السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس موضوع پر درج ذیل دو فتوے ملاحظہ فرمائیں :
السؤال :
علم صديقيَّ بيوم ميلادي وبعد يومين من يوم ميلادي أعطاني الأول طيبا، وبعدأسبوع أعطاني الآخر قرآنا فقبلتهما منهما، مع العلم بأنني لم أحتفل وأعلم أنالاحتفال لا يجوز، فهل أرد الهدية أم لا؟
سوال :
میرے دو دوستوں کو جب میری ولادت کے دن کا علم ہوا ، تو ایک نے مجھے تحفہ میں خوشبو دی ، اور ایک ہفتہ بعد دوسرے دوست نے مجھے قرآن کریم کا ایک نسخہ تحفہ میں دیا ، میں نے دونوں کے تحفے قبول کرلئے ، درآں حالیکہ میں اپنی سالگرہ کیلئے کوئی تقریب منعقد نہیں کرتا ، اور جانتا ہوں کہ سالگرہ کی محافل جائز نہیں ، تو سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنے دوستوں کے تحفے واپس کردوں ، یا اپنے پاس رکھوں ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فإن الاحتفال بعيد الميلاد بدعة من البدع المحدثة وتشبه بمن نهى الله عن التشبه بهم من الكافرين، وقد سبق أن بينا حكم الاحتفال به في الفتوى رقم: 2130.
وأما الهدية: فهي مشروعة في أصلها ومرغب فيها، لما تؤدي إليه من التآلف والتواد وهو من مقاصد الشريعة الغراء إلا أن تقديمها من أجل هذه المناسبة ـأعني الاحتفال بعيد الميلاد ـ نوع من المشاركة في هذا الاحتفال وإقرارا له ورضى به، ولعل الامتناع عن أخذها في هذه الحالة هو الأليق بالحكمة والأبلغ فيالتنبيه على بدعية هذه الاحتفالات والأدعى لتحقيق المصلحة الشرعية بالزجرعن هذا الفعل، ولمزيد من الفائدة تراجع الفتوى رقم: 21200.
أما في خصوص حالتك هذه: فلا يجب عليك إرجاع الهدية، ولكن عليك أن تنبه صديقيك هذين إلى الحكم الشرعي في الاحتفال بمثل هذه المناسبات.
والله أعلم.
جواب :
اللہ کی حمد اور بنی مکرم ﷺ پر درود کے بعد واضح ہو کہ سالگرہ (برتھ ڈے ) منانا ، اور اس مناسبت سے تقریب و محفل منعقد کرنا نو پید بدعت اور کفار سے ایسی مشابہت ہے جو اسلام میں سختی سے منع ہے ،
اس کی وضاحت ہم ایک فتوی (2130. ) میں پہلے ہی کرچکے ہیں ،
جہاں تک تحفہ کی بات ہے تو فی نفسہ تحفہ دینا (اسلام میں ) ایک پسندیدہ اور جائز امر ہے ،اس سے آپس میں محبت و الفت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ، اور اہل اسلام کے مابین محبت شریعت کے مقاصد میں سے اہم
مقصد ہے ،لیکن سالگرہ کی مناسبت و موقع پر تحفہ دینا دراصل سالگرہ کے عمل میں شراکت اور اس کو تسلیم کرنے مترادف ہے ،
جبکہ اسے قبول نہ کرنا ہی دراصل اس کی نفی کیلئے زیادہ ضروری اور حکیمانہ رد ہے ،تاکہ اس کا بدعت ہونے پر تنبیہ ہو ،اور اس عمل نوپید پر رد کی شرعی مصلحت کی طرف توجہ دلائے جائے ،
ہاں البتہ آپ کا معاملہ یہاں تحفہ کے ضمن میں خصوصی پہلو رکھتا ہے ( کہ تحفہ میں قرآنی نسخہ دیا ہے )
جس کو لوٹانا آپ پر واجب نہیں ، تاہم تحفہ دینے والے بھائی کو تنبیہ ضروری ہے کہ سالگرہ اور اس مناسبت سے تحفہ دینا شرعا کیسا ہے
فتویٰ لنک
_______________________
دوسرا فتویٰ :
السؤال الثامن من الفتوى رقم (19504)
س 8: تقوم بعض المدارس بتقديم هدايا للأطفال بمناسبة عيد ميلاد منهم. فهل يجوز للطلاب المسلمين استلام تلك الهدايا؟
ج 8: تقديم الهدايا وقبولها بمناسبة أعياد الميلاد لا يجوز؛ لأنها أعياد محرمة في الإسلام، وما بني على محرم فهو محرم.
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
بكر أبو زيد ... صالح ال
فوزان ... عبد العزيز آل الشيخ ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
فتاوى الللجنة الدائمة المجموعة الثانية 2/260