کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
السلام علیکم
دھاگہ میں کالم نگار کی میناکاری کالم کا اصل ماخذ نیچے لگا رہا ہوں اور یہ خبر 8 اکتوبر کو بی بی سی اردو میں شائع ہوئی تھی۔
پہلے یہ بھی اطلاعات سامنے آئیں کہ سعودی ملبغ نے خود ہی اپنی بیٹی سے جنسی زیادتی کی تھی تاہم بعد میں والدہ نے اس کی تردید کی۔
سعودی عرب میں ایک مبلغ کو اپنی پانچ سالہ بیٹی کو ہلاک کرنے کے جرم میں آٹھ سال قید اور چھ سو کوڑوں کی سزا سنائی گئی ہے۔
فیان الغامدی پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی بیٹی لاما کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
لاما اس تشدد کے بعد ہسپتال میں دس ماہ تک زیر علاج رہی اور اس کے بعد اس کا انتقال ہو گیا تھا۔
لاما کی طبی رپورٹس کے مطابق پانچ سالہ لاما کی پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں، ناخن نکال لیے گئے تھے اور ان کی کھوپڑی بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اسے چھڑی اور تاروں سے مارا گیا اور وہ جھلسی ہوئی بھی تھی۔
لاما پر تشدد کے یہ واقعات اس وقت پیش آئے جب فیان الغامدی کی اپنی بیوی سے علیحدگی ہو گئی تھی اور ان کی اہلیہ اپنے والد کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔
اطلاعات کے مطابق فیان الغامدی نے اس شک پر اپنی بیٹی پر تشدد کیا کہ وہ اپنا کنوارپن کھو چکی ہیں۔ یہ بھی اطلاعات سامنے آئیں کہ فیان نے خود ہی اپنی بیٹی سے جنسی زیادتی کی تاہم بعد میں لاما کی والدہ نے اس کی تردید کی۔
یہ معاملہ رواں سال کے شروع میں عالمی میڈیا میں ان اطلاعات کے بعد سامنے آیا کہ سعودی عدالت فیان کو اقبالِ جرم کے باوجود اس معاملے میں بری کر سکتی ہے۔
اس کیس کی سماعت کرنے والے ایک جج نے کہا تھا کہ اسلامی قانون کے تحت والد کو اپنی اولاد کی موت پر پوری طرح سے قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اس پر حقوق انسانی کے کارکنوں نے غامدی کی بیٹی کے لاما نام سے' آئی ایم لاما' نامی مہم چلائی اور غامدی کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اس مہم کے جواب میں سعودی حکام نے بچوں پر تشدد کے بارے میں اطلاع دینے کے لیے ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی۔
اب اسی جج نے فیان ال غامدی کو آٹھ سال قید اور چھ سو کوڑوں کی سزا سنائی ہے۔
غامدی کو سزا دینے کے حق میں مہم چلانے والی ایک کارکن عزیز ال یوسف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ فیان کو عمر قید کیوں نہیں دی گئی۔
خیال رہے کہ لاما کی والدہ نے ایک بار انکار کرنے کے بعد قصاص اور دیت کی رقوم قبول کر لی تھیں کیونکہ انہیں اپنے بچوں کی پرورش کے لیے اس کی ضرورت تھی اور بظاہر اس وجہ سے فیان الغامدی کو عمر قید نہیں ہو سکی۔
زیادہ سزا کے حق میں مہم چلانی والی ایک کارکن منال الشریف نے بھی اس سزا کو ناکافی قرار دیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ لاما کی مہم اور بین الاقوامی دباؤ سے سعودی حکام نے غیر متوقع طور پر گھریلو تشدد کا ایک نیا قانون متعارف کرایا ہے تاہم انہیں اب بھی شدید تحفظات ہیں کہ آیا اس قانون کو موثر طریقے سے نافذ کیا جاتا ہے کہ نہیں۔
بی بی سی اردو: منگل 8 اکتوبر 2013
جاری ھے
دھاگہ میں کالم نگار کی میناکاری کالم کا اصل ماخذ نیچے لگا رہا ہوں اور یہ خبر 8 اکتوبر کو بی بی سی اردو میں شائع ہوئی تھی۔
سعودی مبلغ کو پانچ سالہ بیٹی کے قتل پر سزا
پہلے یہ بھی اطلاعات سامنے آئیں کہ سعودی ملبغ نے خود ہی اپنی بیٹی سے جنسی زیادتی کی تھی تاہم بعد میں والدہ نے اس کی تردید کی۔
سعودی عرب میں ایک مبلغ کو اپنی پانچ سالہ بیٹی کو ہلاک کرنے کے جرم میں آٹھ سال قید اور چھ سو کوڑوں کی سزا سنائی گئی ہے۔
فیان الغامدی پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی بیٹی لاما کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
لاما اس تشدد کے بعد ہسپتال میں دس ماہ تک زیر علاج رہی اور اس کے بعد اس کا انتقال ہو گیا تھا۔
لاما کی طبی رپورٹس کے مطابق پانچ سالہ لاما کی پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں، ناخن نکال لیے گئے تھے اور ان کی کھوپڑی بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اسے چھڑی اور تاروں سے مارا گیا اور وہ جھلسی ہوئی بھی تھی۔
لاما پر تشدد کے یہ واقعات اس وقت پیش آئے جب فیان الغامدی کی اپنی بیوی سے علیحدگی ہو گئی تھی اور ان کی اہلیہ اپنے والد کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔
اطلاعات کے مطابق فیان الغامدی نے اس شک پر اپنی بیٹی پر تشدد کیا کہ وہ اپنا کنوارپن کھو چکی ہیں۔ یہ بھی اطلاعات سامنے آئیں کہ فیان نے خود ہی اپنی بیٹی سے جنسی زیادتی کی تاہم بعد میں لاما کی والدہ نے اس کی تردید کی۔
یہ معاملہ رواں سال کے شروع میں عالمی میڈیا میں ان اطلاعات کے بعد سامنے آیا کہ سعودی عدالت فیان کو اقبالِ جرم کے باوجود اس معاملے میں بری کر سکتی ہے۔
اس کیس کی سماعت کرنے والے ایک جج نے کہا تھا کہ اسلامی قانون کے تحت والد کو اپنی اولاد کی موت پر پوری طرح سے قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اس پر حقوق انسانی کے کارکنوں نے غامدی کی بیٹی کے لاما نام سے' آئی ایم لاما' نامی مہم چلائی اور غامدی کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اس مہم کے جواب میں سعودی حکام نے بچوں پر تشدد کے بارے میں اطلاع دینے کے لیے ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی۔
اب اسی جج نے فیان ال غامدی کو آٹھ سال قید اور چھ سو کوڑوں کی سزا سنائی ہے۔
غامدی کو سزا دینے کے حق میں مہم چلانے والی ایک کارکن عزیز ال یوسف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ فیان کو عمر قید کیوں نہیں دی گئی۔
خیال رہے کہ لاما کی والدہ نے ایک بار انکار کرنے کے بعد قصاص اور دیت کی رقوم قبول کر لی تھیں کیونکہ انہیں اپنے بچوں کی پرورش کے لیے اس کی ضرورت تھی اور بظاہر اس وجہ سے فیان الغامدی کو عمر قید نہیں ہو سکی۔
زیادہ سزا کے حق میں مہم چلانی والی ایک کارکن منال الشریف نے بھی اس سزا کو ناکافی قرار دیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ لاما کی مہم اور بین الاقوامی دباؤ سے سعودی حکام نے غیر متوقع طور پر گھریلو تشدد کا ایک نیا قانون متعارف کرایا ہے تاہم انہیں اب بھی شدید تحفظات ہیں کہ آیا اس قانون کو موثر طریقے سے نافذ کیا جاتا ہے کہ نہیں۔
بی بی سی اردو: منگل 8 اکتوبر 2013
جاری ھے