• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سندھ: شادی کی کم از کم عمر 18 برس مقرر

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
کم عمری کی شادی اور صحت کے مسائل

ہم اس سے قبل بھی بچوں کی شادیوں کے حوالے سے جنگ بلاگز پر بات کر چکے ہیں اور 29 جنوری کو یہ بلاگ کم عمری میں شادی کا رواج کیوں؟ کے نام سے شائع ہو چکا ہے لیکن اس موضوع کو اور تقویت اس وقت ملی جب اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سربراہ مولانا شیرانی کی طرف یہ بیان سامنے آیا کہ پاکستانی عائلی قوانین میں تبدیلی کی جائے جن کے مطابق کم عمری کی شادی پر پابندی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ غیر اسلامی ہے اور اسلام میں کم عمری کی شادی کی معانعت نہیں۔ مولانا شیرانی کے مطابق نکاح کے لیے کم سے کم کوئی عمر نہیں مقرر کی جا سکتی لیکن رخصتی کیلئے بلوغت کا ہونا لازمی ہے۔ نیز یہ کے اسلامی نظریاتی کونسل اس قانون میں ترمیم کی شفارش کرتی ہے جس کے تحت پاکستان میں شادی کے لیے کم سے کم عمر لڑکی کے لیے سولہ سال اور لڑکے کے لیے اٹھارہ سال ہے۔

مسلم عائلی قوانین میں مجریہ 1965ء پاکستان میں مسلمانوں کی شادی سے متعلق سب سے اہم قانون ہے، یہ قانون 1961ء میں آرڈیننس کی صورت میں نافذ ہوا تھا۔ جس کے تحت شادی ایک شرعی اور قانونی معاہدہ ہے جس کے لیے بغیر کسی جبر، دھوکے کے بنا ایجاب و قبول ضروری ہے۔ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی، نکاح کے وقت لڑکی کے حسب منشاء مہر کا تعین، دو گواہان کے دستخط اور نکاح نامے کا اندارج کروانا ضروری ہے۔ بات ہو اگر بندش بچگانہ شادی ایکٹ کی تو یہ قانون 1929ء میں انگریز دور میں بنایا گیا اور چند ترامیم کے بعد اس کو پاکستانی قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس قانون کے تحت 16 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی قابل سزا جرم ہے اور کم عمری کی شادی کروانے والوں کو ایک مہینے کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا ہے، تاہم شادی کو فسخ نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس صورتحال پر بہت سے قلم کار اور بچوں کی حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں آواز اٹھا رہی ہیں کہ اس قانون میں مزید ترامیم کی ضرورت ہے اور بچوں کی کم عمری میں شادی پر پابندی لگائی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کم عمری میں شادی کرنے سے کیا مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کی بڑی وجہ فرسودہ رسومات ہیں جن میں ونی، سوارہ، وٹا سٹہ شامل ہے۔ بہت سی بچیوں کی شادیاں خون بہا، قصاص یا صلح کے بدلے میں کر دی جاتی ہیں۔ کچھ غریب ماں باپ اپنی کم سن بیٹیاں غربت کے باعث بوڑھے آدمیوں کو بیاہ دیتے ہیں اس کے عوض انہیں رقم ملتی ہے یعنی وہ اپنی بیٹیاں بیچ دیتے ہیں۔ پاکستان میں کم عمری کی شادیاں زیادہ تر مرد اپنی تسکین کے لیے بھی کرتے ہیں ایک بیوی کے عمر رسیدہ ہوتے ہی کم عمر بیوی کا خواب۔ ان شادیوں کے پیچھے ہرگز بھی اسلامی تعلیمات کار فرما نہیں کہ بچوں کی شادیاں جلد کی جائیں تاکہ وہ بے راہ روی سے بچ سکیں، پاکستان میں کم عمر بچیوں سے شادی کی بڑی وجہ صرف ذاتی خواہشات ہیں۔ اسلام یہ کبھی نہی کہتا کہ دو بچوں کی شادیاں آپس میں کر دی جائیں یا کسی بچے کی شادی کسی عمر رسیدہ انسان سے کر دی جائے۔ اسلام میں شادی دو بالغ افراد کے درمیان شرعی اور قانونی رشتہ ہے جس میں دونوں فریقین کی رضا مندی ہونا ضروری ہے۔

اب ایک شادی میں دوسرے فریق کو اتنی سمجھ ہی نہیں اس کی رضامندی ہی نہیں تو نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟ کم عمری کی شادی کسی بھی لڑکی سے اس کا بچپن چھین لیتی ہے، اس کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے، یہ شادی اس کی صحت کو خطرات لاحق کر دیتی ہے۔ کم عمری میں زچگی کے باعث بہت سی بچیاں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

اس ہی حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے بچگانہ شادیوں کے خلاف موجود قانون چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا ہے تاکہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے اور دو سال قید بامشقت یا پھر دونوں سزائیں ساتھ دی جائیں۔ ماروی میمن کے مطابق اس بل کو لانے کا مقصد کم عمری کی شادی حوصلہ شکنی ہے اور دوران زچگی کم عمر بچیوں کی اموات میں کمی لانا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور جے یو آیی نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل غیر اسلامی ہے اور بچے کا نکاح کسی بھی عمر میں کیا جا سکتا ہے لیکن ماروی میمن کے مطابق کیا کم عمری میں بچیوں کا ماں بننا ان کو موت کے منہ میں دکھیلنے کے مترادف نہیں؟ معروف عالم دین جاوید احمد غامدی کے مطابق کم عمری کی شادیاں بچیوں پر ظلم ہیں اور وقت کی اہم ضرورت کے پاکستانی معاشرے کے مطابق اس پر مکمل قانون سازی کی جائے اور کم عمر بچیوں کو تحفظ دیا جائے۔

معتدل حلقوں کی طرف سے یہ آواز پہلے بھی اٹھائی جا چکی ہے کہ عقد یا عقد ثانی کے شوقین کسی عمر رسیدہ کنواری خاتون، بیوہ یا مطلقہ سے شادی کیوں نہیں کرتے۔ اگر شادی یا جلد شادی سے بے راہ روی ختم کرنا مقصود ہے تو یہ شادیاں بچوں کی نہیں بلکے بالغ اور درمیانی عمر کے لوگوں کی کروائی جائیں جو کسی بھی وجہ سے شادی کے بندھن سے محروم ہیں۔ رہی بات بچوں کی تو آج کے دور میں اچھی خوراک اور جسمانی طور پر قوت معدافعت زیادہ ہونے پر بچیاں جلد بالغ ہوجاتی ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ان تولیدی اعضاء بھی اس قدر مضبوط ہوگیے ہیں کہ اگے آنے والی نسلوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ بچوں کی پیدائش، ناقص غذا، گھریلو کام کی زیادتی کی وجہ سے یہ جسمانی امراض جیسے فیسٹولا، بچہ دانی کے کینسر، ہڈیوں میں کیلشیم کی کمی کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کا بھی شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ بچیاں تعلیم کی کمی، غربت کے باعث مانع حمل ادویات بھی استعمال سے آگاہ نہیں ہوتی اور ہر سال بچے کی پیدائش ان کو موت کے منہ میں لیے جاتی ہے،اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بچوں کو شادیوں سے نکل کر کچھ اس حوالے سے بھی سوچنا چاہیے کہ 16 سال سے کم عمر کی بچی کی شادی درحقیت اس کے لیے نئی زندگی اور خوشیوں کا نہیں بلکے موت کا پروانہ ہے۔ جب 16 سال سے کم عمر بچے کو بچہ اور نا سمجھ گردانتے ہوئے ان کا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا، نہ ہی ان کا ڈرائیونگ لائیسنس بن سکتا ہے تو پھر بچہ پرشادی جیسی بڑی ذمہ داری کا بوجھ کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟

جویریہ صدیق
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
کم عمری کی شادی اور صحت کے مسائل

ہم اس سے قبل بھی بچوں کی شادیوں کے حوالے سے جنگ بلاگز پر بات کر چکے ہیں اور 29 جنوری کو یہ بلاگ کم عمری میں شادی کا رواج کیوں؟ کے نام سے شائع ہو چکا ہے لیکن اس موضوع کو اور تقویت اس وقت ملی جب اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سربراہ مولانا شیرانی کی طرف یہ بیان سامنے آیا کہ پاکستانی عائلی قوانین میں تبدیلی کی جائے جن کے مطابق کم عمری کی شادی پر پابندی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ غیر اسلامی ہے اور اسلام میں کم عمری کی شادی کی معانعت نہیں۔ مولانا شیرانی کے مطابق نکاح کے لیے کم سے کم کوئی عمر نہیں مقرر کی جا سکتی لیکن رخصتی کیلئے بلوغت کا ہونا لازمی ہے۔ نیز یہ کے اسلامی نظریاتی کونسل اس قانون میں ترمیم کی شفارش کرتی ہے جس کے تحت پاکستان میں شادی کے لیے کم سے کم عمر لڑکی کے لیے سولہ سال اور لڑکے کے لیے اٹھارہ سال ہے۔

مسلم عائلی قوانین میں مجریہ 1965ء پاکستان میں مسلمانوں کی شادی سے متعلق سب سے اہم قانون ہے، یہ قانون 1961ء میں آرڈیننس کی صورت میں نافذ ہوا تھا۔ جس کے تحت شادی ایک شرعی اور قانونی معاہدہ ہے جس کے لیے بغیر کسی جبر، دھوکے کے بنا ایجاب و قبول ضروری ہے۔ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی، نکاح کے وقت لڑکی کے حسب منشاء مہر کا تعین، دو گواہان کے دستخط اور نکاح نامے کا اندارج کروانا ضروری ہے۔ بات ہو اگر بندش بچگانہ شادی ایکٹ کی تو یہ قانون 1929ء میں انگریز دور میں بنایا گیا اور چند ترامیم کے بعد اس کو پاکستانی قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس قانون کے تحت 16 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی قابل سزا جرم ہے اور کم عمری کی شادی کروانے والوں کو ایک مہینے کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا ہے، تاہم شادی کو فسخ نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس صورتحال پر بہت سے قلم کار اور بچوں کی حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں آواز اٹھا رہی ہیں کہ اس قانون میں مزید ترامیم کی ضرورت ہے اور بچوں کی کم عمری میں شادی پر پابندی لگائی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کم عمری میں شادی کرنے سے کیا مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کی بڑی وجہ فرسودہ رسومات ہیں جن میں ونی، سوارہ، وٹا سٹہ شامل ہے۔ بہت سی بچیوں کی شادیاں خون بہا، قصاص یا صلح کے بدلے میں کر دی جاتی ہیں۔ کچھ غریب ماں باپ اپنی کم سن بیٹیاں غربت کے باعث بوڑھے آدمیوں کو بیاہ دیتے ہیں اس کے عوض انہیں رقم ملتی ہے یعنی وہ اپنی بیٹیاں بیچ دیتے ہیں۔ پاکستان میں کم عمری کی شادیاں زیادہ تر مرد اپنی تسکین کے لیے بھی کرتے ہیں ایک بیوی کے عمر رسیدہ ہوتے ہی کم عمر بیوی کا خواب۔ ان شادیوں کے پیچھے ہرگز بھی اسلامی تعلیمات کار فرما نہیں کہ بچوں کی شادیاں جلد کی جائیں تاکہ وہ بے راہ روی سے بچ سکیں، پاکستان میں کم عمر بچیوں سے شادی کی بڑی وجہ صرف ذاتی خواہشات ہیں۔ اسلام یہ کبھی نہی کہتا کہ دو بچوں کی شادیاں آپس میں کر دی جائیں یا کسی بچے کی شادی کسی عمر رسیدہ انسان سے کر دی جائے۔ اسلام میں شادی دو بالغ افراد کے درمیان شرعی اور قانونی رشتہ ہے جس میں دونوں فریقین کی رضا مندی ہونا ضروری ہے۔

اب ایک شادی میں دوسرے فریق کو اتنی سمجھ ہی نہیں اس کی رضامندی ہی نہیں تو نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟ کم عمری کی شادی کسی بھی لڑکی سے اس کا بچپن چھین لیتی ہے، اس کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے، یہ شادی اس کی صحت کو خطرات لاحق کر دیتی ہے۔ کم عمری میں زچگی کے باعث بہت سی بچیاں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

اس ہی حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے بچگانہ شادیوں کے خلاف موجود قانون چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا ہے تاکہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے اور دو سال قید بامشقت یا پھر دونوں سزائیں ساتھ دی جائیں۔ ماروی میمن کے مطابق اس بل کو لانے کا مقصد کم عمری کی شادی حوصلہ شکنی ہے اور دوران زچگی کم عمر بچیوں کی اموات میں کمی لانا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور جے یو آیی نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل غیر اسلامی ہے اور بچے کا نکاح کسی بھی عمر میں کیا جا سکتا ہے لیکن ماروی میمن کے مطابق کیا کم عمری میں بچیوں کا ماں بننا ان کو موت کے منہ میں دکھیلنے کے مترادف نہیں؟ معروف عالم دین جاوید احمد غامدی کے مطابق کم عمری کی شادیاں بچیوں پر ظلم ہیں اور وقت کی اہم ضرورت کے پاکستانی معاشرے کے مطابق اس پر مکمل قانون سازی کی جائے اور کم عمر بچیوں کو تحفظ دیا جائے۔

معتدل حلقوں کی طرف سے یہ آواز پہلے بھی اٹھائی جا چکی ہے کہ عقد یا عقد ثانی کے شوقین کسی عمر رسیدہ کنواری خاتون، بیوہ یا مطلقہ سے شادی کیوں نہیں کرتے۔ اگر شادی یا جلد شادی سے بے راہ روی ختم کرنا مقصود ہے تو یہ شادیاں بچوں کی نہیں بلکے بالغ اور درمیانی عمر کے لوگوں کی کروائی جائیں جو کسی بھی وجہ سے شادی کے بندھن سے محروم ہیں۔ رہی بات بچوں کی تو آج کے دور میں اچھی خوراک اور جسمانی طور پر قوت معدافعت زیادہ ہونے پر بچیاں جلد بالغ ہوجاتی ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ان تولیدی اعضاء بھی اس قدر مضبوط ہوگیے ہیں کہ اگے آنے والی نسلوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ بچوں کی پیدائش، ناقص غذا، گھریلو کام کی زیادتی کی وجہ سے یہ جسمانی امراض جیسے فیسٹولا، بچہ دانی کے کینسر، ہڈیوں میں کیلشیم کی کمی کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کا بھی شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ بچیاں تعلیم کی کمی، غربت کے باعث مانع حمل ادویات بھی استعمال سے آگاہ نہیں ہوتی اور ہر سال بچے کی پیدائش ان کو موت کے منہ میں لیے جاتی ہے،اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بچوں کو شادیوں سے نکل کر کچھ اس حوالے سے بھی سوچنا چاہیے کہ 16 سال سے کم عمر کی بچی کی شادی درحقیت اس کے لیے نئی زندگی اور خوشیوں کا نہیں بلکے موت کا پروانہ ہے۔ جب 16 سال سے کم عمر بچے کو بچہ اور نا سمجھ گردانتے ہوئے ان کا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا، نہ ہی ان کا ڈرائیونگ لائیسنس بن سکتا ہے تو پھر بچہ پرشادی جیسی بڑی ذمہ داری کا بوجھ کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟

جویریہ صدیق
قرون اولیٰ میں سیدہ عائشہؓ بنت ابی بکرؓ، فاطمہؓ بن محمدﷺ، حفصہؓ بنت عمرؓ، ام کلثوم بنت علیؓ ودیگر بہت ساری خواتین کی شادی کم عمری میں ہوئی۔ اول الذکر تینوں کی شادی میں اللہ رب العٰلمین کی مرضی شامل تھی کیونکہ وہ شادیاں خود نبی کریمﷺ نے کی ہیں یا کرائی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ آپﷺ کے تمام اعمال اللہ رب العٰلمین کی نگرانی میں سر انجام پاتے ہیں۔

کیا ان حضرات کو اللہ تعالیٰ سے بھی زیادہ ان کی مخلوق کو جاننے کا دعویٰ ہے؟! (عیاذا باللہ!)

کیا یہ حضرات ارحم الرّاحمین سے بھی زیادہ ان کی مخلوق پر رحم کرنے والے ہیں؟! (معاذ اللہ!

کیا ان پاکپاز خواتین کے اولیاء اور ان کے انتہائی جلیل القدر شوہر حضرات ان خواتین پر ظلم کرنے والے اور ان کی زندگی وصحت سے کھیلنے والے تھے؟! (اللہ معاف فرمائیں!)

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
جزاک اللہ خیرا انس بھائی۔
اس میں کوئی شک نہی کہ اسلامی قوانین اٹل ھیں اور کم عمری کی شادی کسی لحاظ سے قابل گرفت نہی ھونا چاھیے۔ مگر ایک سوال میرے ذہن میں ھے کے آج کے دور میں کم عمری کی شادی کی مثالیں صرف" وٹہ سٹہ، ونی اور رقم لے کر بچی کو نکاح میں دینا " میں ہی نظر آتی ھیں۔
اگر قرب و جوار میں دینی گھرانے سمجھے جانے والے (عرف عام میں بات کر رہا ھوں) خاندانوں کو ھی دیکھا جائے تو شاید ھی اس کی مثال ملے کہ کسی نے اپنی بچی کی شادی کم عمری میں (دس سے بارہ سال ) کی ھو۔
تو ان حالات میں میرے جیسا قاری یہ ضرور سوچتا ھے کہ ایسی مثالیں سامنے نہ آنے میں کونسی مصلحت پوشیدہ ھے؟ اور اس کا بھی انکار نہی کہ اسلامی قوانین جتنے علماء کے لیے ضروری ھیں اتنے ھی عام مسلمانوں کے لیے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاک اللہ خیرا انس بھائی۔
اس میں کوئی شک نہی کہ اسلامی قوانین اٹل ھیں اور کم عمری کی شادی کسی لحاظ سے قابل گرفت نہی ھونا چاھیے۔ مگر ایک سوال میرے ذہن میں ھے کے آج کے دور میں کم عمری کی شادی کی مثالیں صرف" وٹہ سٹہ، ونی اور رقم لے کر بچی کو نکاح میں دینا " میں ہی نظر آتی ھیں۔
اگر قرب و جوار میں دینی گھرانے سمجھے جانے والے (عرف عام میں بات کر رہا ھوں) خاندانوں کو ھی دیکھا جائے تو شاید ھی اس کی مثال ملے کہ کسی نے اپنی بچی کی شادی کم عمری میں (دس سے بارہ سال ) کی ھو۔
تو ان حالات میں میرے جیسا قاری یہ ضرور سوچتا ھے کہ ایسی مثالیں سامنے نہ آنے میں کونسی مصلحت پوشیدہ ھے؟ اور اس کا بھی انکار نہی کہ اسلامی قوانین جتنے علماء کے لیے ضروری ھیں اتنے ھی عام مسلمانوں کے لیے۔
عزیز بھائی! پہلے ایمان ہوتا ہے پھر عمل!

اسلامی کہلانے والے ملک کے صوبہ سندھ میں تو اللہ سے ٹکر لے کر نظریاتی طور پر ہی اس کے خلاف قانون بنا دیا گیا ہے۔

ایک مسلمان خواہ وہ عالم ہو یا عامی اسے اسلامی احکامات کو دل سے تسلیم کرنا چاہئے، اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے۔ اور اگر ایسی کوئی ضرورت ہو تو اسے عمل کرنے بھی ہچکچانا نہ چاہئے۔

جہاں تک آپ یہ کہنا ہے کہ آج علماء اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟

اولاً: قرونِ اولیٰ میں بھی یہ نہیں تھا کہ ہر لڑکی کی شادی ہی چھوٹی عمر میں کر دی جاتی تھی بلکہ اس کی اکّا دُکّا مثالیں موجود ہیں۔ ان ایک دو مثالوں سے اصول تو ثابت ہوجاتا ہے کہ لیکن یہ سمجھنا کہ ’’اب ہر شخص کیلئے یہ لازمی ہوگیا ہے۔‘‘ شائد اس کی تائید کوئی ذی شعور نہ کرے گا۔ البتہ اس اصول کی مخالفت اور اس کے خلاف قانون بنانا نئی شریعت گھڑنا ہے۔

ثانیا: ابھی بھی لوگ موجود ہیں جو ضرورت پڑنے پر اس پر عمل کرتے ہیں۔ مثلاً میرے خاندان میں ہی پچھلے دنوں ایک لڑکی کی شادی پندرہ سولہ سال سے کم عمر میں ہوئی ہے۔ دیگر لوگ بھی ہیں جو ناجائز رسوم ورواج (وٹہ سٹہ، ونی وغیرہ) کے علاوہ بھی اس پر عمل کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
جزاک اللہ خیرا۔
اولاً: قرونِ اولیٰ میں بھی یہ نہیں تھا کہ ہر لڑکی کی شادی ہی چھوٹی عمر میں کر دی جاتی تھی بلکہ اس کی اکّا دُکّا مثالیں موجود ہیں۔ ان ایک دو مثالوں سے اصول تو ثابت ہوجاتا ہے کہ لیکن یہ سمجھنا کہ ''اب ہر شخص کیلئے یہ لازمی ہوگیا ہے۔'' شائد اس کی تائید کوئی ذی شعور نہ کرے گا۔ البتہ اس اصول کی مخالفت اور اس کے خلاف قانون بنانا نئی شریعت گھڑنا ہے۔
میرے دل میں جو اک اندیشہ تھا تو وہ ختم ھو گیا ھے۔ الحمد اللہ

اسلامی اصول سے ھٹ کے، جو مروجہ رسمیں ھیں جیسے وٹہ سٹہ ، ونی، رقم لے کر نکاح کرنا ،کیا ان کی روک تھام کے لیے شریعیت کوئی اصول وضع کرتی ھے؟ کیونکہ انھی رسومات کو لے کر مخالفین اسلامی قوانین پر براہ راست حملے کرتے ھیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

میری فیملی میں ایک عالم فاضل تھے جو اب رخصت ہو چکے ہیں انہوں نے اپنی ایک بیٹی کی شادی 14 سال کی عمر میں کی تھی وٹہ سٹہ کے زبردست پریشر میں مجبوری کے تحت مگر نکاح نامہ میں عمر 18 سال لکھوائی گئی تھی۔

والسلام
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاک اللہ خیرا۔

میرے دل میں جو اک اندیشہ تھا تو وہ ختم ھو گیا ھے۔ الحمد اللہ

اسلامی اصول سے ھٹ کے، جو مروجہ رسمیں ھیں جیسے وٹہ سٹہ ، ونی، رقم لے کر نکاح کرنا ،کیا ان کی روک تھام کے لیے شریعیت کوئی اصول وضع کرتی ھے؟ کیونکہ انھی رسومات کو لے کر مخالفین اسلامی قوانین پر براہ راست حملے کرتے ھیں۔
http://magazine.mohaddis.com/shumara/145-mar,2013/1971-shad-bayah-rasoom-rawaj
http://kitabosunnat.com/kutub-library/musalmano-main-hinduwana-rusoom-riwaj.html
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
پہلی گزارش :
یہ کم عمری کی شادی والا معاملہ سندھ کی طرف سے اٹھا ہے ۔ یہ فیصلہ غلط ہے یا صحیح ہے ؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس جگہ یہ قانون لاگو کیا گیا ہے وہاں صورت حال کیا ہے ؟
اہل سندھ کے طور طریقہ سے مجھے براہ راست واقفیت نہیں لیکن جو کچھ معلومات ملی ہیں ان کے مطابق لگتا ہے کہ پیسے اور قوت و طاقت کے زور پر بڑے بڑے وحشی درندے معصوم کونپلوں کو روند کر رکھ دیتے ہیں ۔ اس طرح کے حالات کو قابو کرنے کا میری نظر میں یہ مناسب طریقہ ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ شرعی اعتبار سے اس کو ناجائز قرار دینا یا نصوص شریعت کو توڑ مروڑ کا پیش کرنا یہ واقعتا غلط ہے لیکن
حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر حاکم وقت کوئی انتظامی فیصلہ کرتا ہے ، تواس میں کیا حرج ہے ۔؟
دوسری بات :
معصوم بچیوں کو ظلم سے بچانے کے لیے حکومت نے یہ قانوں تو پاس کردیا ہے لیکن جو حیوان بلا کسی شادی وادی کے سب کچھ کرتے پھرتے ہیں ، ان کو کس حد تک کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے ؟
انسانی حقوق کی تنظیموں کو بچیوں پر ہونے والا یہ ظلم تو نظر آگیا ہے لیکن دوسری طرف کیونکہ آنکھیں نہیں کھلتیں ؟
ایک بات پر صرف اس لیے تنقید کی جاری ہے کہ اسلام نے اس کی اجازت دے رکھی ہے جبکہ دوسری طرف صرف اس لیے تنقید نہیں کہ اہل مغرب کے چیلے چمٹے اس بے راہ روی کو روشن خیالی کا نام دیتے ہیں ؟
جنسی تعلیم کے نام پر بچوں اور بچیوں کی گفتار و کردار کا جنازہ نکالنے والے اپنے خلاف کوئی قانوں کیوں پاس نہیں کرتے ؟
یہ دوہرے معیار اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ ان طنزیموں کو نہ اسلامیات کی کوئی فکر ہے نہ اخلاقیات کا کوئی پاس ، ان کا ہدف صرف اور صرف ’’ روشن خیال ‘‘ بننا اور بنانا ہے ۔
کبھی کبھی ذہن میں آتا ہے کہ :
یہ ’’ روشن خیالیے ‘‘ شادیوں پر پابندی لگا کر شاید دبے لفظوں میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور تم ابھی تک شادی کے چکروں میں پڑے ہوئے ہو ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
پہلی گزارش :
یہ کم عمری کی شادی والا معاملہ سندھ کی طرف سے اٹھا ہے ۔ یہ فیصلہ غلط ہے یا صحیح ہے ؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس جگہ یہ قانون لاگو کیا گیا ہے وہاں صورت حال کیا ہے؟
اہل سندھ کے طور طریقہ سے مجھے براہ راست واقفیت نہیں لیکن جو کچھ معلومات ملی ہیں ان کے مطابق لگتا ہے کہ پیسے اور قوت و طاقت کے زور پر بڑے بڑے وحشی درندے معصوم کونپلوں کو روند کر رکھ دیتے ہیں ۔ اس طرح کے حالات کو قابو کرنے کا میری نظر میں یہ مناسب طریقہ ہے ۔


یہ ٹھیک ہے کہ شرعی اعتبار سے اس کو ناجائز قرار دینا یا نصوص شریعت کو توڑ مروڑ کا پیش کرنا یہ واقعتا غلط ہے لیکن
حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر حاکم وقت کوئی انتظامی فیصلہ کرتا ہے ، تواس میں کیا حرج ہے

۔؟
خضر بھائی! ان زیادتیوں کی روک تھام کیلئے حل یہ ہے اسلام کا نظام حدود وتعزیرات کو کما حقہ نافذ کیا جائے، کوئی جرم ہو تو بلا امتیاز ہر ایک کو فوری انصاف بہم پہنچایا جائے۔ قاتلوں، ڈاکوں، تیزاب پھینکنے والوں کو چند دنوں میں فیصلہ کر کے چوراہوں پر لٹکایا جائے۔ ان رسومات (وٹہ سٹہ، ونی وغیرہ) پر پابندی لگائی اور ان کے مرتکب افراد کو فوری طور پر کڑی سزائیں دی جائیں تب ہی یہ جرم ختم ہو سکتے ہیں۔ لیکن نئی اور من مانی شریعت سازی کر کے اللہ کے خلاف قوانین بنا کر یہ جرم کبھی ختم نہیں کیے جا سکتے۔

ولكم في القصاص حياة يأولي الألباب لعلكم تتقون

جہاں تک اسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ خلفائے راشدین کے سیاسی وانتظامی فیصلوں کی طرح حاکم کا انتظامی یا سیاسی اختیار قرار دینا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ قیاس مع الفارق ہے۔ کیونکہ

1۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں سے ہیں، اور اللہ رب العٰلمین نے ہمیں نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدین کے سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا ہے۔

2۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کتاب وسنت کے شیدائی، ان پر جان قربان کرنے والے، امت کے اعلم ترین اور افضل ترین مجتہدین میں سے تھے، کتاب وسنت اور اس کی گہرائیوں سے واقف تھے، ان کا اجتہاد ایک معنیٰ اور ایک اہمیت رکھتا ہے۔ جبکہ ہمارے حکمران ؍ پارلیمنٹرین - الا ما شاء اللہ - کتاب وسنت سے الرجک ہیں، اسلام اور اس کی سزاؤں کو وحشیانہ اور فرسودہ قرار دیتے ہیں، جو سورۂ فاتحہ یا اخلاص یا کلمہ ہی صحیح نہیں پڑھ سکتے۔ سود وشراب وجوا اور فحاشی کو فروغ دینے والے، موسیقی اور باجوں کے اتنے دلدادہ کہ اذان کو بھی اذان بجنا کہتے ہیں انہیں یہ اس قسم کے اجتہاد اور سیاسی وانتظامی اختیارات کیسے دئیے جا سکتے ہیں؟؟

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یہ کم عمری کی شادی والا معاملہ سندھ کی طرف سے اٹھا ہے ۔ یہ فیصلہ غلط ہے یا صحیح ہے ؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس جگہ یہ قانون لاگو کیا گیا ہے وہاں صورت حال کیا ہے ؟
اہل سندھ کے طور طریقہ سے مجھے براہ راست واقفیت نہیں لیکن جو کچھ معلومات ملی ہیں ان کے مطابق لگتا ہے کہ پیسے اور قوت و طاقت کے زور پر بڑے بڑے وحشی درندے معصوم کونپلوں کو روند کر رکھ دیتے ہیں ۔
محترم بھائی میرے خیال میں آپ کو اپنی اوپر ہائیلائٹ کردہ بات کی تھوڑی سی وضاحت ہو جانی چاہئے تاکہ لوگوں کو اشکال نہ رہے
اس ہائیلائٹ کردہ عبارت ظلم ہونے کے نکلنے والے تین مفہوم میں نیچے لکھ رہا ہوں اور اسکو اس نئے قانون سے لنک کر رہا ہوں آپ اسکی اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا

1-آپ ان درندوں کی بات کر رہے ہیں جو بغیر شادی کے ہی معصوم چھوٹی بچیوں کو روندتے ہیں
2-آپ ان درندوں کی بات کر رہے ہیں جو صرف پیسے اور قوت کے زور پر اگلے فریق کی رضامندی کے بغیر انکی معصوم بچیوں کو روند کر رکھ دیتے ہیں
3-آپ انکو درندہ کہ رہے ہیں جو پیسے اور قوت کے زور کے باوجود اگلے فریق کی رضامندی کے ساتھ انکی معصوم بچیوں سے نکاح کر لیتے ہیں

ان کو اب نئے قانون سے لنک کرتے ہیں
-پہلی نمبر والوں کے لئے یہ قانون بنانے کا کوئی فائدہ نہیں
-دوسرے نمبر والے میرے خیال میں شاہد ہی کوئی ہوں کیونکہ جو اتنی طاقت والے اور زور والے ہوتے ہیں وہ پھر کسی کی بچی کو جب انکی رضامندی کے بغیر ہی اٹھا لیتے ہیں تو انکو نکاح کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو قانون ان سے کیسے پوچھ سکتا ہے جب اس قانون سے پہلے بنایا گیا قانون ان سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ کسی کو سکی مرضی کے بغیر نہیں اٹھا سکتے یعنی جو پہلے سے موجود قانون ہے اس میں تو اتنی طاقت نہیں کہ ان سے پوچھ سکے مگر یہ نیا قانون انکو مجبور کر دے گا کہ وہ لازمی کسی کے ساتھ زیادتی نہ کریں
-تیسرے نمبر والے کے لئے تو درندہ کہنا ہی غلط ہے چاہے کوئی بوڑھا کسی معصوم بچی سے نکاح کر رہا ہو یہی تو ہم سیرت سے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں تو سندھ والوں کو اسکی اجازت کیوں نہ دیں
آج کل یہ موضؤع چل رہا ہے تو یہاں فورم پہ یہ دھاگہ دیکھا تو کچھ اشکال ذہن میں آئے سوچا آپ کے سامنے رکھ دوں
 
Top