• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي الْخَائِنِ وَالْمُخْتَلِسِ وَالْمُنْتَهِبِ
۱۸- باب: خائن ، اچکے ا ورلٹیرے (ڈاکو) کا بیان​


1448- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لَيْسَ عَلَى خَائِنٍ وَلاَ مُنْتَهِبٍ وَلاَ مُخْتَلِسٍ قَطْعٌ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ رَوَاهُ مُغِيرَةُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ وَمُغِيرَةُ بْنُ مُسْلِمٍ هُوَ بَصْرِيٌّ أَخُو عَبْدِالْعَزِيزِ الْقَسْمَلِيِّ كَذَا قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ.
* تخريج: د/الحدود ۱۳ (۴۳۹۱)، ن/قطع السارق ۱۴ (۴۹۷۴)، ق/الحدود ۲۶ (۲۵۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۰۰)، وحم (۳/۳۸۰)، دي/الحدود ۸ (۲۳۵۶) (صحیح)
۱۴۴۸- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' خیانت کرنے والے ،ڈاکواوراچکے کی سزاہاتھ کاٹنا نہیں ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مغیرہ بن مسلم نے ابن جریج کی حدیث کی طرح اسے ابوزبیر سے، ابوزبیرنے جابر رضی اللہ عنہ سے اورجابرنے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے،۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : کسی محفوظ جگہ سے جہاں مال اچھی طرح سے چھپاکر رکھا گیا مال چُرانا سرقہ ہے اور خیانت، اچکنا اور ڈاکہ زنی یہ سب کے سب سرقہ کی تعریف سے خارج ہیں، لہذا ان کی سزا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے، خائن اسے کہتے ہیں جو خفیہ طریقہ پر مال لیتا رہے اور مالک کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا اظہا رکرے۔حدیث میں مذکورہ جرائم پر حاکم جومناسب سزاتجویزکرے گا وہ نافذکی جائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ لاَ قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلاَ كَثَرٍ
۱۹-باب: پھل اورکھجورکے گابھے کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹے جانے کا بیان​


1449- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَقَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلاَ كَثَرٍ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ رِوَايَةِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَرَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَاالْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ.
* تخريج: د/الحدود ۱۲ (۴۳۸۸)، ن/قطع السارق ۱۴ (۴۹۹۲)، ق/الحدود ۲۷ (۲۵۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۸۸)، وط/الحدود ۱۱ (۳۲)، وحم (۳/۴۶۳، ۴۶۴) و (۵/۱۴۰، ۱۴۲)، دي/الحدود ۷ (۲۳۵۰) (صحیح)
۱۴۴۹- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: ''پھل اورکھجورکے گابھے کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اسی طرح بعض اور لوگوں نے بھی لیث بن سعد کی روایت کی طرح بطریق: '' يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن عمه واسع بن حبان، عن رافع بن خديج، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے، ۲- مالک بن انس اورکئی لوگوں نے اس حدیث کو بطریق: '' يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن رافع بن خديج، عن النبي ﷺ'' روایت کیا ہے، ان لوگوں نے اس حدیث کی سند میں واسع بن حبان کا ذکر نہیں کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَا جَاءَ أَنْ لاَ تُقْطَعُ الأَيْدِي فِي الْغَزْوِ
۲۰- باب: دورانِ جنگ چورکے ہاتھ نہ کاٹے جانے کا بیان​


1450- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ شُيَيْمِ بْنِ بَيْتَانَ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاةَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "لاَتُقْطَعُ الأَيْدِي فِي الْغَزْوِ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ ابْنِ لَهِيعَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ هَذَا، وَيُقَالُ بُسْرُ بْنُ أَبِي أَرْطَاةَ أَيْضًا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ: الأَوْزَاعِيُّ لاَ يَرَوْنَ أَنْ يُقَامَ الْحَدُّ فِي الْغَزْوِ بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ مَخَافَةَ أَنْ يَلْحَقَ مَنْ يُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ بِالْعَدُوِّ، فَإِذَا خَرَجَ الإِمَامُ مِنْ أَرْضِ الْحَرْبِ وَرَجَعَ إِلَى دَارِ الإِسْلاَمِ أَقَامَ الْحَدَّ عَلَى مَنْ أَصَابَهُ، كَذَلِكَ قَالَ الأَوْزَاعِيُّ.
* تخريج: د/الحدود ۱۸ (۴۴۰۸)، ن/قطع السارق ۱۷ (۴۹۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۱۵)، وحم (۴/۱۸۱) (صحیح)
(متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے جس کا ذکر مؤلف نے کیا ہے، ورنہ اس کے راوی ''ابن لھیعہ'' ضعیف ہیں)
۱۴۵۰- بُسربن ارطاۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺکوفرماتے سنا: ''جنگ کے دوران (چوری کرنے والے کا) ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ابن لہیعہ کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اسی سندسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۳- بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے، انہیں میں اوزاعی بھی ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں: دشمن کی موجودگی میں جہادکے دوران (چوری کرنے پر)حدقائم نہیں کی جائے گی،کیونکہ جس پر حدقائم کی جائے گی اندیشہ ہے کہ وہ دشمن سے مل جائے، البتہ امام جب دارالحرب سے نکل کردارالاسلام واپس آجائے توچوری کرنے والے پر حدقائم کرے ۔
وضاحت ۱؎ : مسند احمد میں عبادہ بن صامت کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' أقيموا الحدود في الحضر والسفر'' حضر اور سفر دونوں میں حدود قائم کرو، اس میں اور بسر بن ارطاۃ کی حدیث میں تعارض ہے، علامہ شوکانی کہتے ہیں: دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ بسرارطاۃ کی حدیث خاص ہے جب کہ عبادہ کی حدیث عام ہے، کیونکہ ہرمسافرمجاہد نہیں ہوتا البتہ ہر مجاہد مسافر ہوتاہے، نیز بسر کی حدیث کا تعلق چوری کی حد سے ہے، جب کہ عبادہ کی حدیث کا تعلق عام حد سے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَقَعُ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ
۲۱-باب: بیوی کی لونڈی کے ساتھ زناکرنے والے کے حکم کا بیان​


1451- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ وَأَيُّوبَ بْنِ مِسْكِينٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ: رُفِعَ إِلَى النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَجُلٌ وَقَعَ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، فَقَالَ: لأَقْضِيَنَّ فِيهَا بِقَضَائِ رَسُولِ اللهِ ﷺ: "لَئِنْ كَانَتْ أَحَلَّتْهَا لَهُ لأَجْلِدَنَّهُ مِائَةً، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ أَحَلَّتْهَا لَهُ رَجَمْتُهُ".
* تخريج: د/الحدود ۲۸ (۴۴۵۸)، ن/النکاح ۷۰ (۳۳۶۲)، ق/الحدود (۲۵۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۱۳)، وحم (۶/۲۷۲، ۲۷۶، ۲۷۶، ۲۷۷)، دي/الحدود ۲۰ (۲۳۷۴) (ضعیف)
(سند میں ''حبیب بن سالم'' میں بہت کلام ہے ، نیز بقول خطابی ان کا سماع نعمان رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
۱۴۵۱- حبیب بن سالم کہتے ہیں کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک ایسے شخص کا مقدمہ پیش ہواجس نے اپنی بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کیاتھا، انہوں نے کہا: میں اس میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کروں گا: اگراس کی بیوی نے اسے لونڈی کے ساتھ جماع کی اجازت دی ہے تو (بطور تأدیب) اسے سو کوڑے ماروں گا اوراگر اس نے اجازت نہیں دی ہے تو(بطور حد) اسے رجم کروں گا۔


1452- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ نَحْوَهُ. وَيُرْوَى عَنْ قَتَادَةَ أَنَّهُ قَالَ: كُتِبَ بِهِ إِلَى حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، وَأَبُو بِشْرٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ حَبِيبِ ابْنِ سَالِمٍ هَذَا أَيْضًا، إِنَّمَا رَوَاهُ عَنْ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ النُّعْمَانِ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: لَمْ يَسْمَعْ قَتَادَةُ مِنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ هَذَاالْحَدِيثَ، إِنَّمَا رَوَاهُ عَنْ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الرَّجُلِ يَقَعُ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، فَرُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ: عَلِيٌّ وَابْنُ عُمَرَ أَنَّ عَلَيْهِ الرَّجْمَ، و قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: لَيْسَ عَلَيْهِ حَدٌّ، وَلَكِنْ يُعَزَّرُ، وَذَهَبَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ إِلَى مَا رَوَى النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۱۴۵۲- اس سندسے بھی نعمان بن بشیرسے اسی جیسی حدیث آئی ہے۔
قتادہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا: حبیب بن سالم کے پاس یہ مسئلہ لکھ کر بھیجاگیا ۱؎ ۔
ابوبشرنے بھی یہ حدیث حبیب بن سالم سے نہیں سنی، انہوں نے اسے خالد بن عرفطہ سے روایت کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- نعمان کی حدیث کی سند میں اضطراب ہے میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ قتادہ نے اس حدیث کوحبیب بن سالم سے نہیں سناہے، انہوں نے اسے خالدبن عرفطہ سے روایت کیا ہے،۲- اس باب میں سلمہ بن محبق سے بھی روایت ہے،۳- بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کرنے والے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے ، چنانچہ نبی اکرمﷺ کے کئی صحابہ سے مروی ہے جن میں علی اورابن عمربھی شامل ہیں کہ اس پر رجم واجب ہے، ابن مسعودکہتے ہیں: اس پر کوئی حدنہیں ہے، البتہ اس کی تأدیبی سزاہوگی، احمداوراسحاق بن راہویہ کا مسلک اس (حدیث) کے مطابق ہے جو نبی اکرمﷺسے بواسطہ نعمان بن بشیرآئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : گویا قتادہ نے یہ حدیث حبیب بن سالم سے نہیں سنی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ إِذَا اسْتُكْرِهَتْ عَلَى الزِّنَا
۲۲-باب: زناپر مجبور کی گئی عورت کے حکم کا بیان​


1453- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَبْدِالْجَبَّارِ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: اسْتُكْرِهَتْ امْرَأَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَدَرَأَ عَنْهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ الْحَدَّ وَأَقَامَهُ عَلَى الَّذِي أَصَابَهَا وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ جَعَلَ لَهَا مَهْرًا. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَاالْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ عَبْدُالْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ وَلاَ أَدْرَكَهُ، يُقَالُ إِنَّهُ وُلِدَ بَعْدَ مَوْتِ أَبِيهِ بِأَشْهُرٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنْ لَيْسَ عَلَى الْمُسْتَكْرَهَةِ حَدٌّ.
* تخريج: ق/الحدود ۳۰ (۲۵۹۸) (ضعیف)
(نہ تو ''حجاج بن ارطاۃ'' نے ''عبدالجبار'' سے سناہے ، نہ ہی ''عبدالجبار''نے اپنے باپ سے سناہے ،یعنی سند میں دوجگہ انقطاع ہے، لیکن یہ مسئلہ اگلی حدیث سے ثابت ہے)
۱۴۵۳- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی زنا کیا گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے حدسے بری کردیا اورزانی پر حدجاری کی، راوی نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ آپ نے اسے کچھ مہربھی دلایاہو ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، اس کی اسناد متصل نہیں ہے ،۲- یہ حدیث دوسری سندسے بھی آئی ہے، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا : عبدالجباربن وائل بن حجر کاسماع ان کے باپ سے ثابت نہیں ہے ، انہوں نے اپنے والد کازمانہ نہیں پایاہے، کہاجاتاہے کہ وہ اپنے والد کی موت کے کچھ مہینے بعدپیداہوئے، ۳-صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ جس سے جبراً زناکیا گیا ہو اس پر حدواجب نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : لیکن دوسری احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جماع کے بدلے اس عورت کو کچھ دلایا بھی ہے۔


1454- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْكِنْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ امْرَأَةً خَرَجَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ تُرِيدُ الصَّلاَةَ، فَتَلَقَّاهَا رَجُلٌ فَتَجَلَّلَهَا فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا فَصَاحَتْ، فَانْطَلَقَ وَمَرَّ عَلَيْهَا رَجُلٌ فَقَالَتْ: إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا، وَمَرَّتْ بِعِصَابَةٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا، فَانْطَلَقُوا فَأَخَذُوا الرَّجُلَ الَّذِي ظَنَّتْ أَنَّهُ وَقَعَ عَلَيْهَا وَأَتَوْهَا فَقَالَتْ: نَعَمْ هُوَ هَذَا، فَأَتَوْا بِهِ رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَلَمَّا أَمَرَ بِهِ لِيُرْجَمَ قَامَ صَاحِبُهَا الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَنَا صَاحِبُهَا، فَقَالَ لَهَا اذْهَبِي فَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَكِ، وَقَالَ لِلرَّجُلِ قَوْلاً حَسَنًا، وَقَالَ لِلرَّجُلِ الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا ارْجُمُوهُ، وَقَالَ: لَقَدْتَابَ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَقُبِلَ مِنْهُمْ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ سَمِعَ مِنْ أَبِيهِ وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْ عَبْدِالْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ وَعَبْدُ الْجَبَّارِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ.
* تخريج: د/الحدود ۷ (۴۳۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۷)، وحم (۶/۳۹۹) (حسن)
(اس میں رجم کی بات صحیح نہیں ہے ، راجح یہی ہے کہ رجم نہیں کیا گیا ، دیکھئے: الصحیحہ رقم ۹۰۰)
۱۴۵۴- وائل بن حجر کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت صلاۃ کے لیے نکلی، اسے ایک آدمی ملا، اس نے عورت کو ڈھانپ لیا اوراس سے اپنی حاجت پوری کی(یعنی اس سے زبردستی زنا کیا)، وہ عورت چیخنے لگی اوروہ چلاگیا، پھر اس کے پاس سے ایک (دوسرا) آدمی گزراتو یہ عورت بولی: اس (دوسرے) آدمی نے میرے ساتھ ایساایسا(یعنی زنا)کیا ہے ۱؎ اور اس کے پاس سے مہاجرین کی بھی ایک جماعت گزری تویہ عورت بولی : اس آدمی نے میرے ساتھ ایساایسا(یعنی زنا)کیا ہے، (یہ سن کر) وہ لوگ گئے اور جاکر انہوں نے اس آدمی کوپکڑلیا جس کے بارے میں اس عورت نے گمان کیا تھا کہ اسی نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے اور اسے اس عورت کے پاس لائے، وہ بولی : ہاں، وہ یہی ہے، پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے، چنانچہ جب آپ نے اسے رجم کرنے کاحکم دیا، تو اس عورت کے ساتھ زناکرنے والا کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول!اس کے ساتھ زناکرنے والا میں ہوں، پھر آپ نے اس عورت سے فرمایا: ''تو جااللہ نے تیری بخشش کردی ہے ۲؎ '' اورآپ نے اس آدمی کو (جوقصوروارنہیں تھا) اچھی بات کہی ۳؎ اور جس آدمی نے زناکیاتھا اس کے متعلق آپ نے فرمایا:'' اسے رجم کرو''، آپ نے یہ بھی فرمایا: ''اس (زانی) نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ اس طرح توبہ کرلیں تو ان سب کی توبہ قبول ہوجائے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- علقمہ بن وائل بن حجر کا سماع ان کے والد سے ثابت ہے، یہ عبدالجباربن وائل سے بڑے ہیں اورعبدالجبارکاسماع ان کے والد سے ثابت نہیں۔
وضاحت ۱؎ : حالانکہ زنا کرنے والا کوئی اور تھا، عورت نے غلطی سے اسے سمجھ لیا۔
وضاحت ۲؎ : کیونکہ تجھ سے حد والا کام زبردستی کرایا گیا ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی اس کے لیے تسلی کے کلمات کہے، کیونکہ یہ بے قصور تھا۔
وضاحت ۴؎ : چونکہ اس نے خود سے زنا کا اقرار کیا اور شادی شدہ تھا، اس لیے آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اسے رجم کیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَقَعُ عَلَى الْبَهِيمَةِ
۲۳-باب: جانورسے وطی(جماع) کرنے والے کا بیان​


1455- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ وَجَدْتُمُوهُ وَقَعَ عَلَى بَهِيمَةٍ فَاقْتُلُوهُ وَاقْتُلُوا الْبَهِيمَةَ". فَقِيلَ لإِبْنِ عَبَّاسٍ: مَا شَأْنُ الْبَهِيمَةِ؟ قَالَ: مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي ذَلِكَ شَيْئًا، وَلَكِنْ أَرَى رَسُولَ اللهِ كَرِهَ أَنْ يُؤْكَلَ مِنْ لَحْمِهَا أَوْ يُنْتَفَعَ بِهَا، وَقَدْ عُمِلَ بِهَا ذَلِكَ الْعَمَلُ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: د/الحدود ۲۹ (۳۰۶۲)، ق/الحدود ۱۳ (۴۴۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۷۶)، وحم (۱/۲۶۹، ۳۰۰ (حسن صحیح)
1455/م- وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي رُزَيْنٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ مَنْ أَتَى بَهِيمَةً فَلاَ حَدَّ عَلَيْهِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج : تفرد بہ مالمؤلف و انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۶۴۵۴) (حسن)
۱۴۵۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس آدمی کو جانورکے ساتھ وطی (جماع) کرتے ہوئے پاؤتو اسے قتل کردواور(ساتھ میں)جانورکو بھی قتل کردو''۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھاگیا: جانورکوقتل کرنے کی کیاوجہ ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں کچھ نہیں سناہے، لیکن میراخیال ہے کہ جس جانورکے ساتھ یہ برافعل کیا گیا ہو، اس کا گوشت کھانے اور اس سے فائداٹھانے کو رسول اللہ ﷺنے ناپسندسمجھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عمروبن ابی عمرو کی حدیث کوجسے وہ بطریق: ''عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي ﷺ''روایت کرتے ہیں۔ ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور سفیان ثوری نے بطریق: ''عاصم، عن زرين، عن ابن عباس (موقوفاً عليه) '' روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: جانور سے وطی (جماع)کرنے والے پر کوئی حدنہیں ہے۔
۱۴۵۵/م- ہم سے اس حدیث کو محمد بن بشارنے بسندعبدالرحمن بن مہدی عن سفیان ثوری بیان کیااور یہ ۱؎ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے ۲؎ ، احمداوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی عاصم کی روایت جو ابن عباس سے موقوف ہے یہ زیادہ صحیح ہے عمرو بن ابی عمرو کی روایت سے جو اس سے پہلے مذکور ہوئی ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ان کا عمل عاصم کی موقوف روایت پر ہے کہ جانور سے وطی کرنے والے پر کوئی حدنہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ فِي حَدِّ اللُّوطِيِّ
۲۴-باب: اغلام باز کی سزا کا بیان​


1456- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَإِنَّمَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ هَذَاالْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو فَقَالَ: مَلْعُونٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْقَتْلَ، وَذَكَرَ فِيهِ مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى بَهِيمَةً. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " اقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَلاَ نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ غَيْرَ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي حَدِّ اللُّوطِيِّ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِ الرَّجْمَ أَحْصَنَ أَوْ لَمْ يُحْصِنْ، وَهَذَا قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ فُقَهَائِ التَّابِعِينَ، مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ وَعَطَائُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ وَغَيْرُهُمْ قَالُوا: حَدُّ اللُّوطِيِّ حَدُّ الزَّانِي، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: د/الحدود ۲۹ (۴۴۶۲)، ق/الحدود ۱۳ (۲۵۶۱) (تحفۃ الأشراف: ۶۱۷۶)، وحم (۱/۲۶۹، ۳۰۰) (صحیح)
۱۴۵۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :'' تم لوگ جسے قوم لوط کاعمل (اغلام بازی)کرتے ہوئے پاؤ توفاعل اورمفعول (بدفعلی کرنے اورکرانے والے) دونوں کوقتل کردو ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث بواسطہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرمﷺ سے صرف اسی سندسے جانی جاتی ہے، محمد بن اسحاق نے بھی اس حدیث کو عمرو بن ابی عمروسے روایت کیا ہے،(لیکن اس میں ہے) آپ نے فرمایا: ''قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرنے والا ملعون ہے'' ، راوی نے اس حدیث میں قتل کا ذکرنہیں کیا،البتہ اس میں یہ بیان ہے کہ جانورسے وطی(جماع)کرنے والاملعون ہے''، اوریہ حدیث بطریق: '' عاصم بن عمرو، عن سهيل بن أبي صالح، عن أبيه أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ'' روایت کی گئی ہے۔ (اس میں ہے کہ) آپ نے فرمایا: ''فاعل اورمفعول دونوں کوقتل کردو''، ۲- اس حدیث کی سند میں کلام ہے ،ہم نہیں جانتے کہ اسے سہیل بن ابی صالح سے عاصم بن عمرالعمری کے علاوہ کسی اور نے روایت کیا ہے اورعاصم بن عمرکا حال یہ ہے کہ و ہ اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،۳- اس باب میں جابراورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۴- اغلام بازی(بدفعلی) کرنے والے کی حد کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں : بدفعلی کرنے والا شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ اس کی سزارجم ہے، مالک شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ، ۵- فقہاء تابعین میں سے بعض اہل علم نے جن میں حسن بصری ،ابراہیم نخعی اورعطابن ابی رباح وغیرہ شامل ہیں کہتے ہیں: بدفعلی کرنے والے کی سزازانی کی سزاکی طرح ہے، ثوری اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس میں کوئی شک نہیں کہ اغلام بازی امورِمعصیت کے کاموں میں سے ہلاکت خیزی کے اعتبار سے سب سے خطرناک کام ہے اورفساد وبگاڑ کے اعتبار سے کفر کے بعد اسی کا درجہ ہے،اس کی تباہ کاری بسااوقات قتل کی تباہ کاریوں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے، قومِ لوط سے پہلے عالمی پیمانہ پر کوئی دوسری قوم اس فحش عمل میں ملوث نہیں پائی گئی تھی،یہی وجہ ہے کہ یہ قوم مختلف قسم کے عذاب سے دوچار ہوئی ،چنانچہ یہ اپنی رہائش گاہوں کے ساتھ پلٹ دی گئی اور زمین میں دہنسنے کے ساتھ آسمان سے نازل ہونے والے پتھروں کا شکار ہوئی،اسی لیے جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس کی سزا زنا کی سزا سے کہیں سخت ہے۔


1457- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِالْوَاحِدِ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُقَيْلٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي عَمَلُ قَوْمِ لُوطٍ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُقَيْلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ جَابِرٍ.
* تخريج: ق/الحدود ۱۲ (۲۵۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۶۷) (حسن)
۱۴۵۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجھے اپنی امت کے بارے میں جس چیز کاسب سے زیادہ خوف ہے وہ قوم لوط کاعمل (اغلام بازی)ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اور ہم اسے صرف اسی سند(عن عبد الله بن محمد بن عقيل بن أبوطالب عن جابر) سے ہی جانتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
25-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُرْتَدِّ
۲۵-باب: مرتد (اسلام سے پھرجانے والے)کی سزا کا بیان​


1458- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ عَلِيًّا حَرَّقَ قَوْمًا ارْتَدُّوا عَنِ الإِسْلاَمِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: لَوْكُنْتُ أَنَا لَقَتَلْتُهُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ ﷺ "مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ"، وَلَمْ أَكُنْ لأُحَرِّقَهُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ ﷺ "لاَ تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللهِ"، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيًّا، فَقَالَ: صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْمُرْتَدِّ، وَاخْتَلَفُوا فِي الْمَرْأَةِ إِذَا ارْتَدَّتْ عَنِ الإِسْلاَمِ، فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: تُقْتَلُ وَهُوَ قَوْلُ الأَوْزَاعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ: تُحْبَسُ وَلاَ تُقْتَلُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: خ/الجہاد ۱۴۹ (۳۰۱۷)، والمرتدین ۲ (۶۹۲۲)، د/الحدود ۱ (۴۳۵۱)، ن/المحاربۃ ۱۴ (۴۰۶۵)، ق/الحدود ۲ (۲۵۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۵۹۸۷)، وحم (۱/۲۸۲، ۲۸۳، ۳۲۳) (صحیح)
۱۴۵۸- عکرمہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کچھ ایسے لوگوں کو زندہ جلادیاجو اسلام سے مرتدہوگئے تھے، جب ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی ۱؎ تو انہوں نے کہا: اگر(علی کی جگہ) میں ہوتاتوانہیں قتل کرتا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کافرمان ہے:''جواپنے دین (اسلام) کو بدل ڈالے اسے قتل کرو''، اور میں انہیں جلاتانہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:'' اللہ کے عذابِ خاص جیساتم لوگ عذاب نہ دو''، پھر اس بات کی خبرعلی رضی اللہ عنہ کوہوئی تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سچ کہا ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح حسن ہے، ۲- مرتد کے سلسلے میں اہل علم کا اسی پرعمل ہے،۳- جب عورت اسلام سے مرتدہوجائے تو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے: اسے قتل کیاجائے گا، اوزاعی، احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۴- اور اہل علم کی دوسری جماعت کہتی ہے: اسے قتل نہیں بلکہ قید کیا جائے گا، سفیان ثوری اور ان کے علاوہ بعض اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے اس وقت بصرہ کے گورنر تھے۔
وضاحت ۲؎ : جوشخص اسلام میں داخل ہوگیا اور اسے اچھی طرح پہچاننے کے بعد پھر اس سے مرتد ہو گیا تو اس کا کفر اسلام نہ لانے والے کافر سے بڑھ کر ہے، اس لیے ایسے شخص کی سزا قتل ہے اور یہ سزا حدیثِ رسول''من بدّل دينه فاقتلوه'' کے مطابق سب کے لیے عام ہے خواہ مرد ہویا عورت ۔(واللہ اعلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ شَهَرَ السِّلاَحَ
۲۶-باب: مسلمان کے خلاف ہتھیاراٹھانے والے کا بیان​


1459- حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ وَأَبُوالسَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُوأُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلاَحَ فَلَيْسَ مِنَّا". قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَبِي مُوسَى حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الفتن ۷ (۷۰۷۱)، م/الإیمان ۴۲ (۱۰۰)، ق/الحدود ۱۹ (۲۵۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۰۴۲) (صحیح)
۱۴۵۹- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :'' جو ہمارے خلاف ہتھیاراٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے '' ۱؎ ۔اس باب میں ابن عمر، ابن زبیر ، ابوہریرہ اورسلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مسلمانوں کے خلاف ناحق ہتھیار اٹھانے والا اگر اسے حلال سمجھ کر ان سے صف آرا ہے تو اس کے کافر ہونے میں کسی کو شبہ نہیں اور اگر اس کا یہ عمل کسی دنیاوی طمع و حرص کی بناء پر ہے تو اس کا شمار باغیوں میں سے ہوگا اور اس سے قتال جائز ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ فِي حَدِّ السَّاحِرِ
۲۷-باب: جادوگرکی سزا کا بیان​


1460- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "حَدُّ السَّاحِرِ ضَرْبَةٌ بِالسَّيْفِ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْمَكِّيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، قَالَ وَكِيعٌ: هُوَ ثِقَةٌ، وَيُرْوَى عَنِ الْحَسَنِ أَيْضًا، وَالصَّحِيحُ عَنْ جُنْدَبٍ مَوْقُوفٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، و قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا يُقْتَلُ السَّاحِرُ إِذَا كَانَ يَعْمَلُ فِي سِحْرِهِ مَا يَبْلُغُ بِهِ الْكُفْرَ، فَإِذَا عَمِلَ عَمَلاً دُونَ الْكُفْرِ فَلَمْ نَرَ عَلَيْهِ قَتْلاً.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۲۶۹) (ضعیف)
(سند میں ''اسماعیل بن مسلم'' ضعیف ہیں جیساکہ مؤلف نے خود صراحت کردی ہے)
۱۴۶۰- جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :'' جادوگرکی سزاتلوار سے گردن مارناہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن سے بھی مروی ہے، اورصحیح یہ ہے کہ جندب سے موقوفاًمروی ہے۔ ۲-ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ۳- اسماعیل بن مسلم مکی اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، اور اسماعیل بن مسلم جن کی نسبت عبدی اوربصری ہے وکیع نے انہیں ثقہ کہا ہے۔ ۴-صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم صحابہ اورکچھ دوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے، مالک بن انس کا یہی قو ل ہے، ۵-شافعی کہتے ہیں: جب جادوگرکا جادوحدکفرتک پہنچے تواسے قتل کیاجائے گا اورجب اس کا جادوحدکفرتک نہ پہنچے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا قتل نہیں ہے۔
 
Top