19۔سالارِ فوج مغفور لھم کون تھا ؟
سیدنا ابوبکرؓ نے اپنے دور ِخلافت میں حضرت یزید ؓبن ابی سفیان (حضرت معاویہ ؓکے بھائی) ، حضرت ابوعبیدہ ؓبن جراح ، حضرت خالدؓ بن ولیداور دیگر امراء کو جہاد ِشام پر متعین کیا ۔انہوں نے شام وفلسطین وغیرہ کو فتح کیا اور رومیوں کو عبرتناک شکستیں دیں ۔حضرت یزید بن ابی سفیانؓ کی وفات کے بعد حضرت امیر معاویہؓ کوان کی جگہ پر مقرر کیاگیا انہو ں نے دورِ فاروقی ؓ اور دورِ عثمانی ؓمیں ر ومیوں کو بری وبحری شکستیں دیں لیکن مدینہ ٔقیصر (قسطنطنیہ) پر ابھی تک پیش قدمی نہیں کی گئی تھی ، اورشجاعانِ عرب ،رومی نصرانیت کے صدر مقام قسطنطنیہ کے فتح کرنے کا خیال اس وقت سے دل میں بٹھائے ہوئے تھے جب سے انہوں نے ملک شام کو فتح کیا۔
چنانچہ حاضر العالم الإسلامی ص ۲۱۴ پر مرقوم ہے کہ
’’إن العرب منذ فتحوا الشام فکروا فی فتح القسطنطنیۃ لأنھا کانت لذلک العھد عاصمۃ النصرانیۃ وکان الإسلام لو فتحھا غَلَبَ علی شمالی أوربا بلا نزاع‘‘
’’شجاعانِ عرب شام کو فتح کرنے کے وقت سے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی فکر میں تھے کیونکہ اس دور میں قسطنطنیہ نصرانیت کا دار الخلافہ تھا اور اگر قسطنطنیہ فتح ہو جاتا تو اسلام بلا نزاع شمالی یورپ میں غلبہ حاصل کر لیتا‘‘
لیکن صفین کی خانہ جنگی نے حضرت امیر معاویہؓ کی رومی نصرانیت کے خلاف سرگرمیوں کو ملتوی کر دیا ۔ ۴۱ھ میں جب حضرت امیر معاویہ ؓ مسند ِخلافت پر متمکن ہوئے تو متعدد سالوں کی جدوجہد سے انہوں نے جہازوں کا بیڑا تیا رکیا ، یہ سب سے پہلا جنگی بیڑا تھا، ۴۹ھ میں حضرت امیر معاویہؓ نے جہادِ قسطنطنیہ کے لئے بری و بحری حملوں کا انتظام کیا ۔فوج میں شامی عرب بالخصوص بنو کلب اور ان کے علاوہ حجازی اور قریشی غازیوں کا دستہ بھی تھا، اور اس میں صحابہ کرامؓ کی جماعت بھی تھی۔ اس فوج کے سپہ سالار یزید بن معاویہ تھے، یہ وہی پہلا لشکر تھا جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا جس کی بشارت سید الانبیائﷺ نے بایں الفاظ دی تھی کہ
’أول جیش من أمتی یغزون مدینۃ قیصر مغفورلھم‘‘(صحیح بخاری، ص۱؍۴۱۰)
کہ میری امت کی پہلی فوج جو مدینہ ٔقیصر پر جہاد کرے گی ،اُن کے لئے مغفرت ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ فتح الباری میں رقم طراز ہیں کہ
’’قال المھلب فی ھٰذا الحدیث منقبۃ لمعاویۃ لأنہ أول من غزا البحر وولدہ یزید لانہ من غزا مدینۃ قیصر‘‘ (فتح الباری، مطبوعہ مصر و ریاض، ص۱۰۲، جلد۶)
’’اس حدیث کے بارے میں (محدث) مہلب ؒنے فرمایا کہ یہ حدیث حضرت امیرمعاویہؓ کی منقبت میں ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے بحری جہا دکا آغاز کیا اور اس کے فرزند یزید کی منقبت میں ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے مدینہ قیصر پر جہادکیا۔‘‘
علامہ قسطلانی ؒشارحِ بخاری مدینۃ قیصر کی تشریح فرماتے ہیں کہ
’’اس سے مرادرومی سلطنت کا صدر مقام قسطنطنیہ ہے اور صحیح بخاری زیر حدیث أول جیش…الخ کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ کان أول من غزا مدینۃ قیصر یزید بن معاویۃ ومعہ جماعۃ من الصحابۃ کابن عمر وابن عباس وابن الزبیر وأبی أیوب الأنصاري رضی اللہ عنھم أجمعین (صحیح بخاری ص۱؍۴۱۰، اصح المطابع ۱۳۵۷ھ)
’’مدینہ قیصر (قسطنطنیہ) پر سب سے پہلے حملہ کرنے والے یزید بن معاویہ تھے اور ان کے ساتھ صحابہؓ کی ایک جماعت تھی :جیسے ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، عبد اللہ بن زبیر ؓاور ابو ایوب انصاری ؓ‘‘
اور قسطلانی میں ہے کہ
واستدل بہ المھلب علی ثبوت خلافۃ یزید وأنہ من أھل الجنۃ ۔(قسطلانی طبع بیروت، ص۱۰۴ جلد۵)
’’اس سے محدثمہلب ؒنے یزید کی خلافت پر استدلال کیا ہے اور یہ کہ وہ اہل جنت میں سے ہے‘‘
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ رقم طراز ہیں کہ
وقد ثبت فی صحیح البخاری عن ابن عمر عن النبیﷺ قال أول جیش یغزوا القسطنطنیۃ مغفور لھم وأول جیش غزاھا کان امیرھم یزید والجیش عدد معین لا مطلقٌ وشمول المغفرۃ لأحاد ھذا الجیش أقوی… ویقال أن یزید انما غزا القسطنطنیۃ لأجل ذلک ھذا الحدیث… الخ
’’صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر ، نبی کریم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ پہلا لشکر جو قسطنطنیہ کو جہاد کرے گا وہ بخشا ہوا ہیـ۔پہلا لشکر جس نے اس کے خلاف جہاد کیا،اس کا امیر یزید تھا۔لشکر کی تعداد معین ہوتی ہے نہ کہ غیر محدود، اور مغفرت میں لشکر کے ایک ایک آدمی کا شامل ہونا زیادہ قوی بات ہے…بعض لوگوں نے یہ بات بھی کہی ہے کہ یزید کے قسطنطنیہ پر جہاد میں جانے کی غرض بھی نبی اکرم کا یہی فرمان ہے۔‘‘
(تفصیل کے لئے منھاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ مطبوعہ ۱۳۹۶ھ ص۲؍۲۵۲، المنتقی من منہاج اعتدال فی نقض کلام الرفض والا عتزال مطبوعہ ۱۳۷۶ھ ص۲۹۰ ملاحظہ فرمائیں۔)
دوسرے مقام پر رقم فرماتے ہیں کہ
’’جب یزید نے اپنے باپ معاویہ ؓکے زمانے میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا تو اس کی فوج میں حضرت ابوایوب انصاریؓ جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شریک تھے، یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی فوج تھی جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا اور صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ سب سے پہلی فوج میری امت کی جو قسطنطنیہ پر حملہ کرے گی وہ مغفور ہوگی۔ ‘‘ (حسین و یزید مطبوعہ کلکتہ ص۲۸، منہاج السنہ مطبوعہ مصر ص۲۴۵، ج۲)
ایک اور مقام پر یوں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’أول جیش یغزوا القسطنطنیۃ مغفورلہ وأول جیش غزاھا کان أمیرھم یزید بن معاویۃ وکان معہ أبوأیوب الأنصاری و توفی ھناک و قبرہ ھناک الآن‘‘ (منہاج السنہ، مطبوعہ ۱۳۹۶ھ، ص۲؍۲۴۵۔۲۵۲، فتاویٰ شیخ الاسلام مطبوعہ ۱۳۸۱ھ، ص۳؍ ۴۱۴،۴۷۵،۴؍۴۸۶، البدایہ والنھایہ مطبوعہ ۱۳۹۸ھ، ص۶؍۲۲۳، ص۵۹، ص۸۱، ص۲۲۹ جلد۸)
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒنے فتح الباری میں لکھا ہے کہ
’’فإنہ کان أمیر ذلک الجیش بالاتفاق‘‘
کہ وہ متفقہ طور پر اس لشکر کا امیر تھا‘‘(فتح الباری مطبوعہ ۱۳۰۵ھ، ص۹۲، جلد۱۱)
مشہور شیعہ مؤرخ المسعودی نے کتاب التنبیہ والاشرافمیں لکھا ہے کہ
وقد حاصر القسطنطنیۃ في الاسلام من ھذا العدوۃ ثلاثہ امرآئ: آبائھم ملوک و خلفائ، أولھم یزید بن معاویۃ بن أبی سفیان، والثانی مسلمۃ بن عبدالملک بن مروان والثالث ھارون الرشید بن المھدي (التنبیہ والاشراف مطبوعہ لندن ۱۸۹۴ئ، ص۱۴۰)
یعنی’’ اسلامی دور میں اس ساحل بحر سے چل کر تین امرائے جیوشِ اسلام نے (جن کے آبائو واجداد خلیفہ و بادشاہ تھے) قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا :سب سے اول یزید بن معاویہ بن ابی سفیان، دوسرے مسلمہ بن عبدالمالک بن مروان اور تیسرے ہارون الرشیدمہدی تھے۔‘‘
ان حوالہ جات سے اظہر من الشمس ہے کہ جس حدیث میں قسطنطنیہ پر حملہ آور فوج کو مغفرت کی بشارت ہے ،ان کے امیر بالاتفاق یزید بن معاویہ تھے اور اسی لشکر میں حضرت حسین، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم شامل تھے، اگر پہلا حملہ ۴۶ھ میں زیرقیادت حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید تھا تو حضرت ابوایوب انصاریؓ حصولِ مغفرت کی اس سعادت سے کیوں محروم رہے؟
’’اور پھر اسی(۸۰) سال سے متجاوز عمر میں یزید بن معاویہ کے لشکر میں شمولیت کی اور ارضِ روم کے قریب ہی بیمار ہوئے اور یزید ان کی تیمار داری کرتا تھا۔‘‘ (اصابہ مطبوعہ، مصر ص۱؍۴۰۵) … اور حضرت ابوایوب انصاری کی وصیت کے مطابق یزید بن معاویہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی (البدایہ :۸؍۵۸)
اور الاسیتعاب میں ہے:
وکان أبوأیوب الأنصاری مع علي بن أبی طالب فی حروب کلھا ثم مات بالقسطنطنیۃ فی بلاد الروم في زمن معاویۃ کانت غزاتہ تحت رأیۃ یزید بن معاویۃ وھوکان امیرھم یومئذ (الاسیتعاب ،ص۱۵۷)
’’حضرت ابو ایوب ؓانصاری تمام جنگوں میں حضرت علی ؓکے ساتھ تھے پھر ان کی وفات حضرت معاویہ ؓ کے زمانے میں رومیوں کے ملک قسطنطنیہ میں ہوئی۔ ان کا جہاد یزید بن معاویہ کے جھنڈے تلے تھا، جو اس وقت اُن کا امیر تھا‘‘
روض الانف میں ہے کہ یزید بن معاویہ کی قیادت میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا تو حضرت ابوایوب انصاریؓ کی وفات ہوئی اور انہوں نے یزید بن معاویہ کو وصیت کی تھی کہ مجھے بلادِروم کے بہت ہی قریب دفن کیا جائے چنانچہ مسلمانوں نے ان کی وصیت کے پیش نظر انہیں بلادِ روم کے قریب دفن کردیا جب رومیوں نے یہ منظر دیکھا تو کہا: یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تو یزید بن معاویہ نے جواب دیا کہ ’’ہم پیغمبر اعظمﷺ کے جلیل القدر صحابی کودفن کر رہے ہیں۔‘‘ تو رومیوں نے کہا: تم کس قدر احمق ہو ،کیا تمہیں اس بات کا خوف نہیںکہ ہم تمہارے جانے کے بعد اس کی قبر کھود کر اس کی ہڈیاں بھی جلا دیں گے۔ تویزید بن معاویہ یہ الفاظ برداشت نہ کرسکا، للکار کرکہا:واللہ العظیم! اگر تم ایسا کرو گے تو یاد رکھو سرزمین عرب میں جس قدر گرجے ہیں، ہم ان کو گرا دیں گے اور تمہاری جتنی قبریں ہیں ہم اُن کو اُکھاڑ دیں گے۔ یہ جواب سن کر رومیوں نے اپنے دین کی قسمیں اٹھائیں اور حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر کی حفاظت و احترام کا عہد کیا، (ملاحظہ ہو: روض الانف شرح ابن ہشام لامام سہیلی طبع قدیم، ص۲؍۲۴۶)