• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبحان الله وبحمده ، سبحان الله العظيم !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے


کبھی کہنا کہ سو سے زائد بار وظائف نہیں کہے جاسکتے اور کبھی کہنا بغیر تعداد متعین کیے اگر سو سے زائد کہے جائیے تو کو حرج نھیں

ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔
جیسا کہ - کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے کو کوئی ایک لاکھ دفعہ آیت کریم کا ختم کرنےکو !
بات تعین کی ہے اپنی طرف سے تو یہ بدعت یے
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے


کبھی کہنا کہ سو سے زائد بار وظائف نہیں کہے جاسکتے اور کبھی کہنا بغیر تعداد متعین کیے اگر سو سے زائد کہے جائیے تو کو حرج نھیں


محترم ضد اور عناد کا کوئی علاج نہیں ہے۔۔
عامر بھائی کی دونوں پوسٹ میں مسئلہ بالکل واضح ہے اگر آپ ضد اور تفرقہ بازی سے کام لیں تو اسکا علاج ہدایت کی دعا ہی ہے۔۔
آپ مطلق تعداد کے حوالے سے عامر بھائی کی پوسٹ نمبر 19 پڑھیں جسکا تعلق آپ کے اسی پوسٹ پر اٹھائے گئے سوال سے ہے۔ کیونکہ تسبیحات کی بھی فضیلت استغفار کی طرح بہت ہے۔
جبکہ تعداد کی تعییین کے حوالے سے آپ نے جو اقتباس لیا تھا اسی کا مطالعہ مفید ہے۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے


کبھی کہنا کہ سو سے زائد بار وظائف نہیں کہے جاسکتے اور کبھی کہنا بغیر تعداد متعین کیے اگر سو سے زائد کہے جائیے تو کو حرج نھیں
اس بات
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔
اور اس بات
اور اگر آپ اس سے زيادہ كرنا چاہتے ہيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں
میں کیا تضاد اور کیا اختلاف ہے؟؟؟ واضح کیجئے!

کوئی بھی مسنون ذکر نصوص میں سو دفعہ سے زیادہ نقل نہیں ہوا۔
سنت کا ثواب مخصوص تعداد سے ہی ملے گا، البتہ کوئی بغیر تحدید وتعیین کیے کوئی ذکر سو دفعہ سے زیادہ کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مثلاً رکعاتِ تراویح کی تعداد کو ہی لے لیجئے! مسنون تو گیارہ یا تیرہ ہی ہیں۔ اگر کوئی تعیین وتحدید کے بغیر زیادہ پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں۔ آپ کو اس میں کیا تضاد نظر آتا ہے؟؟؟

اگر بالفرض بالفرض دونوں اقوال میں اختلاف بھی ہو تو اس میں آپ کو کیا اعتراض ہے؟؟؟
کیا دو علماء کا آپس میں اجتہادی اختلاف نہیں ہو سکتا؟ کیا صحابہ کرام﷢، تابعین عظام﷭ اور ائمہ کرام میں کبھی اختلاف نہیں ہوا؟؟؟
 
Top