• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ فِي اسْتِكْمَالِ الإِيمَانِ وَزِيَادَتِهِ وَنُقْصَانِهِ
۶-باب: ایمان کے کامل ہونے اور اس میں کمی وزیادتی کا بیان​


2612- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفُهُمْ بِأَهْلِهِ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَلاَ نَعْرِفُ لأَبِي قِلاَبَةَ سَمَاعًا مِنْ عَائِشَةَ. وَقَدْ رَوَى أَبُو قِلاَبَةَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ يَزِيدَ رَضِيعٍ لِعَائِشَةَ عَنْ عَائِشَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَأَبُو قِلاَبَةَ: عَبْدُ اللهِ بْنُ زَيْدٍ الْجَرْمِيُّ. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: ذَكَرَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ أَبَا قِلاَبَةَ فَقَالَ: كَانَ وَاللهِ مِنْ الْفُقَهَائِ ذَوِي الأَلْبَابِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۹۵)، وانظر حم (۶/۴۷، ۹۹) (ضعیف)
(عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے اور ''وألطفهم بأهله'' کے اضافہ کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہے، کیوں کہ ابوقلابہ اور عائشہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحۃ رقم: ۲۸۴)
۲۶۱۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' سب سے زیادہ کامل ایمان والا مومن وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہو، اورجو اپنے بال بچوں پر سب سے زیادہ مہر بان ہو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اور میں نہیں جانتا کہ ابوقلابہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے، ۳-ابوقلابہ نے عائشہ کے رضاعی بھائی عبداللہ بن یزید کے واسطہ سے عائشہ سے اس حدیث کے علاوہ بھی اور حدیثیں روایت کی ہیں،۴- اس باب میں ابوہریرہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایمان اور حسن اخلاق ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں، یعنی جو اپنے اخلاق میں جس قدر کامل ہوگا اس کا ایمان بھی اتناہی کامل ہوگا، گویا ایمان کامل کے لیے بہتر اخلاق کا حامل ہونا ضروری ہے، یہ بھی معلوم ہواکہ اپنے گھر والوں کے لیے جو سب سے زیادہ مہربان ہوگا وہ سب سے بہتر ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ایمان پایاجاتاہے۔


2613- حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِاللهِ هُرَيْمُ بْنُ مِسْعَرٍ الأَزْدِيُّ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ فَوَعَظَهُمْ، ثُمَّ قَالَ: "يَا مَعْشَرَ النِّسَائِ! تَصَدَّقْنَ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ"، فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ: وَلِمَ ذَاكَ؟ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "لِكَثْرَةِ لَعْنِكُنَّ"، يَعْنِي وَكُفْرِكُنَّ الْعَشِيرَ. قَالَ: "وَمَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذَوِي الأَلْبَابِ وَذَوِي الرَّأْيِ مِنْكُنَّ"، قَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ: وَمَانُقْصَانُ دِينِهَا وَعَقْلِهَا؟ قَالَ: "شَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ مِنْكُنَّ بِشَهَادَةِ رَجُلٍ وَنُقْصَانُ دِينِكُنَّ: الْحَيْضَةُ، تَمْكُثُ إِحْدَاكُنَّ الثَّلاَثَ وَالأَرْبَعَ لاَ تُصَلِّي". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: م/الإیمان ۳۴ (۸۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۲۳)، وحم (۲/۳۷۳، ۳۷۴) (صحیح)
۲۶۱۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا تو اس میں آپ نے لوگوں کو نصیحت کی پھر (عورتوں کی طرف متوجہ ہوکر) فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ وخیرات کرتی رہو کیوں کہ جہنم میں تمہاری ہی تعداد زیادہ ہوگی ۱؎ ان میں سے ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہوگا ؟ آپ نے فرمایا:'' تمہارے بہت زیادہ لعن طعن کرنے کی وجہ سے ، یعنی تمہاری اپنے شوہروں کی ناشکری کرنے کے سبب، آپ نے (مزید) فرمایا:'' میں نے کسی ناقص عقل و دین کو تم عورتوں سے زیادہ عقل و سمجھ رکھنے والے مردوں پر غالب نہیں دیکھا۔ ایک عورت نے پوچھا: ان کی عقل اور ان کے دین کی کمی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:'' تم میں سے دو عورتوں کی شہادت (گواہی) ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے ۲؎ ، اور تمہارے دین کی کمی یہ ہے کہ تمہیں حیض کا عارضہ لاحق ہوتاہے جس سے عورت (ہرمہینے) تین چاردن صلاۃ پڑھنے سے رک جاتی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے ،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری اورا بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ جہنم میں تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہوگی، اس لیے اس سے بچاؤ کی صورتیں اپناؤ، اور صدقہ و خیرات یہ جہنم سے بچاؤ کا سب سے بہتر ذریعہ ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یہ تمہاری عقل کی کمی کی وجہ سے ہے۔


2614- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ بَابًا، أَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَأَرْفَعُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَرَوَى عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الإِيمَانُ أَرْبَعَةٌ وَسِتُّونَ بَابًا".
* تخريج: خ/الإیمان ۳ (۹)، م/الإیمان ۱۲ (۳۵)، د/السنۃ ۱۵ (۴۶۷۶)، ن/الإیمان ۶ (۵۰۰۷)، ق/المقدمۃ ۹ (۵۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۱۶)، وحم (۲/۴۱۴، ۴۴۲) (صحیح)
2614/م- قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج : تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۵۴) (شاذ)
(کیوں کہ پچھلی اصح حدیث کے مخالف ہے)
۲۶۱۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ایمان کی تہتر شاخیں (ستردروازے) ہیں۔ سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کا دورکردیناہے، اور سب سے بلند لا إلہ الا اللہ کا کہنا ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ایسے ہی سہیل بن ابی صالح نے عبداللہ بن دینار سے، عبداللہ نے ابوصالح سے اورابوصالح نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے،۳- عمارہ بن غزیہ نے یہ حدیث ابوصالح سے، ابوصالح نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، اور ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا ہے ایمان کی چونسٹھ شاخیں ہیں۔
۲۶۱۴/م- اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ عمل کے حساب سے ایمان کے مختلف مراتب و درجات ہیں، یہ بھی معلوم ہواکہ ایمان اور عمل ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْحَيَائَ مِنَ الإِيمَانِ
۷-باب: حیا ایمان کا ایک حصہ ہے​


2615- ثحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَرَّ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَائِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْحَيَائُ مِنَ الإِيمَانِ".
قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ: فِي حَدِيثِهِ إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَمِعَ رَجُلاً يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَائِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي بَكْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ.
* تخريج: خ/الإیمان ۱۶ (۲۴)، والأدب ۷۷ (۶۱۱۸)، م/الإیمان ۱۲ (۳۶)، د/الأدب ۷ (۴۷۹۵)، ن/الإیمان ۲۷ (۵۰۳۶)، ق/المقدمۃ ۹ (۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۶۸۲۸)، وط/حسن الخلق ۲ (۱۰)، وحم (۲/۵۶، ۱۴۷) (صحیح)
۲۶۱۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیا (شرم اور پاکدامنی) اختیار کرنے پر نصیحت کررہاتھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے (بطور تاکید) فرمایا:'' حیا ایمان کا ایک حصہ ہے '' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- احمد بن منیع نے اپنی روایت میں کہا: نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو حیاکے بارے میں ا پنے بھائی کو پھٹکارتے ہوئے سنا ،۳- اس باب میں ا بوہریرہ ، ابوبکرہ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے حیا کی فضیلت و اہمیت ثابت ہے، ایک باحیاء انسان اپنی زندگی میں حیا سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے، کیوں کہ حیا انسان کو گناہوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ فِي حُرْمَةِ الصَّلاَةِ
۸-باب: صلاۃ کے تقدس و فضیلت کابیان​


2616- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الصَّنْعَانِيُّ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِيرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ، قَالَ: "لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ، وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللهُ عَلَيْهِ، تَعْبُدُ اللهَ وَلاَ تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاَةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ"، ثُمَّ قَالَ: "أَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ: الصَّوْمُ جُنَّةٌ وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَائُ النَّارَ، وَصَلاَةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ" قَالَ: ثُمَّ تَلاَ {تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ} حَتَّى بَلَغَ {يَعْمَلُونَ}[السجدة: 16] ثُمَّ قَالَ: "أَلاَ أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الأَمْرِ كُلِّهِ وَعَمُودِهِ، وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ؟" قُلْتُ: بَلَى، يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "رَأْسُ الأَمْرِ الإِسْلاَمُ وَعَمُودُهُ الصَّلاَةُ، وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ"، ثُمَّ قَالَ: "أَلاَ أُخْبِرُكَ بِمَلاَكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟" قُلْتُ: بَلَى، يَا نَبِيَّ اللهِ، فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ: "كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا"، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ فَقَالَ: "ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَامُعَاذُ! وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلاَّ حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الفتن ۱۲ (۳۹۷۳) (تحفۃ الأشراف:۱۱۳۱۱) (صحیح)
۲۶۱۶- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، ا یک دن صبح کے وقت میں آپ ﷺسے قریب ہوا ،ہم سب چل رہے تھے، میں نے آپ سے عرض کیا :اللہ کے رسول ! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں لے جائے، اور جہنم سے دوررکھے؟ آپ نے فرمایا:'' تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے۔ اور بے شک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کردے۔ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، صلاۃ قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے صیام رکھو، اوربیت اللہ کا حج کرو۔ پھر آپ نے فرمایا:'' کیامیں تمہیں بھلائی کے دروازے (راستے) نہ بتاؤں؟ صوم ڈھال ہے ، صدقہ گناہ کو ایسے بجھادیتاہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتاہے، اور آدھی رات کے وقت آدمی کا صلاۃ (تہجد) پڑھنا ، پھر آپ نے آیت '' تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ کی تلاوت يَعْمَلُونَ'' تک فرمائی ۱؎ ، آپ نے پھر فرمایا:'' کیا میں تمہیں دین کی اصل ، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتادوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول (ضرور بتائیے)آپ نے فرمایا:'' دین کی اصل اسلام ہے۲؎ اور اس کا ستون (عمود ) صلاۃ ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔پھرآپ نے فرمایا:'' کیا میں تمہیں ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتادوں؟ میں نے کہا:ہاں، اللہ کے نبی! پھر آپ نے اپنی زبان پکڑی ، اور فرمایا:'' اسے اپنے قابو میں رکھو ،میں نے کہا: اللہ کے نبی !کیا ہم جوکچھ بولتے ہیں اس پرپکڑے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا:'' تمہاری ماں تم پر روئے، معاذ! لوگ اپنی زبانوں کے بڑ بڑ ہی کی وجہ سے تو اوندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے؟۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے، وہ خرچ کرتے ہیں، کوئی نفس نہیں چاہتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیدہ کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔ (السجدہ : ۱۶-۱۷)
وضاحت ۲؎ : یہاں اسلام سے مراد کلمہء شہادتین کا اقرار اور اس کے تقاضے کو پورا کرناہے۔


2617- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ أَبِي السَّمْحِ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا رَأَيْتُمْ الرَّجُلَ يَتَعَاهَدُ الْمَسْجِدَ فَاشْهَدُوا لَهُ بِالإِيمَانِ، فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى يَقُولُ: {إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ} الآيَةَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/المساجد ۱۸ (۸۰۲) (تحفۃ الأشراف: ۴۰۵۰) (ضعیف)
(سندمیں دراج ابوالسمح ضعیف راوی ہیں)
۲۶۱۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم کسی شخص کو مسجد میں پابندی سے آتے جاتے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:'' { إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ } الآيَةَ ۱؎ ''۔
وضاحت ۱؎ : اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، نمازوں کے پابند ی کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں، اللہ کے سواکسی سے نہ ڈرتے، توقع ہے کہ یہی لوگ یقینا ً ہدایت یافتہ ہیں۔(سورۃ توبہ :۱۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9-بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الصَّلاًةِ
۹-باب: صلاۃ چھوڑدینے پروارد وعید کابیان​


2618- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "بَيْنَ الْكُفْرِ وَالإِيمَانِ تَرْكُ الصَّلاَةِ".
* تخريج: م/الإیمان ۳۵ (۸۲)، د/السنۃ ۱۵ (۴۶۷۸)، ن/الصلاۃ ۸ (۴۶۵)، ق/الإقامۃ ۷۷ (۱۰۷۸) (تحفۃ الأشراف: ۲۳۰۳)، وحم (۳/۳۷۰) (صحیح)
۲۶۱۸- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز صلاۃ کا ترک کرناہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ کفر اور بندے کے مابین حد فاصل صلاۃ ہے، اگر صلاۃ ادا کرتاہے تو صاحب ایمان ہے، بصورت دیگر کافرہے، صحابہ کرام کسی نیک عمل کو چھوڑ دینے کو کفر نہیں خیال کرتے تھے، سوائے صلاۃ کے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں کی اکثریت پنجوقتہ صلاۃ کی پابند نہیں ہے اور نہ ہی اسے پورے طورپر چھوڑنے والی بلکہ کبھی پڑھ لیتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے ، یہ ایسے لوگ ہیں جن میں ایمان و نفاق دونوں موجود ہیں، ان پر اسلام کے ظاہری احکام جاری ہوں گے، کیوں کہ عبداللہ بن ابی جیسے خالص منافق پرجب یہ احکام جاری تھے تو صلاۃ سے غفلت اورسستی برتنے والوں پر تو بدرجہ اولیٰ جاری ہوں گے۔


2619- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ بِهَذَا الإِسْنَادِ، نَحْوَهُ. وَقَالَ: "بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ أَوِ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلاَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۶۱۹- جابر رضی اللہ عنہ سے اس سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' بندے اور شرک یا بندے اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز صلاۃ کا چھوڑ دینا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2620- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلاَةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ تَدْرُسَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۲۷۴۶) (صحیح)
۲۶۲۰- جابر رضی اللہ عنہ سے اس سند بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بندے اورکفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز صلاۃ کا چھوڑ دینا ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2621- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَى قَالاَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: ح و حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالاَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ الشَّقِيقِيُّ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ الصَّلاَةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ن/الصلاۃ ۸ (۴۶۴)، ق/الإقامۃ ۷۷ (۱۰۷۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۹۶۰)، وحم (۵/۳۴۶، ۳۵۵) (صحیح)
۲۶۲۱- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہمارے اور منافقین کے درمیان صلاۃ کا معاہدہ ہے ۱؎ تو جس نے صلاۃ چھوڑدی اس نے کفر کیا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جب تک وہ صلاۃ پڑھتے رہیں گے ہم ان پر اسلام کے احکام جاری رکھیں گے، اور جب صلاۃ چھوڑدیں گے تو کفار کے احکام ان پر جاری ہوں گے، کیوں کہ ہمارے اور ان کے درمیان معاہدہ صلاۃ ہے، اور جب صلاۃ چھوڑ دی تو گویا معاہدہ ختم ہوگیا۔


2622- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ لاَ يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلاَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَبَا مُصْعَبٍ الْمَدَنِيَّ يَقُولُ: مَنْ قَالَ: الإِيمَانُ قَوْلٌ: يُسْتَتَابُ، فَإِنْ تَابَ وَإِلاَّ ضُرِبَتْ عُنُقُهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: لم یذکرہ المزي في المراسیل) (صحیح)
۲۶۲۲- عبداللہ بن شقیق عقیلی کہتے ہیں : صحابہ کرام( رضی اللہ عنہم ) صلاۃ کے سواکسی عمل کے چھوڑدینے کو کفرنہیں سمجھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے ابومصعب مدنی کوکہتے ہوئے سنا کہ جو یہ کہے کہ ایمان صرف قول (یعنی زبان سے اقرار کرنے) کا نام ہے اس سے توبہ کرائی جائے گی ، اگر اس نے توبہ کرلی تو ٹھیک، ورنہ اس کی گردن ماردی جائے گی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10-بَاْبٌ
۱۰-باب​


2623- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "ذَاقَ طَعْمَ الإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۱۱ (۳۴) (تحفۃ الأشراف: ۵۱۲۷)، وحم (۱/۲۰۸) (صحیح)
۲۶۲۳- عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا :'' جو شخص اللہ کے رب ہونے اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی (اور خوش)ہوا اس نے ایمان کا مزہ پالیا '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو اللہ ہی سے ہر چیز کا طالب ہوا،اسلام کی راہ کو چھوڑ کر کسی دوسری راہ پر نہیں چلا اور نبی اکرم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر اس نے عمل کیا تو ایسے شخص کو ایمان کی مٹھاس مل کررہے گی، کیوں کہ اس کا دل ایمان سے پر ہوگا، اور ایمان اس کے اندر پورے طور پر رچا بساہوگا۔


2624- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ طَعْمَ الإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا، سِوَاهُمَا وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْئَ لاَ يُحِبُّهُ إِلاَّ لِلّهِ وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللهُ مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/الإیمان ۹ (۱۶) و ۱۴ (۲۱)، والأدب ۴۲ (۶۰۴۱)، ووالإکراہ ۱ (۶۹۴۱)، م/الإیمان ۱۵ (۴۳)، ن/الإیمان ۲ (۴۹۹۰)، و ۳ (۴۹۹۱)، ق/الفتن ۲۳ (۴۰۳۳) (تحفۃ الأشراف: ۹۴۶)، وحم (۳/۱۰۳، ۱۱۴، ۱۷۲، ۱۷۴، ۲۳۰، ۲۴۸، ۲۷۵، ۲۸۸) (صحیح)
۲۶۲۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس میں تین خصلتیں ہوں گی اسے ان کے ذریعہ ایمان کی حلاوت مل کررہے گی۔ (۱) جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ (۲) وہ جس کسی سے بھی محبت کرے توصرف اللہ کی رضا کے لیے کرے، (۳) کفر سے اللہ کی طرف سے ملنے والی نجات کے بعد کفر کی طرف لوٹنا اس طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں گرنا ناپسند کرتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- قتادہ نے بھی یہ حدیث انس کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11-بَاب مَا جَاءَ لاَ يَزْنِي الزَّانِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ
۱۱-باب: زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں رہتا​


2625- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَكِنَّ التَّوْبَةَ مَعْرُوضَةٌ".
وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِذَا زَنَى الْعَبْدُ خَرَجَ مِنْهُ الإِيمَانُ فَكَانَ فَوْقَ رَأْسِهِ كَالظُّلَّةِ، فَإِذَا خَرَجَ مِنْ ذَلِكَ الْعَمَلِ عَادَ إِلَيْهِ الإِيمَانُ". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ: فِي هَذَا خَرَجَ مِنَ الإِيمَانِ إِلَى الإِسْلاَمِ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ فِي الزِّنَا وَالسَّرِقَةِ، مَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَأُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ فَهُوَ كَفَّارَةُ ذَنْبِهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَ اللهُ عَلَيْهِ فَهُوَ إِلَى اللهِ، إِنْ شَائَ عَذَّبَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنْ شَائَ غَفَرَ لَهُ، رَوَى ذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَعُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ وَخُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/الإیمان ۳۰ (۲۴۷۵)، والأشربۃ ۱ (۵۵۷۸)، والحدود ۲ (۶۷۷۲)، و۲۰ (۶۸۱۰)، م/الإیمان ۲۳ (۵۷)، د/السنۃ ۱۶ (۴۶۸۹)، ن/قطع السارق ۱ (۴۸۸۶)، والأشربۃ ۴۲ (۵۶۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۳۹)، وحم (۲/۲۴۳، ۳۷۶، ۳۸۶، ۴۷۹) (صحیح)
۲۶۲۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب زنا کرنے والازنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا ۱؎ اور جب چوری کرنے والا چوری کرتاہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، لیکن اس کے بعد بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابن عباس ، عائشہ اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور حدیث مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جب آدمی زنا کرتاہے تو ایمان اس کے اندر سے نکل کر اس کے سرکے اوپر چھتری جیسا (معلق) ہوجاتاہے،اور جب اس فعل (شنیع) سے فارغ ہوجاتاہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتاہے۔ ابوجعفر محمد بن علی (اس معاملہ میں)کہتے ہیں: جب وہ ایسی حرکت کرتاہے تو ایمان سے نکل کر صرف مسلم رہ جاتاہے۔
علی ابن ابی طالب ، عبادہ بن صامت اور خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے زنا اور چوری کے سلسلے میں فرمایا:'' اگرکوئی شخص اس طرح کے کسی گناہ کا مرتکب ہوجائے اور اس پر حد جاری کردی جائے تو یہ (حدکا اجراء) اس کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ اور جس شخص سے اس سلسلے میں کوئی گناہ سرزد ہوگیا پھراللہ نے اس کی پردہ پوشی کردی تو وہ اللہ کی مشیت پر منحصر ہے اگر وہ چاہے تو اسے قیامت کے دن عذاب دے اور چاہے تو اسے معاف کردے''۔
وضاحت ۱؎ : اس کامطلب یہ ہے کہ وہ زناکے وقت مومن کا مل نہیں رہتا، یا یہ مطلب ہے کہ اگروہ عمل زناکوحرام سمجھتاہے تواس کا ایمان جاتارہتاہے، پھر زنا سے فارغ ہونے کے بعد اس کا ایمان لوٹ آتاہے۔


2626- حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ وَاسْمُهُ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَصَابَ حَدًّا فَعُجِّلَ عُقُوبَتَهُ فِي الدُّنْيَا فَاللهُ أَعْدَلُ مِنْ أَنْ يُثَنِّيَ عَلَى عَبْدِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الآخِرَةِ، وَمَنْ أَصَابَ حَدًّا فَسَتَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ وَعَفَا عَنْهُ فَاللهُ أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يَعُودَ إِلَى شَيْئٍ قَدْ عَفَا عَنْهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَهَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَ نَعْلَمُ أَحَدًا كَفَّرَ أَحَدًا بِالزِّنَا أَوْ السَّرِقَةِ وَشُرْبِ الْخَمْرِ.
* تخريج: ق/الحدود ۳۳ (۲۶۰۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۱۳) (ضعیف)
(سند میں حجاج بن محمد المصیصی اگرچہ ثقہ راوی ہیں، لیکن آخر ی عمر میں موت سے پہلے بغداد آنے پر اختلاط کا شکارہوگئے تھے، اور ابواسحاق السبیعی ثقہ لیکن مدلس اور مختلط راوی ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے)
۲۶۲۶- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''جس نے کوئی جرم کیا اور اسے اس کے جرم کی سزادنیا میں مل گئی تو اللہ اس سے کہیں زیادہ انصاف پسند ہے کہ وہ اپنے بندے کو آخرت میں دوبارہ سزادے اور جس نے کوئی گناہ کیا اور اللہ نے اس کی پردہ پوشی کردی اور اس سے درگزر کردیا تو اللہ کا کرم اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ وہ بندے سے اس بات پر دوبارہ مواخذہ کرے جسے وہ پہلے معاف کرچکا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- یہی اہل علم کا قول ہے ۔ ہم کسی شخص کو نہیں جانتے جس نے زنا کر بیٹھنے، چوری کرڈالنے اور شراب پی لینے والے کو کافر گرداناہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12-بَاب مَا جَاءَ فِي أَنَّ الْمُسْلِمَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ
۱۲-باب: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں​


2627- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ سُئِلَ أَيُّ الْمُسْلِمِينَ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ".
وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي مُوسَى وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: ن/الإیمان ۸ (۴۹۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۶۴)، وحم (۲/۳۷۹) (حسن صحیح)
۲۶۲۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کرم(ﷺ) نے فرمایا:'' مسلمان (کامل ) وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن (کامل ) وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر ، ابوموسیٰ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے (بھی) احادیث آئی ہیں،۳- نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ سے پوچھا گیا : سب سے بہتر مسلمان کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' جس کی زبان اورہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں''۔


2628- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِاللهِ ابْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ أَيُّ الْمُسْلِمِينَ أَفْضَلُ قَالَ: "مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۵۰۴ (صحیح)
۲۶۲۸- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھاگیا کہ مسلمانوں میں کون سا مسلمان سب سے بہترہے؟ آپ نے فرمایا:'' وہ مسلمان جس کی زبان اورہاتھ (کے شر) سے مسلمان محفوظ رہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوموسیٰ اشعری کی روایت سے جسے وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں صحیح غریب حسن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الإِسْلاَمَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا
۱۳-باب: اسلام اجنبی بن کر آیا پھراجنبی بن جائے گا​


2629- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ الإِسْلاَمَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَأَ فَطُوبَى لِلْغُرَبَائِ". وَفِي الْبَاب: عَنْ سَعْدٍ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَأَنَسٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، وَأَبُو الأَحْوَصِ اسْمُهُ عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ نَضْلَةَ الْجُشَمِيُّ تَفَرَّدَ بِهِ حَفْصٌ.
* تخريج: ق/الفتن ۱۵ (۳۹۸۸) (تحفۃ الأشراف: ۹۵۱۰)، وحم (۱/۳۹۸)، ودي/الرقاق ۴۲ (۲۷۹۷) (صحیح)
۲۶۲۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوش خبری ومبارک بادی ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ،۲- اس باب میں سعد، ابن عمر، جابر، اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے، ۳- میں اس حدیث کوصرف حفص بن غیاث کی روایت سے جسے وہ اعمش کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں ، جانتاہوں، ۴- ابوالاحوص کانام عوف بن مالک بن نضلہ جشمی ہے، ۵- ابوحفص اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اسلام جب آیا تو اس کے ماننے والوں کی زندگی جس اجنبیت کے عالم میں گزررہی تھی یہاں تک کہ لوگ ان سے نفرت کرتے تھے، اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو اپنے لیے حقارت سمجھتے تھے انہیں تکلیفیں پہنچاتے تھے، ٹھیک اسی اجنبیت کے عالم میں اسلام کے آخری دور میں اس کے پیروکار ہوں گے، لیکن خوش خبری اور مبارک بادی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اس اجنبی حالت میں اسلام کو گلے سے لگایا اور جو اس کے آخری دور میں اسے گلے سے لگائیں گے، اور دشمنوں کی تکالیف برداشت کرکے جان ومال سے اس کی خدمت و اشاعت کرتے رہیں گے۔


2630- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مِلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ الدِّينَ لَيَأْرِزُ إِلَى الْحِجَازِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ إِلَى جُحْرِهَا، وَلَيَعْقِلَنَّ الدِّينُ مِنَ الْحِجَازِ مَعْقِلَ الأُرْوِيَّةِ مِنْ رَأْسِ الْجَبَلِ إِنَّ الدِّينَ بَدَأَ غَرِيبًا وَيَرْجِعُ غَرِيبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَائِ الَّذِينَ يُصْلِحُونَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ بَعْدِي مِنْ سُنَّتِي".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۷۸) (ضعیف جدا)
(سندمیں کثیربن عبداللہ سخت ضعیف راوی ہیں)
۲۶۳۰- عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''( ایک وقت آئے گا کہ ) دین اسلام حجاز میں سمٹ کررہ جائے گا جس طرح کہ سانپ اپنے سوراخ میں سمٹ کر بیٹھ جاتاہے۔ اور یقینا دین حجاز میں آکر ایسے ہی محفوظ ہوجائے گا جس طرح پہاڑی بکری پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر محفوظ ہوجاتی ہے ۱؎ ، دین اجنبی حالت میں آیا اور وہ پھر اجنبی حالت میں جائے گا، خوش خبری اور مبارک بادی ہے ایسے گمنام مصلحین کے لیے جو میرے بعد میری سنت میں لوگوں کی پیداکردہ خرابیوں اور برائیوں کی اصلاح کرتے ہیں''۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : کبھی ایسا ہوتاہے کہ بارش کا بادل پہاڑ کی نچلی سطح پر ہوتاہے توبکری پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنے کو بارش سے بچا لیتی ہے اور کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ بکری پہاڑ کی نشیبی سطح پر ہو ا ور برساتی پانی کا ریلا آکر اسے بہالے جائے اور مارڈالے اس ڈر سے وہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑ ھ کر اس طرح کی مصیبتوں اور ہلاکتوں سے اپنے کو محفوظ کرلیتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14-بَاب مَا جَاءَ فِي عَلاَمَةِ الْمُنَافِقِ
۱۴-باب: منافق کی پہچان کابیان​


2631- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنِ الْعَلاَئِ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْعَلاَئِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأنَسٍ وَجَابِرٍ.
* تخريج: خ/الإیمان ۲۴ (۳۳)، والشھادات ۲۸ (۲۶۸۲)، والوصایا ۸ (۲۷۴۹)، والأدب ۶۹ (۶۰۹۵)، م/الإیمان ۲۵ (۵۹)، ن/الإیمان ۲۰ (۵۰۲۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۹۶)، وحم (۲/۳۵۷) (صحیح)
2631/م- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي سُهَيْلِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو سُهَيْلٍ هُوَ عَمُّ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،وَاسْمُهُ نَافِعُ بْنُ مَالِكِ ابْنِ أَبِي عَامِرٍ الأَصْبَحِيُّ الْخَوْلاَنِيُّ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۴۱) (صحیح)
۲۶۳۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' منافق کی نشانیاں تین ہیں: (۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲) جب وعدہ کرے تو وعدے کی خلاف ورزی کرے(۳) اورجب اسے امانت سونپی جائے تو اس میں خیانت کرے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث علاء کی روایت سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آئی ہے جسے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، ۳- اس باب میں ابن مسعود ، انس اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۲۶۳۱/م- اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں ا یک منافق کی جو خصلتیں بیان ہوئی ہیں، بدقسمتی سے آج مسلمانوں کی اکثریت اس عملی نفاق میں مبتلا ہے، مسلمان دنیا بھرمیں جو ذلیل و رسوا ہورہے ہیں اس میں ان کے اسی منافقانہ کردار اور اخلاق و عمل کا دخل ہے، منافق وہ ہے جو اپنی زبان سے اہل اسلام کے سامنے اسلام کا اظہار کرے، لیکن دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض وعناد رکھے، یہ اعتقادی نفاق ہے، وحی الٰہی کے بغیر اس کا پہچاننا اور جاننا ناممکن ہے، حدیث میں مذکورہ خصلتیں عملی نفاق کی ہیں، اعتقادی نفاق کفر ہے، جب کہ عملی نفاق کفر نہیں ہے تاہم یہ بھی بہت خطرناک ہے جس سے بچنا چاہیے، رب العالمین مسلمانوں کو ہدایت بخشے ۔ آمین


2632- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا وَإِنْ كَانَتْ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ فِيهِ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الإیمان ۲۴ (۳۴)، والمظالم ۱۷ (۲۴۵۹)، والجزیۃ ۱۷ (۲۱۷۸)، م/الإیمان ۲۵ (۵۸)، د/السنۃ ۱۶ (۴۶۸۸)، ن/الإیمان ۲۰ (۵۰۲۳) (تحفۃ الأشراف: ۸۹۳۱)، وحم (۲/۱۸۹، ۱۹۸) (صحیح)
2632/م- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُرَّةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ نِفَاقُ الْعَمَلِ، وَإِنَّمَا كَانَ نِفَاقُ التَّكْذِيبِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، هَكَذَا رُوِيَ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ شَيْئٌ مِنْ هَذَا أَنَّهُ قَالَ: النِّفَاقُ نِفَاقَانِ: نِفَاقُ الْعَمَلِ، وَنِفَاقُ التَّكْذِيبِ.
۲۶۳۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ(مکمل) منافق ہوگا۔ اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو گی ، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: وہ جب بات کرے توجھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے اور جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۶۳۲/م- اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس سے اہل علم کے نزدیک عملی نفاق مراد ہے، نفاق تکذیب (اعتقادی نفاق) صرف رسول اللہﷺ کے زمانہ میں تھا ۱؎ ،۳- حسن بصری سے بھی اس بارے میں کچھ اسی طرح سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نفاق دوطرح کا ہوتاہے، ایک عملی نفاق اوردوسرا اعتقادی نفاق۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا عمل منافقوں جیسا ہے۔ اس کے عمل میں نفاق ہے، لیکن ہم اس کے منافق ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ اسے اس کے ایمان میں جھوٹا ٹھہرا کر منافق قرار نہیں دے سکتے۔ ایسا تو صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہوسکتا تھا۔کیوں کہ آپ ﷺ صاحب وحی تھے ، وحی الٰہی کی روشنی میں آپ کسی کے بارے میں کہہ سکتے تھے کہ فلاں منافق ہے مگر ہمیں اور آپ کو کسی کے منافق ہونے کا فیصلہ کرنے کاحق و اختیار نہیں ہے۔


2633- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ عَلِيِّ ابْنِ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ أَبِي النُّعْمَانِ، عَنْ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا وَعَدَ الرَّجُلُ وَيَنْوِي أَنْ يَفِيَ بِهِ فَلَمْ يَفِ بِهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثِقَةٌ، وَلاَيُعْرَفُ أَبُو النُّعْمَانِ وَلاَ أَبُو وَقَّاصٍ وَهُمَا مَجْهُولاَنِ.
* تخريج: د/الأدب ۹۰ (۴۹۹۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۶۹۳) (ضعیف)
(مولف نے وجہ بیان کردی ہے)
۲۶۳۳- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب آدمی کسی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت یہ ہوکہ وہ اپناوعدہ پوراکرے گا لیکن وہ (کسی عذر ومجبوری سے) پورانہ کرسکا تو اس پرکوئی گناہ نہیں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اس کی اسناد قوی نہیں ہے،۳- علی بن عبدالاعلی ثقہ ہیں، ابونعمان اور ابووقاص غیر معروف ہیں اور دونوں ہی مجہول راوی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایسا شخص منافقین کے زمرہ میں نہ آئے گا، کیوں کہ اس کی نیت صالح تھی اور عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15-بَاب مَا جَاءَ سِبَابُ الْمُؤْمِنِ فُسُوقٌ
۱۵-باب: مومن کوگالی دینا فسق ہے​


2634- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَكِيمِ بْنُ مَنْصُورٍ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "قِتَالُ الْمُسْلِمِ أَخَاهُ كُفْرٌ، وَسِبَابُهُ فُسُوقٌ".
وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۹۸۳) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۶۰) (صحیح)
۲۶۳۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :'' مسلمان کا اپنے کسی مسلمان بھائی سے جنگ کرنا کفر ہے اور اس سے گالی گلوج کرنا فسق ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے کئی سندوں سے آئی ہے،۳- اس باب میں سعد اور عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2635- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ قِتَالُهُ كُفْرٌ لَيْسَ بِهِ كُفْرًا مِثْلَ الاِرْتِدَادِ، وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "مَنْ قُتِلَ مُتَعَمَّدًا فَأَوْلِيَائُ الْمَقْتُولِ بِالْخِيَارِ، إِنْ شَائُوا قَتَلُوا وَإِنْ شَائُوا عَفَوْا، وَلَوْ كَانَ الْقَتْلُ كُفْرًا لَوَجَبَ"، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَطَاوُسٍ وَعَطَائٍ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: كُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ، وَفُسُوقٌ دُونَ فُسُوقٍ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۹۸۳ (صحیح)
۲۶۳۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مسلمان کو گالی گلوج دینا فسق ہے، اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے''۔
۱مام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- حدیث کے الفاظ ''قتاله كفر'' کا معنی ومرادیہ ہے کہ اسود عنسی کے ارتداد کے کفر جیسا کفرنہیں ہے اور اس کی دلیل نبی اکرمﷺ کی وہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کو جان بوجھ کر قتل کردیا گیا ہو تو اس مقتول کے اولیا ووارثین کو اختیار حاصل ہو گا کہ وہ چاہیں تو مقتول کے قاتل کو قصاص میں قتل کردیں اور چاہیں تواسے معاف کردیں اور چھوڑدیں۔ اگر یہ قتل کفر (حقیقی) کے درجہ میں ہوتا تو پھر قاتل کا قتل واجب ہوجاتا، ۴- ابن عباس ، طاؤس ، عطاء اور دوسرے بہت سے اہل علم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: یہ کفر توہے لیکن کمتر درجے کا کفر ہے، یہ فسق تو ہے لیکن چھوٹے درجے کا فسق ہے۔
 
Top