ہمارے نذدیک شرعی دلائل 4 ہیںمجھ جیسے طالب علم کو بھی اس کے جواب کی ضرورت ہے،
1- قرآن
2- حدیث
3-اجماع امت
4- قیاس
یہ آپ حضرات کی غلط فہمی کھ فقہ حنفی کی بنیاد صرف امام ابو حنیفہ کے اقوال پر ہے۔
ہمارے نذدیک شرعی دلائل 4 ہیںمجھ جیسے طالب علم کو بھی اس کے جواب کی ضرورت ہے،
ماشاء اللہ!اہل الحدیث کی محنتوں کا کم ازکم اتنا فائدہ تو آج نظر آ رہا ہے کہ آج ہمارے بھائی عام بات چیت کو بھی اصول حدیث کی روشنی میں پرکھنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن مزہ تو تب ہے کہ جب ہم سب اپنے اہل علم سے فتوی طلب کرتے وقت بھی اسی طرح ان سے سند مانگنے کے بھی قائل ہو جائیں جس طرح ہم لوگوں سے دنیاوی خبروں میں بھی سند اور رجال کا نام پوچھتے ہیں۔آپ نے اپنے شیوخ کا نام نہیں تبایاتومیرے لئے وہ مجہول کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر انسان سائنس کے مسائل فلسفہ کی کتابوں میں تلاش کرنا شروع کردے تو واقعتا اسے پریشانی توہوتی ہے کہ وہاں یہ مسائل نہیں ملتے ہیں۔ بہرحال کیا کریں ؟مصنقفین پر اعتراضات کریں؟ کہ وہ ایک ہی فن کی کتاب میں ہر قسم کے فن کے مسائل جمع کیوں نہیں کر دیتے ہیں۔ بہرحال میں اس بارے تاحال کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پایا ہوں ۔اہل الرائے پر میں نے کچھ کتابیں پڑھیں ہیں۔ جس میں جدید وقدیم دونوں قسم کے مصنفین شامل ہیں لیکن آپ کابیان کردہ فرق مجھے کہیں نہیں ملا۔ نہ عبدالقاہر جرجانی کی الفرق بین الفرق میں، نہ ابن خلدون کے مقدمہ میں ،نہ شاہ ولی اللہ کی الانصاف اورحجۃ اللہ البالغہ میں۔
میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ کوئی میری ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ اپنے شیوخ سے نقل کی ہے۔ بہرحال آپ کے اطمینان کے لیے ایک دو حوالہ جات بھی نقل کر رہا ہوں۔ امام مالک رحمہ اللہ اپنی کتاب ’موطا‘ میں فرماتے ہیں:ویسے اگرآپ یہ عرض کردیں کہ یہ آپ کااپنااجتہاد ہے توپھرکوئی گنجائش رہتی ہے کیونکہ اس میں کلام کرنے کی گنجائش بہت کم بچتی ہے(ابتسامہ )
بھائی اہل عراق پر یہ جرح تو تابعین کے زمانہ میں شروع ہو گئی تھی اور سید التابعین حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے یہ نقد کی ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کے زمانے میں تو اپنے نقطہ عروج پر تھی۔ اسی طرح عالم عرب کے جید عالم دین اور خطیب ڈاکٹر مصطفی السباعی لکھتے ہیں:''ہمیں یحی نے مالک سے' انہوں نے ربیعہ بن أبی عبد الرحمن سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے سعید بن مسیبa سے سوال کیا کہ عورت کی ایک انگلی میں کتنی دیت ہے توانہوں نے کہا: دس اونٹ' میں نے پھر سوال کیا: دو انگلیوں میں کتنی دیت ہو گی تو انہوں نے کہا: بیس اونٹ' میں نے پھر سوال کیا: تین انگلیوں میں کتنی ہو گی تو انہوں نے کہا: تیس اونٹ' میں نے پھر سوال کیا: چار انگلیوں میں کتنی ہو گی تو انہوں نے کہا: بیس اونٹ' میں نے کہا: جب عورت کازخم بڑھ گیا اور تکلیف زیادہ ہوگئی تو اس کی دیت کم ہو گئی۔ اس پر سعید بن مسیب نے کہا: کیا توعراقی ہے؟تو میں نے کہا: میں یا تو ایک ایسا عالم ہوں جو تحقیق کرناچاہتاہے یا ایک ایسا جاہل ہوں جو علم کا طلب گار ہے ۔اس پر سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا: یہ سنت ہے میرے بھتیجے !۔''
بقیہ تفصیلی حوالہ جات بنیادی مصادر سے ان شاء اللہ تفصیلی مضمون میں ملاحظہ فرمایے گا۔امام مالک رحمہ اللہ سے ان کے بعض شاگروں نے ایک دفعہ سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا۔ پس ایک شاگرد نے پھر سوال کیا کہ اگر ایسا ہو تو کیا خیال ہے؟ تو اس سے امام مالک رحمہ اللہ شدید غصے میں آ گئے اور فرمانے لگے کہ تو ارایتییین میں سے ہے۔
یہ تو ایسے ہی ہے کہ ہم فقہ یا اصول فقہ کی کتاب سے حنفی فقیہ کی کوئی رائے بیان کریں تو آپ کہیں یہ تو مناقب کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ فقہ یعنی قانون کی کتابوں میں مناقب کا کیا کام؟اگر یہ مناقب ہیں تو انہیں بطور ”اصول فتوی“ نصاب میں کیوں شامل کیا گیا ہے؟واضح رہے کہ یہ حوالہ فتاوی شامیہ کے مقدمہ سے لیا گیا ہے اور فتاوی شامیہ کا مقدمہ دیوبندی مدارس میں آٹھ سالہ درس نظامی کے بعد دو سالہ مفتی کورس میں بطور ’اصول فتوی‘ کے نصاب کے پڑھایا جاتا ہے۔یہاں پر ابن عابدین شامی اہل الرائے کا ذکر نہیں کررہے تھے بلکہ امام ابوحنیفہ کی تعریف وتوصیف بیان کررہے تھے اس میں انہوں نے کسی حد تک مبالغہ سے کام لیاہے ۔
آپ کوئی اور معنی بیان کردیں جو حنفی مدارس میں اس مقدمہ کو بطور نصاب تعلیم دیتے ہوئے مفتی حضرات کوبتلایا بھی جاتا ہو تو ہمیں بصد جان قبول ہے۔٥۔اورحکم کاجومعنی آپ سمجھ رہے ہیں کیاوہی ابن عابدین کابھی منشاء ہے یہ بات محتاج تحقیق ہے۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فتاوی عالمگیریہ کو اپنے وقت کے چوٹی کے چالیس حنفی اہل علم نے مرتب کیا ہے۔ پھر اس کے ایک ایک فتوی پر شاہ عالمگیر اور کبار حنفی اہل علم کی نظر ثانی ہوئی ہے بلکہ ایک حصہ کی نظر ثانی تو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے والد محترم نے کی ہے۔ یہ فتوی اورنگ زیب عالمگیر نےبرصغیر پاک وہند کی عدالتوں کے لیے مرتب کروایا تھااور یہ ایک طرح سے مغلیہ سلطنت کےلیے بطور قانون مرتب کروایا گیا تھا لیکن اس قانون کی حیثیت یہ ہے کہ یہ نافذ نہیں تھا لیکن اس قانون سے حنفی عدالتیں رہنمائی لیتی تھیں۔اس بارے تفصیل کے لیے میرے پی۔ایچ ۔ڈی کے مقالہ میں باب پنجم میں ایک فصل فتاوی عالمگیری پر ہے۔ اس کا مطالعہ یہاں کریں۔ یعنی یہ فتاوی کبار حنفی اہل علم کی ایک بڑی جماعت کی اجتماعی تحقیقات کی ایک سنجیدہ کوشش ہے جو بطور فتوی بھی نہیں بلکہ بطور قانون مرتب کیا گیا تھا اور ایسی سنجیدہ کوششوں میں آپ کے بقول شاذ اور متروک اقوال کا تذکرہ ایک مسلک کے نمائندگان کی جماعت کی طرف سے بہت ہی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہے۔٦۔آپ سے ایسی توقع تونہ تھی ایسی بچکانہ بات آپ نے بیان کی ہے۔فتاوی ہندیہ میں ہزاروں اقوال ہیں ۔اس میں صحیح غیرصحیح شاذ اورمتروک ہرقسم کے قول موجود ہیں اس میں سے ایک جزئیہ لے کر بغیرتحقیق کے بطور حوالہ پیش کرنا غلط ہے۔
یہی شرعی دلائل ہمارے ہاں بھی ہیں، پھر اختلاف کس بات کا ہے؟!!ہمارے نذدیک شرعی دلائل 4 ہیں
1- قرآن
2- حدیث
3-اجماع امت
4- قیاس
یہ آپ حضرات کی غلط فہمی کھ فقہ حنفی کی بنیاد صرف امام ابو حنیفہ کے اقوال پر ہے۔
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے ؟آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر انسان سائنس کے مسائل فلسفہ کی کتابوں میں تلاش کرنا شروع کردے تو واقعتا اسے پریشانی توہوتی ہے کہ وہاں یہ مسائل نہیں ملتے ہیں۔ بہرحال کیا کریں ؟مصنقفین پر اعتراضات کریں؟ کہ وہ ایک ہی فن کی کتاب میں ہر قسم کے فن کے مسائل جمع کیوں نہیں کر دیتے ہیں۔ بہرحال میں اس بارے تاحال کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پایا ہوں ۔
بہرحال آپ کے اطمینان کے لیے ایک دو حوالہ جات بھی نقل کر رہا ہوں۔ امام مالک رحمہ اللہ اپنی کتاب ’موطا‘ میں فرماتے ہیں:
'' وحدثنی یحی عن مالک عن ربیعة بن أبی عبد الرحمن أنہ قال سألت سعید بن المسیب کم فی صبع المرأة فقال عشر من البل فقلت کم فی صبعین قال عشرون من البل فقلت کم فی ثلاث فقال ثلاثون من البل فقلت کم فی أربع قال عشرون من البل فقلت حین عظم جرحھا واشتدت مصیبتھا نقص عقلھا فقال سعید أعراقی أنت فقلت بل عالم متثبت أو جاھل متعلم فقال سعید ھی السنة یا ابن أخی.''(مؤطا امام مالک' کتاب الطلاق' باب عدة المتوفی عنھا زوجھا اذا کانت حاملا (١٢٢٥)' ٢ ٥٨٩ ۔
اس مذکورہ نقل سے صرف اتناثابت ہوتاہے کہ وہ اہل عراق کو اہل الرائے مانتے تھے لیکن اہل الرائے کس معنی میں مانتے تھے وہ اس حوالہ میں مذکور نہیں ہے۔
اہل کوفہ اوراہل مدینہ کے مابین چشمک مشہور ہے وہ کتب تاریخ سے واقفیت رکھنے والاہرشخص جانتاہےبھائی اہل عراق پر یہ جرح تو تابعین کے زمانہ میں شروع ہو گئی تھی اور سید التابعین حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے یہ نقد کی ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کے زمانے میں تو اپنے نقطہ عروج پر تھی۔ اسی طرح عالم عرب کے جید عالم دین اور خطیب ڈاکٹر مصطفی السباعی لکھتے ہیں:
مدرسة الرأي مدرسة أهل الكوفة وإلى أبي حنيفة انتهت رئاسة هذه المدرسة ,فيعد إمام فقهاء العراق،يعد أبو حنيفة -رحمه الله- أول من توسع في استنباط الفقه من أئمة عصره وفي تفريع الفروع على الصول وافتراض الحواث التي لم تقع وقد كان العلماء قبله يكرهون لك ..............وقد عرفت مدرسة أبي حنيفة بمدرسة الأرأيتيين أي الذي يقولون أرأيت يفترضون الوقائع بقولهم :" أرأيت لو حصل كذا ؟أرأيت لو كان كذا " فقد سأل مالكاً رحمه الله بعض تلاميذه يوماً عن حكم مسالة فأجابه ,فقال تلميذه :أرأيت لو كان كذا ؟فغضب مالك وقال :هل أنت من الأرأيتيين ...(السنة ومكانتها في التشريع : د. مصطفي السباعي ، ص 403 )
بقیہ تفصیلی حوالہ جات بنیادی مصادر سے ان شاء اللہ تفصیلی مضمون میں ملاحظہ فرمایے گا۔
بات صرف مولف السنۃ ومکانتہا کی ہی نہیں حافظ ذہبی کی تذکرۃ الحفاظ دیکھ لیں وہان بھی لکھاملے گاامام اہل الرائے لیکن کیاوہ بھی اہل الرائے سے وہی سمجھتے ہیں جوآنجناب نے سمجھاہے یہ بات محتاج تحقیق ہے۔ بحث یہ نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ اہل الرائے تھے یانہیں تھے بلکہ موضوع بحث یہ ہے کہ اپ نے اہل الرائے کو جوتعریف کی ہے وہ کن علماء متقدمین سے مروی ہے۔٤۔
اب اس پر کیاعرض کروں میں ۔حیراں ہوں دل کوپیٹوں کہ روئوں جگر کو میںیہ تو ایسے ہی ہے کہ ہم فقہ یا اصول فقہ کی کتاب سے حنفی فقیہ کی کوئی رائے بیان کریں تو آپ کہیں یہ تو مناقب کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ فقہ یعنی قانون کی کتابوں میں مناقب کا کیا کام؟اگر یہ مناقب ہیں تو انہیں بطور ”اصول فتوی“ نصاب میں کیوں شامل کیا گیا ہے؟واضح رہے کہ یہ حوالہ فتاوی شامیہ کے مقدمہ سے لیا گیا ہے اور فتاوی شامیہ کا مقدمہ دیوبندی مدارس میں آٹھ سالہ درس نظامی کے بعد دو سالہ مفتی کورس میں بطور ’اصول فتوی‘ کے نصاب کے پڑھایا جاتا ہے۔
فتاوی شامی بے شک فقہ کی کتاب ہے لیکن شروع میں جوانہوں نے امام ابوحنیفہ کا تعارف کرایاہے کیاوہ بھی فقہ سے تعلق رکھتاہے؟ اتنی معمولی بات توہر شخص جانتاہے کہ فقہ کی تمام کتابوں میں فقہاء حضرات ائمہ مجتہدین کا تعارف کراتے ہیں اس کو فقہی احکامات سے کیاواسطہ ہے وہ توتبرکاذکر کیاجاتاہے۔ اگرآنجناب اس کوبھی فقہی حکم سمجھتے ہیں تواپنی اپنی فہم ہے۔
اہل الرائے کا معنی ہم یقینابیان کریں گے لیکن آپ کے ’’مدلل اورمحقق‘‘مضمون کے بعد۔۔۔۔آپ کوئی اور معنی بیان کردیں جو حنفی مدارس میں اس مقدمہ کو بطور نصاب تعلیم دیتے ہوئے مفتی حضرات کوبتلایا بھی جاتا ہو تو ہمیں بصد جان قبول ہے۔
عالمگیراورنگ زیب کے بعد مغلیہ سلطنت ہی کہاں رہی۔ وہ توایک جسد بے روح تھی بس۔۔۔۔۔۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فتاوی عالمگیریہ کو اپنے وقت کے چوٹی کے چالیس حنفی اہل علم نے مرتب کیا ہے۔ پھر اس کے ایک ایک فتوی پر شاہ عالمگیر اور کبار حنفی اہل علم کی نظر ثانی ہوئی ہے بلکہ ایک حصہ کی نظر ثانی تو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے والد محترم نے کی ہے۔ یہ فتوی اورنگ زیب عالمگیر نےبرصغیر پاک وہند کی عدالتوں کے لیے مرتب کروایا تھااور یہ ایک طرح سے مغلیہ سلطنت کےلیے بطور قانون مرتب کروایا گیا تھا لیکن اس قانون کی حیثیت یہ ہے کہ یہ نافذ نہیں تھا لیکن اس قانون سے حنفی عدالتیں رہنمائی لیتی تھیں۔
یہ صحیح ہے کہ اورنگ زیب کے دورمیں اوراس کے حکم سے اورشاہی امداد واعانت سے چالیس اہل علم نے اس کتاب کو مدون کیاہے لیکن یہ کہنا کہ اس میں کوئی بات مفتی بہ مسائل کے خلاف نہیں ہے ۔ یہ محتاج تحقیق ہے دوسری بات یہ کہ فتاوی ہندیہ سے جو حصہ آنجناب نے نقل کیاہے کہ کوئی حنفی اگرشافعی ہوجائے تواسے تعزیر کیاجائے گا۔اول تواس می دور دور تک اہل الرائے کا ذکر نہیں ہے۔نمبر دو حنفی کے شافعی بننے کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ کس وجہ پر تعزیر کیاجائے گااس کا ذکر نہیں ہے ۔ بہرحال ہمیں انتظار ہے کہ آنجناب اپنی تحقیق سے سرفراز کریں توپھر ہم بھی کچھ عرض کریں۔
کہنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ اس موضوع سے متعلق آپ تاریخ فقہ اسلامی کی کتب پڑھیں لیکن اس بات کو میری طرف سے آپ تک پہنچانے کا اسلوب طنزیہ بن گیا۔ بہرحال باہمی گفتگو میں انسان سے ایسی خطا ہو جاتی ہے جس کی کوئی جسٹفیکیشن تو نہیں کی جا سکتی، ہاں معذرت ضرور کی جا سکتی ہے۔بعض اوقات مکالمہ کے مابین ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل ہار جیت یہاں اس کی دنیا کی نہیں ہے بلکہ اصل ہار جیت تو اس دن کی ہے۔آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر انسان سائنس کے مسائل فلسفہ کی کتابوں میں تلاش کرنا شروع کردے تو واقعتا اسے پریشانی توہوتی ہے کہ وہاں یہ مسائل نہیں ملتے ہیں۔ بہرحال کیا کریں ؟مصنقفین پر اعتراضات کریں؟ کہ وہ ایک ہی فن کی کتاب میں ہر قسم کے فن کے مسائل جمع کیوں نہیں کر دیتے ہیں۔ بہرحال میں اس بارے تاحال کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پایا ہوں ۔
اسلام علیکم..بسم اللہ الرحمن الرحیم
سجدہ سہو كے أحکام
أحكام سجود السہو
[ اللغة الأردية ]
تأليف: فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله
ترجمه: عبد الرشيد أظهر
مراجعه (نظرثا ني): شفيق الرحمن ضياءالله
النا شر:
مركز توعية الجا ليات با لقصيم
عام 1418ه
سجود السہو
الحمد للہ رب العالمین والصلو'ۃ والسلام علی نبینا محمد الذی بلغ البلاغ المبین وعلی آلھ واصحابھ والتابعین لہم بإحسان إلی یوم الدین 000أمابعد:
اکثر لوگ نما ز میں سجدۂ سہو کےبہت سارے احکام کو نہیں جانتے ,چنانچہ کچھ لوگ تو جہاں سجدۂ سھو واجب ہوتا ہے وہا ں اسے چھوڑدیتے ہیں, اور کچھ لوگ بغیر اسکے موقع ومحل کے سجدہ کرلیتے ہیں, اور بعض لوگ سلام سے پہلے سجدہ سھو کرلیتے ہیں, خواہ اسکا مقام سلام سے پہلے ہو , اس لئے سجدۂ سھوکے احکام کی معرفت حاصل کرنا بہت ضروری ہے ,خصوصا ائمہ نماز کیلئے جن کی لوگ اقتداء کرتے ہیں, اور انھوں نے ان نمازوں میں شریعت سے ثابت شدہ احکام کی پیروی کرنے کی ذ مہ داری اُٹھا رکھی ہے, جن میں وہ مسلمانوں کی امامت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں ,پس میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے بھائیوں کی خدمت میں اس باب کے بعض احکام پیش کروں,جناب باری تعالی سے اس امید کے ساتہ کہ وہ اس سے اپنے بندوں کو نفع بخشے گا 0 میں اللہ تعالی سے مدد اور حق وصواب کی توفیق طلب کرتے ہوئے شروع کرتا ہوں
سجود سہو؟
ان دو سجدوں کا نام ہے جنھیں نمازی اپنی نماز میں واقع ہونے والے کسی خلل کی تلافی کیلئے کرتا ہے ,اورنماز میں خلل کے تین اسباب ہیں:
1- نماز میں کوئی زیادتی 2-نماز میں کوئی نقص 3- شک کا ہونا
زیادتی کی صورت میں سجدۂ سہو کے احکام
اگر نمازی اپنی نماز میں جان بوجہ کر قیام یا قعدہ یا رکوع یا سجدہ کا اضافہ کردے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہی ,اور اگر بھول کر ان میں سے کسی کا اضافہ ہوجائے اور اس سے فارغ ہونے سے پہلے یاد آجائے تو اس صورت میں اس پر سجدۂ سھو ہے, اور اسکی نماز درست ہوگی, اور اگر اس زیادتی کے دوران یاد آجائے تو اس پر واجب ہے کہ اسی وقت واپس ہو جائے ,اس صورت میں اس پرسجدۂ سھو واجب ہوگا اور اسکی نماز درست ہوگی .
مثال : مثلا ایک شخص نے ظہر کی چار کے بجائے پانچ فرض پڑھ لئے اور اس پانچویں رکعت کے متعلق تشہد میں بیٹھنے سے پہلے یاد نہیں آیا, وہ تشہد مکمل کرکے سلام پھیر د ے اور پھر سجدۂ سہو کرے اور سلام پھیر دے اور اگرسلام پھیرنے کے بعد ا سےپانچویں رکعت کے بارے میں یاد آیا ہے تو وہ سجدۂ سھو کرکے سلام پھیر دے اور اگر پانچویں رکعت کے دوران اسے یاد آگیا کہ وہ ایک رکعت زائد پڑھ رہا ہے تو فورا بیٹھ جائے تشہد پڑھے اورسلام پھیر دے پھر سجدۂ سہوکرے اور سلام پھیر دے .
دلیل: اسکی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے( ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی الظھر خمسا فقیل لہ ازید فی الصلاۃ؟فقال :وماذاک ؟ قا لوا صلیت خمسا فسجد سجدتین بعد ما سلّم ,وفی روایۃ : فثنی رجلیہ واستقبل القبلۃ فسجد سجدتین ثم سلم ) رواہ الجماعۃ-
بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےظہر کی پانچ رکعتیں پڑھ لیں آپ سےکہا گیا کہ کیا نماز میں اضافہ کر دیاگیا ہے؟ آپ نے فرمایا کون سا اضافہ ؟ صحابہ نےعرض کی آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں ,تو آپ نے سلام کے بعد دو سجدے کئے, اور ایک روایت کے الفاظ یُوں ہیں کہ پس آپ نے پانوں موڑے ,قبلہ رو ہوئے دو سجدے کئے اور سلام پھیرا- (بخاری ومسلم ابوداؤد ترمذی نسائی ,ابن ماجہ)-
اسکا حکم جو نماز مکمّل ہونے سے پہلےسلا م پھیر دے؟
نماز پُوری ہونے سے پہلے سلام پھیرنا نماز میں زیادتی شمار ہوگی (اسے زیادتی کہنے کیوجہ یہ ہے کہ اس نے نماز میں ایک سلام کا اضافہ کردیا ہے .مترجم)
سو اگر نمازی نے اپنی نماز پُوری ہونے سےپہلے جان بوجہ کر سلام پھیرا تو اسکی نماز باطل ہوجائے گی ,اگر بھول کر ایسا کیا گیا اورکافی دیر بعد اسے یاد آیا تونئے سرے سے نماز لوٹائے گا, اور اگر تھوڑی دیر بعنی چند منٹ بعد یاد آگیا تو وہ اپنی نماز پوری کرے (جورہ گئ تھی ), اور سلام پھیردے پھر سجدۂ سہو کے دو سجدے کرے اور سلام پھیر دے .
دلیل: اسكي دلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے(ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلّی بہم الظہر او العصر فسلم من رکعتین فخرج الناس من ابواب المسجد یقولون أقصرت الصلاۃ؟ وقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم إلی خشبۃ فی المسجد فا تکأ علیہا کأنہ غضبان فقام رجل فقال؟ یارسول اللہ:أنسیت أم قصرت الصلاۃ ؟فقا ل النبی صلی اللہ علیہ وسلم :لم أنس ولم تقصر ,فقال الرجل :بلی قد نسیت , فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم للصحابۃ أحق ما یقول ؟قالوا نعم ,فتقدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصلی ما بقی من صلاتہ ثم سجد سجدتین ثم سلم ) متفق علیہ-
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہریا عصر کی نماز پڑھائی اور دورکعتوں پر سلام پھیردیا پھر لوگ مسجد کے دروازوں سے یہ کہتے ہوئے نکل رہےتھے کیا نماز میں کمی ہوگئ ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے ,جیسے غصّے میں ہوں ایک شخص نےآگے بڑھکر دریافت کیا اے اللہ کے رسول آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کردی گئ ہے؟ آپ نے فرمایا :نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم کی گئی ہے ,اس نے عرض کی یقینا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کردی گئی ہے ,نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا جو کچھ یہ کہ رہا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ انھوں نے کہا ہاں ,آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور جو رکعتیں رہ گئی تھیں وہ پڑھائیں پھر سلام پھیرا پھر دو سجدے کئے اور دوبارہ سلام پھیرا (بخاری ومسلم )-
اور جب امام نماز مکمل ہونے سے پہلے سلام پھیر دے اورمقتدیوں میں کوئی ایسا شخص ہو جو درمیان میں ملنے کیوجہ سے اپنی فوت شدہ نماز پوری کرنے کیلئے کھڑا ہوجائے ,پھرامام کو یاد آئے کہ اسکی نماز میں نقص واقع ہو گیا ہے, اور وہ اسے مکمل کرنے کیلئے کھڑا ہو جائے تو اس صورت میں ان مقتدیوں کو جو اپنی فوت شدہ نماز ادا کرنےکےلئےکھڑے ہو گئے تھے,اختیار ہے کہ اپنی فوت شدہ نماز اکیلےپڑھتے رہیں, اور آخر میں سجدہ سہو کرلیں, یا دوبارہ امام کی اقتداء میں داخل ہوجائیں, اور جب وہ سلام پھیردے تو اپنی فوت شدہ نماز کو پوری کرلیں اور سلام پھیرنے کےبعد سجدۂ سہو کرلیں ,دوسری صورت اولی اور محتاط ہے.
نماز میں کمی کی صورت میں سجدہ سہو کے احکام
(أ ) ارکان نماز میں کمی :جب نمازی نماز کا کوئی رکن چھوڑدے,تو اگر وہ تکبیر تحریمہ ہو تو اسکی نماز نہیں ہوتی خواہ اسنے عمداً اسے چھوڑا ہو یا بھول کر, کیونکہ اس صورت میں اسکی نماز شروع ہی نہیں ہوئی, اور اگر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی اور رکن ہے اوراس نے جان بوجھکر چھوڑدیا تو اسکی نماز باطل ہوگئی, اور اگر بھول کر رہ گیا اور دوسری رکعت میں اس رکن تک پہنچ گیا تھا اور اس سے اگلی رکعت اس کے قائم مقام ہوگی, اوراگر دوسری رکعت میں اس مقام تک نہیں پہنچا جس میں وہ رکن تھا ,تو اس پر واجب ہے کہ واپس لوٹ کر چھوڑا ہوا رکن اور جو اس کے بعد ھے اُسے بالترتیب ادا کرے اور دونوں حالتوں میں سلام پھیرنے کے بعد اس پر سجدہ سہو واجب ہے .
مثال ایک شخص پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ بھول گیا, اور دوسری رکعت میں دو سجدوں کے درمیان بیٹھے ہوئے اسے یاد آیا تو اس صورت میں اسکی پہلی رکعت نہیں ہوگی ,اور اسکی بجائے پہلی رکعت دوسری رکعت کی قائم مقام ہوگی ,وہ اسے پہلی رکعت شمار کرے اور اپنی نماز مکمل کرکے سلام پھیرے پھر سہو کے دو سجدے کرکے سلام پھیرے.
ایک اور مثا ل
ایک شخص پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ اور اس سے قبل جلوس (بیٹھنا ) بھی بھول گیا ,پھر دوسری رکعت میں رکوع کے بعد کھڑے ہو کر اسے یاد آیا تو وہ لوٹ کر بیٹھے ,سجدہ کرے اور پھر اپنی نماز مکمل کرکے سلام پھیرے ,اور پھر سہو کے دو سجدے کرکے دوبارہ سلام پھیرے-
(ب) واجبات میں کمی
جب کوئی نمازی واجبات نماز میں سےجان بوجھ کر کوئی واجب چھوڑدے, تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے, اور اگربھول کر کوئی واجب رہ جائے تو اگراسی مقام پر اسےیاد آجائے تو اسے اداکرلے –اس صورت میں اس پر(سجدہ سہووغیرہ)کچھ نہیں ھے اور اگر اس واجب کے مقام سےآگے گزرکرلیکن اسکے بعد والے رکن سے پہلے یاد آجائے تو واپس ہو کر ادا کرے,پھر اپنی باقی نماز کو پوری کرے اور سلام پھیردے ,پھر سجدہ سہو کرے اور دوبارہ سلام پھیرے.اور اگر اس سے اگلے رکن تک پہنچنے کے بعد یاد آئے تو وہ واجب ساقط ھو جائےگا, نمازی اس کی طرف نہ لوٹے ,بلکہ اپنی نماز جاری رکہے اور آخر میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کرلے.
مثال :ایک شخص دوسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد درمیانی تشہّد بھو ل کر تیسری رکعت کیلئے اٹھنے لگا, پھر اٹھنے سے پہلے ہی اسے یاد آگیا تو وہ بیٹہ جائے اور تشہد پڑھے پھر اپنی نماز مکمل کرے ,
اس پر (سجدہ سہووغیرہ ) کچھ نہیں ہے-
اور اگر أُٹھنے کے بعد اور پوری طرح کھڑے ہونے سے پہلے یاد آیا تو لوٹ کر بیٹہ جائے اورتشہد پڑھے ,پھرنماز پوری کرکے سلام پھیرے ,پھر سجدہ سہو کرے اور سلام پھیرے اور اگر پوری طرح کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا, تو اس سے تشھد ساقط ہوجائے گا 0 تشہد کی طرف نہ لوٹے (اس کے بغیر ہی) اپنی نماز مکمل کرکے سلام پھیرنے سے پہلے سجدۂ سہو کرلے.
دلیل: اسکی دلیل درج ذیل حدیث ہے جسے اما م بخاری وغیرہ نے عبد اللہ بن بحینہ سے روایت کیا ہے (ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی بھم الظہر فقام فی الرکعتین الاولیین ولم یجلس (يعني للتشهد الأول)فقام الناس معه حتي إذا قضي الصلاة وانتظر الناس تسليمه كبر وهو جالس فسجد سجدتين قبل ان يسلم ثم سلّم ) – نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ظہرکی نماز پڑھائی ,پہلی دو رکعتوں کے بعد بغیر (درمیانی تشہد کیلئے) بیٹھے اٹہ کھڑے ہوئے لوگ بھی آپ کے ساتہ کھڑے ہوئے, حتی کہ جب آپ نے نمازمکمل کرلی اور لوگ سلام کےاننظارمیںتہے , آپ نے بیٹھے ہی تکبیر کہی ,سلام سے پہلے دو سجے کئے پھر سلام پھیرا-
شک کی صورت میں سجدۂ سہو کے احکام :
شک کیا ہے ؟ شک کہتے ہیں اس بات میں تردّ د کو کہ د و میں سے کون سا کام ہوا ہے؟ عبادت میں درج ذیل تین حالتوں میں شک نظر انداز کر دی جا تی ہے.
(1) جب صر ف وہم ہو اسکی کوئی حقیقت نہ ہو ,مثلا وسوسہ وغیرہ
(1) جب کوئی شخص اس میں بکثرت مبتلا ہو ,اس حد تک کہ جب بھی کوئی عبادت کرے اس میںشک گزرے.
(2) جب عبادت سے فارغ ہونے کے بعد شک ہو اور جب تک یقین نہ ہواسے بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے , اگریقین ہو جائے تو اس کے مطابق عمل کیا جائے.
مثال : ایک شخص نے ظہر کی نماز ادا کی ,نماز سے فارغ ہونے کے بعد اسے شک ہوا کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار , اس شک کو نظر انداز کردیا جائے گا ,ہاں اگراسے یقین ہو جائے کہ صرف تین رکعتیں ہی پڑھی ہیں اور نماز کو ابھی تہوڑا وقت گزرا ہو تو وہ اپنی نماز پوری کرے پھرسلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرکے دوبارہ سلام پھیرے ,اور اگر کافی وقت بعد اسے یاد آئے تو نئے سرے سےنمازدہرائے.
ان تینوں حالتوں کے علاوہ اگر شک گزرے, تو وہ نظر انداز نہین ہو گی ,بلکہ اس کا اعتبار ہوگا ,اور نمازمیں جس شک کا اعتبار ہے وہ درج ذیل دو حا لتوں سے باہر نہیں ہوگی .
پہلی حا لت:
دو میںسے ایک امر کی طرف رجحان زیادہ ہے جس کی طرف رجحان زیادہ ہو اس پر عمل کرے , اسی کے مطابق اپنی نماز مکمل کرے اورسلام پھیرے ,پھر سجدہ سہو کرے اور سلام پھیرے.
اسکی مثال :ایک شخص ظہر کی نماز پڑھتا ہے,کسی رکعت میں اسے شک ہوتا ہے کہ وہ دوسری ھے یا تیسری ,لیکن اس کا رجحان اس طرف ہے کہ وہ تیسری رکعت ہے ,وہ اسے تیسری قرار دےکر اس کےبعد ایک رکعت اور ادا کرے اور سلام پھیر دے ,پھر سجدہ سہو کرے اور سلام پھیر دے .
دلیل:صحیحین وغیرہما میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ( ان النبي صلي الله عليه وسلم قال :إذا شك أحدكم في صلاته فليتحر الصواب فليتم عليه ثم ليسلم ثم يسجد سجدتين )-نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک گزرے تو اسے چاہئے کہ(غورکرے) صحیح بات تلاش کرے اور اس پر اعتماد کرکے اپنی نماز مکمل کرے ,پھر سلام پھیرے اور دو سجدے کرے .( یہ بخاری کے الفاظ ہیں)-
دوسری حالت :
معتبر شک کی دوسری حالت یہ ہے کہ نمازی کا رجحان دو میں سے کسی ایک امر کی طرف زیادہ نہ ہو , اس صورت میں وہ یقین پر عمل کرے ,یعنی کم ازکم (رکعتیں ) شمارکرکے اس کےمطابق اپنی نماز مکمل کرے, اور سلام سے پہلے سجدۂ سہو کرے اور پھر سلام پھیردے .
مثال: ایک شخص نماز عصرادا کررہا ہے ,کسی رکعت میں اسے شک گزرا کہ وہ دوسری ہے یا تیسری , اور اس کا رجحان تیسری یا دوسری میں سے کسی ایک کی طرف زیادہ نہیں ,وہ اسے دوسری(یعنی کم ازکم) شمار کرے ,پہلا تشہد پڑھے اسکےبعد دو رکعتیں پڑھےاور سجدۂ سہو کرکے سلام پھیردے.
دلیل: امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (إذا شک احدکم فی صلاتہ فلم یدر کم صلی ثلاثا أم أربعا فلیطرح الشک ولیبن علی ما استیقن ثم یسجد سجدتین قبل ان یسلم فان کان صلی خمسا شفعن لہ صلاتہ وإن کا ن صلی اتماما لأربع کانتا ترغیما للشیطان )-نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک گزرے اور اسے پتہ نہ چلے کہ تین رکعتیں پڑھی ھیں یا چار ,اُسے چاہئے کہ شک کو نظر انداز کرکے جس کا یقین ہواس کو بنیاد بنائے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرے ,تو اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھی تھیں تو ان سجدوں سے اس کی رکعتیں جوڑا ہو جائیں گی ,اور اگر اس نے چار رکعت پوری کرلی تھیں تو یہ سجدے شیطان کیلئے ذلت کا باعث ہوں گے.
شک کی بعض مثالیں:
جب کوئی شخص اس حالت میں پہنچے کہ امام رکوع میں ہو تو اعتدال کے ساتہ کھڑا ہو کر تکبیرتحریمہ کہے,پھر رکوع میں چلا جائے اور اس صورت میں اسکی درح ذیل تین میں سے ایک حالت ہوگی-
(1) اسے یقین ہو جائے کہ وہ رکوع کی حالت میں امام کے سر اُٹھانے سے پہلے اس کے ساتہ مل گیا تھا, تو مقتدی اس صورت میں اس رکعت کو پانے والا شمار ہوگا, یعنی اس کی یہ رکعت شمار ہو جائے گی ,اور قراءۃ فاتحہ اس سے ساقط ہو جائے گی .(1)
___________________________________________________________
(1) (یہ ان لوگوں کی رائے کے مطابق ہے جن کے نزدیک مدرک رکوع کی رکعت ہو جاتی ہے لیکن اکثر أئمہ جو نماز میں قراءت فاتحہ کو وا جب کہتے ہیں ,اسی طرف گئے ہیں کہ مدرک رکوع کی رکعت نہیں ہو تی مترجم ).
(2) اسے یقین ہو جائے کہ اس کے رکوع میں جانے سے پہلے امام نے رکوع سے سراٹھا لیا تھا تو اسکی یہ رکعت فوت ہوجائے گی.
(3) .اسے شک ہوجائے کہ اس نے امام کو رکوع میں پالیا تھا ,اور وہ اس رکعت کو شمارکرلے , یاامام اس کے ملنے سے پہلے ہی رکوع سے اٹہ کھڑا ہوا تھا ,اور اسکی رکعت فوت ہو گئ ہے ,اگر ان دونوں میں سےایک امر کی طرف اسکا رجحان زیادہ ہو تو اس پرعمل کرے اسی کے مطابق اپنی نماز مکمل کرے, اور پھر سلام پھیرے ,پھر سجدۂ سہو کرے اور سلام پھیرے ,ہاں اگر نماز میں سے کچہ فوت نہ ہوا ہو تو پھراس پر سجدہ سہو نہیں ھے ,اور اگر اسکا رجحان کسی ایک امر کی طرف زیادہ نہ ہو تو اس پر عمل کرےجسکا یقین ہے (یعنی اسکی رکعت فوت ہو گئی ) اس کے مطابق اپنی نماز پوری کرے اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے .
فائدہ: اگر نماز میں شک ہوا ,پھر مذکورہ تفصیل کے مطابق یقین یا راجح خیال پر عمل کیا (اور باقی نمازشروع کردی), اوردوران نماز اس پر واضح ہوگیا کہ جو کچہ اس نے کیا ھے وہی واقع کے مطابق اور صحیح تھا,اور اس کی نماز میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ,تو مشہور مذہب کے مطابق اس سے سجدۂ سہو ساقط ہو جائے گا ,کیونکہ سجدۂ سہو کا موجب شک تھا اور وہ زائل ہو گیا .
اور ایک قول کے مطابق سجدۂ سہو ساقط نہیں ہوگا تاکہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق شیطان کو ذلیل کرے. آپ نے فرمایا "اگر اس نے پوری نماز پڑھی ہے تو سجدےشیطان کیلئے ذلت ہوں گے ,نیزاسوجہ سے بھی سجدہ سہو کرے کہ اس نے اپنی نماز کا ایک حصہ بحالت شک میں ادا کیا ہے,اور راجح یہی کہ سجدہ سہو کرلے.
مثال: ایک شخص نماز پڑھتا ہے کسی رکعت میں اسے شک ہوا کہ وہ دوسری ہے یا تیسری, اور رجحان کسی ایک کی طرف زیادہ نہیں ,اس نے اسے دوسری رکعت شمار کیا اور اس کے مطابق نماز مکمل کرلی ,پھر اس پر واضح ہو اکہ وہ فی الواقع دوسری رکعت تھی, تو مشہور مذہب کےمطابق اس پر سجدہ سہو نہیں ہے ,
مذکورہ بالا دوسرے قول کے مطابق جسے ہم نے راجح کہا ہے, سلام سے پہلے اس پرسجدہ سہو ہے
.مقتدی پر سجدہ سہو کے احکام :
نبي كريم صلي الله عليه وسلم نےفرمایا ( إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فلا تختلفوا علیہ إلی ان قال وإذا سجد فاسجدوا) متفق علیہ- امام اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے پس اس سے اختلاف نہ کرو .......فرمایا جب سجدہ کرےتو سجدہ کرو )-بروایت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ.
اس فرما ن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جب امام بھول جائےتو مقتدی پر سجدہ سہو میں اسکی پیروی واجب ہے,خواہ امام سے پہلے سجدہ سہو کرے یا امام کے بعد ,مقتدی پر اسکی متابعت واجب ہے .ہاں اگر مقتدی درمیان میں آکرامام کے ساتہ ملا ہو ,یعنی اسکی کچہ نماز فوت ہو گئی ,تو امام سلام کے بعد سجدہ سہو کرے.
اس صورت میں اس کیلئے امام کی اتباع نا ممکن ہے .لہذا وہ اسکی متابعت میں سجدہ نہیں کرے گا, کیونکہ جس کی کچہ نماز ابھی باقی ہےاس کیلئے نا ممکن ہے کہ امام کے ساتہ سلام پھیردے ,اسلئیے وہ اپنی نماز پوری کرکے سلام پھیرے, اور پھر سجدہ سہو کرے ,اور دوبارہ سلام پھیرے .
مثال: ایک آدمی آخری رکعت میں امام کے ساتہ نماز میں داخل ہوا ,اور امام پر سلام کے بعد سجدہ سہو ہے توجب امام سلام پھیرے ,آخری رکعت میں ملنے والا آدمی اپنی فوت شدہ نماز ادا کرنے کلیئے اٹھے اورامام کے ساتہ سجدہ نہ کرے ,جب نمازپوری کرلے تو سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرے.
اور اگر امام نہ بھولے ,اکیلا مقتدی بھول جائے اور اسکی فوت شدہ نماز نہ ہو ,تو اس پر سجدہ سہو نہیں ہے , کیونکہ اس صورت میں سجدہ کرنے سے وہ امام سے مختلف ہو جائے گا اوراسکی اقتداء میں خلل واقع ہوگا. نیز جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر پہلا تشھد چھوڑدیا, تو صحابہ کرام بھی آپ کے ساتہ کھڑے ہوگئے ,آپ کی اقتداء اور عدم اختلاف کیلئے نہیں بیٹھے . اگر مقتدی کی کچھ نماز فوت ہو گئی ہے ,اور وہ امام کے ساتہ یابعد میں اپنی نماز پوری کرتے ہوئے بھول جائے,تو سجدہ سہو ساقط نہیں ہوتا ,سو وہ اپنی نمازمکمل کرے,مذکورہ بالا تفصیلات کے مطابق سلام کےبعد یا اس سے پہلے سجدہ سہو کرے.
مثال: مقتدی رکوع میں "سبحان ربی العظیم "کہنا بھول گیا ,اور اسکی فوت شدہ نماز باقی نہیں ہے تو اس پر سجدہ سہو نہیں ہے.اور اگراسکی ایک یا ایک سے زیادہ رکعتیں فوت ہو گئی تھیں, تو انھیں پوری کرے پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے.
ایک اور مثال :مقتدی اپنے امام کے ساتہ ظہر کی نماز ادا کررہا یے ,جب امام چوتھی رکعت کیلئے اٹھا تو مقتدی اسے آخری رکعت خیال کرکے بیٹہ گیا ,جب اسے علم ہوا کہ امام کھڑاہے تو کھڑا ہو گیا ,اگر اسکی پہلے سے فوت شدہ نماز باقی نہیں ہے .تو اس پر سجدہ سہو نہیں ھے ,اور اگر اسکی ایک, یا ایک سے زیادہ رکعتیں باقی ہوں,تو انہیں پوری کرکے سلام پھیرے اور سجدہ سہو کرے اور دوبارہ سلام پھیرے.
خلاصہ: مذکورہ بالا بحث سے یہ واضح ہوگیا کہ :سجدہ سہو کبھی سلام سے پہلے اور کبھی سلام کے بعد ہوتا ہے.
درج ذیل دو حالتوں میں سلام سے پہلے ہوگا
(1) جب نماز میں کوئی کمی واقع ہونے کیوجہ سے ہو, جیسا کہ عبد اللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پہلا تشہد چھوڑدیا تو سلام سے پہلے سجدہ سہو کیا
(2) جب کسی ایسے شک کیوجہ سے سجدہ سہو ہو جس میں کسی ایک امر کی طرف رجحان زیادہ نہ ہو ,جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جسکو اپنی نما ز میں شک گزرااور اسے پتہ نہ چلا کہ اس نے تین رکعتیں اداکی ہیں یا چار ,تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم فرمایا کہ وہ سلام سے پہلے دو سجدےکرے
اور درج ذیل دو حا لتوں میں سجدہ سہو سلام کےبعد ھوگا :
(1) جب سجدہ سہو کا مو جب نماز میں کوئی زیادتی اوراضافہ ہو ,جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے .
(2) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھیں اور لوگوں نے سلام کے بعد آپ کویاد دلایا ,تو آپ نے دو سجدے کئے پھرسلام پھیرا اورآپ نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ آپ نے سجدے سلام کے بعد اس لئے کئے ہیں کہ آپ کو اس زیادتی کا علم ہی سلام کے بعد ہوا ,.یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ حکم عام ہے . اور یہ کی زیادتی کیوجہ سے جو سجدے ہوں گے وہ سلام کے بعد ہوں گے ,خواہ امام کو سلام سے پہلے اس کا پتہ چلے یا سلام کے بعد .
زیادتی کی ایک اور صورت : جب نماز مکمل ہونے سے پہلے سلام پھیردیا .پھر یاد آیا اور نمازمکمل کی تو اسنے دوران نماز ایک سلام کا اضافہ کردیا. اس صورت میں بھی درج ذیل حدیث ابو ہریرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے سلام کے بعد سجدہ سہو کرے .نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نماز ظہر یا عصرکی دو رکعتوں پر سلام پھیردیا ,اور لوگوں نے آپ کو یاد دلایا ,تو آپ نے نماز مکمل کی اور سلام پھیرا ,پھر سجدہ سہو کرکے دوبارہ سلام پھیرا .
جب سجدہ سہو کا باعث ایسا شک ہو ,جس میں کوئی ایک جانب راجح نہ ہو (تو بھی سلام کے بعد سجدہ کرے)
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ھے ,کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو حکم فرمایا" جسے اپنی نماز مین شک ہو وہ درست بات کی تلاش کرے ,اسی کے مطابق نماز مکمل کرے ,پھر سلام پھیرے اور سجدہ سہو کرے "
اگرنمازی پر دو دفعہ سجدۂ سہو ہو ,ایک سہو سلام سے پہلے سجدوں کا تقاضہ کرے اور دوسرے سہو کے سجدوں کا مقام سلام کے بعد ہو, تو ایسی صورت میں علماء کہتے ہیں کہ سلام سے پہلے سجدوں والے سہو کو ترجیح دےاور سجدے کرکے سلام پھیرے .
مثال: ایک شخص ظہر کی نماز ادا کررہا ہے, پہلا تشہد بیٹھے بغیر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا ,اور پھر تیسری رکعت کو دوسری خیال کرکےاس میں تشہد کیلئے بیٹہ گیا ,پھر اس کو یاد آیا کہ یہ تیسری رکعت ہے ,تو وہ کھڑا ہو کر چوتھی رکعت پڑھے اور سہو کے دو سجدے کرے پھر سلام پھیرے. اس شخص پر پہلا تشہد چھوڑنے کیوجہ سے سلام سے پہلے سجدۂ سہو ہے ,اور تیسری رکعت میں جلوس کا اضافہ کرنے کیوجہ سے سلام کے بعد سجدۂ سہو ہے .سو وہ سلام سے پہلے سجدہ کرنے کو ترجیح دے . واللہ اعلم
اور میں اللہ رب العزت سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اورہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو اپنی کتاب اوراپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو سمجھنے اور ظاہر وباطن ,عقیدہ وعمل اور معاملات میں اُن پرعمل پیراہونے کی توفیق بخشے .اور ہم سب کا انجام بخیر فرما ئے .آمین.
إنہ جواد کریم , والحمد للہ رب العالمین ,
وصلی اللہ تعالی علی نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ أجمعین , آمین.