احمد پربھنوی
رکن
- شمولیت
- دسمبر 17، 2016
- پیغامات
- 97
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 48
سلیمان بن موسی الدمشقی الاموی پر امام بخاری کی جرح میں کفایت اللہ صاحب کا تعاقب :
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
عندہ مناکیر (الضعفاء للبخاری: ۱۴۸)
ان کے حوالے سے منکر روایات منقول ہیں۔
وقال : منکر الحدیث انا لا اروی عنہ شیئا روى سليمان بن موسى باحاديث عامتها مناكير (علل الكبير الترمذي ص 257)
اور امام بخاری کہتے ہیں سلیمان بن موسی منکر الحدیث ہے میں نے اس سے کچھ بھی روایت نہیں کیا اور ان کے روایت کردہ احادیث اکثر منکر ہوتی ہیں۔
یعنی امام بخاری کے نزدیک سلیمان بن موسی کے اکثر روایات منکر ہیں اس لیے انہوں نے سلیمان بن موسی سے ایک بھی روایت نہیں لی ۔
امام ذہبی میزان میں امام بخاری کے قول منکر الحدیث کے تعلق سے نقل کرتے ہیں :
نقل ابن القطان أن البخاري قال: من قلت فيه (منكر الحديث) فلا تحل رواية حديثه.اهـ(میزان الاعتدال)
ابن قطان نے نقل کیا امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں میں کہہ دوں کہ یہ منکر الحدیث ہے تو اُس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے۔''
کفایت اللہ صاحب نے ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کے قول میں تحریف کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کو شیش کی کہ سلیمان بن موسی کی کچھ احادیث میں اضطراب ہوتا ہے
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں
"ابو حاتم الرازی اس کو سچا بتاتے ہوئے اس کی صرف چند روایات میں اضطراب بتلایا ہے۔"(انوار البدر ص 193 تھرڈ ایڈیشن )
جبکہ ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کا قول کیا ہے دیکھتے ہیں
قال ابوحاتم: محلہ الصدق وفی حدیثہ بعض الاضطراب(الجرح والتعدیل ج 4 ص 141)
ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے کہا ان کا مقام صدق ہے البتہ اس کی حدیثوں میں کچھ اضطراب پایا جاتا ہے۔
ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کےمطابق سلیمان بن موسی کے روایات میں کچھ اضطراب پایا جاتا ہے آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ کفایت اللہ صاحب نے کس طرح ہاتھ صاف کیا۔
یعنی کہ ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ بھی کہتے تھے کہ سلیمان بن موسی کی روایات میں کچھ کمزوری ہوتی ہے۔
اس کے بعد کفایت اللہ صاحب امام ذہبی کے حوالہ سے احتمال پیش کررہے ہیں کہ ہوسکتا ہے نکارت کے ذمہ دار ان سے اوپر کے راوی ہو۔
اس کو سمجھنے سسے پہلے ہم امام ذہبی کا قول دیکھ لیتے ہیں وہ کیا کہے رہے ہیں۔۔
وهذه الغرائب التي تستنكر له يجوز أن يكون حفظها (میزان الاعتدال 2/226)
اور یہ غریب روایات جس میں سلیمان بن موسی سے نکارت کی بات کی جاتی ہے ممکن ہے ان احادیث کو آپ نے یاد کر رکھا ہو۔
امام ذہبی کہے رہے ہیں یہ غریب روایات۔۔۔۔۔
اگر آپ میزان الاعتدال دیکھیں گے تو وہاں سلیمان بن موسی کی تین روایات امام ذہبی نے اس قول سے پہلے نقل کی یعنی یہ غریب روایات وہی ہیں جو امام ذہبی نے نقل کی اور آپ اسی کے تعلق سے کہے رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے وہ روایات ان کو یاد ہو۔
جبکہ کفایت اللہ صاحب ترجمہ کرتے ہیں ""سلیمان بن موسی کی جن غریب احادیث میں۔۔۔۔۔۔""
یعنی موصوف "هذه الغرائب" کا معنی "جن غریب روایات" کر رہے رہے ہیں۔
اور موصوف "جن" کو سلیمان بن موسی کے تمام روایات پر فٹ کررہے ہیں۔۔
یہ شیخ کفایت اللہ نے دوسرا فراڈ کیا ہے۔۔
امام ذہبی نے وہی روایات کے بارے میں کہے رہے ہیں جسکا انہوں نے میزان میں تذکرہ کیا جبکہ کفایت اللہ صاحب امام ذہبی کے قول کو سلیمان بن موسی کے تمام روایات پر چسپاں کر رہے ہیں۔
امام ذہبی کے قول میں تخصیص ہے کہ جو روایات انہوں نے میزان میں سلیمان بن موسی کے نقل کیے ہیں صرف اسی کے بارے میں کہے رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے وہ روایات ان کو یاد ہو۔
دوسری بات امام ذہبی نے احتمالا کہا ہے اس کو یقینی طور پر کیسے لیا جاسکتاہے
اگر مان بھی لیں کہ نکارت کے ذمہ دار ان سے اوپر کے راوی ہوں تو سند میں کوئی ضعیف و منکر راوی بھی تو چاہیے جس کے سر یہ مناکیر ڈال سکیں اور اگر سند میں کوئی ضعیف اور منکر راوی نہ ہو تو یہ مناکیر کس کے کھاتے میں جائیں گے ؟؟
اسی طرح رئیس ندوی صاحب نے بھی غایة التحقيق میں ترجمہ میں فراڈ کیا ہے اور کفایت اللہ صاحب نے انہی کی پیروی کی ہے۔
امام ذہبی تو اپنی کتاب المغنی فی الضعفاء (ج 1 ص ص 408 رقم 2630) پر امام بخاری کا قول عندہ مناکیر اور امام نسائی کا قول لیس بالقوی ہی نقل کرتے ہیں اور کوئی رد نہیں۔
اسی طرح دیوان الضعفاء والمتروکین رقم 1783 پر بھی سلیمان بن موسی الاشدق پر یہی دو امام بخاری اور امام نسائی رحمہم اللہ کے اقوال نقل کرتے ہیں اور کوئی توثیق نقل نہیں کرتے۔۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
عندہ مناکیر (الضعفاء للبخاری: ۱۴۸)
ان کے حوالے سے منکر روایات منقول ہیں۔
وقال : منکر الحدیث انا لا اروی عنہ شیئا روى سليمان بن موسى باحاديث عامتها مناكير (علل الكبير الترمذي ص 257)
اور امام بخاری کہتے ہیں سلیمان بن موسی منکر الحدیث ہے میں نے اس سے کچھ بھی روایت نہیں کیا اور ان کے روایت کردہ احادیث اکثر منکر ہوتی ہیں۔
یعنی امام بخاری کے نزدیک سلیمان بن موسی کے اکثر روایات منکر ہیں اس لیے انہوں نے سلیمان بن موسی سے ایک بھی روایت نہیں لی ۔
امام ذہبی میزان میں امام بخاری کے قول منکر الحدیث کے تعلق سے نقل کرتے ہیں :
نقل ابن القطان أن البخاري قال: من قلت فيه (منكر الحديث) فلا تحل رواية حديثه.اهـ(میزان الاعتدال)
ابن قطان نے نقل کیا امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں میں کہہ دوں کہ یہ منکر الحدیث ہے تو اُس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے۔''
کفایت اللہ صاحب نے ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کے قول میں تحریف کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کو شیش کی کہ سلیمان بن موسی کی کچھ احادیث میں اضطراب ہوتا ہے
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں
"ابو حاتم الرازی اس کو سچا بتاتے ہوئے اس کی صرف چند روایات میں اضطراب بتلایا ہے۔"(انوار البدر ص 193 تھرڈ ایڈیشن )
جبکہ ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کا قول کیا ہے دیکھتے ہیں
قال ابوحاتم: محلہ الصدق وفی حدیثہ بعض الاضطراب(الجرح والتعدیل ج 4 ص 141)
ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے کہا ان کا مقام صدق ہے البتہ اس کی حدیثوں میں کچھ اضطراب پایا جاتا ہے۔
ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کےمطابق سلیمان بن موسی کے روایات میں کچھ اضطراب پایا جاتا ہے آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ کفایت اللہ صاحب نے کس طرح ہاتھ صاف کیا۔
یعنی کہ ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ بھی کہتے تھے کہ سلیمان بن موسی کی روایات میں کچھ کمزوری ہوتی ہے۔
اس کے بعد کفایت اللہ صاحب امام ذہبی کے حوالہ سے احتمال پیش کررہے ہیں کہ ہوسکتا ہے نکارت کے ذمہ دار ان سے اوپر کے راوی ہو۔
اس کو سمجھنے سسے پہلے ہم امام ذہبی کا قول دیکھ لیتے ہیں وہ کیا کہے رہے ہیں۔۔
وهذه الغرائب التي تستنكر له يجوز أن يكون حفظها (میزان الاعتدال 2/226)
اور یہ غریب روایات جس میں سلیمان بن موسی سے نکارت کی بات کی جاتی ہے ممکن ہے ان احادیث کو آپ نے یاد کر رکھا ہو۔
امام ذہبی کہے رہے ہیں یہ غریب روایات۔۔۔۔۔
اگر آپ میزان الاعتدال دیکھیں گے تو وہاں سلیمان بن موسی کی تین روایات امام ذہبی نے اس قول سے پہلے نقل کی یعنی یہ غریب روایات وہی ہیں جو امام ذہبی نے نقل کی اور آپ اسی کے تعلق سے کہے رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے وہ روایات ان کو یاد ہو۔
جبکہ کفایت اللہ صاحب ترجمہ کرتے ہیں ""سلیمان بن موسی کی جن غریب احادیث میں۔۔۔۔۔۔""
یعنی موصوف "هذه الغرائب" کا معنی "جن غریب روایات" کر رہے رہے ہیں۔
اور موصوف "جن" کو سلیمان بن موسی کے تمام روایات پر فٹ کررہے ہیں۔۔
یہ شیخ کفایت اللہ نے دوسرا فراڈ کیا ہے۔۔
امام ذہبی نے وہی روایات کے بارے میں کہے رہے ہیں جسکا انہوں نے میزان میں تذکرہ کیا جبکہ کفایت اللہ صاحب امام ذہبی کے قول کو سلیمان بن موسی کے تمام روایات پر چسپاں کر رہے ہیں۔
امام ذہبی کے قول میں تخصیص ہے کہ جو روایات انہوں نے میزان میں سلیمان بن موسی کے نقل کیے ہیں صرف اسی کے بارے میں کہے رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے وہ روایات ان کو یاد ہو۔
دوسری بات امام ذہبی نے احتمالا کہا ہے اس کو یقینی طور پر کیسے لیا جاسکتاہے
اگر مان بھی لیں کہ نکارت کے ذمہ دار ان سے اوپر کے راوی ہوں تو سند میں کوئی ضعیف و منکر راوی بھی تو چاہیے جس کے سر یہ مناکیر ڈال سکیں اور اگر سند میں کوئی ضعیف اور منکر راوی نہ ہو تو یہ مناکیر کس کے کھاتے میں جائیں گے ؟؟
اسی طرح رئیس ندوی صاحب نے بھی غایة التحقيق میں ترجمہ میں فراڈ کیا ہے اور کفایت اللہ صاحب نے انہی کی پیروی کی ہے۔
امام ذہبی تو اپنی کتاب المغنی فی الضعفاء (ج 1 ص ص 408 رقم 2630) پر امام بخاری کا قول عندہ مناکیر اور امام نسائی کا قول لیس بالقوی ہی نقل کرتے ہیں اور کوئی رد نہیں۔
اسی طرح دیوان الضعفاء والمتروکین رقم 1783 پر بھی سلیمان بن موسی الاشدق پر یہی دو امام بخاری اور امام نسائی رحمہم اللہ کے اقوال نقل کرتے ہیں اور کوئی توثیق نقل نہیں کرتے۔۔