سنت ،کتاب اللہ بھی ہے
لفظ کتاب اللہ بھی اسی سنت کے معنی میں استعمال ہوا جس طرح سنت کا لفظ کتاب اللہ کے ساتھ مستعمل ہوا۔مثلاًایک شادی شدہ عورت اور غیر شادی شدہ نوجوان مزدور (عسیف) کا مقدمہ جب آپ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو فرمایا:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ جَلَّ ذِکْرُہُ۔واللہ میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔
فیصلہ رجم کی سزا کا تھا جومقدمہ کے فریقین نے قبول کیا۔مگر کیا یہ فیصلہ قرآن کریم میں ہے؟ نہیں! بلکہ احادیث میں ہے جو عین کتاب اللہ اور منشأ الٰہی کے مطابق ہے۔ ا س لئے اسے آپ ﷺ نے خود کتاب اللہ سے تعبیر کیا۔آپ ﷺ کے فیصلے سے قبل یہی سزادیگر صحابہ بھی اسے بتاتے رہے جو انہیں معلوم تھی۔ورنہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوگی کہ صرف
حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ سے قرآن کریم ہی مراد لیا جائے کیونکہ اس سے سارے ذخیرہ ٔحدیث کا انکار ہوتا ہے اور کسی کو محروم کرنا بھی مراد ہے۔شیخ عبد الرحمن کیلانی ؒ لکھتے ہیں: صحابہ کرام رسول اکرم ﷺ سے کتاب اللہ کا مفہوم جان چکے تھے کہ اس سے مراد شریعت کے وہ تمام عقائد واحکام ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمادئے ہیں۔
٭…اُم المؤمنین نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو خرید کر آزاد کرنا چاہا۔ سیدہ بریرہ ؓ کے مالک نے حق تولیت اپنے پاس رکھنے کی شرط لگا دی۔آپ ﷺ کے علم میں جب یہ بات آئی تو خطبہ عام دیا اور فرمایا:
مَا بَالُ النَّاسِ یَشْتَرِطُونَ شُرُوْطاً لَیْسَتْ فِی کِتَابِ اللّٰہِ۔۔لوگ کیوں ایسی شروط رکھتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔ مگرکیا یہ شرط
اَلْوَلاَئُ لِمَنْ أَعْتَقَ تولیت اسی کی ہوگی جو آزاد کرے گا ۔قرآن کریم میں ہے؟کتاب اللہ سے مراد کیا یہی مجلد کتاب ہے یا اس سے مراد آپ ﷺ نے وہ شریعت لی جو آپ ﷺ پر نازل ہوئی تھی؟ صحابۂ رسول نے بھی یہی سمجھا۔اس لئے بریرہ رضی اللہ عنہا کا حق تولیت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہی آپ ﷺ نے دیا اس لئے کہ اسے خرید کرآزاد کرنے والی وہی تھیں۔ (صحیح بخاری ، کتاب الشروط)
٭… سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی صحابہ رسول اور نئی نسل کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا:
الرَّجْمُ فِی کِتَابِ اللّٰہِ حَقٌّ مَنْ زَنٰی إِذَا أُحْصِنَ۔ جب شادی شدہ زنا کرے تو اس کے لئے رجم کی سزا کتاب اللہ سے واقعتاً ثابت ہے۔(صحیح بخاری ، کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی)۔ مگرکیا رجم کا حکم کتاب اللہ میں ہے؟ اس لئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول
حَسْبُنَاکِتَابُ اللّٰہِ پر تبسم بکھیرنے کی ضرورت نہیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب باندھ کر یوں واضح کیا ہے۔
بَابُ الْمُکَاتَبِ وَمَا لاَیَحِلُّ مِنَ الشُّروطِ الَّتِی تُخَالِفُ کِتَابَ اللّٰہِ۔ مکاتب اور ایسی شروط جو کتاب اللہ کی رو سے ناجائز ہیں۔
٭…ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کی بیماری نے شدت اختیار کرلی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
اِیْتُوْنِیْ بِکِتَابٍ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لاَ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ۔ میرے پاس لکھنے کا سامان لاؤ میں تمہیں کچھ تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہوسکو۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے ۔
حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ یہ ہمارے لئے کافی ہے۔لوگ آپس میں بحث وتکرار کرنے لگے۔ نبی کریم ﷺ کو یہ بحث ناگوار گذری ۔ فرمایا:
قُوْمُوْا عَنِّیْ لاَ یَنْبَغِیْ عِنْدِی التَّنَازُعُ۔ یہاں سے اٹھ جاؤ میرے پاس ایسی بات مناسب نہیں۔سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
إنَّ الرَّزِیْئَۃَ کُلَّ الرَّزِیْئَۃِ مَا حَالَ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَبَیْنَ کِتَابِہِ۔نبی کریم ﷺ اور ان کی طرف سے تحریر کے درمیان حائل ہونا انتہائی افسوسناک بات تھی۔(صحیح بخاری: ۱۴۴)
سیدنا عمر ؓ نے کہا تھا: أَہَجَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ؟(صحیح مسلم) کیا نبی کریم ﷺ کوئی نامعقول بات کہہ سکتے ہیں؟ مراد یہ کہ ہرگز نہیں۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو آپ ﷺ سیدنا عمرؓ کی اصلاح فرما کے انہیں خاموش کرادیتے۔ اس لئے ان کی اس رائے کو آپ ﷺ نے برقرار رکھا ورنہ حتمی ارادہ ہوتا تو آپ ضرور وہ تحریر لکھوا دیتے۔
رسول اکرم ﷺ حال صحت وحالت مرض کسی صورت میں بھی شرعی احکام تبدیل نہ کرسکتے تھے۔اور نہ ہی اپنے فرائض منصبی میں کوئی کوتاہی کرسکتے تھے۔آپ ﷺ کے بیمار ہوجانے سے نہ تو آپ ﷺ کے مرتبے میں کوئی فرق پڑسکتا تھا اور نہ ہی شریعت میں کوئی نقص پیدا ہوسکتا تھا۔
وہ کتابت آپ کیا کروانا چاہتے تھے؟ اس بارے میں سبھی اندازے ہیں یا بدگمانیاں۔کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔اس لئے نہ لکھوانے کا فیصلہ بھی وحی کے مطابق ہوا اور لکھوانے کاپہلا حکم منسوخ ہوگیا۔
سوال یہ ہے کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے یہ جملہ کیوں ارشاد فرمایا؟ کیا یہ ان کی فراست اور دقت نظر نہ تھی کہ کچھ لکھوانے کے بعد اگر امت اس پر عمل نہ کرسکی تو وہ لائق سزا ہو گی۔ نیز آپ ﷺ کا لکھا ہوا نص ہوجاتاجس میں اجتہاد کی گنجائش باقی نہ رہتی۔یہ تھا ان کا دین کے بارے میں کامل یقین کہ امت اب گمراہ نہیں ہوسکتی۔ اس لئے انہوں نے نبی کریم ﷺ کا بوجھ گھٹانے کی کوشش کی ۔ یہی ان کی فقاہت تھی۔ اس لئے اس واقعے پر نہ کوئی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر خفا ہوا اور نہ ہی کسی نے خوشی کا اظہار کیا۔
٭…دیگر فقہاء کرام بھی کتاب اللہ کے مفہوم سے مراد سارا دین اور بالخصوص رسول اکرم ﷺ کا فرمایا ہوا حکم وفیصلہ ہی لیتے ہیں۔ صحابہ کرام بھی رسول اکرم ﷺ سے کتاب اللہ کا مفہوم جان چکے تھے کہ اس سے مراد شریعت کے وہ تمام عقائد واحکام ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمادئے ہیں۔بے شمارخطبات میں آپ ﷺ نے کتاب اللہ کے الفاظ ارشاد فرما ئے اوران کایہی مفہوم صحابہ کرام کو باور کرایا۔(فتنہ پرویزیت: ۱۴۱)
٭…اس لئے جو کام اللہ ورسول کے تھے صحابہ کرام نے انہیں اپنے ہاتھ نہیں لیا بلکہ ان کی حدود میں رہنے کی کوشش کی۔ اپنی رائے دینے میں بہت محتاط تھے۔ چہ جائیکہ وہ قرآن کریم سے سارے مطالب لے کراس کی اصطلاحات تک بدل دیں۔اس سوچ نے غالباً انہیں یہ جرات بھی دی کہ نص کے خلاف کسی کا کوئی فیصلہ یا حکم سنا تو برملا اس کی اصلاح چاہی یا کردی۔ خلیفہ راشدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دئے ہوئے آرڈینینس کو ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے یہ کہہ کر رد کردیا تھا:
مَنْ أَبِی؟ آپ ﷺ کی اجازت اگر حج تمتع کے بارے میں ہے تو میرا باپ کون ہوتا ہے؟جو اسے منع کرے۔(مسند احمد)
منبر پر جب مجمع عام میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حقِ مہر زیادہ دینے پر منع فرمایا تو خواتین کی مجلس میں بیٹھی ایک خاتون نے برملا کہا: عمر! اگر اللہ اس کی اجازت دیتا ہے تو آپ کون ہیں اسے روکنے والے؟ سنتے ہی فرمایا:
أَصَابَتِ امْرَأَۃٌ وَأَخْطَأَ عُمَرُ۔ عورت نے درست بات کہی اور عمر سے غلطی ہوگئی۔رضی اللہ عنہ۔
جمہور فقہاء اس رائے، قیاس یا اجماع کو تسلیم ہی نہیں کرتے جو سنت کے مخالف ہو۔ اس لئے امام مالک رحمہ اللہ کا اصول عمل اہل مدینہ ہی صحیح حدیث پر ترجیح پائے گا علماء موالک نے اس کی بہت سی تعبیرات پیش کی ہیں یہی حال اس اجماع کو تسلیم نہ کرنے کا ہے جو فقہاء اربعہ کے نام سے ان کے بعد نام پا گیا۔ اس لئے من مانے مفہوم کو اخذ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی چہ جائے کہ اسے شریعت مانا جائے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ