جلال Salafi
رکن
- شمولیت
- اپریل 13، 2019
- پیغامات
- 80
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 41
سورہ مریم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔
كۗهٰيٰعۗصۗ
کھیعص ۔
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِيَّا
یہ آپ کے پروردگار کی اس رحمت کا ذکر ہے جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔
مصباح القران
ذِكْرُ (ذکر ہے ) رَحْمَتِ (رحمت کا ) رَبِّ كَ ( تیرے رب ) عَبْدَ هٗ ( اپنے بندے ) زَكَرِيَّا (زکریا )
] ذِكْرُ : ذکر ، اذکار ، تذکرہ ، مذکور ][ رَحْمَتِ : رحمت ، مرحوم ، رحم ][ رَ بِكَ رب ، ربوبیت ، رب العالمین ][ عَبْدَ هٗ : عبد ، عابد ، معبود ، عبادت ]
تفسیر
1۔ زکریا (علیہ السلام) ، رجعیم بن سلیمان، بن داود کی اولاد ہیں یہ حضرات حضرت ہارون کی اولاد سے ہیں اور حضرت ہارون لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم کی اولاد سے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ نیک و صالح بیٹا اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ رب نے اس سورت میں فرزند صالح کو رحمت فرمایا۔ خصوصا جب کہ بڑھاپے میں عطا ہو۔
2۔ آپ کی رسالت کا اثبات صرف قرآن مجید کرتا ہے، یہود اور نصرانی دونوں ان کی رسالت کے منکر ہیں۔ نصرانیوں کے ہاں ان کی حیثیت ہیکل بیت المقدس کے ایک بزرگ مجاور و خادم کی ہے۔ (آیت) ” عبدہ “۔ یعنی اس کا مقبول ومعزز بندہ۔ اضافت اضافت تشریفی ہے۔ جب بندہ کا تعلق اللہ کے ساتھ خاص تقرب وشرف کا دکھانا ہوتا ہے تو محاورۂ قرآنی میں عموما ایسے موقع پر ذکر (آیت) ” عبداللہ “۔ یا عبدنا یا (آیت) ” عبدہ “۔ کرکے لیا جاتا ہے۔
3۔سورة مریم کا آغاز جس واقعہ سے کیا ہے ، حقیقت میں یہ سابقہ آیت کی تفسیر ہے ، جس میں بتایا گیا تھا ، کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا کوئی مقرر و متعین اندازہ نہیں ، ہم اس کی وسعتوں کا صحیح صحیح جائزہ نہیں لے سکتے ، ہم نہیں جانتے کہ اس کی بخششیں کن طریقوں اور واسطوں سے ہوتی ہیں ، ہمارا علم محدود ہے اور اس کے دینے اور بخشنے کے انداز لا محدود ہیں ۔
4۔حضرت زکریا (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ایک زبردست پیغمبر تھے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ آپ بڑھئی کا کام کرکے اپنا پیٹ پالتے تھے ۔ حضرت زکریا بوڑھے ہوگئے تھے اور ان کی بیوی جو حضرت مریم کی خالہ تھیں ، بانجھ تھیں ۔ ان کے اولاد نہیں تھی اور ان کو اپنے رشتہ داروں کی طرف سے اندیشہ تھا کہ کہیں وہ ان کے بعد دین میں تغیروتبدل اور تحریف نہ کرڈالیں ، اس لئے ایک روز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے نہایت عجزوزاری کے ساتھ دعا کی اے میرے رب ! میرے قویٰ کمزور ہوگئے ہیں ۔ میری ہڈیاں کھوکھلی ہوچکی ہیں ، میرے سر کے بالوں کی سیاہی سفیدی کے ساتھ بدل گئی ہے ۔ مجھے اندورنی اور بیرونی ضعف نے گھیر لیا ہے ۔ میں تیرے دروازے سے کبھی خالی ہاتھ نہیں گیا ۔ جب بھی تجھ سے کچھ مانگا تونے اپنے کرم سے عطا فرمادیا ۔
میں اپنی موت کے بعد اپنے رشتہ داروں اور وارثوں سے ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ میرے بعد دین کی حفاظت میں سستی نہ کریں یا دنیوی اغراض کے لئے اس میں تحریف کردیں ، جیسا کہ بنی اسرائیل کرتے رہے ہیں ۔ اے میرے پروردگار ! میں تیرے دین کی حفاظت اور خدمت کی غرض سے یہ دعا کررہا ہوں ۔ میری بیوی تو شروع ہی سے بانجھ ہے ۔ ظاہری اسباب میں اولاد کا کوئی امکان نہیں ۔ اس لئے اے میرے رب ! تو مجھے خاص اپنی طرف بلا اسباب عادیہ ایک ایسا فرزند عطا کر جو میرے بعد میری نبوت کا وارث اور دین کا نگہبان ہو اور اولادیعقوب کا بھی وارث ہو اور اے اللہ ! تو اسے اپنا مقبول اور پسندیدہ بنالے ۔ (ابن کثیر 110، 111/3، حقانی 240، 241/3)
رد عیسائت
فائدہ :۔۔۔ اصل مقصود تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت یا سعادت کا ذکر فرمانا ہے لیکن اس سے پہلے تمہیداً حضرت یحیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا ذکر ہے کیونکہ دونوں کی ولادت خلاف معمول ہوئی ہے یہ سمجھایا جائے گا کہ خلاف معمول پیدا ہونے سے انسان خدا نہیں بن جاتا، دیکھئے حضرت یحیٰ (علیہ السلام) کو کوئی خدا نہیں مانتا تو پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کس طرح خدا یا خدا کے بیٹے بن گئے ؟ حالانکہ وہ خود خدا تعالیٰ کا بندہ ہونے کا اقرار کرچکے ہیں اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے بندہ حضرت زکریا (علیہ السلام) پر جو رحمت ہوئی ہے اس کا ذکر شروع ہوتا ہے۔
(تاریخ مسجد اقصی)
حضرت زکریا (علیہ السلام) کے ہم زلف تھے عمران ابن ماثان (رح) یہ اپنے دور کے ولی تھے اور مسجد اقصٰی کے امام تھے ، مسجد اقصی کی بنیاد حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے رکھی تھی اور اس میں توسیع حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کی تھی ، پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی تعمیر شاہی ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ کرائی ، مسجد اقصٰی بیت المقدس شہر میں واقع ہے ۔ یہ شہر ” صیھون “ ۔ بروزن برزون پہاڑ پر واقع ہے جو سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے جیسے ہمارے ہاں مری ہے ، ١٩٦٧ ء کی لڑائی میں یہود نے اس علاقہ پر قبضہ کرلیا تھا اور آج تک وہ اس پر قابض ہیں جب چاہیں مسجد اقصی میں نماز پڑھنے دیتے ہیں اور جب چاہیں نہیں پڑھنے دیتے ، حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی کا نام عشاعہ بنت فاقوذ تھا اور عمران بن ماثان کی بیوی کا ناحنہ بنت فاقوذ رحمۃ اللہ علیہما “۔ تھا ۔ یہ دونوں بہنیں تھیں حضرت عمران بن ماثان (رح) کا ایک لڑکا تھا جس کا نام ہارون تھا ، اسی سورت میں آگے اس کا نام اور ذکر آئے گا ، یہ بھی بڑا نیک اور پارسا لڑکا تھا اور جوانی میں فوت ہوگیا ’ حنۃ بنت فاقوذ بڑی پریشان تھیں کہ میرا خاوند بہت بوڑھا اور کمزور ہے اس کی گدی (سیٹ) کو کون سنبھالے گا ؟ دعا کی اے پروردگار ! مجھے کوئی اولاد عطا فرما میں اسے تیری رضا کیلئے وقف کر دونگی ، تیسرے پارے میں اس کا ذکر ہے خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ لڑکا عطا فرمائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے لڑکی عطا کی جس کا نام مریم رکھا (علیہا السلام) ، ” امام بخاری (رح) فرماتے ہیں کہ مریم کا معنی ہے عبادہ ، یہ مریم عبرانی زبان کا لفظ ہے والدین بچپن میں ہی فوت ہوگئے تربیت کے سلسلہ میں اختلاف ہوا ہر ایک کا خیال تھا کہ میں تربیت کروں ، تیسرے پارے میں اس کا ذکر ہے ، قرعہ اندازی ہوئی قرعہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے نام نکلا، (مریم علیہا السلام) ان کی تحویل میں دیدی گئیں ، آگے تفصیل آرہی ہے کہ جب وہ جوان ہوئیں اور غسل سے فارغ ہو کر کپڑے پہنے تو ایک صحت مند نوجوان ان کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا ، یہ گھبرا گئیں کہ اس کا ارادہ اچھا نہیں ہے ۔ اس نے کہا بی بی ! گھبرائیں نہیں میں تیرے رب کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں آپ کو لڑکے کی خوشخبری دینے کیلئے آیا ہوں ، فرمانے لگیں ، میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا (آیت)” لم یمسسنی بشر ولم اک بغیا “۔ ” نہیں چھوا مجھے کسی بشر نے نکاح کے ساتھ اور نہ ہی میں بدکار ہوں “۔ کہا اسی طرح اللہ تعالیٰ تجھے بچہ دے گا چونکہ اس سورة میں تفصیلا حضرت مریم (علیہا السلام) کا ذکر آ رہا ہے اس لئے اس سورت کا نام مریم ہے یعنی وہ سورت میں مریم (علیہا السلام) کا ذکر ہے ۔