- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
٭ هذا حديث فيه اضطراب: اس اصطلاح کا معنی یہ ہے کہ اس حدیث میں اضطراب ہے ، یا یہ حدیث مضطرب ہے ۔
اصطلاح حدیث میں مضطرب : اس حدیث کو کہتے ہیں جو ایک ہی راوی سے مختلف طرق دو یا تین یا زیادہ سے مروی ہو۔ یا دوسرے راویوں سے یا متقارب راویوں سے مروی ہو، ان سب کا آپس میں باہم سخت اختلاف ہو،اور ان کے درمیان جمع وتوفیق اورتاویل ممکن نہ ہو، اورتمام روایات قوت میں ایک دوسرے کے برابرہوں ،کسی کودوسرے پر کسی صورت میں ترجیح ممکن نہ ہو، اگرکوئی طریقہ روایت قوت میں زیادہ ہوتو پھر اس حدیث کو مضطرب نہیں کہیں گے ، راجح روایت پر عمل کریں گے ، اسنادی قوت کے علاوہ ترجیح کے اوربھی اسباب وعوامل ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے بھی روایت کوترجیح دی جاسکتی ہوتواس پر عمل کیاجائے گا۔ حدیث میں اضطراب اس کے ضعف کی ایک علامت اور دلیل ہے۔
٭هذا حديث غير محفوظ: (یہ حدیث محفوظ نہیں ہے )، اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث شاذ ہے ۔ شاذ (غیر محفوظ) حدیث بھی ضعیف احادیث کی ایک قسم ہے ، شاذ ایسے ثقہ راوی کی روایت کو کہتے ہیں جس نے اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے خلاف حدیث روایت کی ہویا ثقہ نے ثقات کی ایک جماعت کے برخلاف روایت کی ہو، توزیادہ ثقہ راوی یا کئی ثقات کے مقابلے میں کم ثقہ کی روایت کوشاذ یا غیر محفوظ کہتے ہیں، اور اس سے زیادہ ثقہ راوی یا ثقات کی روایت کو ''محفوظ''کہاجاتاہے ، ظاہربات ہے کہ تعارض اور اختلاف کے وقت ''محفوظ'' روایت کو ترجیح دی جائے گی۔
٭ الكراهة أو الكراهية: بعض جگہ شریعت کے احکام کی وضاحت میں ( کراہۃ اور کراھیۃ ) کالفظ استعمال کرتے ہیں، واضح رہے کہ امام ترمذی اس لفظ کا معنی تنزیہ یا ترک اولی کے نہیں لیتے ، جیسا کہ عام فقہاء کی اصطلاح میں کراہت اور کراہیت کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، بلکہ اس لفظ سے تنزیہ اور ترک اولی اور حرمت کے معنی میں استعمال کرتے ہیں، اور سلف کے یہاں بھی یہ لفظ حرام کے معنی میں بکثرت استعمال ہواہے ۔
چنانچہ امام عینی عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں: متقدمین کراہت کا لفظ بول کر اس سے کراہتِ تحریمی مراد لیتے ہیں(۳/۳۸۷)، مزید تفصیل کے لیے إعلام الموقعین لابن القیم ، اور نواب صدیق حسن کی الدین الخالص کا مطالعہ مفید ہوگا، نیز مقدمہ تحفۃ الأحوذی میں بھی اس کی تفصیل موجود ہے(۳۲۴-۳۲۸)۔
٭أهل الرأي: امام ترمذی نے بعض جگہ یہ لفظ استعمال کیا ہے اس سے اُن کی مراد وہ لوگ ہیں جو حدیث پر رائے اور قیاس کو ترجیح دیتے تھے، چونکہ عراق اہل الرائے فقہاء کا گڑھ تھا اس لیے اس اصطلاح سے مراد وہاں کے علماء کا طریقہ تفقہ بھی ہے، اس سلسلے میں سب سے زیادہ شہرت امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کو ہے جو اہل الرائے سے مشہور ہیں، ان کے مقابلے میں اہل حدیث کا مذہب ہے جن کا گڑھ حجاز (یعنی مکہ اور مدینہ) تھا، یہ دونوں گروہ اہل علم کے یہاں شروع ہی سے متعارف تھے۔
امام ترمذی اہل الکوفہ کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں، جس سے مراد کوفہ کے علماء وفقہاء ہوتے ہیں جیسے کہ سفیان ثوری ، سفیان بن عیینہ اور ابوحنیفہ وغیرہ ، اور جب ''بعض اہل کوفہ'' کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے خاص طور پر امام ابوحنیفہ ہی نہیں مراد ہوتے ، بلکہ وہ کوفی عالم مقصود ہوتا ہے جس کے قول یا رائے کا ذکر یا اس پر کلام مقصود ہو، چنانچہ کتاب الطہارۃ میں باب ماجاء أنہ یبدأ بمؤخر الرأس ،رأس کے تحت ربیع بنت معوذ کی حدیث ذکرکرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے سر کا مسح دو بار کیا، اور پہلے اپنے سر کے پچھلے حصے سے مسح شروع کیا پھرآگے کا مسح کیا، اس پر امام ترمذی کہتے ہیں: وقد ذهب أهل الكوفة إلى هذا الحديث منهم وكيع بن الجراح یعنی بعض اہل کوفہ کا مذہب اس حدیث پر ہے ، ان میں سے وکیع بن جراح ہیں، ترمذی نے یہاں پر بعض اہل کوفہ کا لفظ استعمال کیا ، اور یقینی طور پر یہاں اس سے مراد امام ابوحنیفہ نہیں ہیں، اس لیے بعض شراحِ حدیث جیسے سراج احمد ہندی اور محدث عبدالحق کا یہ کہنا کہ اہل کوفہ سے ترمذی کی مرادامام ابوحنیفہ سے ہے ، لیکن تعصب کی وجہ سے نام کی صراحت نہیں کرتے ، یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں، نہ تو اہل کوفہ سے مراد مخصوص طور پر ابوحنیفہ ہیں اور نہ ہی ان کا نام نہ لینا کسی تعصب کی بنا پر تھا ، جیسا کہ سابقہ مثال میں خود امام ترمذی نے اہل کوفہ کا لفظ استعمال کرکے ان میں سے امام وکیع کا ذکرکیا، اس مسئلہ کو علامہ مبارکپوری نے خوب اچھی طرح واضح کیا ہے ۔
اصطلاح حدیث میں مضطرب : اس حدیث کو کہتے ہیں جو ایک ہی راوی سے مختلف طرق دو یا تین یا زیادہ سے مروی ہو۔ یا دوسرے راویوں سے یا متقارب راویوں سے مروی ہو، ان سب کا آپس میں باہم سخت اختلاف ہو،اور ان کے درمیان جمع وتوفیق اورتاویل ممکن نہ ہو، اورتمام روایات قوت میں ایک دوسرے کے برابرہوں ،کسی کودوسرے پر کسی صورت میں ترجیح ممکن نہ ہو، اگرکوئی طریقہ روایت قوت میں زیادہ ہوتو پھر اس حدیث کو مضطرب نہیں کہیں گے ، راجح روایت پر عمل کریں گے ، اسنادی قوت کے علاوہ ترجیح کے اوربھی اسباب وعوامل ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے بھی روایت کوترجیح دی جاسکتی ہوتواس پر عمل کیاجائے گا۔ حدیث میں اضطراب اس کے ضعف کی ایک علامت اور دلیل ہے۔
٭هذا حديث غير محفوظ: (یہ حدیث محفوظ نہیں ہے )، اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث شاذ ہے ۔ شاذ (غیر محفوظ) حدیث بھی ضعیف احادیث کی ایک قسم ہے ، شاذ ایسے ثقہ راوی کی روایت کو کہتے ہیں جس نے اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے خلاف حدیث روایت کی ہویا ثقہ نے ثقات کی ایک جماعت کے برخلاف روایت کی ہو، توزیادہ ثقہ راوی یا کئی ثقات کے مقابلے میں کم ثقہ کی روایت کوشاذ یا غیر محفوظ کہتے ہیں، اور اس سے زیادہ ثقہ راوی یا ثقات کی روایت کو ''محفوظ''کہاجاتاہے ، ظاہربات ہے کہ تعارض اور اختلاف کے وقت ''محفوظ'' روایت کو ترجیح دی جائے گی۔
٭ الكراهة أو الكراهية: بعض جگہ شریعت کے احکام کی وضاحت میں ( کراہۃ اور کراھیۃ ) کالفظ استعمال کرتے ہیں، واضح رہے کہ امام ترمذی اس لفظ کا معنی تنزیہ یا ترک اولی کے نہیں لیتے ، جیسا کہ عام فقہاء کی اصطلاح میں کراہت اور کراہیت کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، بلکہ اس لفظ سے تنزیہ اور ترک اولی اور حرمت کے معنی میں استعمال کرتے ہیں، اور سلف کے یہاں بھی یہ لفظ حرام کے معنی میں بکثرت استعمال ہواہے ۔
چنانچہ امام عینی عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں: متقدمین کراہت کا لفظ بول کر اس سے کراہتِ تحریمی مراد لیتے ہیں(۳/۳۸۷)، مزید تفصیل کے لیے إعلام الموقعین لابن القیم ، اور نواب صدیق حسن کی الدین الخالص کا مطالعہ مفید ہوگا، نیز مقدمہ تحفۃ الأحوذی میں بھی اس کی تفصیل موجود ہے(۳۲۴-۳۲۸)۔
٭أهل الرأي: امام ترمذی نے بعض جگہ یہ لفظ استعمال کیا ہے اس سے اُن کی مراد وہ لوگ ہیں جو حدیث پر رائے اور قیاس کو ترجیح دیتے تھے، چونکہ عراق اہل الرائے فقہاء کا گڑھ تھا اس لیے اس اصطلاح سے مراد وہاں کے علماء کا طریقہ تفقہ بھی ہے، اس سلسلے میں سب سے زیادہ شہرت امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کو ہے جو اہل الرائے سے مشہور ہیں، ان کے مقابلے میں اہل حدیث کا مذہب ہے جن کا گڑھ حجاز (یعنی مکہ اور مدینہ) تھا، یہ دونوں گروہ اہل علم کے یہاں شروع ہی سے متعارف تھے۔
امام ترمذی اہل الکوفہ کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں، جس سے مراد کوفہ کے علماء وفقہاء ہوتے ہیں جیسے کہ سفیان ثوری ، سفیان بن عیینہ اور ابوحنیفہ وغیرہ ، اور جب ''بعض اہل کوفہ'' کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے خاص طور پر امام ابوحنیفہ ہی نہیں مراد ہوتے ، بلکہ وہ کوفی عالم مقصود ہوتا ہے جس کے قول یا رائے کا ذکر یا اس پر کلام مقصود ہو، چنانچہ کتاب الطہارۃ میں باب ماجاء أنہ یبدأ بمؤخر الرأس ،رأس کے تحت ربیع بنت معوذ کی حدیث ذکرکرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے سر کا مسح دو بار کیا، اور پہلے اپنے سر کے پچھلے حصے سے مسح شروع کیا پھرآگے کا مسح کیا، اس پر امام ترمذی کہتے ہیں: وقد ذهب أهل الكوفة إلى هذا الحديث منهم وكيع بن الجراح یعنی بعض اہل کوفہ کا مذہب اس حدیث پر ہے ، ان میں سے وکیع بن جراح ہیں، ترمذی نے یہاں پر بعض اہل کوفہ کا لفظ استعمال کیا ، اور یقینی طور پر یہاں اس سے مراد امام ابوحنیفہ نہیں ہیں، اس لیے بعض شراحِ حدیث جیسے سراج احمد ہندی اور محدث عبدالحق کا یہ کہنا کہ اہل کوفہ سے ترمذی کی مرادامام ابوحنیفہ سے ہے ، لیکن تعصب کی وجہ سے نام کی صراحت نہیں کرتے ، یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں، نہ تو اہل کوفہ سے مراد مخصوص طور پر ابوحنیفہ ہیں اور نہ ہی ان کا نام نہ لینا کسی تعصب کی بنا پر تھا ، جیسا کہ سابقہ مثال میں خود امام ترمذی نے اہل کوفہ کا لفظ استعمال کرکے ان میں سے امام وکیع کا ذکرکیا، اس مسئلہ کو علامہ مبارکپوری نے خوب اچھی طرح واضح کیا ہے ۔