• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سفر سے لوٹنے کےآداب و احکام

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
سفر سے لوٹنے کےآداب و احکام

تحریر:مقبول احمد سلفی /جدہ


جب ہم کسی بھی لمبے سفر سے واپس آتے ہیں تواہل و عیال سے ملنے کی خوشی تو یاد رہتی ہے مگر اس سلسلے میں کئی سنت نبوی بھلائے رہتے ہیں ۔ ہاں جب حج یا عمرہ سے لوٹتے ہیں توچند ایک سنت یاد رہتی ہے مگر اس میں بھی افراط و تفریط کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ آئیے صحیح احادیث کی روشنی میں اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت میں سفر سے واپسی کے آداب بیان کرتا ہوں تاکہ ان سنتوں کو زندہ کریں اور افراط وتفریط سے پرہیز کریں ۔
بنیادی طور پر یہ ذہن میں رہے کہ سفر میں صعوبتوں اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اس لئے راستہ پرامن ہو تبھی آپ سفر کریں اور سفر کے وقت شر سے اللہ کی پناہ اور آسانی کے لئے رب العالمین سے دعا کریں ۔ سیدنا عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا سَافَرَ يَتَعَوَّذُ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ، وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْنِ، وَدَعْوَةِ الْمَظْلُومِ، وَسُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الْأَهْلِ وَالْمَالِ،(صحیح مسلم:1343)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو اللہ تعالٰی سے پناہ مانگتے سفر کی مشقتوں سے اور غمگین ہو کر لوٹنے سے اور بھلائی کے بعد برائی کی طرف لوٹنے سے اور اہل و عیال میں برائی کے دیکھنے سے۔
سفر کی وجہ سے ایک طرف مسافر کو پریشانی لاحق ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کے اہل وعیال اور اس کے مال کے لئے دقت کا سامنا ہوسکتا ہے اس لئے ابتدائے سفر میں ہی رسول اللہ ﷺ اللہ سے ان سب چیزوں میں عافیت کے لئے دعا کرتےتھے۔
٭اس بنیادی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سفر سے لوٹنے میں سب سے پہلا ادب یہ ہے کہ جس مقصد کے لئے سفر تھا اس مقصد کی تکمیل کے فورا بعد اہل وعیال کے پاس لوٹ آیا جائے ، اس میں تاخیر نہ کی جائے ۔ ہمارے پیارے رسول محمد ﷺ کی یہی سنت رہی ہےچنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
السفر قطعة من العذاب يمنع احدكم نومه، وطعامه، وشرابه، فإذا قضى احدكم نهمته، فليعجل إلى اهله.(صحیح البخاری:3001)
ترجمہ:سفر کیا ہے گویا عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، آدمی کی نیند، کھانے پینے سب میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ اس لیے جب مسافر اپنا کام پورا کر لے تو اسے جلدی گھر واپس آ جانا چاہئے۔
٭سفر سے لوٹنے کا دوسرا ادب یہ ہے کہ لوٹتے وقت اسی طرح دعا پڑھیں جیسے آپ نے سفر کی ابنداء میں دعا کی تھی، کچھ کلمات کے اضافہ کے ساتھ ، چنانچہ آپ سفر سے لوٹنے کی دعا اس طرح پڑھیں ۔
اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ،
سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ * وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ،
اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا البِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَليفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ،
آيِبُونَ، تائِبُونَ، عَابِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔(صحیح مسلم:1342)
ترجمہ: ‏‏اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے۔
پاک ہے پروردگار جس نے ہمارا دبیل کر دیا اس جانور کو اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں، یااللہ! ہم مانگتے ہیں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری اور ایسے کام جسے تو پسند کرے، یااللہ! آسان کر دے ہم پر اس سفر کو اور اس لمبان کو ہم پر تھوڑا کر دے، یا اللہ! تو رفیق ہے سفر میں اور تو خلیفہ ہے گھر میں، یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے سفر کی تکلیفوں اور رنج و غم سے اور برے حال میں لوٹ کر آنے سے مال میں اور گھر والوں میں۔
ہم لوٹنے والے ہیں اور توبہ کرنے والے، خاص اپنے رب کو پوجنے والے او اسی کی تعریف کرنے والے۔
٭ سفر سے لوٹنے کا تیسرا ادب یہ ہے کہ رات کو بغیر اطلاع دئے اہل و عیال کے پاس نہ جائیں ۔ ‏‏‏‏سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قَدِمَ أَحَدُكُمْ لَيْلًا، فَلَا يَأْتِيَنَّ أَهْلَهُ طُرُوقًا حَتَّى تَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ وَتَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ.(صحیح مسلم:715)
ترجمہ:جب تم میں سے کوئی رات کو آئے تو اپنے گھر میں گھسا نہ چلا آئے (بلکہ ٹھہرے) یہاں تک کہ پاکی کرے وہ عورت جس کا خاوند سفر میں تھا اور کنگھی کرے وہ عورت جس کے بال پریشان ہوں۔
آج سوشل میڈیا کے زمانہ میں ایک ایک لمحہ کی خبر مسافر اور گھروالوں کے درمیان ہوتی ہے اس اعتبار سے کسی وقت گھر پہنچنے میں حرج نہیں ہے ۔
٭ سفر سے لوٹنے پہ نبی ﷺ کی ایک سنت یہ بھی رہی ہے کہ آپ جب بستی میں واپس لوٹتے تو پہلے اہل وعیال کے پاس نہیں جاتے بلکہ مسجد جاتے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کرتے چنانچہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ(ابوداؤد:2773، صححہ البانی)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھتے ۔
٭ سفر سے لوٹنے پر گھر اور پڑوس کے بچوں کو پہلے سے شدت کا انتظار ہوتا ہے اس لئے مسافر گھر کو لوٹے تو استقبال کرنے والے بچوں سے پیار و محبت جتلائے ، ان بچوں میں اپنے اور پڑوس کے بھی ہوسکتے ہیں ، سب سے یکساں محبت کرےتاکہ کسی کو احساس کمتری نہ ہو ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا :
لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ اسْتَقْبَلَهُ أُغَيْلِمَةُ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَحَمَلَ وَاحِدًا بَيْنَ يَدَيْهِ وَالْآخَرَ خَلْفَهُ(صحیح البخاری:5965)
ترجمہ: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ تشریف لائے (فتح کے موقع پر) تو عبدالمطلب کی اولاد نے (جو مکہ میں تھی) آپ کا استقبال کیا۔ (یہ سب بچے ہی تھے) آپ نے از راہ محبت ایک بچے کو اپنے سامنے اور ایک کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔
٭ نبی ﷺ کے پیارے ساتھیوں کا طریقہ تھا کہ جب وہ ایک دوسرے سے ملاقات فرماتے تو سلام و مصافحہ کرتے اور جب سفر سے لوٹ کر ملتے تو معانقہ کرتے ۔ گویا لمبے سفر سے لوٹنے کی ایک سنت یہ ہے کہ ملنے والوں سے معانقہ کیا جائے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كان أَصْحابُ النبيِّ إذا تَلاقَوْا تَصافَحُوا ، وإذا قَدِمُوا من سفرٍ تَعَانَقُوا.(صحيح الترغيب:2719)
ترجمہ: نبی ﷺ کے اصحاب جب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو مصافحہ کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو معانقہ کرتے ۔
٭ آپ ﷺ جب غزوہ تبوک یا ذات الرقاع سےواپس ہوئے تو آپ نے ایک جانور ذبح کرکے صحابہ کرام کو کھلایا تھا ۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قدم المدينة نحر جزورا او بقرة(صحيح البخاري:3089)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے (غزوہ تبوک یا ذات الرقاع سے) تو اونٹ یا گائے ذبح کی۔
اس حدیث کی روشنی میں اہل علم کہتے ہیں کہ سفر سے لوٹنے کی ایک سنت یہ ہے کہ لوگوں کی دعوت کی جائے چنانچہ اس حدیث پہ امام بخاریؒ نے اس طرح باب باندھا ہے"بَابُ الطَّعَامِ عِنْدَ الْقُدُومِ"یعنی مسافر جب سفر سے لوٹ کر آئے تو لوگوں کو کھانا کھلائے(دعوت کرے)۔
اور اسی حدیث پہ امام ابوداؤدؒ (3747) نے اس طرح باب باندھا ہے "باب الإِطْعَامِ عِنْدَ الْقُدُومِ مِنَ السَّفَرِ"یعنی سفر سے آنے پر کھانا کھلانے کا بیان۔
اس لئے جو مسافر دعوت کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ غلو اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے اپنے قریبی لوگوں کو دعوت کرکے کھلا سکتا ہے لیکن جس کو دعوت کھلانے کی طاقت نہ ہو وہ دعوت نہ کرے تاہم ایک دوسرے سے الفت و محبت قائم رکھنے اور اس میں اضافہ کرنے کے سبب اپنے قریبی رشتہ داروں اور ملاقاتیوں کو معمولی تحائف پیش کرسکے تو اچھی بات ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : تَهادُوا تَحابُّوا(صحيح الأدب المفرد:462)
ترجمہ: ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو کیونکہ اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہدیہ میں کوئی بھاری بھرکم چیز دینا ضروری نہیں ہے ، گھر کے بچوں کے لئے چند ٹافیاں سہی، کھجور کا ایک دانہ سہی اور حج و عمرہ سے لوٹ رہے ہیں تو زمزم کا ایک گھونٹ پانی ہی پیش کردیں ۔ ملاقات کرنے والا حج یا عمرہ سے لوٹنے والے کو عبادت کی قبولیت کی دعا دے ۔
اخیر میں حج و عمرہ سے لوٹنے والے خوش نصیبوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو اللہ نے عظیم عبادت کی سعادت بخشی ہے ، اپنی آنکھوں سے اللہ کے گھرکا دیدار اور اس کا طواف کرکے آئے ہیں ، اس وقت آپ کو اس بات کی ضرورت ہے کہ شکرالہی کے ساتھ اللہ سے بکثرت یہ دعا کریں کہ اے اللہ ! میرے حج و عمرہ کو قبول فرما۔نیز حج مبرورسے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں جیسے کوئی ماں کے پیٹ سے پیدا ہواہو۔اس لئے کوشش کریں کہ اسی حالت پہ موت آئے یعنی گناہوں سے دھلے دھلائے ۔ اس کے لئے آپ کو کیا کرنا ہے؟
اولا :سفر حج وعمرہ سے واپسی پہ مروجہ خرافات اور فضول کاموں سے بچیں جیسے گھروں کی تزئین و زیبائش ، بھاری بھرکم اسراف وریا والی دعوت وغیرہ ۔
ثانیا:ہر اس کام سے بچیں جس میں شہرت اور ناموری ہو تاکہ آپ کی عبادت کی حفاظت ہو ورنہ شہرت حج جیسی عبادت کو کھالے گی حتی کہ یہ دخول جہنم کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
ثالثا: جیسے حج یا عمرہ آپ نے خالص اللہ کے لئے انجام دیا، مطاف ، مسعی ، منی ، عرفات ، مزدلفہ ہرجگہ اسی سے دعا مانگی ، اسی کو مکہ و مدینہ میں پکارا، ساری زندگی اسی طرح خالص اب رب کی بندگی بجالائیں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور اسی سے مانگتے رہیں ، ان شاء اللہ توحید پر خاتمہ نصیب ہوگا اور آپ کا حج قیامت میں کام آئے گا۔ یاد رہے شرک سارے اعمال کو ضائع کردیتا ہے ۔
رابعا: آخری بات یہ ہے کہ اب اپنے کو ایک بہتر انسان کی صورت میں بدل کر زندگی گزاریں جیسے معلوم ہو کہ واقعی حج وعمرہ نے آپ کو بدل دیا ہے یا حج وعمرہ کے بعد اب ایک اچھے انسان بن گئے ہیں۔ اللہ بھی یہی چاہتا ہے ۔ آپ نیکی کی طرف لگ گئے ہیں تو اس جانب بڑھتے رہیں اور اسی پر قائم رہیں اور اللہ سے ہمیشہ ثابت قدمی کی یہ دعا" يا مُقلِّبَ القلوبِ ثبِّت قَلبي على دينِكَ" کرتے رہیں ۔
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں:
كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يُكْثِرُ أن يقولَ : يا مُقلِّبَ القلوبِ ثبِّت قَلبي على دينِكَ(صحيح الترمذي:2140)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا پڑھتے تھے «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك» ”اے دلوں کے الٹنے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ"۔
 
Top