طارق بن زیاد
مشہور رکن
- شمولیت
- اگست 04، 2011
- پیغامات
- 324
- ری ایکشن اسکور
- 1,719
- پوائنٹ
- 139
سلفیہ اور اہل الحدیث
-------------
سلفیہ اور اہل الحدیث مختلف پس منظر رکھنے والے دو الگ الگ مکاتب فکر ہیں کہ جنہیں اکثر لوگ ایک ہی سمجھ لیتے ہیں۔ ان دونوں میں وہی فرق ہے جو اشعریہ اور شافعیہ یا ماتریدیہ اور حنفیہ میں ہے۔ سلفیت اصل میں عقیدے کی اصلاح کی تحریک ہے جبکہ اہل حدیث ایک فقہی مکتبہ فکر ہے۔
اہل حدیث فقہی جمود کی اصلاح کی تحریک ہے کہ جس کا آغاز برصغیر میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ سے ہوا۔ حضرت شاہ صاحب سے بہت پہلے امام ابن حزم رحمہ اللہ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فقہی جمود کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ کی تحریک رد عمل کی تحریک تھی یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی جلالت علمی کے باوصف ائمہ پر بعض اوقات طنز اور طعن بھی کر جاتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تحریک اصلاحی تحریک تھی کہ وہ ائمہ سے اختلاف کرتے ہوئے پورے ادب اور احترام کے ساتھ ان کا ذکر کرتے ہیں۔
سلفیت عقیدے کی اصلاح کی تحریک ہے کہ جس کا آغاز تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ہوا لیکن اسے ایک باقاعدہ تحریک کی صورت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دی۔ یہ تحریک دراصل یونانی فلسفے اور منطق اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مسلم فلاسفی، علم الکلام اور نظریاتی تصوف کے بگاڑ اور فساد کی اصلاح کے لیے کھڑی ہوئی۔ اور ماضی قریب میں حجاز کے علاقے میں شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ کے ہاتھوں اس تحریک کی تجدید ہوئی ہے۔
اہل الحدیث میں اکثر سلفی ہوتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کا عقیدہ سلفی نہیں ہے جیسا کہ مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ کہ فقہی مسائل میں تو اہل حدیث ہیں جبکہ عقیدے میں اشعریت کی طرف مائل ہیں بلکہ وہ تو عقلیات ابن تیمیہ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف بیان کرنے کی بجائے اس پر نقد شروع کر دیتے ہیں۔ اور بعض سلفی ایسے ہیں جو اہل الحدیث نہیں ہیں جیسا کہ حنابلہ بلکہ حنفیہ میں بھی سلفی العقائد علماء موجود ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب وغیرہ میں عقیدے کی اصلاح پر زور ہے کہ وہاں کی وہابی تحریک کا اصل مقصد یہی تھا جبکہ فقہ کے معاملات میں وہ چاروں فقہیں پڑھاتے ہیں اور خود حنبلی مسلک کی نسبت رکھتے ہیں جبکہ برصغیر میں اہل حدیث نے زیادہ کام فقہی جمود کے خلاف کیا ہے لیکن جب یہاں سے طلباء اور علماء سعودی عرب جانا شروع ہوئے تو یہاں بھی توحید اسماء وصفات کی بحثیں عام ہونا شروع ہو گئیں۔
میں خود سلفی العقیدہ ہوں اور فقہی طور اہل حدیث کے مسلک سے فکری مناسبت رکھتا ہوں لیکن یہ بات کہنے میں حرج محسوس نہیں کرتا کہ آج سلفیت اور اہل حدیث کی دعوت اور منہج کے پھیلاو میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ خود ہیں۔ اور اس کی وجہ دلیل کی کمزوری نہیں بلکہ اخلاق اور رویوں کی کمی ہے۔ آج اہل حدیث کو ابن حزم رحمہ اللہ کی ضرورت نہیں بلکہ جنید بغدادی رحمہ اللہ کی ضرورت ہے لیکن ان کا سارا زور اور وسائل ابن حزم رحمہ اللہ پیدا کرنے پر صرف ہو رہے ہیں۔
بشکریہ ھ م زبیر سلفی
-------------
سلفیہ اور اہل الحدیث مختلف پس منظر رکھنے والے دو الگ الگ مکاتب فکر ہیں کہ جنہیں اکثر لوگ ایک ہی سمجھ لیتے ہیں۔ ان دونوں میں وہی فرق ہے جو اشعریہ اور شافعیہ یا ماتریدیہ اور حنفیہ میں ہے۔ سلفیت اصل میں عقیدے کی اصلاح کی تحریک ہے جبکہ اہل حدیث ایک فقہی مکتبہ فکر ہے۔
اہل حدیث فقہی جمود کی اصلاح کی تحریک ہے کہ جس کا آغاز برصغیر میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ سے ہوا۔ حضرت شاہ صاحب سے بہت پہلے امام ابن حزم رحمہ اللہ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فقہی جمود کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ کی تحریک رد عمل کی تحریک تھی یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی جلالت علمی کے باوصف ائمہ پر بعض اوقات طنز اور طعن بھی کر جاتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تحریک اصلاحی تحریک تھی کہ وہ ائمہ سے اختلاف کرتے ہوئے پورے ادب اور احترام کے ساتھ ان کا ذکر کرتے ہیں۔
سلفیت عقیدے کی اصلاح کی تحریک ہے کہ جس کا آغاز تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ہوا لیکن اسے ایک باقاعدہ تحریک کی صورت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دی۔ یہ تحریک دراصل یونانی فلسفے اور منطق اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مسلم فلاسفی، علم الکلام اور نظریاتی تصوف کے بگاڑ اور فساد کی اصلاح کے لیے کھڑی ہوئی۔ اور ماضی قریب میں حجاز کے علاقے میں شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ کے ہاتھوں اس تحریک کی تجدید ہوئی ہے۔
اہل الحدیث میں اکثر سلفی ہوتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کا عقیدہ سلفی نہیں ہے جیسا کہ مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ کہ فقہی مسائل میں تو اہل حدیث ہیں جبکہ عقیدے میں اشعریت کی طرف مائل ہیں بلکہ وہ تو عقلیات ابن تیمیہ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف بیان کرنے کی بجائے اس پر نقد شروع کر دیتے ہیں۔ اور بعض سلفی ایسے ہیں جو اہل الحدیث نہیں ہیں جیسا کہ حنابلہ بلکہ حنفیہ میں بھی سلفی العقائد علماء موجود ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب وغیرہ میں عقیدے کی اصلاح پر زور ہے کہ وہاں کی وہابی تحریک کا اصل مقصد یہی تھا جبکہ فقہ کے معاملات میں وہ چاروں فقہیں پڑھاتے ہیں اور خود حنبلی مسلک کی نسبت رکھتے ہیں جبکہ برصغیر میں اہل حدیث نے زیادہ کام فقہی جمود کے خلاف کیا ہے لیکن جب یہاں سے طلباء اور علماء سعودی عرب جانا شروع ہوئے تو یہاں بھی توحید اسماء وصفات کی بحثیں عام ہونا شروع ہو گئیں۔
میں خود سلفی العقیدہ ہوں اور فقہی طور اہل حدیث کے مسلک سے فکری مناسبت رکھتا ہوں لیکن یہ بات کہنے میں حرج محسوس نہیں کرتا کہ آج سلفیت اور اہل حدیث کی دعوت اور منہج کے پھیلاو میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ خود ہیں۔ اور اس کی وجہ دلیل کی کمزوری نہیں بلکہ اخلاق اور رویوں کی کمی ہے۔ آج اہل حدیث کو ابن حزم رحمہ اللہ کی ضرورت نہیں بلکہ جنید بغدادی رحمہ اللہ کی ضرورت ہے لیکن ان کا سارا زور اور وسائل ابن حزم رحمہ اللہ پیدا کرنے پر صرف ہو رہے ہیں۔
بشکریہ ھ م زبیر سلفی