• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سجدوں کا رفع الیدین

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
سجدوں میں رفع الیدین والی احادیث اہل حدیث علماء کے ہاں شاذ ہیں ، اس لیے ہم اس پر عمل نہیں کرتے ۔
بعض اہل علم کے ہاں یہ روایات صحیح ہیں ، البتہ یہ ہمیشگی کاعمل نہیں تھا ، کبھی کبھار ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے ، رفع الیدین کرلینا چاہیے ۔
موریتانیا اور قرب جوار کے ممالک سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ، جو سجدوں کے مابین رفع الیدین پابندی سے کرتے ہیں ۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
امام بخاری رحمتہ اللہ جزء رفع الیدین میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
اور احمد بن حنبل رحمتہ اللہ نے یحیی بن آدم سے بیان کیا کہ: میں نے عبداللہ بن ادریس کی عاصم بن کلیب سے کتاب میں دیکھا ہے ۔ اس میں پھر دوبارہ نہیں کیا، کے الفاظ نہیں ہیں۔
اور عبداللہ بن ادریس کی یہ روایت زیادہ صحیح ہے کیونکہ علماء کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے۔ کیونکہ آدمی بعض اوقات کوئی بات کرتا ہے پھر جب اپنی کتاب کی طرف رجوع کرتا ہے تو صحیح وہی ہوتا ہے جو کتاب میں ہے، ہمیں الحسن بن الربیع نے حدیث بیان کی: ہمیں ابن ادریس نے حدیث بیان کی عاصم بن کلیب سے انہوں نے عبدالرحمن بن الاسود سے: ہمیں علقمہ نے حدیث بیان کی۔ بیشک عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھلائی ہے۔ پس وہ کھڑے ہوئے تو تکبیر کہی اور رفع یدین کیا۔ پھر رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو تطبیق کرتے ہوئے اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ دیا۔ پھر سعد بن ابی وقاص کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے فرمایا: میرے بھائی نے سچ کہا ہے۔ ہم اسلام کے ابتدائی دور میں اسی طرح کرتے تھے پھر ہمیں اس کا حکم دیا گیا کہ اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
رقم الحديث: 5140
(حديث مرفوع) كَمَا حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ " يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ ، وَرَفْعٍ ، وَرُكُوعٍ ، وَسُجُودٍ وَقِيَامٍ ، وَقُعُودٍ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ۔
مشکل الآثار للطحاوی۔
سجدوں میں رفع الیدین والی احادیث اہل حدیث علماء کے ہاں شاذ ہیں ، اس لیے ہم اس پر عمل نہیں کرتے ۔
بعض اہل علم کے ہاں یہ روایات صحیح ہیں ، البتہ یہ ہمیشگی کاعمل نہیں تھا ، کبھی کبھار ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے ، رفع الیدین کرلینا چاہیے ۔
موریتانیا اور قرب جوار کے ممالک سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ، جو سجدوں کے مابین رفع الیدین پابندی سے کرتے ہیں ۔
اس کے ساتھ اس اثر کو بھی ملا لیں جو کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے پھر بتائیں کہ کیا کیا جائے؟
مسند الحميدي (1 / 515):
627 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَاقِدٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ: «كَانَ إِذَا أَبْصَرَ رَجُلًا يُصَلِّي لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ حَصَبَهُ حَتَّى يَرْفَعَ يَدَيْهِ»
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سجدوں کا رفع الیدین

عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ " يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ ، وَرَفْعٍ ، وَرُكُوعٍ ، وَسُجُودٍ وَقِيَامٍ ، وَقُعُودٍ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ۔
یہ شیوخ ہی بتا سکتے ہیں!

محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظ اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
گذشتہ رات ہی پوسٹ نظر آئی ، اس سے پہلے پتا نہیں کیونکہ نظروں سے اوجھل رہی ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
واضح رہے کہ :
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت (جس میں ہر اٹھنے ،جھکنے پر رفع الیدین مروی ہے ) یہ شاذ ہے ،
کیونکہ :
صحیح ترین اسناد اور مشہور ترین روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سجدوں میں رفع الیدین کی نفی موجود ہے :

❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی صحیح اور محفوظ روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏إذا افتتح الصلاة وإذا كبر للركوع وإذا رفع راسه من الركوع رفعهما، ‏‏‏‏‏‏كذلك ايضا، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ‏‏‏‏‏‏وكان لا يفعل ذلك في السجود .
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر دونوں ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے اور سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد کہتے، اورسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔“
[صحیح بخاری : 102/1، ح : 735، 738، 738، صحیح مسلم : 168، ح : 390]

بلکہ دیگر صحابہ کرام سے بھی سجدوں میں رفع الیدین کی نفی صحیح احادیث میں موجود ہے :

❀ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
هل أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فكبّر ورفع يديه، ثمّ كبّر ورفع يديه للرّكوع، ثمّ قال : سمع الله لمن حمده، ثم قال: هكذا فاصنعوا ولا يرفع بين السجدتين .
”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں، آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر اللہ اکبر کہا : اور رکوع کے لیے رفع الیدین کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر فرمایا، تم ایسا ہی کیا کرو ! آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ [سنن الدار قطني : 292/1، ح : 1111، وسنده صحيح]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ورجاله ثقات ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔“ [التلخيص الحبير : 219/1]

اور حافظ ابن حجر ؒ فتح الباری میں سیدنا ابن عمر کی سجدوں میں رفع یدین والی روایت نقل کرکے اسے شاذ قرار دیتے ہیں
روى الطحاوي حديث الباب في مشكله من طريق نصر بن علي عن عبد الأعلى بلفظ كان يرفع يديه في كل خفض ورفع وركوع وسجود وقيام وقعود وبين السجدتين ويذكر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يفعل ذلك وهذه رواية شاذة
یعنی امام طحاوی ؒ نے اپنی اسناد سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ ( نماز میں )
ہر جھکتے اور اٹھتے وقت اور رکوع و سجود میں اور دو سجدوں کے درمیان دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام ایسا ہی کرتے تھے ، لیکن یہ روایت شاذ ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
زعم بیان کرنے کے معنی میں بھی بہت استعمال ہوتا ہے. یہاں مجھے زعم قال کے معنی میں لگ رہا ہے. باقی شیوخ حضرات ہی بتا سکیں گے. واللہ اعلم بالصواب.
جی بالکل " زعم " یہاں (قال ۔۔ اور ۔۔ذکر ) کے معنی میں ہی ہے ،
فتح الباری میں زعم کی جگہ (ذکر ۔۔ بتایا ) ہے
ويذكر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يفعل ذلك
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ممکن ہے کہ اس وقت کی ہو جب سجدوں میں رفع الیدین نہیں کی جاتی تھی اور بعد میں کی جانے لگی۔ اس کا تصفیہ کیسے ہو؟
محترم اسحاق سلفی صاحب ان احادیث کے بارے بھی فرمائیے گا۔

مسند الحميدي (1 / 515):
627 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَاقِدٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ: «كَانَ إِذَا أَبْصَرَ رَجُلًا يُصَلِّي لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ حَصَبَهُ حَتَّى يَرْفَعَ يَدَيْهِ»

سنن الدارقطني (2 / 41):
1118 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , ثنا عِيسَى بْنُ أَبِي عِمْرَانَ , ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , ثنا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ , عَنْ نَافِعٍ , قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ «إِذَا رَأَى رَجُلًا يُصَلِّي لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ حَصْبَهُ حَتَّى يَرْفَعَ»

المعجم الأوسط (9 / 105):
9257 - حَدَّثَنَا وَاثِلَةُ بْنُ الْحَسَنِ الْعَرْقِيُّ، ثَنَا كَثِيرٌ، ثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الْعَرْزَمِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَرِنَا كَيْفَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَامَ فَصَلَّى، «فَكَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ» ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: هَكَذَا كَانَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ إِلَّا الْعَرْزَمِيُّ
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
بلکہ دیگر صحابہ کرام سے بھی سجدوں میں رفع الیدین کی نفی صحیح احادیث میں موجود ہے :

❀ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
هل أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فكبّر ورفع يديه، ثمّ كبّر ورفع يديه للرّكوع، ثمّ قال : سمع الله لمن حمده، ثم قال: هكذا فاصنعوا ولا يرفع بين السجدتين .
”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں، آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر اللہ اکبر کہا : اور رکوع کے لیے رفع الیدین کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر فرمایا، تم ایسا ہی کیا کرو ! آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ [سنن الدار قطني : 292/1، ح : 1111، وسنده صحيح]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ورجاله ثقات ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔“ [التلخيص الحبير : 219/1]

اور حافظ ابن حجر ؒ فتح الباری میں سیدنا ابن عمر کی سجدوں میں رفع یدین والی روایت نقل کرکے اسے شاذ قرار دیتے ہیں
روى الطحاوي حديث الباب في مشكله من طريق نصر بن علي عن عبد الأعلى بلفظ كان يرفع يديه في كل خفض ورفع وركوع وسجود وقيام وقعود وبين السجدتين ويذكر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يفعل ذلك وهذه رواية شاذة
یعنی امام طحاوی ؒ نے اپنی اسناد سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ ( نماز میں )
ہر جھکتے اور اٹھتے وقت اور رکوع و سجود میں اور دو سجدوں کے درمیان دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام ایسا ہی کرتے تھے ، لیکن یہ روایت شاذ ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
المعجم الأوسط (9 / 105):
9257 - حَدَّثَنَا وَاثِلَةُ بْنُ الْحَسَنِ الْعَرْقِيُّ، ثَنَا كَثِيرٌ، ثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الْعَرْزَمِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَرِنَا كَيْفَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَامَ فَصَلَّى، «فَكَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ» ،
اس کا راوی " ایوب بن سوید " ضعیف ہے اس کی روایت اس قابل نہیں کہ صحیحین اور دیگر بے شمار صحیح احادیث کے مقابل پیش کی جائے؛
امام الذھبیؒ میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
ضعفه أحمد وغيره.
وقال النسائي: ليس بثقة.
وقال ابن معين: ليس بشئ وقال ابن المبارك: ارم به.
وقال البخاري: يتكلمون فيه.
والعجب من ابن حبان ذكره في الثقات فلم يصنع جيدا /، وقال: ردئ الحفظ.

خلاصہ یہ کہ امام احمد ؒ ،امام نسائیؒ ، امام ابن معین ؒ کے نزدیک یہ راوی ضعیف ،ردیء الحفظ ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور ذہبی ؒ (تاریخ اسلام ) میں اس راوی کے متعلق لکھتے ہیں :
أيَّوب بْن سُوَيد الرَّمْليُّ، أبو مسعود الحِمْيَريُّ السَّيبانيُّ. [الوفاة: 201 - 210 ه][ص:38]
عَنْ: ابن جُرَيْج، ويونس الأَيْليّ، وأسامة بْن زيد اللَّيْثيّ، ويحيى بْن أَبِي عَمْرو السَّيبانيّ، وعبد الرَّحْمَن بْن يزيد بْن جَابِر، والأوزاعي، وطائفة.
وَعَنْهُ: أبو الطّاهر أحمد بْن السَّرْح، وعبد الرحمن بْن إبراهيم دُحَيْم، وكثير بْن عُبَيْد الحمصيّ، والربيع المرادي، وبحر بْن نَصْر، ومحمد بْن عَبْد اللَّه بْن عَبْد الحَكَم، وآخرون.
قَالَ عَبَّاسٌ عَنِ ابْنِ مَعِينٍ: لَيْسَ بِشَيْءٍ، يسرق الأحاديث.
وقال النَّسَائيّ: لَيْسَ بثقة.
وقال أبو حاتم: لين الحديث.
وقال إبراهيم بن عبد الله الختلي: سألت ابن معين عن أيوب بن سويد، فقال: ليس بشيء حدثهم بالرملة بأحاديث عن ابن المبارك، ثم جعلها بعد عن نفسه عن شيوخ ابن المبارك.
وقال ابن عديّ: يُكتَب حديثه في جملة الضُّعفاء.
وذكره ابن حِبّان في " الثقات "، لكن قَالَ: كَانَ رديء الحِفْظ.
وقال الْبُخَارِيّ: يتكلمون فيه.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس حدیث کا دوسرا راوی ( محمد بْن عُبَيْد الله العَرْزَميُّ )
متروک ، نکما ،ناکارہ راوی ہے ،
امام الذھبیؒ تاریخ اسلام میں اس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
محمد بْن عُبَيْد الله العَرْزَميُّ الكوفيُّ. [أَبُو عَبْد الرحمن] [الوفاة: 151 - 160 ه]
عَنْ: مكحول، وعطاء، وعمرو بْن شعيب، ومحمد بْن زياد الْجُمحي، وعدة،
وَعَنْهُ: شعبة، والثوري، وسيف بْن عمر، وعلي بْن مسهر، ومحمد بْن سلمة الحراني.
وآخر من حدّث عَنْهُ قبيصة بن عقبة، وكان من عباد الله الصالحين لكنه واهٍ.
قَالَ أحمد: ترك الناس حديثه.
وقال الفلاس: متروك الحديث.
وقال ابْن معين: لا يُكتب حديثه.
وقال وكيع: كَانَ مُحَمَّد بْن عُبَيْد اللَّه العرزمي رجلا صالحًا قد ذهبت كُتُبُه فكان يحدِّث حِفْظًا فَمَنْ ذَلِكَ أتى.
وقال القطّان: سَأَلت العرزمي فجعل لا يحفظ، فأتيته بكتاب فجعل لا [ص:208] يحسن يقرأ.
وقال البخاري: تركه ابْن الْمُبَارَك، وغيره.

ـــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
اس کا راوی " ایوب بن سوید " ضعیف ہے اس کی روایت اس قابل نہیں کہ صحیحین اور دیگر بے شمار صحیح احادیث کے مقابل پیش کی جائے؛
امام الذھبیؒ میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
ضعفه أحمد وغيره.
وقال النسائي: ليس بثقة.
وقال ابن معين: ليس بشئ وقال ابن المبارك: ارم به.
وقال البخاري: يتكلمون فيه.
والعجب من ابن حبان ذكره في الثقات فلم يصنع جيدا /، وقال: ردئ الحفظ.

خلاصہ یہ کہ امام احمد ؒ ،امام نسائیؒ ، امام ابن معین ؒ کے نزدیک یہ راوی ضعیف ،ردیء الحفظ ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور ذہبی ؒ (تاریخ اسلام ) میں اس راوی کے متعلق لکھتے ہیں :
أيَّوب بْن سُوَيد الرَّمْليُّ، أبو مسعود الحِمْيَريُّ السَّيبانيُّ. [الوفاة: 201 - 210 ه][ص:38]
عَنْ: ابن جُرَيْج، ويونس الأَيْليّ، وأسامة بْن زيد اللَّيْثيّ، ويحيى بْن أَبِي عَمْرو السَّيبانيّ، وعبد الرَّحْمَن بْن يزيد بْن جَابِر، والأوزاعي، وطائفة.
وَعَنْهُ: أبو الطّاهر أحمد بْن السَّرْح، وعبد الرحمن بْن إبراهيم دُحَيْم، وكثير بْن عُبَيْد الحمصيّ، والربيع المرادي، وبحر بْن نَصْر، ومحمد بْن عَبْد اللَّه بْن عَبْد الحَكَم، وآخرون.
قَالَ عَبَّاسٌ عَنِ ابْنِ مَعِينٍ: لَيْسَ بِشَيْءٍ، يسرق الأحاديث.
وقال النَّسَائيّ: لَيْسَ بثقة.
وقال أبو حاتم: لين الحديث.
وقال إبراهيم بن عبد الله الختلي: سألت ابن معين عن أيوب بن سويد، فقال: ليس بشيء حدثهم بالرملة بأحاديث عن ابن المبارك، ثم جعلها بعد عن نفسه عن شيوخ ابن المبارك.
وقال ابن عديّ: يُكتَب حديثه في جملة الضُّعفاء.
وذكره ابن حِبّان في " الثقات "، لكن قَالَ: كَانَ رديء الحِفْظ.
وقال الْبُخَارِيّ: يتكلمون فيه.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس حدیث کا دوسرا راوی ( محمد بْن عُبَيْد الله العَرْزَميُّ )
متروک ، نکما ،ناکارہ راوی ہے ،
امام الذھبیؒ تاریخ اسلام میں اس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
محمد بْن عُبَيْد الله العَرْزَميُّ الكوفيُّ. [أَبُو عَبْد الرحمن] [الوفاة: 151 - 160 ه]
عَنْ: مكحول، وعطاء، وعمرو بْن شعيب، ومحمد بْن زياد الْجُمحي، وعدة،
وَعَنْهُ: شعبة، والثوري، وسيف بْن عمر، وعلي بْن مسهر، ومحمد بْن سلمة الحراني.
وآخر من حدّث عَنْهُ قبيصة بن عقبة، وكان من عباد الله الصالحين لكنه واهٍ.
قَالَ أحمد: ترك الناس حديثه.
وقال الفلاس: متروك الحديث.
وقال ابْن معين: لا يُكتب حديثه.
وقال وكيع: كَانَ مُحَمَّد بْن عُبَيْد اللَّه العرزمي رجلا صالحًا قد ذهبت كُتُبُه فكان يحدِّث حِفْظًا فَمَنْ ذَلِكَ أتى.
وقال القطّان: سَأَلت العرزمي فجعل لا يحفظ، فأتيته بكتاب فجعل لا [ص:208] يحسن يقرأ.
وقال البخاري: تركه ابْن الْمُبَارَك، وغيره.

ـــــــــــــــــــــــــ
درج ذیل حدیث پر بھی روشنی ڈال دیجئے۔
مسند الحميدي (1 / 515):
627 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَاقِدٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ: «كَانَ إِذَا أَبْصَرَ رَجُلًا يُصَلِّي لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ حَصَبَهُ حَتَّى يَرْفَعَ يَدَيْهِ»
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مسند الحميدي (1 / 515):
627 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَاقِدٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ: «كَانَ إِذَا أَبْصَرَ رَجُلًا يُصَلِّي لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ حَصَبَهُ حَتَّى يَرْفَعَ يَدَيْهِ»

سنن الدارقطني (2 / 41):
1118 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , ثنا عِيسَى بْنُ أَبِي عِمْرَانَ , ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , ثنا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ , عَنْ نَافِعٍ , قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ «إِذَا رَأَى رَجُلًا يُصَلِّي لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ حَصْبَهُ حَتَّى يَرْفَعَ»
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ہر وہ روایت جس میں سجدوں میں رفع الیدین کا اثبات ہے وہ شاذ ہے ،کیونکہ :

صحیح ترین اسناد اور مشہور ترین روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سجدوں میں رفع الیدین کی نفی موجود ہے :

❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی صحیح اور محفوظ روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏إذا افتتح الصلاة وإذا كبر للركوع وإذا رفع راسه من الركوع رفعهما، ‏‏‏‏‏‏كذلك ايضا، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ‏‏‏‏‏‏وكان لا يفعل ذلك في السجود .
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر دونوں ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے اور سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد کہتے، اورسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔“
[صحیح بخاری : 102/1، ح : 735، 738، 738، صحیح مسلم : 168، ح : 390]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top