• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سقوط مشرقی پاکستان کے اصل حقائق (1)

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
16دسمبر اس بار بھی متحدہ پاکستان کے دو لخت ہونے کی تلخ یادیں کریدتا ہوا گزر کیا اور ہمارے اخبارات اور میڈیا نے اس سانحہ فاجعہ کا زیادہ تر وہی رخ دکھایا جو وہ پچھلے چار عشروں سے دکھاتا چلا آ رہا ہے۔ جادو نگار قلمکاروں نے اس سانحے پر ایسی یکطرفہ حاشیہ آرائی کی ہے کہ حقائق کئی پردوں تلے چھپ گئے ہیں۔ جھوٹ کے ردے پر ردے چڑھائے جا رہے ہیں، سارا زور نئی نسلوں کو یہ باور کرانے میں لگایا جاتا ہے کہ یہ بس بھارت کی سازش تھی جس میں شیخ مجیب ملوث تھے یا پھر یہ سانحہ جنرل یحییٰ کے شرابی ٹولے کی سیاہ کاریوں کا نتیجہ تھا مگر یہ بتانے میں سخت مداہنت سے کام لیا جاتا ہے کہ اس سانحے کا ایک کردار ذوالفقار علی بھٹو بھی جو ان دنوں کے اخبارات میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
حقائق کچھ یوں ہیں کہ گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد 25 مارچ 1969ء کو صدر جنرل ایوب نے استعفیٰ دے دیا تھا اور اپنے ہی بنائے ہوئے آئین (1962ئ) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اسپیکر قومی اسمبلی عبدالجبار خاں کو اقتدار سونپنے کے بجائے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ کو مارشل لاء لگانے کی دعوت دے ڈالی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دراصل یحییٰ خان نے ایوب خاں سے طاقت کے بل پر اقتدار حاصل کیا تھا۔ بہرحال یحییٰ خان نے مارشل لاء لگا کر یکے بعد دیگرے ایسے اقدامات کئے جن سے ملکی شکست و ریخت کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی اور ان تمام ملک دشمن اقدامات میں اسے زیڈ اے بھٹو کی حمایت حاصل تھی، مثلاً تقریباً تمام جماعتیں مطالبہ کر رہی تھیں کہ 1956ء کا آئین بحال کر دیا جائے جو ملک کے مشرقی اور مغربی بازوئوں میں اتحاد کی ضمانت تھا۔ آئین 1956ء بنانے والوں میں مشرقی پاکستان کے عظیم رہنما اور شیخ مجیب الرحمن کے سیاسی استاد حسین شہید سہروردی (جو 1956-57ء میں وزیراعظم بنے) بھی شامل تھے۔ اس آئین کے تحت قومی اسمبلی میں دونوں بازوئوں کو مساوی نمائندگی دی گئی تھی مگر بھٹو صاحب نے یحییٰ خان کے اشارے پر قومی وحدت کی ضمانت آئین 1956ء کا یہ کہہ کر مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ ’’آئین کوئی چپلی کباب ہے جس سے عوام کا پیٹ بھر جائے گا‘‘۔ چنانچہ جنرل یحییٰ نے آئین 1956ء بحال کرنے کے بجائے لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) نافذ کر دیا جس کے تحت منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو نیا آئین بنانے کا کام سونپ دیا گیا۔ یحییٰ بھٹو گٹھ جوڑنے دوسرا ستم یہ ڈھایا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی مساوی نمائندگی یا پیرٹی (Parity) ختم کر کے انہیں ون مین ون ووٹ کے اصول پر نمائندگی دی گئی جس کے تحت مشرقی پاکستان کو اپنی کثرت آبادی کی بناء پر 56فیصد نمائندگی حاصل ہو گئی اور مغربی پاکستان کی نمائندگی 44 فیصد رہ گئی۔ یہ دونوں اقدامات ملکی سالمیت کے لئے مہلک ثابت ہوئے۔ عام انتخابات اکتوبر 1970ء ہونے تھے جو مشرقی پاکستان میں سمندری طوفان آنے سے 7دسمبر تک ملتوی کر دیئے گئے۔ تیسرا ستم یہ ڈھایا گیا کہ جداگانہ طریق انتخاب جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا تھا، ترک کر کے مخلوط طریق انتخاب رائج کر دیا گیا جس کا فائدہ بہرحال بھٹو اور مجیب الرحمن کو پہنچا کیونکہ انہوں نے اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اسے ایشو بنا رکھا تھا۔
انتخابی مہم جو کہ یکم جنوری 1970ء کو شروع ہوئی تھی، سوا گیارہ ماہ چلتی رہی جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ تھی۔ اس میں شیخ مجیب نے ’’چھ نکات‘‘ اور بھٹو نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعروں کے ساتھ حصہ لیا۔ مسٹر بھٹو نے پورا سال چھ نکات کی کوئی مخالفت نہ کی جبکہ مجیب کی عوامی لیگ نے انہی نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی۔ دونوں لیڈر لیگل فریم ورک آرڈر کی دھجیاں اڑاتے رہے مگر مارشل لاء ضابطے سوئے رہے۔ ایک اور خرابی یہ ہوئی کہ مجیب نے تو مغربی پاکستان میں 6 قومی نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے مگر بھٹو نے مشرقی پاکستان میں پی پی پی کا کوئی ایک امیدوار بھی کھڑا نہیں کیا تھا جبکہ مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور نوابزادہ نصر اللہ کی قومی جمہوری پارٹی نے مشرقی پاکستان کی بیشتر نشستوں پر اپنے اپنے امیدوار نامزد کئے تھے۔ اس کے باوجود شاہد رشید نوائے وقت (18 دسمبر 2011ئ) میں حقائق مسخ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں اپنی پارٹی کی طرف سے امیدوار نامزد کرنے میں دلچسپی نہ لی۔ اس طرح پی پی پی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے مشرقی پاکستان میں امیدوار کھڑے کرنے کو ناممکن بنا دیا گیا‘‘۔ دراصل عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں علاقائی جماعتیں تھیں اور ان دونوں کے مشرقی اور مغربی بازوئوں میں الگ الگ حاصل اکثریت کرنے سے ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ اس کی پیش گوئی مرد درویش سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اکتوبر 1970ء میں نہرو پارک، سنت نگر، لاہور کے جلسے میں یوں کر دی تھی: ’’اگر یہ دو علاقائی جماعتیں اکثریتی ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئیں تو ملک کے متحد رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی‘‘۔ مگر اس وقت تک روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر اس قدر دھول اڑائی جا چکی تھی کہ کوئی عقل کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ مسٹر بھٹو ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے، چنانچہ جب انہوں نے ایئر مارشل (ر) اصغر خاں اور ڈاکٹر جاوید اقبال کو پی پی پی میں شمولیت کی دعوت دی تھی اور ان دونوں سے ان سے ان کا پروگرام پوچھا تو بھٹو صاحب نے قہقہہ لگا کر دونوں سے یہی کہا تھا کہ پروگرام کیا ہے، عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار حاصل کرنا ہے۔ تب اصغر خاں نے یہ کہہ کر پی پی پی میں شامل ہونے سے معذرت کی تھی کہ ’’میں عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار حاصل کرنے کے پروگرام میں شامل نہیں ہو سکتا‘‘۔ جناب اصغر خان اور ڈاکٹر جاوید اقبال اپنے انٹرویوز میں یہ راز افشا کر چکے ہیں۔
7 دسمبر 1970ء کو قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے جس کی 313 نشستوں میں سے 300 پر چنائو ہوا تھا۔ باقی 13نشستیں خواتین کے لئے مخصوص کی گئی تھیں۔ 300 قابل انتخاب نشستوں میں سے 162 مشرقی پاکستان اور 138 مغربی پاکستان کی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 160 نشستیں جیت کر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی جبکہ باقی دو نشستوں میں سے ایک پر قومی جمہوری محاذ کے جناب نور الامین اور دوسری پر اقلیتی بدھ رہنما (چکما قبیلے کے سردار) راجہ تری دیورائے منتخب ہوئے۔ پی پی پی کو مغربی پاکستان سے 81 نشستیں حاصل ہوئیں جن میں بھاری اکثریت یعنی 63 نشستیں پنجاب سے تھیں کیونکہ پنجابی و کشمیری عوام کی اکثریت بھٹو کے کھوکھلے نعروں ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ اور ’’ہم کشمیر کے لئے ایک ہزار سال لڑیں گے‘‘ پر مر مٹی تھی (اب بھٹو کی وراثت پر قابض زرداری پارٹی کو یاد ہی نہیں کہ بھٹو نے آزادی کشمیر کا نعرہ بھی لگایا تھا اور یہ لوگ کشمیر اور پاکستان کے دشمن بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے لئے بے چین ہورہے ہیں) باقی تین صوبوں سے پی پی پی کی جیتی ہوئی نشستیں یوں تھیں: سندھ (30 میں سے 17)، صوبہ سرحد سے ایک اور بلوچستان کی کل 4 نشستوں میں سے صفر۔
یوں انتخابات 1970ء نے بھٹو کو اپوزیشن لیڈر کا مقام دیا تھا جو انہیں کسی طور گوارا نہ تھا۔ تقریباً سال بھر کی انتخابی مہم میں انہوں نے مجیب کے چھ نکات کی مخالفت کا تکلف نہ کیا مگر اب انتخابات کے بعد اچانک ان کی مخالفت شروع کر دی۔ اگر چھ نکات ایسے ہی برے تھے تو انتخابات سے پہلے وہ جنرل یحییٰ سے کہہ کر مجیب کو چھ نکات کے پرچار سے روک سکتے تھے مگر انتخابات کے بعد ان کی مخالفت سیاسی مفاد تھی۔ اوائل جنوری 1971ء میں جنرل یحییٰ ڈھاکہ ایئر پورٹ پر شیخ مجیب کو ملک کا آئندہ وزیراعظم قرار دے چکے تھے جبکہ شیخ مجیب نے ان نکات کو صرف انتخابات جیتنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا تھا اور وہ مغربی پاکستان کے دیگر لیڈروں سے کہہ چکے تھے کہ چھ نکات کوئی حدیث نہیں، اسمبلی میں ان پر بات ہو گی۔ لیکن بھٹو صاحب نے وسط جنوری 1971ء میں پی پی پی کے وفد کے ہمراہ ڈھاکہ جا کر مجیب کے ساتھ سودا بازی کی کوشش کی۔ کشتی میں دونوں لیڈروں نے بوڑھی گنگا کی سیر بھی کی اور بھٹو نے ساڑھے پانچ نکات تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا مگر پھر آدھے نکتے پر بات اٹک گئی۔ اگر بھٹو مخلص ہوتے تو وہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے دیتے تو اس آدھ نکتے کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا لیکن دراصل وہ مرکزی سطح پر مجیب سے اقتدار میں شرکت کی ضمانت چاہتے تھے، یہ کہ انہیں نائب وزیراعظم یا صدر مملکت کا منصب دیا جائے لیکن مجیب نے ایسی یقین دہانی کرانے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جو شخص اپنے ’’ڈیڈی‘‘ کا وفادار نہیں رہا وہ ناقابل اعتبار ہے (جناب ایس ایم ظفر اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے کانوں سے مسٹر بھٹو کو جنرل ایوب خاں کو ڈیڈی کہتے سنا تھا)
مغربی پاکستان سے دیگر سیاسی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں نمائندگی یوں تھی۔ پاکستان مسلم لیگ دولتانہ گروپ (14)، پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ (2)، کنونشن مسلم لیگ (2)، نیشنل عوامی پارٹی NAP (9)، جمعیت العلمائے پاکستان (7)، جمعیت علمائے اسلام (7)، جماعت اسلامی (4)۔ مسلم لیگ کے میاں ممتاز دولتانہ اور نیپ (اے این پی کی پیشرو) کے لیڈر خان عبدالولی خان سے شیخ مجیب کی گاڑھی چھنتی تھی، وہ ان دونوں کے ساتھ آسانی سے مخلوط حکومت بنا سکتے تھے جس میں جمعیت العلمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام بھی شریک ہو سکتی تھیں۔ ان کی معاونت سے آئین سازی کا مرحلہ بخوبی طے ہو سکتا تھا اور ملکی سلامتی کی حدود کے اندر رہ کر چھ نکات کے معاملے میں بنگالیوں کو مطمئن کیا جا سکتا تھا مگر بھٹو تو حصول اقتدار کے لئے پانی کی مچھلی بنے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے فوری اقتدار کی لیلیٰ ہاتھ سے جاتے دیکھی تو وہ سب کچھ ڈھا دینے پر تل گئے۔ (مسٹر بھٹو نے یحییٰ خان کو لاڑکانہ بلا کر کیا پلان بنایا، کس طرح مینار پاکستان کے سائے تلے ڈھاکہ جانے والے ارکان اسمبلی کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی اور پھر بنگالیوں کو ’’بونگلے‘‘ کہہ کر انہیں فوجی آپریشن سے کچل دینے کی روش اختیار کی،



بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،، علی اوڈراجپوت
ali oadrajput
 

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
سقوط مشرقی پاکستان کے اصل حقائق (٢)

1994/95 ء
کی بات ہے، ایوان کارکنان پاکستان (لاہور) میں 16 دسمبر کی تقریب تھی، میں بھی سامعین میں موجود تھا۔ میجر جنرل (ر) رائو فرمان علی جو مشرقی پاکستان کے آخری گورنر اے ایم مالک کے مشیر اور پھر بھارت میں قید رہے تھے، سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب و واقعات پر روشنی ڈال رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ہم تو یہاں سے ایک ہزار میل دور تھے اور ادھر سے ہم پر عجب عجب فیصلے تھوپے جا رہے تھے۔ یہ بے نظیر زرداری کی دوسری حکومت تھی، سامعین رائو صاحب سے مطالبہ کر رہے تھے کہ آپ کھل کر بتائیں کہ فیصلے کون کر رہا تھا اور وہ بتا نہیں پا رہے تھے۔ اتنے میں ایک صاحب اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’میں بتاتا ہوں کہ فیصلے کون کر رہا تھا۔ میرا نام کرنل محمود ہے اور کرنل سلیم اس بات کے گواہ ہیں کہ جب بھارتی طیارہ گنگا (30 جنوری 1971ئ) کو لاہور ایئر پورٹ پر اتار لیا گیا تو صدر پاکستان جنرل یحییٰ کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر بتایا گیا کہ ایک بھارتی طیارہ ہائی جیک ہونے کے بعد لاہور کے ہوائی اڈے پر آن اترا ہے۔ اس کا کیا کیاجائے؟ جنرل یحییٰ نے نہایت بے نیازی سے جواب دیا: ’’جائو، بھٹو سے جا کے پوچھ لو‘‘۔ اس پر ہال میں ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے بلند ہوئے۔
یاللعجب! صدر پاکستان، آرمی چیف اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یعنی تین اعلیٰ ترین ملکی عہدوں کا مالک ایک ایسے شخص سے فیصلہ طلب کرنے کو کہہ رہا ہے جس کے پاس کوئی ملکی عہدہ نہیں اور وہ محض نومنتخب قومی اسمبلی میں اقلیتی پارٹی کا لیڈر ہے اور ابھی اس نے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف بھی نہیں اٹھایا۔ سامعین کو اس سوال کا جواب مل گیا کہ قومی تاریخ کے ان نازک ترین برسوں میں حکومتی باگ ڈور اصلاً کس کے ہاتھ میں تھی اور کون بلانوش شرابی صدر یحییٰ کو اپنے شیطانی مقاصد کے لئے گدھے کی طرح استعمال کر رہا تھا۔ اگلے روز میں نے دو تین بڑے قومی اخبارات دیکھے مگر ایوان کارکنان پاکستان کے جلسے کی رپورٹنگ میں کرنل مذکور کے انکشاف کا ذکر تک نہیںتھا، اس لئے کہ میڈیا کے محبوب لیڈر کی جھوٹی شان میں فرق آتا تھا۔ ’’گنگا‘‘ دو کشمیری نوجوانوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے ہائی جیک کیاتھا۔ اگلی شب ذوالفقار علی بھٹو طیارے کے اندران سے ملے اور پھر اسی شب ایک سازش کے تحت طیارے کو آگ لگا دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ گنگا کی آتش زنی میں بھٹو کا اشارہ اور ایک ایجنسی کا تعاون شامل تھا۔ اس احمقانہ اقدام کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان جانے والے ہمارے طیاروں کو اپنی فضا سے گزرنے کی ممانعت کر دی۔ ہمارے طیارے پھر کولمبو (سری لنکا) کے راستے مشرقی پاکستان جاتے رہے۔ اس طرح ہمارا مشرقی صوبہ ہم سے ڈھائی تین ہزار میل دور ہو گیا۔
وسط فروری میں اعلان کیا گیا کہ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں ہو گا، لیکن پھر لاڑکانہ پلان کے مطابق بھٹو نے شیخ مجیب اور اس کے چھ نکات کی زور دار مخالفت شروع کر دی۔ اس دوران میں اسلام آباد میں طے کر لیا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا جائے۔ مجیب کو پتہ چلا تو اس نے گورنر ایڈمرل (ر) احسن اور ڈپٹی مارشل لائ، ایڈمنسٹریٹر صاحبزادہ یعقوب خان کی منت کی کہ خدا کے لئے اجلاس ملتوی نہ کریں، اگر ملتوی کرنا ہی ہے تو مجھے نئی تاریخ دے دیں تاکہ میں بنگالیوں کو مطمئن کر سکوں جو پہلے ہی بھرے بیٹھے ہیں کہ فوج اور بھٹو نے منتخب بنگالی قیادت کے خلاف گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ اس پر ایڈمرل احسن اور جنرل صاحبزادہ یعقوب خان اسلام آباد آئے اور شیخ مجیب کا پیغام دیا کہ اگر قومی اسمبلی کے اجلاس کی نئی تاریخ نہ دی گئی تو مشرقی پاکستان میں شدید ایجی ٹیشن ہو گا جسے فوج بھی کنٹرول نہ کر سکے گی، لیکن بدبخت جنرل یحییٰ نے کہا کہ جا کر بھٹو کو منائو، چنانچہ وہ دونوں سیدھے کلفٹن (کراچی) پہنچے اور کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے دیا جائے ورنہ وہاں خونریز ایجی ٹیشن ہو گا۔ اس پر بھٹو کا جواب تھا، چند ہزار بونگلوں کے مرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ گویا بنگالی بھٹو کے نزدیک قابل نفرت ’’بونگلے‘‘ تھے جن کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ یہ ساری تفصیل صاحبزادہ یعقوب خاں نے بعد میں ندائے ملت کے ایک انٹرویو میں سنائی۔ انہی دنوں بھٹو نے 28فروری 1971ء کو مینار پاکستان کے سائے تلے شعلہ بار تقریر کی اور قومی اسمبلی کے اجلاس ڈھاکہ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ارکان ڈھاکہ میں یرغمال ہوں گے، لہٰذا ہم ڈھاکہ نہیں جائیں گے بلکہ جو ڈھاکہ جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ جیالے صحافی عباس اطہران دنوں روزنامہ ’’آزاد‘‘ میں کام کرتے تھے، انہوں نے بھٹو کی ملک کو دو لخت کرنے کی بنیاد رکھنے والی آتشیں تقریر کو ’’ادھر تم، ادھر ہم‘‘ کی بلیغ سرخی میں سمو دیا جو بھٹو کے ملک توڑنے کے کردار سے چپک کر رہ گئی، دراصل پاکستان اسی روز دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔
اگلے دن اسلام آباد سے اعلان ہوا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا ہے، بھٹو کے سوا مغربی پاکستان سے بیشتر لیڈر ڈھاکہ پہنچ چکے تھے، ان میں پی پی پی کے رکن اسمبلی صاحبزادہ احمد رضا قصوری بھی شامل تھے جو بھٹو کی اس نئی روش کے سخت ناقد تھے اور اسی ’’جرم‘‘ میں چند سال بعد بھٹو صاحب احمد رضا کی ٹانگیں تو نہ توڑ سکے مگر ان کے والد نواب احمد رضا قصوری کو بھٹو کی خصوصی فورس ایف ایس ایف نے شادمان (لاہور) میں ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر کے شہید کر دیا اور اس مقدمے میں بھٹو صاحب دیگر ملزموں کے ساتھ اعلیٰ عدالتوں کے حکم پر پھانسی پا گئے، خود احمد رضا قصوری اور ان کی والدہ فیڈرل سکیورٹی فورس (FSF) کی فائرنگ میں بچ گئے تھے۔
قصہ کوتاہ، قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہوتے ہی پورے مشرقی پاکستان میں آگ لگ گئی، لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر مظاہر کرنے لگے۔ دریں اثناء گورنر احسن اور صاحبزادہ یعقوب خان نے استعفا دے دیا تھا۔ ادھر سے بھٹو کے پسندیدہ جرنیل ٹکا خان کو گورنر اور ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کر ڈھاکہ بھیجا گیا (جنہیں بعد میں بھٹو نے آرمی چیف اور پھر وزیر دفاع بنایا)، ٹکا خان سے وہاں ہائیکورٹ کے کسی جج نے حلف لینا گوارا نہیں کیا۔ ٹکا خان کے حکم پر ایجی ٹیشن کرنے والے آنسو گیس اور گولیوں کا نشانہ بننے لگے۔ جب معاملات ہاتھ سے نکل گئے تو پہلے یحییٰ خان اور پھر مسٹر بھٹو ڈھاکہ پہنچے۔ اس دوران میں 14مارچ کو بھٹو بیان دے چکے تھے کہ اس ملک میں دو وزیراعظم ہوں گے، وہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پی پی پی کو اقتدار سونپنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ڈھاکہ میں نئے مذاکرات لاحاصل رہے۔ 25 مارچ کی رات یحییٰ خان آرمی ایکشن کا حکم دے کرچلے آئے۔ اگلے روزبھٹو صاحب کراچی روانہ ہوئے۔ انہوں نے یہاں آ کر کہا: ’’ایسٹ بنگال رجمنٹ کے فوجی بھی چھائونیوں سے فرار ہو گئے، عوامی لیگ کے ایم این اے اور ایم پی اے فرار ہو کر سرحد پار بھارت چلے گئے، فوج نے شیخ مجیب الرحمن اور ڈاکٹرکمال کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان پہنچا دیا۔ ٹکا خان کی فورس نے بنگالیوں کے خلاف گنوں کے منہ کھول دیئے۔ تب بڑی سنگدلی سے ٹکا خان نے کہا تھا، مجھے لوگ نہیں،زمین چاہئے۔ جواب میں بنگالیوں نے بھی ’’پنجابیوں‘‘ اور بہاریوں کا خون بہانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس خونریزی کے ذمہ دارکون تھے؟ یقینا یحییٰ خان اور ان کے جرم میں برابر کے شریک مسٹر بھٹو! بنگالیوں نے ٹکا خان کو قصاب (Butcher) کا لقب دے دیا۔ ادھر میجر ضیاء الرحمن نے چٹا گانگ میں اپنے اعلیٰ افسر کو شہید کر کے ریڈیو سے بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر دیا۔ بہاریوں اور مغربی پاکستان کی فیملیز پرغیر انسانی مظالم ڈھائے گئے۔ فوج کو پورے صوبے پر کنٹرول حاصل کرنے کے میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ لگا۔ اندرا گاندھی نے بنگالی نوجوانوں کو مغربی بنگال کے کیمپوں میں گوریلا تربیت دی۔ نیز بھارتی فوجی سول کپڑوں میں ان کے ہمراہ کئے اور یوں مکتی باہنی تشکیل دے کر انہیں گوریلا جنگ کے لئے مشرقی پاکستان میں داخل کر دیا۔مکتی باہنی کا کمانڈر کرنل عثمانی تھا۔ اس فورس نے مقامی بنگالیوں کے تعاون سے پاک فوج کو بڑا زچ کیا۔ پاک فوج نے اس کے مقابلے میں البدر اور الشمس تنظیمیں تشکیل دیں۔ اس دوران میں بنگالی ٹکا خان کے خون کے پیاسے تھے۔ ستمبر 1971ء میں انہیں واپس بلا کر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو وہاں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کربھیجا گیا جبکہ اے ایم مالک کو گورنر مشرقی پاکستان کا منصب دے کر عوامی لیگ کے سوا دیگر جماعتوں کو صوبائی وزارتیں دی گئیں جن میں پی پی پی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور پی ڈی پی شامل تھیں۔ مگر یہ ’’سول‘‘ کابینہ ایک مذاق ثابت ہوئی۔ دوسری طرف اندرا گاندھی کی افواج نے حملے کی بھرپور تیاری کر رکھی تھی۔
 

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
سقوط مشرقی پاکستان کے اصل حقائق (تیسری اور آخری قسط)

عقل و فکر سے عاری اور عیاش صدر جنرل یحییٰ خان قزلباش سے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ عرصے کے لئے ملتوی کرانے اور اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں اٹھنے والے ایجی ٹیشن اور عوامی بغاوت کو دبانے کے لئے آرمی ایکشن کروانے، مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت کو سرحد پار بھارت بھجوانے اور شیخ مجیب الرحمن کو مغربی پاکستان کی جیل میں ڈلوانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے لئے میدان خالی تھا۔ آرمی ایکشن شروع ہونے کے بعد انہوں نے کراچی آ کر کہا تھا،’’ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔حالانکہ یہ فوجی کارروائی پاکستان کو توڑنے کا حتمی اقدام تھی۔ اب بھٹو صاحب جرنیلوں سے مطالبہ کر رہے تھے کہ مغربی پاکستان میں اقتدار فوراً پی پی پی کے حوالے کر دیا جائے مگر مشرقی پاکستان میں فوج مکتی با ہنی کے خلاف سول وار میں الجھی ہوئی تھی، جس میں فوج کا جیتنا ناممکن تھا۔ ادھر امریکہ مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت سے مفاہمت کے لئے یحییٰ خان پر زور دے رہا تھا جسے اندرا گاندھی نے مجیب نگر (کلکتہ) میں ایک طرح سے یرغمال بنا رکھا تھا۔ نیز یحییٰ خان بھٹو کی ’’اجازت‘‘ کے بغیر مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت سے رابطہ قائم کرنے میں متذبذب تھا۔ اگست 1971ء میں بھارت کا سوویت روس سے فوجی معاہدہ ہو چکا تھا جس کے بعد بھارتی حملے کے خدشات بڑھ گئے تھے۔ ان حالات میں عاقبت نااندیش یحییٰ خان نے منتخب بنگالی قیادت سے مفاہمت کے بجائے مشرقی پاکستان میں گورنر عبدالمطلب مالک کی سربراہی میں ’’سول حکومت‘‘ قائم کر دی جو لاحاصل مشق تھی۔
اس دوران میں بھارتی جرنیل وزیراعظم اندرا گاندھی کو مشورہ دے رہے تھے کہ مشرقی پاکستان پر موسم برسات کے بعد حملہ کر دیا جائے، چنانچہ اندرا اکتوبر میں عالمی سطح پر فضا ہموار کرنے کے لئے دورے پر نکلی۔ واشنگٹن میں صدر نکسن نے اندرا سے پوچھا کہ کیا بھارت مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے تو وہ صاف مکر گئی۔ اس نے دنیا بھر میں مشرقی بنگال پر پاک فوج کے مبینہ مظالم کا خوب ڈھنڈورا پیٹا۔ دریں اثناء جنرل یحییٰ نے مسٹر بھٹو کی ہوس اقتدار پوری کرتے ہوئے انہیں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بنا دیا جبکہ مشرقی پاکستان کے بزرگ رہنما اور رکن قومی اسمبلی نور الامین کو برائے نام وزیراعظم کا منصب دیا گیا۔ وزیر خارجہ بن کر بھٹو صاحب ایک وفد لے کر چین گئے۔ ان دنوں چین کے وزیراعظم چو این لائی اور چیئرمین بانی انقلابی رہنما مائوزے تنگ تھے۔ چینی قیادت نے بھی مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت سے سمجھوتہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ادھر قوم توقع کر رہی تھی کہ روس بھارت فوجی معاہدے کی موجودگی میں پاک چین فوجی معاہدہ ہونے والا ہے مگر جب مسٹر بھٹو بیجنگ سے واپس آئے اور ایئر پورٹ پر ان سے ممکنہ معاہدے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے قوم کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے کہا: ’’پاک چین دوستی کسی فوجی معاہدے کی محتاج نہیں‘‘۔ اس دوران میں 20 نومبر کو بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر تین اطراف سے حملہ کر دیا مگر اسلام آباد نے قوم کو خبر نہ ہونے دی۔ چوتھی جانب سے بھارتی بحریہ نے ناکہ بندی کر لی تھی۔ پاکستان کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بروقت اجلاس بلا کر بھارتی جارحیت کا پردہ چاک کرنے کی بھی زحمت نہ کی۔ خرابی بسیار کے بعد 3دسمبر 1971ء کو اسلام آباد سے اعلان جنگ کیا گیا، حالانکہ اس وقت اعلان جنگ کے بجائے مشرقی پاکستان میں جنگ بندی کی ضرورت تھی۔ بھارت مجیب نگر میں قائم ’’بنگلہ دیش کی عبوری حکومت‘‘ کو پہلے ہی تسلیم کر چکا تھا۔ ادھر ہمارا میڈیا مارشل لاء گورنمنٹ کے زیر اثر پاک فوج کی فتوحات کی خبریں دے رہا تھا، حالانکہ صورت حال مختلف تھی۔ آخر کار سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا اور وہاں عوامی جمہوریہ چین نے پہلا ویٹو پاکستان کے خلاف قرار داد مسترد کرنے کے لئے استعمال کیا (چین اسی سال اقوام متحدہ کا رکن اور ویٹو پاور بنا تھا۔ اس سے پہلے یہ پوزیشن نیشنلسٹ چین یعنی تائیوان کو حاصل تھی۔)
اب ہمارے وزیر خارجہ بھٹو اقوام متحدہ میں نمائندگی کرنے چلے۔ سلامتی کونسل میں روس کے ایماء پر پولینڈ کی قرارداد جنگ بندی کے لئے پیش کی گئی تھی۔ اس وقت جنگ بندی پاکستان کی اشد ضرورت تھی لیکن بھٹو ایک دو روز فلو کے بہانے ہوٹل میں پڑے رہے۔ پھر سلامتی کونسل میں ایک جذباتی تقریر کرتے ہوئے بظاہر قرار داد کا مسودہ پھاڑ کر واک آئوٹ کر گئے۔ پاکستان کا میڈیا مجموعی طور پر اول روز سے مسٹر بھٹو کے حق میں تھا۔ اس نے بھٹو کے واک آئوٹ اور قرار داد پھاڑنے کو دلیرانہ اقدام ٹھہراتے ہوئے بھٹو کی عظمت کے جھوٹے قصیدے لکھے اور اب تک لکھتا آ رہا ہے۔ مشرقی پاکستان میں ہماری سیاسی اور فوجی پوزیشن بہت نازک ہو چکی تھی، جس سے وزیر خارجہ پوری طرح آگاہ تھے۔ بھارتی جارحیت کو روکنے اور قوم کو بھیانک سقوط سے بچانے کے لئے فوری جنگ بندی درکار تھی مگر بھٹو نے اپنے مخصوص مقاصد کے لئے بات نہ بننے دی۔ بعد میں بھٹو نے تاثر دیا کہ انہوں نے پولش قرار داد نہیں بلکہ اپنے نوٹس پھاڑے تھے۔ اگر پولش قرارداد تسلیم کر لی جاتی تو اس کے مطابق یہی ہوتا کہ پاک فوج مشرقی پاکستان سے نکال لی جاتی اور وہاں قیام امن کے لئے عالمی فوج آ جاتی۔ نیز اسلام آباد کو مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت سے سیاسی سمجھوتہ کرنا پڑتا۔ درپیش حالات میں اگر مشرقی پاکستان کی بنگلہ دیش کی صورت میں علیحدگی بھی تسلیم کرنی پڑتی تو کیا برا تھا۔ ہماری 56 ہزار کے لگ بھگ فوج اور تقریباً 36 ہزار سویلین افراد بھارتی قید میں تو نہ جاتے اور سرینڈر کا داغ نہ لگتا، لیکن بھٹو کو اس سے کیا غرض تھی۔ جنگ بندی تسلیم نہ کرنے سے ان کے دو مقاصد پورے ہو رہے تھے: (1) مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت سے کسی بھی سیاسی سمجھوتے کو روکنا (اسی لئے تو بھٹو نے قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہونے دیا تھا)۔ (2) فوجی شکست کا اہتمام تاکہ بقیہ پاکستان میں بھٹو کے اقتدار میں جرنیل سر نہ اٹھا سکیں۔ فوج کی ہزیمت بھٹو کی دیرینہ آرزو تھی۔ بھٹو کی طرح سوشلسٹ نظریے کے حامل پاکستانی دانشور اور مصنف طارق علی (سردار سکندر حیات وزیراعظم متحدہ پنجاب کے نواسے) جو لندن میں مقیم ہیں، انہوں نے ایک بار بھٹو سے پوچھا تھا کہ تم نے جنرل ایوب کو 1965ء کی جنگ میں کیوں دھکیلا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا۔ ’’اس بوڑھے سے جان چھڑانے کا میرے پاس اور کیا راستہ تھا‘‘۔ گویا بھٹو نے ایوب کو گمراہ کر کے آپریشن جبرالٹر کے نام سے تین چار ہزار نیم تربیت یافتہ گوریلے مقبوضہ کشمیر میں بھجوا دیئے تھے۔ پھر ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ کی ناکامی پر آپریشن گرینڈ سلام کے نام سے پاک فوج نے چھمب اور جوڑیاں پر قبضہ کر کے اکھنور کی طرف یلغار کی تھی جس کے ردعمل میں بھارت نے 6 ستمبر کو پاکستان پر حملہ کر دیا تھا، مگر قوم سے اصل احوال چھپائے گئے۔ البتہ میڈیا نے بھٹو کے جھوٹے نعروں ’’ہم ایک ہزار سال تک کشمیر کے لئے لڑیں گے‘‘ اور بھارتی کتو! کشمیر سے نکل جائو‘‘ کو اچھال کر نئی نسل کے ذہنوں میں بھٹو کا بت سجا دیا۔ مسلسل جھوٹے پروپیگنڈے سے اس بت کو اب شہادتوں کی لام ڈور بنا دیا گیا ہے۔ (آپریشن جبرالٹر کی روداد کسی اگلے شمارے میں دیکھیے۔)
قصہ کوتاہ ، 14 دسمبر کو ڈھاکہ میں فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی کہہ رہے تھے کہ دشمن میری لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکہ میں داخل ہو سکتا ہے مگر وہی نیازی 16 دسمبر 1971ء کی سہ پہر کو ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ میں سقوط مشرقی پاکستان کی دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد اپنا پستول فاتح سکھ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے حوالے کر رہا تھا۔ یہ سانحہ سقوط بغداد (1258ئ) اور سقوط غرناطہ (1492ئ) سے کم نہ تھا۔ اس سے پہلے اسلام آباد کی ہدایت پر گورنر مشرقی پاکستان کے مشیر میجر جنرل رائو فرمان علی کی طرف سے اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل پال مارک ہنری کے نام جنگ بندی تسلیم کرنے کا پیغام بھیجاگیا تھا مگر پھر اسلام آباد نے اس پیغام سے لاتعلقی ظاہر کی اور بھٹو نے نیو یارک جا کر جنگ بندی کی قرار داد مسترد کر دی۔ اس پر گورنر اے ایم مالک مستعفی ہو کر ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل (ڈھاکہ) میں ریڈ کراس کی حفاظت میں چلے گئے۔ وہ بنگال کے ایک شریف اور محب پاکستان مزدور لیڈر تھے اور بھٹو اور یحییٰ کے پیدا کردہ بحران سے پاکستان کو نکالنے کی امید میں گورنر بن گئے تھے مگر وہ بے خبر تھے کہ بھٹو کی مذموم خواہشات حالات کے تند و تیز دھارے میں ڈھل چکی ہیں۔ ستم یہ کہ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ قوم کے اعصاب پر بجلی بن کر گر چکا تھا مگر یحییٰ خان مدہوشی میں اعلان کر رہے تھے کہ ایک محاذ پر جنگ بندی ہوئی ہے، دوسرے محاذ پر جنگ جاری رہے گی۔ ادھر اندرا گاندھی آزاد کشمیر اور مغربی پاکستان پر زور دار حملہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی مگر امریکی صدر رچرڈنکسن نے اسے روس کی وساطت سے اس اقدام سے باز رکھا، تاہم بھارتی فوج نے مغربی محاذ پر جنگ بندی سے پہلے کارگل کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا۔ ادھر چیف آف آرمی سٹاف جنرل گل حسن اور ایئر چیف مارشل رحیم نے جنرل یحییٰ خاں پر دبائو ڈالا کہ وہ اقتدار سے بھٹو کے حق میں دست بردار ہو جائیں۔ انہوں نے بھٹو کو پیغام بھیجا کہ فوراً اسلام آباد پہنچیں مگر وہ روم پہنچ کر رک گئے کہ کہیں انہیں گرفتار نہ کر لیا جائے۔ پھر امریکی یقین دہانی پر وہ اسلام آباد آئے اور یحییٰ خان سے ملکی صدارت اور سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدے حاصل کر کے آمر مطلق بن گئے۔ ان کا سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننا تاریخ کا بے مثال حادثہ تھا۔ انہوں نے لاڑکانہ پلان کے تحت مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت کو میدان سے ہٹا کر نیا پاکستان بنانے کے لئے وطن عزیز کو دو لخت کروا دیا مگر بھٹو کے دیوانے قلمکار انوار احسن صدیقی ایکسپریس (30 دسمبر 2011ئ) میں لکھتے ہیں: ’’اشرافیہ کی مذموم سازش کے تحت پاکستان کو دو لخت کر دیا گیا‘‘۔ ہاں یہ ’’پی پی پی کی اشرافیہ‘‘ یعنی زیڈ اے بھٹو اور پی پی پی کے نومنتخب 79 ارکان قومی اسمبلی کی سازش تھی جس میں چند شرابی جرنیل بھی شریک تھے۔ دوسری طرف نذیر ناجی، عباس اطہر اور اس قبیل کے دیگر صحافی سارا ملبہ فوج پر ڈال دیتے ہیں کیونکہ بھٹو کا نام لیں تو ان کی اپنی جھوٹی صحافت کا پردہ فاش ہوتا ہے۔
 
Top