- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
6-بَاب مَا جَاءَ فِي اسْتِكْمَالِ الإِيمَانِ وَزِيَادَتِهِ وَنُقْصَانِهِ
۶-باب: ایمان کے کامل ہونے اور اس میں کمی وزیادتی کا بیان
2612- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفُهُمْ بِأَهْلِهِ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَلاَ نَعْرِفُ لأَبِي قِلاَبَةَ سَمَاعًا مِنْ عَائِشَةَ. وَقَدْ رَوَى أَبُو قِلاَبَةَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ يَزِيدَ رَضِيعٍ لِعَائِشَةَ عَنْ عَائِشَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَأَبُو قِلاَبَةَ: عَبْدُ اللهِ بْنُ زَيْدٍ الْجَرْمِيُّ. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: ذَكَرَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ أَبَا قِلاَبَةَ فَقَالَ: كَانَ وَاللهِ مِنْ الْفُقَهَائِ ذَوِي الأَلْبَابِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۹۵)، وانظر حم (۶/۴۷، ۹۹) (ضعیف)
(عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے اور ''وألطفهم بأهله'' کے اضافہ کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہے، کیوں کہ ابوقلابہ اور عائشہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحۃ رقم: ۲۸۴)
۲۶۱۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' سب سے زیادہ کامل ایمان والا مومن وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہو، اورجو اپنے بال بچوں پر سب سے زیادہ مہر بان ہو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اور میں نہیں جانتا کہ ابوقلابہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے، ۳-ابوقلابہ نے عائشہ کے رضاعی بھائی عبداللہ بن یزید کے واسطہ سے عائشہ سے اس حدیث کے علاوہ بھی اور حدیثیں روایت کی ہیں،۴- اس باب میں ابوہریرہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایمان اور حسن اخلاق ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں، یعنی جو اپنے اخلاق میں جس قدر کامل ہوگا اس کا ایمان بھی اتناہی کامل ہوگا، گویا ایمان کامل کے لیے بہتر اخلاق کا حامل ہونا ضروری ہے، یہ بھی معلوم ہواکہ اپنے گھر والوں کے لیے جو سب سے زیادہ مہربان ہوگا وہ سب سے بہتر ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ایمان پایاجاتاہے۔
2613- حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِاللهِ هُرَيْمُ بْنُ مِسْعَرٍ الأَزْدِيُّ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ فَوَعَظَهُمْ، ثُمَّ قَالَ: "يَا مَعْشَرَ النِّسَائِ! تَصَدَّقْنَ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ"، فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ: وَلِمَ ذَاكَ؟ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "لِكَثْرَةِ لَعْنِكُنَّ"، يَعْنِي وَكُفْرِكُنَّ الْعَشِيرَ. قَالَ: "وَمَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذَوِي الأَلْبَابِ وَذَوِي الرَّأْيِ مِنْكُنَّ"، قَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ: وَمَانُقْصَانُ دِينِهَا وَعَقْلِهَا؟ قَالَ: "شَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ مِنْكُنَّ بِشَهَادَةِ رَجُلٍ وَنُقْصَانُ دِينِكُنَّ: الْحَيْضَةُ، تَمْكُثُ إِحْدَاكُنَّ الثَّلاَثَ وَالأَرْبَعَ لاَ تُصَلِّي". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: م/الإیمان ۳۴ (۸۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۲۳)، وحم (۲/۳۷۳، ۳۷۴) (صحیح)
۲۶۱۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا تو اس میں آپ نے لوگوں کو نصیحت کی پھر (عورتوں کی طرف متوجہ ہوکر) فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ وخیرات کرتی رہو کیوں کہ جہنم میں تمہاری ہی تعداد زیادہ ہوگی ۱؎ ان میں سے ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہوگا ؟ آپ نے فرمایا:'' تمہارے بہت زیادہ لعن طعن کرنے کی وجہ سے ، یعنی تمہاری اپنے شوہروں کی ناشکری کرنے کے سبب، آپ نے (مزید) فرمایا:'' میں نے کسی ناقص عقل و دین کو تم عورتوں سے زیادہ عقل و سمجھ رکھنے والے مردوں پر غالب نہیں دیکھا۔ ایک عورت نے پوچھا: ان کی عقل اور ان کے دین کی کمی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:'' تم میں سے دو عورتوں کی شہادت (گواہی) ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے ۲؎ ، اور تمہارے دین کی کمی یہ ہے کہ تمہیں حیض کا عارضہ لاحق ہوتاہے جس سے عورت (ہرمہینے) تین چاردن صلاۃ پڑھنے سے رک جاتی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے ،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری اورا بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ جہنم میں تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہوگی، اس لیے اس سے بچاؤ کی صورتیں اپناؤ، اور صدقہ و خیرات یہ جہنم سے بچاؤ کا سب سے بہتر ذریعہ ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یہ تمہاری عقل کی کمی کی وجہ سے ہے۔
2614- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ بَابًا، أَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَأَرْفَعُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَرَوَى عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الإِيمَانُ أَرْبَعَةٌ وَسِتُّونَ بَابًا".
* تخريج: خ/الإیمان ۳ (۹)، م/الإیمان ۱۲ (۳۵)، د/السنۃ ۱۵ (۴۶۷۶)، ن/الإیمان ۶ (۵۰۰۷)، ق/المقدمۃ ۹ (۵۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۱۶)، وحم (۲/۴۱۴، ۴۴۲) (صحیح)
2614/م- قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج : تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۵۴) (شاذ)
(کیوں کہ پچھلی اصح حدیث کے مخالف ہے)
۲۶۱۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ایمان کی تہتر شاخیں (ستردروازے) ہیں۔ سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کا دورکردیناہے، اور سب سے بلند لا إلہ الا اللہ کا کہنا ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ایسے ہی سہیل بن ابی صالح نے عبداللہ بن دینار سے، عبداللہ نے ابوصالح سے اورابوصالح نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے،۳- عمارہ بن غزیہ نے یہ حدیث ابوصالح سے، ابوصالح نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، اور ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا ہے ایمان کی چونسٹھ شاخیں ہیں۔
۲۶۱۴/م- اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ عمل کے حساب سے ایمان کے مختلف مراتب و درجات ہیں، یہ بھی معلوم ہواکہ ایمان اور عمل ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔