السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک صحابی نے سال بھر روزے رکھے اور سال بھر رات کا قیام کیا...لیکن نہ روزے قبول ہوئے اور نہ تہجد کی نماز (مفہوم روایت) ، کا حوالہ درکار ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے خیال میں شیخ توصیف صاحب نے سنن ابوداود ، سنن ابن ماجہ کی درج ذیل حدیث سے مذکورہ بات اخذ کی ہے :لیکن اس تھجد کی بات نہیں ،
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن سعيد الجريري عن أبي السليل، عن مجيبة الباهلية، عن أبيها، أو عمها، أنه أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم انطلق فأتاه بعد سنة، وقد تغيرت حاله وهيئته، فقال: يا رسول الله، أما تعرفني، قال: «ومن أنت؟» قال: أنا الباهلي، الذي جئتك عام الأول، قال: «فما غيرك، وقد كنت حسن الهيئة؟»، قال: ما أكلت طعاما إلا بليل منذ فارقتك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لم عذبت نفسك، ثم قال: «صم شهر الصبر، ويوما من كل شهر»، قال: زدني فإن بي قوة، قال: «صم يومين»، قال: زدني، قال: «صم ثلاثة أيام»، قال: زدني، قال: صم من الحرم واترك، صم من الحرم واترك، صم من الحرم واترك "، وقال: بأصابعه الثلاثة فضمها ثم أرسلها
ــــــــــــــــــــــــــ
مجیبہ باہلیہ اپنے والد یا چچا سے روایت کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے پھر چلے گئے اور ایک سال بعد دوبارہ آئے اس مدت میں ان کی حالت و ہیئت بدل گئی تھی، کہنے لگے: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے پہچانتے نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کون ہو؟“ جواب دیا: میں باہلی ہوں جو کہ پہلے سال بھی حاضر ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”تمہیں کیا ہو گیا؟ تمہاری تو اچھی خاصی حالت تھی؟“ جواب دیا: جب سے آپ کے پاس سے گیا ہوں رات کے علاوہ کھایا ہی نہیں ۱؎
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے آپ کو تم نے عذاب میں کیوں مبتلا کیا؟“
پھر فرمایا: ”صبر کے مہینہ (رمضان) کے روزے رکھو، اور ہر مہینہ ایک روزہ رکھو“
انہوں نے کہا: اور زیادہ کیجئے کیونکہ میرے اندر طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو دن روزہ رکھو“، انہوں نے کہا: اس سے زیادہ کی میرے اندر طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دن کے روزے رکھ لو“، انہوں نے کہا: اور زیادہ کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو، حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو، حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ کیا، پہلے بند کیا پھر چھوڑ دیا ۲؎۔
سنن ابی داود 2428 )سنن ابن ماجہ/(۱۷۴۱)، (تحفة الأشراف: ۵۲۴۰)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ الصیام (۲۷۴۳)، مسند احمد (۵/۲۸) (لیکن یہ روایت ضعیف ہے (مجیبة کے بارے میں سخت اختلاف ہے، یہ عورت ہیں یا مرد، صحابی ہیں یا تابعی اسی اضطراب کے سبب اس حدیث کو لوگوں نے ضعیف قرار دیا ہے
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / جه 1741 ¤ في مجيبة نظر ! انظر التحرير (6491))
وضاحت: ۱؎: برابر روزے رکھ رہا ہوں۔ ۲؎: یعنی تین دن روزے رکھو پھر تین دن نہ رکھو، پورے مہینوں میں اسی طرح کرتے رہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مسلسل روزے رکھنے والے کے روزوں کا قبول نہ ہونا اس حدیث سے اخذ کیا ہے :
سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إنك لتصوم الدهر، وتقوم الليل؟»، فقلت: نعم، قال: «إنك إذا فعلت ذلك هجمت له العين، ونفهت له النفس، لا صام من صام الدهر، صوم ثلاثة أيام صوم الدهر كله»، قلت: فإني أطيق أكثر من ذلك، قال: «فصم صوم داود عليه السلام، كان يصوم يوما ويفطر يوما، ولا يفر إذا لاقى»
(صحیح بخاری 1979 )
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تو متواتر روزے رکھتا ہے اور رات بھر عبادت کرتا ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تو یونہی کرتا رہا تو آنکھیں دھنس جائیں گی، اور تو بےحد کمزور ہو جائے گا ،
اس کا کوئی روزہ نہیں جس نے (بلاناغہ ہر روز) روزہ رکھے۔
تین دن کا (ہر مہینہ میں) روزہ پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے۔ میں نے اس پر کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھا کر۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ چھوڑ دیتے تھے اور جب دشمن کا سامنا ہوتا تو پیٹھ نہیں دکھلایا کرتے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــ
اور صحیح البخاری میں حدیث ہے کہ :
عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنِّي أَسْرُدُ الصَّوْمَ، وَأُصَلِّي اللَّيْلَ، فَإِمَّا أَرْسَلَ إِلَيَّ وَإِمَّا لَقِيتُهُ، فَقَالَ: «أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ وَلاَ تُفْطِرُ، وَتُصَلِّي؟ فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ، فَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَإِنَّ لِنَفْسِكَ وَأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَظًّا»، قَالَ: إِنِّي لَأَقْوَى لِذَلِكَ، قَالَ: «فَصُمْ صِيَامَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ» قَالَ: وَكَيْفَ؟ قَالَ: «كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلاَ يَفِرُّ إِذَا لاَقَى»، قَالَ: مَنْ لِي بِهَذِهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ - قَالَ عَطَاءٌ: لاَ أَدْرِي كَيْفَ ذَكَرَ صِيَامَ الأَبَدِ - قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ صَامَ مَنْ صَامَ الأَبَدَ» مَرَّتَيْنِ (صحیح بخاری 1978 )
ترجمہ :
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں اور ساری رات عبادت کرتا ہوں۔ اب یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو میرے پاس بھیجا یا خود میں نے آپ سے ملاقات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تو متواتر روزے رکھتا ہے اور ایک بھی نہیں چھوڑتا اور (رات بھر) نماز پڑھتا رہتا ہے؟ روزہ بھی رکھ اور بے روزہ بھی رہ، عبادت بھی کر اور سوؤ بھی کیونکہ تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے، تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر داؤد علیہ السلام کی طرح روزہ رکھا کر۔ انہوں نے کہا اور وہ کس طرح؟ فرمایا کہ داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو پیٹھ نہیں پھیرتے تھے۔ اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی، اے اللہ کے نبی! میرے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں پیٹھ پھیر جاؤں۔ عطاء نے کہا کہ مجھے یاد نہیں (اس حدیث میں) صوم دہر کا کس طرح ذکر ہوا! (البتہ انہیں اتنا دیا تھا کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو صوم دہر رکھتا ہے اس کا روزہ ہی نہیں، دو مرتبہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔