• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْظِيمِ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۸-باب: رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹی بات کی نسبت کرنا گناہ عظیم ہے​


2659- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
* تخريج: ق/المقدمۃ ۴ (۳۰)، وانظر أیضا ماتقدم برقم ۲۲۵۷ (تحفۃ الأشراف: ۹۲۱۲)، وحم (۱/۳۸۹، ۴۰۱، ۴۰۲، ۴۰۵، ۴۳۶، ۴۵۳) (صحیح متواتر)
۲۶۵۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنالے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا گناہ عظیم ہے، اسی لئے ضعیف اور موضوع روایات کا علم ہوجانے کے بعد انہیں بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آپ ﷺ کی طرف جھوٹی بات کی نسبت آپ پر جھوٹ باندھتے ہوئے کی جائے یا آپ کے لیے کی جائے دونوں صورتیں گناہ عظیم کا باعث ہیں، اس سے ان لوگوں کے باطل افکار کی تردید ہوجاتی ہے جو عبادت کی ترغیب کے لیے فضائل کے سلسلہ میں وضع احادیث کے جواز کے قائل ہیں،اللہ رب العالمین ایسے فتنے سے ہمیں محفوظ رکھے، آمین۔


2660- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ ابْنُ بِنْتِ السُّدِّيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِاللهِ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَكْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ يَلِجُ فِي النَّارِ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَالزُّبَيْرِ وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَمُعَاوِيَةَ وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي مُوسَى وَأَبِي أُمَامَةَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ وَالْمُقَنَّعِ وَأَوْسٍ الثَّقَفِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ: مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ: أَثْبَتُ أَهْلِ الْكُوفَةِ. و قَالَ وَكِيعٌ: لَمْ يَكْذِبْ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ فِي الإِسْلاَمِ كَذْبَةً.
* تخريج: خ/العلم ۳۸ (۱۰۶)، م/المقدمۃ ۲ (۱)، ق/المقدمۃ ۴ (۳۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۸۷)، وحم (۱/۸۳، ۱۲۳، ۱۵۰) (صحیح)
۲۶۶۰- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجھ پرجھوٹ نہ باندھو کیوں کہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہوگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان ، زبیر ، سعید بن زید ، عبداللہ بن عمرو، انس، جابر، ابن عباس، ابوسعید ، عمرو بن عبسہ ، عقبہ بن عامر ، معاویہ ، بریدہ ، ابوموسیٰ ،ابوامامہ، عبداللہ بن عمر، مقنع اور اوس ثقفی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2661- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ - حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ - مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتَهُ مِنَ النَّارِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/العلم ۳۸ (۱۰۸)، م/المقدمۃ ۲ (۲)، ق/المقدمۃ ۴ (۳۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۵)
(صحیح متواتر)
۲۶۶۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے میرے متعلق جھوٹی بات کہی ، (انس کہتے ہیں) میرا خیال ہے کہ آپ نے '' مَنْ كَذَبَ عَلَيَّّ '' کے بعد '' مُتَعَمِّدً '' کا لفظ بھی کہا یعنی جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا، تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ یعنی زہری کی اس روایت سے جسے وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ رَوَى حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ
۹-باب: جان بوجھ کر جھوٹی موضوع حدیث بیان کرنے والے کی برائی کابیان​


2662- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَرَوَى شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ هَذَا الْحَدِيثَ. وَرَوَى الأَعْمَشُ وَابْنُ أَبِي لَيْلَى عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَكَأَنَّ حَدِيثَ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ سَمُرَةَ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ أَصَحُّ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَانِ عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ: "مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ". قُلْتُ لَهُ: مَنْ رَوَى حَدِيثًا وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ إِسْنَادَهُ خَطَأٌ أَيُخَافُ أَنْ يَكُونَ قَدْ دَخَلَ فِي حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ، أَوْ إِذَا رَوَى النَّاسُ حَدِيثًا مُرْسَلاً فَأَسْنَدَهُ بَعْضُهُمْ أَوْ قَلَبَ إِسْنَادَهُ يَكُونُ قَدْ دَخَلَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: لاَ، إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِذَا رَوَى الرَّجُلُ حَدِيثًا وَلاَ يُعْرَفُ لِذَلِكَ الْحَدِيثِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَصْلٌ فَحَدَّثَ بِهِ فَأَخَافُ أَنْ يَكُونَ قَدْ دَخَلَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: م/المقدمۃ ۱ (بدون رقم)، ق/المقدمۃ ۵ (۴۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۳۱) (صحیح)
۲۶۶۲- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس نے میری طرف منسوب کرکے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو وہ دو جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے حکم سے، حکم نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے، عبدالرحمن نے سمرہ سے، اور سمرہ نے نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث روایت کی ہے، ۳- اعمش اور ابن ابی لیلیٰ نے حکم سے، حکم نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے، عبدالرحمن نے علی سے اورعلی نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،اور عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی حدیث جسے وہ سمرہ سے روایت کرتے ہیں،محدثین کے نزدیک زیادہ صحیح ہے،۴- اس باب میں علی ابن ابی طالب اور سمرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- میں نے ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی سے نبی اکرم ﷺ کی حدیث ''من حدث عني حديثا وهو يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين'' کے متعلق پوچھا کہ اس سے مراد کیا ہے، میں نے ان سے کہا کیا یہ کہ جس نے کوئی حدیث بیان کی اوروہ جانتا ہے کہ اس کی اسناد میں کچھ خطا (غلطی اور کمی) ہے تو کیا یہ خوف وخطرہ محسوس کیاجائے کہ ایساشخص نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث کی زداور وعید میں آگیا ۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں نے حدیث مرسل بیان کی تو انہیں میں سے کچھ لوگوں نے اس مرسل کو مرفوع کردیا یا اس کی اسناد کوہی الٹ پلٹ دیا تویہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کی زد میں آئیں گے؟ تو انہوں نے کہا:نہیں۔ اس کا معنی (ومطلب) یہ ہے کہ جب کوئی شخص حدیث روایت کرے اور رسول اللہ ﷺ تک اس حدیث کے مرفوع ہونے کی کوئی اصل (وجہ وسبب) نہ جانی جاتی ہو، اور وہ شخص اسے مرفوع کرکے بیان کردے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایایا ایساکیا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ ایسا ہی شخص اس حدیث کا مصداق ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مَا نُهِيَ عَنْهُ أَنْ يُقَالَ عِنْدَ حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ
۱۰-باب: نبی اکرم ﷺ کی حدیث سن کر کیا کہنامنع ہے؟​


2663- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَسَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، وَغَيْرِهِ رَفَعَهُ قَالَ: "لاَ أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ أَمْرٌ مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ، فَيَقُولُ: لاَأَدْرِي، مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللهِ اتَّبَعْنَاهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً، وَسَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَكَانَ ابْنُ عُيَيْنَةَ إِذَا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَلَى الانْفِرَادِ بَيَّنَ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ مِنْ حَدِيثِ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، وَإِذَا جَمَعَهُمَا رَوَى هَكَذَا، وَأَبُو رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ ﷺ اسْمُهُ أَسْلَمُ.
* تخريج: د/السنۃ ۶ (۴۶۰۵)، ق/المقدمۃ ۲ (۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۱۹)، وحم (۶/۸) (صحیح)
۲۶۶۳- ابورافع رضی اللہ عنہ وغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آراستہ تخت پرٹیک لگائے ہواور اس کے پاس میرے امر یا نہی کی قسم کا کوئی حکم پہنچے تو وہ یہ کہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو چیز پائی اس کی پیروی کی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- بعض راویوں نے سفیان سے، سفیان نے ابن منکدر سے اور ابن منکدر نے نبی اکرم ﷺ سے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے۔ اور بعض نے یہ حدیث سالم ابوالنضر سے، سالم نے عبید اللہ بن ابورافع سے، عبیداللہ نے اپنے والد ابورافع سے اور ابورافع نے نبی اکرم ﷺسے روایت کی ہے۔ ۳- ابن عیینہ جب اس حدیث کو علیحدہ بیان کرتے تھے تو محمد بن منکدر کی حدیث کو سالم بن نضر کی حدیث سے جداجدا بیان کرتے تھے اور جب دونوں حدیثوں کو جمع کردیتے تو اسی طرح روایت کرتے (جیسا کہ اس حدیث میں ہے)۔ ۴-ابورافع نبی اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کانام اسلم ہے۔


2664- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ جَابِرٍ اللَّخْمِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَلاَ هَلْ عَسَى رَجُلٌ يَبْلُغُهُ الْحَدِيثُ عَنِّي وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ، فَيَقُولُ: بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللهِ، فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَلاَلاً اسْتَحْلَلْنَاهُ، وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَرَامًا حَرَّمْنَاهُ، وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ كَمَا حَرَّمَ اللهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۲ (۱۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۵۳) (صحیح)
۲۶۶۴- مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اوروہ کہے:ہمارے اور تمہارے درمیان (فیصلے کی چیز) بس اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں جوچیز ہم حلال پائیں گے پس اسی کو حلال سمجھیں گے، اور اس میں جوچیز حرام پائیں گے بس اسی کوہم حرام جانیں گے، یاد رکھو! بلاشک وشبہ رسول اللہ ﷺ نے جو چیز حرام قراردے دی ہے وہ ویسے ہی حرام ہے جیسے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیز''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ كِتَابَةِ الْعِلْمِ
۱۱-باب: (ابتدائے اسلام میں)احادیث لکھنے کی کراہت کابیان​


2665- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ ابْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: اسْتَأْذَنَّا النَّبِيَّ ﷺ فِي الْكِتَابَةِ فَلَمْ يَأْذَنْ لَنَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، رَوَاهُ هَمَّامٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ.
* تخريج: م/الزہد ۱۶ (۳۰۰۴) (بلفظ ''لاتکتبوا عني، ومن کتب عني غیر القرآن فلیمحہ'') (تحفۃ الأشراف: ۴۱۶۷) (صحیح)
۲۶۶۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے (ابتداء اسلام میں ) نبی اکرم ﷺ سے علم (حدیث) لکھ لینے کی اجازت طلب کی تو آپ نے ہمیں لکھنے کی اجازت نہ دی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی زید بن اسلم کے واسطہ سے آئی ہے، اور اسے ہمام نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع اسلام میں یہ حکم تھا : ''لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج'' (صحیح مسلم) یعنی قرآن کے علاوہ میری کوئی بات نہ لکھو، اور اگر کسی نے قرآن کے علاوہ کچھ لکھ لیا ہے تو اسے مٹادے، البتہ میری حدیثوں کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، پھر بعد میں آپ ﷺ نے اپنے فرمان : ''بلغوا عني ولو آية''کے ذریعہ اس کی اجازت بھی دے دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12-بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِيهِ
۱۲-باب: نبی اکرم ﷺکی طرف سے احادیث لکھنے کی اجازت​


2666- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ الْخَلِيلِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَجْلِسُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَيَسْمَعُ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ الْحَدِيثَ فَيُعْجِبُهُ وَلاَ يَحْفَظُهُ، فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ الْحَدِيثَ فَيُعْجِبُنِي وَلاَ أَحْفَظُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ، وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ لِلْخَطِّ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَلِكَ الْقَائِمِ، و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: الْخَلِيلُ بْنُ مُرَّةَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۱۴) (ضعیف)
(سندمیں خلیل بن مرہ ضعیف راوی ہیں،اور یحییٰ بن ابی صالح مجہول راوی ہیں)
۲۶۶۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک انصاری شخص نبی اکرم ﷺ کی مجلس میں بیٹھا کرتاتھا۔ وہ آپ کی حدیثیں سنتااوریہ حدیثیں اسے بہت پسند آتی تھیں،لیکن وہ انہیں یاد نہیں رکھ پاتاتھا تو اس نے اپنے یاد نہ رکھ پانے کی رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کی حدیثیں سنتاہوں اور وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں(مگر) میں انہیں یادنہیں رکھ پاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم اپنے داہنے ہاتھ کا سہارا لو( اور یہ کہتے ہوئے ) آپ نے ہاتھ سے لکھ لینے کا اشارہ فرمایا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی سند قوی ومستحکم نہیں ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل کو کہتے ہوئے سنا: خلیل بن مرہ منکر الحدیث ہے،۳- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2667- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالاَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَطَبَ فَذَكَرَ الْقِصَّةَ فِي الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو شَاهٍ: اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللهِ! فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اكْتُبُوا لأَبِي شَاهٍ"، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ مِثْلَ هَذَا.
* تخريج: انظر تخریج حدیث رقم ۱۴۰۵ (صحیح)
۲۶۶۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اوردوران خطبہ آپ نے کوئی قصہ (کوئی واقعہ) بیان کیا تو ابوشاہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے لیے لکھوا دیجئے (یعنی کسی سے لکھادیجئے) تورسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) کہا ابوشاہ کے لیے لکھ دو۔حدیث میں پورا واقعہ مذکورہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی جیسی روایت بیان کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حدیث نہ لکھنے کاحکم بعد میں منسوخ ہوگیاگویا یہ حدیث اللہ کے رسول کی احادیث لکھ لینے کے جواز پر صریح دلیل ہے۔اسی طرح درج ذیل حدیث اوراحادیث کی کتب میں درج بیسویں احادیث مبارکہ منکرین حدیث پر روزِ روشن کی طرح اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ''کتابت حدیث کا مبارک عمل''نبی ختم الرسل محمدرسول اللہﷺکی حیات طیبہ میں ہی ہوگیا تھا اور یہ کہ ہماری تحقیق کے مطابق ساداتناعبداللہ بن عمروبن العاص، وائل بن حجر، سعدبن عبادہ ، عبداللہ بن ابی اوفی، عبداللہ بن عباس ، انس بن مالک اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہم سمیت بیس صحابہ کرام fایسے اصحاب واجبات تھے کہ جنہوں نے رسول اللہﷺکی احادیث مبارک کولکھا،ان اصحاب کی لکھی ہوئی احادیث کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے، اور پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جیسے جو اصحاب لکھ نہیں سکتے تھے اپنے ہاتھوں بلکہ انہوں نے احادیث مبارکہ کولفظ بلفظ یادرکھا اور پھریہی احادیث اپنے شاگردوں کو لکھوادیں اُن کی تعداد مزید کئی ہزار تک پہنچ جاتی ہے ،اور ہمارے اندازے کے مطابق کتب احادیث میں موجودتمام احادیث کا ایک بڑا حصہ عہدصحابہ میں لکھاجاچکاتھا، (مزیدتفصیل کے لیے ہماری کتاب ''مقدمۃ الحدیث''کی پہلی جلد میں پہلے باب اور ڈاکٹرمحمد حمیداللہ خاں کی ''الوثائق السیاسیۃ فی عہد...'' کا مطالعہ کریں، ابویحیی)


2668- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ وَهُوَ هَمَّامُ بْنُ مُنَبِّهٍ قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ ﷺ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ مِنِّي إِلاَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَكُنْتُ لاَ أَكْتُبُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَوَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ عَنْ أَخِيهِ هُوَ هَمَّامُ بْنُ مُنَبِّهٍ.
* تخريج: خ/العلم ۳۹ (۱۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۰۰) (صحیح)
۲۶۶۸- ہمام بن منبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سوائے عبداللہ بن عمروکے رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرنے والا مجھ سے زیاد ہ کوئی نہیں ہے اورمیرے اور عبداللہ بن عمرو کے درمیان یہ فرق تھا کہ وہ (احادیث) لکھ لیتے تھے اور میں لکھتانہیں تھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور روایت میں ''وهب بن منبه، عن أخيه'' جو آیا ، تو ''أخيه'' سے مراد ہمام بن منبہ ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ابوہریرہ بن عبدالرحمن بن صخر رضی اللہ عنہ کو لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی تھی کہ آپ کے لیے نبی اکرمﷺ کی آپ کے علم میں خیر وبرکت کی دُعا تھی جس سے آپ رضی اللہ عنہ کاسینہ بذات خود حفظ وتحفیظ کا دفتر بن گیاگیاتھا، امام ذہبی رحمہ اللہ نے ''سیرأعلام النبلاء ''(الجزء الثانی ص ۵۹۴اور۵۹۵) میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے درج کیا ہے : '' كان حفظ أبي هريرة رضي الله عنه الخارق من معجزات النبوة...'' ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا حافظ ...احادیث کے بہت بڑے ذخیرہ اور قرآن کو یادکرلینے کا ملکہ ...نبوت کے معجزات میں سے خرقِ عادت ایک معجزہ تھا ، اور پھراس عبارت کو بطور عنوان اختیارکرکے امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابونعیم کی ''الحلیۃ''میں درج احادیث کو نقل کیا ہے ، اور اس پر حکم لگاتے ہوئے لکھا ہے ''رجالہ ثقات''ان احادیث میں سے ایک یوں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ابوہریرہ سے پوچھا: ابوہریرہ! غنیمتوں کے اموال میں سے تم مجھ سے کچھ نہیں مانگتے جن میں سے تیرے ساتھی مانگتے رہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : ''أسألك أن تعلمني مما علمك الله'' میں توآپ ﷺسے صرف اس بات کا سوال کرتا ہوں کہ جو کچھ اللہ نے آپ ﷺ کو قرآن وسنت والا علم سکھایا ہے اس میں سے آپ مجھے (جتنازیادہ ممکن ہو) سکھادیجئے، تومیری اس درخواست پرنبی اکرمﷺ نے میرے اُوپر والی سفید اور کالی دھار یوں والی چادر کو مجھ سے اُتارلیا اور اسے ہمارے دونوں کے درمیان پھیلادیا ، اس قدر خوب تن کر اس چادر کو پھیلایا گویا میں اس پر چلنے والی چیونٹی کوبھی صاف دیکھ رہاتھا،پس آپﷺ نے مجھ سے احادیث بیان کرنا شروع فرمادیں حتی کہ جب میں نے آپﷺ کی پوری حدیث مبارکہ حاصل کرلی تو آپ نے فرمایا: ''إجمحها فصرها إليك''اس چادراکٹھی کرکے اپنی طرف پلٹالو''، (یعنی اپنے اُوپراوڑھ لو۔) چنانچہ میں نے ایساکرلیا اورپھرتو میں حافظے کے اعتبارسے ایساہوگیا کہ نبی اکرمﷺجو بھی اپنی حدیث مبارک مجھ سے بیان فرماتے اس سے ایک حرف بھی مجھ سے ساقط نہیں ہوتاتھا، (ابوہریرہ کے الفاظ فاصبحت لاأسقط حرفا حدثنی ''(دیکھئے : الحلۃ:۱/۳۸۱)بالکل اسی معنی کی احادیث صحیح البخاری /کتاب البیوع اورکتاب الحرث والمزرعۃ حدیث ۲۳۵۰اورصحیح مسلم /کتاب فضائل الصحابۃ ، باب من فضائل ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ الدوسی حدیث ۲۴۹۲میں بھی ہیں۔
ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نے ''مجموعۃ الوقائق السیاسیۃ للعہدالنبوی والخلافۃ الراشدۃ''میں ثابت کیا ہے کہ جناب ہمام بن منبہ رحمہ اللہ کے ہاتھ کا مخطوطہ احادیث آج بھی دنیاکی ایک معروف لائبریری میں موجودہے ، اور پھراس مخطوطہ کو حیدرآباد دکن سے شائع بھی کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13-بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَدِيثِ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ
۱۳-باب: اسرائیلی روایات کے بیان کرنے کی اجازت​


2669- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ ابْنِ ثَوْبَانَ هُوَ عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً -وَحَدِّثُوا عَن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلاَ حَرَجَ-، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۵۰ (۳۴۶۱) (تحفۃ الأشراف: ۸۹۶۷) (صحیح)
2669/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۶۶۹- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری طرف سے لوگوں کو (احکام الٰہی) پہنچادو اگر چہ ایک آیت ہی ہو۔ اور بنی اسرائیل سے بیان کرو۔ ان سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ،اور جس نے جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹ کی نسبت کی تووہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۶۶۹/م- اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ اپنے علم کی حدتک ہر شخص اس بات کا مکلف ہے کہ قرآن و حدیث کا جو بھی علم اسے حاصل ہو اسے لوگوں تک پہنچائے، یہاں تک کہ اگر کسی ایک حکم الٰہی سے ہی آگاہ ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو بھی اس سے آگاہ کرے، بنی اسرائیل سے متعلق صرف وہ باتیں بیان کی جائیں جو آپ ﷺ سے صحیح سندوں سے ثابت ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14-بَاب مَا جَاءَ الدَّالُّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ
۱۴-باب: بھلائی کا راستہ بتانے والا بھلائی کرنے والے کی طرح ہے​


2670- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ يَسْتَحْمِلُهُ، فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُ مَا يَتَحَمَّلُهُ، فَدَلَّهُ عَلَى آخَرَ فَحَمَلَهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ: "إِنَّ الدَّالَّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ وَبُرَيْدَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۰۲) (حسن صحیح)
۲۶۷۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس سواری مانگنے آیا، تو آپ کے پاس اسے کوئی سواری نہ ملی جو اسے منزل مقصود تک پہنچادیتی۔ آپ نے اسے ایک دوسرے شخص کے پاس بھیج دیا، اس نے اسے سواری فراہم کردی۔پھر اس نے آکر آپ کو اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا:'' بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا (ثواب میں ) بھلائی کرنے والے ہی کی طرح ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے یعنی انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے جسے وہ نبی اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں غریب ہے، ۲- اس باب میں ابومسعود بدری اور بریدہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2671- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ قَال: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ ﷺ يَسْتَحْمِلُهُ فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ أُبْدِعَ بِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "ائْتِ فُلاَنًا"، فَأَتَاهُ فَحَمَلَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ،- أَوْ قَالَ: - عَامِلِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ إِيَاسٍ، وَأَبُو مَسْعُودٍ الْبَدْرِيُّ اسْمُهُ عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو.
* تخريج: م/الإمارۃ ۳۸ (۱۸۹۳)، د/الأدب ۱۲۴ (۵۱۲۹) (تحفۃ الأشراف: ۹۹۸۶)، وحم (۴/۱۲۰) (صحیح)
2671/م- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَقَالَ: مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ وَلَمْ يَشُكَّ فِيهِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۶۷۱- ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس سواری مانگنے آیا ، اور کہا: میں بے سواری کے ہوگیا ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا:''تم فلاں شخص کے پاس جاؤ''،چنانچہ وہ اس شخص کے پاس گیا اور اس نے اسے سواری دے دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے بھلائی کاراستہ دکھا یا تو اسے اتناہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور ابومسعود بدری کانام عقبہ بن عمرو ہے ۔
۲۶۷۱/م- اس سند سے بھی ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اور اس حدیث میں کسی شک کے بغیر ''مثل أجر فاعله'' کہا ہے۔


2672- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُوأُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "اشْفَعُوا وَلْتُؤْجَرُوا، وَلْيَقْضِ اللهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ مَا شَائَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبُرَيْدٌ يُكْنَى أَبَا بُرْدَةَ أَيْضًا، هُوَ ابْنُ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ وَهُوَ كُوفِيٌّ ثِقَةٌ فِي الْحَدِيثِ، رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۲۱ (۱۴۳۲)، والأدب ۳۶ (۶۰۲۷)، و ۳۷ (۶۰۲۸)، والتوحید ۳۱ (۷۴۷۶)، م/البر والصلۃ ۴۴ (۲۶۲۷)، د/الأدب ۱۲۶ (۵۱۳۱)، ن/الزکاۃ ۶۵ (۲۵۵۷) (تحفۃ الأشراف: ۹۰۳۶)، وحم (۴/۴۰۰، ۴۰۹، ۴۱۳) (صحیح)
۲۶۷۲- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' شفاعت (سفارش) کروتاکہ اجر پاؤ، اللہ اپنے نبی کی زبان سے نکلی ہوئی جس بات (جس سفارش) کو بھی چاہتاہے پوراکردیتاہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اگرکوئی رسول اللہ ﷺ سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے چیز مانگتا ہے اور تم سمجھتے ہوکہ حقیقت میں یہ شخص ضرورت مند ہے تو تم اس کے حق میں سفارش کے طورپر دوکلمہ خیر کہہ دو، تو تمہیں بھی اس کلمہ خیر کہہ دینے کا ثواب ملے گا، لیکن یہ بات یادرہے کہ اس میں جس سفارش کی ترغیب دی گئی ہے، وہ ایسے امور کے لیے ہے جو حلال اور مباح ہیں، حرام یا شرعی حدکو ساقط کرنے کے لیے سفارش کی اجازت نہیں ہے۔


2673- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَعَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا إِلاَّ كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا، وَذَلِكَ لأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ أَسَنَّ الْقَتْلَ - و قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: - سَنَّ الْقَتْلَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۱ (۳۳۳۵)، والدیات ۲ (۶۸۶۷)، والاعتصام ۱۵ (۷۳۲۱)، م/القسامۃ (الحدود) ۷ (۱۶۷۷)، ن/المحاربۃ ۱ (۳۹۹۰)، ق/الدیات ۱۶ (۲۶) (تحفۃ الأشراف: ۹۵۶۸)، وحم (۱/۳۸۳، ۴۳۰، ۴۳۳) (صحیح)
2673/م- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: سَنَّ الْقَتْلَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۶۷۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ظلم سے جو بھی خون ہوتاہے اس خون کے گناہ کا ایک حصہ آدم کے (پہلے) بیٹے پر جاتاہے، کیوں کہ اسی نے سب سے پہلے خون کرنے کی سبیل نکالی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے بھی ابن مسعود سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ خلاف شریعت اور برے کاموں کو پہلے پہل کرنا جس کی بعد میں لوگ تقلید کریں کتنا بڑا جرم ہے، قیامت تک اس برے کام کے کرنے کا گناہ اسے بھی ملتا رہے گا، اس لیے امن وسلامتی کی زندگی گزار نے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب وسنت کی اتباع و پیروی کریں اور بدعات و خرافات سے اجتناب کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ دَعَا إِلَى هُدًى فَاتُّبِعَ أَوْ إِلَى ضَلاَلَةٍ
۱۵-باب: ہدایت اور گمراہی کی طرف بلانے والوں کابیان​


2674- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ يَتَّبِعُهُ لاَ يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلاَلَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنْ الإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لاَ يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/العلم ۶ (۲۶۷۴)، د/السنۃ ۷ (۴۷۰۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۷۶)، ودي/المقدمۃ ۴۴ (۵۳۰) (صحیح)
۲۶۷۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو جولوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر کے برابر ہدایت کی طرف بلانے والے کو بھی ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی اتباع کرنے والوں کے اجروثواب میں کچھ بھی کمی ہو، اور جس نے ضلالت (وگمراہی) کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابرگمراہی کی طرف بلانے والے کو بھی گناہ ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی وجہ سے ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی ہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2675- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا فَلَهُ أَجْرُهُ وَمِثْلُ أُجُورِ مَنْ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنْ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا". وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ هَذَا. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا.
* تخريج: م/الزکاۃ ۲۰ (۱۰۱۷)، والعلم ۶ (۱۰۱۷/۱۵)، ق/المقدمۃ ۱۴ (۲۰۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۷۶) وحم (۴/۳۵۷، ۳۵۸، ۳۶۱، ۳۶۲)، ودي/المقدمۃ ۴۴ (۵۱۸) (صحیح)
۲۶۷۵- جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو ) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجروثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجرو ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہوگا اور (دوسرے) جولوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پرگناہ ہوگا، بغیر اس کے کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی کی گئی ہو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث کئی سندوں سے جریر بن عبداللہ سے آئی ہے، اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- یہ حدیث منذر بن جریر بن عبداللہ سے بھی آئی ہے، جسے وہ اپنے والد جریر بن عبداللہ سے اورجریر نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، ۴- یہ حدیث عبیداللہ بن جریر سے بھی آئی ہے، اورعبید اللہ اپنے والد جریر سے اور جریر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،۵- اس باب میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ ہدایت یعنی ایمان، توحید اور اتباع سنت کی طرف بلانے اور اسے پھیلانے کا اجر وثواب اتنا ہے کہ اسے اس کے اس عمل کا ثواب تو ملے گا ہی ساتھ ہی قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر مزید اسے ثواب سے نوازا جائے گا، اسی طرح شروفساد اورقتل وغارت گری اور بدعات و خرافات کے ایجاد کرنے والوں کو اپنے اس کرتوت کا گناہ تو ملے گا ہی ساتھ ہی اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ کا وبال بھی اس پر ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16-بَاب مَا جَاءَ فِي الأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ
۱۶-باب: سنت کی پابندی کرنے اور بدعت سے بچنے کابیان​


2676- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ: وَعَظَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ يَوْمًا بَعْدَ صَلاَةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً، ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللهِ؟! قَالَ: "أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلاَلَةٌ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: د/السنۃ ۶ (۴۶۰۷)، ق/المقدمۃ ۶ (۴۲) (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۰)، ودي/المقدمۃ ۱۶ (۹۶) (صحیح)
2676/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُوعَاصِمٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَالْعِرْبَاضُ بْنُ سَارِيَةَ يُكْنَى أَبَا نَجِيحٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ حُجْرِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۶۷۶- عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ہمیں صلاۃفجرکے بعد ایک موثر نصیحت فرمائی جس سے لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور دل لرزگئے ، ایک شخص نے کہا: یہ نصیحت ایسی ہے جیسی نصیحت دینا سے (آخری بار) رخصت ہوکرجانے والے کیاکرتے ہیں، تو اللہ کے رسول! آپ ہمیں کس بات کی وصیت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:'' میں تم لوگوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے ،امیر کی بات سننے اور اسے ماننے کی نصیحت کرتاہوں، اگرچہ تمہارا حاکم اور امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو،کیوں کہ تم میں سے آئندہ جو زندہ رہے گا وہ (امت کے اندر) بہت سارے اختلافات دیکھے گا توتم (باقی رہنے والوں) کو میری وصیت ہے کہ نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہ پڑنا، کیوں کہ یہ سب گمراہی ہیں۔ چنانچہتم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہیے کہ وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر قائم اور جمارہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے دبالے''۔(اوراس پر عمل پیرارہے)
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ثوربن یزید نے بسند خالد بن معدان عن عبدالرحمن بن عمرو السلمی عن عرباض بن ساریۃ عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے۔
۲۶۷۶/م- اس سند سے بھی عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عرباض بن ساریہ کی کنیت ابونجیح ہے۔ ۲- یہ حدیث بطریق: ''حجر بن حجر، عن العرباض بن سارية، عن النبي ﷺ'' کے طریق سے بھی اسی طرح مروی ہے۔


2677- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِاللهِ هُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِبِلاَلِ بْنِ الْحَارِثِ: "اعْلَمْ" قَالَ: مَا أَعْلَمُ يَا رَسُولَ اللهِ؟! قَالَ: "اعْلَمْ يَا بِلاَلُ!" قَالَ: مَا أَعْلَمُ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "إِنَّهُ مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي، فَإِنَّ لَهُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلاَلَةٍ لاَ تُرْضِي اللهَ وَرَسُولَهُ كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لاَ يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ هُوَ مَصِّيصِيٌّ شَامِيٌّ، وَكَثِيرُ بْنُ عَبْدِاللهِ هُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۵ (۲۱۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۷۶) (ضعیف)
(سندمیں کثیر ضعیف راوی ہیں)
۲۶۷۷- عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے کہا: ''سمجھ لو'' (جان لو) انہوں نے کہا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:'' سمجھ لو اور جان لو'' ، انہوں نے عرض کیا:سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:'' جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جس پر لوگوں نے میرے بعد عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پرعمل کرنے والوں کوملے گا،یہ ان کے اجروں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا، اور جس نے گمراہی کی کوئی نئی بدعت نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی وخوش نہیں، تو اسے اس پرعمل کرنے والوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا،اس کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- محمد بن عیینہ مصیصی شامی ہیں، ۳- اور کثیر بن عبداللہ سے مراد کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی ہیں۔


2678- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ حَاتِمٍ الأَنْصَارِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَا بُنَيَّ! إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِيَ لَيْسَ فِي قَلْبِكَ غِشٌّ لأَحَدٍ فَافْعَلْ"، ثُمَّ قَالَ لِي: "يَا بُنَيَّ! وَذَلِكَ مِنْ سُنَّتِي، وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجَنَّةِ" وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الأَنْصَارِيُّ ثِقَةٌ، وَأَبُوهُ ثِقَةٌ، وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ صَدُوقٌ إِلاَّ أَنَّهُ رُبَّمَا يَرْفَعُ الشَّيْئَ الَّذِي يُوقِفُهُ غَيْرُهُ، قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ بَشَّارٍ يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ: قَالَ شُعْبَةُ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ وَكَانَ رَفَّاعًا وَلاَ نَعْرِفُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَنَسٍ رِوَايَةً إِلاَّ هَذَا الْحَدِيثَ بِطُولِهِ. وَقَدْ رَوَى عَبَّادُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْمِنْقَرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَذَاكَرْتُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ، فَلَمْ يَعْرِفْهُ، وَلَمْ يُعْرَفْ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثُ، وَلاَ غَيْرُهُ، وَمَاتَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ سَنَةَ ثَلاَثٍ، وَتِسْعِينَ وَمَاتَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ بَعْدَهُ بِسَنَتَيْنِ مَاتَ سَنَةَ خَمْسٍ وَتِسْعِينَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۶۵) (ضعیف)
(سندمیں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں)
۲۶۷۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میرے بیٹے: اگر تم سے ہوسکے کہ صبح وشام تم اس طرح گزارے کہ تمہارے دل میں کسی کے لئے بھی کھوٹ (بغض، حسد، کینہ وغیرہ ) نہ ہو توایسا کرلیا کرو''، پھر آپ نے فرمایا:'' میرے بیٹے! ایسا کرنا میری سنت (اور میراطریقہ ) ہے، اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں رہے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث میں ایک طویل قصہ بھی ہے، ۲- اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے، ۳- محمد بن عبداللہ انصاری ثقہ ہیں، اور ان کے باپ بھی ثقہ ہیں، ۴- علی بن زید صدوق ہیں (ان کا شمار سچوں میں ہے) بس ان میں اتنی سی کمی وخرابی ہے کہ وہ بسا اوقات بعض روایات کو جسے دوسرے راوی موقوفاً روایت کرتے ہیں اسے یہ مرفوع روایت کردیتے ہیں، ۵- میں نے محمد بن بشار کو کہتے ہوئے سنا کہ ابوالولید نے کہا: شعبہ کہتے ہیں کہ مجھ سے علی بن زید نے حدیث بیان کی اور علی بن زید رفاع تھے، ۶- ہم سعید بن مسیب کی انس کے واسطہ سے اس طویل حدیث کے سوا اور کوئی روایت نہیں جانتے، ۷- عباد بن میسرہ منقری نے یہ حدیث علی بن زیدکے واسطہ سے انس سے روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اس حدیث میں سعید بن مسیب کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، ۸- میں نے اس حدیث کا محمد بن اسماعیل بخاری سے ذکر کرکے اس کے متعلق جاننا چاہا تو انہوں نے اس کے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار کیا، ۹-انس بن مالک سے سعید بن مسیب کی روایت سے یہ یا اس کے علاوہ کوئی بھی حدیث معروف نہیں ہے۔ انس بن مالک ۹۳ہجری میں انتقال فرماگئے اور سعید بن مسیب ان کے دوسال بعد ۹۵ہجری میں اللہ کو پیارے ہوئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17-بَاب فِي الانْتِهَائِ عَمَّا نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ
۱۷-باب: رسول اللہ ﷺ جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ​


2679- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اتْرُكُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ فَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فَخُذُوا عَنِّي فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلاَفِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الاعتصام ۲ (۷۲۸۸)، م/الحج ۷۳ (۱۳۳۷)، والفضائل ۳۷ (۱۳۳۷)، ق/المقدمۃ ۱ (۱، ۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۱۸)، وحم (۲/۲۴۷، ۲۵۸، ۳۱۳، ۴۲۸، ۴۴۸، ۴۵۷، ۴۶۷، ۴۸۲، ۴۹۵، ۵۰۲) (صحیح)
۲۶۷۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم مجھے چھوڑے رکھو، پھر جب میں تم سے کوئی چیز بیان کروں تو اسے لے لو، کیوں کہ تم سے پہلے لوگ بہت زیادہ سوالات کرنے اور اپنے انبیاء سے کثرت سے اختلافات کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی خواہ مخواہ مسئلے مسائل پوچھ کر اپنے لیے تنگی اور دشواری نہ پیدا کرو، میرے بیان کرنے کے مطابق اس پر عمل کرو، کیوں کہ کثرت سوال سے اسی طرح پر یشانی میں پڑسکتے ہو جیسا کہ تم سے پہلے کے لوگوں کا حال ہوا، سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کا جو حال بیان ہوا وہ اس سلسلہ میں بے انتہا عبرت آموز ہے۔
 
Top