• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت فجر کی قضا نماز فجر کے بعد

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى ، ثنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ جَاءَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الْفَجْرِ فَصَلَّى مَعَهُ ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ ، فَقَالَ: لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ ؟ " فَقَالَ: لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُهُمَا قَبْلَ الْفَجْرِ ، فَسَكَتَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا " " قَيْسُ بْنُ فَهْدٍ الْأَنْصَارِيُّ صَحَابِيٌّ ، وَالطَّرِيقُ إِلَيْهِ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا " وَقَدْ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ فَهْدٍ [المستدرك على الصحيحين للحاكم 1/ 399 رقم 1019]۔

یہ روایت صحیح ہے امام حاکم نے صحیح کہا ہے امام ابن حبان اورامام ابن خزیمہ رحمہاللہ نے بھی اسے اپنی اپنی صحیح میں نقل کیا یعنی ان کے نزدیک بھی یہ روایت صحیح ہے۔
سند کے رجال کا تعارف ملاحظہ ہو:
قيس بن عمرو الانصاری المدنی،المدني۔
آپ صحابی ہیں لہٰذا مزید تعارف کی ضرورت نہیں۔

سعيد بن قيس بن عمرو الانصاری المدنی۔
آپ ثقہ ہیں ۔
امام ابن حبان نے آپ کو ثقات میں ذکر کیا چنانچہ کہا:

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
سعيد بن قيس بن قهد الأنصاري والد يحيى بن سعيد يروى عن أبيه وله صحبة روى عنه ابنه يحيى بن سعيد [الثقات لابن حبان: 4/ 281]۔

نیز امام ابن حبان نے ان کی حدیث کو صحیح بھی کہا ہے ۔

اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأخرج بن حبان في صحيحه من طريق أبي سلام عنه أحاديث صرح فيها بالتحديث ومقتضاه أنه عنده ثقة [تعجيل المنفعة ص: 204]

امام ابن خزیمہ نے بھی ان کی حدیث کو صحیح بھی کہا ہے ۔

اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قلت صحح ابن خزيمة حديثه ومقتضاه أن يكون عنده من الثقات [تعجيل المنفعة ص: 248]
امام حاکم نے بھی ان کی حدیث کو صحیح بھی کہا ہے ۔

اورامام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من لم يُوثق ولا ضُعِّف. فإن حُرِّج حديثُ هذا في ((الصحيحين))، فهو مُوَثَّق بذلك، وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة فجيِّدُ أيضاً، وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه. [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17،]۔

نیزامام ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَالَ غَيره: فِيهِ جَهَالَة، مَا رَوَى عَنهُ سُوَى ابْن خُنَيْس. وَجزم بِهَذَا الذَّهَبِيّ فِي «الْمُغنِي» فَقَالَ: لَا يعرف لَكِن صحّح الْحَاكِم حَدِيثه - كَمَا ترَى - وَكَذَا ابْن حبَان، وَهُوَ مُؤذن بمعرفته وثقته.[البدر المنير لابن الملقن: 4/ 269]۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ راوی مذکور ثقہ ہیں۔

يحيى بن سعيد الانصاری۔
آپ بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے راوی اورزبردست ثقہ امام ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
يحيى بن سعيد بن قيس الأنصاري المدني أبو سعيد القاضي ثقة ثبت[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 503]۔

ليث بن سعد بن عبد الرحمن الفھمی المصری۔
آپ بھی بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے راوی اورزبردست ثقہ امام ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
الليث بن سعد بن عبد الرحمن الفهمي أبو الحارث المصري ثقة ثبت فقيه إمام مشهور[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 378]۔

أسد بن موسى بن إبراهيم القرشي،الأموي،المصري،البصري۔
آپ اسدالسنہ کے لقب سے ملقب اورثقہ امام ہیں ۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
أسد بن موسى الأموي المعروف بأسد السنة وثقوه [مقدمة فتح الباري: ص: 457]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الثِّقَةُ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 10/ 162]۔

ربيع بن سليمان بن عبد الجبار بن كامل، المرادي،المصري۔
آپ بالاتفاق ثقہ ہیں ۔

امام أبو يعلى الخليلي رحمه الله (المتوفى446):
أَبُو مُحَمَّدٍ الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ ثِقَةٌ , مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 1/ 428]

محمد بن يعقوب بن يوسف ، المعقلي،الشيباني،الأموي،النيسابوري
آپ بھی ثقہ اورزبردست امام ہیں ۔

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
كان إماما، ثقة، حافظا، ضابطا، صدوقا، دينا[طبقات الشافعيين ص: 270]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
مذکورہ حدیث سے معلوم ہواکہ اگرفجرسے قبل کی دو رکعت سنت کسی سے چھوٹ جائے تو وہ فجربعد اسے پڑھ سکتا ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ نے تقریرا اسے منظور کیا ہے ۔
بعض لوگ یہ اعتراض پیش کرتے ہیں کہ احادیث میں فجر بعد سنت پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ۔
توعرض ہے کہ فجربعد عام سنن ونوافل سے منع کیا ہے اوربے شک عام سنن ونوافل فرض بعد ادا کرنا درست نہیں ہوگا لیکن اگر خصوصی طور پر کسی سنت کے بارے میں ثبوت مل جائے کہ اسے فجر بعد پڑھ سکتے ہیں تو ایسی سنت کی تخصیص ہوجائے گی اوراس کا حکم الگ ہوگا ، چنانچہ فجر سے قبل والی دو رکعت کے بارے میں خصوصی دلیل مل رہی ہے کہ اسے فجر کے بعد پڑھ سکتے ہیں اس لئے اس سنت کو فجر بعد بھی پڑھ سکتے ہیں کیونکہ اس کے لئے خصوصی دلیل موجود ہے۔
اسے مثال سے یوں سمجھیں کہ قران مجید میں مردہ جانور کو حرام قرار دیا گیا ہے ،ارشاد ہے:
{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ} [المائدة: 3]۔
یعنی تم پر مردار حرام ہے۔
لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مردہ مچھلی حلال ہے لہٰذا مردہ مچھلی کاحکم الگ ہوگا اسے حرام قرار نہیں دیاجائے گا کیونکہ اس کے لئے خصوصی دلیل موجود ہے ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى ، ثنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ جَاءَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الْفَجْرِ فَصَلَّى مَعَهُ ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ ، فَقَالَ: لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ ؟ " فَقَالَ: لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُهُمَا قَبْلَ الْفَجْرِ ، فَسَكَتَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا " " قَيْسُ بْنُ فَهْدٍ الْأَنْصَارِيُّ صَحَابِيٌّ ، وَالطَّرِيقُ إِلَيْهِ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا " وَقَدْ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ فَهْدٍ [المستدرك على الصحيحين للحاكم 1/ 399 رقم 1019]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
شیخ ویسے تو میں صحابہ کے تراجم نہیں کرتا لیکن آپ کے کہنے پر یہ والا کر دیا ہے۔
یقینا صحابہ کے تراجم کی ضرورت نہیں لیکن یہاں روایت میں نام مذکور نہیں ہے اس لئے کم از کم نام کی وضاحت تو ہونی چاہئے تاکہ ایک عام آدمی کم از کم یہ تو جان سکے کہ یہ حدیث کس صحابی کی بیان کردہ ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
حنفیوں کے اس روایت پر تمام اعتراضات کے جواب شیخ ارشاد الحق نے اپنے مقالات میں بھی دیے ہیں۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
کیا اسکی طرف رہنمائ ھو سکتی ھے؟؟؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى ، ثنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ جَاءَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الْفَجْرِ فَصَلَّى مَعَهُ ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ ، فَقَالَ: لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ ؟ " فَقَالَ: لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُهُمَا قَبْلَ الْفَجْرِ ، فَسَكَتَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا " " قَيْسُ بْنُ فَهْدٍ الْأَنْصَارِيُّ صَحَابِيٌّ ، وَالطَّرِيقُ إِلَيْهِ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا " وَقَدْ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ فَهْدٍ [المستدرك على الصحيحين للحاكم 1/ 399 رقم 1019]۔
بعض احادیث کے الفاظ سے بظاہر کہنے والے کے تأثر کی رہنمائی نہیں ملتی مگر بغور اس کی جزئیات اور اس سے برآمدہ نتائج سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس مذکورہ حدیث میں بھی کچھ اسی قسم کا معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان " مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ ؟ " ایک ڈانٹ والا فقرہ ہے۔ اس ڈانٹ کے بعد کسی صحابی سے ممکن نہیں کہ جانتے بوجھتے اس کا اعادہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اور صحابی سے یا اسی صحابی سے اعادہ ثابت نہیں۔
بلکہ ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ فجر کے فرائض کے بعد فجر ست کی ادئیگی بھی ممنوع ہے ان کو طلوع شمس کے بعد ادا کرے۔ جیسا کہ فرامین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
 
Top