• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلسلہ فقہی مسائل

شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
سلسلہ فقہی مسائل

کتاب نام:فقہ کتاب و سنت
تالیف:محمد صبحی بن حسن حلاق حفظ اللہ
تحریر: احقرجلال الزمان کی طرف سے
پانی کی اقسام

ماء مطلق (سادہ پانی)
وہ پانی جو کسی نسبت یعنی اضافت لازمہ سے خالی ہو۔
مشلا: ماء البطیخ یعنی تربوز کا پانی میں ماء کی اضافت البطیخ کی طرف لازم ہے اور اس کے بغیر تربوز کے پانی کو پانی نہیں کہا جاسکتا۔جبکہ ماء البر کنویں کا پانی ماء البحر سمندر کا پانی وغیرہ اضافت لازمہ نہیں بلکہ اضافت کے بغیر ہی اسے ماء یعنی پانی کہتے ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے اس کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ چیز جس کی تعریف میں پانی کہنا ہی کافی ہو۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ سادہ پانی وہ ہے جو اپنی قدرتی اور پیدائشی وصف پر باقی ہو۔(المجموع،والمغنی)
ماء مطلق سادہ پانی کی صورتیں درج ذیل ہیں

بارش برف یا اولوں کا پانی
اللہ تعالٰی نے فرمایا:
وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ
اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا کہ اس پانی کے ذریعہ سے تم کو پاک کر دے ۔ (الانفال ۱۱،۸)
اور سورۃ فرقان میں ہے۔
وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا
اور ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں ۔(الفرقان۴۸:۲۵)
صحیح البخاری میں ہے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے تھے۔ ابوزرعہ نے کہا میں سمجھتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یوں کہا یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ اس تکبیر اور قرآت کے درمیان کی خاموشی کے بیچ میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھتا ہوں «اللهم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم نقني من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم اغسل خطاياى بالماء والثلج والبرد» اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسے سفید کپڑا میل سے پاک ہوتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال۔(حدیث نمبر: 744 )
سمندر دریا اور نہر کا پانی
سنن ابی داود میں ہے۔
قبیلہ بنو عبدالدار کے ایک فرد مغیرہ بن ابی بردہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ (عبداللہ مدلجی نامی) ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں گے، کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی بذات خود پاک اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے“۔
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطھارة 52 (69)، سنن النسائی/الطھارة 47 (59)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 38 (386)، (تحفة الأشراف: 14618)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطھارة 3(12)، مسند احمد (2/237، 361، 378)، سنن الدارمی/الطھارة 53 (755)
قال الشيخ الألباني: صحيح (حدیث نمبر: 83)
اور قرآن مجید کی واضح نص ہے۔
فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا
اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں پر مسح (کرکے تیمم) کرلو ۔(النساء ۴۳:۴)
زم زم کا پانی
علی رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بیان سے متعلق ایک روایت ہے: آپ نے (دس ذوالحجہ کو) طواف افاضہ کیا اور زم زم کے پانی کا ایک ڈول طلب فرمایا ، اس سے آپ نے پیا اور وضو کیا،پھر فرمایا:اے بنی عبدالمطلب! پانی نکالو (اور حاجیوں کی خدمت میں پیش کرو) اگر مجھے یہ اندیشہ نا ہوتا کہ تم اس خدمت میں مغلوب کردیے جاو گے تو میں بھی نکالتا۔(مسند احمد ۷۶:۱ حدیث حسن)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم یہ ہےکہ اگر مجھے یہ اندیشہ نا ہو کہ لوگ زمزم کے کنوے سے پانی نکالنے کو اعمال حج میں سے سمجھیں گے اور تم پر اس قدر بھیڑ لگالیں گے کہ وہ تم پر غالب آجائیں گے اور تمہیں پانی پلانے سے پیچھے دکھیل دیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی نکالتا (اور پلاتا) کیونکہ اس میں بڑی فضیلت ہے۔
کنویں کا پانی
سنن ابی داود میں ہے:
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: کیا ہم بئر بضاعہ کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں، جب کہ وہ ایسا کنواں ہے کہ اس میں حیض کے کپڑے، کتوں کے گوشت اور بدبودار چیزیں ڈالی جاتی ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی پاک ہے، اس کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کچھ لوگوں نے عبداللہ بن رافع کی جگہ عبدالرحمٰن بن رافع کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطھارة 49 (66)، سنن النسائی/المیاہ 1 (327، 328)، (تحفة الأشراف: 4144)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/15، 16، 31، 86)
قال الشيخ الألباني: صحيح(حدیث نمبر: 66)
یاقوت حموی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ بضاعہ کی باء پر پیش ہے جبکہ کچھ نے اسے زیر سے بھی پڑہا ہے۔مگر اکسر پیش ہی سے پڑہتے ہیں۔ بضاعہ مدینہ میں بنی ساعدہ کا ایک محلہ تھا اس کا کنواں مشہور ہے۔(معجم البلدان)
ابن اثیر رحمہ اللہ نے کہا ہےکہ یہ مدینہ منورہ کا ایک مشہور کنواں ہے۔(النھایۃ)
وہ پانی جس کی رنگت بدل گئی ہو
لمبی مدت تک رکے رہنے یا مقامی اثر کی وجہ سے یا کائی اور درختوں کے پتوں یا دوسری عام پاک چیزوں کے باعث پانی کا رنگ بدل گیا ہو تو باتفاق علماء یہ بھی ماء مطلق(عام سادہ پانی )ہے۔اور اس معاملے میں اصل یہ ہے کہ ہر وہ پانی جسے بلا کسی قید پانی کہا جاسکتا ہے۔اس سے طہارت حاصل کرنا صحیح ہے کیونکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا
اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو۔(المائده۶:۵)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ماء آجن یعنی کسی چیز کے ملاوٹ کے بغیر محض رکے رہنے سے جس پانی کا رنگ بو اور زائقہ بدل گیا ہو اکثر علمائے کرام کے نزدیک وہ اپنی اصل پر باقی ہے یعنی ماء مطلق ہی ہے۔(المغنی)
ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں: وہ تمام علماء کرام جن کے اقوال ہمیں معلوم ہیں ان کا اجماع ہے کہ ماء آجن یعنی رنگت یا مزہ بدلا ہوا پانی اگر کسی نجاست کی وجہ سے نہ بدلا ہو تو اس سے وضو جائز ہے۔ابن سیرین رحمہ اللہ سے مکروہ یعنی نہ پسندیدہ قرار دیتے ہیں مگر جمہور کا قول ہی اولی ہے۔(الاجماع)
ابن رشد لکھتے ہیں:علماء کرام کا اجماع ہے کہ وہ چیزیں جو عام طور پر پانی سے الگ نہیں ہوتیں اور ان سے پانی بدل جایا کرتا ہے ان سے پانی کی صفت طہارت و تطہیر یعنی بذات خد پاک ہونے اور دوسروں کو پاک کرنے کی خاصیت ضائع نہیں ہوتی۔(بدایۃ المجتہد)
ماء مستعمل
استعمال شدہ پانی جو کسی وضو کرنے والے یا نہانے والے کے اعضاء سے گرتا ہے ماء مستعمل کہتے ہیں۔ایسا استعمال شدہ پانی بذات خد پاک ہوتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے محمد بن المنکدر کے واسطے سے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ میں بیمار تھا ایسا کہ مجھے ہوش تک نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، تو مجھے ہوش آ گیا۔(حدیث نمبر: 194)
اور ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں دوپہر کو تشریف لائے تو آپ کو وضو کے لیے پانی دیا گیا آپ نے وضو فرمایا تو لوگ آپ کے وضو کا بقیہ پانی لے کر اپنے جسموں پر ملنے لگے۔(نیل الاوطار)
وہ پانی جس میں کوئی پاک چیز مل گئی ہو
اگر پانی میں زعفران صابن پانی آٹا یا اس کے علاوہ دوسری پاک چیز یں مل جایں جو بلعموم اس سے علیحدہ ہی ہوتی ہیں تو ایسا پانی پاک ہوتا ہے جب تک اس پر پانی کا اطلاق ہوتا رہے۔اگر وہ پانی کے نام سے خارج ہوجائے اور اسے ماء مطلق یعنی آم پانی کہ کہا جاسکے تو اس حالت میں وہ بذات خد تو پاک ہوگا مگر دوسروں کو پاک کرنے والا نہ ہوگا۔
صحیح بخاری میں ہے:
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے ام عطیہ انصاری رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی (زینب یا ام کلثوم رضی اللہ عنہما) کی وفات ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ دے سکتی ہو۔ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ملا لو اور آخر میں کافور یا (یہ کہا کہ) کچھ کافور کا استعمال کر لینا اور غسل سے فارغ ہونے پر مجھے خبر دے دینا۔ چنانچہ ہم نے جب غسل دے لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیدی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنا ازار دیا اور فرمایا کہ اسے ان کی قمیص بنا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اپنے ازار سے تھی۔(حدیث نمبر: 1253 )
یعنی یہ کپڑا اس کے جسم سے اس طرح لپیٹ دو کہ وہ اس کے جسم کے ساتھ لگا ہوا ہو۔
سنن نسائی میں ہے:
ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا دونوں نے ایک ہی برتن سے غسل کیا، ایک ٹب سے جس میں گندھے ہوئے آٹے کا اثر تھا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطھارة 35 (378)، (تحفة الأشراف: 18012)، مسند احمد 6/342
قال الشيخ الألباني: صحيح(حدیث نمبر: 241)
ان دونوں احادیث میں بیان ہے کہ پانی میں کافور اور آٹے کا اثر تھا مگر وہ اس حد تک غالب نہ تھا کہ اسے مطلق پانی ہونے کی صفت سے خارج کر دیتا یعنی وہ پانی اپنی طبیعت یعنی رقت اور سیلان پر باقی تھا تو اس طرح کے پانی سے طہارت حاصل کرنا جائز ہے۔
ایسا پانی جس میں کوئی نجاست پڑگئی ہو
پانی تھوڑا ہو یا زیادہ جب اس میں کوئی نجاست پڑجائے اور اس کا زائقہ رنگ یا بو بدل جائے تو وہ پلید ہوتا ہے اور اس سے پاکیزگی طہارت حاصل کرنا جائز نہیں۔اس کی دلیل اجماع ہے۔
امام ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:علماء کا اس میں اجماع ہے کہ پانی تھوڑا ہو یا زیادہ جب اس میں کوئی نجاست پڑجائے اور اس کا زائقہ رنگ یا بو بدل جائے تو جب تک وہ ایسا رہے پلید ہوتا ہے۔(الاجماع لابن المنذر)
ابن رشد کہتے ہیں:علماء کا اجماع ہے کہ ایسا پانی جو نجاست کی وجہ سے اپنے زائیقے رنگ یا بو میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد وصف بدل لے تو اس سے وضو یا طہارت جائز نہیں ہے۔(بدایۃ المجتھد)
البتہ پانی کم ہو زیادہ جب اس میں کوئی نجاست پڑجائے اور اس کا رنگ زائقہ یا بو تبدیل نہ ہو تو وہ پاک ہوتا ہے اور پاک کرنے والا بھی۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
۱۔حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ جو کنویں کے پانی کے بیان میں گزر چکی ہے۔
۲۔دوسری حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ کی سنن ابی داود میں اس طرح ہے:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر جانور اور درندے آتے جاتے ہوں (اس میں سے پیتے اور اس میں پیشاب کرتے ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب پانی دو قلہ ہو تو وہ نجاست کو دفع کر دے گا (یعنی نجاست اس پر غالب نہیں آئے گی)“۔
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الطھارة 43 (52)، (تحفة الأشراف: 7272)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطھارة 50 (367)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 75 (517، 518)، سنن الدارمی/الطھارة 55 (758)
قال الشيخ الألباني: صحيح(حدیث نمبر: 63)
وضاحت: ۱؎: یعنی جب پانی دو قلہ ہو تو وہ نجاست کے گرنے سے نجس نہیں ہو گا، (الایہ کہ اس کا رنگ، بو، اور مزہ بدل جائے) دو قلہ کی مقدار (۵۰۰) عراقی رطل ہے اور عراقی رطل (۹۰) مثقال کے برابر ہوتا ہے، انگریزی پیمانے سے دو قلہ کی مقدار تقریباً دو کوئنٹل کے برابر ہے۔
اور ابن ماجہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحراء اور میدان میں واقع ان گڈھوں کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا جن سے مویشی اور درندے پانی پیتے رہتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو قلہ (دو بڑے مٹکے کے برابر) ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔
اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین باقی مسائل اگلی تحریر میں بیان ہوں گے انشاءاللہ۔
 
Top