• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَا جَاءَ فِي إِبْطَالِ مِيرَاثِ الْقَاتِلِ
۱۷-باب: قاتل کی میراث باطل ہونے کابیان​


2109- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْقَاتِلُ لاَ يَرِثُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ يَصِحُّ، لاَ يُعْرَفُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِاللهِ ابْنِ أَبِي فَرْوَةَ قَدْ تَرَكَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ، مِنْهُمْ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْقَاتِلَ لاَ يَرِثُ كَانَ الْقَتْلُ عَمْدًا أَوْ خَطَأً. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ الْقَتْلُ خَطَأً فَإِنَّهُ يَرِثُ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ.
* تخريج: ق/الدیات ۱۴ (۲۶۴۵)، والفرائض ۸ (۲۷۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۸۶) (صحیح)
(سندمیں اسحاق بن ابی فروہ ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث عمر ، عبداللہ بن عمرو بن العاص، اور ابن عباس کے شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے، الإرواء : ۱۶۷۰، ۱۶۷۱، ۱۶۷۲)
۲۱۰۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' قاتل (مقتول کا) وارث نہیں ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح نہیں ہے، یہ صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے، ۲- اسحاق بن عبداللہ بن أبی فروہ (کی روایت) کو بعض محدثین نے ترک کردیاہے، احمد بن حنبل انہیں لوگوں میں سے ہیں، ۳- اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے کہ قاتل وارث نہیں ہوگا، خواہ قتل قتلِ عمد ہو یا قتل خطا ،۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب قتل قتلِ خطا ہوتو وہ وارث ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18-بَاب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الْمَرْأَةِ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا
۱۸-باب: شوہر کی دیت میں سے بیوی کی وارثت کابیان​


2110- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: الدِّيَةُ عَلَى الْعَاقِلَةِ، وَلاَ تَرِثُ الْمَرْأَةُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا شَيْئًا، فَأَخْبَرَهُ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ الْكِلاَبِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ وَرِّثْ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضِّبَابِيِّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۴۱۵ (صحیح)
۲۱۱۰- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : دیت عاقلہ ۱؎ پر واجب ہے، اور بیوی اپنے شوہر کی دیت میں سے کسی چیز کا وارث نہیں ہوگی، (یہ سن کر) ضحاک بن سفیان کلابی رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کوبتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو لکھا : ''أشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت میں سے حصہ دو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : وہ رشتہ دار جو باپ کی طرف سے ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الأَمْوَالَ لِلْوَرَثَةِ وَالْعَقْلَ عَلَى الْعَصَبَةِ
۱۹-باب: مال وارثوں کاہے اور دیت عصبہ پر ہے​


2111- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَضَى فِي جَنِينِ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي لِحْيَانَ سَقَطَ مَيِّتًا بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ، ثُمَّ إِنَّ الْمَرْأَةَ الَّتِي قُضِيَ عَلَيْهَا بِالْغُرَّةِ تُوُفِّيَتْ فَقَضَى رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَنَّ مِيرَاثَهَا لِبَنِيهَا وَزَوْجِهَا وَأَنَّ عَقْلَهَا عَلَى عَصَبَتِهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى يُونُسُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. وَرَوَاهُ مَالِكٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَمَالِكٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ.
* تخريج: خ/الفرائض ۱۱ (۶۷۴۰)، والدیات ۲۶ (۶۹۰۹، ۶۹۱۰)، م/القسامۃ (الحدود) ۱۱ (۱۶۸۱)، د/الدیات ۲۱ (۴۵۷۷)، ن/القسامۃ ۳۹ (۴۸۲۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۲۵)، وحم (۲/۲۳۶، ۵۳۹) (وانظر ماتقدم برقم ۱۴۱۰) (صحیح)
۲۱۱۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ نے بنی لحیان کی ایک عورت کے بارے میں جس کا حمل ساقط ہوکر بچہ مرگیا تھا ایک غرہ یعنی غلام یالونڈی دینے کا فیصلہ کیا، (حمل گرانے والی مجرمہ ایک عورت تھی)پھر جس عورت کے بارے میں فیصلہ کیاگیا تھا کہ وہ (بطور دیت)غرہ (غلام) دے، مرگئی،تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیاکہ ''اس کی میراث اس کے لڑکوں اور شوہر میں تقسیم ہوگی، اور اس پرعائد ہونے والی دیت اس کے عصبہ کے ذمہ ہوگی'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یونس نے یہ حدیث ''عن الزهري، عن سعيد بن المسيب و المسيب و أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ'' کی سند سے اسی جیسی روایت کی ہے،۲- مالک نے یہ حدیث''عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة'' کی سند سے روایت کی ہے، اور مالک نے ''عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن النبي ﷺ'' کی سند سے جو حدیث روایت کی ہے وہ مرسل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الَّذِي يُسْلِمُ عَلَى يَدَيْ الرَّجُلِ
۲۰-باب: اس آدمی کی میراث کابیان جوکسی کے ہاتھ پر مسلمان ہو ا ہو​


2112- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ وَابْنُ نُمَيْرٍ وَوَكِيعٌ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَوْهِبٍ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَا السُّنَّةُ فِي الرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ يُسْلِمُ عَلَى يَدَيْ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "هُوَ أَوْلَى النَّاسِ بِمَحْيَاهُ وَمَمَاتِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِاللهِ بْنِ وَهْبٍ، وَيُقَالُ: ابْنُ مَوْهِبٍ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، وَقَدْ أَدْخَلَ بَعْضُهُمْ بَيْنَ عَبْدِاللهِ بْنِ وَهْبٍ وَبَيْنَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ وَلاَ يَصِحُّ، رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ وَزَادَ فِيهِ: قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ عِنْدِي لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ. وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُجْعَلُ مِيرَاثُهُ فِي بَيْتِ الْمَالِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ: "أَنَّ الْوَلاَئَ لِمَنْ أَعْتَقَ".
* تخريج: خ/الفرائض ۲۲ (تعلیقات في ترجمۃ الباب) د/الفرائض ۱۳ (۲۹۱۸)، ق/الفرائض ۱۸ (۲۷۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۲۰۵۲)، وحم (۴/۱۰۲، ۱۰۳)، ودي/الفرائض ۳۴ (۲۰۷۶) (حسن صحیح)
۲۱۱۲- تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: اس مشرک کے بارے میں شریعت کاکیاحکم ہے جو کسی مسلمان کے ہاتھ پراسلام لائے؟ آپﷺ نے فرمایا:''وہ(مسلمان) اس (نومسلم) کی زندگی اور موت کا میں تمام لوگوں سے زیادہحق دار ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم اس حدیث کو صرف عبداللہ بن وہب کی روایت سے جانتے ہیں، ان کو ابن موہب بھی کہاجاتاہے، یہ تمیم داری سے روایت کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے عبداللہ بن وہب اور تمیم داری کے درمیان قبیصہ بن ذؤیب کو داخل کیاہے جو صحیح نہیں، یحیی بن حمزہ نے عبدالعزیز بن عمر سے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی سند میں قبیصہ بن ذؤیب کا اضافہ کیا ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے، میرے نزدیک اس کی سند متصل نہیں ہے،۳- بعض لوگوں نے کہاہے : اس کی میراث بیت المال میں رکھی جائے گی، شافعی کا یہی قول ہے،انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی(اس) حدیث سے استدلال کیاہے ''إن الولاء لمن اعتق'' (حق ولا ء (میراث) اس شخص کو حاصل ہے جو آزاد کرے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي إِبْطَالِ مِيرَاثِ وَلَدِ الزِّنَا
۲۱-باب: ولدزنا کی میراث باطل ہونے کابیان​


2113- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "أَيُّمَا رَجُلٍ عَاهَرَ بِحُرَّةٍ أَوْ أَمَةٍ، فَالْوَلَدُ وَلَدُ زِنَا لاَ يَرِثُ وَلاَيُورَثُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى غَيْرُ ابْنِ لَهِيعَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ وَلَدَ الزِّنَا لاَ يَرِثُ مِنْ أَبِيهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۳۱) (حسن صحیح)
(سندمیں عبداللہ بن لھیعہ ضعیف راوی ہیں،لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن صحیح ہے)
۲۱۱۳- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص کسی آزاد عورت یاکسی لونڈی کے ساتھ زناکرے تو (اس سے پیدا ہونے والا) لڑکا ولدزنا ہوگا، نہ وہ (اس زانی کا) وارث ہوگا۔ نہ زانی (اس کا) وارث ہوگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن لہیعہ کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی اس حدیث کوعمرو بن شعیب سے روایت کیا ہے، ۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ ولد زنا اپنے باپ کا وارث نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَرِثُ الْوَلاَئَ
۲۲-باب: ولاء کا وارث کون ہوگا؟​


2114- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "يَرِثُ الْوَلاَئَ مَنْ يَرِثُ الْمَالَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۳۲) (ضعیف)
(سندمیں ابن لھیعۃ ضعیف ہیں، اور کوئی شاہد نہیں)
۲۱۱۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ولاء کاوارث وہی ہوگا جو مال کا وارث ہوگا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23-بَاب مَا جَاءَ مَا يَرِثُ النِّسَائُ مِنَ الْوَلاَئِ
۲۳- باب: ولاء میں سے عورتوں کی میراث کابیان​


2115- حَدَّثَنَا هَارُونُ أَبُو مُوسَى الْمُسْتَمْلِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ ابْنُ رُؤْبَةَ التَّغْلَبِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ النَّصْرِيِّ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْمَرْأَةُ تَحُوزُ ثَلاَثَةَ مَوَارِيثَ: عَتِيقَهَا وَلَقِيطَهَا وَوَلَدَهَا الَّذِي لاَعَنَتْ عَلَيْهِ".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ يُعْرَفُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ.
* تخريج: د/الفرائض ۹ (۲۹۰۶)، ق/الفرائض ۱۲ (۲۷۴۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۴۴) (ضعیف)
(سندمیں ''عمر بن رؤبہ'' ضعیف ہیں)
۲۱۱۵- واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' عورت تین قسم کی میراث اکٹھا کرتی ہے: اپنے آزاد کیے ہوئے غلام کی میراث ، اس لڑکے کی میراث جسے راستے سے اٹھا کر اس کی پرورش کی ہو، اور اس لڑکے کی میراث جس کو لعان کرکے اپنے ساتھ لے گئی ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث اس سند سے صرف محمد بن حرب کی روایت سے معروف ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

28-كِتَاب الْوَصَايَا عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ
۲۸-کتاب : وصیت کے احکام ومسائل


1-بَاب مَا جَاءَ فِي الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ
۱-باب: ایک تہائی مال کی وصیت کے جواز کابیان​


2116- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ ابْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَرِضْتُ عَامَ الْفَتْحِ مَرَضًا أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَأَتَانِي رَسُولُ اللهِ ﷺ يَعُودُنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ لِي مَالاً كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلاَّ ابْنَتِي أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: "لاَ"، قُلْتُ: فَثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ: "لاَ". قُلْتُ: فَالشَّطْرُ قَالَ: "لاَ". قُلْتُ: فَالثُّلُثُ؟ قَالَ: "الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ إِنْ تَدَعْ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً، يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلاَّ أُجِرْتَ فِيهَا حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أُخَلَّفُ عَنْ هِجْرَتِي؟ قَالَ: "إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ بَعْدِي فَتَعْمَلَ عَمَلاً تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللهِ إِلاَّ ازْدَدْتَ بِهِ رِفْعَةً وَدَرَجَةً، وَلَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ". "اللَّهُمَّ أَمْضِ لأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلاَ تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ" يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ لَيْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ يُوصِيَ بِأَكْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ. وَقَدْ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَنْقُصَ مِنَ الثُّلُثِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ ﷺ: "وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ".
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۹۷۵ (تحفۃ الأشراف: ۳۸۹۰) (صحیح)
۲۱۱۶- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : فتح مکہ کے سال میں ایسا بیمارپڑا کہ موت کے قریب پہنچ گیا، رسول اللہ ﷺ میری عیادت کو آئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں''، میں نے عرض کیا: دوتہائی مال کی ؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں''، میں نے عرض کیا: آدھا مال کی؟ آپ ﷺنے کہا: ''نہیں''، میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی ؟ آپ نے فرمایا:'' ایک تہائی کی وصیت کرواور ایک تہائی بھی بہت ہے ۱؎ ، تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج وغریب چھوڑ کرجاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں، تم جو بھی خرچ کرتے ہواس پرتم کو ضرور اجر ملتاہے، یہاں تک کہ اس لقمہ پربھی جس کو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو''، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں تو اپنی ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا ؟آپ نے فرمایا:'' تم میرے بعد زندہ رہ کر اللہ کی رضامندی کی خاطر جوبھی عمل کروگے اس کی وجہ سے تمہارے درجات میں بلندی اور اضافہ ہوتاجائے گا، شاید کہ تم میرے بعد زندہ رہو یہاں تک کہ تم سے کچھ قومیں نفع اٹھائیں گی اور دوسری نقصان اٹھائیں گی ۲؎ ، (پھر آپ نے دعاکی)'' اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت برقرار رکھ اور ایڑیوں کے بل انہیں نہ لوٹا دنیا'' لیکن بیچارے سعد بن خولہ جن پر رسول اللہ ﷺ افسوس کرتے تھے ، (ہجرت کے بعد) مکہ ہی میں ان کی وفات ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- سعدبن ابی وقاص سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے، ۳- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۴- اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرنا آدمی کے لیے جائزنہیں ہے،۴- بعض اہل علم ایک تہائی سے کم کی وصیت کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ایک تہائی بھی زیادہ ہے''۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ صاحب مال ورثاء کو محروم رکھنے کی کوشش نہ کرے، اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ اپنے تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے، اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا ہے، البتہ ورثاء اگر زائد کی اجازت دیں تو پھر کوئی حرج کی بات نہیں ہے، یہ بھی معلوم ہواکہ ورثاء کا مالدار رہنا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنا بہت بہترہے۔
وضاحت ۲؎ : آپ ﷺ نے سعد بن ابی وقاص کے متعلق جس امید کا اظہار کیاتھا وہ پوری ہوئی، چنانچہ سعد اس مرض سے شفا یاب ہوئے اور آپ کے بعد کافی لمبی عمر پائی، ان سے ایک طرف مسلمانوں کو فائدہ پہنچا تو دوسری جانب کفار کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا، ان کا انتقال مشہور قول کے مطابق ۵۰ ھ؁ میں ہواتھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي الضِّرَارِ فِي الْوَصِيَّةِ
۲-باب: وصیت کرنے میں ورثاء کو نقصان نہ پہنچانے کابیان​


2117- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا الأَشْعَثُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ وَالْمَرْأَةُ بِطَاعَةِ اللهِ سِتِّينَ سَنَةً، ثُمَّ يَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ، فَيُضَارَّانِ فِي الْوَصِيَّةِ فَتَجِبُ لَهُمَا النَّارُ، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيَّ أَبُوهُرَيْرَةَ: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللهِ -إِلَى قَوْلِهِ- ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}. [النساء:12-13]. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الَّذِي رَوَى عَنْ الأَشْعَثِ ابْنِ جَابِرٍ هُوَ جَدُّ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيِّ.
* تخريج: د/الوصایا ۳ (۲۸۶۷)، ق/الوصایا ۳ (۲۷۳۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۹۵) (ضعیف)
(سندمیں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں)
۲۱۱۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مرد اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت کرتے ہیں پھر ان کی موت کاوقت آتاہے اور وہ وصیت کرنے میں (ورثاء کو) نقصان پہنچاتے ہیں ۱؎ ، جس کی وجہ سے ان دونوں کے لیے جہنم واجب ہوجاتی ہے، پھر ابوہریرہ نے {مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ وَصِيَّةً مِّنَ اللّهِ}سے {ذلك الفوز العظيم} ۲؎ تک آیت پڑھی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- نصر بن علی جنہوں نے اشعث بن جابر سے روایت کی ہے وہ نصر بن علی جہضمی کے دادا ہیں۔
وضاحت ۱؎ : نقصان پہنچانے کی صورت یہ ہے کہ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کردی یاورثاء میں سے کسی ایک کو سارا مال ہبہ کردیا یا وصیت سے پہلے وہ جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے اوپر دوسروں کا قرض ثابت کرے، ظاہر ہے ان تمام صورتوں میں ورثاء نقصان سے دوچار ہوں گے، اس لیے اس کی سزا بھی سخت ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس وصیت کے بعد جو تم کرگئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیاگیا ہویہ مقررکیا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار ہے، یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرما نبرداری کرے گا اسے اللہ جنتوں میں لے جائے گا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (النساء: ۱۲-۱۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى الْوَصِيَّةِ
۳-باب: وصیت کی ترغیب کابیان​


2118- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ مَا يُوصِي فِيهِ إِلاَّ وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۹۷۴ (تحفۃ الأشراف: ۷۵۴۰) (صحیح)
۲۱۱۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' کسی مسلمان کو یہ اس بات کاحق نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی حالت میں گزارے کہ وہ کوئی وصیت کرنا چاہتاہو اور اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجو د نہ ہو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ''عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، عن النبي ﷺ'' کی سند سے اسی طرح مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کرنا لازمی اور ضروری تھا، لیکن اس آیت کے نزول کے بعد ورثاء کے حصے متعین ہوگئے اس لیے ورثاء سے متعلق وصیت کا سلسلہ بند ہوگیا، البتہ ان کے علاوہ کے لیے تہائی مال میں وصیت کی جاسکتی ہے، اور یہ وصیت اس حدیث کی روشنی میں تحریری شکل میں موجود رہنی چاہیے۔
 
Top