• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلف کا وصیتی پیغام نوجونان ملت کے نام

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
دسویں وصیت:

محمد بن سوقہ aفرماتے ہیں کہ میری ملاقات میمون بن مہران a سے ہوئی تو میں نے انہیں حیاک اللہ کہا اس پر آپ نےمجھ سے فرمایا کہ یہ نوجوانوں کا سلام ہے اس کی بجائے تم السلام علیکم کہا کرو۔([1])​
حدیث رسول ﷺ میں وارد ہے کہ جو سلام کی بجائے کلام سے پہل کرے اس کا جواب نہ دیا کرو ۔([2])
آپ کے “هذه تحية الشاب” کہنے کا معنی یہ ہے کہ بعض نوجوان اپنے ساتھیوں سے ملتے وقت نوع بنوع تحیات اور شرق و غرب کے طریقۂ سلام کو ترجیح دیتے ہیں ،اس طرح کبھی تو کلی طور پر اورکبھی جزئی طور پر شرعی سلام کو چھوڑنے کے مرتکب ہوتے ہیں، انہیں اسلامی طریقۂ لقاء کو ترجیح دینی چاہئے اور سلام کو عام کرنا چاہئے ،جناب رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ “سلام کو عام کرو ”([3])

([1])حلیۃ الأولیاء :ابونعیم رحمہ اللہ(4/86)
([2])عمل الیوم واللیلۃ :ابن سنی رحمہ اللہ:214 دیکھئے سلسلۃ الصحیحۃ:ح:816
([3])سنن ابی داؤد(4/350 ،ح:5193) شیخ البانی نے صحیح کہا ہے دیکھئے :ارواء الغلیل :ح:777​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
گیارہویں وصیت:


ابو الملیح a فرماتے ہیں :کہ ہم میمون بن مہران a کے گرد جمع تھے، اس وقت آپ نے فرمایا اے نوجوانو! اپنی جوانی کی طاقت و قوت اور چستی و پھرتی کو اللہ کی اطاعت میں استعمال کرو ۔اور اے بوڑھو!آخر کب تک تمہاری یہی بے ڈھنگی روش برقرار رہے گی ؟!([1])​
آپ a نے جوانی کی طاقت کو اللہ کی اطاعت اور اس کی قربت کے حصول میں لگانے کی وصیت کی۔ بوڑھوں سے “حتی متی” کہنے کا مقصود یہ ہے کہ اے بوڑھوں آخر کب تک برائیوں یا غفلت وسستی پرجمے رہو گے اور اپنی زندگی کو اللہ کی اطاعت میں استعمال نہ کرو گے ؟

([1])حلیۃ الأولیاء :ابونعیم رحمہ اللہ(4/87)
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
بارہویں وصیت:

فریابی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک دن سفیان ثوری رحمہ اللہ نماز پڑھ کر نوجوانوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر آج نمازی نہ بنوگے تو کس دن بنو گے اور کب تک اسطرح بے راہ روی کے شکار رہو گے ؟([1])​
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اپنی جوانی کو اللہ کی اطاعت میں گذارنے کی انتہائی عظیم و جامع نصیحت کی ہے ۔ چنانچہ اگر اس مرحلے کو نوجوان اللہ کے لئے سجدے میں نہ گذاریں تو عین ممکن ہے کہ زندگی میں ان پر ایسے حالات بھی آئیں جن میں وہ چاہ کر بھی اللہ کوسجدہ نہ کرسکیں ۔ پھر وہ مجبوری بیماری بھی ہوسکتی ہے اور کسی قسم کی کمزوری بھی ؛ اور اگرموذی عوارض سے بچ بھی گیا تو بڑھاپا تو لاحق ہونا ہی ہے ،اسی لئے کہا کہ اگر آج نہیں سدھرے تو آخرکب تک ایسے رہو گے؟!

([1])حلیۃ الأولیاء :ابونعیم رحمہ اللہ(7/59)
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
تیراہویں وصیت:

ربیعہ بن کلثوم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نوجوان حسن بصری رحمہ اللہ کے گرد بیٹھے تھے کہ ہمیں دیکھ کر آپ نے فرمایا : کہ اے نوجوانو! کیا تمہیں حور عین کی خواہش و تمنا اور اشیاق پیدا نہیں ہوتا؟!([1])
یہاں حسن بصری رحمہ اللہ نے نہایت ہی لطافت و نزاکت کے ساتھ نوجوانوں کی توجہ حصول جنت اور اس کی نعمت کے پانے کی طرف پھیری ہے جن میں ہر طرح کی آرام و آسائش کے ساتھ حور عین بھی ہیں ، جو اللہ کی توفیق کے بعدنوجوانوں کے نشاطِ عبادت کو گرمانے،شوق ِجنت کو حرکت دینے ، ایمان و یقین کو مہمیز دینے اورطلب آخرت کی گوناگوں کوششوں کو تیز سے تیز کرنے کےلئے کافی ہے اللہ کا فرمان ہے : ﭐﱡﭐ ﱔ ﱕ ﱖ ﱗ ﱘ ﱙ ﱚ ﱛ ﱜ ﱝ ﱞ ﱟ ﱠ ([2])

([1])کتاب صفۃ الجنۃ :ابن ابی الدنیا :اثرنمبر:312
([2]) الاسراء: 19
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
چودہویں وصیت :

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اے نوجوانو! کاموں کو کل پر ٹالنے سے بچو کہ یہ بڑا ہی مہلک مرض ہے ۔([1])​
ان کے “إیاکم و التسوف” کہنے کا معنی یہ ہے کہ تسویف اور کاموں کو کل پر ٹالنا ایسی خطرناک بیماری ہے ،جس نے نہ جانے کتنے ہی جوانوں کو ہلاک و برباد کردیا ،تسویف ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی چنانچہ وہ ہرکام کویہ کہہ کرمؤخرکیاکرتےکہ بعدمیں توبہ کرلیں گے، بعد میں نماز کی پابندی کرلیں گے،کل سے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے لگیں گے وغیرہ ۔ اس قسم کے لوگ نہ نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں ،نہ موقع و فرصت کا فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ اپنی ٹالا مٹولیوں کی عادت سے اس قدر مجبور ہوتے ہیں کہ جب بھی ان کے دل میں توبہ ،نماز، روزہ اور زکاۃ وغیرہ نیک کاموں کی انجام دہی یا ان پر مواظبت، محافظت، مداومت اور ہمیشگی کا خیال آتا ہے تو تسویف کی یہی مہلک بیماری ان کی راہ خیر کا روڑا بن جاتی ہے اور اس وقت تک انہیں پابازنجیر رکھتی ہے جب تک جوانی کا یہ مبارک مرحلہ اپنی تمام تر خیرات و برکات کے ساتھ انہیں خیرآباد نہ کہہ دیتا اور کتنوں کو تو فرشتہ اجل آ پکڑتا ہے اور وہ اس بیماری سے نجات کی سوچتے ہی سوچتے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔
([1])کتاب قصرالامل :ابن ابی الدنیا :اثرنمبر:212
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
پندرہویں وصیت:

حفصہ بنت سیرین کہتی ہیں کہ اے نوجوانو! جوانی میں اپنے بدن سے عبادت ربانی کا خوب خوب مزہ لوٹ لو اس لئے کہ رب کریم کی قسم !جوانی کے کاموں کا کوئی بدیل نہیں ۔([1])
ان کا یہ کہنا “مارأیت العمل إلا فی الشباب” یہ معنی رکھتا ہے کہ دراصل جوانی ہی خیر کے حصول اور برکات کے پانے کا ایسا مرحلہ ہے کہ اگر اللہ کی توفیق سے بندے نے اس کا صحیح استعمال کرلیا تو ساری زندگی خیرات و برکات کے پھل توڑتا اور کھاتا رہے گا ،لیکن اگر اس مرحلے کے استعمال میں غلطی کر بیٹھا،اسے نا جائز شہوات کے حصول اور نفس پرستی کے بےجا تقاضوں کی پرتی میں لگادیا تو یہی مرحلہ اس کے مستقبل اور بڑھاپے کے لئے عذاب بن جائے گا کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔ع :
مآرب کانت فی الشباب لأ ھلھا عِذابا فصارت فی المشیب عَذابا
کہ وہی کام جنہیں جوانی میں لذیذ اور خوشنما جان کر کیا کرتے تھے بڑھاپے میں عذاب بن کر سامنے آتے ہیں ۔ کانٹے جوبوئے تھے ببول کے تو آم کہاں سے آئیں؟؟؟!!!
پتہ چلا کہ جوانی انسانی زندگی کا وہ عظیم مرحلہ ہے جس کا اہتمام اور صحیح استعمال ہونا چاہئے اس کے خیر کو پانے کی سر توڑ کوشش کی جانی چاہئے، نیز اس مقصد میں کامیابی کے لئے اللہ رب العزت سے مدد مانگنا بھی نہیں بھولنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ رب العالمین اپنی ملاقات کے دن اس مرحلے کےمتعلق ہم سے خصوصی پوچھ گچھ کرنے والا ہے ۔
سلف کی نوجوانوں کو کی گئی بے شمار وصیتوں میں سے انہیں چند وصیتوں کا اندراج و ذکر مذکورہ بالا تصنیف میں اللہ کے فضل و کرم سے ممکن ہوسکا جس کے اخیر میں رب کریم سے اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات علیا کےحوالے سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں اپنی رضا و محبت کے کاموں کی توفیق عطاء فرمائے ، ہمارے سارے کام اپنے فضل سے درست فرما دے ، ہمیں ایک لمحے کے لئے بھی اپنے نفس کے حوالے نہ کرے اور ہمیں صراط ِ مستقیم پر تادم حیات گامزن رکھے ۔ آمین وصلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ أجمعین والحمدللہ رب العالمین ۔

([1])مختصرقیام اللیل :المروزی رحمہ اللہ :ص: 49
 
Last edited by a moderator:
Top