• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سجدے میں جانے اور اٹھنے کا طریقہ

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
عن وائل بن حجر قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد وضع ركبتيه قبل يديه وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه أخرجه أبو داود والنسائي والترمذي

حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ سجدہ کرتے اپنے گھٹنے اپنے ھاتھوں سے پہلے ( زمین ) پر رکھتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو اپنے ھاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے ۔
 
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
37
پوائنٹ
60
السلام علیکم
جب کہ عموماً تو دیکھا یہ گیا ہے کہ سجدے میں جاتے ہوئے ہاتھ پہلے رکھے جاتے ہیں اور اٹھتے ہوئے گھٹنے پہلے اٹھائے جاتے ہیں۔
کیا اس عمل کا بھی کوئی ثبوت ہے یا بس ایویں ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
عن وائل بن حجر قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد وضع ركبتيه قبل يديه وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه أخرجه أبو داود والنسائي والترمذي

حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ سجدہ کرتے اپنے گھٹنے اپنے ھاتھوں سے پہلے ( زمین ) پر رکھتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو اپنے ھاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے ۔
اس حدیث مبارکہ کی صحت میں اختلاف ہے، امام دار قطنی، بیہقی اور البانی﷭ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (احناف، شوافع، روایۃ احمد، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن القیم، ابن باز، العثیمین﷭ کی رائے یہی ہے کہ سجدہ کیلئے پہلے گھنٹے رکھے جائیں۔)
جبکہ امام مالک، اوزاعی اور عام محدثین﷭ کی رائے یہ ہے کہ پہلے ہاتھ رکھے جائیں، جس کی دلیل یہ روایت ہے: « إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير وليضع يديه قبل ركبتيه » کہ اونٹ کی طرح بیٹھنے کی بجائے گھٹنوں سے پہلے ہاتھ زمین پر رکھنے چاہئیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ الفتاوى (22/449) میں فرماتے ہیں:
أما الصلاة بكليهما فجائزة باتفاق العلماء . إن شاء المصلي يضع ركبتيه قبل يديه ، وإن شاء وضع يديه ثم ركبتيه وصلاته صحيحة في الحالتين باتفاق العلماء ولكن تنازعوا في الأفضل . انتهى.
دونوں طرح نماز جائز ہے، چاہے تو پہلے گھٹنے رکھے اور چاہے تو پہلے ہاتھ رکھے، نماز دونوں حالتوں میں صحیح ہے، اس پر علماء کا اتفاق ہے، اختلاف صرف افضلیت میں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب!
دیکھئے موقع الإسلام سؤال وجواب
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
جب نبی کریم ﷺ سے صریح الفاظ منقول ہیں کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں اور اس کے مقابلے میں بیان کی جانے والی حدیث ضعیف ہے۔ تو دونوں طریقوں کو جواز بخشنے کی کیا حیثیت ہے۔ اور کس طرح اس کو صرف افضلیت کا اختلاف قرار دیا جا سکتا ہے۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
جب نبی کریم ﷺ سے صریح الفاظ منقول ہیں کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں اور اس کے مقابلے میں بیان کی جانے والی حدیث ضعیف ہے۔ تو دونوں طریقوں کو جواز بخشنے کی کیا حیثیت ہے۔ اور کس طرح اس کو صرف افضلیت کا اختلاف قرار دیا جا سکتا ہے۔
محترم جناب عمران اسلم صاحب
کیا آپ وہ صحیح حدیث پیش کرسکتے ھیں جس میں صریح الفاظ منقول ہیں کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں
اور آپ کس طرح کہ سکتے ھیں کے میں نے جو حدیث اوپر پیش کی وہ ضعیف ھے ؟
میری اوپر بیان کردہ حدیث کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں
امام ترمذی نے اس کو حدیث حسن کہا ہے۔
حاکم نے صحیح علی شرط مسلم کہا ہے۔
ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جب نبی کریم ﷺ سے صریح الفاظ منقول ہیں کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں۔
ان صریح الفاظ کی صحت میں بھی بعض علماء نے اختلاف ہے، اگرچہ امام البانی﷫ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کیلئے یہ دیکھئے!
اور اس کے مقابلے میں بیان کی جانے والی حدیث ضعیف ہے۔
میں نے یہ عرض کیا تھا کہ اس حدیث کی صحت میں اختلاف ہے، علامہ البانی﷫ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن امام ابو داؤد، ابن حجر، ابن الملقن﷭ وغیرہ نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے، اب کوئی علوم الحدیث سے شغف رکھنے والا ہی اس بارے میں صحیح راہنمائی کر سکتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم!
جب نبی کریم ﷺ سے صریح الفاظ منقول ہیں کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں اور اس کے مقابلے میں بیان کی جانے والی حدیث ضعیف ہے۔ تو دونوں طریقوں کو جواز بخشنے کی کیا حیثیت ہے۔ اور کس طرح اس کو صرف افضلیت کا اختلاف قرار دیا جا سکتا ہے۔
بھائی! تھوڑا سا صبر اور حوصلہ! یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں کہا تھا کہ دونوں طریقے صحیح ہیں، بلکہ میں نے اس کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ کا قول نقل کیا تھا جس کے آخر میں واللہ اعلم بالصواب بھی لکھا تھا۔ اور شیخ الاسلام﷫ نے بھی یہ بات صرف اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ اس پر تمام علماء کا اتفاق بتلایا ہے۔
کہیے! کیا اب بھی آپ یہی کہیں گے کہ دونوں طریقوں کو جواز بخشنے کی کیا حیثیت ہے؟؟؟
 

ابوعمر

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
66
ری ایکشن اسکور
358
پوائنٹ
71
بھائی! تھوڑا سا صبر اور حوصلہ!
انس بھائی ! آپ نے بہت اچھی بات کی۔ جزاک اللہ
شاید آج سب سے زیادہ ہمیں اسی صبر اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ واللہ اعلم

فی امان اللہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اس مسئلہ پر یہ کتاب ڈونلوڈ کریں. DOWNLOAD

اس کے صفحہ نمبر 17 پر اسکی تفصیل ہے.
جزاکم اللہ خیرا بھائی!
الحمد للہ! حافظ زبیر علی زئی﷾ کی رائے بھی یہی ہے کہ
’’دلائل کی رو سے ’راجح‘ اور ’بہتر‘ یہی ہے کہ پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے لگائے جائیں!‘‘
گویا حافظ صاحب کے نزدیک بھی یہ مسئلہ جواز وعدمِ جواز کا نہیں بلکہ افضیلت اور بہتری کا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
ویسے میرا عمل بھی گھنٹوں سے پہلے ہاتھوں کو رکھنے کا ہی ہے۔
 
Top