• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سمندر کا پانی اور مچھلی کی حلت والی روایت

شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
رقم الحديث: 1266
(حديث مرفوع) أخبرنا محمد بن عبد الرحمن السامي ، قال : حدثنا أحمد بن حنبل ، قال : حدثنا أبو القاسم بن أبي الزناد ، قال : أخبرني إسحاق بن حازم ، عن ابن مقسم يعني عبيد الله ، عن جابر ، أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن ماء البحر ، فقال : " هو الطهور ماؤه ، الحل ميتته "۔

* کیا یہ حدیث سند کے اعتبار سے ٹھیک ھے؟
* کیا سمندر کے پانی کی پاکی پر اجماع ھے؟ اگر ھے تو پلیز بتائیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
(حديث مرفوع) أخبرنا محمد بن عبد الرحمن السامي ، قال : حدثنا أحمد بن حنبل ، قال : حدثنا أبو القاسم بن أبي الزناد ، قال : أخبرني إسحاق بن حازم ، عن ابن مقسم يعني عبيد الله ، عن جابر ، أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن ماء البحر ، فقال : " هو الطهور ماؤه ، الحل ميتته "۔

* کیا یہ حدیث سند کے اعتبار سے ٹھیک ھے؟
* کیا سمندر کے پانی کی پاکی پر اجماع ھے؟ اگر ھے تو پلیز بتائیں۔
وعلیکم السلامورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حدیث کے الفاظ آپ نے نقل کئے وہ سنن ابن ماجہ کے ہیں :
امام ابن ماجہ فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن يحيى ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا احمد بن حنبل ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا ابو القاسم بن ابي الزناد ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثني إسحاق بن حازم ، ‏‏‏‏‏‏عن عبيد الله ابن مقسم ، ‏‏‏‏‏‏عن جابر ، ‏‏‏‏‏‏ان النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏سئل عن ماء البحر؟ فقال:‏‏‏‏ "هو الطهور ماؤه الحل ميتته".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندر کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے“۔
«تفرد بہ ابن ماجہ،حدیث نمبر : 386 »
(تحفة الأشراف: ۲۳۹۲، ومصباح الزجاجة: ۱۶۰) (حسن صحیح)
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
_____________________________
جب کہ موطا امام مالک ؒ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے »
مالك، عن صفوان بن سليم، عن سعيد بن سلمة، من آل بني الأزرق، عن المغيرة بن أبي بردة، وهو من بني عبد الدار أنه سمع أبا هريرة يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إنا نركب البحر، ونحمل معنا القليل من الماء، فإن توضأنا به عطشنا، أفنتوضأ به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هو الطهور ماؤه الحل ميتته»
قبیلہ بنو عبدالدار کے ایک فرد مغیرہ بن ابی بردہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں گے، کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی بذات خود پاک اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے“

امام ابن عبدالبرؒ " الاستذکار " میں لکھتے ہیں :
فقال محمد بن عيسى الترمذي سألت البخاري عنه فقال حديث صحيح
امام محمد بن عیسیٰ الترمذی ؒ فرماتے ہیں : میں نے امام بخاریؒ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے “
امام ابن عبدالبرؒ مزید فرماتے ہیں :
فإن فقهاء الأمصار وجماعة من أهل الحديث متفقون على أن ماء البحر طهور بل هو أصل عندهم في طهارة المياه "
تمام علاقوں کے فقہاء اور اہل الحدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ سمندر کا پانی نہ صرف پاک ہے بلکہ تمام پانیوں کی طہارت کا اصل ہے "
_______________________
قال ابوداود:
41- باب الْوُضُوءِ بِمَاءِ الْبَحْرِ
باب: سمندر کے پانی سے وضو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 83
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ ابْنِ الْأَزْرَقِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنَ الْمَاءِ فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ بِمَاءِ الْبَحْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ ".
قبیلہ بنو عبدالدار کے ایک فرد مغیرہ بن ابی بردہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ (عبداللہ مدلجی نامی) ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں گے، کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی بذات خود پاک اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے“۔

سنن ابی داود:83 ، سنن الترمذی/الطھارة ۵۲ (۶۹)، سنن النسائی/الطھارة ۴۷ (۵۹)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۳۸ (۳۸۶)، (تحفة الأشراف: ۱۴۶۱۸)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطھارة ۳(۱۲)، مسند احمد (۲/۲۳۷، ۳۶۱، ۳۷۸)، سنن الدارمی/الطھارة ۵۳ (۷۵۵) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
السلام علیکم۔
مجھے پوچھنا یہ تھا کہ کیا یہ حدیث سنداً ٹھیک ہے۔
اور ایک شخص کا کہنا ھے۔
کہ
علامہ السیوطی نے ایک اصول بتایا ھے۔ اسی حدیث کو کوڈ کرکے۔
کہ
ضعیف روایت پر بھی اگر اہل علم متفق ھوجائیں کہ یہ صحیح ھے۔ تو وہ صحیح ھوجاتی ھے۔ جیساکہ یہ روایت ھے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@بنت عبد السمیع کا سوال اصل میں یہ ہے:
السلام علیکم ۔
کیا یہ ٹھیک کہا گیا ھے؟
۔
اگر ضعیف حدیث کو امت قبول کرلے تو وہ حدیث صحیح بن جاتی ھے:

امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ لکھتے ھیں:

"قال بعضهم يحكم للحديث بالصحة اذا تلقاه الناس بالقبول و ان لم يكن له اسناد صحيح."

ترجمہ: بعض محدثین فرماتے ھیں کہ حدیث پر صحت (یعنی صحیح) کا حکم لگا دیا جاۓ گا جب امت نے اسے قبول کرلیا ھو اگرچہ اسکی سند صحیح نہ بھی ھو.

حوالہ: تدریب الراوی للسیوطی
صفحہ ۲۹


قَالَ بَعْضُهُمْ: يُحْكَمُ لِلْحَدِيثِ بِالصِّحَّةِ إِذَا تَلَقَّاهُ النَّاسُ بِالْقَبُولِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ.
قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي الِاسْتِذْكَارِ: لِمَا حُكِيَ عَنِ التِّرْمِذِيِّ أَنَّ الْبُخَارِيَّ صَحَّحَ حَدِيثَ الْبَحْرِ: «هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ» ، وَأَهْلَ الْحَدِيثِ لَا يُصَحِّحُونَ مِثْلَ إِسْنَادِهِ، لَكِنَّ الْحَدِيثَ عِنْدِي صَحِيحٌ؛ لِأَنَّ الْعُلَمَاءَ تَلَقَّوْهُ بِالْقَبُولِ. وَقَالَ فِي التَّمْهِيدِ: رَوَى جَابِرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الدِّينَارُ أَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ قِيرَاطًا» ، قَالَ: وَفِي قَوْلِ جَمَاعَةِ الْعُلَمَاءِ وَإِجْمَاعِ النَّاسِ عَلَى مَعْنَاهُ غِنًى عَنِ الْإِسْنَادِ فِيهِ.
وَقَالَ الْأُسْتَاذُ أَبُو إِسْحَاقَ الْإِسْفَرَايِينِيُّ: تُعْرَفُ صِحَّةُ الْحَدِيثِ إِذَا اشْتُهِرَ عِنْدَ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ بِغَيْرِ نَكِيرٍ مِنْهُمْ.
وَقَالَ نَحْوَهُ ابْنُ فُورَكَ، وَزَادَ بِأَنْ مَثَّلَ ذَلِكَ بِحَدِيثِ: «فِي الرِّقَةِ رُبُعُ الْعُشْرِ وَفِي مِائَتَيْ دِرْهَمٍ خَمْسَةُ دَرَاهِمَ» .
وَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْحَصَّارِ فِي تَقْرِيبِ الْمَدَارِكِ، عَلَى مُوَطَّأٍ مَالِكٍ: قَدْ يَعْلَمُ الْفَقِيهُ صِحَّةَ الْحَدِيثِ إِذَا لَمْ يَكُنْ فِي سَنَدِهِ كَذَّابٌ بِمُوَافَقَةِ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ أَوْ بَعْضِ أُصُولِ الشَّرِيعَةِ، فَيَحْمِلُهُ ذَلِكَ عَلَى قَبُولِهِ وَالْعَمَلِ بِهِ، وَأُجِيبَ عَنْ ذَلِكَ بِأَنَّ الْمُرَادَ بِالْحَدِّ الصَّحِيحُ

تدریب الراوی ج١ ص ٦٦
شیخ @اسحاق سلفی سے گذارش کرتے ہیں کہ اس سنداً ضعیف روایت کے تلقی بالقبول کا معاملہ تفصیل سے بیان کریں، کہ بعض الناس ''تلقی بالقبول'' کا نعرہ لگا کر بہت سی مجروح احادیث کو مقبول قرار دیتے ہیں، خواہ محدثین نے اسے مردود بھی قرار دیا ہو!
جبکہ ''تلقی بالقبول'' کا معاملہ یہ ہے کہ سند تو اس کی ضعیف ہی ہو لیکن دیگر قرائن ودلائل سے اس کا متن صحیح ثابت ہو، تو ایسی صورت میں اس حدیث کو ''تلقی بالقبول '' حاصل ہو گا!
ایک جگہ اسے میں نے یوں بیان کیا تھا:
کسی ضعیف سند کی حدیث، اگر اس کی تحقیق سے، یعنی بذریعہ قرائن ثابت ہو جائے، اور علمائے حدیث نے ان قرائن کی بنیاد پر اسے قبول کر لیا ہوم تو اسے تلقی بالقبول کہتے ہیں، ایسے قرائن کی بناء پر تقلی بالقبول حاصل کرنے والی حدیث کی سند گو کہ ضعیف ہوتی ہے، مگر چونکہ اس کی تحقیق بالقرائن اس بات کا صحیح ہونا ثابت کرتی ہے، تو وہ حدیث مقبول یعنی صحیح قرار پاتی ہے،
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴿سورة الحجرات 06﴾
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔
یہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی خبر کی قبولیت کے لئے ایک اصول بتلایا ہے۔ اور فاسق کی خبر ضعیف ہوتی ہے، ساتھ ساتھ، اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ اگر کوئی فاسق خبر لائے، یعنی خبر ضعیف ہو ، تو اس کی تحقیق کر لیا کرو!
یہاں یہ بات سمجھنے والی ہے کہ تحقیق کے بہت سے طریقے ہیں! ایک یہ کہ وہ خبر دوسرا کوئی اور بھی لے آئے! لیکن اگر خبر لانے والا ایک ہی ہو تو، اللہ تعالیٰ نے یہاں نہ نہیں کہا کہ اگر کوئی فاسق خبر لائے تو اس پر عمل نہ کرو جب تک کہ کوئی عادل خبر لے آئے! بلکہ اللہ تعالیٰ نے تحقیق کا حکم دیا!
اب ایک فاسق کوئی خبر لایا ہے، اس خبر کے متعلق قرائن اگر اس خبر کی تصدیق کر دیں، تو یہ تحقیق بھی قبول ہو گی! اور یہ ہی تلقی بالقبول کی بنیاد ہے!
اس تلقی بالقبول لے معاملہ میں بہت سے لوگوں نے بہت غلو سے کام بھی لیا ہے،
ایک تھریڈ میں اس عنوان ، یعنی تلقی بالقبول، ضعیف احادیث کا فضائل اعمال میں قبول کرنے، کسی ضعیف حدیث کا تعدد طرق کی بناء پر حسن ہونے نہ ہونے پر ایک تحریر لکھنا شروع کی ہے، ان شاء اللہ جلد شئیر کروں گا!
اب یہ ادھوری تحریر مل گئی تو کوشش کروں گا اسے مکمل کروں۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
السلام علیکم۔جی بہت شکریہ۔ یہی سوال تھا۔
اور یہ آپ مکمل کرکے آسان لفظوں میں سمجھا دیں۔۔
اور یہ کسی نے نہیں بتایا ابھی تک۔ کہ کیا یہ روایت سنداً صحیح ھے۔ یا پھر قرائن کی وجہ سے صحیح ھے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
السلام علیکم۔
مجھے پوچھنا یہ تھا کہ کیا یہ حدیث سنداً ٹھیک ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
ہم نے آپ کو بتایا یہ تھا کہ اس حدیث کو امام بخاریؒ اور امام ترمذیؒ جیسے عظیم محدثین نے سنداً صحیح کہا ہے ،شاید آپ نے میری پوسٹ توجہ سے پڑھی ہی نہیں ، جس سے مجھے اپنے وقت کے ضیاع کا افسوس ہوا ۔
امام ابن عبدالبرؒ " الاستذکار " میں لکھتے ہیں :
فقال محمد بن عيسى الترمذي سألت البخاري عنه فقال حديث صحيح
امام محمد بن عیسیٰ الترمذی ؒ فرماتے ہیں : میں نے امام بخاریؒ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے “
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اور ایک شخص کا کہنا ھے۔
کہ "علامہ السیوطی نے ایک اصول بتایا ھے۔ اسی حدیث کو کوڈ کرکے۔کہ
ضعیف روایت پر بھی اگر اہل علم متفق ھوجائیں کہ یہ صحیح ھے۔ تو وہ صحیح ھوجاتی ھے۔ جیساکہ یہ روایت ھے۔
علامہ سیوطیؒ کا کلام بلفظہ کتاب کے حوالے کے ساتھ یہاں پیش کیجئے ،ان شاء اللہ جواب دینے کی کوشش کروں گا ۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
اگر یہ حدیث سے صحیح ہے تو پھر یہ کیا ہے۔
قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي الِاسْتِذْكَارِ: لِمَا حُكِيَ عَنِ التِّرْمِذِيِّ أَنَّ الْبُخَارِيَّ صَحَّحَ حَدِيثَ الْبَحْرِ: «هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ» ، وَأَهْلَ الْحَدِيثِ لَا يُصَحِّحُونَ مِثْلَ إِسْنَادِهِ، لَكِنَّ الْحَدِيثَ عِنْدِي صَحِيحٌ؛ لِأَنَّ الْعُلَمَاءَ تَلَقَّوْهُ بِالْقَبُولِ.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اگر یہ حدیث سے صحیح ہے تو پھر یہ کیا ہے۔
قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي الِاسْتِذْكَارِ: لِمَا حُكِيَ عَنِ التِّرْمِذِيِّ أَنَّ الْبُخَارِيَّ صَحَّحَ حَدِيثَ الْبَحْرِ: «هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ» ، وَأَهْلَ الْحَدِيثِ لَا يُصَحِّحُونَ مِثْلَ إِسْنَادِهِ، لَكِنَّ الْحَدِيثَ عِنْدِي صَحِيحٌ؛ لِأَنَّ الْعُلَمَاءَ تَلَقَّوْهُ بِالْقَبُولِ.
اس کا ترجمہ لکھیں ،جواب اسی میں سامنے آجائے گا ،
 
Top