• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلامی خطبات 8۔ ایمان اور عمل صالح کا بیان

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خطبہ ــ 8
ایمان اور عمل صالح کا بیان
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین۔ ھدی للمتقین الذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلوۃ ومما رزقنا ھم ینفقون۔ والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاخرۃ ھم یوقنون اولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحون والصلوۃ والسلام علی سیدالمرسلین وعلی الہ واصحابہ اجمعین۔ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ط اِنَّ اللہَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ(حج:۱۴)
(ترجمہ) سب تعریف اس اللہ عزوجل کے لیے ہے، جو سارے جہان کا پرورش کرنے والا ہے، پرہیز گاروں کے لیے ہدایت کرنے والا ہے، جو بن دیکھے خدا پر ایمان رکھتے ہیں، اور اطمینان سے نماز پڑھتے ہیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے خرچ کرتے ہیں، اور اس کتاب قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اور آخرت کے ہونے پر یقین کرتے ہیں، یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں،اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں، اور درود و سلام نازل ہوں تمام رسولوں کے سردار پر، ا ور آپﷺ کے سب ا ہل و عیال اور تمام اصحاب پر۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،ایمان ا ور نیک عمل کرنے والے مومنوں کو اللہ تعالیٰ بہتی نہروں والی جنتوں میں داخل کرے گا، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔​
انسان کی فلاح و کامیابی دو چیزوں پر موقوف ہے(۱) ایمان (۲) عمل صالح ، مگر افسوس عام طور پر لوگ اب ان دونوں میں سست نظر آتے ہیں، بعض میں کچھ ایمان ہے، تو عمل بالکل نہیں، اگر کچھ عمل ہے تو صحیح ایمان نہیں، حالانکہ ایمان و عملِ صالح لازم و ملزوم کی سی حیثیت رکھتے ہیں، ان دونوں کے پائے جانے کے بعد انسان دین و دنیا میں تمام مشکلات و مصائب سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔
دنیاوی کامیابی بھی صرف ذہنی تخیل سے نہیں ہوسکتی، جب تک کہ اس کے مطابق کام نہ کیا جائے صرف اتناتسلیم کرنے سے کہ روٹی سے بھوک جاتی رہتی ہے، بھوک بند نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس روٹی کے حاصل کرنے کے لیے کوشش نہ کی جائے، اس کے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد بھی کرنی پڑے گی اور خاص طریقے سے پکاکر کھانا بھی پڑے گا، ان تمام مرحلوں کے طے کرنے کے بعد بھوک کا علاج ہوگا، حج کا تصور کر لینے سے حج نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے، اور چل کر وہاں نہ پہنچیں گے، دنیا کی عدالتوں ہی کی مثال لے لیجیے کہ آپ جس حکومت میں رہتے ہیں، اس کے قوانین کی تصدیق و تسلیم ہی سے آپ اس حکومت کی زمین میں نہیں رہ سکتے ، بلکہ تسلیم و تصدیق کے بعد ان قوانین کو برتنے کی ضرورت ہے، اگر ایسا ہو، کہ قانون تسلیم کر کے عمل نہ کریں، یا خلاف قانون عمل کریں، تو آپ کا شمار باغیوں میں ہوگا، اور آپ کیفرکردار تک پہنچا دیئے جائیں گے۔
بالکل اسی طرح اخروی عدالت میں بھی نجات کا یہی حال ہے، کہ جب تک ایمان اور عمل صالح دونوں کو ساتھ ساتھ وجود میں نہ لایا جائے فلاح غیر ممکن ہے، ایمان کی پوری تفصیل اس سے پہلے خطبوں میں آچکی ہے، اب ہم عمل صالح کی طرف اجمالی ا شارہ کر رہے ہیں، عمل صالح کا مفہوم بہت وسیع ہے اس کے اندر انسانی اعمال خیر کے تمام گوشے اور جزئیات داخل ہیں، اور ہر قسم کے نیک اور ا چھے کام شامل ہیں، جیسے سچائی، پاک بازی ، دیانتداری ، امانتداری، شرم وحیا، عدل و انصاف ، حلم اور بردباری ، رحم و کرم ، تواضع و خاکساری، احسان، عفو، درگزر،ایثار، اخلاص، مودت و محبت ، مہمان نوازی ، تیمارداری، بیوہ اور یتیم کے ساتھ حسن سلوک اورحاجت مندوں کی حاجت برآری اور خلق خدا کی خدمت اور خالق کی عبادت وغیرہ سب عمل صالح کی شاخیں ہیں ، غرض ہروہ نیک کام جو خدا کی خوشنودی کے لیے کیا جائے عمل صالح ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قرآن مجید میں ایمان کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ عمل صالح کو ضرور بیان کیا گیا ہے، جس کا یہی مقصد ہے کہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ہونا ضروری ہے، بغیر عمل صالح کے ایمان کا ا عتبار نہیں ہے، اسلامی صداقت کی یہ ایک بڑی دلیل ہے، کہ یہ افراط و تفریط سے خالی ہے، انسانی نجات نہ صرف ایمان پر ہی موقوف رکھی ہے، جیسا کہ عیسائیوں میں ہے، اور صرف نیکوکاری و تپسیا سے نروان کا درجہ ملتا ہے، جیسا کہ بعض مذہبوں میں ہے، بلکہ ان دونوں کی اہمیت اور اس کی جزا و ثواب کی بابت قرآنی آیتوں کو سنیے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۰ۭ (البقرہ:۲۵)
اور آپ ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے، کہ یقیناً ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔
یعنی خدا اور رسولﷺ کی تصدیق کرنے اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے ا یسے عالی شان باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، اور وہاں ہر قسم کا عیش و آرام ہے۔
(۲) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۔ (البقرہ:۶۲)
یقینا جو لوگ مومن ہیں ا ور جو یہودی ہوئے، اور نصاریٰ، اور بے دین ہیں (ان میں سے)جو بھی اللہ اور قیامت پر ایمان لائے اور عمل صالح کیے، تو ان کے لیے ان کے رب کے پاس ثواب ہے اور نہ ان کو کچھ ڈر ہے، اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
حافظ ابن کثیرؒ اس آیت کریمہ کی یہ تفسیر بیان فرماتے ہیں، کہ خدا کو کسی کی ذات سے عداوت اور دشمنی نہیں ہے، ا ور نہ خاندانی و جاہت و پستی کا اس کے نزدیک کوئی اعتبار ہے، ا ور نہ کوئی امتیاز بلکہ ایمان اور عمل صالح پر دارومدار ہے، کوئی بھی ہو ، رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانے کے مومن ہوں یا دور اسرائیلی کے یہودی یا عہد عیسیٰ ؑ کے نصاریٰ ہوں، یا اپنے زمانے کے صابی، بہرحال کسی کا بھی زبانی دعویٰ معتبر نہیں ہے، بلکہ ان میں سے جس کا خالص ایمان خدا اور قیامت پر ہوگا،اور اعمال نیک ہوں گے، تو اس کے لیے خدا کے یہاں ضرور اچھا بدلہ ہے، نہ وہاں خوف ہے، ا ور نہ رنج و غم ہوگا۔
آیت نے یہ بھی بتایا، کہ کامیابی کسی فرقے پر موقوف نہیں ہے، ایمان اور عمل صالح ہر فرقے کے لیے اپنے اپنے وقت میں شرط ہے، جس نے جوکیا وہ کامیاب ہوا، یہ اس کے لیے فرمایا گیا، کہ بنی اسرائیل خود کو اولاد پیغمبرکہہ کر غرور کیا کرتے تھے، اور نصاریٰ کو امت عیسیٰ ؑ ہونے پر گھمنڈ و غرور تھا، صابئین بھی ایک فرقہ تھا، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانتا تھا۔ (موضح القرآن)
حقیقت یہی ہے، کہ خدا کے یہاں حسب و نسب کی پوچھ نہیں ہے، وہاں عمل صالح ہی کی پوچھ ہے جس کا ایمان صحیح ہے، ا ور عملِ صالح موجود ہے، وہی خدا کا مقرب اور حبیب بارگاہ قدسی ہے خواہ حسب و نسب کے اعتبار سے کیسا ہی ہو ۔
دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
دیکھئے حضرت نوح علیہ السلام کے نافرمان بیٹے کا کیا حشر ہوا، عمل صالح نہ ہونے کی وجہ سے (انہ عمل غیر صالح) وہ خاندان نبوت سے الگ ہو کر غرق آب ہوا، خاندانی نسب نہ بچا سکا۔
چوں کنعاں را طبیعت بے ہنر بود
پیمبر زادگی قدرش بیفزود
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی خیانت اور غیر عمل صالح کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئی، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۝۰ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ
اللہ نے کافروں کے لیے نوح اور لوط کی بیوی کی کہاوت بیان فرمائی ہے، کہ یہ دونوں ہمارے صالح بندوں کے گھر میں تھیں، ان دونوں نے ان کی نافرمانی کی، پس یہ دونوں صالح بندے ان دونوں غیر صالح عورتوں کو خدا کے عذاب سے نہ بچا سکے ا ور حکم دیا گیا، ان دونوں عورتوں کو دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ دوزخ میں داخل کرو۔(التحریم:۱۰)
حالانکہ یہ دونوں عورتیں دونبیوں کے نکاح میں تھیں، ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی تھیں، مگر ایمان اور عمل صالح کے نہ ہونے کی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوئیں۔
حضرت آسیہ علیہا السلام فرعون کافر کی بیوی تھیں، لیکن ایمان اور عمل کی وجہ سے جنت الفردوس میں داخل ہوئیں، سچ ہے ا للہ تعالیٰ شکل و صورت اور مال و دولت کو نہیں دیکھتا، بلکہ تقویٰ اور عمل صالح ہی کو دیکھتا ہے، جو بھی ان دونوں خوبیوں سے متصف ہوگا، وہی خدا کے نزدیک پیارا ہے، فرمایا:
وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَھُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ نَقِيْرًا۔ (النساء:۱۲۴)
اور جو مرد اور عورتیں کچھ نیک کام کریں، بشرطیکہ وہ مومن ہوں، تو وہ جنت میں داخل ہوں گے، اور تل برابر ان پر ظلم نہ ہوگا۔
یعنی جو مرد یا عورت، ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کرے، وہ جنتی ہے، اور ذرہ برابر ان پر ظلم نہ کیا جائے گا، یہی ایمان اور عمل صالح دیدار و لقاء الٰہی کا سبب بنے گا،فرمایا:
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا۔ (کہف:۱۱۰)
جسے اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے عمل صالح کرنا چاہیے، اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔
اسی ا یمان اور عمل صالح کی ہر جگہ ضرورت ہے، اور ہر شخص سے ان ہی دونوں کا مطالبہ ہے زندگی ایک مسلسل جہاد ہے، اور ایمان و عمل صالح اس جہاد میں کام آنے والے فولادی ہتھیار ہیں بالکل درست کہا ہے اقبال مرحوم نے :
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
ایمان اور عمل صالح پر قرآن مجید میں جتنا زور دیا گیا ہے، غالباً اتنا زور دوسرے مسئلوں پر نہیں دیا گیا ہوگا، کوئی سورت الذین امنوا وعملوا الصلحت سے غالباً خالی نہیں ہوگی، اب آپ الذین امنوا وعملوا الصلحتط والی آیتوں کو ترجمہ سمیت پڑھ کر ایمان کو تازہ کیجیے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۱) وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۔(البقرہ:۸۲)
جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ، اور اچھے اچھے کام کیے ہیں یہی لوگ جنتی ہیں اور ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔
(۲) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۲۷۷ (البقرہ:۲۷۷)
تحقیق جو لوگ ایمان لائے ، اور عمل صالح کیے اور نماز کوقائم کیا، اور زکوۃ ادا کی، ان کے لیے ان کے رب کے پاس ثواب ہے، اور نہ انہیں خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
(۳) وَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُوَفِّيْہِمْ اُجُوْرَھُمْ۝۰ۭ (آل عمران:۵۷)
جو لوگ ایمان لے آئے، اور اچھے کام کیے، ان کو اللہ تعالیٰ پورا پورا اجر عطا فرمائے گا۔
(۴) وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَـنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَآ اَبَدًا۔ (النساء:۵۷)
اور جو لوگ ایمان لے آئے اورانہوں نے ا چھے کام کیے تو ہم عنقریب ان کو ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن میں نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
(۵) وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ہَضْمًا۔ (طہ:۱۱۲)
جو نیک عمل کرے گا، اور وہ ایماندار بھی ہو، تو اسے نہ بے انصافی کا خوف ہوگا، اور نہ نقصان کا ڈر ہوگا۔
(۶) فَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِہٖ۝۰ۚ وَاِنَّا لَہٗ كٰتِبُوْنَ۝۹۴ (الانبیاء:۹۴)
جو مومن نیک عمل کرے گا، تو اس کی کوشش و محنت کی ناقدری نہ ہوگی، اور اس کے عملوں کو ہم لکھنے والے ہیں۔
(۷) فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ(حج:۵۰)
ایمانداروں اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے بخشش ہے، اور عمدہ روزی ہے۔
(۸) یٰٓاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ (المؤمنون:۵۱)
اے رسولو! پاکیزہ اور حلال چیزوں کو کھاؤ ، ا ور عمل صالح کرو، میں تمہارے عملوں سے خوب واقف ہوں۔
(۹) اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللہُ سَـيِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔ (الفرقان:۷۰)
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا، اور نیک عمل کیے تو اللہ تعالیٰ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(۱۰) فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِيْنَ۔ (القصص:۶۷)
جس نے توبہ کی، اور ایمان لے آیا ا ور عمل صالح کیے، تو ممکن ہے کہ فلاح پانے والوں میں سے ہو جائے۔
(۱۱) وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَــنُدْخِلَنَّہُمْ فِي الصّٰلِحِيْنَ۔ (العنکبوت:۹)
جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے، ہم ان کو نیک لوگوں میں داخل کریں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۱۲) وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ (السجدہ :۱۲)
اور اگر آپ مجرموں کو دیکھیں ، جب کہ وہ اپنے رب کے سامنے سرنگوں ہوںگے تو عجیب حالت دیکھیں گے وہ مجرم کہیں گے اے ہمارے رب: ہم نے دیکھ اور سن لیا اب دوبارہ دنیا میں ہم کو لوٹا دے ہم دنیا میں عمل صالح کر آئیں، اب ہمیں یقین ہو گیا ہے۔
(۱۳) اِلَيْہِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُہٗ۝۰ۭ (الفاطر:۱۰)
اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں، اور وہی عمل صالح کو بلند فرماتا ہے۔
(۱۴) وَہُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْہَا۝۰ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ۔ (الفاطر:۳۷)
اور نافرمان لوگ دوزخ میں شور مچائیں گے، اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار تو ہم کو یہاں سے نکال دے جو عمل ہم کرتے رہے ان کو چھوڑ کر نیک عمل کر کے آئیں گے۔
(۱۵) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاخٰلِدِيْنَ فِيْہَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا۔ (کہف:۱۰۸۔۱۰۷)
تحقیق جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور نیک عمل کیے ہیں، ان کی مہمانی کے لیے جنت الفردوس ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اور کبھی بھی یہاں سے نکلیں گے نہیں۔
اس قسم کی اور بہت سی آیتیں ہیں، جن میں ایمان اور عمل صالح والے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخرت میں رحمت ، مغفرت ، فردوس اور جنت کی نعمتوں کی بڑی بڑی بشارتیں دی گئی ہیں، آخرت میں عمل صالح کرنے والوں کو جو کچھ ملے گا، وہ تو یقینی امر ہے، لیکن اس کے علاوہ دنیا ہی میں ان دونوں یعنی ایمان اور عمل صالح کی بدولت بڑی بڑی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں، جن کا بیان قرآن مجید میں متعدد جگہ مختلف لفظوں سے آیا ہے، دنیا کی تمکنت، خلافت، نیابت، سلطنت اور امارت اسی ایمان اور عمل صالح سے دستیاب ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۱۶) وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۝۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔(النور:۵۵)
ایماندار اور عمل صالح والوں سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، کہ انہیں ضرور بالضرور ملک کا حاکم بنا دے گا، جیسا کہ ان لوگوں کو بنا دیا تھا، جو ان سے پہلے تھے، اور یقینا ان کے لیے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جمادے گا جسے ان کے لیے پسند فرما چکا ہے، اور ان کے خوف و خطر کو امن و امان سے بدل دے گا، اگر میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر ائیں گے، اس کے بعد جو میری ناشکری کرے گا، وہ یقینا نافرمان ہی نافرمان ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یعنی اللہ نے نیک عمل کرنے والے ایمان داروں سے وعدہ فرمایا ہے، کہ ان کو زمین کا مالک بنا دے گا لوگوں کا حاکم اور بادشاہ مقرر فرما دے گا، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا، بندگان خدا ان سے دل شاد ہوں گے۔ آج یہ لوگوں سے لرزاں و تر ساں ہیں، کل یہ باامن و اطمینان ہوں گے، حکومت ان کی ہوگی ، سلطنت ان کے ہاتھوں میںہوگی، الحمد للہ یہی ہوا بھی ، مکہ ، خیبر، بحرین ، جزیرہ عرب اور یمن تو خود آنحضرت محمد مصطفی ﷺ کی موجودگی میں فتح ہوگئے، ہجر کے مجوسیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کر لی، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا، شام اور روم کے ہرقل نے تحفے روانہ کیے، مصر کے والی نے بھی خدمت اقدس میں تحفے بھیجے ، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے اور عمان کے بادشاہوں نے بھی یہی کیا، اور اس طرح اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا، حبشہ کے بادشاہ ا صحمہ تو مسلمان ہو ہی گئے تھے، اور اس کے بعد جو والی حبشہ ہوا اس نے بھی سرکار محمدی ﷺ میں عقیدت مندی کے ساتھ تحائف روانہ کیے۔
پھر جب کہ اللہ رب العزت نے اپنے محترم نبی ﷺ کو ا پنی مہمانی میں بلا لیا، آپﷺ کی خلافت صدیق اکبرؓ نے سنبھال لی ، جزیرہ عرب کی حکومت انہوں نے مضبوط اور مستقل بنالی، ساتھ ہی ایک جرار لشکر سیف اللہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی سپہ سالاری میں بلادِ فارس کی طرف بھیجا، جس نے وہاں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا، کفر کے درختوں کو چھانٹ دیا، اور اسلامی پودے ہر طرف لگا دئیے، حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓوغیرہ امراء کے ماتحت شام کے ملکوں کی طرف لشکرِ اسلام کے جانبازوں کو روانہ کیا، انہوں نے بھی یہاں محمدیﷺ جھنڈا بلند کیا، اور صلیبی نشان اوندھے منہ گرائے، مصر کی طرف مجاہدین کا لشکر حضرت عمر و بن العاصؓ کی سرداری میں روانہ فرمایا: بصرہ، دمشق، حران وغیرہ کی فتوحات کے بعد آپ بھی راہی ملک بقا ہوئے اور خدا کے الہام ہی سے حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کے زبردست اور زور آور ہاتھوں میں سلطنت اسلام کی باگیں دے گئے، سچ تو یہ ہے، کہ آسمان کے تلے کسی نبی کے بعد ایسے پاک خلیفوں کا دور نہیں ہوا۔
حضرت عمر ؓ کی قوت ، طبیعت ، آپ کی نیک سیرت ، آپ کے عدل کا کمال، آپ کی خدا ترسی کی مثال، دنیا میں آپ کے بعد تلاش کرنا محض بے سود اور لا حاصل ہے، تمام ملک شام ، پورا علاقہ مصر، اکثر حصہ فارس آپ کی خلافت کے زمانے میں فتح ہوا، سلطنت کسریٰـ کے ٹکرے اڑ گئے، خود کسریٰ کو منہ چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہ ملی، کامل ذلت اور اہانت کے ساتھ بھاگتا پھرا، قیصر کو فنا کر دیا، نام مٹا دیا، اور شام کی سلطنت سے اسے دست بردار ہونا پڑا قسطنطنیہ میں جاکر منہ چھپایا، ان سلطنتوں کی صدیوں کی جمع کی ہوئی دولت اور بے شمار خزانے ان بندگان خدا نے خدا کے نیک نفس اور مسکین خصلت بندوں پر خرچ کیے، اور خدا کے وہ وعدے پورے ہوئے، جو اس نے حبیب اکرم ﷺ کی زبانی کیے تھے۔
پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آتا ہے، اور مشرق و مغرب کی انتہا تک خدا کا دین پھیل جاتا ہے، خدائی لشکر ایک طرف اقصیٰ مشرق تک اور دوسری طرف انتہائے مغرب تک پہنچ کر دم لیتا ہے، اور مجاہدین کی آبدار تلواریں خدا کی توحید کو دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پہنچا دیتی ہیں، اندلس، قبرص، قیروان اور چین آپ کے زمانے میں فتح ہوئے، کسریٰ قتل کر دیا گیا اس کا ملک چھوڑنام و نشان تک کھو د کر پھینک دیا گیا، اور ہزارہا برس کے آتش کدے بجھا دیئے گئے اور ہر اونچے ٹیلے سے صدائے اللہ اکبر آنے لگی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دوسری جانب مدائن، عراق، خراسان اور اہواز سب فتح ہوگئے، ترکوںسے جنگ عظیم ہوئی ، آخر ان کا بڑا بادشاہ خاقان خاک میں ملا،ذلیل و خوار ہوا، اور زمین کے مشرقی اور مغربی کونوں نے اپنے اپنے خراج بارگاہ عثمانی میں پہنچا دیئے، حق تو یہ ہے، کہ مجاہدین کی ان جانبازیوں میں جان ڈالنے والی چیز حضرت عثمانؓ کی تلاوت قرآن کی برکت تھی، آپ کو قرآن سے ایسا شغف تھا جو بیان سے باہر ہے قرآن کے جمع کرنے، اس کے حفظ کرنے، اس کی اشاعت کرنے، اس کے سنبھالنے میں جو نمایاں خدمتیں خلیفہ ثالث سے ظاہر ہوئیں، وہ یقینا عدیم المثال ہیں، آپ کے زمانے کو دیکھو، اور اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی پیشین گوئی کو دیکھو کہ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی ہے، یہاں تک کہ میں نے مشرق و مغرب کو دیکھ لیا، عنقریب میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچ جائے گی، جہاں تک کہ مجھے اس وقت دکھائی گئی ہے۔ (ابن کثیر )
مسلمانو! رب کے اس وعدے کو، اور پیغمبر کی اس پیشین گوئی کو دیکھو، پھر تاریخ کے ا وراق پلٹو، اور اپنی گذشتہ عظمت و شان کو دیکھ آؤ، نظریں ڈالو کہ آج تک اسلام کا پرچم بحمد اللہ بلند ہے، اور مسلمان ان مجاہدین کرام کی مفتوح زمینوںمیں شاہانہ حیثیت سے چل پھر رہے ہیں، بیشک اللہ کے رسول سچے ہیں۔
مسلمانو! حیف ا ور صدحیف اس پر جو قرآن اور حدیث کے دائرے سے باہر نکلے، حسرت اور صد حسرت اس پر جو ا پنے آبائی ذخیرے کو غیر کے حوالے کر کے اپنے آباؤاجداد کے خون کے قطروں سے خریدی ہوئی چیز کو اپنے نالائقوں اور بے دینوں سے غیر کی بھینٹ چڑھادے، اور سکھ سے بیٹھا ا ور لیٹارہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان کامل ا ور عمل صالح کی توفیق مرحمت فرمائے ، اور دونوں جہان کی فلاح اور کامیابی سے سرخروئی عنایت فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان ولاتجعل فی قلوبنا غلاللذین امنوا ربنا انک رء وف رحیم ط وتب علینا انک انت التواب الرحیم ط ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
 
Top