Hina Rafique
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 21، 2017
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 18
- پوائنٹ
- 75
باب نمبر 1۔
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
باب: اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور وسیع بادشاہت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 1
عبیداللہ بن مقسم کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتار رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لے گا اور کہے گا: میں اللہ ہوں، پھر انگلیوں کو کھولے گا اور بند کرے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں جھومنے لگ گئے، حتی کہ میں نے دیکھا کہ منبر بھی ہچکولے کھانے لگ گیا اور مجھے یہ وہم ہونے لگا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا ہی نہ دے“۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3196
باب: اللہ تعالیٰ کے لامتناہی خزانے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 2
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، ہمہ وقت خرچ کرتے رہنے سے اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔ کیا تم اس کا اندازہ لگا سکتے ہو، جو کچھ اس نے زمین و آسمان کی تخلیق (سے لے کر اب تک) خرچ کیا؟ اس سے بھی اس کے دائیں ہاتھ (میں موجود خزانوں میں) کوئی کمی نہ آ سکی اور اس کا عرش پانی پر تھا اور دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے، جسے وہ (کسی کے حق میں) اٹھاتا ہے اور (کسی کے حق میں) جھکاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3550
باب: امور کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت کار فرما ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 3
جہینہ قبیلے کی خاتون سیدہ قتیلہ بنت صیفی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: تم لوگ شرک کرتے ہو، کیونکہ تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور تم چاہو اور تم کعبہ کی قسم اٹھاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا: ”تم کہا کرو: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو اور قسم اٹھاتے وقت کہا کرو: رب کعبہ کی قسم“۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 136
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 4
سیدہ قتیلہ بنت صفی جہنیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! تم بہترین لوگ ہو، لیکن کاش کہ تم شرک نہ کرتے ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! (بڑا تعجب ہے) وہ کیسے؟“ اس نے کہا: جب تم قسم اٹھاتے ہو تو کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اب جو آدمی بھی قسم اٹھائے وہ کعبہ کے رب کی قسم اٹھائے (نہ کہ کعبہ کی)۔“ اس نے پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم بڑے اچھے لوگ ہو، لیکن کہ کاش کہ تم اللہ کے لیے اس کا ہمسر نہ ٹھہراتے ہوتے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اگر کوئی آدمی ”ماشاء اللہ“ کہے تو وہ «ثُم شئت» “ کہے (یعنی: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1166
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 5
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخیافی بھائی سیدنا طفیل بن سخبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں خواب میں یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا، میں نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم یہودی ہیں۔ میں نے کہا: تم بہترین قوم ہو، کاش! تم عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ قرار دیتے۔ یہودیوں نے کہا: تم بھی بہترین لوگ ہو، کاش! تم یہ نہ کہتے کہ جو اللہ چاہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہے۔ پھر میں عیسائی گروہ کے پاس سے گزرا۔ میں نے ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم نصرانی ہیں۔ میں نے کہا: تم بڑے اچھے لوگ ہو، کاش! تم عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ قرار دیتے۔ انہوں نے کہا: تم بھی بہترین لوگ ہو، کاش! تم یہ نہ کہتے کہ جو اللہ چاہے اور محمد (علیہ السلام) چاہے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بعض لوگوں کو یہ خواب سنایا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا اور آپ کو بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے یہ خواب کسی کو سنایا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ جب لوگوں نے نماز ادا کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ”طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے اور تم میں سے بعض لوگوں کو بتا بھی دیا ہے۔ تم لوگ ایک کلمہ کہتے تھے، بس حیا آڑے آتی رہی اور میں تمہیں منع نہ کر سکا۔ (ابکے بعد) ایسے نہ کہا کرو کہ جو اللہ چاہے اور محمد د ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 138
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 6
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ سے کوئی بحث و مباحثہ کیا اور کہا: جو اللہ تعالیٰ چاہیں اور آپ چاہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کا ہمسر بنا دیا ہے! ایسے نہیں (کہنا چاہئے)، بلکہ یوں کہا جائے کہ جو صرف اللہ تعالیٰ چاہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 139
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 7
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی قسم اٹھائے تو یہ نہ کہے کہ «ما شاء الله وشئت» (جو اللہ اور آپ چاہیں)، بلکہ اس طرح کہا کرے: «ما شاء الله ثم وشئت» ”جو اللہ تعالیٰ چاہے اور پھر تم چاہو““۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1093
باب: اللہ تعالیٰ کی رحمت اور غضب کی وسعت اور ان کے تقاضے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 8
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت (کی وسعت) کا اندازہ ہو جائے تو تم توکل (کر کے بیٹھ جاؤ اور) کوئی عمل نہ کرو اور اگر تمہیں اس کے غضب کا اندازہ ہو جائے تو (تم یہ سمجھ لو کہ) تمہیں کوئی عمل نفع نہیں دے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2167
باب: اللہ تعالیٰ کی ذات میں نہیں، اس کے انعامات میں غور و فکر کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 9
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کرو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر مت کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1788
باب: اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت دینے کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 10
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! دشمن شکم سیر ہو کر پہنچ چکا ہے اور ہم بھوکے ہیں (کیا بنے گا)؟ انصار نے کہا: کیا ہم اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو کھلا نہ دیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زائد کھانا ہے، وہ لے آئے۔“ کوئی ایک مد لے کر آیا تو کوئی ایک صاع اور کوئی زیادہ لے کر آیا تو کوئی کم۔ پورے لشکر میں سے چوبیس صاع (تقریباً پچاس کلو گرام) جمع ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھیر کے ساتھ بیٹھ گئے، برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: ”لینا شروع کر دو اور لوٹو مت“، لوگوں نے اپنے اپنے تھیلے، بوریاں اور برتن بھر لیے، حتی کہ بعض افراد نے اپنی آستینیں باندھ کر ان کو بھی بھر لیا، وہ سب فارغ ہو گئے اور اناج ویسے کا ویسا ہی پڑا رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ حق کے ساتھ یہ دو (گواہیاں) لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی حرارت سے بچائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3221
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 11
یوسف بن عبداللہ بن سلام اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، آپ نے ایک وادی سے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور میں بھی گواہی دیتا ہوں، مزید میں یہ شہادت بھی دیتا ہوں کہ جو آدمی ایسی گواہی دے گا وہ شرک سے بری ہو جائے گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد دو شہادتیں (توحید و رسالت) ہیں۔ یہ امام نسائی کے الفاظ ہیں اور امام طبرانی نے روایت کے شروع میں یہ اضافہ کیا ہے: (انہوں نے سنا کہ) لوگ پوچھ رہے تھے: اے اللہ کے رسول! کون سے اعمال افضل ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور رسول پر ایمان لانا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اور حج مبرور کرنا، پھر سنا۔۔۔۔۔۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2897
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 12
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو انسان اس حال میں مرتا ہے کہ وہ یقین کرنے والے دل سے گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2278
باب: پانچ امور کا تعلق اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 13
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پانچ چیزیں ہیں، انہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے: بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا اور جو کچھ ماں کے پیٹ میں ہے اسے وہی جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہو کہ کس زمین میں مرے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا ہے اور صحیح خبروں والا ہے۔“ (سورۃ لقمان: 34)“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2914
باب: توحید اور اس کے تقاضے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 14
سیدنا ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”خوش ہو جاؤ، خوش ہو جاؤ، کیا تم لوگ یہ شہادت نہیں دیتے کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں؟“ صحابہ نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ قرآن ایک رسی ہے، اس کا ایک کنارہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا کنارہ تمہارے ہاتھ میں ہے، اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو، کیونکہ اس کے بعد تم ہرگز نہ گمراہ ہو سکتے ہو اور نہ ہلاک۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 713
باب: توحید کی برکتیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 15
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں صادق و مصدوق (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”نیکی کا بدلہ دس گنا یا اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہوں اور برائی کا بدلہ ایک گنا دوں گا یا اسے بھی معاف کر دوں گا۔ (اے میرے بندے!) اگر تو زمین کے لگ بھگ گناہ لے کر مجھے ملے، تو میں تجھے اتنی ہی بخشش عطا کر دوں گا، بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 128
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 16
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کہتے ہیں: جس نے ایک نیکی کی، اسے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب عطا کروں گا اور جس نے ایک برائی کی تو ایک برائی کا ہی بدلہ دوں گا یا وہ بھی معاف کر دوں گا۔ جو زمین کے لگ بھگ گناہ کرنے کے بعد مجھے اس حالت میں ملے کہ اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا رکھا ہو تو میں اسے اتنی ہی مغفرت عطا کر دوں گا۔ جو ایک بالشت میرے قریب ہو گا میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوں گا، جو ایک ہاتھ میرے قریب ہو گا میں دو ہاتھوں کے پھیلاؤ کے بقدر اس کے قریب ہوں گا اور میری طرف چل کر آئے گا میں اس کی طرف لپک کر جاؤں گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 581
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 17
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے کہ اس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو اور نہ کسی کو ناحق قتل کیا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2923
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 18
ابومالک اشجعی اپنے باپ سیدنا طارق بن اشیم رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ تعالیٰ کو یکتا و یگانہ قرار دیا اور اس کے علاوہ (سب معبودانِ باطلہ) کا انکار کر دیا، تو اس کا مال اور خون حرمت والا قرار پائے گا اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 428
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 19
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک رات کو نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چل رہے تھے، آپ کے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے سمجھا کہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی چلے۔ میں نے چاند کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے دیکھا اور پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ابوذر ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! ادھر آؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”قیامت والے روز کثیر مال و دولت والے اجر و ثواب میں کم ہوں گے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے (صدقہ کرتے ہوئے) اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھیر دیا اور اس کے ذریعے نیک اعمال کیے۔“ پھر میں آپ کے ساتھ چلتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھ جاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی ہموار زمین میں بٹھایا، جس کے ارد گرد پتھر پڑے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا: ”میرے واپس آنے تک یہاں بیٹھے رہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرہ (کالے پتھروں والی زمین) کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آ رہے تھے: ”اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے! آپ حرہ زمین کے پاس کس سے گفتگو کر رہے تھے؟ پھر آپ کو کوئی
جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبریل تھا، حرہ کے ساتھ ہی وہ مجھے ملا اور کہا: (اے محمد!) اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: جبریل! اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ میں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں اور اگرچہ اس نے شراب بھی پی ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 826
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 20
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک آدمی تھا، اس نے کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا، ماسوائے توحید کے۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے کنبے والوں سے کہا: غور سے سنو: اگر میں مر گیا تو مجھے جلا کر کوئلہ بنا دینا، پھر پیس کر نصف خشکی کی ہوا میں اُڑا دینا اور نصف سمندر میں بہا دینا۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر آ گیا تو وہ مجھے ایسا شدید عذاب دے گا جو جہانوں میں کسی کو نہ دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو انہوں نے ایسے ہی کیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے خشکی کو حکم دیا، اس نے اس کے ذرات جمع کر دئیے اور سمندر کو حکم دیا، اس نے بھی اس کے اجزا جمع کر دئیے، اچانک (اسے وجود عطا کیا گیا اور) وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں کھڑا نظر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: ابن آدم! تجھے تیرے کیے پر کس چیز نے اکسایا تھا؟ اس نے کہا: اے میرے رب! (میں نے سارا کچھ) تیرے ڈر سے (کروایا)، اور تو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے ڈرنے کی وجہ سے معاف کر دیا، حالانکہ اس کا کوئی نیک عمل نہیں تھا، ماسوائے توحید کے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3048
باب: تمام اعمال کی بنیاد توحید ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 21
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عاص بن وائل نے دور جاہلیت میں نظر مانی کہ وہ سو اونٹ ذبح کرے گا (لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے مر گیا)، اس کے بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دئیے تھے اور دوسرے بیٹے سیدنا عمرو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیرے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا اور تو اس کی طرف سے روزہ رکھتا یا صدقہ کرتا تو اسے فائدہ ہوتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 484
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 22
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا: ہشام بن مغیرہ صلح رحمی کرتا تھا، مہمانوں کی میزبانی کرتا تھا، غلاموں کو آزاد کرتا تھا، کھانا کھلاتا تھا اور اگر وہ اسلام کا دور پاتا تو مسلمان بھی ہو جاتا، آیا یہ اعمال اس کے لیے نفع مند ثابت ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہ تو دنیوی غرض و غایت، صیت و شہرت اور خوشامد و چاپلوسی کے لیے دیتا تھا، اس نے ایک دن بھی نہیں کہا: اے میرے رب! روز قیامت میرے گناہوں کو معاف کر دینا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2927
باب: اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی وجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 23
ابو تمیمہ ہجیمی، بلھجیم کے ایک باشندے سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں، (وہ اللہ کہ) اگر تجھے تکلیف پہنچے اور تو اسے پکارے تو وہ تیری تکلیف دور کر دیتا ہے۔ اگر تو بے آب و گیاہ زمین میں (اپنی سواری) گم کر بیٹھتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو وہ تجھے (تیری سواری) واپس کر دیتا ہے اور اگر تو قحط سالی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو وہ (بارش نازل کر کے) زمین سے سبزہ اُگاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 420
باب: اللہ تعالیٰ کو پکارنے کا ثمرہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 24
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جو وہ مجھ سے گمان کرتا ہے اور جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2942
باب: اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اس سوال کا جواب
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 25
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس شیطان آ کر یہ کہتا ہے: تجھے کس نے پیدا کیا؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے۔ وہ دوبارہ کہے گا: اچھا تو پھر اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اگر ایسا وسوسہ پیدا ہو جائے تو یہ دعا پڑھنی ہے: «آمنت بالله ورسوله» ”میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا“، یہ عمل اس وسوسہ کو ختم کر دے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 116
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 26
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟، یہ کیا ہے؟ لوگ اس قسم کے سوال کرتے رہیں گے، حتی کہ وہ یہ سوال بھی کر دیں گے: اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے، بھلا اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اس وقت وہ گمراہ ہو جائیں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 966
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 27
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ایک آدمی کے پاس شیطان آ کر کہتا ہے: اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، کہتے کہتے بات کو یہاں تک پہنچا دیتا ہے کہ: تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب وہ یہاں تک پہنچا دے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور (ایسی سوچ کو) ختم کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 117
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 28
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”قریب ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے سوال کرنا شروع کر دیں، (وہ سوال کرتے رہیں)، حتی کہ کہنے والا کہے: مخلوق کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، مگر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جب لوگ یہاں تک پہنچ جائیں تو کہنا: «الله أحد، الله الصمد، لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد» ”اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں۔“ پھر بائیں طرف تین دفعہ تھوکے اور شیطان سے (اللہ تعالیٰ کی پناہ) طلب کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 118
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 29
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکل جا اور لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔“ وہ کہتے ہیں: میں اعلان کرنے کے لیے نکلا، آگے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ٹاکرا ہوا، انہوں نے کہا: ابوبکر کہاں اور کیسے؟ میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جاؤ اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (یہ اعلان کیے بغیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ جاؤ، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ اس (بشارت) پر توکل کر کے عمل کرنا ترک کر دیں گے۔ میں لوٹ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”واپس کیوں آ گئے ہو؟“ میں نے آپ کو سیدنا عمر والی بات بتلائی۔ آپ نے فرمایا: ”عمر نے سچ کہا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1135
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 30
ابوبکر بن ابوموسیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں اپنی قوم کے کچھ افراد کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ اور پچھلوں کو بھی خوشخبری سنا دو کہ جس نے صدق دل سے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ ہم لوگوں کو خوشخبری سنانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے، ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملے اور (جب ان کو صورتحال کا علم ہوا تو) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کس نے واپس کر دیا؟“ ہم نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عمر! تم نے ان کو کیوں لوٹا دیا؟“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (اگر لوگوں کو ایسی خوشخبریاں سنائی جائیں تو وہ توکل کر بیٹھیں گے (اور مزید عمل کرنا ترک کر دیں گے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 712
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 31
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے خلوص دل سے «لا إله إلا الله» کہا،وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2355
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 32
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2344
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 33
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے ساتھ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، (ہوا یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھ کھڑے ہوئے (اور کہیں چلے گئے) اور واپس آنے میں (خاصی) تاخیر کی۔ ہم ڈر گئے کہ (اللہ نہ کرے) کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے پرے جاں بحق نہ کر دیا جائے۔ ہم گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سب سے پہلے گھبرانے والا میں تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے کے لیے نکل پڑا، حتی کہ میں بنو نجار کے انصار کے باغ کے پاس پہنچ گیا، میں نے دروازے کی تلاش میں چکر لگایا، لیکن مجھے کوئی دروازہ نہ ملا۔ ایک چھوٹی نہر، خارجہ کے کنویں سے باغ میں داخل ہو رہی تھی، میں سمٹ کر اس میں داخل ہو گیا اور (بالآخر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابوہریرہ ہو؟“ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تجھے کیا ہوا (ادھر کیوں آئے ہو)؟“ میں نے کہا: آپ ہمارے پاس بیٹھے تھے، اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور واپس آنے میں دیر کی، ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کو ہم سے پرے جاں بحق نہ کر دیا جائے، سو ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے گھبرانے والا میں تھا۔ (میں تلاش کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (فلاں سوراخ سے اس میں داخل ہو گیا)۔ بقیہ لوگ میرے پیچھے آ رہے ہیں۔ آپ نے اپنے دو جوتے دے کر مجھے فرمایا: ”ابوہریرہ! یہ میرے جوتے لے کر جاؤ اور اس باغ سے پرے جس آدمی کو ملو، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری دے دو۔“ (ہوا یہ کہ) مجھے سب سے پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملے، انہوں نے پوچھا: ابوہریرہ! یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے کر بھیجے ہیں کہ میں جس آدمی کو ملوں، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری سنا دوں۔ (یہ بات سن کر) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے میرے سینے میں ضرب لگائی، میں سرین کے بل گر پڑا، انہوں نے کہا: ابوہریرہ! چلو واپس۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس چل پڑا اور غم کی وجہ سے رونے کے قریب تھا، ادھر سے عمر رضی اللہ عنہ میرے پیچھے پیچھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ! کیا ہوا؟“ میں نے کہا: میں سیدنا عمر کو ملا، اسے آپ کا پیغام سنایا، اس نے میرے سینے میں ضرب لگائی، میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ چلو واپس۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عمر! کس چیز نے تجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا واقعی آپ نے ابوہریرہ کو اپنے جوتے دے کر بھیجا کہ وہ جس آدمی کو ملیں، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ یہ شہادت دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری سنا دے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (ممیں نے بھیجا)۔“ سیدنا عمر نے کہا: آپ ایسا نہ کریں، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ (اس قسم کی بشارتوں پر) توکل کر کے (عمل کرنا ترک کر دیں گے)، آپ لوگوں کو عمل کرنے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں چھوڑ دو (یعنی یہ حدیث بیان نہ کرو)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3981
باب: «لا اله الا الله» کے ذکر کی کثرت کی نصیحت اور وجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 34
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو، قبل اس کے کہ تمہارے اور اس کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 467
باب: توحید الوہیت اور توحید رسالت کا حکم
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 35
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! ربیعہ قبیلے سے ہمارا تعلق ہے، آپ کے اور ہمارے مابین مضر قبیلے کے کفار حائل ہیں، ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینے میں آ سکتے ہیں، لہٰذا آپ ہمیں کوئی (جامع) حکم دیں، تاکہ ہم اس پر عمل بھی کریں اور پچھلے لوگوں کو بھی بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔ پھر ایمان کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: گواہی دینا کہ اللہ ہی معبود برحق اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، اور شمار کرنے کے لیے ایک انگلی بند کی۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، غنیمتوں کا پانچواں حصہ ادا کرنا۔ اور میں تمہیں کدو کے برتن، ہرے رنگ کے گھڑے، لکڑی سے بنائے ہوئے برتن اور تارکول ملے ہوئے برتن سے منع کرتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3957
باب: قریب المرگ لوگوں کو کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 36
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو، قبل اس کے کہ تمہارے اور اس کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 467
باب: شرک، اس کی اقسام اور اس کا وبال
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 37
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3566
باب: کیا توبہ کے بغیر مرنے والے مسلمانوں فاسق کی بخشش ممکن ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 38
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آؤ اور اس بات پر میری بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے، کسی پر بہتان نہیں باندھو گے اور نیکی کے معاملے میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ جس نے یہ بیعت پوری کی اس کا اجر اللہ پر ہے اور جس نے (کسی گناہ) کا ارتکاب کیا اور اسے اس کی سزا دے دی گئی تو وہ کفارہ بن جائے گی اور جس نے (کسی گناہ کا) ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، چاہے تو سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2999
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 39
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک رات کو نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چل رہے تھے، آپ کے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے سمجھا کہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی چلے۔ میں نے چاند کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے دیکھا اور پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ابوذر ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! ادھر آؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”قیامت والے روز کثیر مال و دولت والے اجر و ثواب میں کم ہوں گے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے (صدقہ کرتے ہوئے) اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھیر دیا اور اس کے ذریعے نیک اعمال کیے۔“ پھر میں آپ کے ساتھ چلتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھ جاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی ہموار زمین میں بٹھایا، جس کے ارد گرد پتھر پڑے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا: ”میرے واپس آنے تک یہاں بیٹھے رہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرہ (کالے پتھروں والی زمین) کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آ رہے تھے: ”اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے! آپ حرہ زمین کے پاس کس سے گفتگو کر رہے تھے؟ پھر آپ کو کوئی جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبریل تھا، حرہ کے ساتھ ہی وہ مجھے ملا اور کہا: (اے محمد!) اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: جبریل! اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ میں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں اور اگرچہ اس نے شراب بھی پی ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 826
باب: قبولیت اسلام کے بعد کفر کرنا سنگین جرم ہے، کیا مرتد کی توبہ ممکن ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 40
معاویہ بن حکیم بن حزام اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ اس بندے کی توبہ قبول نہیں کرتے جو اسلام کے بعد پھر کفر کر جاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2545
باب: ایصال ثواب کی صورتیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 41
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عاص بن وائل نے دور جاہلیت میں نذر مانی کہ وہ سو اونٹ ذبح کرے گا (لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے مر گیا)، اس کے بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دئیے تھے اور دوسرے بیٹے سیدنا عمرو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیرے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا اور تو اس کی طرف سے روزہ رکھتا یا صدقہ کرتا تو اسے فائدہ ہوتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 484
باب: کفر کی حالت میں مرنے والے کافروں کے نیک اعمال رائیگاں ہو جاتے ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 42
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، حصین، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ایک آدمی صلہ رحمی اور مہمانوں کی میزبانی تو کرتا تھا، لیکن وہ آپ سے پہلے فوت ہو گیا، (اب اس کی ان نیکیوں کا کیا بنے گا)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنمی ہیں۔“ ابھی تک بیس دن نہیں گزرے تھے کہ وہ شرک کی حالت میں مر گیا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2592
باب: قبولیت اسلام کے بعد کافر کی حالت کفر میں کی گئی نیکیوں کی اہمیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 43
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ابن جدعان دور جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مساکین کو کھانا کھلاتا تھا، آیا یہ نیکیاں اس کے لیے نفع مند ثابت ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، عائشہ! اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا تھا: اے میرے رب! روز قیامت میرے گناہوں کو بخش دینا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 249
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 44
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اسلام قبول کرتا ہے اور اس کے اسلام میں حسن آ جاتا ہے، تو اس نے جو نیکی کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے لکھ کر (محفوظ کر لیتا) ہے اور اس نے جس برائی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے اسے مٹا دیا جاتا ہے۔ پھر (اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مزید بدلہ یوں ہوتا ہے کہ ایک نیکی دس سے سات گنا تک کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور رہا مسئلہ برائی کا، تو وہ ایک ہی رہتی ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ وہ بھی معاف کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 247
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 45
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا: ہشام بن مغیرہ صلہ رحمی کرتا تھا، مہمانوں کی میزبانی کرتا تھا، غلاموں کو آزاد کرتا تھا، کھانا کھلاتا تھا اور اگر اسلام کا دور پاتا تو مسلمان بھی ہو جاتا، آیا یہ اعمال اس کے لیے نفع مند ثابت ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہ تو دنیاوی غرض و غایت، اس کی صیت و شہرت اور اس کی خوشامد و چاپلوسی کے لیے دیتا تھا، اس نے ایک دن بھی نہیں کہا: اے میرے رب! روز قیامت میرے گناہوں کو معاف فرما دینا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2927
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 46
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جو نیکیاں کر چکے ہو، ان سمیت اسلام لائے ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 248
باب: اگر کوئی مسلمان ادائیگی حج کے بعد مرتد ہو کر پھر مسلمان ہو جائے تو کیا سابقہ حج اسے کفایت کرے گا؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 47
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اسلام قبول کرتا ہے اور اس کے اسلام میں حسن آ جاتا ہے، تو اس نے جو نیکی کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے لکھ کر (محفوظ کر لیتا ہے) ہے اور اس نے جس برائی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے اسے مٹا دیا جاتا ہے پھر (اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مزید بدلہ یوں ہوتا ہے کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور رہا مسئلہ برائی کا، تو وہ ایک ہی رہتی ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ وہ بھی معاف کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 247
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 48
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جو نیکیاں کر چکے ہو، ان سمیت اسلام لائے ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 248
باب: قبولیت اسلام کے بعد پہلے والے جرائم کا مؤاخذہ کب کیا جائے گا؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 49
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بقیہ زندگی میں (اپنے اسلام میں) حسن پیدا کیے رکھا، اس کے گزشتہ (گناہ) معاف کر دئیے جائیں گے اور جو بقیہ زندگی میں بھی برائیاں کرتا رہا، اس سے گزشتہ اور آئندہ (دونوں زندگیوں میں ہونے والے گناہوں کی) باز پرس ہو گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3389
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 50
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے دور جاہلیت میں جن برائیوں کا ارتکاب کیا، کیا ان کی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے اسلام میں حسن پیدا کر لیتا ہے اس سے دور جاہلیت میں کی گئی برائیوں کی باز پرس نہیں ہو گی اور جو (اسلام قبول کرنے کے بعد بھی برائیاں کرتا رہتا ہے، اس سے پہلے اور پچھلے (سب) گناہوں کی پوچھ کچھ ہو گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3390
باب: ایمان لانے والے اہل کتاب اور اہل شرک کے اجر و ثواب میں فرق
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 51
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے بہت اچھی باتیں ارشاد فرمائیں، ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی: ”جو اہل کتاب (یہودی یا نصرانی) مسلمان ہو گا اسے دو اجر ملیں گے نیز اسے وہی حقوق دئیے جائیں گے جو ہمارے ہیں اور اس پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو ہم پر ہوتی ہیں اور جو مشرک مسلمان ہو گا اسے ایک اجر ملے گا اور اسے بھی وہی حقوق نصیب ہوں گے جو ہمیں ہوتے ہیں اور اسے وہی ذمہ داریاں چکانا ہوں گی، جو ہم چکاتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 304
باب: اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ لوگ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 52
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند اور مبغوض ترین ہیں: حرم میں الحاد برپا کرنے والا، اسلام میں جاہلیت کے مروج ہونے کو چاہنے والا اور کسی آدمی کا ناحق خون کرنے کے لیے کوشاں رہنے والا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 778
باب: غیر اللہ کی قسم منع ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 53
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ”اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی قسم اٹھانا شرک ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2042
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 54
جہینہ قبیلے کی خاتون سیدہ قتیلہ بنت صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: تم لوگ شرک کرتے ہو کیونکہ تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور تم چاہو اور تم کعبہ کی قسم اٹھاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا: ”تم کہا کرو: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو اور قسم اٹھاتے وقت کہا کرو: رب کعبہ کی قسم۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 136
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 55
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم اٹھایا کرو، اسے پورا کیا کرو اور سچ بولا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ غیر کی قسم اٹھانے کو ناپسند کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1119
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 56
سیدہ قتیلہ بنت صفی جہنیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! تم بہترین لوگ ہو، لیکن کاش کہ تم شرک نہ کرتے ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! (بڑا تعجب ہے) وہ کیسے؟“ اس نے کہا: جب تم قسم اٹھاتے ہو تو کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اب جو آدمی بھی قسم اٹھائے وہ کعبہ کے رب کی قسم اٹھائے (نہ کہ کعبہ کی)۔“ اس نے پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم بڑے اچھے لوگ ہو، لیکن کہ کاش کہ تم اللہ کے لیے اس کا ہمسر نہ ٹھہراتے ہوتے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اگر کوئی آدمی ”ماشاء اللہ“ کہے تو وہ «ثُم شئت» “ کہے (یعنی: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1166
باب: کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے کی تلقین
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 57
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو اور راہِ مستقیم پر چلتے رہو اور (لوگوں کو)ْ خوشخبریاں سناتے رہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 885
باب: آزمائشیں اس امت کا مقدر ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 58
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام قبول کرنے والے تمام افراد کو شمار کرو۔“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آیا آپ ہمارے بارے میں خوفزدہ ہیں، حالانکہ ہماری تعداد چھ سو سے سات سو تک ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (حقیقت حال کا) علم نہیں رکھتے، شائد تم آزمائشوں میں پڑ جاؤ۔“ راوی کہتے ہیں: پھر ہمیں اس قدر آزمایا گیا کہ ہم میں سے ایک آدمی کو مخفی نماز پڑھنا پڑتی تھی، (یعنی وہ بعض وجوہات کی بنا پر اعلانیہ نماز نہیں پڑھ سکتا تھا)
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 246
باب: محبوب ترین دین
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 59
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کون سا دین اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ملت اسلام، جو نرمی و سہولت آمیز شریعت ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 881
باب: امت محمدیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرتب شریعت آسان ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 60
سیدنا محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر موصول ہوئی کہ فلاں بندہ مسجد میں لمبی نماز ادا کر رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے، اس کے کندھے کو پکڑا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے آسانی کو پسند اور تنگی کو ناپسند کیا ہے (یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی) جب کہ اس بندے نے تنگی کو اختیار کیا ہے اور آسانی کو ترک کر دیا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1635
باب: راہ اعتدال پر گامزن رہنے کی تلقین اور طریقہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 61
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک یہ دین آسان ہے، جو بھی اس دین سے زور آزمائی کرے گا یہ اس کو پچھاڑ دے گا۔ اس لیے راہ راست پر چلتے رہو، میانہ روی اختیار کرو، خوشخبریاں سناتے رہو اور صبح کے وقت، شام کے وقت اور رات کو کچھ وقت (عبادت کر کے) مدد حاصل کرتے رہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1161
باب: دین میں غلو منع ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 62
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کے موقع پر) مجھے گھاٹی والی صبح کو فرمایا تھا، اس حال میں کہ آپ اپنی سواری پر کھڑے تھے: ”ادھر آؤ (کنکریاں) اٹھا کر لاؤ۔“ سو میں بیچ کی دو انگلیوں میں رکھ کر پھینکی جانے والی کنکریوں کے سائز کی کنکریاں اٹھا کر لایا، آپ نے ان کو اپنے ہاتھ میں رکھا اور دو دفعہ فرمایا: ”ان جتنی کنکریاں ہوں۔“ پھر آپ نے اپنا ہاتھ بلند کیا۔ راوی حدیث یحییٰ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بات سمجھائی۔ اور فرمایا: ”دین میں غلو کرنے سے بچو، تم سے پہلے والے لوگ دین میں غلو کر نے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1283
باب: تقدیر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 63
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک تقدیر پر ایمان نہیں لاتا وہ اچھی ہو یا بری اور جب تک اسے یہ (پختہ) علم نہیں ہو جاتا کہ (اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق) جس چیز نے اسے لاحق ہونا ہے وہ ٹل نہیں سکتی اور جو ٹل گئی وہ لاحق نہیں ہو سکتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2439
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 64
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کا معاملہ اس وقت تک ہمنوائی، ہم خیالی، (اتحاد اور موافقت) والا رہے گا جب تک یہ لوگ بچوں اور تقدیر (کے مسائل) میں گفتگو نہیں کریں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1515
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 65
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا، جب تک اسے یہ (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ (اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) جس چیز نے اسے لاحق ہونا ہے وہ تجاوز نہیں کر سکتی اور جو چیز تجاوز کر گئی وہ لاحق نہیں ہو سکتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3019
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 66
طاوس یمانی کہتے ہیں: جتنے صحابہ کرام سے میری ملاقات ہوئی وہ کہتے تھے: ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے اور میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے، حتیٰ کہ بے بسی و لاچارگی اور عقل و دانش بھی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 861
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 67
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور آدمی ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک اسے اس چیز کا (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ جو چیز (اللہ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) اسے لاحق ہونی ہے وہ اس سے تجاوز نہیں کر سکتی اور جس چیز نے اس سے تجاوز کرنا ہے وہ اسے لاحق نہیں ہو سکتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2471
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 68
ابن زرارہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آیت میری امت کے آخری زمانے کے تقدیر کو جھٹلانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی «ذوقوا مس سقر. إنا كل شيء خلقناه بقدر» دوزخ کے آگے لگنے کے مزے چکھو۔ بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرر اندازے پر پیدا کیا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1539
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 69
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان تین قسم کے اشخاص کی فرضی عبادت نہ قبول ہوتی ہے نہ نفلی: نافرمان و بدسلوک، احسان جتلانے والا اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1785
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 70
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ملے، ہم نے ان کے سامنے تقدیر اور اس کے بارے میں لوگوں کے خیالات کا تذکرہ کیا ...... مزینہ یا جہنیہ قبیلہ کے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز میں عمل کر رہے ہیں؟ آیا اس (تقدیر) کے مطابق فیصلہ کیا جا چکا ہے یا ازسرِنو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس (تقدیر) کے مطابق جس کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے۔“ اس نے یا کسی اور آدمی نے کہا: ”تو پھر عمل کی کیا حقیقت رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جنت کے لیے جنتیوں کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لیے جہنمیوں کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3521
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 71
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ جو عمل کر رہے ہیں،آیا ان کا (پہلے ہی سے فیصلہ کر کے) ان سے فارغ ہوا جا چکا ہے یا ہم ازسرِنو عمل کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””اس معاملے (کا فیصلہ کر کے) اس سے فراغت حاصل کی جا چکی ہے۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کاہے کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا اسے اسی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2033
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 72
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑا۔ اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ اور دنیا کو، اور دنیا میں کی جانے والی ہر نیکی و بدی اور رطب و یابس کو لکھا اور سب چیزوں کو اپنے پاس لوح محفوظ میں شمار کر لیا پھر فرمایا: اگر چاہتے ہو تو (اس مصداق والی یہ آیت) پڑھ لو: «هذا كتابُنا يَنْطِقُ عليكم بالحق إنا كنا نَسْتَنْسِخُ ما كنتم تعملون» ”یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ مچ بول رہی ہے، ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے ہیں“ (سورۃجاثیہ:29)۔ لکھنا اور نقل کرنا اسی امر میں ہوتا ہے جس سے فارغ ہوا جا چکا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3136
باب: تقدیر برحق ہے، لیکن انسان کا اختیار
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 72M
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مٹھیوں کے بارے میں فرمایا: ”اس مٹھی والے (بندے) اس (جنت) کے لیے اور اس مٹھی والے (بندے) اس (جہنم) کے لیے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 46
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 73
سیدنا عبدالرحمٰن بن قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: یہ جنت کے لیے ہیں اور میں بےپروا ہوں اور یہ جہنم کے لیے ہیں اور میں کوئی پروا نہیں کرتا۔“ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز کے مطابق عمل کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تقدیر کے مطابق۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 48
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
باب: اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور وسیع بادشاہت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 1
عبیداللہ بن مقسم کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتار رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لے گا اور کہے گا: میں اللہ ہوں، پھر انگلیوں کو کھولے گا اور بند کرے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں جھومنے لگ گئے، حتی کہ میں نے دیکھا کہ منبر بھی ہچکولے کھانے لگ گیا اور مجھے یہ وہم ہونے لگا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا ہی نہ دے“۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3196
باب: اللہ تعالیٰ کے لامتناہی خزانے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 2
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، ہمہ وقت خرچ کرتے رہنے سے اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔ کیا تم اس کا اندازہ لگا سکتے ہو، جو کچھ اس نے زمین و آسمان کی تخلیق (سے لے کر اب تک) خرچ کیا؟ اس سے بھی اس کے دائیں ہاتھ (میں موجود خزانوں میں) کوئی کمی نہ آ سکی اور اس کا عرش پانی پر تھا اور دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے، جسے وہ (کسی کے حق میں) اٹھاتا ہے اور (کسی کے حق میں) جھکاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3550
باب: امور کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت کار فرما ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 3
جہینہ قبیلے کی خاتون سیدہ قتیلہ بنت صیفی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: تم لوگ شرک کرتے ہو، کیونکہ تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور تم چاہو اور تم کعبہ کی قسم اٹھاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا: ”تم کہا کرو: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو اور قسم اٹھاتے وقت کہا کرو: رب کعبہ کی قسم“۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 136
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 4
سیدہ قتیلہ بنت صفی جہنیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! تم بہترین لوگ ہو، لیکن کاش کہ تم شرک نہ کرتے ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! (بڑا تعجب ہے) وہ کیسے؟“ اس نے کہا: جب تم قسم اٹھاتے ہو تو کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اب جو آدمی بھی قسم اٹھائے وہ کعبہ کے رب کی قسم اٹھائے (نہ کہ کعبہ کی)۔“ اس نے پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم بڑے اچھے لوگ ہو، لیکن کہ کاش کہ تم اللہ کے لیے اس کا ہمسر نہ ٹھہراتے ہوتے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اگر کوئی آدمی ”ماشاء اللہ“ کہے تو وہ «ثُم شئت» “ کہے (یعنی: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1166
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 5
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخیافی بھائی سیدنا طفیل بن سخبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں خواب میں یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا، میں نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم یہودی ہیں۔ میں نے کہا: تم بہترین قوم ہو، کاش! تم عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ قرار دیتے۔ یہودیوں نے کہا: تم بھی بہترین لوگ ہو، کاش! تم یہ نہ کہتے کہ جو اللہ چاہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہے۔ پھر میں عیسائی گروہ کے پاس سے گزرا۔ میں نے ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم نصرانی ہیں۔ میں نے کہا: تم بڑے اچھے لوگ ہو، کاش! تم عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ قرار دیتے۔ انہوں نے کہا: تم بھی بہترین لوگ ہو، کاش! تم یہ نہ کہتے کہ جو اللہ چاہے اور محمد (علیہ السلام) چاہے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بعض لوگوں کو یہ خواب سنایا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا اور آپ کو بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے یہ خواب کسی کو سنایا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ جب لوگوں نے نماز ادا کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ”طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے اور تم میں سے بعض لوگوں کو بتا بھی دیا ہے۔ تم لوگ ایک کلمہ کہتے تھے، بس حیا آڑے آتی رہی اور میں تمہیں منع نہ کر سکا۔ (ابکے بعد) ایسے نہ کہا کرو کہ جو اللہ چاہے اور محمد د ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 138
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 6
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ سے کوئی بحث و مباحثہ کیا اور کہا: جو اللہ تعالیٰ چاہیں اور آپ چاہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کا ہمسر بنا دیا ہے! ایسے نہیں (کہنا چاہئے)، بلکہ یوں کہا جائے کہ جو صرف اللہ تعالیٰ چاہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 139
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 7
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی قسم اٹھائے تو یہ نہ کہے کہ «ما شاء الله وشئت» (جو اللہ اور آپ چاہیں)، بلکہ اس طرح کہا کرے: «ما شاء الله ثم وشئت» ”جو اللہ تعالیٰ چاہے اور پھر تم چاہو““۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1093
باب: اللہ تعالیٰ کی رحمت اور غضب کی وسعت اور ان کے تقاضے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 8
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت (کی وسعت) کا اندازہ ہو جائے تو تم توکل (کر کے بیٹھ جاؤ اور) کوئی عمل نہ کرو اور اگر تمہیں اس کے غضب کا اندازہ ہو جائے تو (تم یہ سمجھ لو کہ) تمہیں کوئی عمل نفع نہیں دے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2167
باب: اللہ تعالیٰ کی ذات میں نہیں، اس کے انعامات میں غور و فکر کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 9
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کرو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر مت کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1788
باب: اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت دینے کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 10
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! دشمن شکم سیر ہو کر پہنچ چکا ہے اور ہم بھوکے ہیں (کیا بنے گا)؟ انصار نے کہا: کیا ہم اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو کھلا نہ دیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زائد کھانا ہے، وہ لے آئے۔“ کوئی ایک مد لے کر آیا تو کوئی ایک صاع اور کوئی زیادہ لے کر آیا تو کوئی کم۔ پورے لشکر میں سے چوبیس صاع (تقریباً پچاس کلو گرام) جمع ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھیر کے ساتھ بیٹھ گئے، برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: ”لینا شروع کر دو اور لوٹو مت“، لوگوں نے اپنے اپنے تھیلے، بوریاں اور برتن بھر لیے، حتی کہ بعض افراد نے اپنی آستینیں باندھ کر ان کو بھی بھر لیا، وہ سب فارغ ہو گئے اور اناج ویسے کا ویسا ہی پڑا رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ حق کے ساتھ یہ دو (گواہیاں) لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی حرارت سے بچائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3221
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 11
یوسف بن عبداللہ بن سلام اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، آپ نے ایک وادی سے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور میں بھی گواہی دیتا ہوں، مزید میں یہ شہادت بھی دیتا ہوں کہ جو آدمی ایسی گواہی دے گا وہ شرک سے بری ہو جائے گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد دو شہادتیں (توحید و رسالت) ہیں۔ یہ امام نسائی کے الفاظ ہیں اور امام طبرانی نے روایت کے شروع میں یہ اضافہ کیا ہے: (انہوں نے سنا کہ) لوگ پوچھ رہے تھے: اے اللہ کے رسول! کون سے اعمال افضل ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور رسول پر ایمان لانا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اور حج مبرور کرنا، پھر سنا۔۔۔۔۔۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2897
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 12
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو انسان اس حال میں مرتا ہے کہ وہ یقین کرنے والے دل سے گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2278
باب: پانچ امور کا تعلق اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 13
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پانچ چیزیں ہیں، انہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے: بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا اور جو کچھ ماں کے پیٹ میں ہے اسے وہی جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہو کہ کس زمین میں مرے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا ہے اور صحیح خبروں والا ہے۔“ (سورۃ لقمان: 34)“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2914
باب: توحید اور اس کے تقاضے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 14
سیدنا ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”خوش ہو جاؤ، خوش ہو جاؤ، کیا تم لوگ یہ شہادت نہیں دیتے کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں؟“ صحابہ نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ قرآن ایک رسی ہے، اس کا ایک کنارہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا کنارہ تمہارے ہاتھ میں ہے، اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو، کیونکہ اس کے بعد تم ہرگز نہ گمراہ ہو سکتے ہو اور نہ ہلاک۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 713
باب: توحید کی برکتیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 15
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں صادق و مصدوق (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”نیکی کا بدلہ دس گنا یا اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہوں اور برائی کا بدلہ ایک گنا دوں گا یا اسے بھی معاف کر دوں گا۔ (اے میرے بندے!) اگر تو زمین کے لگ بھگ گناہ لے کر مجھے ملے، تو میں تجھے اتنی ہی بخشش عطا کر دوں گا، بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 128
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 16
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کہتے ہیں: جس نے ایک نیکی کی، اسے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب عطا کروں گا اور جس نے ایک برائی کی تو ایک برائی کا ہی بدلہ دوں گا یا وہ بھی معاف کر دوں گا۔ جو زمین کے لگ بھگ گناہ کرنے کے بعد مجھے اس حالت میں ملے کہ اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا رکھا ہو تو میں اسے اتنی ہی مغفرت عطا کر دوں گا۔ جو ایک بالشت میرے قریب ہو گا میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوں گا، جو ایک ہاتھ میرے قریب ہو گا میں دو ہاتھوں کے پھیلاؤ کے بقدر اس کے قریب ہوں گا اور میری طرف چل کر آئے گا میں اس کی طرف لپک کر جاؤں گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 581
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 17
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے کہ اس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو اور نہ کسی کو ناحق قتل کیا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2923
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 18
ابومالک اشجعی اپنے باپ سیدنا طارق بن اشیم رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ تعالیٰ کو یکتا و یگانہ قرار دیا اور اس کے علاوہ (سب معبودانِ باطلہ) کا انکار کر دیا، تو اس کا مال اور خون حرمت والا قرار پائے گا اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 428
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 19
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک رات کو نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چل رہے تھے، آپ کے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے سمجھا کہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی چلے۔ میں نے چاند کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے دیکھا اور پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ابوذر ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! ادھر آؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”قیامت والے روز کثیر مال و دولت والے اجر و ثواب میں کم ہوں گے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے (صدقہ کرتے ہوئے) اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھیر دیا اور اس کے ذریعے نیک اعمال کیے۔“ پھر میں آپ کے ساتھ چلتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھ جاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی ہموار زمین میں بٹھایا، جس کے ارد گرد پتھر پڑے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا: ”میرے واپس آنے تک یہاں بیٹھے رہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرہ (کالے پتھروں والی زمین) کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آ رہے تھے: ”اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے! آپ حرہ زمین کے پاس کس سے گفتگو کر رہے تھے؟ پھر آپ کو کوئی
جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبریل تھا، حرہ کے ساتھ ہی وہ مجھے ملا اور کہا: (اے محمد!) اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: جبریل! اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ میں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں اور اگرچہ اس نے شراب بھی پی ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 826
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 20
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک آدمی تھا، اس نے کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا، ماسوائے توحید کے۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے کنبے والوں سے کہا: غور سے سنو: اگر میں مر گیا تو مجھے جلا کر کوئلہ بنا دینا، پھر پیس کر نصف خشکی کی ہوا میں اُڑا دینا اور نصف سمندر میں بہا دینا۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر آ گیا تو وہ مجھے ایسا شدید عذاب دے گا جو جہانوں میں کسی کو نہ دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو انہوں نے ایسے ہی کیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے خشکی کو حکم دیا، اس نے اس کے ذرات جمع کر دئیے اور سمندر کو حکم دیا، اس نے بھی اس کے اجزا جمع کر دئیے، اچانک (اسے وجود عطا کیا گیا اور) وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں کھڑا نظر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: ابن آدم! تجھے تیرے کیے پر کس چیز نے اکسایا تھا؟ اس نے کہا: اے میرے رب! (میں نے سارا کچھ) تیرے ڈر سے (کروایا)، اور تو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے ڈرنے کی وجہ سے معاف کر دیا، حالانکہ اس کا کوئی نیک عمل نہیں تھا، ماسوائے توحید کے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3048
باب: تمام اعمال کی بنیاد توحید ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 21
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عاص بن وائل نے دور جاہلیت میں نظر مانی کہ وہ سو اونٹ ذبح کرے گا (لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے مر گیا)، اس کے بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دئیے تھے اور دوسرے بیٹے سیدنا عمرو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیرے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا اور تو اس کی طرف سے روزہ رکھتا یا صدقہ کرتا تو اسے فائدہ ہوتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 484
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 22
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا: ہشام بن مغیرہ صلح رحمی کرتا تھا، مہمانوں کی میزبانی کرتا تھا، غلاموں کو آزاد کرتا تھا، کھانا کھلاتا تھا اور اگر وہ اسلام کا دور پاتا تو مسلمان بھی ہو جاتا، آیا یہ اعمال اس کے لیے نفع مند ثابت ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہ تو دنیوی غرض و غایت، صیت و شہرت اور خوشامد و چاپلوسی کے لیے دیتا تھا، اس نے ایک دن بھی نہیں کہا: اے میرے رب! روز قیامت میرے گناہوں کو معاف کر دینا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2927
باب: اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی وجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 23
ابو تمیمہ ہجیمی، بلھجیم کے ایک باشندے سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں، (وہ اللہ کہ) اگر تجھے تکلیف پہنچے اور تو اسے پکارے تو وہ تیری تکلیف دور کر دیتا ہے۔ اگر تو بے آب و گیاہ زمین میں (اپنی سواری) گم کر بیٹھتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو وہ تجھے (تیری سواری) واپس کر دیتا ہے اور اگر تو قحط سالی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو وہ (بارش نازل کر کے) زمین سے سبزہ اُگاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 420
باب: اللہ تعالیٰ کو پکارنے کا ثمرہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 24
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جو وہ مجھ سے گمان کرتا ہے اور جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2942
باب: اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اس سوال کا جواب
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 25
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس شیطان آ کر یہ کہتا ہے: تجھے کس نے پیدا کیا؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے۔ وہ دوبارہ کہے گا: اچھا تو پھر اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اگر ایسا وسوسہ پیدا ہو جائے تو یہ دعا پڑھنی ہے: «آمنت بالله ورسوله» ”میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا“، یہ عمل اس وسوسہ کو ختم کر دے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 116
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 26
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟، یہ کیا ہے؟ لوگ اس قسم کے سوال کرتے رہیں گے، حتی کہ وہ یہ سوال بھی کر دیں گے: اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے، بھلا اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اس وقت وہ گمراہ ہو جائیں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 966
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 27
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ایک آدمی کے پاس شیطان آ کر کہتا ہے: اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، کہتے کہتے بات کو یہاں تک پہنچا دیتا ہے کہ: تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب وہ یہاں تک پہنچا دے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور (ایسی سوچ کو) ختم کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 117
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 28
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”قریب ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے سوال کرنا شروع کر دیں، (وہ سوال کرتے رہیں)، حتی کہ کہنے والا کہے: مخلوق کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، مگر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جب لوگ یہاں تک پہنچ جائیں تو کہنا: «الله أحد، الله الصمد، لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد» ”اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں۔“ پھر بائیں طرف تین دفعہ تھوکے اور شیطان سے (اللہ تعالیٰ کی پناہ) طلب کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 118
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 29
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکل جا اور لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔“ وہ کہتے ہیں: میں اعلان کرنے کے لیے نکلا، آگے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ٹاکرا ہوا، انہوں نے کہا: ابوبکر کہاں اور کیسے؟ میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جاؤ اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (یہ اعلان کیے بغیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ جاؤ، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ اس (بشارت) پر توکل کر کے عمل کرنا ترک کر دیں گے۔ میں لوٹ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”واپس کیوں آ گئے ہو؟“ میں نے آپ کو سیدنا عمر والی بات بتلائی۔ آپ نے فرمایا: ”عمر نے سچ کہا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1135
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 30
ابوبکر بن ابوموسیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں اپنی قوم کے کچھ افراد کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ اور پچھلوں کو بھی خوشخبری سنا دو کہ جس نے صدق دل سے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ ہم لوگوں کو خوشخبری سنانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے، ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملے اور (جب ان کو صورتحال کا علم ہوا تو) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کس نے واپس کر دیا؟“ ہم نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عمر! تم نے ان کو کیوں لوٹا دیا؟“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (اگر لوگوں کو ایسی خوشخبریاں سنائی جائیں تو وہ توکل کر بیٹھیں گے (اور مزید عمل کرنا ترک کر دیں گے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 712
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 31
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے خلوص دل سے «لا إله إلا الله» کہا،وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2355
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 32
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2344
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 33
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے ساتھ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، (ہوا یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھ کھڑے ہوئے (اور کہیں چلے گئے) اور واپس آنے میں (خاصی) تاخیر کی۔ ہم ڈر گئے کہ (اللہ نہ کرے) کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے پرے جاں بحق نہ کر دیا جائے۔ ہم گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سب سے پہلے گھبرانے والا میں تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے کے لیے نکل پڑا، حتی کہ میں بنو نجار کے انصار کے باغ کے پاس پہنچ گیا، میں نے دروازے کی تلاش میں چکر لگایا، لیکن مجھے کوئی دروازہ نہ ملا۔ ایک چھوٹی نہر، خارجہ کے کنویں سے باغ میں داخل ہو رہی تھی، میں سمٹ کر اس میں داخل ہو گیا اور (بالآخر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابوہریرہ ہو؟“ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تجھے کیا ہوا (ادھر کیوں آئے ہو)؟“ میں نے کہا: آپ ہمارے پاس بیٹھے تھے، اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور واپس آنے میں دیر کی، ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کو ہم سے پرے جاں بحق نہ کر دیا جائے، سو ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے گھبرانے والا میں تھا۔ (میں تلاش کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (فلاں سوراخ سے اس میں داخل ہو گیا)۔ بقیہ لوگ میرے پیچھے آ رہے ہیں۔ آپ نے اپنے دو جوتے دے کر مجھے فرمایا: ”ابوہریرہ! یہ میرے جوتے لے کر جاؤ اور اس باغ سے پرے جس آدمی کو ملو، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری دے دو۔“ (ہوا یہ کہ) مجھے سب سے پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملے، انہوں نے پوچھا: ابوہریرہ! یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے کر بھیجے ہیں کہ میں جس آدمی کو ملوں، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری سنا دوں۔ (یہ بات سن کر) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے میرے سینے میں ضرب لگائی، میں سرین کے بل گر پڑا، انہوں نے کہا: ابوہریرہ! چلو واپس۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس چل پڑا اور غم کی وجہ سے رونے کے قریب تھا، ادھر سے عمر رضی اللہ عنہ میرے پیچھے پیچھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ! کیا ہوا؟“ میں نے کہا: میں سیدنا عمر کو ملا، اسے آپ کا پیغام سنایا، اس نے میرے سینے میں ضرب لگائی، میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ چلو واپس۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عمر! کس چیز نے تجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا واقعی آپ نے ابوہریرہ کو اپنے جوتے دے کر بھیجا کہ وہ جس آدمی کو ملیں، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ یہ شہادت دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری سنا دے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (ممیں نے بھیجا)۔“ سیدنا عمر نے کہا: آپ ایسا نہ کریں، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ (اس قسم کی بشارتوں پر) توکل کر کے (عمل کرنا ترک کر دیں گے)، آپ لوگوں کو عمل کرنے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں چھوڑ دو (یعنی یہ حدیث بیان نہ کرو)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3981
باب: «لا اله الا الله» کے ذکر کی کثرت کی نصیحت اور وجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 34
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو، قبل اس کے کہ تمہارے اور اس کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 467
باب: توحید الوہیت اور توحید رسالت کا حکم
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 35
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! ربیعہ قبیلے سے ہمارا تعلق ہے، آپ کے اور ہمارے مابین مضر قبیلے کے کفار حائل ہیں، ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینے میں آ سکتے ہیں، لہٰذا آپ ہمیں کوئی (جامع) حکم دیں، تاکہ ہم اس پر عمل بھی کریں اور پچھلے لوگوں کو بھی بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔ پھر ایمان کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: گواہی دینا کہ اللہ ہی معبود برحق اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، اور شمار کرنے کے لیے ایک انگلی بند کی۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، غنیمتوں کا پانچواں حصہ ادا کرنا۔ اور میں تمہیں کدو کے برتن، ہرے رنگ کے گھڑے، لکڑی سے بنائے ہوئے برتن اور تارکول ملے ہوئے برتن سے منع کرتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3957
باب: قریب المرگ لوگوں کو کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 36
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو، قبل اس کے کہ تمہارے اور اس کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 467
باب: شرک، اس کی اقسام اور اس کا وبال
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 37
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3566
باب: کیا توبہ کے بغیر مرنے والے مسلمانوں فاسق کی بخشش ممکن ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 38
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آؤ اور اس بات پر میری بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے، کسی پر بہتان نہیں باندھو گے اور نیکی کے معاملے میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ جس نے یہ بیعت پوری کی اس کا اجر اللہ پر ہے اور جس نے (کسی گناہ) کا ارتکاب کیا اور اسے اس کی سزا دے دی گئی تو وہ کفارہ بن جائے گی اور جس نے (کسی گناہ کا) ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، چاہے تو سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2999
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 39
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک رات کو نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چل رہے تھے، آپ کے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے سمجھا کہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی چلے۔ میں نے چاند کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے دیکھا اور پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ابوذر ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! ادھر آؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”قیامت والے روز کثیر مال و دولت والے اجر و ثواب میں کم ہوں گے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے (صدقہ کرتے ہوئے) اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھیر دیا اور اس کے ذریعے نیک اعمال کیے۔“ پھر میں آپ کے ساتھ چلتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھ جاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی ہموار زمین میں بٹھایا، جس کے ارد گرد پتھر پڑے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا: ”میرے واپس آنے تک یہاں بیٹھے رہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرہ (کالے پتھروں والی زمین) کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آ رہے تھے: ”اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے! آپ حرہ زمین کے پاس کس سے گفتگو کر رہے تھے؟ پھر آپ کو کوئی جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبریل تھا، حرہ کے ساتھ ہی وہ مجھے ملا اور کہا: (اے محمد!) اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: جبریل! اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ میں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں اور اگرچہ اس نے شراب بھی پی ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 826
باب: قبولیت اسلام کے بعد کفر کرنا سنگین جرم ہے، کیا مرتد کی توبہ ممکن ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 40
معاویہ بن حکیم بن حزام اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ اس بندے کی توبہ قبول نہیں کرتے جو اسلام کے بعد پھر کفر کر جاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2545
باب: ایصال ثواب کی صورتیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 41
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عاص بن وائل نے دور جاہلیت میں نذر مانی کہ وہ سو اونٹ ذبح کرے گا (لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے مر گیا)، اس کے بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دئیے تھے اور دوسرے بیٹے سیدنا عمرو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیرے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا اور تو اس کی طرف سے روزہ رکھتا یا صدقہ کرتا تو اسے فائدہ ہوتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 484
باب: کفر کی حالت میں مرنے والے کافروں کے نیک اعمال رائیگاں ہو جاتے ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 42
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، حصین، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ایک آدمی صلہ رحمی اور مہمانوں کی میزبانی تو کرتا تھا، لیکن وہ آپ سے پہلے فوت ہو گیا، (اب اس کی ان نیکیوں کا کیا بنے گا)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنمی ہیں۔“ ابھی تک بیس دن نہیں گزرے تھے کہ وہ شرک کی حالت میں مر گیا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2592
باب: قبولیت اسلام کے بعد کافر کی حالت کفر میں کی گئی نیکیوں کی اہمیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 43
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ابن جدعان دور جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مساکین کو کھانا کھلاتا تھا، آیا یہ نیکیاں اس کے لیے نفع مند ثابت ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، عائشہ! اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا تھا: اے میرے رب! روز قیامت میرے گناہوں کو بخش دینا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 249
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 44
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اسلام قبول کرتا ہے اور اس کے اسلام میں حسن آ جاتا ہے، تو اس نے جو نیکی کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے لکھ کر (محفوظ کر لیتا) ہے اور اس نے جس برائی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے اسے مٹا دیا جاتا ہے۔ پھر (اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مزید بدلہ یوں ہوتا ہے کہ ایک نیکی دس سے سات گنا تک کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور رہا مسئلہ برائی کا، تو وہ ایک ہی رہتی ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ وہ بھی معاف کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 247
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 45
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا: ہشام بن مغیرہ صلہ رحمی کرتا تھا، مہمانوں کی میزبانی کرتا تھا، غلاموں کو آزاد کرتا تھا، کھانا کھلاتا تھا اور اگر اسلام کا دور پاتا تو مسلمان بھی ہو جاتا، آیا یہ اعمال اس کے لیے نفع مند ثابت ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہ تو دنیاوی غرض و غایت، اس کی صیت و شہرت اور اس کی خوشامد و چاپلوسی کے لیے دیتا تھا، اس نے ایک دن بھی نہیں کہا: اے میرے رب! روز قیامت میرے گناہوں کو معاف فرما دینا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2927
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 46
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جو نیکیاں کر چکے ہو، ان سمیت اسلام لائے ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 248
باب: اگر کوئی مسلمان ادائیگی حج کے بعد مرتد ہو کر پھر مسلمان ہو جائے تو کیا سابقہ حج اسے کفایت کرے گا؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 47
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اسلام قبول کرتا ہے اور اس کے اسلام میں حسن آ جاتا ہے، تو اس نے جو نیکی کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے لکھ کر (محفوظ کر لیتا ہے) ہے اور اس نے جس برائی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے اسے مٹا دیا جاتا ہے پھر (اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مزید بدلہ یوں ہوتا ہے کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور رہا مسئلہ برائی کا، تو وہ ایک ہی رہتی ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ وہ بھی معاف کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 247
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 48
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جو نیکیاں کر چکے ہو، ان سمیت اسلام لائے ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 248
باب: قبولیت اسلام کے بعد پہلے والے جرائم کا مؤاخذہ کب کیا جائے گا؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 49
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بقیہ زندگی میں (اپنے اسلام میں) حسن پیدا کیے رکھا، اس کے گزشتہ (گناہ) معاف کر دئیے جائیں گے اور جو بقیہ زندگی میں بھی برائیاں کرتا رہا، اس سے گزشتہ اور آئندہ (دونوں زندگیوں میں ہونے والے گناہوں کی) باز پرس ہو گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3389
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 50
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے دور جاہلیت میں جن برائیوں کا ارتکاب کیا، کیا ان کی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے اسلام میں حسن پیدا کر لیتا ہے اس سے دور جاہلیت میں کی گئی برائیوں کی باز پرس نہیں ہو گی اور جو (اسلام قبول کرنے کے بعد بھی برائیاں کرتا رہتا ہے، اس سے پہلے اور پچھلے (سب) گناہوں کی پوچھ کچھ ہو گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3390
باب: ایمان لانے والے اہل کتاب اور اہل شرک کے اجر و ثواب میں فرق
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 51
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے بہت اچھی باتیں ارشاد فرمائیں، ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی: ”جو اہل کتاب (یہودی یا نصرانی) مسلمان ہو گا اسے دو اجر ملیں گے نیز اسے وہی حقوق دئیے جائیں گے جو ہمارے ہیں اور اس پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو ہم پر ہوتی ہیں اور جو مشرک مسلمان ہو گا اسے ایک اجر ملے گا اور اسے بھی وہی حقوق نصیب ہوں گے جو ہمیں ہوتے ہیں اور اسے وہی ذمہ داریاں چکانا ہوں گی، جو ہم چکاتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 304
باب: اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ لوگ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 52
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند اور مبغوض ترین ہیں: حرم میں الحاد برپا کرنے والا، اسلام میں جاہلیت کے مروج ہونے کو چاہنے والا اور کسی آدمی کا ناحق خون کرنے کے لیے کوشاں رہنے والا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 778
باب: غیر اللہ کی قسم منع ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 53
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ”اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی قسم اٹھانا شرک ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2042
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 54
جہینہ قبیلے کی خاتون سیدہ قتیلہ بنت صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: تم لوگ شرک کرتے ہو کیونکہ تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور تم چاہو اور تم کعبہ کی قسم اٹھاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا: ”تم کہا کرو: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو اور قسم اٹھاتے وقت کہا کرو: رب کعبہ کی قسم۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 136
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 55
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم اٹھایا کرو، اسے پورا کیا کرو اور سچ بولا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ غیر کی قسم اٹھانے کو ناپسند کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1119
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 56
سیدہ قتیلہ بنت صفی جہنیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! تم بہترین لوگ ہو، لیکن کاش کہ تم شرک نہ کرتے ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! (بڑا تعجب ہے) وہ کیسے؟“ اس نے کہا: جب تم قسم اٹھاتے ہو تو کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اب جو آدمی بھی قسم اٹھائے وہ کعبہ کے رب کی قسم اٹھائے (نہ کہ کعبہ کی)۔“ اس نے پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم بڑے اچھے لوگ ہو، لیکن کہ کاش کہ تم اللہ کے لیے اس کا ہمسر نہ ٹھہراتے ہوتے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اگر کوئی آدمی ”ماشاء اللہ“ کہے تو وہ «ثُم شئت» “ کہے (یعنی: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1166
باب: کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے کی تلقین
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 57
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو اور راہِ مستقیم پر چلتے رہو اور (لوگوں کو)ْ خوشخبریاں سناتے رہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 885
باب: آزمائشیں اس امت کا مقدر ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 58
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام قبول کرنے والے تمام افراد کو شمار کرو۔“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آیا آپ ہمارے بارے میں خوفزدہ ہیں، حالانکہ ہماری تعداد چھ سو سے سات سو تک ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (حقیقت حال کا) علم نہیں رکھتے، شائد تم آزمائشوں میں پڑ جاؤ۔“ راوی کہتے ہیں: پھر ہمیں اس قدر آزمایا گیا کہ ہم میں سے ایک آدمی کو مخفی نماز پڑھنا پڑتی تھی، (یعنی وہ بعض وجوہات کی بنا پر اعلانیہ نماز نہیں پڑھ سکتا تھا)
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 246
باب: محبوب ترین دین
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 59
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کون سا دین اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ملت اسلام، جو نرمی و سہولت آمیز شریعت ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 881
باب: امت محمدیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرتب شریعت آسان ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 60
سیدنا محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر موصول ہوئی کہ فلاں بندہ مسجد میں لمبی نماز ادا کر رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے، اس کے کندھے کو پکڑا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے آسانی کو پسند اور تنگی کو ناپسند کیا ہے (یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی) جب کہ اس بندے نے تنگی کو اختیار کیا ہے اور آسانی کو ترک کر دیا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1635
باب: راہ اعتدال پر گامزن رہنے کی تلقین اور طریقہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 61
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک یہ دین آسان ہے، جو بھی اس دین سے زور آزمائی کرے گا یہ اس کو پچھاڑ دے گا۔ اس لیے راہ راست پر چلتے رہو، میانہ روی اختیار کرو، خوشخبریاں سناتے رہو اور صبح کے وقت، شام کے وقت اور رات کو کچھ وقت (عبادت کر کے) مدد حاصل کرتے رہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1161
باب: دین میں غلو منع ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 62
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کے موقع پر) مجھے گھاٹی والی صبح کو فرمایا تھا، اس حال میں کہ آپ اپنی سواری پر کھڑے تھے: ”ادھر آؤ (کنکریاں) اٹھا کر لاؤ۔“ سو میں بیچ کی دو انگلیوں میں رکھ کر پھینکی جانے والی کنکریوں کے سائز کی کنکریاں اٹھا کر لایا، آپ نے ان کو اپنے ہاتھ میں رکھا اور دو دفعہ فرمایا: ”ان جتنی کنکریاں ہوں۔“ پھر آپ نے اپنا ہاتھ بلند کیا۔ راوی حدیث یحییٰ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بات سمجھائی۔ اور فرمایا: ”دین میں غلو کرنے سے بچو، تم سے پہلے والے لوگ دین میں غلو کر نے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1283
باب: تقدیر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 63
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک تقدیر پر ایمان نہیں لاتا وہ اچھی ہو یا بری اور جب تک اسے یہ (پختہ) علم نہیں ہو جاتا کہ (اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق) جس چیز نے اسے لاحق ہونا ہے وہ ٹل نہیں سکتی اور جو ٹل گئی وہ لاحق نہیں ہو سکتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2439
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 64
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کا معاملہ اس وقت تک ہمنوائی، ہم خیالی، (اتحاد اور موافقت) والا رہے گا جب تک یہ لوگ بچوں اور تقدیر (کے مسائل) میں گفتگو نہیں کریں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1515
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 65
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا، جب تک اسے یہ (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ (اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) جس چیز نے اسے لاحق ہونا ہے وہ تجاوز نہیں کر سکتی اور جو چیز تجاوز کر گئی وہ لاحق نہیں ہو سکتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3019
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 66
طاوس یمانی کہتے ہیں: جتنے صحابہ کرام سے میری ملاقات ہوئی وہ کہتے تھے: ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے اور میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے، حتیٰ کہ بے بسی و لاچارگی اور عقل و دانش بھی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 861
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 67
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور آدمی ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک اسے اس چیز کا (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ جو چیز (اللہ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) اسے لاحق ہونی ہے وہ اس سے تجاوز نہیں کر سکتی اور جس چیز نے اس سے تجاوز کرنا ہے وہ اسے لاحق نہیں ہو سکتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2471
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 68
ابن زرارہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آیت میری امت کے آخری زمانے کے تقدیر کو جھٹلانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی «ذوقوا مس سقر. إنا كل شيء خلقناه بقدر» دوزخ کے آگے لگنے کے مزے چکھو۔ بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرر اندازے پر پیدا کیا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1539
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 69
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان تین قسم کے اشخاص کی فرضی عبادت نہ قبول ہوتی ہے نہ نفلی: نافرمان و بدسلوک، احسان جتلانے والا اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1785
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 70
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ملے، ہم نے ان کے سامنے تقدیر اور اس کے بارے میں لوگوں کے خیالات کا تذکرہ کیا ...... مزینہ یا جہنیہ قبیلہ کے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز میں عمل کر رہے ہیں؟ آیا اس (تقدیر) کے مطابق فیصلہ کیا جا چکا ہے یا ازسرِنو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس (تقدیر) کے مطابق جس کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے۔“ اس نے یا کسی اور آدمی نے کہا: ”تو پھر عمل کی کیا حقیقت رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جنت کے لیے جنتیوں کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لیے جہنمیوں کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3521
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 71
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ جو عمل کر رہے ہیں،آیا ان کا (پہلے ہی سے فیصلہ کر کے) ان سے فارغ ہوا جا چکا ہے یا ہم ازسرِنو عمل کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””اس معاملے (کا فیصلہ کر کے) اس سے فراغت حاصل کی جا چکی ہے۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کاہے کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا اسے اسی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2033
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 72
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑا۔ اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ اور دنیا کو، اور دنیا میں کی جانے والی ہر نیکی و بدی اور رطب و یابس کو لکھا اور سب چیزوں کو اپنے پاس لوح محفوظ میں شمار کر لیا پھر فرمایا: اگر چاہتے ہو تو (اس مصداق والی یہ آیت) پڑھ لو: «هذا كتابُنا يَنْطِقُ عليكم بالحق إنا كنا نَسْتَنْسِخُ ما كنتم تعملون» ”یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ مچ بول رہی ہے، ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے ہیں“ (سورۃجاثیہ:29)۔ لکھنا اور نقل کرنا اسی امر میں ہوتا ہے جس سے فارغ ہوا جا چکا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3136
باب: تقدیر برحق ہے، لیکن انسان کا اختیار
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 72M
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مٹھیوں کے بارے میں فرمایا: ”اس مٹھی والے (بندے) اس (جنت) کے لیے اور اس مٹھی والے (بندے) اس (جہنم) کے لیے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 46
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 73
سیدنا عبدالرحمٰن بن قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: یہ جنت کے لیے ہیں اور میں بےپروا ہوں اور یہ جہنم کے لیے ہیں اور میں کوئی پروا نہیں کرتا۔“ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز کے مطابق عمل کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تقدیر کے مطابق۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 48