• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت اور نوافل کی اہمیت :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
15665628_1163862157015385_1159224463228715126_n.jpg


گھروں میں خیر ؟


---------------------

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں (فرض) نماز ادا کر لے تو اپنی نماز کا کچھ حصہ (یعنی نفل نماز) گھر (جا کر پڑھنے) کے لئے بھی رکھے ، کیونکہ اللہ تعالی تمہاری نماز کی وجہ سے تمہارے گھروں میں خیر ڈال دیتا ہے

----------------------------------------------------

(سنن ابن ماجه : 1376 ، ، صحیح مسلم : 778 (1705) ، ،
صحیح الجامع : 488 ، ،731 ، ، 733 ، ، صحیح ابن حبان :2490)


------------------------------------------------------------------

(SAHIH MUSLIM Book 4, Hadith 1705)

-------------------------------------------------------------------

When any one of you observes prayer in the mosque he should reserve a part of his prayer for his house, for Allah would make the prayer as a means of betterment in his house
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
گھروں میں خیر
صحیح مسلم اور سنن ابن ماجہ میں ہے :
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَضَى أَحَدُكُمُ الصَّلَاةَ فِي مَسْجِدِهِ، فَلْيَجْعَلْ لِبَيْتِهِ نَصِيبًا مِنْ صَلَاتِهِ، فَإِنَّ اللهَ جَاعِلٌ فِي بَيْتِهِ مِنْ صَلَاتِهِ خَيْرًا»
ترجمہ :
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں (فرض) نماز ادا کر لے تو اپنی نماز کا کچھ حصہ (یعنی نفل نماز) گھر (جا کر پڑھنے) کے لئے بھی رکھے ، کیونکہ اللہ تعالی تمہاری نماز کی وجہ سے تمہارے گھروں میں خیر ڈال دیتا ہے
 

umaribnalkhitab

مبتدی
شمولیت
مارچ 26، 2017
پیغامات
75
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
18
فرض اور سنت میں کیا فرق ہے؟
مکمل تفصیل سے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب چاہئیے۔۔

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلے تو شیخ @رفیق طاھر کی ایک تحریر پیش کرتا ہوں:
تعریفیں تو میں کر دیتا ہوں لیکن یہ بات یاد رہے کہ کتاب وسنت کے دلائل سے تعریفات کا تعین کرنا اور پھر ان تعریفات کا اطلاق کرنا یہ ایک اجتہادی امر ہے اور اس میدان میں ہر مجتہد آزاد ہے بسا اوقات تعریفات میں مجتہدین کا اختلاف ہو جاتا ہے لیکن اصولیوں کا یہ اختلاف عملی زندگی میں حلال وحرام یا جائز وناجائز پر کوئی اثر مرتب نہیں کرتا جیسا کہ اہل الرائے فرض اور واجب کو علیحدہ علیحدہ شمار کرتے ہیں اور اہل الحدیث دنوں کو ایک ہی قرار دیتے ہیں فقہی میدان میں اس اختلاف کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور یہ اختلاف محض لفظی رہ جاتا ہے
لیجئے تعریفات اور انکے دلائل پیش خدمت ہیں :
فرض و واجب وہ کام ہوتے ہیں جنکو شارع نے لازمی طور پر طلب کیا ہو اور انہیں بجالانے والے کوثواب ملے اور روگردانی کرنیوالے کو سزا کی وعید سنائی جائے
دلیل اس تعریف کی یہ ہے :
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ

صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب وجوب الزکاۃ ح 1395
اس حدیث میں نماز اور زکوۃ کو فرض کہا گیا ہے ۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ

صحیح البخاری کتاب الایمان باب فان تابوا وأقاموا الصلاۃ وآتوا الزکاۃ فخلوا سبیلہم ح 25
اس حدیث میں دنوں فرضوں نماز اور زکاۃ کے تارک کی سزا اسکے خلاف جہاد فی سبیل اللہ بتائی گئی ہے۔
یہی حکم درج ذیل آیت میں بھی بیان ہوا ہے:
فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [التوبة : 5]

اور ان دونوں فرضوں کے تارکین کی اخروی سزا درج ذیل آیات میں بیان ہے ۔
مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ (42) قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ (43) وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ (44) وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ (45) وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ (46) حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ (47) فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ (48) المدثر

لہذا ثابت ہوا کہ فرض و وجب وہ ہوتا ہے جسکو شارع نے لازما طلب کیا ہو اور اسکے کرنے پر ثواب اور نہ کرنے پر گناہ ہو ۔
مستحب وہ عمل ہے جسے شارع نے پسند کیا ہو یا جسکا شارع نے مطالبہ کیا ہو لیکن لازمی طور پر نہیں , یعنی اگر کبھی وہ کام رہ بھی جائے تو اس پر سرزنش نہ کی جائے یا دوسرے لفظوں میں کرنے والے کو ثواب ملے اور نہ کرنے والے کو گناہ نہ ملے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَدَعُ الْعَمَلَ وَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ خَشْيَةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ وَمَا سَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبْحَةَ الضُّحَى قَطُّ وَإِنِّي لَأُسَبِّحُهَا

صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب تحریض النبی صلى اللہ علیہ وسلم على ..... ح 1128
مذکورہ بالا حدیث میں اس امر کی وضاحت موجود ہے کہ ایک عمل پسند بھی ہوتا لیکن فرض ہونے کے خدشہ کی وجہ سے آپ اسکو ترک فرما دیتے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ الْحُسَيْنِ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلُّوا قَبْلَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ صَلُّوا قَبْلَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ لِمَنْ شَاءَ خَشْيَةَ أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةً

سنن أبی داود کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ قبل المغرب ح 1281
اس حدیث میں مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کا مطالبہ صغیہ امر کے ساتھ کیا گیا ہے لیکن تیسری مرتبہ لمن شاء کہہ کر اسکی فرضیت کو ختم کرکے استحباب کو باقی رکھا گیا ہے ۔
مکروہ وہ عمل ہے جسے ناپسند کیا گیا ہو یا جس سے منع کیا گیا ہو لیکن اس سے لازمی طور پر رکنا مطلوب نہ ہو یا دوسرے لفظوں میں جس کام کے ترک پر ثواب ملے اور ارتکاب پر گناہ نہ ملے ۔
حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ فَسَأَلْنَاهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَوَاتِ فَقَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ وَالْعَصْرَ وَيَرْجِعُ الرَّجُلُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي الْمَغْرِبِ وَلَا يُبَالِي بِتَأْخِيرِ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ وَلَا يُحِبُّ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَلَا الْحَدِيثَ بَعْدَهَا وَيُصَلِّي الصُّبْحَ فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ فَيَعْرِفُ جَلِيسَهُ وَكَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ أَوْ إِحْدَاهُمَا مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ

صحیح البخاری کتاب الاذان باب القراءۃ فی الفجر ح 771
اس حدیث میں نماز عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمُرُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ وَأَنَا مَعَهُمَا وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَوْسِ بْنِ حُذَيْفَةَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ يُقَالُ لَهُ قَيْسٌ أَوْ ابْنُ قَيْسٍ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ فِي قِصَّةٍ طَوِيلَةٍ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ فِي السَّمَرِ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ فَكَرِهَ قَوْمٌ مِنْهُمْ السَّمَرَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ إِذَا كَانَ فِي مَعْنَى الْعِلْمِ وَمَا لَا بُدَّ مِنْهُ مِنْ الْحَوَائِجِ وَأَكْثَرُ الْحَدِيثِ عَلَى الرُّخْصَةِ قَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا سَمَرَ إِلَّا لِمُصَلٍّ أَوْ مُسَافِرٍ

جامع الترمذی أبواب الصلاۃ باب ما جاء من الرخصۃ فی السمر بعد العشاء ح 169
مذکورہ بالا حدیث میں نماز عشاء کے بعد باتیں کرنا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو رہا ہے
لہذا نماز عشاء کے بعد باتیں کرنا مکروہ قرار پائے گا

بحوالہ
شیخ رفیق طاھر کے ملون الفاظ پر میرا اشکال ہے، خیر اس سے قطع نظر ایک نکتہ بیان کرنا چاہوں گا؛
فرض وہ اعمال ہیں کہ جس کی ادائیگی قرآن و سنت سے لازم قرار پاتی ہو، اور وہ اعمال کہ جس کی ادائیگی باعث ثواب تو ہو لیکن لازم قرار نہ پائے وہ مستحب و نوافل کہلاتے ہیں۔
اب ان مستحب نوافل میں بلحاظ تلقین و تاکید مزید تقسیم ہے، کہ جس عمل کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اعتبار سے مخصوص کرکے اختیار کیا اور اس پر ہمیشگی بھی اختیار کی اسے سنت مؤکدہ کہتے ہیں، اور جس پر ہمیشگی اختیار نہ کی کہ کبھی ادا کیا کبھی چھوڑ دیا، اسے سنت غیر مؤکدہ کہتے ہیں۔ اور جس عمل و عبادت کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص کر کے اختیار نہ کیا اور بلکہ لوگوں کے لئے اختیار رکھا وہ نوافل کہلاتے ہیں۔
مثلاً فجر کی دو رکعت سنت؛ یہ وہ عمل ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو رکعت کے ساتھ خاص کر کے ادا کیا ہے۔ فجر سے قبل کوئی شخص کتنی ہی رکعت ادا کرے، سنت دو ہی ہوں گی، لیکن فجر ہو جانے کے بعد نماز فجر تک نوافل نماز پڑھنے ممانعت بھی نہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص دو رکعت سنت کے علاوہ نماز فجر سے قبل کچھ نفل نماز بھی پڑھنا چاہے تو وہ بلا قید تعداد رکعت جائز ہے۔
یہی معاملہ تراویح و تہجد کی نماز کا ہے۔ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح یا تہجد ثابت ہے۔ لیکن اگر کوئی اس سے زیادہ رکعت ادا کرتا ہے، تو سنت تو آٹھ ہی ہوں گی، اور باقی مستحب و نفل ہوں گی! اور ان نوافل کی رکعت کی تعداد متعین نہیں!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلے تو شیخ @رفیق طاھر
شیخ رفیق طاھر کے ملون الفاظ پر میرا اشکال ہے، خیر اس سے قطع نظر ایک نکتہ بیان کرنا چاہوں گا؛
فرض وہ اعمال ہیں کہ جس کی ادائیگی قرآن و سنت سے لازم قرار پاتی ہو، اور وہ اعمال کہ جس کی ادائیگی باعث ثواب تو ہو لیکن لازم قرار نہ پائے وہ مستحب و نوافل کہلاتے ہیں۔
اب ان مستحب نوافل میں بلحاظ تلقین و تاکید مزید تقسیم ہے، کہ جس عمل کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اعتبار سے مخصوص کرکے اختیار کیا اور اس پر ہمیشگی بھی اختیار کی اسے سنت مؤکدہ کہتے ہیں، اور جس پر ہمیشگی اختیار نہ کی کہ کبھی ادا کیا کبھی چھوڑ دیا، اسے سنت غیر مؤکدہ کہتے ہیں۔ اور جس عمل و عبادت کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص کر کے اختیار نہ کیا اور بلکہ لوگوں کے لئے اختیار رکھا وہ نوافل کہلاتے ہیں۔
مثلاً فجر کی دو رکعت سنت؛ یہ وہ عمل ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو رکعت کے ساتھ خاص کر کے ادا کیا ہے۔ فجر سے قبل کوئی شخص کتنی ہی رکعت ادا کرے، سنت دو ہی ہوں گی، لیکن فجر ہو جانے کے بعد نماز فجر تک نوافل نماز پڑھنے ممانعت بھی نہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص دو رکعت سنت کے علاوہ نماز فجر سے قبل کچھ نفل نماز بھی پڑھنا چاہے تو وہ بلا قید تعداد رکعت جائز ہے۔
یہی معاملہ تراویح و تہجد کی نماز کا ہے۔ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح یا تہجد ثابت ہے۔ لیکن اگر کوئی اس سے زیادہ رکعت ادا کرتا ہے، تو سنت تو آٹھ ہی ہوں گی، اور باقی مستحب و نفل ہوں گی! اور ان نوافل کی رکعت کی تعداد متعین نہیں!
السلام و علیکم و رحمت الله -

مسواک کے متعلق کیا حکم ہے ؟؟ جب کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا یہ متواتر عمل تھا اور اس پر تاکید بھی بہت ہے- (ظاہر ہے کہ یہ فرض یا واجب تو نہیں کیوں کہ اس کو چھوڑنے پر نکیر تو نہیں ہے)- لیکن کیا مسواک کرنا سنّت موکدہ ہے بوجہ تاکیدی حکم کے ؟؟- کیوں کہ آپ نے اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ"جس عمل کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اعتبار سے مخصوص کرکے اختیار کیا اور اس پر ہمیشگی بھی اختیار کی اسے سنت مؤکدہ کہتے ہیں"-

یہ بھی ذہن میں رہے کہ بعض علماء سنّت کی تقسیم کے قائل نہیں (یعنی سنّت موکدہ یا سنّت غیر موکدہ) کیوں کہ اصحاب رسول سے ایسا ثابت نہیں- یعنی سنّت عمل ایک ہی طرز پر ہے- البتہ سنّت پر عمل کی تاکید اس بنا پر ہے کہ اس سے ایک انسان کے میزان میں نیکیوں کا اضافہ ہوتا ہے -

جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص دن میں فرض نماز کے علاوہ بارہ رکعات (نوافل) کی ادائیگی پر مداومت کرتا ہے (فجر کے ٢، ظہر کے ٦، مغرب کے ٢، عشاء کے ٢ =١٢)- تو الله اس کے لئے جنّت میں ایک محل تعمیر کردیتا ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی کی ہو گی-

اور یہ بھی ہے کہ سنّت کی ادائیگی (جو نبی کریم کے نوافل تھے) اس سے فرائض میں رہ جانی والی کمی دور ہو جاتی ہے-

جیسا کہ ایک احدیث نبوی میں ہے کہ انسان کا پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا - اور اگر کسی کے نامہ اعمال میں فرض نماز کی کمی رہ جائے گی تو الله رب العزت اسے نوافل سے پورا کرے گا- تو تم نوافل پر مداومت اختیار کرو -

(واللہ اعلم)-
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مسواک کے متعلق کیا حکم ہے ؟؟ جب کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا یہ متواتر عمل تھا اور اس پر تاکید بھی بہت ہے- (ظاہر ہے کہ یہ فرض یا واجب تو نہیں کیوں کہ اس کو چھوڑنے پر نکیر تو نہیں ہے)- لیکن کیا مسواک کرنا سنّت موکدہ ہے بوجہ تاکیدی حکم کے ؟؟- کیوں کہ آپ نے اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ"جس عمل کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اعتبار سے مخصوص کرکے اختیار کیا اور اس پر ہمیشگی بھی اختیار کی اسے سنت مؤکدہ کہتے ہیں"-
جی مسواک کا حکم سنت مؤکدہ میں شمار کیا جاتا ہے۔
ملون کردہ الفاظ کے لئے ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی عمل کے فرض و واجب ہونے کے لئے ترک کرنے پر نکیر لازم نہیں، بلکہ صرف اس عمل کا امر کافی ہے۔ الا یہ کہ امر کسی دلیل و قرینہ سے مندوب ہونے پر دلالت کرے!
یہ بھی ذہن میں رہے کہ بعض علماء سنّت کی تقسیم کے قائل نہیں (یعنی سنّت موکدہ یا سنّت غیر موکدہ) کیوں کہ اصحاب رسول سے ایسا ثابت نہیں- یعنی سنّت عمل ایک ہی طرز پر ہے- البتہ سنّت پر عمل کی تاکید اس بنا پر ہے کہ اس سے ایک انسان کے میزان میں نیکیوں کا اضافہ ہوتا ہے -
جی! بعض علماءاس تکلف کے قائل نہیں کہ مؤکدہ و غیر مؤکدہ کی تقسیم کی جائے کہ لوگ کسی سنت کو ہلکا و غیر ضروری نہ سمجھیں!
 
Last edited:
Top