• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سقیفئہ بنی ساعدہ

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
کہتے ہیں سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا معاملہ طے کرتے وقت کسی نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو خبر ہی نہیں کی۔ سارے معاملات ان سے بالا بالا طے کر کےحکومت غصب کر لی۔ مقام حیرت ہے جب خلافت کا مشورہ ہو رہا تھا تو امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ، جناب حسن اور حسین رضی اللہ عنہما تینوں مدینہ منورہ میں تشریف فرما تھے جو شیعہ کے نزدیک نہ صرف عالم الغیب ہیں (معاذ اللہ) بلکہ کائنات میں بلا روک ٹوک تصرف بھی کر سکتے ہیں۔ پس انہیں خبر کر بھی دی جاتی تو تحصیل حاصل والی بات تھی اور اگر خبر اور اختیار ہوتے ہوئے انہوں نے اس جرم کو نہیں روکا تو معلوم ہوا انہیں اس پر اتنا اعتراض نہیں تھا جتنا بعد میں سیاسی مقاصد کے لیے بنا لیا گیا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
تمام اراکین ( بلا تفریق سنی و شیعہ ) سے گزارش ہےکہ علمی بحث و مباحثہ تک محدود رہیں ۔ ایک دوسرے پر جملے کسنے سے پرہیز کریں ۔
اور دوسری بات یہ کہ علمی بحث و مباحثہ میں صرف ’’ شراکتیں ‘‘ کرنے پر زور نہ دیں بلکہ پہلے مخالف کے دلائل کا جواب دیں پھر مزید اپنی بات رکھیں ۔
یہ ’’ لڑی ‘‘ حرب بن شداد صاحب کی طرف سے شروع کی گئی ہے ۔ اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں علی بہرام یا ان کا ہم مذہب کوئی بھی شخص اگر اس بحث میں حصہ لینا چاہتا ہے تو پہلے ان کی پوسٹ پر تبصرہ اور رد کریں پھر اپنے دلائل پیش کریں ۔
یہ بحث و مباحثہ کا کوئی اصول نہیں کہ بس اپنا اپنا راگ الاپتے رہیں اور دوسرا کیا کہہ رہا ہے اس سے کوئی سروکار ہی نہ ہو ۔
اسی لیے بعض شراکتوں کو ’’ وقتی طور پر حذف ‘‘ کردیا گیا ہے ۔
اور آخر میں بصد احترام بعض سنی بھائیوں سے گزارش ہے اگر علمی بحث کرنے کے لیے وقت نہیں تو پھر صرف ’’ لعن طعن ‘‘ کرنے سے گریز کریں ۔ کیونکہ ایسی ’’ شراکتیں ‘‘ حذف ہوجائیں گی ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
دوستو!۔
یہ عرصہ جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنھم، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے چند انصاری بزرگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔۔۔

چنانچہ پہلے میں اس واقعہ کو امام طبری رحمہ اللہ کی تاریخ کے حوالے سے ابومخنف کذاب کی زبانی بیان کردوں۔۔۔۔ پھر اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کروں گا۔۔۔ پھر دونوں روایتوں کے درمیان موازنہ کرلیں۔۔۔ قارئین کو اندازہ ہوجائے گا کہ ابومخنف (رافضی) نے کتنی باتیں بڑھائی ہیں۔۔۔ اور شاید ہمارے بہت سے لوگوں کے ہاں یہ اضافی باتیں مسلمہ تاریخی حقائق بن چکی ہوں اور (ابومخنف کے من گھڑتے اضافے) حادثہ شورٰی میں بھی موجود ہیں۔۔۔ چنانچہ امام حمد بن جریر طبری (شیعہ) بیان کرتے ہیں کہ!۔

ہمیں ہشمان بن محمد نے ابومخنف کے حوالے سے بیان کیا، کہ وہ کہتا ہے مجھے عبداللہ بن عبداللہ الرحمٰن بن ابی عمرو بن بن ابی عمرہ انصاری نے بتایا، کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو انصار، سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ!۔

ہم جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سعد بن عبادہ کو سربراہ مقرر کریں گے ان میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ۔۔۔

تمہاری تلواروں کی وجہ سے عربوں نے سرتسلیم خم کیا اور اللہ کے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں فوت ہوئے کہ وہ تم سے راضی اور خوش تھے اور ان کی آنکھیں تمہیں دیکھ کر ٹھنڈی ہوجاتی تھی لہذا تم آگے بڑھ کر اس ذمہ داری کو سنبھال لو، بجائے اس کے کہ دورے لوگ اسے اپنے ہاتھ میں لے لیں۔۔۔

سب نے مل کر جواب دیا کہ تو نے ٹھیک کہا!۔۔۔

ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ اگر قریش کے مہاجرین اس رائے کو تسلیم نہ کریں تو ہم کہیں گے کہ ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے۔۔۔

حضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ یہ پہلی کمزوری ہے۔۔۔

اسی دوران حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی کہ چند انصار، سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو کر کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہم سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے یہ بات آپ کو کسی انصاری نے بتائی تھی چنانچہ آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں معاملے سے آگاہ کیا کہ ہمارے انصاری بھائی جمع ہوئے ہیں اور اس طرح کہہ رہے ہیں آؤ ہم ان کے پاس چلیں۔۔۔

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے چل پڑے اور انہوں نے (راستہ میں) حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو اسے بھی اپنے ساتھ لے لیا اور انصار کے پاس پہنچ گئے حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ذہن میں اس موقع پر گفتگو کرنے کا خاکہ ترتیب دیا جب میں نے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اشارے سے خاموش رہنے کا حکم دیا چنانچہ آپ رضی اللہ نے اللہ کی حمد اور اس کی تعریف بیان کرنے کے بعد فرمایا۔۔۔

اللہ تعالٰی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔۔۔ الخ،،، راوی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مکمل خطبہ بیان کیا اور ان کی یہ بات بھی بیان کی کہ مہاجرین خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔۔۔

حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے، کہ ! اے انصار کے قبیلو! اپنے منصب امارت کو اپنے ہاتھ میں لے لو کیونکہ لوگ تمہارے ساے اور تمہارے کیمپ میں ہیں اور کوئی شخص تمہاری مخالفت کی جرآت نہیں کرے گا اور لوگ تمہاری رائے سے انحراف بھی نہیں کریں گے کیونکہ تم جاہ وحشمت اور مال ودولت والے ہو اور اکثریت تمہارے پاس اگر وہ تمہاری خلافت کو تسلیم نہ کریں تو تم انہیں یہاں سے نکال دو اور امور خلافت اپنے ہاتھ میں لے لو اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔۔۔ اللہ کی قسم تم ان کی نسبت منصب خلافت کے زیادہ حقدار ہو کیونکہ لوگوں نے اس دین کو قبول کیا ہے تو تمہاری تلواروں کے صدقے سے کیا ہے۔۔۔

ان جذیلھا المحکک وعذیقھا المرجب
یعنی میں صائب الرائے ہوں اور تمہاری خیر خواہی سوچتا ہوں اگر تم نے میری بات نہ مانی تو پچھتاؤ گے (جذیل محکک لکڑی کے اس تنے کو کہت ہیں جو اونٹوں کے باڑے میں اس لئے گاڑا جاتا ہے کہ خارش والے اونٹ اس سے کھجلا کر سکون حاصلکریں اور عذیق کھجور کے چھوٹے پودے کو کہتے ہیں اور مرجب پتھر کی حفاظتی باڑ کو کہتے ہیں اور یہ محاورہ اس سوقت بولا جاتا ہے جب آدمی اپنی رائے کی عظمت بیان کرے اور اس پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے خسارے سے ڈرائے (دیکھئے النہایہ فی غریب الحدیث جلد ٢ صفحہ ١٩٧)۔۔۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ! اپنا ہاتھ بڑھاؤ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں، جب دونوں بیعت کے لئے اٹھے تو بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر ان سے پہلے بیعت کرلی جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت مکمل ہوگئی تو (عقبہ ثانیہ کے) نقیب حضرت اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر کھڑے ہوئے اور کہا کہ " اللہ کی قسم اگر ایک مرتبہ خزرج تمہارے سربراہ بن گئے تو ہمیشہ کے لئے ان کو تمہارے اوپر فضیلت رہے گی

پھر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! اگر میرے اندر اٹھنے کی طاقت ہوتی تو زمین کے راستوں اور گوشے گوشے میں تو میری ایسی دھاڑ سنتا جو تجھے اور تیرے ساتھیوں کو زخمی کردیتی اللہ کی قسم اب میں تجھے اس قوم سے ملا کر جس میں تیری حیثیت متبوع کی بجائے تابع کی ہوگی، مجھے اس جگہ سے اٹھا لو۔۔۔

چنانچہ انہوں نے اسے اٹھایا اور گھر لے گئے چند دن خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا! اللہ کی قسم! جب تک میرے گھروالے اور میرے قبیلے والے میری اطاعت کرتے رہیں گے اس وقت تک میں اپنے ترکش سے تم پر تیر پھینکتا رہوں گا اور اپنے نیزے کے پھل خون آلود کرتا رہوں گا اور جب تک میرے ہاتھوں میں طاقت رہی میں اپنی تلوا سے تمہیں مارتا رہوں گا۔۔۔

روای کہتا ہے کہ اس کے بعد نہ تو سعد رضی اللہ نے ان کے ساتھ نماز پڑھی نہ ان کے ساتھ وہ جمعہ ادا کرتا اور حج کرتا تو ان کے ساتھ اضافہ نہ کرتا چنانچہ جب تک ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت نہیں ہوئے اس وقت تک وہ اسی طرح کرتارہا ( تاریخ جریر طبری جلد ٢ صفحہ ٤٥٥ مختصرا)۔۔۔

اب اس سلسلے میں امام بخاری کی روایت پڑھو اور اس کا ابومخنف (رافضی) کی روایت سے موازنہ کرو۔۔۔
امام بخاری کی روایت

صحیح بخاری
کتاب المحاربین

حدیث نمبر : 6830​
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثني إبراهيم بن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن صالح،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عباس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال كنت أقرئ رجالا من المهاجرين منهم عبد الرحمن بن عوف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فبينما أنا في منزله بمنى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وهو عند عمر بن الخطاب في آخر حجة حجها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إذ رجع إلى عبد الرحمن فقال لو رأيت رجلا أتى أمير المؤمنين اليوم فقال يا أمير المؤمنين هل لك في فلان يقول لو قد مات عمر لقد بايعت فلانا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فوالله ما كانت بيعة أبي بكر إلا فلتة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فتمت‏.‏ فغضب عمر ثم قال إني إن شاء الله لقائم العشية في الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمحذرهم هؤلاء الذين يريدون أن يغصبوهم أمورهم‏.‏ قال عبد الرحمن فقلت يا أمير المؤمنين لا تفعل فإن الموسم يجمع رعاع الناس وغوغاءهم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإنهم هم الذين يغلبون على قربك حين تقوم في الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأنا أخشى أن تقوم فتقول مقالة يطيرها عنك كل مطير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأن لا يعوها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأن لا يضعوها على مواضعها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأمهل حتى تقدم المدينة فإنها دار الهجرة والسنة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فتخلص بأهل الفقه وأشراف الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فتقول ما قلت متمكنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيعي أهل العلم مقالتك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ويضعونها على مواضعها‏.‏ فقال عمر أما والله إن شاء الله لأقومن بذلك أول مقام أقومه بالمدينة‏.‏ قال ابن عباس فقدمنا المدينة في عقب ذي الحجة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما كان يوم الجمعة عجلنا الرواح حين زاغت الشمس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حتى أجد سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل جالسا إلى ركن المنبر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجلست حوله تمس ركبتي ركبته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم أنشب أن خرج عمر بن الخطاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما رأيته مقبلا قلت لسعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ليقولن العشية مقالة لم يقلها منذ استخلف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأنكر على وقال ما عسيت أن يقول ما لم يقل‏.‏ قبله فجلس عمر على المنبر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما سكت المؤذنون قام فأثنى على الله بما هو أهله قال أما بعد فإني قائل لكم مقالة قد قدر لي أن أقولها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا أدري لعلها بين يدى أجلي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمن عقلها ووعاها فليحدث بها حيث انتهت به راحلته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومن خشي أن لا يعقلها فلا أحل لأحد أن يكذب على،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق وأنزل عليه الكتاب فكان مما أنزل الله آية الرجم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقرأناها وعقلناها ووعيناها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأخشى إن طال بالناس زمان أن يقول قائل والله ما نجد آية الرجم في كتاب الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إذا قامت البينة أو كان الحبل أو الاعتراف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم إنا كنا نقرأ فيما نقرأ من كتاب الله أن لا ترغبوا عن آبائكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أو إن كفرا بكم أن ترغبوا عن آبائكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ألا ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تطروني كما أطري عيسى ابن مريم وقولوا عبد الله ورسوله ‏"‏‏.‏ ثم إنه بلغني أن قائلا منكم يقول والله لو مات عمر بايعت فلانا‏.‏ فلا يغترن امرؤ أن يقول إنما كانت بيعة أبي بكر فلتة وتمت ألا وإنها قد كانت كذلك ولكن الله وقى شرها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليس منكم من تقطع الأعناق إليه مثل أبي بكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ من بايع رجلا عن غير مشورة من المسلمين فلا يبايع هو ولا الذي بايعه تغرة أن يقتلا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنه قد كان من خبرنا حين توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم إلا أن الأنصار خالفونا واجتمعوا بأسرهم في سقيفة بني ساعدة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وخالف عنا علي والزبير ومن معهما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ واجتمع المهاجرون إلى أبي بكر فقلت لأبي بكر يا أبا بكر انطلق بنا إلى إخواننا هؤلاء من الأنصار‏.‏ فانطلقنا نريدهم فلما دنونا منهم لقينا منهم رجلان صالحان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فذكرا ما تمالى عليه القوم فقالا أين تريدون يا معشر المهاجرين فقلنا نريد إخواننا هؤلاء من الأنصار‏.‏ فقالا لا عليكم أن لا تقربوهم اقضوا أمركم‏.‏ فقلت والله لنأتينهم‏.‏ فانطلقنا حتى أتيناهم في سقيفة بني ساعدة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا رجل مزمل بين ظهرانيهم فقلت من هذا فقالوا هذا سعد بن عبادة‏.‏ فقلت ما له قالوا يوعك‏.‏ فلما جلسنا قليلا تشهد خطيبهم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال أما بعد فنحن أنصار الله وكتيبة الإسلام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأنتم معشر المهاجرين رهط،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقد دفت دافة من قومكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا هم يريدون أن يختزلونا من أصلنا وأن يحضنونا من الأمر‏.‏ فلما سكت أردت أن أتكلم وكنت زورت مقالة أعجبتني أريد أن أقدمها بين يدى أبي بكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكنت أداري منه بعض الحد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما أردت أن أتكلم قال أبو بكر على رسلك‏.‏ فكرهت أن أغضبه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فتكلم أبو بكر فكان هو أحلم مني وأوقر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والله ما ترك من كلمة أعجبتني في تزويري إلا قال في بديهته مثلها أو أفضل منها حتى سكت فقال ما ذكرتم فيكم من خير فأنتم له أهل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولن يعرف هذا الأمر إلا لهذا الحى من قريش،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هم أوسط العرب نسبا ودارا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقد رضيت لكم أحد هذين الرجلين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فبايعوا أيهما شئتم‏.‏ فأخذ بيدي وبيد أبي عبيدة بن الجراح وهو جالس بيننا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم أكره مما قال غيرها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كان والله أن أقدم فتضرب عنقي لا يقربني ذلك من إثم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أحب إلى من أن أتأمر على قوم فيهم أبو بكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم إلا أن تسول إلى نفسي عند الموت شيئا لا أجده الآن‏.‏ فقال قائل من الأنصار أنا جذيلها المحكك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعذيقها المرجب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ منا أمير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومنكم أمير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يا معشر قريش‏.‏ فكثر اللغط،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وارتفعت الأصوات حتى فرقت من الاختلاف‏.‏ فقلت ابسط يدك يا أبا بكر‏.‏ فبسط يده فبايعته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبايعه المهاجرون،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم بايعته الأنصار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ونزونا على سعد بن عبادة فقال قائل منهم قتلتم سعد بن عبادة‏.‏ فقلت قتل الله سعد بن عبادة‏.‏ قال عمر وإنا والله ما وجدنا فيما حضرنا من أمر أقوى من مبايعة أبي بكر خشينا إن فارقنا القوم ولم تكن بيعة أن يبايعوا رجلا منهم بعدنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإما بايعناهم على ما لا نرضى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإما نخالفهم فيكون فساد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمن بايع رجلا على غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو ولا الذي بايعه تغرة أن يقتلا‏.‏
ترجمہ داؤد راز
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے صالح بن کیسان نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں (سنہ 23 ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیونکہ واللہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر وہ مکمل ہو گئی تھی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت غصہ ہوئے اور کہا میں انشاءاللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا یا امیرالمؤمنین ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لئے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے (مسجدنبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ آج حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کرنے کے بعد فرمایا امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہئے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچادے جہاںتک اس کی سواری اسے لے جا سکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود (اپنے زمانہ میں) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کربیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہو جائے یاحمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کر لے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔ ہاں اور سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھاکر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن مریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھاکر تعریفیں کی گئیں (ان کو اللہ کو بیٹا بنا دیا گیا) بلکہ (میرے لیے صرف یہ کہو کہ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمرکا انتقال ہو گیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوادیں گے اور سن لو بلاشبہ جس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور خدا کی قسم وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزا وار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکرنے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن ماردی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکادے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذریوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈرگیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم حضرت سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کربیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑجاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔

یہ ہے سقیفہ بنی ساعدہ کی روئیداد جو حضرت عمر نے بیان کی جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ صحیح بخاری نے طبری کے مقابلے میں قصہ سقیفہ بنی ساعدہ کو مختصر بیان کیا ہے ، کیا صحیح بخاری کی اس روایت کو ملاحظہ فرمانے کے بعد بھی آپ ایسے مختصر گمان فرما سکتے ہیں ؟؟
امام طبری کی خطاء یہ کہ حضرت عمر کے اس قول کہ " اللہ سعد بن عبادکا خون کرے گا " کے جواب میں جو کچھ حضرت سعد بن عبادہ نے فرمایا اس کو بھی نقل کردیا جبکہ امام بخاری نے حضرت عمر کی عزت رکھنے کے لئے وہ بیان نہیں کیا اور ایسا امام بخاری نے اپنی صحیح میں کو ئی ایک بار نہیں کیا بلکہ کتاب تیمم میں بھی کیا ہے

امام مسلم نے باب تمیم میں ابزی کی ایک روایت کو نقل کیا ہے جس میں جب ایک جنبی شخص نے حضرت عمر سے پوچھا کہ میں جنبی ہوگیا ہوں اور مجھ پانی نہیں ملا اب کیا کروں تو حضرت عمر نے کہا کہ نماز نہیں پڑھ پھر حضرت عمار نے انھیں یاد دلایا کہ ایسی ہی صورت حال ہم دونوں کے ساتھ ہوئی تھی آپ نے نماز نہیں پڑھی مگر میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھ لی جب میں رسول اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ بیان کیا اس پر رسول اللہ ﷺ نے تیمم کرنے کا طریقہ تعلیم فرمایا لیکن اس کے باوجود حضرت عمر حضرت عمار کی بیان کی ہوئی حدیث سے مطمئن نہیں ہوئے

یہ تو ہوا امام مسلم کی بیان کی گئی روایت کا مفہوم لیکن جب ابزی سے روایت کی گئی حدیث کو امام بخاری کے بیان کیا تو حضرت عمر کی عزت رکھنے کے لئے اس روایت میں حضرت عمر کی جانب سے جو کہا گیا وہ بیان نہیں کیا کچھ اس طرح
صحیح بخاری
کتاب التیمم
حدیث نمبر: 338​
حدثنا آدم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا الحكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ذر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال جاء رجل إلى عمر بن الخطاب فقال إني أجنبت فلم أصب الماء‏.‏ فقال عمار بن ياسر لعمر بن الخطاب أما تذكر أنا كنا في سفر أنا وأنت فأما أنت فلم تصل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأما أنا فتمعكت فصليت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فذكرت للنبي صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنما كان يكفيك هكذا ‏"‏‏.‏ فضرب النبي صلى الله عليه وسلم بكفيه الأرض،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ونفخ فيهما ثم مسح بهما وجهه وكفيه‏.‏
ترجمہ داؤد راز
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حکم بن عیینہ نے بیان کیا، انھوں نے ذر بن عبداللہ سے، انھوں نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے، وہ اپنے باپ سے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی نہیں ملا (تو میں اب کیا کروں) اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ سفر میں تھے، ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ پوٹ لیا، اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے بس اتنا ہی کافی تھا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر انہیں پھونکا اور دونوں سے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا۔​
اس سے یہ نتیجہ نکلتا کہ چونکہ امام بخاری حضرت عمر کی عزت رکھنے کے لئے احادیث میں ان کے وہ اقوال جن سے حضرت عمر کی عزت پر آنچ آتی وہ بیان نہیں کرتے اس لئے بہتر ہے کہ امام طبری کے بیان پر ہی بھروسہ کیا جائے کیونکہ حضرت عمر کی اتنی بڑی بات پر حضرت سعد بن عبادہ نے جواب نہ دیا ہو یہ ممکن نہیں جبکہ حضرت سعد بن عبادہ اس وقت تمام انصار کے سردار تھے یہ وہی انصار ہیں جو رسول اللہﷺ کی نصرت کرتے ہوئے کفار قریش کا جنگوں میں بھرکس نکل چکے تھے ۔​
صحیح بخاری میں بیان ہوئے سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ کے منتخب نکات پر بات اگلی پوسٹ میں ان شاء اللہ​
بشرط یہ کہ یہ پوسٹ ڈیلیٹ نہ کی گئی تو !!!​
والسلام​
 

Abdul_Haq

مبتدی
شمولیت
جنوری 19، 2018
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
29
اس کا مطلب ہے خاص بیعت ایک دن پہلے ہی ہوچکی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے چند لمحوں بعد ۔۔۔ اور امام بخاری کے مطابق حضرت عمر کو اس دن حضرت ابو بکر کی خلافت سے سے ذیادہ کوئی چیز عزیز نہیں تھی ۔۔۔۔اس لئے وہ جب تک ابو بکر نہیں آئے تب تک ہاتھ میں تلوار لئے یہ اعلان کرتے رہے کہ جس نے بھی کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا میں اس کی گردن مار دوں گا اور حضرت ابو بکر کے آتے ہیں سب غم بھول کر حضرت ابو بکر کا ہاتھ تھام سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف چل پڑے کہ کہیں انصار کسی اور کو خلیفہ نہ چن لیں اور ان کی اس دن کی سب سے بڑی آرزو پوری نہ ہو سکے یہ وہ حقائق ہیں جو امام بخاری نے ہی بیان کئے ہیں مگر آپ حضرات ان سے صرف نظر فرماتے ہیں
ابوبکر،عمراور عبیدہ بن جراح رضہ سقیفہ میں نبی ﷺ کے حکم کو نافض کرنے گئے تھے۔


جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” یہ دین بارہ خلفاء تک برابر غالب رہے گا “ لوگوں نے یہ سن کر اللہ اکبر کہا ، اور ہنگامہ کرنے لگے پھر آپ نے ایک بات آہستہ سے فرمائی ، میں نے اپنے والد سے پوچھا : ابا جان ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ؟ کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ” یہ سب قریش میں سے ہوں گے “ ۔ https://sunnah.com/abudawud/38/2

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ خلافت اس وقت تک قریش کے ہاتھوں میں باقی رہے گی جب تک کہ ان میں دو آدمی بھی باقی رہیں ۔ https://sunnah.com/bukhari/61/11

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا کہ محمد بن جبیر بن مطعم بیان کرتے تھے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تک یہ بات پہنچی جب وہ قریش کی ایک جماعت میں تھے کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ عنقریب ( قرب قیامت میں ) بنی قحطان سے ایک حکمراں اٹھے گا ۔ یہ سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے ، پھر آپ خطبہ دینے اٹھے اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا کے بعد فرمایا : لوگو ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو نہ تو قرآن مجید میں موجود ہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ، دیکھو ! تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں ، ان سے اور ان کے خیالات سے بچتے رہو جن خیالات نے ان کو گمراہ کر دیا ہے ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ یہ خلافت قریش میں رہے گی اور جو بھی ان سے دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سرنگوں اور اوندھا کر دے گا جب تک وہ ( قریش ) دین کو قائم رکھیں گے ۔ https://sunnah.com/bukhari/61/10

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزا وار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو ۔ ابوبکرنے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔https://sunnah.com/bukhari/86/57
 

Abdul_Haq

مبتدی
شمولیت
جنوری 19، 2018
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
29
علی رضہ کو ابوبکر رضہ کی خلافت پر اعتراض نہیں تھا بلکہ خلافت کے امور پر انکو مشاورت میں شامل نہ کرنے پر تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دوپہر کے بعد میں آپ سے بیعت کروں گا۔ چنانچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے معاملے کا اور ان کے اب تک بیعت نہ کرنے کا ذکر کیا اور وہ عذر بھی بیان کیا جو علی رضی اللہ عنہ نے پیش کیا تھا پھر علی رضی اللہ عنہ نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حق اور ان کی بزرگی بیان کی اور فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حسد نہیں تھا اور نہ ان کے فضل و کمال کا انکار مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا یہ بات ضرور تھی کہ ہم اس معاملہ خلافت میں اپنا حق سمجھتے تھے (کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا) ہمارے ساتھ یہی زیادتی ہوئی تھی جس سے ہمیں رنج پہنچا۔ مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ جب علی رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں یہ مناسب راستہ اختیار کر لیا تو مسلمان ان سے خوش ہو گئے اور علی رضی اللہ عنہ سے اور زیادہ محبت کرنے لگے جب دیکھا کہ انہوں نے اچھی بات اختیار کر لی ہے۔ http://www.islamicurdubooks.com/Sahih-Bukhari/Sahih-Bukhari.php?vfhadith_id=4901

اوپر کی حدیث سے ثابت ہوئا علی رضہ کو ابوبکر رضہ کی خلافت پر اعتراض نہیں تھا بلکہ خلافت کے امور پر انکو مشاورت میں شامل نہ کرنے پر تھا اگر کسی کو بریکٹ میں کہے الفاظ پر شق ہو تو یہ حدیث پڑھ لیں

ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو بشر بن شعیب نے خبر دی ، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ، ان سے زہری نے ، کہا مجھ کو عبداللہ بن کعب نے خبر دی اور ان کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ( مرض الموت میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے ( دوسری سند ) بخاری نے کہا اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا ، کہا مجھ کو عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے نکلے ، یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی ۔ لوگوں نے پوچھا اے ابو لحسن ! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کیسی گزاری ؟ انہوں نے کہا کہ بحمدللہ آپ کو سکون رہا ہے ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پکڑ کر کہا ۔ کیا تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے نہیں ہو ۔ ( واللہ ) تین دن کے بعد تمہیں لاٹھی کا بندہ بننا پڑے گا ۔ واللہ میں سمجھتا ہوں کہ اس مرض میں آپ وفات پا جائیں گے ۔ میں بنی عبدالمطلب کے چہروں پر موت کے آثار کو خوب پہچانتا ہوں ، اس لئے ہمارے ساتھ تم آپ کے پاس چلو ۔ تاکہ پوچھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کس کے ہاتھ میں رہے گی اگر وہ ہمیں لوگوں کو ملتی ہے تو ہمیں معلوم ہو جائے گا اور اگر دوسروں کے پاس جائے گی تو ہم عرض کریں گے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بارے میں کچھ وصیت کریں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ ! اگر ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خلافت کی درخواست کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا تو پھر لوگ ہمیں کبھی نہیں دیں گے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی نہیں پوچھوں گا کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہو ۔ https://sunnah.com/bukhari/79/40

نبی ﷺ کے بعد خلافت کا حقدار صرف علی رضہ ہونگے یہ حدیث اس بات کی واضع رد ھے لحاضہ علی رضہ کا ابوبکر رضہ سے اختلاف خلافت پر نہں بلکہ خلافت کے امور پر انکو مشاورت میں شامل نہ کرنے پر تھا
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔
یہاں دو خلیفہ سے مراد یہ نہیں کہ بیک وقت دو خلیفہ بنیں گے ایک آدمی جس کو لوگ اتنا ذہین سمجھتے ہوں وہ ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہے کہ نظام کو چلانے کے لئے دو سربراہ ایسا ممکن نہیں ہے اس سے اصل مراد یہ ہے کہ باری مقرر کی جائے ایک بار قریش کی طرف سے خلیفہ ہو اور دوسری باری انصار میں سے خلیفہ چنا جائے تاکہ کسی کی طرف سے کوئی زیادتی نہ ہو پائے واللہ اعلم
 
Top