• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلیمان بن موسی الدمشقی الاموی

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ان موصوف سے شروع کے مراسلات میں کہا تھا کہ اپنا تعارف کروائیں لیکن یہ محترم نظر انداز کرے جارہے ہیں آخر کیا وجہ ہے تعارف نہ کروانے کی؟؟؟
تعارف کا جس پوسٹ میں کہا گیا تھا اس پر تو میں نے بھی متفق ہونے کی ریٹنگ دی تھی لیکن تعارف نہ کروانے پر باقی مراسلات سے غیر متفق ہونے کا کیا مطلب ہوا؟ وہ باقی باتیں تو علمی کر رہے ہیں۔ باقی اگر وہ اپنا تعارف نہیں کروانا چاہتے تو میرا خیال ہے کہ علمی ابحاث کے لیے اس کی کوئی خاص ضرورت تو نہیں ہے۔
یہ ہے کہ وہ کفایت اللہ صاحب پر رد کر رہے ہیں لیکن اہل حدیث حضرات کا یہی تو عمدہ وصف ہے کہ ان میں علمی مباحثے کے لیے عمر اور علمی قد کاٹھ نہیں دیکھا جاتا۔ ورنہ یہ تو جامد تقلید ہو جائے گی کہ اگر فلاں عالم سے بڑا عالم ہے تو بات سنی جائے ورنہ نہ سنی جائے۔
ہاں سخت الفاظ ہر جگہ ناپسند کیے جاتے ہیں لیکن اس کی انہوں نے توجیہ پیش کی ہے کہ کفایت اللہ صاحب نے بھی اسی طرح کے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر انہیں بھی اسی کی مثل کا حق ہونا چاہیے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
جب تعارف کو محدث فورم خود ضروری نہیں قراردیتاتو پھرکسی کو بھی اس پر زیادہ اصرار نہیں کرناچاہئے، یاتومحدث فورم خود قانون بنائے کہ تعارف ضروری ہے ،لیکن اس کاکوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اپنے تعارف میں کون کتنا درست اورکتنا غلط ہے،اس کو جاننے کا محدث فورم کے پاس کوئی وسیلہ نہیں ہے۔
اگرکوئی تعارف کرائے تو اچھی بات ہے،نہ کرائے توبھی خوش رہئےاور ویسے بھی
انظر الی ماقال ولاتنظر الی من قال
پر عمل کس دن ہوگا؟(ابتسامہ)
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
سلیمان بن موسی امام دحیم کی نظر میں :

عبدالرحمن بن ابراہیم( دحيم) نے کہا:
أوثق أصحاب مكحول :سليمان بن موسى (الجرح والتعديل 4/141)
ترجمہ : مکحول کے شاگردوں میں سب سے بڑے ثقہ سلیمان بن موسی ہیں ـ

محدثين کا یہ قرینہ ہوتا تھا کہ جب وہ فلاں کے اصحاب کا تذکرہ کرتے تو یہ بھی بتلاتے تھے کہ فلاں کے شاگردوں میں کون سب سے مضبوط یا ثقہ اور کون کمزور یا ضعیف ہوتا تھا اور یہ ثقہ یا ضعیف کہنا اصطلاحی نہیں ہوتا بلکہ یہ ان تمام اصحاب کا آپس میں کمزور یا مضبوط ہونا ہے ـ اسی طرح اصحاب مکحول کے تعلق سے بھی محدثین کو سوالات پوچھے گئے کہ کون سب سے زیادہ ثقہ ہے کون سب سے بہتر ہے یا کون سب سے اونچا مرتبہ رکھتا ہے اور جو جواب محدثین دیتے تھے اس محدث کی نظر میں مضبوط یا کمزور ہوتے تھےـ اور امام دحیم خود سلیمان بن موسی کے ساتھ یزید بن یزید بن جابر اور علاء بن حارث کو بھی اصحاب مکحول میں بہتر کہتے تھے دیکہیں

سألت أبا سعيد عبد الرحمن بن إبراهيم: أي أصحاب مكحول أعلى ؟ قال: سليمان بن موسى ويزيد بن يزيد بن جابر والعلاء بن الحارث.(المعرفة والتاريخ 1/272)

عبدالرحمن بن إبراهيم (دحیم) سے امام یعقوب بن سفیان نے پوچھا مکحول کے شاگردوں میں کون سب سے بہتر ہے؟ کہا سلیمان بن موسی، یزید بن یزید بن جابر اور علاء بن حارث

یہ تینوں امام مکحول کے شاگرد ہیں اور دحيم خود شام سے تعلق رکھتے تھےـ
اس سے معلوم ہوا عبدالرحمن بن إبراهيم المعروف بدحیم نے أصحاب مکحول میں موازنہ کیا اور بتلایا کہ مکحول کے شاگردوں میں ان سے روایت کرنے میں یہ تینوں بہتر ہیں ـ
اسی طرح ابن معین رحمہ اللہ نے بھی سفیان ثوری کے اصحاب کے بارے میں بتلایا ـ

قال وسألت يحيى وسئل عن أصحاب سفيان من هم قال المشهورون وكيع ويحيى وعبد الرحمن وابن المبارك وابو نعيم هؤلاء الثقات قيل له أبو عاصم وعبد الرزاق وقبيصة وأبو حذيفة قال هؤلاء ضعفاء
( سوالات یحی ابن معین بروایہ ابن محرز 1/504 )


ابن محرز کہتے ہیں میں نے ابن معین رحمہ اللہ سے أصحاب سفیان کے بارے میں سوال کیا تو کہا کہ ان میں نے سے جو مشہور ہے وہ وکیع ، یحی بن سعید القطان، عبدالرحمن ابن مہدی ، ابن المبارک اور ابو نعیم ہیں اور یہ تمام ثقات ہیں اور ان سے پوچھا گیا ابو عاصم ،عبدالرزاق ،قبیصہ اور ابو حذیفہ؟؟
تو فرمایا یہ تمام ضعیف ہے۔

اب یہاں کیا ابن معین رحمہ اللہ کے جواب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ابو عاصم، امام عبدالرزاق اور قبیصہ رحمہم اللہ،ابن معین رحمہ اللہ کی نظر میں ضعیف ہے بالکل نہیں یہاں اصطلاحی نہیں بلکہ یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان اصحاب میں سفیان سے روایت کرنے میں کون سب سے زیادہ مضبوط ہے ـ


کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں "امام دحیم سے سلیمان بن موسی کی تضعیف ثابت ہی نہیں تو ان کی توثیق کو کیونکر خاص کیا جاسکتا ہےـ"

عرض ہے یہاں صرف یہ بتلایا گیا کہ مکحول سے روایت کرنے میں کون سب سے زیادہ ثقہ ہے اور یہ کہاں سے اصول لیا ہمیں بھی بتلائیں تاکہ ہمیں بھی معلوم ہوسکے ـ
آگے کہتے ہیں" نیز دیگر محدثین کے اقوال کی روشنی میں بھی سلیمان بن موسی کی ثقاہت ثابت ہے"
عرض ہے دیگر محدثین کے اقوال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سلیمان بن موسی نے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن میں ان کا کوئی متابع نہیں اسی لیے محدثین نے کہا کہ سلیمان بن موسی کے پاس منکر روایتیں ہیں کسی نے کہا ان کی حدیثوں میں اضطراب ہے وغیرہ

اس کے بعد کفایت اللہ صاحب امام مزی کا قول نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں دحیم نے علی الإطلاق ثقہ بھی کہا ہے

عثمان بن سعید الدارمی عن دحیم: وسلیمان بن موسی ثقة (تهذيب الكمال في أسماء الرجال 12/95)

نیچے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ امام مزی، دارمی کی کتاب سے نقل کرتے تھے

جب امام زیلعی رح نے لکھا کہ امام دارقطنی نے غرائب مالک میں امام محمد بن حسن الشیبانی وغیرہ کو "من الثقات الحفاظ" میں شامل کیا تو آپ ہی کے ہم مسلک مرحوم زبیر علی زائ صاحب نے لکھا کہ

"غرائب مالک" کتاب موجود نہیں ہے تاکہ زیلعی کے دعوے کی تصدیق کی جاسکے اس لیے یہ حوالہ دینا مردود ہےـ(المقالات 2/355)
جبکہ یہاں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ امام مزی نے کون سی کتاب سے سلیمان بن موسی کی دحیم سے توثیق نقل کی؟؟ کیا امام دارمی کی اصل کتاب سے نقل کیا یا اور کوئی دوسری کتاب سے نقل کیا جب یہ معلوم ہی نہیں تو کیسے آپ حضرات کے نزدیک یہ قول معتبر ہوگیا؟؟

لہذا امام دحيم کے قول "أصحاب مكحول میں سب سے بڑے ثقہ" کو علی الإطلاق ثقاہت کا قول کہنا مردود ہےـ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
عثمان بن سعید الدارمی عن دحیم: وسلیمان بن موسی ثقة (تهذيب الكمال في أسماء الرجال 12/95)
اگر اہل حدیث حضرات جیسے شیخ زبیرؒ کے مسلک سے ہٹ کر اصول حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس جملے کا کیا حکم ہوگا؟
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
اگر اہل حدیث حضرات جیسے شیخ زبیرؒ کے مسلک سے ہٹ کر اصول حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس جملے کا کیا حکم ہوگا؟
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ
محترم اشماریہ صاحب آپ نے اس تھریڈ کو تو دیکھا ہی ہوگا ـ
اس میں یزید بن خصیفۃ کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا ہے اس پر شاید آپ جانتے بھی ہونگے یزید بن خصیفۃ پر امام احمد سے تین قول مروی ہے جو ان کے بیٹے اور ابو بکر الاثرم سے اور ابو عبید آجری کا ابو داود سے سوال ہےـ

تہذیب الکمال میں یزید بن خصیفۃ کے ترجمہ کے حاشیہ میں بشار عواد نے امام احمد سے منکر الحدیث کے تعلق سے لکھا ہے
هذا شي لم يثبت عن أحمد فيما أرى ، والله اعلم ، فقد تقدم قول الأثرم عنه، وفي العلل لابنه عبدالله ، أنه قال : ما أعلم إلا خيرا (2/35) وهو توثيق واضح
میرا خیال ہے امام احمد سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں. اس لئے کہ ان کے بارے میں امام اثرم کا قول گزر چکا اور العلل میں امام احمد کے بیٹے سے مروی ہے کہ امام احمد نے کہا میں ان میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتا جو واضح توثیق ہے ـ

اسی طرح وصی اللہ عباس نے بھی بحر الدم لابن عبدالھادی کے ص 133 کے حاشیہ میں یزید بن خصیفۃ پر امام احمد سے منکر الحدیث کے علاوہ ابو بکر الاثرم کا امام احمد سے تاکید کے ساتھ ثقہ والا قول نقل کیا اور امام احمد کے بیٹے کا ان سے ما أعلم إلا خیرا بھی نقل کیا اور کہا دوسروں نے بھی توثیق کی ہےـ
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
سلیمان بن موسی الدمشقی حافظ ابن عدی کی نظر میں :
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں
ابن عدی نے کہا : آپ ثبت اور صدوق ہے
کفایت اللہ صاحب نے ابن عدی رحمہ اللہ کا مکمل قول نقل نہیں کیا، دیکھتے ہیں ابن عدی کا سلیمان بن موسی کے تعلق سے کیا موقف ہے

فقيه راو حدث عنه الثقات وهو أحد العلماء روى أحاديث ينفرد بها لا يرويها غيره وهو عندي ثبت صدوق (الکامل ۱۱۱۹/۳)

ترجمہ :سلیمان بن موسی فقیہ ہیں ثقہ راویوں سے حدیث بیان کیں اور وہ علماء میں سے ایک ہے اور انہوں نے ایسی منفرد احادیث روایات کیں جو ان کے علاوہ کوئی اور روایت نہیں کرتا اور وہ میرے نزدیک ثبت اور صدوق ہیں ـ

جیسا کہ امام بخاری، امام زکریا بن یحی الساجی،امام ابو احمد الحاکم نے کہا کہ سلیمان بن موسی کے پاس مناکیر ہیں ـ اہل علم جانتے ہیں بعض محدثین منکر الحدیث یا یروی المناکیر ان کے لیے استعمال کرتے تھے جو کثرت سے روایت کرنے میں تفرد رکھتے تھے اور جن کا کوئی متابع نہیں ہوتا تھاـ وہ تفرد پر یا تو رد کرتے تھے یا نکارت کی بات کرتے تھے یا شذوذ کی بات کرتے تھے ـ

حافظ ابن حجر کہتے ہیں

"المنکر أطلقه أحمد بن حنبل وجماعة على الحديث الفرد الذي لا متابع له ".( مقدمہ فتح الباری ص 436)
ترجمہ : امام احمد اور ایک جماعت منکر کا اطلاق اس کی حدیث پر کرتے جس میں اس کا کوئی متابع نہ ہو ـ

امام بخاری کا مذہب امام احمد اور دوسروں سے مختلف تھا محدثین نقل کرتے ہیں ایک بار جب وہ کسی کو منکر الحدیث کہے دے تو وہ اس سے روایت بھی نہیں کرتے تھے اور نہ اس سے احتجاج کرتے ـ

اور ابن عدی کے کلام میں بھی یہی بات موجود ہے کی سلیمان بن موسی نے ایسی روایات کیں جو کوئی اور نہیں کرتا ہاں وہ ان کے نزدیک صدوق ہے اور صداقت کا کسنے انکار کیا بلکہ جو انہوں نے احادیث بیان کیں وہ کسی اور نے نہیں کیں اور ابن عدی نے الکامل میں ان کے ترجمہ میں کثیر روایتیں ذکر کیں جس میں انہوں نے کئی جگہ صراحت بھی کی ہے کہ میں اس سند کے علاوہ کوئی اور سند نہیں جانتا ـ
سلیمان بن موسی کی روایت کردہ حدیث المضمضة والاستنشاق من الوضوء الذي لابد منه روایت کرنے کے بعد ابن عدی کہتے ہیں میں اس حدیث کو کسی اور سند سے نہیں جانتا (الکامل 4/258) اسی طرح اور دوسری جگہ بھی کہاـ انہی احادیث کے ساتھ ابن عدی نے قربانی کے چار دن والی حدیث کل ایام تشریق ذبح بھی روایت کی اور دوسری احادیث بھی روایت کیں اور آخر میں کہا کہ سلیمان بن موسی کے احادیث کے کوئی متابع نہیں اور وہ میرے نزدیک صدوق ہے

اب دیکھتے ہیں خود کفایت اللہ صاحب ابن عدی کے الکامل فی ضعفا کے بارے میں کیا کہتے ہیں ایک روایت کی بحث میں لکھتے ہیں
"ابن عدی نے اس روایت کو ایک طریق سے مکمل ذکر کیا اور دوسرے طریق کے ایک لفظ کو ذکر کیا اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ یہ روایت دونوں طریق سے ان کے نزدیک منکر یعنی مردود ہے ( یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ص 201)
اس کے بعد اہل فن کے اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں
ابن عدی کا عمومی منہج یہی تھا کہ راوی کے ترجمہ میں منکر روایات ہی ذکر کرتے ہیں اس لیے اگر انہوں نے کسی راوی کے ترجمہ میں کوئی روایت ذکر کی خواہ وہ وہاں پر صراحت کے ساتھ منکر کہیں یا نہ کہیں بہر صورت ان کے عمومی طرز عمل سے ان کے نزدیک اس روایت کو منکر ہی سمجھا جائے گا الا یہ کہ ابن عدی خود کسی خاص روایت کے بارے میں صحت کا فیصلہ نہ دے دیں (ص 202)"
ابن عدی نے کل ایام تشریق ذبح، المضمضۃ والاستنشاق ، والی روایات پر کوئی صحت کا فیصلہ نہیں دیا ـ اس لیے بقول کفایت اللہ صاحب سلیمان بن موسی کے جن احادیث پر ابن عدی نے صحت کا فیصلہ نہیں دیا ابن عدی کے نزدیک منکر یعنی مردود ہے ـ

ابن عدی کا قول "روى أحاديث ينفرد بها ولا يرويها غيره "
اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے ایسی احادیث بکثرت روایت کیں جس میں وہ منفرد ہے اور اس منفردیت کو دیکھتے ہوئے نتیجہ یہ ہوا کہ امام بخاری نے بھی ان کی احادیث میں مناکیر کی بات کہی اور ایک قول کے مطابق منکر الحدیث بھی کہا اور دوسروں نے بھی کچھ ضعف کی طرف اشارہ کیا ـ
 
Last edited:
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
سلیمان بن موسی امام ذھبی رحمہ اللہ کی نظر میں :

امام ذھبی رحمہ اللہ المغنی فی الضعفاء میں لکھتے ہیں
وثق ( المغنی فی الضعفاء 1/284)
ثقہ قرار دیا گیا ہے ـ

سلیمان بن موسی کو ثقہ کہنے والے محدثین
الدارقطنی: من الثقات الحفاظ (کتاب العلل 5/110 موسوعۃ اقوال الدارقطنی ۳۰۳/۱)

ابن سعد: کان ثقۃ ، اثنی علیہ ابن جریج (طبقات ابن سعد 7/457 )

دحیم : ثقۃ (تھذیب الکمال فی أسماء الرجال 12/95)

نوٹ :- لیکن اس قول کا ماخذ نہ معلوم ہونے سے کچھ لوگ اس کو قبول نہیں کرسکتے جو ہر جگہ کہتے ہیں اس کی سند اور ماخذ نہ معلوم ہونے سے مردود ہے ـ
ابو داود : لا بأس بہ، ثقۃ (سؤالات الآجري 5/18)
ابن عبدالبر : فقية ثقة امام (التمهيد 19/86)
ابن الجوزي
: یہ کہنا ممکن ہے کہ سلیمان بن موسی ثقہ ہیں ـ
ابن خلفون نے ثقات میں ذکر کیا یے (اکمال تهذيب الكمال لمغلطائی 6/181)
نوٹ : کچھ حضرات کے لیے خود حافظ مغلطائی حنفی کی شخصیت کھٹکتی ہے ایسے حضرات کے نزدیک یہ توثیق کیسے معتبر ہوسکتی ہے
ابن حبان: ذکرہ فی الثقات وقال: کان فقیھا ً ورعاً(کتاب الثقات ۳۷۹/۶ ، ۳۸۰)

امام ذہبی نے سلیمان بن موسی کو صیغہ تمریض سے وثق کہا تو خود کفایت اللہ سنابلی صاحب اپنی کتاب میں شیخ البانی کی عبارت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ولذلك أشار الذهبي في " الكاشف " إلى أن التوثيق المذكور غير موثوق به، فقال : " وثق "(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 3/ 377)
اسی لیے امام ذہبی نے ’’کاشف ‘‘ میں اشارہ کیا ہے کہ مذکورہ توثیق غیر معتبر ہے چنانچہ (صیغہ تمریض کے ساتھ کہا) : "وثق" یعنی ان کی توثیق کی گئی ہے "
علامہ البانی کی اس عبارت سے معلوم ہواکہ امام ذہبی جب وثق کہیں تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اس راوی کی جو توثیق کی گئ ہے وہ غیر معتبر ہے ـ(یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ص 693)"

امام ذہبی کی دوسری کتاب میں سلیمان بن موسی کے تعلق سے ایک اور قول ملتا ہے

عن عطا و نافع صدوق (من تکلم فیه وهو موثق ص 94)
عطا اور نافع سے روایت کیا صدوق ہے

امام ذہبی کی تیسری کتاب دیوان الضعفاء میں بھی ایک قول ملتا ہے وہی جو اوپر نقل کیا گیا

عن عطاء، ونافع، صدوق (دیوان الضعفاء 1/176)

سلیمان بن موسی نے ایسی اکثر احادیث روایت کیں جس میں ان کا متابع نہیں ہے اور اسی طرف ابن عدی رحمہ اللہ نے بھی اشارہ کیا اور امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی فرمایا
روی سلیمان بن موسی احادیث عامتھا مناکیر( علل الکبیر للترمذی 1/256)
ترجمہ :سلیمان بن موسی نے جو روایات بیان کی ہیں ان میں سے اکثر منکر ہیں
کسی نے اس قول سے یہ سمجھا کہ امام بخاری کو سلیمان بن موسی کی زیادہ روایات ملی ہی نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ آپ یہی امام بخاری کا قول دیکھیں گے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام بخاری سلیمان بن موسی کے روایات سے اچھی طرح واقف تھے ورنہ وہ کیسے کہتے کہ ان کی اکثر روایات منکر ہیں اور امام بخاری سلیمان بن موسی سے بھی اچھی طرح واقف تھے جو اس قول سے سمجھ آتا ہے
سلیمان لم یدرك أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم )العلل الكبير للترمذي 1/102(
بتائیں کون ایسا کہے سکتا ہے جو فلاں کی ذات سے اچھی طرح واقف ہو وہی ایسی بات کہے سکتا ہے اور دوسری بات امام بخاری نے یہ بات کسی حدیث کے تحت ہی کہی ـ
اگر اس بات کو مان بھی لیں کہ سلیمان بن موسی کی زیادہ روایات امام البخاری کو نہیں ملی تو بھی امام بخاری کی عامتھا مناکیر کی بات کو ابن عدی کے قول سے تقویت ملتی ہے ـ ابن عدی تو 300 ھ کے ہیں ان تک تو سلیمان بن موسی کی احادیث پہنچ گئے ہوں گے تبھی تو انہوں نے بھی کہا
روى أحاديث ينفرد بها لا يرويها غيره )الکامل 3/1119(

معلوم ہوا سلیمان بن موسی کے اکثر روایات میں متابعت نہیں کی گئ ہے اور جب صدوق راوی کسی روایت کرنے میں منفرد ہو تو اس کے بارے میں امام ذہبی کیا کہتے ہیں ملاحضہ کریں

وقد يعد مفرد الصدوق منكرا (الموقظة 1/42)
اور صدوق کسی روایت میں منفرد ہوتو اس کی روایت منکر ہوگی ـ
(نوٹ : یاد رہے یہاں امام ذہبی نے مخالفت کی کوئی شرط نہیں لگائی ہے)

اسی طرح میزان میں بھی لکھتے ہیں
وان تفرد الصدوق ومن دونه يعد منكرا. وإن إكثار الراوي من الأحاديث التي لا يوافق عليها لفظا أو إسنادا يصيره متروك الحديث (میزان الاعتدال 3/141)

اور اگر صدوق یا اس سے کمتر راوی کسی روایت کرنے میں منفرد ہوتو اس کی روایت منکر ہوگی اور جب کوئی راوی کثرت سے ایسی روایات کرنے لگے جس کی لفظی یا معنوی متابعت نہ ملے تو ایسا راوی متروک قرار پائے گا ـ(ترجمہ کفایت اللہ سنابلی صاحب)

امام ذھبی نے ان کی حدیث کی تصحیح کی یے التنقیح التحقیق میں امام ذھبی لکھتے ہیں
قلنا الحدیث صحیح (تنقیح التحقیق للذھبی 2/168)
ہم کہتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے ـ

امام ذھبی نے حدیث کو صحیح کہا ہے اور امام زھری سے اس حدیث کو روایت کرنے والے سلیمان بن موسی کے علاوہ دو راوی ہے حجاج بن ارطاۃ اور جعفر بن ربیعہ ـ سلیمان بن موسی کے اس حدیث میں دو متابع ہے اور امام ذھبی کے اصول سے تو وہ حدیث صحیح ہوگی ہی ـ

معلوم ہوا امام ذہبی کے نزدیک سلیمان بن موسی کی کسی روایت کا اگر کوئی لفظی یا معنوی متابع ہے تو وہ روایت مقبول ہوگی اور اگر کوئی متابع نہ ہو تو ایسی روایات ان کے نزدیک ان ہی کے اصول کے اعتبار سے منکر شمار ہوگی ـ

امام ذھبی نے جو المیزان میں لکھا ہے

وهذه الغرائب التي تستنكر له يجوز أن يكون حفظها (میزان الاعتدال 2/226)
اور یہ غریب روایات جس میں سلیمان بن موسی سے نکارت کی بات کی جاتی ہے ممکن ہے ان احادیث کو آپ نے یاد کر رکھا ہو۔(ترجمہ کفایت اللہ سنابلی)

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس قول سے پہلے امام ذہبی نے کچھ احادیث سلیمان بن موسی کے نقل کیے ہیں هذه سے معلوم ہورہا ہے یہ بات ان احادیث کے تعلق سے کہی گئی ہے اگر مان لیں کہ تمام احادیث(جن میں سلیمان بن موسی تفرد رکھتے ہیں) کے لیے کہی گئ تو اس قول میں امام ذھبی خود تسلیم کرتے ہیں کہ جس میں نکارت کی بات کی جاتی ہے ہوسکتا ہے اس کو آپ نے یاد کر رکھا ہے یعنی امام ذھبی بھی منکر ہی کہے رہے ہیں مطلب جس میں تفرد اختیار کیے ہوئے ہیں وہ تو منفرد روایات ہی ہوگی

امام ذھبی کے اسی قول کا تعاقب کرتے ہوئے شیخ احمد بن عمر بازمول سلفی لکھتے ہیں

وفی قول الذهبي هذا نظر، لأن سليمان في حفظه شيء ومثله يتوقف فيما ينفرد به أو يخالف والله اعلم
امام ذہبی رحمہ اللہ کا یہ قول قابل غور ہے، اسلیے کہ سلیمان بن موسی کے حافظہ میں کچھ ہے تو ایسا راوی جب منفرد ہو یا دوسروں سے مخالفت کرے تو اس کی حدیث قبول کرنے میں توقف کیا جاتا ہے ـ
واللہ اعلم (المقترب في بيان المضطرب ص 264)

یاد رہے حافظ ابن عبدالبر نے بھی محدثین کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا
سلیمان بن موسی وإن كان أحد أئمة أهل الشام في العلم فهو عندهم سيء الحفظ (الاستذکار 5/246)
سلیمان بن موسی اگرچہ اہل شام کے اہل علم میں سے ایک تھے لیکن یہ محدثین کی نظر میں سیء الحفظ ہیں

لیکن سیء الحفظ کی جرح تو ہمیں نہیں ملی ہاں کچھ مضطرب والی بات امام ابو حاتم الرازی رح سے ملی اور باقی جارحین سے تفرد والی بات ہی ملی ـ
واللہ اعلم
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم پر بھنوی صاحب ! علمی و تحقیقی اختلاف کرنا چاہیے ، لیکن بہر صورت علماء کرام کے لیے ’ فراڈ ‘ وغیرہ الفاظ سے اجتناب کریں ۔
فورم پر آزادی تو ہے ، لیکن اب ایسی آزادی کو کیا کرنا ، جہاں علماء کرام آتے ہوئے دم گھٹتا محسوس کریں ۔
یا اگر آپ واقعتا اس قدر قد کاٹھ رکھتے ہیں ، کہ شیخ رئیس سلفی اور شیخ کفایت اللہ جیسے اہل علم کو فراڈیے اور محرفین کہنا آپ کا حق بنتا ہے ، تو ذرا اپنا تعارف پیش کروادیں ، تاکہ ہمیں کوئی یہ الزام نہ دے کہ آپ کے فورم پر کل کے لونڈے علماء کرام پر زبان درازیاں کرتے ہیں ۔
پیارے بھائی کاش آپ ان کو بھی ڈانٹتے جنہوں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر کیچڑ اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی۔
فقہی اختلاف کریں اس پر دلائل دیں کسی کی ذات کو ہدف تنقید نہ بنائیں۔ جیسے آپ کے جذبات ہیں اس سے کہیں بڑھ کر لوگوں کو ابوحنیفہ رھمہ اللہ سے محبت ہے۔
فقہ حنفی پر فقہی تنقید کو خوشدلی سے قبول کرتے ہیں لیکن کسی معزز شخصیت کی تذلیل جس طرح آپ پسند نہیں کرتے اسی طرح دوسرے بھی پسند نہیں کرتے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
@عدیل سلفی بھائی آپ احمد بھائی کی پوسٹس کو مستقل "غیر متفق" کی ریٹنگ دے رہے ہیں۔ کیا اس کی وجہ ہم جان سکتے ہیں کہ آپ کو کس بات سے اتفاق نہیں ہے اور کس بنا پر نہیں ہے؟ ہمارے علم میں اضافہ ہوگا۔
ریٹنگ میں خالص سرخ رنگ پر مشتمل صرف دو ہی ریٹنگ ہیں اور سرخ رنگ لگتا ہے ان کا فیرٹ رنگ ہے۔ ابتسامہ
 
Top