• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجْمِ عَلَى الثَّيِّبِ
۸-باب: شادی شدہ کو رجم(سنگسار) کرنے کا بیان​


1433- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ سَمِعَهُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَشِبْلٍ أَنَّهُمْ كَانُوا عِنْدَالنَّبِيِّ ﷺ، فَأَتَاهُ رَجُلاَنِ يَخْتَصِمَانِ، فَقَامَ إِلَيْهِ أَحَدُهُمَا وَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللهَ يَا رَسُولَ اللهِ! لَمَا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللهِ، فَقَالَ خَصْمُهُ وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ: أَجَلْ يَارَسُولَ اللهِ! اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللهِ وَأْذَنْ لِي فَأَتَكَلَّمَ، إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ فَفَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، ثُمَّ لَقِيتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فَزَعَمُوا أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَإِنَّمَا الرَّجْمُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللهِ! الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا! فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا"، فَغَدَا عَلَيْهَا فَاعْتَرَفَتْ، فَرَجَمَهَا.
* تخريج: خ/الوکالۃ ۱۳ (۲۳۱۴)، والصلح ۵ (۲۶۵۵)، والشروط ۹ (۲۷۲۴)، والأیمان والنذور ۳ (۶۶۳۳)، والحدود ۳۰ (۶۸۲۷)، و ۳۴ (۶۸۳۵)، و۴۶ (۶۸۶۰)، والأحکام ۴۳ (۷۱۹۳)، وخبر الآحاد ۱ (۷۲۵۸)، م/الحدود۵ (۱۶۹۷)، د/الحدود ۲۵ (۴۴۴۵)، ن/آداب القضاۃ ۲۲ (۵۴۱۲)، ق/الحدود ۷ (۲۵۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۵۵، و ۴۸۱۴، ۱۴۱۰۶)، وط/الحدود ۱ (۶)، وحم (۴/۱۱۵، ۱۱۶)، دي/الحدود ۱۲ (۲۳۶۳) (صحیح)
1433/م1- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
1433/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ بِمَعْنَاهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَهَزَّالٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَسَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ، وَأَبِي بَرْزَةَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَمَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَوْا بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "إِذَا زَنَتِ الأَمَةُ فَاجْلِدُوهَا، فَإِنْ زَنَتْ فِي الرَّابِعَةِ فَبِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ"، وَرَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَشِبْلٍ قَالُوا: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ. هَكَذَا رَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَشِبْلٍ، وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَهِمَ فِيهِ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ أَدْخَلَ حَدِيثًا فِي حَدِيثٍ، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِذَا زَنَتِ الأَمَةُ فَاجْلِدُوهَا"، وَالزُّهْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ شِبْلِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَالِكٍ الأَوْسِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِذَا زَنَتِ الأَمَةُ"، وَهَذَا الصَّحِيحُ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَشِبْلُ بْنُ خَالِدٍ لَمْ يُدْرِكِ النَّبِيَّ ﷺ إِنَّمَا رَوَى شِبْلٌ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَالِكٍ الأَوْسِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَهَذَا الصَّحِيحُ، وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ شِبْلُ بْنُ حَامِدٍ وَهُوَ خَطَأٌ، إِنَّمَا هُوَ شِبْلُ بْنُ خَالِدٍ وَيُقَالُ أَيْضًا شِبْلُ بْنُ خُلَيْدٍ.
* تخريج : انظر رقم : ۱۴۳۳ (صحیح)
۱۴۳۳- ابوہریرہ ، زیدبن خالد اورشبل رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ لوگ نبی اکرمﷺ کے پاس موجودتھے، اسی دوران آپ کے پاس جھگڑتے ہوئے دوآدمی آئے ، ان میں سے ایک کھڑا ہوااور بولا: اللہ کے رسول ! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتاہوں! آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے (یہ سن کر) مدعی علیہ نے کہا اور وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا، ہاں، اللہ کے رسول! ہمارے درمیان آپ کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے ،اور مجھے مدعابیان کرنے کی اجازت دیجئے، (چنانچہ اس نے بیان کیا) میرا لڑ کااس کے پاس مزدور تھا ، چنانچہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ زناکر بیٹھا ۱؎ ، لوگوں(یعنی بعض علماء) نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم واجب ہے، لہذا میں نے اس کی طرف سے سوبکری اور ایک خادم فدیہ میں دے دی، پھر میری ملاقات کچھ اہل علم سے ہوئی تو ان لوگوں نے کہا: میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی واجب ہے۲؎ ، اور اس کی بیوی پر رجم واجب ہے۳؎ ، (یہ سن کر) نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق ہی فیصلہ کروں گا، سوبکری اورخادم تمہیں واپس مل جائیں گے، (اور) تمہارے بیٹے کو سوکوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے اسے شہر بدر کیاجائے گا، انیس! ۴؎ تم اس کی بیوی کے پاس جاؤ ، اگروہ زنا کا اعتراف کرلے تو اسے رجم کردو''، چنانچہ انیس اس کے گھر گئے ، اس نے اقبال جرم کر لیا، لہذا انہو ں نے اسے رجم کردیا ۵؎ ۔
۱۴۳۳/م۱- اس سند سے ابوہریرہ اورزیدبن خالد جہنی سے، اسی جیسی اسی معنی کی حدیث نبی اکرمﷺ سے روایت ہے۔
۱۴۳۳/م۲- ا س سند سے بھی مالک کی سابقہ حدیث جیسی اسی معنی کی حدیث روایت ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ اورزید بن خالد کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح مالک بن انس، معمراورکئی لوگوں نے بطریق: ''الزهري، عن عبيد الله بن عتبة، عن أبي هريرة و زيد بن خالد، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے، ۳- کچھ اور لوگوں نے بھی اسی سند سے ۶؎ نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے ، اس میں ہے کہ ''جب لونڈی زنا کرے تواسے کوڑے لگاؤ ، پھراگر چوتھی مرتبہ زنا کرے تو اسے بیچ دو، خواہ قیمت میں گندھے ہوئے بالوں کی رسی ہی کیوں نہ ملے''، ۴- اورسفیان بن عیینہ زہری سے ، زہری عبیداللہ سے ، عبید اللہ ابوہریرہ ، زید بن خالد اورشبل سے روایت کرتے ہیں، ان لوگوں نے کہا: ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے پاس موجودتھے، ۵- ابن عیینہ نے اسی طرح دونوں حدیثوں کو ابوہریرہ، زیدبن خالد اورشبل سے روایت کیا ہے ، ابن عیینہ کی حدیث میں سفیان بن عیینہ سے وہم ہواہے، انہوں نے ایک حدیث کو دوسری حدیث کے ساتھ خلط ملط کردیا ہے،صحیح وہ حدیث ہے جسے محمد بن ولید زبیدی ، یونس بن عبید اورزہری کے بھتیجے نے زہری سے،زہری نے عبیداللہ سے، عبید اللہ نے ابوہریرہ اور زید بن خالدسے اوران دونوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا: ''جب لونڈی زناکرے تو اسے کوڑے لگاؤ''، ۶- اور زہری نے عبیداللہ سے، عبید اللہ نے شبل بن خالد سے، شبل نے عبداللہ بن مالک اوسی سے اور انہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے ،آپ نے فرمایا:'' جب لونڈی زناکرے''، ۷- اہل حدیث کے نزدیک (شبل کی روایت بواسطہ عبداللہ بن مالک) یہی صحیح ہے،کیونکہ شبل بن خالد نے نبی اکرمﷺ کونہیں پایا ہے ،بلکہ شبل،عبداللہ بن مالک اوسی سے اوروہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں، یہی صحیح ہے اور ابن عیینہ کی حدیث غیرمحفوظ ہے ،کیونکہ انہوں نے اپنی روایت میں'' شبل بن حامد'' کہا ہے، یہ غلط ہے، صحیح '' شبل بن خالد'' ہے اورانہیں '' شبل بن خلید''بھی کہاجاتاہے،۸- اس باب میں ابوبکرہ ، عبادہ بن صامت ، ابوہریرہ ، ابوسعید ، ابن عباس، جابربن سمرہ ، ہزال ، بریدہ، سلمہ بن محبق ، ابوبرزہ اورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس لڑکے کا کام صرف اپنے مالک کے کاموں اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہی نہیں تھا بلکہ وہ مالک کی اجازت سے اس کی بیوی کے کاموں میں بھی معاون تھا، چنانچہ اس کے ساتھ جو یہ حادثہ پیش آیا اس کا سبب یہی تھا۔ اس لیے تنہائی میں عورت کے پاس غیر محرم مرد کا دخول منع ہے۔
وضاحت ۲؎ : کیوں کہ یہ غیر شادی شدہ ہے۔
وضاحت ۳؎ : کیوں کہ یہ شادی شدہ ہے۔
وضاحت ۴؎ : یہ انیس بن ضحاک اسلمی ہیں۔
وضاحت ۵؎ : عورت چونکہ شادی شدہ تھی اس لیے اسے پتھر مارمار کر ہلاک کردیا گیا، اور لڑکا شادی شدہ نہیں تھا اس لیے اس کے لیے ایک سال کی جلاوطنی اور سوکوڑوں کی سزا متعین کی گئی۔
وضاحت ۶؎؎ : یعنی شبل کا ذکر کئے بغیر ابوہریرہ اورزید بن خالد کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔


1434- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "خُذُوا عَنِّي فَقَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِيلاً،الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ، ثُمَّ الرَّجْمُ، وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَنَفْيُ سَنَةٍ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَعَبْدُاللهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَغَيْرُهُمْ، قَالُوا: الثَّيِّبُ تُجْلَدُ وَتُرْجَمُ، وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَاقَ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ: أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَغَيْرُهُمَا الثَّيِّبُ إِنَّمَا عَلَيْهِ الرَّجْمُ وَلاَ يُجْلَدُ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلُ هَذَا فِي غَيْرِ حَدِيثٍ فِي قِصَّةِ مَاعِزٍ وَغَيْرِهِ أَنَّهُ أَمَرَ بِالرَّجْمِ وَلَمْ يَأْمُرْ أَنْ يُجْلَدَ قَبْلَ أَنْ يُرْجَمَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ.
* تخريج: م/الحدود ۳ (۱۶۹۰)، د/الحدود ۲۳ (۴۴۱۵)، ق/الحدود ۷ (۲۵۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۸۳)، وحم (۳/۴۷۵)، دي/الحدود ۱۹ (۲۳۷۲) (صحیح)
۱۴۳۴- عبا دہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''( دین خاص طورپر زنا کے احکام ) مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ۱؎ راہ نکال دی ہے : شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ملوث ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے، اورکنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرمﷺ کے بعض اہل علم صحابہ کا اسی پر عمل ہے ، ان میں علی بن ابی طالب، ابی بن کعب اورعبداللہ بن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں: شادی شدہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں گے اوررجم کیا جائے گا ، بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے ، اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے ، ۳-جب کہ صحابہ میں سے بعض اہل علم جن میں ابوبکر اورعمروغیرہ رضی اللہ عنہما شامل ہیں، کہتے ہیں: شادی شدہ زنا کارپر صرف رجم واجب ہے، اسے کوڑے نہیں لگائے جائیں گے، اورنبی اکرمﷺسے اسی طرح دوسری حدیث میں ماعزوغیرہ کے قصہ کے سلسلے میں آئی ہے کہ آپ نے صرف رجم کا حکم دیا، رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا، بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے، سفیان ثوری ، ابن مبارک ، شافعی اوراحمدکا یہی قول ہے ۲؎؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جنہیں زنا کے جرم میں گھروں میں قید رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور اللہ کے حکم کا انتظار کرنے کے لیے کہا گیاتھا ، اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے راہ نکال دی ہے، اس سے اشارہ اس آیت کی طرف ہے{وَاللاَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُواْ عَلَيْهِنَّ أَرْبَعةً مِّنكُمْ فَإِن شَهِدُواْ فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىَ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً} (النساء:15) ( یعنی تمہاری عورتوں میں سے جوبے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو، اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کی موت ان کی عمریں پوری کردے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ نکالے)، یہ ابتدائے اسلام میں بدر کا عورتوں کی وہ عارضی سزا ہے جب زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی۔
وضاحت ۲؎ : جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کایہی قول ہے کہ کوڑے کی سزا اور رجم دونوں اکٹھا نہیں ہو سکتے، کیونکہ قتل کے ساتھ اگر کئی حدود ایک ساتھ جمع ہوجائیں توصرف قتل کافی ہوگا اور باقی حدود ساقط ہوجائیں گی۔ (واللہ اعلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
9- بَاب تَرَبُّصِ الرَّجْمِ بِالْحُبْلَى حَتَّى تَضَعَ
۹-باب: بچہ جننے کے بعد حاملہ کو رجم کرنے کا بیان​


1435- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلِّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ اعْتَرَفَتْ عِنْدَالنَّبِيِّ ﷺ بِالزِّنَا فَقَالَتْ: إِنِّي حُبْلَى، فَدَعَا النَّبِيُّ ﷺ وَلِيَّهَا، فَقَالَ: "أَحْسِنْ إِلَيْهَا، فَإِذَا وَضَعَتْ حَمْلَهَا، فَأَخْبِرْنِي"، فَفَعَلَ فَأَمَرَ بِهَا، فَشُدَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِرَجْمِهَا فَرُجِمَتْ، ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُولَ اللهِ! رَجَمْتَهَا، ثُمَّ تُصَلِّي عَلَيْهَا، فَقَالَ: "لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ وَهَلْ وَجَدْتَ شَيْئًا أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلّهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الحدود ۵ (۱۶۹۶)، د/الحدود ۲۵ (۴۴۴۰)، ن/الجنائز ۶۴ (۱۹۵۹)، ق/الحدود ۹ (۲۵۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۸۱)، وحم (۴/۴۲۰، ۴۳۵، ۴۳۷، ۴۴۰)، دي/الحدود ۱۸ (۲۳۷۱) (صحیح)
۱۴۳۵- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے نبی اکرمﷺ کے پاس زنا کا اقرارکیا، اورعرض کیا: میں حاملہ ہوں، نبی اکرمﷺنے اس کے ولی کوطلب کیا اورفرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک کرو اور جب بچہ جنے تومجھے خبرکرو، چنانچہ اس نے ایساہی کیا،اور پھرآپ نے حکم دیا، چنانچہ اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے ۱؎ پھرآپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ اسے رجم کردیاگیا، پھر آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اسے رجم کیا ہے، پھر اس کی صلاۃ پڑھ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:'' اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگریہ مدینہ کے سترآدمیوں کے درمیان تقسیم کردی جائے توسب کوشامل ہوجائے گی ۲؎ ، عمر!اس سے اچھی کوئی چیز تمہاری نظرمیں ہے کہ اس نے اللہ کے لیے اپنی جان قربان کردی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہوا کہ عورتوں پر حد جاری کرتے وقت ان کے جسم کی سترپوشی کا خیال رکھنا چاہئے۔
وضاحت ۲؎ : مسلمانوں کے دیگر اموات کی طرح جس پر حد جاری ہواس پربھی صلاۃِ جنازہ پڑھی جائے گی،کیونکہ حدکا نفاذ صاحب حد کے لیے باعث کفارہ ہے، اس پر جملہ مسلمانوں کا اتفاق ہے،یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں نبی اکرمﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ سے اس تائبہ کے توبہ کی کیا اہمیت ہے اسے واضح کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ فِي رَجْمِ أَهْلِ الْكِتَابِ
۱۰-باب: اہل کتاب کورجم کرنے کا بیان​


1436- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً.
قَالَ أَبُوعِيسَى : وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۶۰ (۱۳۲۹)، والمناقب ۲۶ (۳۶۳۵)، والحدود ۲۴ (۶۸۱۹)، م/الحدود ۶ (۱۶۹۹)، د/الحدود۲۶ (۴۴۴۶)، ق/الحدود ۱۰ (۲۵۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۴)، وط/الحدود ۱ (۱)، دي/الحدود ۱۵ (۲۳۴۸) (صحیح)
۱۴۳۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ایک یہودی مرد اورایک یہودی عورت کو رجم کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- حدیث میں ایک قصہ کا بھی ذکرہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امام ترمذی نے جس قصہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے: یہود نبی اکرمﷺ کے پاس ایک ایسے مرد اور عورت کو لائے جن سے زنا کا صدور ہوا تھا، اللہ کے رسول نے ان لوگوں سے پوچھا: اس کے متعلق توراۃ میں کیا حکم ہے؟ کیونکہ ہمارے یہاں اس کی سزا رجم ہے، ان لوگوں نے کہا: کوڑے کی سزا ہے، یا چہرے پر کالا پوت کر عوام میں رسوا کیاجاناہے ،عبد اللہ بن سلام نے کہا: تم کذب بیانی سے کام لے رہے ہو، اس میں بھی رجم کا حکم ہے، چنانچہ توراۃ طلب کی گئی ، اسے پڑھا جانے لگا تو پڑھنے والے نے آیت رجم کو چھپا کر اس سے ماقبل اور بعد کی آیات پڑھیں ، پھر عبداللہ بن سلام کے کہنے پر اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو آیت رجم موجود تھی ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں رجم کا حکم دیا۔


1437- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَالْبَرَائِ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَعَبْدِاللهِ بْنِ الْحَارِثِ ابْنِ جَزْئٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا اخْتَصَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ وَتَرَافَعُوا إِلَى حُكَّامِ الْمُسْلِمِينَ حَكَمُوا بَيْنَهُمْ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِأَحْكَامِ الْمُسْلِمِينَ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، وقَالَ بَعْضُهُمْ لاَ يُقَامُ عَلَيْهِمُ الْحَدُّ فِي الزِّنَا، وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: ق/الحدود ۱۰ (۲۵۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۷۵) (صحیح)
(سند میں ''شریک القاضی'' حافظے کے کمزور ہیں ، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے)
۱۴۳۷- جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک یہودی مرداورایک یہودی عورت کو رجم کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، براء، جابر، ابن ابی اوفیٰ ، عبداللہ بن حارث بن جزء اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثراہل علم کا اسی پرعمل ہے، وہ کہتے ہیں: جب اہل کتاب آپس میں جھگڑیں اورمسلم حکمرانوں کے پاس اپنامقدمہ پیش کریں تو ان پر لازم ہے کہ وہ کتاب وسنت اورمسلمانوں کے احکام کے مطابق فیصلہ کریں ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ،۴- بعض لوگ کہتے ہیں: اہل کتاب پرزنا کی حد نہ قائم کی جائے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ یہ قول اس باب کی احادیث کے مطابق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّفْيِ
۱۱-باب: (زانی کو) شہربدرکرنے کا بیان​


1438- حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ وَيَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ضَرَبَ وَغَرَّبَ، وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ ضَرَبَ وَغَرَّبَ، وَأَنَّ عُمَرَ ضَرَبَ وَغَرَّبَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ. قَالَ: أَبُوعِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ إِدْرِيسَ، فَرَفَعُوهُ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ إِدْرِيسَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ ضَرَبَ وَغَرَّبَ، وَأَنَّ عُمَرَ ضَرَبَ وَغَرَّبَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۲۴) (صحیح)
1438/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ.
وَهَكَذَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ رِوَايَةِ ابْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ نَحْوَ هَذَا.
وَهَكَذَا رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ ضَرَبَ وَغَرَّبَ، وَأَنَّ عُمَرَ ضَرَبَ وَغَرَّبَ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ النَّفْيُ رَوَاهُ أَبُوهُرَيْرَةَ وَزَيْدُ بْنُ خَالِدٍ وَعُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ وَغَيْرُهُمْ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِيٌّ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَعَبْدُاللهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَأَبُو ذَرٍّ وَغَيْرُهُمْ، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ فُقَهَائِ التَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج : انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۴۳۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے (غیرشادی شدہ زانی اور زانیہ کو)کوڑے لگائے اورشہربدرکیا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی کوڑے لگایے اورشہربدرکیا، اورعمر رضی اللہ عنہ نے بھی کوڑے لگایے اورشہربدرکیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث غریب ہے،۲- اسے کئی لوگوں نے عبداللہ بن ادریس سے روایت کیا ہے، اوران لوگوں نے اسے مرفوع کیا ہے، (جب کہ) بعض لوگوں نے اس حدیث کو بطریق: ''عبد الله بن ادريس، عن عبيد الله بن عبد الله العمري، عن نافع، عن ابن عمر ''(موقوفاً) روایت کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (غیرشادی شدہ زانی کو) کوڑے لگائے اورشہربدرکیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، ۳- اس باب میں ابوہریرہ ، زیدبن خالداورعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۱۴۳۸/م- ہم سے اسے ابوسعید اشج نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن ادریس نے بیان کیا، نیز اسی طرح یہ حدیث عبداللہ بن ادریس کے علاوہ کئی ایک نے عبیداللہ بن عمر سے روایت کی ہے، اسی طرح اسے محمد بن اسحاق نے نافع سے، نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے (موقوفاً) روایت کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، اور عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، لیکن اس میں ان لوگوں نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ یہ حدیث نبی اکرمﷺ سے آئی ہے،۱- حالانکہ رسول اللہ ﷺ سے مروی شہربدر کرنے کی روایت صحیح ہے،۲- اسے ابوہریرہ ، زیدبن خالد اورعبادہ بن صامت وغیرہ رضی اللہ عنہم نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے، ۳- نبی اکرمﷺ کے صحابہ میں سے بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ان لوگوں میں ابوبکر، عمر، علی، ابی بن کعب ،عبداللہ بن مسعود اورابوذروغیرہم رضی اللہ عنہم شامل ہیں،اسی طرح یہ حدیث کئی تابعین فقہاء سے مروی ہے، سفیان ثوری مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْحُدُودَ كَفَّارَةٌ لأَهْلِهَا
۱۲- باب: حدود کانفاذ سزایافتہ کے گناہوں کا کفارہ ہے​


1439- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَجْلِسٍ، فَقَالَ: "تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لاَتُشْرِكُوا بِاللهِ شَيْئًا، وَلاَ تَسْرِقُوا وَلاَ تَزْنُوا"، قَرَأَ عَلَيْهِمْ الآيَةَ، "فَمَنْ وَفَّى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ عَلَيْهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ، فَهُوَ إِلَى اللهِ، إِنْ شَائَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَائَ غَفَرَ لَهُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللهِ وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، و قَالَ الشَّافِعِيُّ: لَمْ أَسْمَعْ فِي هَذَا الْبَابِ أَنَّ الْحُدُودَ تَكُونُ كَفَّارَةً لأَهْلِهَا شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَأُحِبُّ لِمَنْ أَصَابَ ذَنْبًا فَسَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ أَنْ يَسْتُرَ عَلَى نَفْسِهِ وَيَتُوبَ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّهِ، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ أَنَّهُمَا أَمَرَا رَجُلاً أَنْ يَسْتُرَ عَلَى نَفْسِهِ.
* تخريج: خ/الإیمان ۱۱ (۱۸)، ومناقب الأنصار ۴۳ (۳۸۹۲)، وتفسیر الممتحنۃ ۳ (۴۸۹۴)، والحدود ۸ (۶۷۸۴)، و۱۴ (۶۸۰۱)، والدیات ۲ (۶۸۷۳)، والأحکام ۴۹ (۷۲۱۳)، والتوحید ۳۱ (۷۴۶۸)، م/الحدود ۱۰ (۱۷۰۹)، ن/البیعۃ ۹ (۴۱۶۶)، و۱۷ (۴۱۸۳)، و۳۸ (۴۲۱۵)، والإیمان ۱۴ (۵۰۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۹۴)، وحم (۵/۳۱۴، ۳۲۱، ۳۳۳) (صحیح)
۱۴۳۹- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک مجلس میں موجودتھے، آپ نے فرمایا: ''ہم سے اس بات پر بیعت کروکہ تم اللہ کے ساتھ شرک نہ کروگے، چوری نہ کروگے اورزنانہ کروگے، پھر آپ نے ان کے سامنے آیت پڑھی ۱؎ اورفرمایا: جو اس اقرارکوپوراکرے گااس کا اجراللہ کے ذمہ ہے اورجو ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہوا پھراس پر حدقائم ہوگئی تویہ اس کے لیے کفارہ ہوجائے گا ۲؎ ، اورجس نے کوئی گناہ کیا اوراللہ نے اس پر پردہ ڈال دیاتو وہ اللہ کے اختیارمیں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اورچاہے تو اسے بخش دے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- امام شافعی کہتے ہیں: میں نے اس باب میں اس حدیث سے اچھی کوئی چیزنہیں سنی کہ حدوداصحاب حدودکے لیے کفارہ ہیں ،۳- شافعی کہتے ہیں: میں چاہتاہوں کہ جب کوئی گناہ کرے اوراللہ اس پرپردہ ڈال دے تووہ خوداپنے اوپرپردہ ڈال لے اوراپنے اس گناہ کی ایسی توبہ کرے کہ اسے اور اس کے رب کے سوا کسی کو اس کا علم نہ ہو ،۴- ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کوحکم دیا کہ و ہ اپنے اوپرپردہ ڈال لے،۵- اس باب میں علی ، جریربن عبداللہ اورخزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ آیت کس سورہ کی تھی ؟ اس سلسلہ میں بصراحت کسی صحابی سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے،کیونکہ شرک باللہ،چوری اور زنانہ کرنے کی صورت میں پورا پورا اجر ملنے کا ذکر قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں ہے اور یہ کہنا کہ فلاں سورہ کی فلاں آیت ہی مقصود ہے تو اس کے ثبوت کے لیے کسی صحابی سے اس کی تصریح ضروری ہے۔ اکثر علماء نے اس آیت سے مراد سورۃ ممتحنہ کی آیت رقم ۱۲ مراد لیاہے، جو یہ ہے {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَائكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ } إلى آخره.
وضاحت ۲؎ : اس حدیث میں جو یہ عموم پایا جارہاہے کہ جوان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہو پھر اس پر حد قائم ہو تو یہ حد اس کے لیے کفارہ ہے تو یہ عموم آیت کریمہ: {إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء} (النساء:116)سے خاص ہے، لہذا ارتداد کی بنا پر اگر کسی کا قتل ہوا تو یہ قتل اس کے لیے باعث کفارہ نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي إِقَامَةِ الْحَدِّ عَلَى الإِمَائِ
۱۳-باب: لونڈیوں پرحد جاری کرنے کا بیان​


1440- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا زَنَتْ أَمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيَجْلِدْهَا ثَلاَثًا بِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ عَادَتْ فَلْيَبِعْهَا وَلَوْ بِحَبْلٍ مِنْ شَعَرٍ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَشِبْلٍ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَالِكٍ الأَوْسِيِّ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ رَأَوْا أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ الْحَدَّ عَلَى مَمْلُوكِهِ دُونَ السُّلْطَانِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. قَالَ بَعْضُهُمْ: يُرْفَعُ إِلَى السُّلْطَانِ وَلاَ يُقِيمُ الْحَدَّ هُوَ بِنَفْسِهِ، وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۹۷) (صحیح)
۱۴۴۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''جب تم میں سے کسی کی لونڈی زناکرے تو اللہ کی کتاب کے(حکم کے) مطابق تین باراسے کوڑے لگائو ۱؎ اگروہ پھربھی(یعنی چوتھی بار) زناکرے تو اسے فروخت کردو، چاہے قیمت میں بال کی رسی ہی ملے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ان سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے، ۳- اس باب میں علی، ابوہریرہ، زید بن خالد رضی اللہ عنہم سے اورشبل سے بواسطہ عبداللہ بن مالک اوسی بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ میں سے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ سلطان(حاکم) کے بجائے آدمی اپنے مملوک(غلام) پر خودحدنافذ کرے ، احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۵- بعض لوگ کہتے ہیں: سلطان(حاکم) کے پاس مقدمہ پیش کیاجائے گا، کوئی آدمی بذات خود حد نافذنہیں کرے گا ، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی زنا کی حرکت اس سے اگر تین بار سرزد ہوئی ہے تو ہر مرتبہ اسے کوڑے کی سزا ملے گی، اور چوتھی مرتبہ اسے شہر بدر کردیاجائے گا ۔
وضاحت ۲؎ : کیوں کہ باب کی حدیث کا مفہوم یہی ہے ، مالک کے پاس اپنی لونڈی یاغلام کی بدکاری سے متعلق اگر معتبر شہادت موجود ہوتو مالک بذات خود حد قائم کرسکتا ہے۔


1441- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ: خَطَبَ عَلِيٌّ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَقِيمُوا الْحُدُودَ عَلَى أَرِقَّائِكُمْ مَنْ أَحْصَنَ مِنْهُمْ، وَمَنْ لَمْ يُحْصِنْ وَإِنَّ أَمَةً لِرَسُولِ اللهِ ﷺ زَنَتْ فَأَمَرَنِي أَنْ أَجْلِدَهَا فَأَتَيْتُهَا فَإِذَا هِيَ حَدِيثَةُ عَهْدٍ بِنِفَاسٍ فَخَشِيتُ إِنْ أَنَا جَلَدْتُهَا أَنْ أَقْتُلَهَا، أَوْ قَالَ تَمُوتَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: أَحْسَنْتَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالسُّدِّيُّ اسْمُهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ وَهُوَ مِنْ التَّابِعِينَ، قَدْ سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَرَأَى حُسَيْنَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.
* تخريج: م/الحدود ۷ (۱۷۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۷۰) (صحیح)
۱۴۴۱- ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے دوران کہا: لوگو! اپنے غلاموں اورلونڈیوں پر حد قائم کرو، جس کی شادی ہوئی ہو اس پر بھی اور جس کی شادی نہ ہوئی ہو اس پربھی، رسول اللہ ﷺ کی ایک لونڈی نے زنا کیا، چنانچہ آپ نے مجھے کوڑے لگانے کاحکم دیا، میں اس کے پاس آیا تو (دیکھا) اس کو کچھ ہی دن پہلے نفاس کاخون آیاتھا ۱؎ لہذا مجھے اندیشہ ہواکہ اگرمیں نے اسے کوڑے لگائے تو کہیں میں اسے قتل نہ کر بیٹھوں، یا انہوں نے کہا: کہیں وہ مر نہ جائے ۲؎ ،چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور آ پ سے اسے بیان کیا،تو آپ نے فرمایا: ''تم نے اچھاکیا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کچھ ہی دن قبل اس سے ولادت ہوئی تھی۔
وضاحت ۲؎ : یہ شک راوی کی طرف سے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي حَدِّ السَّكْرَانِ
۱۴-باب: شرابی کی حدکا بیان​


1442- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ ضَرَبَ الْحَدَّ بِنَعْلَيْنِ أَرْبَعِينَ، قَالَ مِسْعَرٌ: أَظُنُّهُ فِي الْخَمْرِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَالسَّائِبِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُوالصِّدِّيقِ النَّاجِيُّ اسْمُهُ بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو، وَيُقَالُ بَكْرُ بْنُ قَيْسٍ .
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ) (تحفۃ الأشراف: ۳۹۷۵) (ضعیف الإسناد)
(سند میں زید العمی سخت ضعیف راوی ہے ، لیکن دیگر احادیث صحیحہ سے شرابی کو جو تے سے مارنا ثابت ہے)
۱۴۴۲- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدقائم کرتے ہوئے چالیس جوتیوں کی سزا دی، مسعر راوی کہتے ہیں: میراخیال ہے شراب کی حد میں (آپ نے چالیس جوتیوں کی سزا دی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں علی ، عبدالرحمن بن ازہر، ابوہریرہ، سائب ، ابن عباس اورعقبہ بن حارث رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1443- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَال: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ، فَضَرَبَهُ بِجَرِيدَتَيْنِ نَحْوَ الأَرْبَعِينَ، وَفَعَلَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ اسْتَشَارَ النَّاسَ فَقَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: كَأَخَفِّ الْحُدُودِ ثَمَانِينَ، فَأَمَرَ بِهِ عُمَرُ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ حَدَّ السَّكْرَانِ ثَمَانُونَ.
* تخريج: خ/الحدود ۲ (۶۷۷۱)، (بدون قصۃ الاستشارۃ)، م/الحدود ۸ (۱۷۰۶) د/الحدود ۳۶ (۴۴۷۹)، ق/الحدود ۱۶ (۲۵۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۴)، وحم (۳/۱۱۵، ۱۸۰، ۲۴۷، ۲۷۲- ۲۷۳)، دي/الحدود ۹ (۲۳۵۷) (صحیح)
۱۴۴۳- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیاجس نے شراب پی تھی، آپ نے اسے کھجورکی دوچھڑیوں سے چالیس کے قریب مارا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی (اپنے دورخلافت میں) ایساہی کیا، پھرجب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے توانہوں نے اس سلسلے میں لوگوں سے مشورہ کیا،چنانچہ عبدالرحمن بن عوف نے کہا: حدوں میں سب سے ہلکی حداسی کوڑے ہیں، چنانچہ عمر نے اسی کا حکم دیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲-صحابہ میں سے اہل علم اوردوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ شرابی کی حد اسی کوڑے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ شرابی کی حد چالیس کوڑے ہیں، البتہ امام اس سے زائد اسی کوڑے تک کی سزا دے سکتا ہے ،لیکن اس کا انحصار حسب ضرورت امام کے اپنے اجتہاد پر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ وَمَنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ
۱۵-باب: شرابی کو کوڑے لگانے اورچوتھی بار شراب پینے پراسے قتل کردینے کا بیان​


1444- حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ، فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَالشَّرِيدِ، وَشُرَحْبِيلَ بْنِ أَوْسٍ، وَجَرِيرٍ، وَأَبِي الرَّمَدِ الْبَلَوِيِّ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ مُعَاوِيَةَ هَكَذَا رَوَى الثَّوْرِيُّ أَيْضًا عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَرَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ وَمَعْمَرٌ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَإِنَّمَا كَانَ هَذَا فِي أَوَّلِ الأَمْرِ ثُمَّ نُسِخَ بَعْدُ، هَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ، فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ"، قَالَ: ثُمَّ أُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بَعْدَ ذَلِكَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الرَّابِعَةِ فَضَرَبَهُ وَلَمْ يَقْتُلْهُ، وَكَذَلِكَ رَوَى الزُّهْرِيُّ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا، قَالَ: فَرُفِعَ الْقَتْلُ وَكَانَتْ رُخْصَةً، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَ نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ اخْتِلاَفًا فِي ذَلِكَ فِي الْقَدِيمِ وَالْحَدِيثِ، وَمِمَّا يُقَوِّي هَذَا مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ أَوْجُهٍ كَثِيرَةٍ أَنَّهُ قَالَ: "لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ".
* تخريج: د/الحدود ۳۷ (۴۴۸۲)، ق/الحدود ۱۷ (۲۵۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۱۲)، و حم (۴/۹۷) (صحیح)
۱۴۴۴- معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جوشراب پئے اسے کوڑے لگاؤ، پھراگرچوتھی بار پئے تواسے قتل کردو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اسی طرح ثوری نے بطریق: ''عاصم، عن أبي صالح، عن معاوية، عن النبي ﷺ''روایت کیا ہے، اور ابن جریج اور معمر نے بطریق: ''سهيل بن أبي صالح، عن أبيه أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ '' روایت کیا ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سناہے کہ ابوصالح کی حدیث جو بواسطہ معاویہ نبی اکرمﷺ سے اس سلسلہ میں آئی ہے، یہ ابوصالح کی اس حدیث سے جو بواسطہ ابوہریرہ نبی اکرمﷺ سے آئی ہے زیادہ صحیح ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ ، شرید ، شرحبیل بن اوس ، جریر ، ابورمد بلوی اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴- یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا ۱؎ پھر اس کے بعدمنسوخ ہوگیا ،اسی طرح محمدبن اسحاق نے '' محمد بن المنكدر، عن جابر کے طریق سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺفرمایا:'' جوشراب پئے اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگرچوتھی بار پئے تواسے قتل کردو''، پھراس کے بعدنبی اکرمﷺ کے پاس ایک ایسا آدمی لایاگیا جس نے چوتھی بارشراب پی تھی، توآپ نے اسے کوڑے لگائے اورقتل نہیں کیا، اسی طرح زہری نے قبیصہ بن ذؤیب سے اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۵- چنانچہ قتل کا حکم منسوخ ہوگیا، پہلے اس کی رخصت تھی،عام اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے، میرے علم میں اس مسئلہ میں ان کے درمیان نہ پہلے اختلاف تھا نہ اب اختلاف ہے، اور اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جونبی اکرمﷺ سے بے شمار سندوں سے آئی ہے کہ آپ نے فرمایا: جومسلمان شہادت دیتاہو کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں اورمیں اللہ کا رسول ہوں تواس کاخون تین میں سے کسی ایک چیزکی بناپر ہی حلال ہوسکتا ہے: ناحق کسی کا قاتل ہو، شادی شدہ زانی ہو، یا اپنادین(اسلام) چھوڑنے والا(مرتد)ہو''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی شرابی کے قتل کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا چنانچہ قتل سے متعلق روایت بعض اہل ظاہر کو چھوڑ کر تمام اہل علم کے نزدیک منسوخ ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي كَمْ تُقْطَعُ يَدُ السَّارِقِ
۱۶-باب: کتنے مال کی چوری میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟​


1445- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَتْهُ عَمْرَةُ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْطَعُ فِي رُبُعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مَرْفُوعًا، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مَوْقُوفًا.
* تخريج: خ/الحدود ۱۳ (۶۷۸۹)، م/الحدود ۱ (۱۶۸۴)، د/الحدود ۱۱ (۴۳۸۳)، ن/قطع السارق ۹ (۴۹۲۲)، ق/الحدود ۲۲ (۲۵۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۲۰)، وط/الحدود ۷ (۲۴)، وحم (۶/۳۶، ۸۰، ۸۱، ۱۰۴، ۱۶۳، ۲۴۹، ۲۵۲)، دي/الحدو ۴ (۲۳۴۶) (صحیح)
۱۴۴۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ چوتھائی دینار ۱؎ اوراس سے زیادہ کی چوری پر ہاتھ کاٹتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے ،۲- یہ حدیث دوسری سندوں سے عمرہ کے واسطہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاًآئی ہے، جب کہ بعض لوگوں نے اسے عمرہ کے واسطہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے موقوفاًروایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : موجودہ وزن کے اعتبار سے ایک دینار کا وزن تقریبا سوا چار گرام سونا ہے۔


1446- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَطَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي مِجَنٍّ قِيمَتُهُ ثَلاَثَةُ دَرَاهِمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَيْمَنَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ: أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، قَطَعَ فِي خَمْسَةِ دَرَاهِمَ، وَرُوِي عَنْ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ أَنَّهُمَا قَطَعَا فِي رُبُعِ دِينَارٍ، وَرُوِي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ أَنَّهُمَا قَالاَ: تُقْطَعُ الْيَدُ فِي خَمْسَةِ دَرَاهِمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ فُقَهَائِ التَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ رَأَوْا الْقَطْعَ فِي رُبُعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ: لاَ قَطْعَ إِلاَّ فِي دِينَارٍ أَوْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ وَهُوَ حَدِيثٌ مُرْسَلٌ رَوَاهُ الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَالْقَاسِمُ لَمْ يَسْمَعْ مِنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ قَالُوا: لاَ قَطْعَ فِي أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَرُوِي عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ: لاَقَطْعَ فِي أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ .
* تخريج: خ/الحدود ۱۳ (۶۷۹۵)، م/الحدود ۱ (۱۶۸۶)، د/الحدود ۱۱ (۴۳۸۵)، ن/قطع السارق ۸ (۴۹۱۲)، ق/الحدود ۲۲ (۲۵۸۴)، التحفۃ: ۸۲۷۸)، ط/الحدود ۷ (۲۱)، وحم (۲/۶، ۵۴، ۶۴، ۸۰، ۱۴۳)، دي/الحدود ۴ (۲۳۴۷) (صحیح)
۱۴۴۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ایک ڈھال کی چوری پرہاتھ کاٹاجس کی قیمت تین درہم ۱؎ تھی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سعد ، عبداللہ بن عمرو، ابن عباس، ابوہریرہ اورایمن رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان میں ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، انہوں نے پانچ درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹا،۴- عثمان اورعلی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان لوگوں نے چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹا،۵- ابوہریرہ اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ پانچ درہم کی چوری پرہاتھ کاٹاجائے گا، ۶-بعض فقہائے تابعین کا اسی پرعمل ہے، مالک بن انس ، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں: چوتھائی دینار اور اس سے زیادہ کی چوری پرہاتھ کاٹاجائے گا ،۷- اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیناریادس درہم کی چوری پرہی ہاتھ کاٹاجائے گا،لیکن یہ مرسل (یعنی منقطع) حدیث ہے اسے قاسم بن عبدالرحمن نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، حالانکہ قاسم نے ابن مسعود سے نہیں سناہے، بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، چنانچہ سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں: دس درہم سے کم کی چوری پرہاتھ نہ کاٹاجائے ،۸- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دس درہم سے کم کی چوری پرہاتھ نہیں کاٹاجائے گا، لیکن اس کی سندمتصل نہیں ہے ۔
وضاحت ۱؎ : آج کے وزن کے اعتبار سے ایک درہم(چاندی) تقریبا تین گرام کے برابر ہے، معلوم ہوا کہ چوتھائی دینار(سونا): یعنی تین درہم(چاندی) یا اس سے زیادہ کی مالیت کا سامان اگر کوئی چوری کرتا ہے تو اس کے بدلے اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْلِيقِ يَدِ السَّارِقِ
۱۷-باب: چورکاہاتھ( کاٹنے کے بعد)گردن میں لٹکانے کا بیان​


1447- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ قَالَ: سَأَلْتُ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ عَنْ تَعْلِيقِ الْيَدِ فِي عُنُقِ السَّارِقِ أَمِنَ السُّنَّةِ هُوَ؟ قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِسَارِقٍ فَقُطِعَتْ يَدُهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَعُلِّقَتْ فِي عُنُقِهِ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيِّ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُحَيْرِيزٍ، هُوَ أَخُو عَبْدِاللهِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ شَامِيٌّ.
* تخريج: د/الحدود ۲۱ (۴۴۱۱)، ن/قطع السارق ۱۹ (۴۹۸۵)، ق/الحدود ۲۳ (۲۵۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۲۹)، وحم (۶/۱۹) (ضعیف)
(سند میں ''حجاج بن ارطاۃ'' ضعیف، اور''عبدالرحمن بن محیریز'' مجہول ہیں) دیکھئے : الإرواء : ۲۴۳۲)
۱۴۴۷- عبدالرحمن بن محیر یز کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبیدسے پوچھا: کیاچورکاہاتھ کاٹنے کے بعد اس کی گردن میں لٹکانا سنت ہے ؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺکے پاس ایک چورلایا گیا اس کا ہاتھ کاٹاگیا، پھر آپ نے حکم دیا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکادیاگیا۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اسے صرف عمربن علی مقدمی ہی کی روایت سے جانتے ہیں، انہوں نے اسے حجاج بن ارطاۃسے روایت کیا ہے ۔
 
Top