• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سال بھر کے روزے قبول ہوئے اور نہ تہجد کی نماز

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!

ایک صحابی نے سال بھر روزے رکھے اور سال بھر رات کا قیام کیا...لیکن نہ روزے قبول ہوئے اور نہ تہجد کی نماز (مفہوم روایت) ، کا حوالہ درکار ہے۔
شیخ توصیف الرحمن حفظہ اللہ نے اس ویڈیو کے آخری منٹ میں ایک صحابی کا واقعہ بیان کیا ہے لیکن حوالہ نہیں دیا.

 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
@اسحاق سلفی
السلام علیکم
میرا بھی ایک سوال ایڈ کرلیجیے کیا نفلی عبادت کی بھی اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مثلا کوئی اپنی مرضی سے ذکر الہی کرنا چاہتا ہے یا لمبی نفل نما ز پڑھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے کیا سنت سے دلیل ضروری ہوگی۔ کہ صحابہ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہوگا تو جائز ہوگا ورنہ بدعت ہوگا۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ایک صحابی نے سال بھر روزے رکھے اور سال بھر رات کا قیام کیا...لیکن نہ روزے قبول ہوئے اور نہ تہجد کی نماز (مفہوم روایت) ، کا حوالہ درکار ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے خیال میں شیخ توصیف صاحب نے سنن ابوداود ، سنن ابن ماجہ کی درج ذیل حدیث سے مذکورہ بات اخذ کی ہے :لیکن اس تھجد کی بات نہیں ،
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن سعيد الجريري عن أبي السليل، عن مجيبة الباهلية، عن أبيها، أو عمها، أنه أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم انطلق فأتاه بعد سنة، وقد تغيرت حاله وهيئته، فقال: يا رسول الله، أما تعرفني، قال: «ومن أنت؟» قال: أنا الباهلي، الذي جئتك عام الأول، قال: «فما غيرك، وقد كنت حسن الهيئة؟»، قال: ما أكلت طعاما إلا بليل منذ فارقتك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لم عذبت نفسك، ثم قال: «صم شهر الصبر، ويوما من كل شهر»، قال: زدني فإن بي قوة، قال: «صم يومين»، قال: زدني، قال: «صم ثلاثة أيام»، قال: زدني، قال: صم من الحرم واترك، صم من الحرم واترك، صم من الحرم واترك "، وقال: بأصابعه الثلاثة فضمها ثم أرسلها
ــــــــــــــــــــــــــ
مجیبہ باہلیہ اپنے والد یا چچا سے روایت کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے پھر چلے گئے اور ایک سال بعد دوبارہ آئے اس مدت میں ان کی حالت و ہیئت بدل گئی تھی، کہنے لگے: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے پہچانتے نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کون ہو؟“ جواب دیا: میں باہلی ہوں جو کہ پہلے سال بھی حاضر ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”تمہیں کیا ہو گیا؟ تمہاری تو اچھی خاصی حالت تھی؟“ جواب دیا: جب سے آپ کے پاس سے گیا ہوں رات کے علاوہ کھایا ہی نہیں ۱؎
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے آپ کو تم نے عذاب میں کیوں مبتلا کیا؟“
پھر فرمایا: ”صبر کے مہینہ (رمضان) کے روزے رکھو، اور ہر مہینہ ایک روزہ رکھو“
انہوں نے کہا: اور زیادہ کیجئے کیونکہ میرے اندر طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو دن روزہ رکھو“، انہوں نے کہا: اس سے زیادہ کی میرے اندر طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دن کے روزے رکھ لو“، انہوں نے کہا: اور زیادہ کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو، حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو، حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ کیا، پہلے بند کیا پھر چھوڑ دیا ۲؎۔

سنن ابی داود 2428 )سنن ابن ماجہ/(۱۷۴۱)، (تحفة الأشراف: ۵۲۴۰)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ الصیام (۲۷۴۳)، مسند احمد (۵/۲۸) (لیکن یہ روایت ضعیف ہے (مجیبة کے بارے میں سخت اختلاف ہے، یہ عورت ہیں یا مرد، صحابی ہیں یا تابعی اسی اضطراب کے سبب اس حدیث کو لوگوں نے ضعیف قرار دیا ہے
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / جه 1741 ¤ في مجيبة نظر ! انظر التحرير (6491))

وضاحت: ۱؎: برابر روزے رکھ رہا ہوں۔ ۲؎: یعنی تین دن روزے رکھو پھر تین دن نہ رکھو، پورے مہینوں میں اسی طرح کرتے رہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مسلسل روزے رکھنے والے کے روزوں کا قبول نہ ہونا اس حدیث سے اخذ کیا ہے :
سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إنك لتصوم الدهر، وتقوم الليل؟»، فقلت: نعم، قال: «إنك إذا فعلت ذلك هجمت له العين، ونفهت له النفس، لا صام من صام الدهر، صوم ثلاثة أيام صوم الدهر كله»، قلت: فإني أطيق أكثر من ذلك، قال: «فصم صوم داود عليه السلام، كان يصوم يوما ويفطر يوما، ولا يفر إذا لاقى»
(صحیح بخاری 1979 )
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تو متواتر روزے رکھتا ہے اور رات بھر عبادت کرتا ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تو یونہی کرتا رہا تو آنکھیں دھنس جائیں گی، اور تو بےحد کمزور ہو جائے گا ، اس کا کوئی روزہ نہیں جس نے (بلاناغہ ہر روز) روزہ رکھے۔
تین دن کا (ہر مہینہ میں) روزہ پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے۔ میں نے اس پر کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھا کر۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ چھوڑ دیتے تھے اور جب دشمن کا سامنا ہوتا تو پیٹھ نہیں دکھلایا کرتے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــ
اور صحیح البخاری میں حدیث ہے کہ :
عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنِّي أَسْرُدُ الصَّوْمَ، وَأُصَلِّي اللَّيْلَ، فَإِمَّا أَرْسَلَ إِلَيَّ وَإِمَّا لَقِيتُهُ، فَقَالَ: «أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ وَلاَ تُفْطِرُ، وَتُصَلِّي؟ فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ، فَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَإِنَّ لِنَفْسِكَ وَأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَظًّا»، قَالَ: إِنِّي لَأَقْوَى لِذَلِكَ، قَالَ: «فَصُمْ صِيَامَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ» قَالَ: وَكَيْفَ؟ قَالَ: «كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلاَ يَفِرُّ إِذَا لاَقَى»، قَالَ: مَنْ لِي بِهَذِهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ - قَالَ عَطَاءٌ: لاَ أَدْرِي كَيْفَ ذَكَرَ صِيَامَ الأَبَدِ - قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ صَامَ مَنْ صَامَ الأَبَدَ» مَرَّتَيْنِ (صحیح بخاری 1978 )
ترجمہ :
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں اور ساری رات عبادت کرتا ہوں۔ اب یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو میرے پاس بھیجا یا خود میں نے آپ سے ملاقات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تو متواتر روزے رکھتا ہے اور ایک بھی نہیں چھوڑتا اور (رات بھر) نماز پڑھتا رہتا ہے؟ روزہ بھی رکھ اور بے روزہ بھی رہ، عبادت بھی کر اور سوؤ بھی کیونکہ تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے، تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر داؤد علیہ السلام کی طرح روزہ رکھا کر۔ انہوں نے کہا اور وہ کس طرح؟ فرمایا کہ داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو پیٹھ نہیں پھیرتے تھے۔ اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی، اے اللہ کے نبی! میرے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں پیٹھ پھیر جاؤں۔ عطاء نے کہا کہ مجھے یاد نہیں (اس حدیث میں) صوم دہر کا کس طرح ذکر ہوا! (البتہ انہیں اتنا دیا تھا کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو صوم دہر رکھتا ہے اس کا روزہ ہی نہیں، دو مرتبہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم
میرا بھی ایک سوال ایڈ کرلیجیے کیا نفلی عبادت کی بھی اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مثلا کوئی اپنی مرضی سے ذکر الہی کرنا چاہتا ہے یا لمبی نفل نما ز پڑھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے کیا سنت سے دلیل ضروری ہوگی۔ کہ صحابہ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہوگا تو جائز ہوگا ورنہ بدعت ہوگا۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
عبادت نفلی ہو یا فرضی اس میں اتباع رسول ﷺ لازمی ہے ،کیونکہ عبادت اللہ تعالی سے محبت کا اظہار ہے
اور محبت الہی کا مظہر سنت مطہرہ کے مطابق ہونا لازم ہے :
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (31)
ترجمہ :
آپ کہہ دیجئے : کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ؛

اس آیت کریمہ کی تشریح میں علامہ عبدالرحمن کیلانی ؒ فرماتے ہیں :
اس آیت میں مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جس خوبصورت انداز سے اس آیت میں اتباع سنت پر زور دیا گیا ہے۔ شاید اس سے زیادہ ممکن بھی نہ تھا۔ اتباع کے مفہوم میں اطاعت کی نسبت بہت زیادہ وسعت ہے۔ اطاعت صرف اوامرو نواہی میں ہوتی ہے۔ جبکہ اتباع یہ ہے کہ جیسے تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرتے دیکھو ویسے ہی تم بھی کرنے لگ جاؤ جس بات کو وہ پسند کریں اسے تم بھی پسند کرو اور جس بات سے نفرت کریں اس سے تم بھی نفرت کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہیں اور تیسرا سبق اس آیت سے یہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کو بدعات سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہئے، کیونکہ بدعت سنت کی عین ضد ہے اور بدعت کی عام فہم تعریف یہ ہے کہ وہ ایسا نیا کام دین میں شامل کرنا جس کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو نیز وہ کام آپ کے بعد دین کا حصہ اور ثواب سمجھ کر بجا لایا جائے وہ مردود ہے اور بدعات کو رواج دینے والا شخص تو شدید مجرم ہے کیونکہ اس کی موت کے بعد بھی اس بدعت پر عمل کرنے والے لوگوں کے گناہ کا حصہ رسدی اس کے نامہ اعمال میں جمع ہوتا رہتا ہے اور وہ شدید مجرم اس لحاظ سے بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو شارع کے مقام پر سمجھتا ہے اور اپنے وضع کردہ نئے کام کو دین کا حصہ بنا کر دین کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ دین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہی مکمل ہوچکا تھا۔
(تیسیر القرآن )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور متفق علیہ حدیث ہے کہ :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَة رَهْط إِلَى بيُوت أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أخبروا كَأَنَّهُمْ تقالوها فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أحدهم أما أَنا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْل أبدا وَقَالَ آخر أَنا أَصوم الدَّهْر وَلَا أفطر وَقَالَ آخر أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: «أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مني» (مُتَّفق عَلَيْهِ) مشکاۃ المصابیح
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ تین آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ ان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کا حال دریافت کریں، جب ان لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کا حال بتلایا گیا تو انہوں نے آپ کی عبادت کو کم خیال کر کے آپس میں کہا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں ہم کیا چیز ہیں اللہ تعالیٰ نے تو ان کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردیئے ہیں، ان میں سے ایک نے کہا، اب میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا اور میں دن کو ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی نکاح نہ کروں گا، ان میں آپس میں یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے اور فرمایا : تم لوگوں نے ایسا ویسا کہا ہے، خبردار ! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ تقوی اختیار کرتا ہوں (لیکن اس کے باوجود) میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں میں ( رات میں) نماز بھی پڑھتا ہوں او سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں (یہی میرا طریقہ ہے لہٰذا) جو آدمی میرے طریقہ سے انحراف کرے گا وہ مجھ سے نہیں (یعنی میری جماعت سے خارج ہے) ۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

ایک حنفی عالم اس کی تشریح میں لکھتے ہیں :
تین صحابی ازواج مطہرات کی خدمت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کا حال معلوم کرنے کے لئے حاضر ہوئے جب ان لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کا حال معلوم ہوا تو اسے انہوں نے کم خیال کرتے ہوئے کہا کہ کہاں ہم اور کہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟
یعنی عبادت کے مقابلہ میں ہمیں رحمت دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس سے کیا نسبت ؟
اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنی بھی عبادت کی حاجت نہیں ہے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم اور مغفور ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اگلے پچھلے تمام گناہ بار گاہ الوہیت میں سے پہلے ہی بخش دیئے گئے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت (لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْ بِكَ وَمَا تَاَخَّرَ ) 48 ۔ الفتح : 2) " تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اگلے پچھلے تمام گنا بخش دے۔ " چنانچہ ان تینوں نے حسب طبیعت ایک ایک چیز کو اپنے اوپر لازم کرلیا اور یہ خیال کیا کہ عبادت میں اتنی زیادتی عرفان حق کا باعث اور تقرب الی اللہ کا واحد ذریعہ ہے لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس سے منع فرما دیا اس لئے کہ عبادت وہی معتبر اور قابل تحسین ہوگی جو اللہ اور اللہ کے رسول کی قائم کردہ حدود کے اندر ہو اور جتنی عبادت کے لئے بندہ کو مکلف کیا گیا ہے اتنی عبادت ہی تقرب الی اللہ کا باعث ہوگی، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تم سے زیادہ ڈرتا ہوں، تقوی تم سے زیادہ اختیار کئے ہوئے ہوں، خوف اللہ میرے دل میں تم سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی میری عبادت اور میری ریاضت ان ہی حدود کے اندر ہے جو اللہ نے قائم کردی ہے، اسی لئے میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سونے کے وقت سوتا بھی ہوں اور بقضائے فطرت عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ چنانچہ کمال انسانیت یہی ہے کہ بندہ علائق سے تعلق رکھے، عورتوں سے نکاح بھی کرے لیکن اس شان کے ساتھ کہ ایک طرف تو ان کے حقوق میں ذرہ برابر بھی کمی نہ ہو اور دوسری طرف حقوق اللہ میں بھی فرق نہ آئے اور نہ توکل کا دامن ہاتھ سے چھوٹے، اسی چیز کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورے کمال کے ساتھ عملی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کردیا تاکہ امت بھی اسی طریقہ پر چلتی رہے۔ اور پھر آخر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صاف طور پر اعلان فرما دیا کہ یہ میرا طریقہ ہے اور یہی میری سنت ہے، اب جو آدمی میری سنت سے انحراف کرتا ہے، میری بتائی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ میری سنت اور میرے طریقہ سے بیزاری و بےرغبتی کر رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسا آدمی میری جماعت سے خارج ہے اسے مجھ سے اور میری جماعت سے کوئی نسبت نہیں۔ اس ارشاد نے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ علائق دنیا سے بالکل منہ موڑ لینا اور رہبانیت کا طریق اختیار کرلینا جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ انسانی زندگی کا شیرازہ بکھر جائے گا بلکہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں بھی کو تاهی ہوگی اور عبادت کا جو اصلی حق ہے وہ ادا نہیں ہوگا۔ حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق حمه اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس حدیث سے بعض علماء نے یہ استنباط کیا ہے کہ اس حدیث میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو بدعت حسنہ کے قائل ہیں۔ اس لئے کہ تینوں صحابہ نے جن چیزوں کو اپنے اوپر لازم کرنے کا ارادہ کیا تھا وہ عبادت ہی کی قسم سے تھیں لیکن چونکہ یہ سنت کے طریقہ کے خلاف اور اس سے زیادہ تھیں اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پسند نہیں فرمایا اور اس سے منع فرمادیا، لہٰذا جو عبادت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہو اور جس طرح ثابت ہو اسی طرح ادا کرے اس میں اپنی طرف سے کمی زیادتی نہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
جزاک اللہ
محترم اللہ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے،
لیکن اس کلیہ کو دیکھ کر ایک اور سوال ذہن میں آیا ہے کہ مروجہ تراویح تو پھر عین بدعت ہوئی ۔ کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زندگی میں ایک بار رمضان میں تروایح پڑھی۔
وہ بھی آخری عشرے میں اور اس میں بھی ختم قران کا التزام نہیں کیا۔اسی طرح کا سلسلہ نبی کریم کی وفات سے لیکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کے شروع دور تک رہا۔

اب ہم ہر سال پڑھتے ہیں ختم قران کا بھی التزام کرتے ہیں۔ اور زیادہ تر ستائیسویں شب کو ہی کر تے ہیں تو کیا یہ بدعت نہیں ہوگا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا نہیں ہوگا۔
خاص طور پر فقہ حنفیہ کے مطابق کے وہ تروایح کو سنت مؤکدہ میں شمارہ کرتے ہیں اور اس کے چھوڑنے والے کو گناہ گار تصور کر تے ہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
لیکن اس کلیہ کو دیکھ کر ایک اور سوال ذہن میں آیا ہے کہ مروجہ تراویح تو پھر عین بدعت ہوئی ۔ کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زندگی میں ایک بار رمضان میں تروایح پڑھی۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ قیام الیل یعنی رات کے قیام کا اہتمام فرماتے تھے۔
آپ ﷺ
عشاء کی نماز کے بعد صبح کی نماز تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ:

عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ - وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ - إِلَى الْفَجْرِ، إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ،” إلخ
رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ الخ (صحیح مسلم:۲۵۴/۱ ح ۷۳۶)
یہی وہ نماز ہے جسے بعد میں رمضان کے دنوں میں " تراویح " یا قیام رمضان " کا نام دیا گیا ،

اسی کے متعلق صحابی کے سوال پر ام المومنین سیدہ عائشہ نے وضاحت فرمائی تھی کہ :​
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا»
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کی رمضا ن میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی؟
تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ ﷺ گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، الخ۔
(صحیح بخاری:۲۲۹/۱ ح۲۰۱۳، عمدۃ القاری:۱۲۸/۱۱، کتاب الصوم،کتاب التراویح باب فضل من قام رمضان)
اور ایک سال رمضان میں یہ ہوا کہ :
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ فَصَلَّى فِيهَا لَيَالِيَ حَتَّى اجْتَمَعَ عَلَيْهِ نَاسٌ ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ لَيْلَةً وَظَنُّوا أَنَّهُ قَدْ نَامَ فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ. فَقَالَ: مَا زَالَ بِكُمُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ. فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْء فِي بَيته إِلَّا الصَّلَاة الْمَكْتُوبَة) (مُتَّفق عَلَيْهِ)
زید ابن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (رمضان میں) مسجد میں بورئیے کا ایک حجرہ بنایا اور کئی راتیں اس میں (تراویح کے علاوہ نفل) نماز پڑھی (جب لوگ جمع ہوجاتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرے سے باہر تشریف لاتے اور فرائض و تراویح جماعت کے ساتھ پڑھتے) یہاں تک کہ (ایک روز بہت زیادہ) لوگ جمع ہوگئے (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ فرض نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جا چکے تھے اور جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول تھا کچھ دیر کے بعد باہر تشریف نہ لائے اس لئے لوگوں نے آپ کی کوئی آہٹ محسوس نہیں کی چناچہ وہ یہ سمجھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو گئے اور لوگوں نے کھنکارنا شروع کیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تراویح کے لئے) باہر تشریف لے آئیں (جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) گذشتہ راتوں میں تشریف لاتے تھے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (حجرہ سے باہر نکل کر یا اندر ہی سے) فرمایا کہ " تمہارا کام میں مسلسل دیکھ رہا ہوں (یعنی جماعت سے تراویح پڑھنے کا شوق ) پھر فرمایا لیکن مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے (یعنی اگر میں ہمیشہ نماز تراویح جماعت سے پڑھتا تو یہ نماز تم پر فرض ہوجاتی) اور اگر یہ نماز فرض ہوجاتی تو تم اس کی ادائیگی سے قاصر رہتے، لہٰذا اے لوگو ! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ انسان کی بہترین نماز وہی ہے جسے اس نے اپنے گھر میں پڑھا ہو سوائے فرض نماز کے (کہ اسے مسجد میں ہی پڑھنا افضل ہے۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نماز نبی اکرم ﷺ خود بھی پڑھتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے ،​
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: (كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْغَبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ فَيَقُولُ: «مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ والمر عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عمر على ذَلِك» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام رمضان (یعنی نماز تراویح) کی ترغیب دیا کرتے تھے لیکن تاکید کے ساتھ صحابہ کو کوئی حکم نہیں دیا کرتے تھے چناچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ " جو آدمی صحیح اعتقاد کے ساتھ حصول ثواب کے لئے (یعنی ریاء و نمائش کے جذبہ کے ساتھ نہیں بلکہ محض اللہ جل شانہ کی رضاء و خوشنودی کے لئے رمضان میں قیام کرتا ہے اس کے لئے پہلے گناہ صغیرہ بخش دئیے جاتے ہیں "
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی اور قیام رمضان کا معاملہ اسی طرح رہا (یعنی نماز تراویح کے لئے جماعت مقرر نہیں تھی بلکہ جو چاہتا حصول ثواب کے لئے پڑھ لیتا تھا) پھر حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت میں بھی یہی صورت رہی اور حضرت عمر کے زمانہ خلافت کے ابتدائی ایام میں بھی یہی معمول رہا ( اور حضرت عمر نے نماز تراویح کے لئے جماعت کا حکم دیا اور اس کا التزام کیا۔ " (صحیح مسلم

لیکن ایک رمضان میں آپ نے تہجد کی یہ نماز تین دن باجماعت ادا فرمائی۔ آپ کے ساتھ صحابہ نے بھی نہات ذوق و شوق کے ساتھ تین دن یہ نماز پڑھی۔ چوتھے دن بھی صحابہ قیام الیل کے لیے آپ کے منتظر رہے۔ لیکن آپ حجرے سے باہر تشریف نہیں لائے اور اس کی وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی کہ مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں رمضان المبارک میں یہ قیام الیل تم پر فرض نہ کر دیا جائے۔ اس لیے اس کے بعد یہ قیام الیل بطور نفلی نماز کے انفرادی طور پر ہوتا رہا۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذهب شطر اللَّيْل فَقلت: يارسول الله لَو نفلتنا قيام هَذِه اللَّيْلَة. قَالَ فَقَالَ: «إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى ينْصَرف حسب لَهُ قيام اللَّيْلَة» . قَالَ: فَلَمَّا كَانَت الرَّابِعَة لم يقم فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ. قَالَ قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السَّحُورُ. ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّةَ الشَّهْرِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَرَوَى ابْنُ مَاجَهْ نَحْوَهُ إِلَّا أَنَّ التِّرْمِذِيَّ لَمْ يَذْكُرْ: ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّة الشَّهْر

ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے (رمضان میں) رحمت دو عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہمراہ روزے رکھے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مہینے کے اکثر ایام میں ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا (یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے رمضان کی راتوں میں ہمارے ساتھ فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں پڑھی) یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں (یعنی تئیسویں آئی) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ تہائی رات تک قیام (یعنی ہمیں نماز تراویح پڑھائی) جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں (یعنی پچیسویں شب آئی) تو آپ نے ہمارے ساتھ آدھی رات تک قیام کیا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کاش آج کی رات قیام اور زیادہ کرتے (یعنی اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آدھی رات سے بھی زیادہ تک ہمیں نماز پڑھاتے رہتے تو بہتر ہوتا) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " جب کوئی آدمی (فرض) نماز امام کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس سے فارغ ہو کر واپس جاتا ہے تو اس کے لئے پوری رات کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے (یعنی عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے کی وجہ سے اسے پوری رات کی عبادت کا ثواب ملتا ہے نیز یہ کہ نوافل کا اسی وقت تک پڑھتے رہنا مناسب اور بہتر ہے جب تک دل لگے) جب چار راتیں باقی رہ گئیں (یعنی چھبیسویں شب آئی) تو ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا یہاں تک کہ تہائی رات باقی رہ گئی) ہم اسی انتظار میں لگے رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں) جب تین راتیں باقی رہ گئیں (یعنی ستائیسویں شب آئی) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے گھر والوں، اپنی عورتوں اور سب لوگوں کو جمع کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تمام رات نماز پڑھتے رہے) یہاں تک کہ ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں فلاح فوت نہ ہوجائے " راوی فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا " فلاح کیا ہے " ؟ حضرت ابوذر نے فرمایا کہ (فلاح سے مراد) سحر کا کھانا (ہے) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ مہینہ کے باقی دنوں میں (یعنی اٹھائیسویں اور انتیسویں شب میں) قیام نہیں کیا " سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) ابن ماجہ نے بھی اس طرح کی روایت نقل کی ہے ،
نیز ترمذی نے اپنی روایت میں ثم لم یقم بنا بقیۃ الشھر ( یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ مہینے کے باقی دنوں میں قیام نہیں کیا، کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔ "

تشریح اس حدیث میں معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان کے پہلے دو عشروں میں تراویح کی نماز صحابہ کو نہیں پڑھائی اس کا سبب وہی ہے جو پہلی حدیث میں گذر چکا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " مجھے اندیشہ ہے کہ یہ نماز فرض نہ ہوجائے "


حدیث کے الفاظ حتی بقی سبع الخ) یعنی یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں) کے بارے میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حساب باعتبار یقین کی ہے یعنی انتیس دن کا مہینہ یقینی ہو اسی پر حساب لگایا ہے جیسا کہ ترجمہ کے دوران قوسین میں اس کی وضاحت کر کے اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ " سحر کھانے " کو " فلاح " اس لئے کہا ہے کہ اس کے ذریعے روزہ رکھنے کی قوت و طاقت حاصل ہوتی ہے جو درحقیقت فلاح کا سبب ہے۔ آخری راتوں میں قیام کا تفاوت فضیلت کے اعتبار سے تھا یعنی جن راتوں کی فضیلت کم تھی ان راتوں میں قیام کم کیا اور جن راتوں کی فضیلت زیادہ تھی ان میں فضیلت کی اسی زیادتی کے مطابق قیام بھی زیادہ کیا یہاں تک کہ ستائیسویں شب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام رات قیام کیا۔ کیونکہ اکثر علماء کے قول کے مطابق " لیلۃ القدر " ستائیسویں ہی شب ہے یہی وجہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رات کو اپنے گھر والوں، عورتوں کو جمع کیا اور سب کے ساتھ پوری رات عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے دور مبارک میں گھروں میں خواتین کو باجماعت تراویح بھی پڑھاتے تھے
یہ حدیث دیکھئے :

وعن جابر بن عبد الله قال: «جاء أبي بن كعب إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: يا رسول الله إنه كان مني الليلة شيء - يعني في رمضان - قال: " وما ذاك يا أبي؟ " قال: نسوة في داري قلن إنا لا نقرأ القرآن فنصلي بصلاتك قال: فصليت بهن ثماني ركعات وأوترت فكان سنة الرضا ولم يقل شيئا».
رواه أبو يعلى والطبراني بنحوه في الأوسط وإسناده حسن.

جناب جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کے پاس رمضان کے دنوں میں تشریف لائے:اور عرض کی کہ گذشتہ شب مجھ سے ایک کام ہوا ، آپ ﷺ نے پوچھا : وہ کیا ؟
انہوں نے کہا :ہمارے گھر کی عورتوں نے مجھے کہا کہ ہمیں قرآن
(اتنا )حفظ نہیں ، تو آپ کے ساتھ (باجماعت ) نماز پڑھیں گی ، تو میں نے انہیں آٹھ رکعت اور پھر وتر پڑھائے، تو آپ نے خاموشی سے اپنی رضا و پسند کا اظہار فرمایا ، کچھ (رد) بھی نہیں فرمایا "
اسے ابو یعلی نے روایت کیا اور اسے طرح طبرانی نے اوسط میں روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے ۔ (مجمع الزوائد :۷۴/۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم اسحاق صاحب
السلام علیکم

میرا سوال یہی تھا کہ ہمارا مروجہ طریقہ عین بدعت ہے ۔ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں
لیکن مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے (یعنی اگر میں ہمیشہ نماز تراویح جماعت سے پڑھتا تو یہ نماز تم پر فرض ہوجاتی) اور اگر یہ نماز فرض ہوجاتی تو تم اس کی ادائیگی سے قاصر رہتے، لہٰذا اے لوگو ! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ انسان کی بہترین نماز وہی ہے جسے اس نے اپنے گھر میں پڑھا ہو سوائے فرض نماز کے (کہ اسے مسجد میں ہی پڑھنا افضل ہے۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تو یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلف ورزی ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ترغیب دلاتے تھے، ہمارا تو عقیدہ یہ ہوگیا ہے کہ جس نے تروایح نہ پڑھی وہ گناہ گار ہے ۔ اور انہوں نے صرف ترغیب دلانے کیلئے ہی ایک سال ایسا عمل کیا ۔ آپ نے جو احادیث ذکر کی ہیں ان کے مطابق ہر سال رمضان میں بھی گھر میں ہی اس کا اہتمام کر تے تھے ۔ صرف ایک سال جماعت کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو پڑھائی ۔ وہ بھی صرف تین دن ۔
یعنی تقریبا 13 سال میں ایک مرتبہ ۔
پھر ختم قران کا التزام جو تقریبا ہر منہج کی مساجد میں ہوتا ہے ۔ یہ بھی سنت کے خلاف ہوا ۔ کیوں آپ نے کہا ہے کہ نفلی عملی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہونا چاہیے ۔

اس کے علاوہ ایک بات کی مزید وضاحت کردیں آپ نے جو متفق علیہ حدیث ذکر کی ہے
زید ابن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (رمضان میں) مسجد میں بورئیے کا ایک حجرہ بنایا اور کئی راتیں اس میں (تراویح کے علاوہ نفل) نماز پڑھی (جب لوگ جمع ہوجاتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرے سے باہر تشریف لاتے اور فرائض و تراویح جماعت کے ساتھ پڑھتے) یہاں تک کہ (ایک روز بہت زیادہ) لوگ جمع ہوگئے (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ فرض نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جا چکے تھے اور جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول تھا کچھ دیر کے بعد باہر تشریف نہ لائے اس لئے لوگوں نے آپ کی کوئی آہٹ محسوس نہیں کی چناچہ وہ یہ سمجھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو گئے اور لوگوں نے کھنکارنا شروع کیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بیدار ہوجائیں اور نماز تراویح کے لئے) باہر تشریف لے آئیں (جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گذشتہ راتوں میں تشریف لاتے تھے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (حجرہ سے باہر نکل کر یا اندر ہی سے) فرمایا کہ " تمہارا کام جو میں دیکھ رہا ہوں برابر جاری رہے (یعنی جماعت سے تراویح پڑھنے کا شوق اور عبادت کے معاملہ میں تمہارا جذبہ ہمیشہ رہے اور پھر فرمایا) لیکن مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے (یعنی اگر میں ہمیشہ نماز تراویح جماعت سے پڑھتا تو یہ نماز تم پر فرض ہوجاتی) اور اگر یہ نماز فرض ہوجاتی تو تم اس کی ادائیگی سے قاصر رہتے، لہٰذا اے لوگو ! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ انسان کی بہترین نماز وہی ہے جسے اس نے اپنے گھر میں پڑھا ہو سوائے فرض نماز کے (کہ اسے مسجد میں ہی پڑھنا افضل ہے۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
جبکہ بخاری کی حدیث نمبر 2012 میں یہی واقعہ ہے لیکن اس میں یہ الفاظ تمہارا جو کام دیکھ رہا ہوں برابر جاری رہے نہیں ہے ۔
اور ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ (رمضان کی) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے (اس رات بھی) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ (لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر شہادت کے بعد فرمایا۔ امابعد! تمہارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ، چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہی کیفیت قائم رہی۔
آپ کا ذیل میں دیا گیا اقتباس تو واضح ہے کہ جیسا نبی کریم صلی اللہ علیہ نے کہہ دیا ایسا ہی کرنا ہے ۔ اس میں کوئی کمی زیادتی نہیں کر سکتا چاہے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کیوں نہ ہوں۔
اس لئے کہ تینوں صحابہ نے جن چیزوں کو اپنے اوپر لازم کرنے کا ارادہ کیا تھا وہ عبادت ہی کی قسم سے تھیں لیکن چونکہ یہ سنت کے طریقہ کے خلاف اور اس سے زیادہ تھیں اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پسند نہیں فرمایا اور اس سے منع فرمادیا، لہٰذا جو عبادت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہو اور جس طرح ثابت ہو اسی طرح ادا کرے اس میں اپنی طرف سے کمی زیادتی نہ کرے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جبکہ بخاری کی حدیث نمبر 2012 میں یہی واقعہ ہے لیکن اس میں یہ الفاظ تمہارا جو کام دیکھ رہا ہوں برابر جاری رہے نہیں ہے ۔
غلطی کی نشاندہی کیلئے شکریہ
اصلاح کردی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی جو نتیجہ آپ اخذ کر رہے ہیں ، یعنی تراویح کا بدعت ہونا یہ درست نہیں ، بلکہ صریحا غلط بات ہے
فی الحال تفصیل کیلئے وقت نہیں ، اس لئے معذرت ۔۔۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
غلطی کی نشاندہی کیلئے شکریہ
اصلاح کردی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی جو نتیجہ آپ اخذ کر رہے ہیں ، یعنی تراویح کا بدعت ہونا یہ درست نہیں ، بلکہ صریحا غلط بات ہے
فی الحال تفصیل کیلئے وقت نہیں ، اس لئے معذرت ۔۔۔
محترم
اسحاق صاحب السلام
آپ کا مشکور ہوں ۔ آپ اپنے قیمتی اوقات سے وقت نکال کر سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔
اللہ رب العزت آپ کے علم نافع میں اضافہ فرمائے۔آمین
 
Top