• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبحان الله وبحمده ، سبحان الله العظيم !!!

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
رہی بات 100 سے ذیادہ پڑھنے کی تو ان کلمات کی عمومی فضیلت اور اہمیت احادیث میں موجود ہے اس لیئے ذیادہ پڑھنے میں عمومی فضیلت جو کہ اس پوسٹ میں بھی موجود ہے کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی حرج نہیں۔

مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
[ماہنامہ محدث : اگست 1999]
اس فورم پر غیر مقلدین (آئندہ اس لفظ سے اجتناب کیجئے۔ انتظامیہ!) کے نظریات میں جا بجا تفاوت ہے ۔ ایک عمل کو بدعت کہا جاتا ہے تو دوسری جگہ اسی کو صحیح کہا جاتا ہے ۔ اس کی ایک مثال آپ کو دکھانا مقصود ہے
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اس فورم پر غیر مقلدین کے نظریات میں جا بجا تفاوت ہے ۔ ایک عمل کو بدعت کہا جاتا ہے تو دوسری جگہ اسی کو صحیح کہا جاتا ہے ۔ اس کی ایک مثال آپ کو دکھانا مقصود ہے
بات کو آگے پیچھے سے کاٹ کر پیش کرنا اچھی عادت اور خصلت نہیں۔
آپ نے انکی پوسٹ کا اقتباس لیا تو Muhammad Aamir Younus بھائی کو ٹیگ بھی کرنا تھا۔
وہ اپنی بات کا صحیح جواب دے سکتے ہیں۔۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اس فورم پر غیر مقلدین کے نظریات میں جا بجا تفاوت ہے ۔ ایک عمل کو بدعت کہا جاتا ہے تو دوسری جگہ اسی کو صحیح کہا جاتا ہے ۔ اس کی ایک مثال آپ کو دکھانا مقصود ہے
ثبوت بھی ہے جا بجا کا یا پھر الزام ہی لگانا ہوتا ہے۔۔۔۔ جا بجا کا جو مفہوم ہوتا ہے۔ اسی کو سامنے رکھتے ہوئے ثبوت پیش کریں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
بات کو آگے پیچھے سے کاٹ کر پیش کرنا اچھی عادت اور خصلت نہیں۔
آپ نے انکی پوسٹ کا اقتباس لیا تو Muhammad Aamir Younus بھائی کو ٹیگ بھی کرنا تھا۔
وہ اپنی بات کا صحیح جواب دے سکتے ہیں۔۔
میں نے Muhammad Aamir Younus کا پراپر طریقہ سے اقتباس لیا ہے اور ان کا قول صرف کاپی پیسٹ نہیں کیا اور جب اس طرح اقتباس لیا جاتا تو ایک اطلاع مذکورہ شخص کو چلی جاتی ہے اور اگر آپ کو محمد عامر یونس کا مکمل پوسٹ پڑھنی ہے تو دیے گئے اقتباس پر تیر کے نشان پر کلک کریں مذکورہ پوسٹ میں آپ پہنچ جائيں گے

اب آپ بتائيں اپ دونوں حضرات میں سنت پر کون عمل کر رہا ہے اور بدعت پر کون
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میں نے Muhammad Aamir Younus کا پراپر طریقہ سے اقتباس لیا ہے اور ان کا قول صرف کاپی پیسٹ نہیں کیا اور جب اس طرح اقتباس لیا جاتا تو ایک اطلاع مذکورہ شخص کو چلی جاتی ہے اور اگر آپ کو محمد عامر یونس کا مکمل پوسٹ پڑھنی ہے تو دیے گئے اقتباس پر تیر کے نشان پر کلک کریں مذکورہ پوسٹ میں آپ پہنچ جائيں گے

اب آپ بتائيں اپ دونوں حضرات میں سنت پر کون عمل کر رہا ہے اور بدعت پر کون
تلمیذ بھائی آپکو پورا مکالمہ پوسٹ کرنا تھا کیا یہ خیانت نہیں ؟

ذِکر و اذکار میں گنتی متعین کرنا!!!
دین اسلام میں ذکر الٰہی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے۔ بہت ساری نصوص میں ذاکرین کی تعریف اور ان کے لیے بہت سے سارے دنیوی و اخروی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے کے سلسلے میں دین اسلام نے ہمیں کچھ اصول بھی دئیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں صاحبان جبہ و دستار ذکر کے نام پر بدعات کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے پر گھر بسنے کے نوید سنا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور کئی دفعہ ایسے ذکر بھی سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ایسے الفاظ شامل ہوتے ہیں جن کا عربی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ذکر و اذکار میں گنتی متعین کر لینے سے متعلق حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ نقل کر رہا ہوں جو اگرچہ مختصر سا ہے لیکن قابل غور ہے۔
حافظ صاحب سے سوال کیا گیا کہ ذکر میں اپنی طرف سے گنتی متعین کرنےکا کیا حکم ہے؟
تو آپ کا جواب تھا:
ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
''من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد''
''جو دین میں اضافہ کرے وہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔''
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
[ماہنامہ محدث : اگست 1999]

ذِکر و اذکار میں گنتی متعین کرنا!!!
دین اسلام میں ذکر الٰہی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے۔ بہت ساری نصوص میں ذاکرین کی تعریف اور ان کے لیے بہت سے سارے دنیوی و اخروی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے کے سلسلے میں دین اسلام نے ہمیں کچھ اصول بھی دئیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں صاحبان جبہ و دستار ذکر کے نام پر بدعات کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے پر گھر بسنے کے نوید سنا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور کئی دفعہ ایسے ذکر بھی سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ایسے الفاظ شامل ہوتے ہیں جن کا عربی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ذکر و اذکار میں گنتی متعین کر لینے سے متعلق حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ نقل کر رہا ہوں جو اگرچہ مختصر سا ہے لیکن قابل غور ہے۔
حافظ صاحب سے سوال کیا گیا کہ ذکر میں اپنی طرف سے گنتی متعین کرنےکا کیا حکم ہے؟
تو آپ کا جواب تھا:
ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
''من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد''
''جو دین میں اضافہ کرے وہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔''
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
[ماہنامہ محدث : اگست 1999]

ذِکر و اذکار میں گنتی متعین کرنا!!!
دین اسلام میں ذکر الٰہی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے۔ بہت ساری نصوص میں ذاکرین کی تعریف اور ان کے لیے بہت سے سارے دنیوی و اخروی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے کے سلسلے میں دین اسلام نے ہمیں کچھ اصول بھی دئیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں صاحبان جبہ و دستار ذکر کے نام پر بدعات کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے پر گھر بسنے کے نوید سنا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور کئی دفعہ ایسے ذکر بھی سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ایسے الفاظ شامل ہوتے ہیں جن کا عربی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ذکر و اذکار میں گنتی متعین کر لینے سے متعلق حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ نقل کر رہا ہوں جو اگرچہ مختصر سا ہے لیکن قابل غور ہے۔
حافظ صاحب سے سوال کیا گیا کہ ذکر میں اپنی طرف سے گنتی متعین کرنےکا کیا حکم ہے؟
تو آپ کا جواب تھا:
ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
''من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد''
''جو دین میں اضافہ کرے وہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔''
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
[ماہنامہ محدث : اگست 1999]


محمد وقاص گل
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تلمیذ بھائی آپکو پورا مکالمہ پوسٹ کرنا تھا کیا یہ خیانت نہیں ؟

ذِکر و اذکار میں گنتی متعین کرنا!!!
دین اسلام میں ذکر الٰہی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے۔ بہت ساری نصوص میں ذاکرین کی تعریف اور ان کے لیے بہت سے سارے دنیوی و اخروی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے کے سلسلے میں دین اسلام نے ہمیں کچھ اصول بھی دئیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں صاحبان جبہ و دستار ذکر کے نام پر بدعات کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے پر گھر بسنے کے نوید سنا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور کئی دفعہ ایسے ذکر بھی سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ایسے الفاظ شامل ہوتے ہیں جن کا عربی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ذکر و اذکار میں گنتی متعین کر لینے سے متعلق حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ نقل کر رہا ہوں جو اگرچہ مختصر سا ہے لیکن قابل غور ہے۔
حافظ صاحب سے سوال کیا گیا کہ ذکر میں اپنی طرف سے گنتی متعین کرنےکا کیا حکم ہے؟
تو آپ کا جواب تھا:
ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
''من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد''
''جو دین میں اضافہ کرے وہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔''


مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔


[ماہنامہ محدث : اگست 1999]

ذِکر و اذکار میں گنتی متعین کرنا!!!
دین اسلام میں ذکر الٰہی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے۔ بہت ساری نصوص میں ذاکرین کی تعریف اور ان کے لیے بہت سے سارے دنیوی و اخروی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے کے سلسلے میں دین اسلام نے ہمیں کچھ اصول بھی دئیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں صاحبان جبہ و دستار ذکر کے نام پر بدعات کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے پر گھر بسنے کے نوید سنا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور کئی دفعہ ایسے ذکر بھی سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ایسے الفاظ شامل ہوتے ہیں جن کا عربی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ذکر و اذکار میں گنتی متعین کر لینے سے متعلق حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ نقل کر رہا ہوں جو اگرچہ مختصر سا ہے لیکن قابل غور ہے۔
حافظ صاحب سے سوال کیا گیا کہ ذکر میں اپنی طرف سے گنتی متعین کرنےکا کیا حکم ہے؟
تو آپ کا جواب تھا:
ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
''من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد''
''جو دین میں اضافہ کرے وہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔''
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
[ماہنامہ محدث : اگست 1999]

ذِکر و اذکار میں گنتی متعین کرنا!!!
دین اسلام میں ذکر الٰہی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے۔ بہت ساری نصوص میں ذاکرین کی تعریف اور ان کے لیے بہت سے سارے دنیوی و اخروی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے کے سلسلے میں دین اسلام نے ہمیں کچھ اصول بھی دئیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں صاحبان جبہ و دستار ذکر کے نام پر بدعات کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے پر گھر بسنے کے نوید سنا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور کئی دفعہ ایسے ذکر بھی سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ایسے الفاظ شامل ہوتے ہیں جن کا عربی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ذکر و اذکار میں گنتی متعین کر لینے سے متعلق حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ نقل کر رہا ہوں جو اگرچہ مختصر سا ہے لیکن قابل غور ہے۔
حافظ صاحب سے سوال کیا گیا کہ ذکر میں اپنی طرف سے گنتی متعین کرنےکا کیا حکم ہے؟
تو آپ کا جواب تھا:
ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
''من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد''
''جو دین میں اضافہ کرے وہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔''
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
[ماہنامہ محدث : اگست 1999]
محمد وقاص گل
میں نے وہ اقتباس پیش کیا جو محل نزاع تھا اور آپ حضرات ابھی بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کہ باقی پوسٹ کا لنک اب بھی موجود ہے ۔ آپ نے اپنی پوسٹ تین دفعہ کاپی پیسٹ کرلی تو اس سے اختلاف تو ختم نہیں ہو سکتا
ایک صاحب البانی صاحب کے حوالہ سے کہ رہے ہیں کہ مسنون وظائف میں سو زائد گنتی منقول نہیں اور دوسرے صاحب قائل ہیں ۔ بدعت پر کون ہے اور سنت پر کون
Muhammad Aamir Younus آپ کے نذدیک مسنون وظائف میں سو زائد گنتی منقول نہیں تو آپ یہاں کیا کہتے ہیں

أخرج الإمام ‏البخاري في صحيحه من حديث أبي هريرة ‏رضي الله عنه ‏ ‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال: "‏ ‏من قال سبحان الله وبحمده في يوم مائة مرة حطت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر".
اس حدیث میں یہ بتایا گيا ہے کہ ایک دن میں سو دفعہ یہ کلمہ کہنے سے گناہ جھڑجاتے ہیں
اگر ایک شخص دن کے اول وقت میں کسی گناہ سے توبہ کرتا ہے اور حدیث کے حوالہ سے سو مرتبہ یہ مبارک کلمہ بھی پڑھ لیتا ہے اور کچھ دیر بعد اس سے کوئی گناہ پھر سرزد ہوجاتا ہے تو وہ توبہ کے ساتھ یہ مبارک کلمات پھر سو مرتبہ پڑھ لیتا ہے تو کیا یہ عمل دن میں دو سو مرتبہ پڑھنے کا عمل بدعت کہلائے گا ۔ اگر یہ عمل بدعت کہلائے گا تو پھر مذکورہ صورت میں صحیح عمل کس طرح ہو گا ، کیا اس شخص کو چاءئیے کو وہ تاریخ بدلنے کا انتطار کرے اور نئے دن میں اپنے گناہ کی بخشش کے لئیے سو مرتبہ یہ کلمہ پڑھے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میں نے وہ اقتباس پیش کیا جو محل نزاع تھا اور آپ حضرات ابھی بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کہ باقی پوسٹ کا لنک اب بھی موجود ہے ۔ آپ نے اپنی پوسٹ تین دفعہ کاپی پیسٹ کرلی تو اس سے اختلاف تو ختم نہیں ہو سکتا
ایک صاحب البانی صاحب کے حوالہ سے کہ رہے ہیں کہ مسنون وظائف میں سو زائد گنتی منقول نہیں اور دوسرے صاحب قائل ہیں ۔ بدعت پر کون ہے اور سنت پر کون
Muhammad Aamir Younus آپ کے نذدیک مسنون وظائف میں سو زائد گنتی منقول نہیں تو آپ یہاں کیا کہتے ہیں

ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔

جیسا کہ - کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے کو کوئی ایک لاکھ دفعہ آیت کریم کا ختم کرنےکو !

بات تعین کی ہے اپنی طرف سے تو یہ بدعت یے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
معين تعداد ميں استغار كى تحديد كرنا

كيا معين تعداد ميں استغفار كرنا مثلا آج سو بار اور كل دو سو بار استغفار كرنا جائز ہے ؟

الحمد للہ:
مسلمان كے ليے استغفار بكثرت كرنا مستحب ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خود بھى دن اور رات ميں سو بار استغفار كيا كرتے تھے.
اغر مزنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں ايك دن ميں سو بار اللہ سے استغفار كرتا ہوں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2702 ).
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بلاشبہ ميں روزانہ اللہ عزوجل سے ايك سو بار استغفار كرتا ہوں "
سنن نسائى ( 6 / 114 ) مسند احمد ( 2 / 450 ) محققين نے اس كى سند حسن قرار دي ہے.
اور ايك روايت ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" اللہ كى قسم ميں دن ميں ستر بار سے زيادہ اللہ تعالى سے استغفار اور توبہ كرتا ہوں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6307 ).
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" ہم ايك مجلس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا سو بار درج ذيل دعا پڑھنا شمار كرتے تھے:
" رب اغفر لى و تب على انك انت التواب الرحيم " اے ميرے پروردگار مجھے بخش دے اور ميرى توبہ قبول فرما يقنا تو توبہ قبول كرنے والا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1516 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 3430 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے زيادہ كسى اور كو يہ كلمات پڑھتے ہوئے نہيں ديكھا:
" استغفر اللہ و اتوب اليہ "
ميں اللہ سے بخشش طلب كرتا ہوں، اور اس كى جانب توبہ كرتا ہوں "
سنن نسائى ( 6 / 118 ).
اس ليے اگر آپ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى ميں اس سو عدد كا التزام كرنا چاہتے ہيں تو آپ كو اجر و ثواب حاصل ہو گا، اور اگر آپ اس سے زيادہ كرنا چاہتے ہيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں تعداد متعين نہ ہو يا پھر كوئى معين طريقہ نہ ہو، بلكہ يہ زيادہ استغفار حسب امكان ہو، كيونكہ جس عبادت كى تعداد شرع ميں متعين نہيں اس كى معين تعداد ميں تحديد كرنا مشروع نہيں ہے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/104818
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
[ماہنامہ محدث : اگست 1999]
بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے

اس ليے اگر آپ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى ميں اس سو عدد كا التزام كرنا چاہتے ہيں تو آپ كو اجر و ثواب حاصل ہو گا، اور اگر آپ اس سے زيادہ كرنا چاہتے ہيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں تعداد متعين نہ ہو يا پھر كوئى معين طريقہ نہ ہو، بلكہ يہ زيادہ استغفار حسب امكان ہو، كيونكہ جس عبادت كى تعداد شرع ميں متعين نہيں اس كى معين تعداد ميں تحديد كرنا مشروع نہيں ہے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
http://islamqa.info/ur/104818
کبھی کہنا کہ سو سے زائد بار وظائف نہیں کہے جاسکتے اور کبھی کہنا بغیر تعداد متعین کیے اگر سو سے زائد کہے جائیے تو کو حرج نھیں
 
Top