• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
یہ بات قابل ذکر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں پانچ ائمہ کا ذکر فقہائے حدیث کی اس فہرست میں موجود ہے، اور وہ بخاری ، مسلم ، ابوداود، نسائی اور ترمذی ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ -رحمہ اللہ- نے اپنے فتاویٰ اور رسائل میں فقہائے حدیث کی اصطلاح سکیڑوں بار استعمال کی ہے، اور مسائل میں اُن کے دلائل اور ترجیحات کاذکرکیا ہے، اور بہت سارے ائمہ کانام بھی لکھاہے، اس وقت حدیث کے متوفر بعض پروگراموں کے ذریعے سے کمپیوٹر کی مدد سے منٹوں میں یہ فہرست دیکھی جاسکتی ہے، خلاصہ یہ کہ فقہ الحدیث ایک بڑا تابناک باب ہے، جس میں بے شمار فقہائے حدیث کی خدمات ہیں، اور یہ امت میں معروف لوگ ہیں، اور ان کے علوم بھی الحمدللہ محفوظ ہیں۔
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری اہل الحدیث کی شناخت اور تعریف کے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں: ایک حنفی عالم جامع ترمذی کے حاشیہ میں کہتے ہیں: مؤلفین صحاح کے مذاہب کے بارے میں کہا گیا کہ امام بخاری شافعی تھے ، لیکن حق یہ ہے کہ بخاری مجتہد تھے، رہ گئے امام مسلم تو تحقیقی طور پر مجھے آپ کے مذہب کا علم نہیں ہے ، لیکن ابن ماجہ تو شاید وہ شافعی تھے ،اور ترمذی شافعی ہیں، اور ابوداود اور نسائی کے بارے میں مشہو رہے کہ یہ دونوں شافعی ہیں، لیکن حق یہ ہے کہ یہ دونوں حنبلی ہیں،اور حنابلہ کی کتابیں ابوداود کی روایات سے منقول امام احمد کے اقوال سے بھری پڑی ہیں، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مبارکپوری -رحمہ اللہ- فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ جیسے امام بخاری -رحمہ اللہ - متبع سنت اور عامل بالحدیث تھے اور ائمہ اربعہ وغیرہ میں سے کسی کے مقلد نہیں تھے ، ایسے ہی مسلم ، ترمذی ، ابوداود، نسائی اور ابن ماجہ سب کے سب متبع سنت اور عامل بالحدیث تھے، مجتہد تھے ،کسی کے مقلد نہ تھے ، رہ گیا یہ استدلال کہ حقیقت میں ابوداوداور نسائی حنبلی ہیں اس دلیل سے کہ امام احمد کے اقوال ابوداود کی روایت سے حنابلہ کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں تویہ بالکل باطل استدلال ہے، اس لیے کہ ابوداود کی روایات سے حنابلہ کی کتابوں کا بھراہونا تسلیم کربھی لیا جائے تو اس سے ان کا حنبلی ہونا لازم نہیں آتا چہ جائیکہ ابوداود اور نسائی دونوں حنبلی ہوں، کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ حنفیہ کی کتابیں امام ابویوسف اورامام محمد کی روایات سے بھری پڑی ہیں ، لیکن اس کے باوجود یہ دونوں نہ حنفی تھے ،اور نہ امام ابوحنیفہ کے مقلد ، اور یہ بھی جان لیں کہ بعض لوگوں نے یہ دعوی کیا کہ امام ابوداود اور امام نسائی دونوں حنبلی تھے، یعنی مطلقا بغیر کسی قید کے یہ دونوں امام احمد بن حنبل کے مقلد تھے ۔
پھر اپنی اس بات پر اُن کو انتباہ ہوا تو ایک درجہ پیچھے آکر سنن الترمذی کے ایک حاشیہ میں کہتے ہیں: یحیی بن سعید جیسا کہ تاریخ ابن خلکان میں ہے حنفی المذہب تھے، إلا یہ کہ سلف کی تقلید اُن اجتہادی مسائل کے بارے میں ہواکرتی تھی جس میں کوئی مرفوع حدیث یا موقوف (آثار صحابہ) نہ ہوں، ہماری تقلید کی طرح نہیں، یہ میرا اپنا ظن ہے ۔
اس کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ مبارکپوری کہتے ہیں: اجتہادی مسائل میں کسی صحیح دلیل سے امام ابوداود اور امام نسائی کا امام احمد کا مقلد ہونا ثابت نہیں ہے، بس صرف یہ بعض ان حضرات کا ظن ہی ظن ہے ، اور ظن حق کے باب میں غیر مفید ہے، اور اُن کا یہ کہنا کہ شاید ابن ماجہ شافعی تھے ،یہ بھی اس کے قائل کے نزدیک ابن ماجہ کے شافعی ہونے کی دلیل نہیں ہے ،ایک حنفی عالم صحیح مسلم کی شرح میں مقدمہ میں توضیح النظر سے نقل کرتے ہیں : بعض حدیث کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بخاری اور ابوداود دونوں فقہ کے امام اور اہل اجتہاد میں سے ہیں، اور مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن خزیمہ ، ابویعلی اور بزار وغیرہ یہ سب اہل حدیث کے مذہب پر ہیں، یہ کسی خاص اور متعین امام کے مقلد نہیں ہیں، اورنہ ان کا شمار مجتہد مطلق اماموں میں سے ہے، بلکہ ان کا میلان ائمہ حدیث جیسے شافعی ،احمد ، اسحاق بن راہویہ اور ابوعبید قاسم بن سلام اور ان کے ہم مثل علماء کی طرف ہوتا ہے۔اور ان کا میلان (جھکاؤ) علمائے حجاز کے مذہب کی طرف اہل عراق کے مذہب سے زیادہ ہوتا ہے، رہ گئے امام ابوداود الطیالسی تو یہ مذکورہ بالا ائمہ میں سے سب سے قدیم امام ہیں، اور یہ یحیی بن سعید القطان ، یزید بن ہارون واسطی ، عبدالرحمن بن مہدی اور اس طبقہ کے علماء میں سے ہیں، جو احمد بن حنبل کے شیوخ کا طبقہ ہے، یہ سب کے سب اتباع سنت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ، ہاں ان میں سے بعض کا میلان اہل عراق کے مذہب کی طرف ہوتا ہے ، جیسے وکیع بن الجراح اور یحیی بن سعید اور بعض کا میلان اہل مدینہ کی مذہب کی طرف ہوتا ہے، جیسے عبدالرحمن بن مہدی ، اورامام دار قطنی کا میلان شافعی کے مذہب کی طرف ہے ، لیکن ان کے اپنے اجتہاد ات ہیں، اور ان کا شمار ائمہ حدیث وسنت میں ہے،اور اُن کا حال کبار محدثین کی طرح نہیں ہے، جو ان کے بعد آئے ،اور عام اقوال میں تقلید کا التزام کیا، صرف محصور معدود مسائل کے علاوہ ، امام دار قطنی متاخرین میں سب سے زیادہ اجتہاد میں قوی تھے ،اور سب سے زیادہ فقیہ اور عالم ، انتہی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پھر حنفی محشی لکھتے ہیں: ظاہر ہے کہ ابوداود حنبلی مذہب سے زیادہ قریب ہیں، کیونکہ حنابلہ کی کتابیں ان کے روایت کردہ امام احمد کے اقوال سے پٹی پڑی ہیں، اس قول کو موصوف نے العرف الشذی سے نقل کیا ہے، اوپر اس کا جواب آپ کو معلوم ہوگیا ہے ، اب اگر آپ یہ کہیں کہ اگر امام بخاری امام شافعی کے مقلد نہیں تھے تو لوگوں نے اُن کا شمار شافعیہ میں کیوں کیاہے، اور شافعی علماء کے طبقات کی کتابوں کے مؤلفین نے اُن کو اپنی کتابوں میں کیوں ذکر کیا ہے، تواس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ( م ۱۱۷۶ھ) حجۃ اللہ البالغہ (۱/۱۲۲) میں لکھتے ہیں: اصحاب حدیث فقہی مذاہب میں سے کسی مذہب کی بکثرت موافقت کی وجہ سے اس کی طرف منسوب کردیے جاتے ہیں، جیسے نسائی اور بیہقی کو شافعی مذہب کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ، اور الانصاف فی مسائل التقلید والاجتہاد میں کہتے ہیں کہ شافعی مذہب کی طرف انتساب کا مطلب یہ ہے کہ طریقہ اجتہاد اور دلائل کے استقراء وتتبع ومسائل ودلائل کی ترتیب وتدوین میں اُن کا طریقہ اجتہاد شافعی کے طریقہ اجتہاد کے موافق ہے، اور اگر کبھی مخالفت بھی کی تو اُس کی مخالفت کی پرواہ نہ کی گئی ، اور چند مسائل کے علاوہ وہ شافعی کے مذہب سے باہر نہیں گیا ،اور یہ شافعی کے مذہب میں داخل ہونے میں قادح نہیں ہے ، اسی قبیل سے امام محمد بن اسماعیل بخاری ہیں کہ شیخ تاج الدین سبکی نے آپ کا شمار طبقات شافعیہ میں کیا ہے ،اور لکھاہے کہ امام بخاری نے امام حمید ی سے فقہ حاصل کی ، اور امام حمیدی نے امام شافعی سے فقہ حاصل کی (طبقات الشافعیہ /۲/۲۱۴)۔
علامہ اسماعیل عجلونی اپنی کتاب الفوائد الدراری میں سبکی کے مذکورہ بالا قول کو نقل کرنے کے بعدکہتے ہیں: امام بخاری کے مذہب کے بارے میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ آپ شافعی المذہب ہیں، تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیہ میں اسی لیے آپ کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ امام بخاری کا ابوعاصم نے طبقات شافعیہ میں ذکرکیاہے ،اور کہا ہے کہ بخاری نے کرابیسی ، ابوثور اور زعفرانی سے سماع حدیث کیا اور حمیدی سے فقہ حاصل کی، یہ سب امام شافعی کے اصحاب وتلامیذہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ امام بخاری حنبلی تھے ، ابوالحسن ابن العراقی نے آپ کو اصحاب امام احمد بن حنبل میں شمارکیا ہے ، اور بخاری سے سنداً یہ قول نقل کیا ہے کہ میں آٹھ بار بغداد آیا، اور ہر بار احمد بن حنبل کی مجلس میں حاضرہوا، آخری بار جب میں نے آپ کو الوداع کہا تو مجھ سے فرمایا : ابوعبداللہ آپ علم چھوڑرہے ہو، علماء کو خیرباد کہہ رہے ہو، اور خراسان جا رہے ہو، بخاری کہتے ہیں: میں اس وقت آپ کا قول یاد کررہاہوں ۔اور ایک قول یہ بھی ہے کہ امام بخاری مجتہد مطلق تھے، امام سخاوی نے اسی قول کو اختیار کیاہے ،اور کہا ہے کہ میرا میلان یہی ہے کہ امام بخاری مجتہد تھے، اس کی صراحت تقی الدین ابن تیمیہ نے فرمائی ہے کہ امام بخاری امام فقہ تھے، اجتہاد کے اعلیٰ مرتبہ پر تھے(مجموع الفتاویٰ ۲۰/۴۰)،(ملاحظہ ہو: مقدمۃ تحفۃ الأحوذی /۲۷۸-۲۸۱،نیز ملاحظہ ہو: سیرۃ البخاری تالیف: علامہ عبدالسلام مبارکپوری)۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ( م ۱۱۷۶ھ) نے بھی اس مسئلے کو اچھی طرح سے حجۃ اللہ البالغہ میں باب الفرق بین اہل الحدیث وأہل الرای میں واضح کردیا ہے ، اس سے پہلے امام ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں اس مسئلے کو تفصیل سے لکھاہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی جزوی مسئلہ میں کہیں کہیں بعض کا بعض سے جزوی اختلاف پایا جاتا ہو لیکن اُصولی طور پر سارے محدثین کا مسلک اتباع دلیل اور ترک تقلید ہے ، یعنی اصطلاحی لفظوں میں اُن کا مذہب ومسلک اصول وفروع میں اہل حدیث کا مذہب ومسلک ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
صحیح حدیث پر عمل کرنا اور اختلاف کے وقت اصول وفروع میں اس کی طرف رجوع کرنا اور اس کو حکم تسلیم کرنا سلف کا اجماعی مسئلہ ہے ، اہل رائے وقیاس جن کی اکثریت عراق میں تھی ، سے اسی بناپر ائمہ حدیث اجتناب کرتے تھے کہ وہ حدیث کی موجودگی میں قیاس اور رائے پر اعتماد کرتے تھے، جو سلف کے یہاں متفقہ طور پر مذموم بات تھی ، صحیح قیاس کا کوئی منکر نہ تھا ، اور نہ ہی کوفہ اور بصرہ میں رہائش کی بناپر کوئی شخص قابل مذمت ،اہل علم کے یہاں یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اہل سنت علماء اور ائمہ کے اصول وفروع میں مسلک کو مختلف جگہوں پر واضح فرمایاہے، چنانچہ آپ کا رسالہ صحۃ مذہب أہل المدینۃ والحدیث ، نقض المنطق ، الرد علی المنطقیین ، اور عقائد اور شرح احادیث سے متعلق بحثوں میں اس بارے میں تفصیل ملے گی ، اس باب میں کہ کتاب وسنت کی مرجعیت پر اجماع ہوتے ہوئے علماء کے درمیان اختلاف کیوں ہے ،نیز اختلاف کے کیا اسباب ہیں، اور دلائل کی موجودگی میں کسی رائے اور فتوے پر عمل کرنا یا دلیل کے مطابق عمل کرنا ، کونسا مسلک صحیح اوراقرب الی الکتاب والسنہ ہے ، اس سلسلے میں آپ نے رفع الملا م عن الأئمۃ الأعلام کتاب لکھی ، اور اس مسئلہ کو منقح کیا ، جس کا حاصل یہ ہے کہ کتاب وسنت صحیحہ پر عمل سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں ایک اجماعی مسئلہ ہے، اختلاف کی صورت میں فقہاء کے لیے شرعی اعذار کو تلاش کیا جائے گا ، لیکن صحیح حدیث پر عمل کرنا واجب ہے ، چاہے اس کے خلاف جتنے بھی اقوال وآراء ہوں۔
زہد وتقوی: امام ترمذی نہ صرف یہ کہ علوم وفنون میں امامت کا درجہ رکھتے تھے بلکہ آپ عبادت وتقویٰ اور ورع اور زہد میں بھی شہرت رکھتے تھے، حاکم کہتے ہیں: امام بخاری کا انتقال ہواتو انہوں نے علم حفظ اور زہد ورع میں ترمذی کی طرح کسی اور کو اپنے پیچھے نہیں چھوڑا، آپ اللہ کے ڈرسے اتنا روتے تھے کہ اندھے ہوگئے ، اور کئی سال اندھے رہے(تذکرۃ الحفاظ ،تہذیب التہذیب )۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جامع ترمذی کے فضائل و محاسن اور امتیازات

جامع ترمذی کا شمار ان چھ کتب احادیث کے اندر ہوتا ہے جن کی بیشتر احادیث صحیح ہیں اورجو ''صحاح ستہ'' کہلاتی ہیں۔ امام ترمذی خوداپنی سنن کے بارے میں فرماتے ہیں: جب میں نے یہ کتاب تصنیف کی تو اسے حجاز، عراق اور خراسان کے علمائے حدیث پر پیش کیا ، سبھوں نے اس کو پسند کیا ، نیز امام ترمذی فرماتے ہیں: جس گھر میں یہ کتاب پائی جائے تو سمجھو کہ اس گھر میں گویا خود محمد رسول اللہ ﷺ کلام کر رہے ہیں ( تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۳۴، والسیر ۱۳/۳۷۴، تہذیب التہذیب ۹/۳۸۹)۔
امام ذہبی اپنی کتاب سیراعلام النبلاء میں اس کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:جامع ترمذی میں علم نافع ،اہم فوائداور رؤس مسائل ہیں ، جامع ترمذی اصول اسلام (اسلامی مراجع)میں سے ایک ہے،کاش کہ ترمذی نے اس کتاب کو ضعیف احادیث جن میں بعض موضوع ہیں اور اُن کی اکثریت فضائل میں ہے سے نہ مکدرکیا ہوتا ۔(السیر: ۱۳/۲۷۴)۔
علامہ البانی نے ضعیف سنن ترمذی کے مقدمہ میں امام ترمذی کے اس قول کی صحت پر کلام کیا ہے ، اس لیے کہ ترمذی سے اس قول کی روایت کرنے والا راوی منصور بن عبداللہ ابوعلی ، متفق علیہ ضعیف بلکہ متہم بالکذب راوی ہے، اور اس راوی کی وفات (۴۰۲ھ) میں ہوئی ہے ، اور ترمذی کی وفات (۲۷۶ھ) میں اور ان دونوں کے درمیان (۱۲۶) سال کا فاصلہ ہے، یعنی پیچ سند میں دو یا دوسے زیادہ راوی ساقط ہیں، پس یہ روایت معضل ہے، نیز اس طرح کی مبالغہ آمیز کتا ب کی تعریف امام ترمذی سے صادر ہو، یہ بہت زیادہ بعید بات ہے، اس لیے کہ اُن کو یہ معلوم تھا کہ اس میں ایسی بھی احادیث ہیں،جن کی روایت ضعف اور نکارت کی بناپر بغیر بیان اور وضاحت کے جائز نہیں ہے ، جیساکہ خود امام موصوف نے اسباب ضعف بیان کیے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کتاب کی خوبیوں پر یہ ایک دھبہ ہوتا، اس لیے اس کتاب کو جامع صحیح کہنا کوئی اچھی بات نہیں(۱۵-۱۶)۔
حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی (ت: ۵۰۷ھ) کہتے ہیں: شیخ الاسلام امام ابو اسماعیل عبد اللہ بن محمد انصاری ہروی امام ترمذی کی کتاب جامع ترمذی کے متعلق کہتے ہیں : میرے نزدیک امام ترمذی کی کتاب جامع ترمذی صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے زیادہ مفید ہے ، ان سے کہا گیا کہ یہ کیسے تو انہوں نے فرمایا : کیونکہ صحیحین صرف علماء، فقہاء اور محدثین کے لئے مفید ہے جبکہ ترمذی کی کتاب السنن سے علماء، فقہاء، محدثین اور عامۃ الناس سبھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔(السیر ۱۳/۲۷۷)۔
قاضی ابو بکر ابن العربی (۴۶۸-۵۴۳ھ) عارضۃ الاحوذی فی شرح سنن الترمذی میں لکھتے ہیں : صحیح بخاری جو کہ موطا امام مالک کے بعد کی تألیف ہے اور یہ دونوں کتابیں ساری کتب احادیث کی اساس اور بنیاد ہیں جن میں صحیح مسلم بھی ہے اور ان تینوں کے بعد جامع ترمذی کا مقام ہے۔ لیکن جملہ کتب احادیث میں جامع ترمذی میں جو حلاوت، نفاست اور چاشنی ہے وہ بقیہ کتابوں میں نہیں ہے۔ اس میں بارہ قسم کے علوم ہیں اور یہ باعتبار عمل کے زیادہ سلیم اورقریب تر ہے۔ امام ترمذی نے حدیث کی سند بیان کی ،اس کی تصحیح و تضعیف کی اور متعدد طرق کا ذکر کیا اور اس پر جرح و تعدیل کی ۔ رواۃ کے نام اور ان کی کنیت کو بیان کیا، اسانید کے اتصال اور انقطاع کو بیان کیا ، معمول بہ اور متروک احادیث کو واضح کیا، احادیث وآثار کے رد و قبول کے بارے میں موجود علمائے حدیث کے اختلافات کو بیان کیا۔ اور اس کی تاویل میں جو اختلاف تھا اس کو ذکر کیا، یہ سارے علوم علم حدیث کے بنیادی اصول میں سے ہیں، یہ انفرادیت و امتیازصرف جامع ترمذی کو حاصل ہے، اور یہ ساری چیزیں اس کتاب کے پڑھنے والے پر پوشیدہ نہیں رہ سکتی ہیں۔ (عارضۃ الاحوذی فی شرح الترمذی)۔
امام عزالدین ابن الاثیرالجزری (۵۵۵-۶۳۰ھ) کہتے ہیں : ترمذی امام، اور حافظ حدیث تھے ان کی بہترین تصنیفات ہیں جن میں سے حدیث میں الجامع الکبیر ہے جو بہترین کتاب ہے( الکامل فی التاریخ ۷/۴۶۰)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
نیز ابن الأثیر کہتے ہیں:صحیح جامع ترمذی بہترین اور مفید تر کتب احادیث میں سے ہے۔ جس کی ترتیب بڑی ہی اچھی ہے ، اس میں تکرار بھی کم ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں مختلف مذاہب اور ان کے وجوہ استدلال کا بھی ذکر ہے۔ اس میں حدیث کی اقسام صحیح، ضعیف اور غریب کو واضح کیا گیا ہے اور اس میں جرح و تعدیل بھی کی گئی ہے۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن رشید فہری (۶۵۷-۷۲۱ھ) کہتے ہیں: میرے نزدیک تحقیق سے قریب تر بات یہ ہے کہ جامع ترمذی میں احادیث ابواب کے تحت لکھی گئی ہیں جو بذات خود ایک علم ہے ، دوسرا علم فقہ ہے، اور تیسرا علم علل حدیث ہے جو حدیث کے صحیح و ضعیف ہونے اور ان کے مابین درجات کے بیان پر مشتمل ہے۔ چوتھا علم (رواۃ حدیث کے ) اسماء وکنی کاہے، پانچواں علم جرح و تعدیل ہے۔ چھٹا علم یہ ہے کہ جس تک حدیث کی سندپہنچی ہے آیا اس نے نبی اکرم ﷺ کو پایا ہے یا نہیں ۔ ساتواں علم یہ ہے کہ حدیث کو جن متعدد لوگوں نے روایت کیا ہے اس کو بیان کیا جائے۔ یہ چند اجمالی علوم ہیں جوجامع ترمذی میں پائے جاتے ہیں۔ جب کہ تفصیلی علوم تو متعدد ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جامع ترمذی میں بہت سارے فوائد پائے جاتے ہیں۔ (قوت المغتذی للسیوطی ۱/۱۵، مقدمۃ تحفۃ الأحوذی)۔
حافظ ا بن سید الناس (ت: ۷۳۴ھ) فرماتے ہیں : آٹھواں علم جو جامع ترمذی میں پایا جاتا ہے شاذ روایتیں ہیں جس کا ذکر نہیں ہوا اور نواں علم موقوف روایات ہیں،اسی طرح مدرج روایات ۔ ان سب کی موجودگی سے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں، علاوہ ازیں اس میں وفیات کی قلت ہے اور معرفت طبقات رواۃ وغیرہ کی جانب اشارے ہیں۔ یہ ساری چیزیں علوم حدیث کی معرفت اورعلم میں اضافہ کرنے والیٰ ہیں جن سے علم حدیث کی معرفت میں تفصیلی فوائد حاصل ہوتے ہیں (قوت المغتذی للسیوطی )۔
علامہ طاش کبری زادہ جامع ترمذی کے بارے میں لکھتے ہیں : وہ امام اورحافظ حدیث تھے، علم حدیث میں ان کی بہت ساری بہترین تصنیفات ہیں جن میں سے ایک جامع ترمذی بھی ہے جو بہترین اور مفید تر کتب احادیث میں سے ہے۔ جس کی ترتیب بھی بہت اچھی ہے اس میں تکرار بہت کم ہے نیز اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سارے مذاہب کے بارے میں بھی مذکور ہے۔ جبکہ دیگر کتابوں میں ایسا نہیں ہے۔ اس میں حدیث کی انواع و اقسام کوبھی بیان کیا گیا ہے جیسے صحیح، حسن اور غریب اور اس میں احادیث اور اس کی اسناد پر جرح و تعدیل کی گئی ہے اور کتاب کے آخر میں علل حدیث کو بیان کیا گیا ہے۔ اور اس میں بہترین فوائد کو جمع کیا گیا ہے۔ اور جو بھی اس کو پڑھے گا اس پر یہ خوبیاں چھپی نہیں رہ سکتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
صحیحین، سنن ابو داود اور سنن ترمذی پر شاہ ولی اللہ کا جامع تبصرہ

شاہ ولی اللہ دہلوی (ت: ۱۱۷۶ھ) حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں : میرے نزدیک وسعت علم اور افادیت کے اعتبار سے مشہور چار ائمہ ہیں جو سب کے سب ہم عصر ہیں ایک امام بخاری، دوسرے امام مسلم، تیسرے امام ابو داود اور چوتھے امام ترمذی ۔
جہاں تک امام بخاری کا تعلق ہے تو آپ نے جامع صحیح اس غرض سے لکھی کہ صحیح متصل احادیث کو چھانٹ چھانٹ کر کے الگ ایک جگہ اکٹھا کردیا جائے۔ اور ان سے فقہ، سیرت اور تفسیر کے احکام و مسائل مستنبط کئے جائیں چنانچہ انہوں نے اپنی تصنیف جامع صحیح کے اندر جو شرط رکھی تھی اس کا پورا پورا حق ادا کیا۔ اور یہی اس کا امتیازی وصف تھا جس کے سبب اس کو امت کے درمیان شرف قبولیت حاصل ہوا اور وہ مقام ملا جو کسی دوسری کتاب کو نہ مل سکا۔
رہے امام مسلم تو جامع صحیح کی تصنیف سے ان کا مقصد یہ تھا کہ محدثین کے درمیان موجود صحیح متصل مرفوع احادیث جن سے احکام مستنبط ہوتے ہیں ان کو چھانٹ چھانٹ کر الگ کر کے ایک جگہ اکٹھا کردیا جائے تاکہ وہ لوگوں کے ذہن و دماغ کے قریب اور نظر کے سامنے رہیں۔ اور ان سے احکام و مسائل مستنبط کرنا آسان ہوچنانچہ انہوں نے اپنی تصنیف جامع صحیح کو اسی ترتیب سے مرتب کیا اور ہر حدیث کے جتنے طرق واسانید وارد تھے ان کو ایک جگہ جمع کردیا تاکہ متون کا جو اختلاف ہے وہ واضح ہو جائے۔ چنانچہ آپ نے ہر حدیث کے جتنے طرق واسانید وارد تھے ان کو صراحت کے ساتھ بیان کیا۔
امام ابو داود کا مقصدسنن کی تالیف سے یہ تھا کہ جن احادیث سے فقہاء نے استدلال کیا ہے ان کو اکٹھا کردیا جائے۔ فقہائے امصار نے جن احادیث پر احکام کی بنیاد رکھی اور ان کے مابین احکام کا مدار جن احادیث پر تھا اس کو سامنے رکھ کر سنن کی تالیف کی۔ اور اس میں صحیح و حسن احادیث جمع کی نیز وہ احادیث جو قابل عمل تھیں ان کو بیان کیا جن میں کسی قدرضعف پایا جاتا تھا۔ امام ابو داود فرماتے ہیں: میں نے اپنی کتاب سنن میں کوئی ایسی حدیث ذکر نہیں کی ہے جس کو متفقہ طور پر بالاجماع محدثین اور اہل علم نے متروک قرار دیا ہو، حدیث کے اندر جو ضعف تھا اس کو صراحت کے ساتھ بیان کردیا اور جو اس میں علت پائی جاتی تھی اس کو بڑی باریک بینی کے ساتھ واضح کردیا ہے۔ اور ہراُس حدیث کوباب کے تحت ذکر کیا ہے جس سے کسی عالم نے مسئلہ استنباط کیا ، اور مذہب اختیار کرنے والوں نے اُسے اپنا مذہب بنایا ہے۔
جہاں تک امام ترمذی کا تعلق ہے تو آپ نے امام بخاری اور مسلم کے طریقے اور منہج کو واضح کیا ،اور کسی قسم کا کوئی ابہام اپنی کتاب میں نہ رہنے دیا ۔ امام ابو داود نے اپنی سنن کے اندر یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ فقہاء نے جن روایتوں کو اپنا مذہب بنایا ہے اس کو جمع کردیا ہے۔ اپنی جامع صحیح کے اندر ان تینوں اماموں (بخاری و مسلم اور ابوداود) کے طریقوں کومستحسن قرار دیتے ہوئے یکساں طور پر اپنایا ہے۔ ساتھ ساتھ صحابہ، تابعین اورفقہائے امصار کے مذاہب کو بیان کیا ہے۔ پس ان سب کی جامع ایک ایسی کتاب تیار کی جس میں طرق احادیث کو اختصارسے ذکر کیا۔ ایک حدیث باب کے تحت درج کرکے اس کے ضمن میں وارد دیگرصحابہ سے مروی احادیث کی طرف اشارہ کردیا۔ اور اس بات کی بھی صراحت کردی کہ یہ حدیث درجہ کے اعتبار سے صحیح ہے یا حسن یا ضعیف یا منکر ، اور حدیث کے ضعیف اور معلول ہونے کے اسباب کو بھی بیان کردیا ، تاکہ علم حدیث حاصل کرنے والا علی وجہ البصیرۃ علم حدیث حاصل کرسکے۔ اور یہ جان سکے کہ یہ حدیث استدلال کے قابل ہے یا نہیں۔ اور یہ بھی واضح کردیا کہ یہ روایت مستفیض ومشہور ہے یا غریب ومتفرد، صحابہ، تابعین اور فقہائے امصار کے مذاہب کو بھی بیان کیا، اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی رواۃ کے نام اور کنیت کا تذکرہ کیا۔ اور کہیں کوئی خفاء نہیں چھوڑا ،امام ترمذی ماہرعلم رجال میں سے تھے اسی لئے آپ کی کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب مجتہد کے لئے تنہا کافی ہے اور تقلید کرنے والے کو اس کی تقلید سے بے نیاز کردینے والی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شاہ عبد العزیز دہلوی بستان المحدثین میں لکھتے ہیں : امام ترمذی کی علم حدیث کے اندر متعدد تصانیف ہیں جن میں سب سے بہترین تصنیف جامع ترمذی ہے۔ اس کتاب میں چند خوبیاں ایسی ہیں جس کی بنا پر یہ تمام کتب احادیث سے بہتر اور فائق ہے۔
پہلی خوبی یہ ہے کہ اس کی ترتیب بہت اچھی ہے اور اس میں تکرار نہیں پائی جاتی۔
دوسری خوبی یہ ہے کہ اس میں حدیث کا ذکر کر کے اس کے وجوہ استدلال اور اس سے مستنبط احکام اور فقہی مذاہب کو بیان کیا گیا ہے ۔
تیسری خوبی یہ ہے کہ اس میں حدیث کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا حسن یا یہ ضعیف، غریب اور معلل ہے۔
چوتھی خوبی یہ ہے کہ اس میں حدیث کے راوی کا نام اور کنیت کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے اورعلم اسماء الرجال کے تعلق سے جو دیگر فوائد تھے ان کو بیان کیا گیا ہے۔
شیخ ابراہیم بیجوری (ت: ۱۲۷۶ھ) اپنی کتاب:''المواهب اللدنية على الشمائل المحمدية'' میں لکھتے ہیں : امام ترمذی کی جامع حدیث اور فقہ دونوں کے فوائد کی جامع ہے، جس میں سلف اور خلف سب کے مذاہب کا علم موجود ہے یہ مجتہد کے لئے تنہا کافی ہے اور تقلید کرنے والے کو اس کی تقلید سے بے نیاز کردینے والی ہے۔
علامہ طاش کبری زادہ جامع ترمذی کے بارے میں لکھتے ہیں : امام ترمذی امام اور حافظ حدیث تھے، علم حدیث میں ان کی بہت ساری بہترین تصنیفات ہیں جن میں سے ایک جامع ترمذی بھی ہے جو بہترین اور مفید تر کتب احادیث میں سے ایک ہے، جس کی ترتیب بھی بہت اچھی ہے، اس میں تکرار بہت کم ہے ، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں بہت سارے مذاہب کا تذکرہ ہے، جبکہ دیگر کتابوں میں ایسا نہیں ہے۔ نیز اس میں حدیث کی انواع و اقسام کو بیان کیا گیا ہے جیسے صحیح، حسن اور غریب اور اس میں احادیث اور اس کی اسناد پر جرح و تعدیل کی گئی ہے اور کتاب کے آخر میں علل حدیث کو بیان کیا گیا ہے،اور اس میں بہترین فوائد کو جمع کیا گیا ہے۔ جو شخص بھی اس کتاب کا مطالعہ کرے گا اس پر یہ خوبیاں چھپی نہیں رہ سکتیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سنن ترمذی کی شرط

٭حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی (ت: ۵۰۷ھ) اپنی کتاب شروط الائمہ الستہ میں لکھتے ہیں :
ائمہ حدیث ( بخاری ،مسلم ،ابوداود ، نسائی ، ترمذی اور ابن ماجہ) میں سے کسی سے یہ منقول نہیں ہے کہ میں اپنی کتاب میں یہ حدیثیں فلاں اور فلاں شرط کے تحت ذکر کروں گا۔ لیکن جب ان کی تصانیف کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس سے مندرجہ ذیل نتیجہ نکلتا ہے اور ان شرائط کا علم ہوتا ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہیں:
امام بخاری اورامام مسلم کی یہ شرط ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں صرف وہی احادیث ذکر کریں گے جن کی سند میں ایسے راوی ہوں جن کا سلسلۂ سند کسی مشہور صحابی تک پہنچتا ہو اور ان کی ثقاہت وعدالت پر جملہ محدثین اصحاب جرح و تعدیل کا اجماع و اتفاق ہو۔
امام ابو داود اور امام نسائی کی کتابوں میں مروی احادیث کی تین قسمیں ہیں:
۱- وہ صحیح احادیث جو صحیحین میں مروی ہیں۔
۲- دوسری ایسی احادیث جو شیخین (بخاری ومسلم) کی شرط پر ہیں۔
۳- تیسری ایسی احادیث جن کی ان دونوں نے تخریج کی ہے لیکن جن کے بارے میں قطعیت کے ساتھ اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ یہ صحیح ہیں، البتہ انہوں نے ان احادیث کے بارے میں اہل علم و معرفت نے جو علتیں ذکر کی ہیں اُن کو بیان کردیا ہے ۔ایسا انہوں نے محض اس لئے کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے اِن احادیث کی روایت کی ہے اور ان سے استدلال کیا ہے۔ چنانچہ محض اسی بنا پر اِن دونوں اماموں نے ایسی احادیث کو اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، البتہ اس میں جو کمزوری اورضعف پایا جاتا تھا اس کو واضح کردیا تاکہ شبہ ختم ہوجائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارئہ کار نہ تھا ، کیونکہ ان کے نزدیک یہ روایات لوگوں کے اقوال وآراء کے مقابلے میں زیادہ قوی تھیں۔
رہے امام ترمذی تو ان کی جامع میں چار قسم کی احادیث ملتی ہیں:
۱- پہلی قسم وہ ہے جو قطعی طور پر صحیح ہے جو صحیحین کے موافق ہے ۔
۲- دوسری قسم وہ ہے جو امام ابو داود اور امام نسائی کی شرط پر ہے۔
۳- تیسری قسم ان احادیث کی ہے جو مذکورہ اقسام کے خلاف ہیں اور جن کی علت انہوں نے بیان کردی ہے۔
۴- اور چوتھی قسم ان احادیث کی ہے جن کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ وہ احادیث ہیں جن پر فقہاء کا عمل رہا ہے۔ اور یہ کہ میں نے اس کتاب میں وہی روایات نقل کی ہیں جو معمول بہ تھیں (یعنی کسی عالم اور فقیہ نے اس پر عمل کیا تھا) یہ بڑی وسیع شرط ہے جس کی بنا پر بہت ساری معمول بہ احادیث آجاتی ہیں۔ خواہ وہ سنداً صحیح ہوں یا غیر صحیح، اس کا ذکر کرکے خود کچھ کہنے اوراُن پرحکم لگانے سے گریز کیا ہے۔نیز اپنی اس کتاب میں ایک باب کے تحت آنے والی مختلف صحابہ سے مروی احادیث کی طرف اشارہ کردیا ہے، چنانچہ کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں(شروط الأئمہ الستہ)۔
٭ابونصرعبدالرحیم بن عبدالخالق بغدادی (ت : ۵۷۴ھ ) کہتے ہیں:جامع ترمذی کی احادیث کی چار قسمیں ہیں:
(۱) پہلی قسم وہ احادیث جو قطعی طور پر صحیح ہیں۔
(۲) دوسری قسم جوابوداود اور نسائی کی شرط پرہوں۔
(۳) اور تیسری قسم امام ترمذی کی سابقہ شروط کی ضد اور مخالف احادیث ہیں،ترمذی نے جن کے ضعف کی علت بیان کی ہے۔
(۴) اور چوتھی وہ قسم جن کے بارے میں امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی اس کتاب میں صرف وہی حدیثیں روایت کی ہیں جن پر بعض فقہاء نے عمل کیا ہے ، صرف دوحدیثیں ایسی ہیں جو اس قاعدے سے الگ ہیں:
ایک حدیث: فإن شرب في الرابعة فاقتلوه (کتاب الحدود : ۱۴۴۴) (اگر شرابی چوتھی بار شراب پئے تو اسے قتل کردو)۔
دوسری حدیث : جمع بين الظهر والعصر بالمدينة من غير خوف ولا مطر (کتاب الصلاۃ : ۱۸۷) (نبی اکرم ﷺ نے مدینہ میں بغیر کسی خوف یا سفر کے ظہر اور عصر جمع کرکے ایک ساتھ پڑھی )۔(السیر ۱۳/۲۷۴-۲۷۵)۔
حافظ ذہبی ابوناصر بغدادی کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ امام ترمذی کی جامع سے آپ کی امامت ، حفظ اور تفقہ کا فیصلہ ہوجاتا ہے ، لیکن آپ حدیث کے قبول کرنے (یعنی تصحیح کرنے) میں سہل پسند ہیں متشدد نہیں ہیں، اور حدیث کی تضعیف کرنے میں ڈھیلے ڈھالے ہیں۔
امام ترمذی کے حدیث کی تصحیح میں تساہل پر حافظ ذہبی ( ۶۷۳-۷۴۸ھ) نے میز ان الاعتدال میں ایک سے زائد بار تنقید فرمائی ہے، متکلم فیہ راوی کثیر بن عبداللہ بن عمر بن عوف مزنی کے ترجمہ میں ان پر علماء کی جرح نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: ترمذی نے ان سے حدیث : الصلح جائز بين المسلمينروایت کی ہے ، اور اس کی تصحیح بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ علماء ترمذی کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے(میزان الاعتدال ۳/۴۰۷)۔
یحیی بن یمان کے ترجمہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث : إن النبي ﷺ دخل قبرا ليلا فأسرج له سراجذکر کرکے کہتے ہیں کہ ترمذی نے اس حدیث کی تحسین کی ہے ، جب کہ اس میں تین راوی ضعیف ہیں، اس لیے ترمذی کی تحسین نہیں مانی جائے گی، تحقیق کے وقت ترمذی کی اکثر تحسینات ضعیف ہیں(میزان الاعتدال۴/۴۱۶)۔
محمد بن الحسن بن ابی یزید الہمد انی الکوفی کے ترجمے میں ابوسعید رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث : يقول الله: من شغله قرائة القرآن عن دعائي ومسألتي أعطيته أفضل ثواب الشاكرين'' ذکرکر کے کہتے ہیں: ترمذی نے اس کی تحسین کی ہے، لیکن اچھا نہیں کیا ہے(میزان الاعتدال۳/۵۱۴)
٭حافظ ابوبکر محمدبن موسیٰ حازمی (۵۴۸-۵۸۴ھ) اپنی کتاب شروط الائمہ میں لکھتے ہیں :
ائمہ حدیث میں سے جن لوگوں نے صحیح احادیث کی تخریج کی ہے ان کا مذہب اور طریقہ یہ ہے:
وہ اپنی کتابوں میں صرف وہی احادیث ذکر کریں گے جن کی سند میں ایسے راوی ہوں جو خود ثقہ و عادل ہوں، اسی طریقہ سے جن مشائخ سے انہوں نے سنا ہے ،اورجن لوگوں نے ان سے سنا ہے سب ثقہ و عادل ہوں ۔ اور ان میں سے ایک دوسرے کی تحدیث صحیح طور پر ثابت ہو تو ایسی احادیث کی تخریج لازم ہے۔
اور بعض روایتیں اس لائق نہیں ہیں کہ ان کی تخریج کی جائے الا یہ کہ بطور شاہداور متابع کے ان کا ذکر کیا جائے۔
فرماتے ہیں : یہ ایسا باب ہے جس میں غموض ہے اور اس طریق کی وضاحت کے لئے راویوں کے طبقات اور ان کے مراتب کی معرفت اور اس کا علم ہونا چاہئے،جس کو ہم ایک مثال سے واضح کردینا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر تلامذئہ زہری کے پانچ طبقات ہیں، اور ہر طبقہ دوسرے طبقہ سے مختلف اور ممتاز ہے:
پہلا طبقہ انتہا درجہ کی صحت کا حامل ہے جیسے مالک، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن عمر، یونس اورعقیل جیسے لوگ ،یہ طبقہ رواۃ امام بخاری کا مقصود ومطلوب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دوسرا طبقہ پہلے طبقہ کی طرح ہی انتہا درجہ کی صحت کا حامل ہے البتہ یہ پہلے سے کچھ کم درجہ کے ہیں، اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے طبقہ کے رواۃ امام زہری کی صحبت میں دوسرے طبقہ کے مقابلے میں زیادہ رہے ، نیز اس طبقہ کے لوگ (حدیث کی روایت وحفظ کے باب میں ) اتقان اور پختگی میں پہلے طبقہ کے لوگوں سے کچھ کم درجہ کے ہیں، یہ لوگ امام مسلم کی شرط کے مطابق ہیں، جیسے اوزاعی، لیث بن سعد، نعمان بن راشد،عبد الرحمٰن بن خالد بن مسافراور ابن ابی ذئب جیسے رواۃ حدیث ۔
تیسرا طبقہ پہلے طبقہ رواۃ کی طرح ہی امام زہری کی صحبت میں رہاہے۔ البتہ یہ طبقہ سابقہ رواۃ باعتبار صحت کچھ کم درجہ کا ہے، اور ان دونوں طبقوں میں فرق یہ ہے کہ اس طبقہ کے لوگ امام زہری کی صحبت میں پہلے طبقہ کی طرح رہے، لیکن یہ لوگ حفظ و اتقان میں پہلے طبقہ کے لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ان سے بہت کم ہیں۔ ان کی روایتوں کے رد و قبول کے سلسلہ میں محدثین کا اختلاف رہا ہے۔ اور یہ طبقہ رواۃ امام ابو داود اور امام نسائی کی شرط کے مطابق ہیں۔ جیسے سفیان بن حسین، جعفر بن برقان اور اسحاق بن یحییٰ کلبی۔
چوتھا طبقہ جرح و تعدیل کے معاملہ میں تیسرے طبقہ رواۃ کی طرح ہی ہیں، لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اس طبقہ کے لوگ امام زہری کی صحبت میں تیسرے طبقہ کی طرح نہیں رہے ہیں، اس طبقہ کے لوگ چونکہ امام زہری کی صحبت میں کم رہے ہیں اس لئے وہ روایت حدیث میں متفرد ہیں،اور یہ لوگ امام ترمذی کی شرط کے مطابق ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امام ترمذی کی شرط امام ابو داود کی شرط کے مقابلہ میں زیادہ قوی ہے، کیونکہ جب حدیث ضعیف ہوتی ہے یا طبقہ رابعہ کے راویوں کی روایت ہوتی ہے تو امام ترمذی اس حدیث میں پائے جانے والے ضعف و علت کو بیان کردیتے اور اس پر متنبہ کردیتے ہیں پس ان کے نزدیک وہ حدیث بطور شاہد و متابع کے ہوتی ہے۔ اور ان کا اعتماد ان احادیث پر ہوتاہے جو جماعت محدثین کے نزدیک صحیح و ثابت ہوں، اور اس طبقہ کے لوگ زمعہ بن صالح، معاویہ بن یحییٰ صدفی اور مثنیٰ بن صباح جیسے رواۃ ہیں ۔
پانچویں طبقہ میں ضعیف اور مجہول اور ایسے رواۃ ہیں کہ جن کی روایتوں کی تخریج جائز ہی نہیں البتہ امام ابوداود کے نزدیک بطوراعتبار اور استشہاد اس کو ذکر کیا جا سکتا ہے، جبکہ امام بخاری و مسلم کے نزدیک ایسے رواۃ سے روایت جائز نہیں ہے،اس طبقہ میں بحر بن کنیز السقاء، حکم بن عبد اللہ الایلی، عبد القدوس بن حبیب، محمد بن سعید مصلوب جیسے رواۃ ہیں ۔
امام بخاری نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ ثانیہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔ اسی طرح امام مسلم نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ ثالثہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔ اور امام ابوداود نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ رابعہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
٭حافظ ابن رجب (۷۲۶-۷۹۵ھ) شرح العلل میں ترمذی کی احادیث پر یوں تبصرہ کرتے ہیں: ترمذی نے اپنی کتاب میں صحیح اور حسن جو صحیح سے نیچے درجے کی حدیث ہے، اور اس میں بعض ضعف ہوتا ہے اور غریب حدیث تخریج کی ہے، ترمذی نے جن غریب احادیث کا ذکر کیا ہے ، ان میں بعض بڑی ضعیف احادیث ہیں بالخصوص کتاب الفضائل میں لیکن وہ ان احادیث کی اکثر علت بیان کردیتے ہیں، اور خاموش نہیں رہتے، میرے علم میں ترمذی نے کسی ایسی حدیث کی علی الاستقلال منفرد سندسے تخریج نہیں کی ہے جس کا راوی متفقہ طورپر متہم بالکذب ہو، ہاں وہ کبھی کئی طرق سے روایت کی جانے والی حدیث کی تخریج کرتے ہیں یا جس کی سند میں اختلاف ہوتا ہے اور بعض طرق میں متہم راوی ہوتا ہے ، اور اسی بناء پر محمد بن سعید مصلوب اور محمدبن سائب کلبی کی احادیث کی تخریج کی ہے، اور کبھی کمزور حافظے والے یا جس کی احادیث میں اوہام کا غلبہ ہوتاہے سے روایت کرتے ہیں، اور اکثر اس کی وضاحت کردیتے ہیں اور خاموش نہیں رہتے ، نیز ثقہ اور حافظے کے مضبوط رواۃ اور کم وہم والے اور زیادہ وہم والے رواۃ سے روایت کرتے ہیں، اور جس راوی پر وہم غالب ہوتا ہے ، اُن کی احادیث کو نادر طور پر روایت کرتے ہیں اور اس کی وضاحت بھی کردیتے ہیں، خاموش نہیں رہتے (میزان الاعتدال ۱/۳۹۵)۔
امام ترمذی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ترجمۃ الباب کا تذکرہ کرتے ہیں اور اس باب کے تحت کسی مشہور صحابی سے مروی صحیح حدیث ذکر کرتے ہیں جس کی تخریج کتب صحاح میں ہو چکی ہے۔ لیکن باب میں مذکور حکم کسی دوسرے صحابی سے مروی دوسری غیر مذکور حدیث سے نکلتا ہے لیکن اس کی تخریج انہوں نے نہیں کی ہے تو اس کی طرف اشارہ کردیتے ہیں اگرچہ وہ سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کا حکم صحیح ہو۔ پھر اس کے بعد کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں، اور پوری ایک جماعت کو ذکر کرجاتے ہیں جن میں وہ صحابی بھی شامل ہوتے ہیں جن کی حدیث سے باب کا حکم نکلتا ہے،اور ایسا چند ابواب میں ہی ہوا ہے۔
 
Top