کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
کم عمری کی شادی اور صحت کے مسائل
ہم اس سے قبل بھی بچوں کی شادیوں کے حوالے سے جنگ بلاگز پر بات کر چکے ہیں اور 29 جنوری کو یہ بلاگ کم عمری میں شادی کا رواج کیوں؟ کے نام سے شائع ہو چکا ہے لیکن اس موضوع کو اور تقویت اس وقت ملی جب اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سربراہ مولانا شیرانی کی طرف یہ بیان سامنے آیا کہ پاکستانی عائلی قوانین میں تبدیلی کی جائے جن کے مطابق کم عمری کی شادی پر پابندی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ غیر اسلامی ہے اور اسلام میں کم عمری کی شادی کی معانعت نہیں۔ مولانا شیرانی کے مطابق نکاح کے لیے کم سے کم کوئی عمر نہیں مقرر کی جا سکتی لیکن رخصتی کیلئے بلوغت کا ہونا لازمی ہے۔ نیز یہ کے اسلامی نظریاتی کونسل اس قانون میں ترمیم کی شفارش کرتی ہے جس کے تحت پاکستان میں شادی کے لیے کم سے کم عمر لڑکی کے لیے سولہ سال اور لڑکے کے لیے اٹھارہ سال ہے۔
مسلم عائلی قوانین میں مجریہ 1965ء پاکستان میں مسلمانوں کی شادی سے متعلق سب سے اہم قانون ہے، یہ قانون 1961ء میں آرڈیننس کی صورت میں نافذ ہوا تھا۔ جس کے تحت شادی ایک شرعی اور قانونی معاہدہ ہے جس کے لیے بغیر کسی جبر، دھوکے کے بنا ایجاب و قبول ضروری ہے۔ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی، نکاح کے وقت لڑکی کے حسب منشاء مہر کا تعین، دو گواہان کے دستخط اور نکاح نامے کا اندارج کروانا ضروری ہے۔ بات ہو اگر بندش بچگانہ شادی ایکٹ کی تو یہ قانون 1929ء میں انگریز دور میں بنایا گیا اور چند ترامیم کے بعد اس کو پاکستانی قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس قانون کے تحت 16 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی قابل سزا جرم ہے اور کم عمری کی شادی کروانے والوں کو ایک مہینے کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا ہے، تاہم شادی کو فسخ نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس صورتحال پر بہت سے قلم کار اور بچوں کی حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں آواز اٹھا رہی ہیں کہ اس قانون میں مزید ترامیم کی ضرورت ہے اور بچوں کی کم عمری میں شادی پر پابندی لگائی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کم عمری میں شادی کرنے سے کیا مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کی بڑی وجہ فرسودہ رسومات ہیں جن میں ونی، سوارہ، وٹا سٹہ شامل ہے۔ بہت سی بچیوں کی شادیاں خون بہا، قصاص یا صلح کے بدلے میں کر دی جاتی ہیں۔ کچھ غریب ماں باپ اپنی کم سن بیٹیاں غربت کے باعث بوڑھے آدمیوں کو بیاہ دیتے ہیں اس کے عوض انہیں رقم ملتی ہے یعنی وہ اپنی بیٹیاں بیچ دیتے ہیں۔ پاکستان میں کم عمری کی شادیاں زیادہ تر مرد اپنی تسکین کے لیے بھی کرتے ہیں ایک بیوی کے عمر رسیدہ ہوتے ہی کم عمر بیوی کا خواب۔ ان شادیوں کے پیچھے ہرگز بھی اسلامی تعلیمات کار فرما نہیں کہ بچوں کی شادیاں جلد کی جائیں تاکہ وہ بے راہ روی سے بچ سکیں، پاکستان میں کم عمر بچیوں سے شادی کی بڑی وجہ صرف ذاتی خواہشات ہیں۔ اسلام یہ کبھی نہی کہتا کہ دو بچوں کی شادیاں آپس میں کر دی جائیں یا کسی بچے کی شادی کسی عمر رسیدہ انسان سے کر دی جائے۔ اسلام میں شادی دو بالغ افراد کے درمیان شرعی اور قانونی رشتہ ہے جس میں دونوں فریقین کی رضا مندی ہونا ضروری ہے۔
اب ایک شادی میں دوسرے فریق کو اتنی سمجھ ہی نہیں اس کی رضامندی ہی نہیں تو نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟ کم عمری کی شادی کسی بھی لڑکی سے اس کا بچپن چھین لیتی ہے، اس کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے، یہ شادی اس کی صحت کو خطرات لاحق کر دیتی ہے۔ کم عمری میں زچگی کے باعث بہت سی بچیاں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
اس ہی حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے بچگانہ شادیوں کے خلاف موجود قانون چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا ہے تاکہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے اور دو سال قید بامشقت یا پھر دونوں سزائیں ساتھ دی جائیں۔ ماروی میمن کے مطابق اس بل کو لانے کا مقصد کم عمری کی شادی حوصلہ شکنی ہے اور دوران زچگی کم عمر بچیوں کی اموات میں کمی لانا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور جے یو آیی نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل غیر اسلامی ہے اور بچے کا نکاح کسی بھی عمر میں کیا جا سکتا ہے لیکن ماروی میمن کے مطابق کیا کم عمری میں بچیوں کا ماں بننا ان کو موت کے منہ میں دکھیلنے کے مترادف نہیں؟ معروف عالم دین جاوید احمد غامدی کے مطابق کم عمری کی شادیاں بچیوں پر ظلم ہیں اور وقت کی اہم ضرورت کے پاکستانی معاشرے کے مطابق اس پر مکمل قانون سازی کی جائے اور کم عمر بچیوں کو تحفظ دیا جائے۔
معتدل حلقوں کی طرف سے یہ آواز پہلے بھی اٹھائی جا چکی ہے کہ عقد یا عقد ثانی کے شوقین کسی عمر رسیدہ کنواری خاتون، بیوہ یا مطلقہ سے شادی کیوں نہیں کرتے۔ اگر شادی یا جلد شادی سے بے راہ روی ختم کرنا مقصود ہے تو یہ شادیاں بچوں کی نہیں بلکے بالغ اور درمیانی عمر کے لوگوں کی کروائی جائیں جو کسی بھی وجہ سے شادی کے بندھن سے محروم ہیں۔ رہی بات بچوں کی تو آج کے دور میں اچھی خوراک اور جسمانی طور پر قوت معدافعت زیادہ ہونے پر بچیاں جلد بالغ ہوجاتی ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ان تولیدی اعضاء بھی اس قدر مضبوط ہوگیے ہیں کہ اگے آنے والی نسلوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ بچوں کی پیدائش، ناقص غذا، گھریلو کام کی زیادتی کی وجہ سے یہ جسمانی امراض جیسے فیسٹولا، بچہ دانی کے کینسر، ہڈیوں میں کیلشیم کی کمی کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کا بھی شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ بچیاں تعلیم کی کمی، غربت کے باعث مانع حمل ادویات بھی استعمال سے آگاہ نہیں ہوتی اور ہر سال بچے کی پیدائش ان کو موت کے منہ میں لیے جاتی ہے،اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بچوں کو شادیوں سے نکل کر کچھ اس حوالے سے بھی سوچنا چاہیے کہ 16 سال سے کم عمر کی بچی کی شادی درحقیت اس کے لیے نئی زندگی اور خوشیوں کا نہیں بلکے موت کا پروانہ ہے۔ جب 16 سال سے کم عمر بچے کو بچہ اور نا سمجھ گردانتے ہوئے ان کا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا، نہ ہی ان کا ڈرائیونگ لائیسنس بن سکتا ہے تو پھر بچہ پرشادی جیسی بڑی ذمہ داری کا بوجھ کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟
جویریہ صدیق