• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سجدہ سہوكے أحکام

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
۔۔۔۔۔دوسری بات یہ کہ ہے کہ یہ مجرد امام کرخی کا قول ہے۔کسی قول کو حنفیہ کی جانب منسوب کرنے کیلے ضروری ہے کہ دیگر فقہاے احناف نے بھی اس قول کی تائید کی ہو۔ ورنہ ایک شخص کے قول کو پوری جماعت پر تھوپیں گے تب توآپ کیلے بھی بڑی مصیبت ہوجاے گی۔
امام کرخی کے شاگرد مشہور محدث،اصولی اورفقیہ امام جصاص رازی ہیں۔ انہوں نے بھی اصول فقہ پر کتاب لکھی ہے کیااس میں اپنے استاد کی تائید کی ہے۔ اس کے بعد امام سرخسی نے بھی اصول فقہ پر کتاب لکھی ہے کیااس میں امام کرخی کی اس عبارت کی تائید کی ہے۔ امام ابوزید دبوسی نے بھی اصول فقہ پر کتاب لکھی ہے کیااس مین اس قسم کا کوئی جملہ موجود ہے۔اگرہے تودلیل دیں ورنہ صرف امام کرخی کی بات کوبغیراس میں غوروفکر کئے بغیر سبھی پر نہ تھوپیں۔ اوریہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اللہ کی لعنت جھوٹوں پر ہے لیکن ایک شخص کی بات کو پوری جماعت پر تھوپنا بھی جھوٹ کے ہی زمرے میں آتاہے۔والسلام
کاش کے یہ اصول مقلدین اچھی طرح خود بھی سمجھ لیں جن کی کتب اہل حدیث کے خلاف اسی طرح کے شاذ اور یک شخصی مسائل کو پوری جماعت کی جانب تھوپنے سے بھری پڑی ہیں۔ نیز یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایک شخص کی صریح غلط بات سامنے آنے پر بھی اگر کوئی انکار نہیں کرتا اور اس کی تائید کرتا ہے وہ کس زمرے میں آتا ہے۔۔۔۔؟
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
اگر ہم اندھی تقلید کرتے ہوتے تو آج ہمارے مدارس ڈھائی سال کی رضاعت کا فتوی دیتے ۔
لیکن ہمارے مدارس نے دو سال کی رضاعت کا فتوی دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہشتی زیور اور فتاوی رشیدیہ میں بھی دو سال کی رضاعت فتوی ہے ۔

کیا آپ کسی دیوبندی مدرسہ کا فتوی دکھا سکتے ہین جس مدت رضاعت ڈھائی سال ہو ۔
محترم ہم آپ کی بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ آپ کے نزدیک مدت رضاعت دو سال ہی ہے اور امام ابوحنیفہ کا جو قول ڈھائی سال کا ہے آپ سے نہیں مانتے۔ اچھی بات ہے اللہ مزید توفیق دے، آمین۔ مگر اسی مسئلہ کا ایک پہلو دوسرا بھی ہے ذرا اپنے مدارس سے وہ بھی معلوم کر دیجئے۔ ہو سکتا ہے کہ میری معلومات غلط ہوں اسی لئے آپ کو ہی زحمت دے رہا ہوں۔ وہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب مدت رضاعت دو سال ہے تو رضاعت قائم ہونے کی یعنی جب تک بچہ دودھ پی لے تو رضاعت قائم ہو جائے وہ بھی دو سال ہونی چاہئے۔ آپ ذرا اس سے متعلق تحقیق فرما دیں کہ آپ کے مدارس کیا کہتے ہیں؟ کیا یہ بھی دو سال ہے یا۔۔۔ڈھائی سال۔۔۔؟؟؟
اگر یہ بھی دو سال ہے تو اس مسئلہ کا تو قصہ ختم اور اگر دودھ پلانے کی مدت تو دو سال لیکن رضاعت قائم ہونے کی ڈھائی سال ہی ہے تو کس دلیل سے۔۔۔؟ امید کرتا ہوں کہ ضرور رہنمائی فرمائیں گے۔ والسلام
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
احناف کے نزدیک اگر کوئی صحیح حدیث کو جاننے کے بعد بھی امام کا قول نہیں چھوڑتا تو اس کو اندھی تقلید کہا جاتا ہے۔ اور یہ احناف کہ ہاں بھی حرام ہے (دیکھئیے تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی صاحب )
اگر ہم اندھی تقلید کرتے ہوتے تو آج ہمارے مدارس ڈھائی سال کی رضاعت کا فتوی دیتے ۔
لیکن ہمارے مدارس نے دو سال کی رضاعت کا فتوی دیا ہے
.....
کیا آپ کسی دیوبندی مدرسہ کا فتوی دکھا سکتے ہیں جس مدت رضاعت ڈھائی سال ہو ۔
دیو بندیوں کے شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی ﷫ سورۂ لقمان کی آیت کریمہ ﴿ وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ ﴾ کے تفسیر میں فرماتے ہیں:
تنبیہ دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دو سال بیان ہوئی باعتبار غالب اور اکثری عادت کے ہیں۔ امام ابو حنیفہ﷫ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔ جمہور کے نزدیک دو ہی سال ہیں۔ واللہ اعلم! (دیکھئے شرح آیت کریمہ 14، سورۂ لقمان، صفحہ نمبر 548، طبع مجمع ملک فہد)
قرآن کریم کی آیت کریمہ کی تشریح میں یہ فرمانا
دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دو سال بیان ہوئی باعتبار غالب اور اکثری عادت کے ہیں۔ امام ابو حنیفہ﷫ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔
کیا تقلید کا شاخسانہ نہیں؟!!! قرآن کریم کی صریح آیت کریمہ کے بعد اب اور کیا دلیل ہوگی؟!! فرمانِ باری ہے: ﴿ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ... سورة يونس کہ ’’اور ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں۔ یقیناً گمان، حق (کی معرفت) میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا یہ جو کچھ کررہے ہیں یقیناً اللہ کو سب خبر ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
١۔
محترم بھائی ۔ شاید آپ نے نہایت عجلت میں یہ تحریر لکھی ہے ۔جس کے شاہد عدل یہ ملون جملے ہیں۔اگرمہربانی فرماکر اس بحث کو کسی دوسرے موضوع کے تحت منتقل کردیاجائے اوراپنے دعوی کے ثبوت میں دلیل بیان کردیں۔
تبصرہ کے لیے شکریہ!
لیکن میرے بھائی اتنی بھی عجلت میں نہیں لکھی گئی ہے۔ یہ موقف میں نے اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے اور انہوں نے اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے اور کم از کم اس موقف کے اظہار میں اگر آپ دو نسلوں کا ہی اعتبار کرلیں تو تقریبا٦٠ سال کا عرصہ بنتا ہے اور یہ کوئی کم عرصہ نہیں ہے۔(ابتسامہ محب)
٢۔
اوراپنے دعوی کے ثبوت میں دلیل بیان کردیں۔
آپ کا یہ مطالبہ بالکل درست اور بجا ہے۔ ان شاء اللہ اس موضوع پر پہلی فرصت میں ایک مضمون ماہنامہ محدث یا کسی اور مجلہ کے تحریر کرتا ہوں۔
٣۔ آپ تاریخ فقہ اسلامی پر کوئی بھی کتاب اٹھا لیں ، چاہے وہ شیخ مصطفی زرقا کی ہو یا شیخ علی السایس یا ڈاکٹر تاج الدین عروسی کی ہو وغیرہ تو آپ کو کچھ بنیادی فروق تو وہاں بھی مل جائیں گے ۔اور اس موضوع پر بیسیوں کتابوں میں یہ ابحاث ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔اگر علم عرب کے اس علمی کام کو یہاں پاکستان پہنچتے پہچنتے ایک عرصہ دراز لگ جاتا ہے ۔
٤۔ فوری اطلاع کے لیے صرف اس مسئلہ میں کچھ حوالہ جات پیش کر رہا ہوں کہ جس میں آپ نے تاکید سے مطالبہ کیا ہےیعنی حنفیہ کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی یعنی تاقیام قیامت ہیں۔
والحاصل أن أبا حنیفة النعمان من أعظم معجزات المصطفی بعد القرآن وحسبک من مناقبہ ما قال قولاًا لا أخذ بہ ا مام من الأئمة الأعلام وقد جعل اللہ الحکم لأصحابہ وأتباعہ من زمنہ ا لی ھذہ الأیام الی أن یحکم بمذھبہ عیسی علیہ السلام.(رد المحتار علی در المختا ر:جلد١، ص ١٤٢)
حاصل کلام یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم معجزات میں سے ہیں۔ آپ کے مناقب کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ آپ کا کوئی قول بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کے مطابق کسی دوسرے امام نے فتوی نہ دیا ہو ۔ اور اللہ تعالی نے آپ کو اپنے اصحاب اور متبعین پر اپنے زمانے سے لے کر آج تک ’حَکَم ‘ بنایا ہے یہاں تک کہ(آخری زمانہ میں ) حضرت عیسی علیہ السلام بھی آپ کے مذہب کے مطابق فتوی جاری کریں گے۔
حنفی ارتحل الی مذھب الشافعی رحمہ اللہ تعالی یعزر کذا فی جواھرالأخلاطی.(الفتاوی الھندیة' کتاب ا لحدود' باب فصل فی التعزیر)
اگر کوئی حنفی ، شافعی مسلک اختیار کر لے تو اسے تعزیر لگائی جائے گی۔ یہ مسئلہ جواہر الاخلاطی میں اسی طرح ہے۔
٥۔ مزید تفصیلی حوالہ جات ان شاء اللہ اپنے مستقل مضمون میں پیش کروں گا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میرے خیال اسے موضوع کو مکالمہ کے ضمن میں ’اہل الرائے کون ہیں‘کے عنوان سے منتقل کردیں۔ چونکہ یہاں پر دوتین موضوع آپس میں خلط ملط ہورہے ہیں۔ آپ کی تفصیلی تحریر کا انتظار رہے اس کے بعد کچھ ناچیز کی عرض ومعروضات ہوں گی۔
 

حراسنبل

مبتدی
شمولیت
جون 04، 2011
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
24
محترم عامر صاحب
اگر کسی نے ثناء کی جگہ التحیات پڑہ لی تو سجدہ سہو کرے یا نہیں ؟ ۔ قرآن و صحیح حدیث سے جواب دیں
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول سے اس کا جواب دے دیں ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
تبصرہ کے لیے شکریہ!
لیکن میرے بھائی اتنی بھی عجلت میں نہیں لکھی گئی ہے۔ یہ موقف میں نے اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے اور انہوں نے اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے اور کم از کم اس موقف کے اظہار میں اگر آپ دو نسلوں کا ہی اعتبار کرلیں تو تقریبا٦٠ سال کا عرصہ بنتا ہے اور یہ کوئی کم عرصہ نہیں ہے۔(ابتسامہ محب)
آپ نے اپنے شیوخ کا نام نہیں تبایاتومیرے لئے وہ مجہول کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
آپ کا یہ مطالبہ بالکل درست اور بجا ہے۔ ان شاء اللہ اس موضوع پر پہلی فرصت میں ایک مضمون ماہنامہ محدث یا کسی اور مجلہ کے تحریر کرتا ہوں۔آپ تاریخ فقہ اسلامی پر کوئی بھی کتاب اٹھا لیں ، چاہے وہ شیخ مصطفی زرقا کی ہو یا شیخ علی السایس یا ڈاکٹر تاج الدین عروسی کی ہو وغیرہ تو آپ کو کچھ بنیادی فروق تو وہاں بھی مل جائیں گے ۔اور اس موضوع پر بیسیوں کتابوں میں یہ ابحاث ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔اگر علم عرب کے اس علمی کام کو یہاں پاکستان پہنچتے پہچنتے ایک عرصہ دراز لگ جاتا ہے ۔
اہل الرائے پر میں نے کچھ کتابیں پڑھیں ہیں۔ جس میں جدید وقدیم دونوں قسم کے مصنفین شامل ہیں لیکن آپ کابیان کردہ فرق مجھے کہیں نہیں ملا۔ نہ عبدالقاہر جرجانی کی الفرق بین الفرق میں، نہ ابن خلدون کے مقدمہ میں ،نہ شاہ ولی اللہ کی الانصاف اورحجۃ اللہ البالغہ میں۔ہوسکتاہے کہ یہ میرے مطالعہ کا قصور ہو لیکن جب تک کوئی دلیل سامنے نہ آئے اس تعریف کو ماننے میں سخت اشکال ہے۔ویسے اگرآپ یہ عرض کردیں کہ یہ آپ کااپنااجتہاد ہے توپھرکوئی گنجائش رہتی ہے کیونکہ اس میں کلام کرنے کی گنجائش بہت کم بچتی ہے(ابتسامہ )

٤
۔ فوری اطلاع کے لیے صرف اس مسئلہ میں کچھ حوالہ جات پیش کر رہا ہوں کہ جس میں آپ نے تاکید سے مطالبہ کیا ہےیعنی حنفیہ کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی یعنی تاقیام قیامت ہیں۔

والحاصل أن أبا حنیفة النعمان من أعظم معجزات المصطفی بعد القرآن وحسبک من مناقبہ ما قال قولاًا لا أخذ بہ ا مام من الأئمة الأعلام وقد جعل اللہ الحکم لأصحابہ وأتباعہ من زمنہ ا لی ھذہ الأیام الی أن یحکم بمذھبہ عیسی علیہ السلام.(رد المحتار علی در المختا ر:جلد١، ص ١٤٢)
اصول تحقیق سے ماشاء اللہ آپ واقف ہوں گے۔ آپ بھی جانتے ہیں اورہم بھی جانتے ہیں کہ یہاں پر ابن عابدین شامی اہل الرائے کا ذکر نہیں کررہے تھے بلکہ امام ابوحنیفہ کی تعریف وتوصیف بیان کررہے تھے اس میں انہوں نے کسی حد تک مبالغہ سے کام لیاہے اورحکم کاجومعنی آپ سمجھ رہے ہیں کیاوہی ابن عابدین کابھی منشاء ہے یہ بات محتاج تحقیق ہے۔
یہ دلیل مکمل جب ہوتی کہ ابن عابدین اہل الرائے کے ذکر میں اس بات کونقل کرتے پھرآپ کا اس کاحوالہ دیناصحیح ہوتا۔
اس کی ایک مثال دیکھیں حافظ ابوالولید باجی مشہور مالکی محدث اورفقیہہ ہیں جنہوں نے ابن حزم ظاہری کا ناطقہ بند کردیاتھا۔وہ اپنی کتاب الوصیۃ یاالنصیحۃ لویدیہ میں امام ابوحنیفہ اورامام شافعی کے بارے میں لکھتے ہیں۔
وإنَّما خصصنا مذهبَ مالكٍ رحمه الله؛ لأنه إمامٌ في الحديث، وإمامٌ في الرأي، وليس لأحدٍ من العلماء مِمَّن انبسط مذهبُه وكثُرت في المسائل أجوبتُه درجةُ الإمامةِ في المعنيين، وإنَّما يشاركه في كثرة المسائل وفروعها والكلام على معانيها وأصولها أبو حنيفة والشافعي، وليس لأحدهما إمامةٌ في الحديث، ولا درجة متوسطة( ).
اب اس کو کوئی بنیاد بناکر کہے کہ وہ امام شافعی اورامام ابوحنیفہ کو حدیث میں یتیم مانتے ہیں توغلط ہوگا کیونکہ انہوں نے یہ بات محض امام مالک سے فرط عقیدت کی بناء پر کہاہے۔ہاں اگروہ کسی حدیث پر کلام کرتے ہوئے یاعلم جرح وتعدیل پر لکھتے ہوئے یہ بات کہتے تو قابل ذکر تھی۔ دوسری چیز دیکھئے وہ امام مالک کوامام فی الرائے کہہ رہے ہیں۔ اب پتہ نہیں آپ اس کا کیامطلب بیان کریں گے۔
حنفی ارتحل الی مذھب الشافعی رحمہ اللہ تعالی یعزر کذا فی جواھرالأخلاطی.(الفتاوی الھندیة' کتاب ا لحدود' باب فصل فی التعزیر)
آپ سے ایسی توقع تونہ تھی ایسی بچکانہ بات آپ نے بیان کی ہے۔فتاوی ہندیہ میں ہزاروں اقوال ہیں ۔اس میں صحیح غیرصحیح شاذ اورمتروک ہرقسم کے قول موجود ہیں اس میں سے ایک جزئیہ لے کر بغیرتحقیق کے بطور حوالہ پیش کرنا غلط ہے۔پھراس میں اہل الرائے کا ذکر کہاں ہے ۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل ایک صاحب نے کسی گمنام حنفی کے حوالہ سے ذکر کیاتھاکہ اگرمیں قادر ہوتاتوشافعیوں سے جزیہ وصول کرتا۔
ہرفرقہ کی تاریخ میں کچھ شدت پسند لوگ ہوتے ہیں اورباہمی نزاع اس کو مزید گدلاکردیتی ہے۔اس کو ایک قول بناکر پیش کرنا اصولی طورپر غلط ہے۔اگریہی بات صحیح ہوتی توتاریخ کے وہ تمام مشاہیرحنفی جنہوں نے شافعی علمائ سے استفادہ کیا اوروہ تمام شافعی علماء جنہوں نے حنفی علماء سے استفادہ کیاوہ کس بات کی نظیر ہے۔ایک قول کو لے لینا اوربقیہ تمام امور کو پس پشت ڈالنا اہل تحقیق کا شیوہ نہیں ہواکرتا۔
٥۔ مزید تفصیلی حوالہ جات ان شاء اللہ اپنے مستقل مضمون میں پیش کروں گا۔
امید ہے کہ آنجناب کا اہل الرائے پر مضمون وقیع،تحقیقی اورعلمی اصولوں کو پیش نظررکھ کرہوگا۔مناظرانہ اورمجادلانہ نہیں ہوگا۔والسلام
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
اگر کسی نے ثناء کی جگہ التحیات پڑہ لی تو سجدہ سہو کرے یا نہیں ؟ ۔ قرآن و صحیح حدیث سے جواب دیں
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول سے اس کا جواب دے دیں ۔
مجھ جیسے طالب علم کو بھی اس کے جواب کی ضرورت ہے،
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کاش کے یہ اصول مقلدین اچھی طرح خود بھی سمجھ لیں جن کی کتب اہل حدیث کے خلاف اسی طرح کے شاذ اور یک شخصی مسائل کو پوری جماعت کی جانب تھوپنے سے بھری پڑی ہیں۔ نیز یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایک شخص کی صریح غلط بات سامنے آنے پر بھی اگر کوئی انکار نہیں کرتا اور اس کی تائید کرتا ہے وہ کس زمرے میں آتا ہے۔۔۔۔؟
سمجھنے کی ضرورت تو دونوں کو ہے اس اصول کی خلاف ورزیاں آپ کے یہاں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔اصولی حضرات میں سے کس نے اس بات کی تائید کی ہے۔اوراس کو بطور اصول ذکر کیاہے بتاکر ہمیں ممنون کریں۔کیاامام کرخی کے شاگردوں کا اوران کے شاگردوں کے شاگردوں کو اصول کی فقہ کی کتابوں میں اس اصول کونہ ذکر کرنا بالواسطہ اس کاانکار نہیں ہے؟
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
اگر یہ بھی دو سال ہے تو اس مسئلہ کا تو قصہ ختم اور اگر دودھ پلانے کی مدت تو دو سال لیکن رضاعت قائم ہونے کی ڈھائی سال ہی ہے تو کس دلیل سے۔۔۔؟ امید کرتا ہوں کہ ضرور رہنمائی فرمائیں گے۔ والسلام
لو بھائی رضاعت ثابت ہو نی کی مدت بھی دو سال کا فتوی ۔ جھگڑا ختم ۔
Answer: Darul Ifta Deoband India

آپ حضرات نے دعوے کے جواب میں کسی دیوبندی مدرسہ کا فتوی نہیں دیا ۔ بلکہ شبیر عثمانی صاحب کا قول ذکر کیا ۔ اس میں بھی انہوں نے فتوی نہیں دیا بلکہ صرف ایک قول ذکر کیا۔
 
Top