• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (قراءت)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
بسم الله الرحمن الرحيم
سنت طریقہ نماز (قراءت)

آئیے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء کے مطابق نماز سیکھ کر پڑھیں۔
قراءت
نماز میں قيام كى حالت میں سورة فاتحہ کی قراءت اور اس کے ساتھ دیگر کسی سورۃ يا تين آيات كى مقدار قراءت واجب ہے۔ نماز میں کسی شخص کی تین حالتیں ممکن ہیں۔ نمبر ایک منفرد :نمبر دو امام: نمبر تین مقتدی :
مقتدی

مقتدى کو امام كى اقتداء میں قراءت كى ممانعت ہے
فرمان بارى تعالى جل شانہ ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم كيا جائے(سورة الاعراف)۔
آیت میں یہ حکم مقتدی کو نماز میں کی جانے والی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا ہے۔ قرآنِ پاک کی آیت میں ہے کہ
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ جب قرآن پڑھا جائے۔ یہ الفاظ متقاضی ہیں کسی شخص کے پڑھنے کے اور بلند آواز سے قراءت صرف امام کرتا ہے اور فَاسْتَمِعُوا لَهُ سے قرآنِ پاک کے سننے کا حکم ہؤا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم مقتدی کو ہے اور یہ الفاظ متقاضی ہیں کہ قراءتِ قرآن کے وقت اس کی طرف توجہ کرنے کے۔ کان میں صرف آواز کا پڑنا کافی نہیں ہے۔ پھر بغور سماعتِ قرآن کے تقاضے کی تکمیل کے لئے ارشادِ باری تعالیٰ وَأَنْصِتُوا ہؤا تاکہ سماعتِ قرآن کے وقت خاموشی اختیار کرکے قراءتِ قرآن کو توجہ سے سننے کی تعمیل باحسن و خوبی ہوسکے۔ اس بات کی تائید کے لئے تفسير ابن کثیر سے درج بالا آيت کی تفسیر کے اقتباسات ملاحطہ فرمائیں؛
تفسير ابن کثیر
§ اللہ تعالی نے وقتِ تلاوت خاموش رہنے کا حکم دیا قرآن کی عظمت و احترام کے لئے۔
§ ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امام اسلئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو جب قراءت کرے خاموش رہو۔
§ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز پڑھی، لوگوں کو امام کے ساتھ قراءت کرتے سنا۔ جب سلام پھیرا تو فرمایا کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم لوگ سمجھ سے کام لو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو جب قرآن پڑھا جائے توجہ سے سنو اور خاموش رہو یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
§ ایک انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں قراءت کرتا تھا یہ آیت "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" اس بارے میں اتری۔
توضیح: انصاری امام کی قراءت کے ساتھ قراءت کرتا تھا جس سے منع کیا گیا۔
§ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم ایک جہری نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی میرے ساتھ قراءت کر رہا تھا؟ ایک شخص نے کہا جی ہاں يا رسول اللہ (یہ سن کر) رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے کہا میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں چھینا جارہا ہے۔ راوی کہتاہے کہ لوگ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت کرنے سے رک گئے۔
§ جن نمازوں میں امام جہری قراءت کرے ان میں امام کے ساتھ نہ پڑھو اس لئے کہ امام کی قراءت تمہیں کافی ہے اگرچہ امام کی آواز سنائی نہ دے ہاں جن نمازوں میں امام آہستہ قراءت کرتا ہے ان میں دل ہی دل میں قراءت کرے۔ کسی کے لئے بھی یہ درست نہیں کہ وہ امام کے ساتھ آہستہ یا بلند آواز سےقراءت کرے جب کہ امام بلند آواز سے قراءت کر رہا ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے"۔
توضیح: مقتدی کو سری نمازوں میں قراءت "في أنفسهم" کی اجازت دی گئی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہ ہونے کا کہا تو پوچھا گیا کہ جب ہم امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تب؟ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا "اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ"(صحیح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ يُحْسِنْ الْفَاتِحَةَ
یہ "
في أنفسهم" اور " فِي نَفْسِكَ" کیا ہے؟ یہ ہونٹوں کو حرکت دیئے بغیر قراءت کرنے کو یعنی دل ہی دل میں قراءت کرنے کو "في أنفسهم" اور "في نفسك" فرمایا جیسا کہ نزول قرآن کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سری قراءت سے منع فرمایا گیا(سورۃ القیامۃ آیت نمبر 18
§ یہ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مقتدی پر نماز میں قراءت میں سے کچھ بھی واجب نہیں نہ سورۃ فاتحہ نہ کوئی دیگر سورۃ۔
§ صرف سکتوں میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کرے یہ جمہور صحابہ اور تابعین کا قول ہے۔
توضیح: سکتوں میں سورۃ فاتحہ کی اجازت دلیل ہے قراءتِ امام کے وقت خاموشی کی۔
§ ابوحنیفہ اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ مقتدی پر قراءت میں سے کچھ بھی واجب نہیں نہ سری میں نہ جہری نمازوں میں جیسا کہ حدیث میں آچکا کہ امام کی قراءت مقتدی کو کافی ہے۔
§ علی بن ابی طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ یہ فرض نمازوں سے متعلق حکم ہے۔
(تفسیر ابن کثیر مکمل ہوئی)
اوپر درج آیت کی تفسیر کی تائید باری تعالیٰ کے اس حکمِ سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ نزول قرآن کے وقت جبرائیل امین کے ساتھ آقا علیہ السلام پڑھنا شروع کر دیتے جس سے آپ کو منع کر دیا گیا اور خاموش رہ کر سننے کا حکم دیا گیا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ(سورۃ القیامۃ آیت نمبر 18)۔
اس آ یت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں؛
ابن کثیر (
تفسیر سورۃ القیامۃ آیت نمبر 18)میں ہےکہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتہ سے وحی وصول کرنے کی تعلیم دی کہ جب فرشتہ وحی لائے تو توجہ سے اس کو سنیں اللہ تعالیٰ کماحقہ آپ کو یاد کروا دیں گے۔
مقتدى کو قراءت کے وقت خاموش رہنے کا حکم ہے
رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا جب امام "غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ" کہے تو کہو "آمین" اللہ آپ سے محبت کرے گا(سنن النسائي كِتَاب الِافْتِتَاحِ بَاب جَهْرُ الْإِمَامِ بِآمِينَ
توضیح: امام کی قراءت کے ساتھ مقتدی کو قراءت کا حکم نہیں فرمایا جب کہ مقتدی کے ذمہ جو افعال تھے ان کا ذکر آقا علیہ السلام نے اس میں فرمایا۔
صحيح مسلم میں ہے کہ جب امام قراءت كرے تو خاموش رہو(صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب التَّشَهُّدِ فِي الصَّلَاةِ) ۔
صحيح مسلم ہی میں ہے کہ زيد رضى الله تعالى عنہ سے امام كى اقتدا میں مقتدی كى قراءت كا پوچھا گیا تو جواب دیا كہ امام كى اقتدا میں مقتدى پر قراءت واجب نہیں(صحيح مسلم كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ
ابو ہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا امام جب امامت کرے اور تكبير کہے تو تكبير کہو اور جب قراءت كرے خاموش رہو جب کہے
سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہو اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ(سنن النسائی کتاب الافتتاح بَاب تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ)۔
ابو ہریرۃ رضى الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا امام جب امامت کرے اور تكبير کہے تو تكبير کہو اور جب قراءت كرے خاموش رہو اور جب کہے
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو کہو آمین اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور جب کہے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہو اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ اور جب سجدہ کرے تو سجدہ کرو اور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو سب بیٹھ کر نماز پڑھو(‡ سنن ابن ماجه کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا باب اذا قرا الامام فانصتوا
توضیح: اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے مقتدی کے تمام افعال بڑی تفصیل سے ارشاد فرمائے۔ اس میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا۔
ابو موسى اشعرى رضى الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب امام قراءت كرے تو خاموش رہو اور قعده كرو تو سب سے پہلے تشہد پڑھو(سنن ابن ماجه كتاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا باب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ سوا اس کے نہیں کہ مقرر كيا گیا ہے امام تاكہ اس كى اقتدا كى جائے۔ جب تکبیر کہے تو تکبیر کہو اور جب قراءت كرے تو خاموش رہو(
مسند أحمد بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَ مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
تفہیم: اوپر درج تمام احادیث اس کی متقاضی ہیں کہ قراءتِ امام کے وقت مقتدی خاموشی کے ساتھ امام کی قراءت سنے اگر اس کو قراءت سنائی دے رہی ہو۔
سورۃ فاتحہ بهى قراءت ہے اور قراءت کے احکام میں شامل ہے اس کی دلیل درج ذیل احادیث ہیں۔

عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نماز میں قراءت (الحمد لله رب العلمين) سے شروع کرتے (صحيح مسلم کتاب الصلاۃ بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ
ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب دوسرى ركعت كو کھڑے ہوتے تو قراءت (
الحمد لله رب العلمين) سے شروع کرتے(صحيح مسلم كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلاةِ بَاب مَا يُقَالُ بَيْنَ تَكْبِيرَةِ الإِحْرَامِ وَالْقِرَاءَةِ
انس رضى الله عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول الله صلى الله عليہ وسلم٬ ابوبكر رضى الله عنہ٬ عمر
رضى الله عنہ اور عثمان رضى الله عنہ قراءت الحمد لله رب العلمين سے شروع کرتے تھے(سنن أبي داود کتاب الصلاۃ بَاب مَنْ لَمْ يَرَ الْجَهْرَ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
امام کی قراءت مقتدی کے لئے کافی ہے
ابو درداء رضى الله تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم سے پوچھا گیا كيا ہر نماز میں قراءت ہے؟ رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا كہ ہاں! ايك انصارى نے كہا کہ واجب ہوئی۔ ايک شخص جو رسول صلى الله عليہ وسلم سے قريب تها متوجہ ہؤا کہا جب تمهارى قوم سے تمهارا كوئى امام ہو تو اس كى قراءت تمہیں كافى ہے(سنن النسائي کتاب الافتتاح باب اكْتِفَاءُ الْمَأْمُومِ بِقِرَاءَةِ الإِمَامِ
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری مرض کا ذکر ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت وہیں سے شروع کی جہاں تک ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کر چکے تھے(
سنن ابن ماجه كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا بَاب مَا جَاءَ فِي صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ
تفہیم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی قراءت کافی ہوگئی۔ قراءت سورہ فاتحہ سے شروع کی جاتی ہے جیسا کہ ماقبل احادیث میں گذر چکا۔ ظاہر ہے کہ آقا علیہ السلام کو کم سے کم یہ تو لازم ہؤا کہ سورہ فاتحہ کا کچھ حصہ قراءت کرنے سے رہ گیا اس طرح آقا علیہ السلام نے عملاً بتا دیا کہ مقتدی کو امام کی قراءت کفایت کر جاتی ہے۔
جابر رضى الله تعالى عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ مقتدی کو امام كى قراءت كافى ہے(سنن ابن ماجه كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
عبدالله ابن عمر رضى الله تعالى عنہ سے پوچھا گیا كيا امام كى اقتدا میں مقتدى قراءت كرے؟ انہوں نے كہا تم میں سے جب كوئى امام كى اقتداء میں نماز پڑھے تو اس كو امام كى قراءت كافى ہے
جب اكيلا پڑھے تو قراءت كرے(موطأ مالك كِتَاب النِّداءِ لِلصّلاةِ بَاب تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيه
رکوع میں ملنے سے رکعت مل جاتی ہے
ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا جس نے (امام کے ساتھ) ركعت (یعنی ركوع) پا لیا اس نے نماز (كى ركعت) پالی(صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ بَاب مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الصَّلَاةِ رَكْعَةً
ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ سے روايت ہے فرماتے ہیں رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے (امام کے ساتھ) ركوع پاليا اس نے نماز كى ركعت پالى(
سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ
 
Last edited:

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
عن عبادۃ بن الصامت أن رسول اللہﷺ قال: لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب۔ (صحیح بخاری: 1 / 104، صحیح مسلم: 1 / 169، سنن ترمذی مع تعلیق احمد محمد شاکر: 2 / 25، السنن الکبری للبیہقی: 2 / 38)



یعنی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔

یہ حدیث عام ہے نماز چاہے فرض ہو یا نفل اور وہ شخص امام ہو یا مقتدی یا اکیلا ، یعنی کسی شخص کی کوئی نماز سورہ فاتحہ پڑھے بغیر نہیں ہوگی ۔

امیر المومنین فی الحدیث محمد بن اسماعیل امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں بایں الفاظ باب باندھ کر اس کی توضیح کردی ہے: ’’باب وجوب القرأۃ للامام والمأموم في الصلوات کلھا في الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت‘‘ (صحیح بخاری: 1 / 104) یعنی امام ومقتدی کے لیے سب نمازوں میں قرأت (سورہ فاتحہ ) واجب ہے، نماز حضری ہو یا سفری، جہری یا سری ، یعنی ہر قسم کی نماز میں امام ومقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔

علامہ کرمانی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وفي الحدیث (أي حدیث عبادۃ) دلیل علی أن قرأۃ الفاتحۃ واجبۃ علی الإمام والمنفرد والمأموم في الصلوات کلھا‘‘۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری: 3 / 63) یعنی حضرت عبادہ بن صامت کی یہ حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ سورہ فاتحہ کا پڑھنا امام، اکیلے اور مقتدی کے لیے تمام نمازوں میں فرض ہے۔

علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری (3 / 64)میں فرماتے ہیں:

’’استدل بھذا الحدیث عبد اللہ بن المبارک والأوزاعي ومالک والشافعي وأحمد واسحاق وأبوثور وداود علی وجوب قراء ۃ الفاتحۃ خلف الإمام في جمیعالصلوات‘‘ یعنی اس (حضرت عبادہ ) سے عبد اللہ بن مبارک، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحاق، امام ابوثور ، امام ابوداود نے (مقتدی کے لیے) امام کے پیچھے تمام نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے وجوب پر دلیل پکڑی ہے۔

علامہ سندھی حنفی حاشیہ بخاری (1 / 95) پر لکھتے ہیں:

’’والحق أن الحدیث یفید بطلان الصلاۃ إذا لم یقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب‘‘ یعنی حق بات یہ ہے کہ جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے، اس حدیث عبادہ سے اس نماز کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔

امام نووی المجموع شرح مہذب (3 / 326) مصری میں فرماتے ہیں:

یعنی جو شخص سورہ فاتحہ پڑھ سکتا ہے ، اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اور نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، اور فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیر عربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی کوئی دیگر آیت، اور اس تعیین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں، فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یا سری، مرد ہو یا عورت ، یا مسافر لڑکا (نابالغ ) اور کھڑا ہو کر نماز پڑھنے والا اور بیٹھـ کر نماز پڑھنے والا اور حالت خوف اور امن میں نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس سورہ فاتحہ امام ومقتدی اور اکیلا نماز پڑھنے والا بھی برابر ہے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ ﷺ في صلاۃ الفجر فقرأ رسول اللہ ﷺفثقلت علیہ القراء ۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرؤون خلف امامکم، قلنا نعم ھذاً یا رسول اللہ! قال: لا تفعلوا إلا بفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بھا‘‘ (سنن ابی داود: 1 / 120، سنن ترمذی: 1 / 41، وقال حسن 1/ 72)

یعنی حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ فجر کی نماز ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پڑھ رہے تھے، رسول اللہ ﷺنے پڑھا (قرأت کی ) تو آپ پر پڑھنا دشوار ہوگیا ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو، ہم نے کہا ہاں، یا رسول اللہ ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں، آپ نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو، کیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔

امام خطابی معالم السنن شرح ابی داود (1/ 390) میں فرماتے ہیں:

’’ھذا الحدیث نص بأن قرأۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الإمام سواء جھر الإمام بالقرأۃ أو خافت بھا واسنادہ جید لا طعن فیہ أیضا‘‘۔ (مرعاۃ المفاتیح: 1 / 162)

یعنی یہ حدیث نص ہے کہ مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے، خواہ امام قرأت بلند آواز سے کرے یا آہستہ ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے خاص سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورہ فاتحہ پڑھے بغیر کسی کی نماز نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند جید ہے اس پر کسی طرح رد وقدح نہیں۔

مولانا عبد الحي حنفی سعایہ ص 303 میں لکھتے ہیں:

وقد ثبت بحدیث عبادۃ وھو حدیث صحیح قوي السند أمرہ ﷺ بقراءۃ الفاتحۃ للمقتدي۔

یعنی حضرت عبادہ کی حدیث سے جو صحیح اور قوی السند ہے رسول اللہ ﷺ کا حکم مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں ثابت ہوچکا ہے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
عن عبادۃ أن النبي ﷺ قال: لا تجزيء صلاۃ لا یقرأ الرجل فیھا بفاتحۃ الکتاب۔ (رواہ الدارقطنی وقال ھذا اسناد صحیح ص 122، شرح المہذب: 3 / 329، کتاب القراء ۃ دہلی ص 9، الدرایۃ: 76، وقال رجالہ ثقات)

یعنی حضرت عبادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نماز میں آدمی سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا ہے وہ نماز کفایت نہیں کرتی یعنی باطل ہے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
عن أبي ھریرۃ عن النبي ﷺ قال: من صلی صلاۃ لم یقرأ فیھا بالقرأۃ فھي خداج ثلاثا غیر تمام، فقیل لأبي ھریرۃ إنا نکون وراء الامام، فقال اقرأ بھا في نفسک فاني سمعت رسول اللہ ﷺ یقول قال اللہ تعالی: قسمت الصلاۃ بیني وبین عبدہ نصفین ۔ الحدیث۔ (صحیح مسلم: 1 / 169)

یعنی حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے تو وہ نماز بالکل ناقص ہے (مردہ ہے) ناقص ہے (مردہ ہے ) ناقص ہے (مردہ ہے ) کامل نہیں ہے، حضرت ابوہریرہ سے کہا گیا کہ ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں (تب بھی پڑھیں)؟ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا ہاں! اس کو آہستہ پڑھا کرو، کیونکہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی نے فرمایا میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

امام نووی شرح مسلم (1 / 170)میں فرماتے ہیں:

ترجمہ: علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس جگہ ’’الصلاۃ ‘‘ سے مراد سورہ فاتحہ ہے، سورہ فاتحہ کو نماز سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز صحیح نہیں ہے، جیسے نبی ﷺ نے فرمایا: حج عرفہ ہے، کیونکہ عرفہ جائے بغیر حج نہیں ہوتا۔ اس لیے معلوم ہوا کہ نماز میں سورہ فاتحہ فرض ہے، کذا فی نیل الاوطار: 2 / 214، والتعلیق الممجد ص 49، وتنویر الحوالک: 1 / 176، شرح الزرقانی: 1 / 176.

اقرأ بھا في نفسک کا معنی: اس کا معنی دل میں تفکر وتدبر وغور کرنا نہیں بلکہ اس اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ سورہ فاتحہ پڑھا کر، کما قال الإمام البیھقي في کتاب القراء ۃ ص 17، والإمام النووی في شرح صحیح مسلم: 1 / 170، والزرقاني في شرح الموطأ: 1 / 176، والعلامۃ الشوکاني في النیل: 2 / 214، والشیخ عبد الحق الدھلوي في أشعۃ اللمعات: 1 / 372، والشاہ ولي اللہ الدھلوي في المصفی: 1 / 106، وملا علي قاری الحنفی في المرقاۃ: 1 / 530، ومولانا أنور شاہ الکشمیري الحنفي في العرف الشذی ص 157
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
عن عائشۃ قالت قال رسول اللہﷺ: من صلی صلاۃ لم یقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب فھي خداج غیر تمام۔ (کتاب القراء ۃ ص 38، جزء القراء ۃ ص 8)ی

عنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی وہ نماز ناقص ہے (بے کار ہے) پوری نہیں ہے۔
جزء القراء ۃ ص 82 طبع گوجرانوالہ میں ہے: وقال أبوعبیدۃ یقال اخدجت الناقۃ اذا اسقطت والسقط میت لا ینتفع بہ۔ یعنی ابو عبیدہ نے فرمایا: اخدجت الناقۃ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی اپنے بچے کو (قبل از وقت ) گرادے اور گرا ہوا بچہ مردہ ہوتا ہے، جس سے نفع نہیں اٹھایا جاسکتا ۔ (یعنی نماز باطل وفاسد ہوتی ہے).
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
عن أنس بن مالک أن رسول اللہ ﷺصلی بأصحابہ فلما قضی صلاتہ أقبل علیہ بوجھہ فقال أتقرؤون في صلاتکم خلف الإمام والإمام یقرأ فسکتوا فقالھا ثلاث مرات فقال قائل أو قال قائلون: انا نفعل، قال: فلا تفعلوا، ولیقرأ أحدکم فاتحۃ الکتاب في نفسہ۔ (کتاب القراء ۃ ص 49، جزء القراء ۃ ص 28، سنن الدار قطني: 1 / 49)
یعنی حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو نماز پڑھائی ، نماز پوری کرنے کے بعد صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا جب امام پڑھ رہا ہوتا ہے تو تم بھی اپنی نماز امام کے پیچھے پڑھتے ہو، صحابہ کرام خاموش رہے، تین بار آپ نے حکم یہی فرمایا پھر ایک یا زیادہ لوگوں نے کہا: ہم ایسا کرتے ہیں ۔ (یعنی آپ کے پیچھے پڑھتے ہیں ) آپ نے فرمایا: ایاس نہ کیا کرو تم میں سے ہر ایک صرف سورہ فاتحہ اپنے نفس میں آہستہ سے پڑھا کرو۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
امام بخاری رحمہ اللہ جزء القراء ۃ ص 14 میں فرماتے ہیں:

وتواتر الخبر عن رسول اللہ ﷺ لا صلاۃ الا بقراء ۃ القرآن۔ یعنی اس بارے میں کہ بغیر سورہ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی ، رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔

احمد محمد شاکر تعلیق ترمذی (2 / 125)میں فرماتے ہیں:

وجاء ت أحادیث صحاح متواترۃ انہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب وکل رکعۃ صلاۃ وکل مصلی داخل تحت ھذا العموم الصریح إماما کان أو ماموما أو منفردا۔ یعنی اس بارے میں صحیح اور متواتر احادیث موجود ہیں کہ جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں اور ہر رکعت نماز ہے اور ہر نمازی اس واضح عموم میں شامل ہے ، امام ہو یا مقتدی یا اکیلا کوئی فرد خارج نہیں ہے۔

امام عبد الوہاب شعرانی میراث کبری (1 / 1166)طبع دہلی میں فرماتے ہیں:

’’من قال بتعیین فاتحۃ وانہ لا یجزيء قرأۃ غیرھا قد دار مع ظاھر الأحادیث التي کادت تبلغ حد التواتر مع تأیید ذلک بعمل السلف والخلف‘‘۔ یعنی جن علماء نے سورہ فاتحہ کو نماز میں متعین کیا ہے اور کہا ہے کہ سورہ فاتحہ کے سوا کچھ اور پڑھنا کفایت نہیں کر سکتا، اولا تو ان کے پاس احادیث نبویہ اس کثرت سے ہیں کہ تواتر کو پہونچی ہوئی ہیں، ثانیا سلف وخلف صحابہ کرام ؓ وتابعین وتبع تابعین وائمہ عظام کا عمل بھی تعین سورہ فاتحہ در نماز کی تائید کرتا ہے۔

تمام صحابہ کرام امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے، چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ: وکنا نتحدث انہ لا یجزئ صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب۔ (جزء القراء ۃ ص 31 دہلی ) یعنی صحابہ کرام بیان کیا کرتے تھے کہ کوئی نماز بغیر سورہ فاتحہ کے کفایت نہیں کرتی۔ اس حدیث میں کسی صحابی کو مستثنی نہیں کیا گیا ، بلکہ عام بیان کیا گیا ہے کہ تمام صحابۂ کرام کا یہی اعتقاد تھا کہ بغیر سورہ فاتحہ کے نماز نہیں ہوتی ہے، گویا صحابہ کرام کا اس مسئلہ پر اجماع ہے۔

علامہ علی بن عبد الکافی السبکی فتاوی السبکی ص 148 میں فرماتے ہیں:

وقد رویت آثار کثیرۃ في القراء ۃ خلف الامام في السریۃ والجھریۃ معا عن الصحابۃ والتابعین۔ یعنی صحابہ کرام وتابعین سے سری اور جہری نمازوں میں امام کے پیچھے (سورہ فاتحہ) پڑھنے کے متعلق بہت آثار مروی ہیں۔

امام شعبی فرماتے ہیں :

انما ھلکتم حین ترکتم الآثار وأخذتم بالمقاییس۔ (الاعتصام للشاطبی: 1 / 125)یعنی جب تم نے آثار (احادیث نبویہ واقوال صحابہ ) کو چھوڑ دیا اور قیاسات کو اپنالیا تو ہلاک ہوگئے۔

وکان یقول (أي أبوحنیفۃ) علیکم بآثار من سلف وایاکم ورأي الرجال وان زخرفوہ بالقول۔ (میزان کبری للامام الشعرانی ) یعنی امام ابو حنیفہ فرمایا کرتے تھے کہ سلف صالحین صحابہ کرام کے آثار کو لازم پکڑو اور آدمیوں کی رائے سے بچتے رہو ، اگرچہ وہ بات کو کتنا ہی مزین وخوبصورت کرکے پیش کریں۔

جو موقف اس مسئلہ میں تمام صحابہ کرام کا تھا وہی موقف تابعین عظام ، تبع تابعین اور ائمہ دین کا بھی تھا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جزء القراء ۃ ص 5 میں لکھتے ہیں:

وما لا أحصی من التابعین وأھل العلم انہ یقرأ خلف الامام وان جھر وکذا في کتاب القراء ۃ للبیھقي ص 41. یعنی بے شمار تابعین اور اہل علم جن کی تعداد گنی نہیں جاسکتی ہے وہ سب یہ فرماتے ہیں کہ مقتدی امام کے پیچھے (سورہ فاتحہ ضرور ) پڑھا کرے، اگرچہ امام بلند آواز سے قراء ت کررہا ہو۔

الغرض امت کی اکثریت صحابہ وتابعین اسی چیز کے قائل ہیں کہ بغیر سورۂ فاتحہ کے کسی کی کوئی نماز نہیں ہوتی ۔

اور امام ابن حبان کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام نمازوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا تمام صحابہ کرام اور جملہ اہل اسلام کا مسلک ہے اور اس میں کسی عالم کو اختلاف نہیں تھا، حتی کہ جو اہل کوفہ سورہ فاتحہ نہیں پڑھتے تھے وہ بھی اسے پڑھنے کو جائز قرار دیتے تھے اور اسے منع نہیں کرتے، چنانچہ وہ حضرت علی کے ایک اثر کی تضعیف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ وذلک أن أھل الصلاۃ لم یختلفوا من لدن الصحابۃ الی یومنا ھذا ممن ینسب إلی العلم منھم ان من قرأ خلف الإمام تجزیہ صلاتہ وانما اختار أھل الکوفۃ ترک القراء ۃ خلف الإمام لا انھم لم یجیزوہ‘‘۔ (کتاب المجروحین 2 / 5)

اور یہ اس لیے کہ صحابہ کرام سے لیکر آج تک تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھی اس کی نماز ہوجائے گی اس میں کسی عالم کا اختلاف نہیں ہے اور اہل کوفہ نے امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھنے کو بھی اختیار کیا ہے، نہ یہ کہ وہ پڑھنے کو ناجائز کہتے ہیں۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
امام ابو حنیفہ کا مسلک


غیث الغمام حاشیہ امام الکلام ص 156 میں فرماتے ہیں:

لأبي حنیفۃ ومحمد قولان أحدھما عدم وجوبھا علی المأموم بل ولا تسن وھذا قولھما القدیم أدخلہ محمد في تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ إلی الأطراف وثانیھما استحسانھا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراھتھا عند المخافۃ للحدیث المرفوع لا تفعلوا إلا بأم القرآن وفي روایۃ لا تقرؤوا بشي إذا جھرت إلا بأم القرآن وقال عطائ: کانوا یرون علی الماموم القراءۃ فیما یسر فرجعا من قولھما الأول إلی الثاني احتیاطا۔

یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے اس مسئلہ (قرأت فاتحہ خلف الامام) میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ مقتدی کے لیے الحمد شریف نہ واجب ہے نہ سنت اور یہ ان کا پہلا قول ہے، امام محمد ؓ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قدیم قول کو داخل کیا اور ان کے نسخے اطراف میں پھیل گئے (اس لیے یہ قول زیادہ مشہور ہوگیا) دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کو احتیاطا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا مستحسن وبہتر ہے اور آہستہ نماز میں کوئی کراہت نہیں ہے (یہ قول اس لیے اختیار کیا کہ ) صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام مقتدیوں کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب میں بلند آواز سے پڑھ رہا ہوں تو سوائے سورہ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔

اور امام صاحب کے استاد حضرت عطاء جلیل القدر تابعی نے فرمایا کہ صحابہ کرام وتابعین نماز جہری وسری میں مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے (پس ان دلائل صحیحہ کی بنا پر ) امام ابوحنیفہ اور امام محمد نے احتیاطا اپنے پہلے قول سے رجوع کیا اور دوسرے قول کے قائل ہوگئے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ہی بہتر ہے، ائمہ دین کا یہی شیوہ تھا، جب اپنے قول کے خلاف حدیث کو دیکھتے تو اپنے قول کو چھوڑ دیتے اور صحیح حدیث کے مطابق فتوی صادر فرماتے۔ اس لیے امام ابوحنیفہ ؒنے فرمایا: ’’إذا صح الحدیث فھو مذھبي ان توجہ لکم دلیل فقولوا بہ …‘‘۔ (در مختار: 1 / 5 معہ رد المختار) یعنی حدیث صحیح میرا مذہب ہے، اگر تم کو کوئی دلیل قرآن وحدیث سے مل جائے تو اس پر عمل کرو اور اسی کے مطابق فتوی دیا کرو۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نماز، توحید باری کے بعد اسلام کا سب سے اہم ترین ستون وبنیاد ہے، دین ودنیا کی کامرانی وکامیابی اس میں مضمر ہے، اس کی صحت سورہ فاتحہ پر موقوف ہے، صحت نماز کے لیے اسے ہر نماز میں پڑھنا واجب وفرض ہے ورنہ نماز فاسد وباطل ہوگی، اور یہی موقف جمہور اہل علم کا ہے۔ امام نووی شرح المہذب (3 / 296)میں لکھتے ہیں:

’’والذي علیہ جمھور أھل الاسلام القراء ۃ خلف الإمام في السریۃ والجھریۃ‘‘۔

سری وجہری دونوں نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھنا جمہور اہل اسلام کا مسلک ہے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
عن عبادة بن الصامت، رضي الله عنه، وكان على إيلياء، فأبطأ عبادة عن صلاة الصبح، فأقام أبو نعيم الصلاة، وكان أول من أذن ببيت المقدس فجئت مع عبادة، حتى صف الناس، وأبو نعيم يجهر بالقراءة، فقرأ عبادة بأم القرآن، حتى فهمتها منه، فلما انصرف قلت: [ص: ١٩] سمعتك تقرأ بأم القرآن، فقال: نعم صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم بعض الصلوات التي يجهر فيها بالقرآن، فقال: «لا يقرأن أحدكم إذا جهر بالقراءة إلا بأم القرآن
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top