ بھی مغلوب قوموں میں ’’ غالب ‘‘ ہوا کرتے ہیں،
جب ہم غالب تھے تو ہماری سادگی بھی غیروں کے ہاں ترجیحی طور پر مثالی حیثیت رکھتی تھی ،
جب غیر ہم پر غالب آئے تو ان کی عادات و رسوم ہمارے لئے ’’ مثالی ‘‘ حیثیت ٹھہرے ،
ان سطور سے ۔محض عادات ۔ کی اہمیت عیاں ہے ،