تبصرہ کے لیے شکریہ!
لیکن میرے بھائی اتنی بھی عجلت میں نہیں لکھی گئی ہے۔ یہ موقف میں نے اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے اور انہوں نے اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے اور کم از کم اس موقف کے اظہار میں اگر آپ دو نسلوں کا ہی اعتبار کرلیں تو تقریبا٦٠ سال کا عرصہ بنتا ہے اور یہ کوئی کم عرصہ نہیں ہے۔(ابتسامہ محب)
آپ نے اپنے شیوخ کا نام نہیں تبایاتومیرے لئے وہ مجہول کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
آپ کا یہ مطالبہ بالکل درست اور بجا ہے۔ ان شاء اللہ اس موضوع پر پہلی فرصت میں ایک مضمون ماہنامہ محدث یا کسی اور مجلہ کے تحریر کرتا ہوں۔آپ تاریخ فقہ اسلامی پر کوئی بھی کتاب اٹھا لیں ، چاہے وہ شیخ مصطفی زرقا کی ہو یا شیخ علی السایس یا ڈاکٹر تاج الدین عروسی کی ہو وغیرہ تو آپ کو کچھ بنیادی فروق تو وہاں بھی مل جائیں گے ۔اور اس موضوع پر بیسیوں کتابوں میں یہ ابحاث ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔اگر علم عرب کے اس علمی کام کو یہاں پاکستان پہنچتے پہچنتے ایک عرصہ دراز لگ جاتا ہے ۔
اہل الرائے پر میں نے کچھ کتابیں پڑھیں ہیں۔ جس میں جدید وقدیم دونوں قسم کے مصنفین شامل ہیں لیکن آپ کابیان کردہ فرق مجھے کہیں نہیں ملا۔ نہ عبدالقاہر جرجانی کی الفرق بین الفرق میں، نہ ابن خلدون کے مقدمہ میں ،نہ شاہ ولی اللہ کی الانصاف اورحجۃ اللہ البالغہ میں۔ہوسکتاہے کہ یہ میرے مطالعہ کا قصور ہو لیکن جب تک کوئی دلیل سامنے نہ آئے اس تعریف کو ماننے میں سخت اشکال ہے۔ویسے اگرآپ یہ عرض کردیں کہ یہ آپ کااپنااجتہاد ہے توپھرکوئی گنجائش رہتی ہے کیونکہ اس میں کلام کرنے کی گنجائش بہت کم بچتی ہے(ابتسامہ )
٤
۔ فوری اطلاع کے لیے صرف اس مسئلہ میں کچھ حوالہ جات پیش کر رہا ہوں کہ جس میں آپ نے تاکید سے مطالبہ کیا ہےیعنی حنفیہ کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی یعنی تاقیام قیامت ہیں۔
والحاصل أن أبا حنیفة النعمان من أعظم معجزات المصطفی بعد القرآن وحسبک من مناقبہ ما قال قولاًا لا أخذ بہ ا مام من الأئمة الأعلام وقد جعل اللہ الحکم لأصحابہ وأتباعہ من زمنہ ا لی ھذہ الأیام الی أن یحکم بمذھبہ عیسی علیہ السلام.(رد المحتار علی در المختا ر:جلد١، ص ١٤٢)
اصول تحقیق سے ماشاء اللہ آپ واقف ہوں گے۔ آپ بھی جانتے ہیں اورہم بھی جانتے ہیں کہ یہاں پر ابن عابدین شامی اہل الرائے کا ذکر نہیں کررہے تھے بلکہ امام ابوحنیفہ کی تعریف وتوصیف بیان کررہے تھے اس میں انہوں نے کسی حد تک مبالغہ سے کام لیاہے اورحکم کاجومعنی آپ سمجھ رہے ہیں کیاوہی ابن عابدین کابھی منشاء ہے یہ بات محتاج تحقیق ہے۔
یہ دلیل مکمل جب ہوتی کہ ابن عابدین اہل الرائے کے ذکر میں اس بات کونقل کرتے پھرآپ کا اس کاحوالہ دیناصحیح ہوتا۔
اس کی ایک مثال دیکھیں حافظ ابوالولید باجی مشہور مالکی محدث اورفقیہہ ہیں جنہوں نے ابن حزم ظاہری کا ناطقہ بند کردیاتھا۔وہ اپنی کتاب الوصیۃ یاالنصیحۃ لویدیہ میں امام ابوحنیفہ اورامام شافعی کے بارے میں لکھتے ہیں۔
وإنَّما خصصنا مذهبَ مالكٍ رحمه الله؛ لأنه إمامٌ في الحديث، وإمامٌ في الرأي، وليس لأحدٍ من العلماء مِمَّن انبسط مذهبُه وكثُرت في المسائل أجوبتُه درجةُ الإمامةِ في المعنيين، وإنَّما يشاركه في كثرة المسائل وفروعها والكلام على معانيها وأصولها أبو حنيفة والشافعي، وليس لأحدهما إمامةٌ في الحديث، ولا درجة متوسطة( ).
اب اس کو کوئی بنیاد بناکر کہے کہ وہ امام شافعی اورامام ابوحنیفہ کو حدیث میں یتیم مانتے ہیں توغلط ہوگا کیونکہ انہوں نے یہ بات محض امام مالک سے فرط عقیدت کی بناء پر کہاہے۔ہاں اگروہ کسی حدیث پر کلام کرتے ہوئے یاعلم جرح وتعدیل پر لکھتے ہوئے یہ بات کہتے تو قابل ذکر تھی۔ دوسری چیز دیکھئے وہ امام مالک کوامام فی الرائے کہہ رہے ہیں۔ اب پتہ نہیں آپ اس کا کیامطلب بیان کریں گے۔
حنفی ارتحل الی مذھب الشافعی رحمہ اللہ تعالی یعزر کذا فی جواھرالأخلاطی.(الفتاوی الھندیة' کتاب ا لحدود' باب فصل فی التعزیر)
آپ سے ایسی توقع تونہ تھی ایسی بچکانہ بات آپ نے بیان کی ہے۔فتاوی ہندیہ میں ہزاروں اقوال ہیں ۔اس میں صحیح غیرصحیح شاذ اورمتروک ہرقسم کے قول موجود ہیں اس میں سے ایک جزئیہ لے کر بغیرتحقیق کے بطور حوالہ پیش کرنا غلط ہے۔پھراس میں اہل الرائے کا ذکر کہاں ہے ۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل ایک صاحب نے کسی گمنام حنفی کے حوالہ سے ذکر کیاتھاکہ اگرمیں قادر ہوتاتوشافعیوں سے جزیہ وصول کرتا۔
ہرفرقہ کی تاریخ میں کچھ شدت پسند لوگ ہوتے ہیں اورباہمی نزاع اس کو مزید گدلاکردیتی ہے۔اس کو ایک قول بناکر پیش کرنا اصولی طورپر غلط ہے۔اگریہی بات صحیح ہوتی توتاریخ کے وہ تمام مشاہیرحنفی جنہوں نے شافعی علمائ سے استفادہ کیا اوروہ تمام شافعی علماء جنہوں نے حنفی علماء سے استفادہ کیاوہ کس بات کی نظیر ہے۔ایک قول کو لے لینا اوربقیہ تمام امور کو پس پشت ڈالنا اہل تحقیق کا شیوہ نہیں ہواکرتا۔
٥۔ مزید تفصیلی حوالہ جات ان شاء اللہ اپنے مستقل مضمون میں پیش کروں گا۔
امید ہے کہ آنجناب کا اہل الرائے پر مضمون وقیع،تحقیقی اورعلمی اصولوں کو پیش نظررکھ کرہوگا۔مناظرانہ اورمجادلانہ نہیں ہوگا۔والسلام