سجدہ تلاوت کی ایک مخصوص دعاء نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے :
اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ
جامع ترمذی ابواب الجمعۃ باب یقول فی سجود القرآن حــ ۵۷۹ , ابواب الدعوات باب مایقول فی سجود القرآن حــ ۳۴۲۴
لہذا یہی دعاء پڑھی جائے۔
مزيد تفصیل کیلئے یہ فتویٰ بھی ملاحظہ کیجئے!
سوال
كيا سجدہ تلاوت كے ليے طہارت كى شرط ہے، اور كيا جب وہ سجدہ كے ليے جائے اور سجدہ سے اٹھے تو تكبير كہے گا، چاہے وہ نماز ميں ہو يا نماز سے باہر؟ اور اس سجدہ ميں كونسى دعاء پڑھى جائے گی اور كيا اس سلسلے ميں كوئى صحيح دعاء وارد نہيں ہے؟ اور اگر نماز سے باہر ہو تو كيا اس سجدہ سے سلام پھيرنا مشروع ہے ؟
جواب
الحمد للہ! اما بعد:
علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق سجدہ تلاوت كے ليےطہارت شرط نہيں ہے، اور اہل علم كے صحيح قول ميں نہ تو سلام كہنا اورنہ ہى سجدہ سے اٹھتے ہوئے تكبير كہنا۔ اور سجدہ كرتے وقت تكبير كہنا مشروع ہے، كيونكہ يہ ثابت ہے، اور اس كى دليل ابن عمر كى حديث ہے جو اس پر دلالت كرتى ہے.
ليكن اگر سجدہ تلاوت نماز ميں ہو تو سجدہ ميں جاتے ہوئے اور سجدہ سے اٹھتے ہوئے تكبير كہنى واجب ہے، كيونكہ نبى كريمﷺ نماز ميں جب بھى نيچے جاتے يا اوپر اٹھتے تو تكبير كہتے تھے۔
اور نبى كريمﷺ سے ثابت ہے كہ آپ نے فرمايا:
« صلوا كما رأيتموني أصلي »
" نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے"
اسے امام بخارى نے صحيح بخارى حديث نمبر ( 595 ) روايت كيا ہے.
اور سجدہ تلاوت ميں وہى دعاء اور اذكار كرنا مشروع ہيں جو نماز كے سجدہ ميں كيے جاتے ہيں، كيونكہ عمومى احاديث اس پر دلالت كرتى ہيں، اور يہ دعائيں مندرجہ ذيل ہيں:
« اللهم لك سجدت وبك آمنت ولك أسلمت سجد وجهي للذي خلقه وصوره وشق سمعه وبصره بحوله وقوته تبارك الله أحسن الخالقين »
اے اللہ ميں نے تجھے سجدہ كيا، اور تجھ پر ايمان لايا، اور تيرى اطاعت و فرمانبردارى كى، ميرے چہرے نے اس كو سجدہ كيا جس نے اسے پيدا كيا اور اس كى صورت بنائى اور اس كى سماعت پيدا كى اور آنكھيں بنائيں، اس كى قوت كے ساتھ اللہ تبارك و تعالى سب سے بہتر خالق ہے.
امام مسلم نے اسے على سے صحيح مسلم ( 1290 ) ميں روايت كيا ہے كہ نبى كريمﷺ يہ دعاء نماز كے سجدوں ميں پڑھا كرتے تھے۔
اور ابھى اوپر بيان ہوا ہے كہ سجدہ تلاوت ميں وہى كچھ مشروع ہے جو نماز كے سجدہ ميں مشروع ہے۔
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ انہوں نے سجدہ تلاوت ميں يہ دعاء كى تھى:
«اللهم اكتب لي بها عندك أجرا وامح عني بها وزرا واجعلها لي عندك ذخرا وتقبلها مني كما تقبلتها من عبدك داود عليه السلام »
اے اللہ اس ( سجدہ ) كى بنا پر ميرے ليے اپنے ہاں اجروثواب لكھ دے اور اس كى بنا پر ميرے گناہ معاف كر دے، اور اپنے پاس ميرے ليے اسے زخيرہ كر لے، اور ميرى جانب سے يہ اس طرح قبول فرما جس طرح تو نے داود سے قبول كيا تھا" جامع ترمذى حديث نمبر ( 528 ).
اور اس سلسلہ ميں سبحان ربى الاعلى كہنا اسى طرح واجب ہے جس طرح نماز كے سجدوں ميں كہنا واجب ہے، اور اس كے علاوہ جو ذكر اور دعاء زيادہ ہيں وہ مستحب ہيں.
اور نماز يا نماز سے باہر سجدہ تلاوت سنت ہے واجب نہيں، كيونكہ نبى كريمﷺ سے زيد بن ثابت كى حديث سے يہ ثابت ہے جو اس پر دلالت كرتى ہے، اور عمر سے بھى ثابت ہے جو اس پر دلالت كرتى ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ ابن باز (11/ 406)
رفیق طاہر بھائی! جہاں تک آپ کا کہنا ہے:
یاد رہے کہ سجدہ تلاوت کی مشہور دعاء " سجد وجهي للذي ...... الخ " ثابت نہیں ۔ صحیح مسلم میں بھی یہ روایت موجود ہے مگر ایک راوی کا وہم ہے اس نے اسے سجدہ تلاوت کی دعاء بنا دیا ہے غلطی سے حالانکہ یہ عام سجدے کی دعاء ہے ۔ سجدہ تلاوت کی معتبر دعاء وہی ہے جو میں نے جامع ترمذی کے حوالے سے نقل کی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ سجدہ تلاوت میں یہ دُعا:
« اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ » پڑھنی چاہئے لیکن جب سجدۂ تلاوت میں عام سجدہ کی دُعا کی جا سکتی ہے، تو پھر
« سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ » میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے، جبکہ
صحيح روايات میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس دُعا کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنے کی صراحت بھی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم