• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
193- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الصَّلاَةُ
۱۹۳-باب: قیامت کے دن سب سے پہلے صلاۃ کے محاسبہ کا بیان​


413- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ حُرَيْثِ بْنِ قَبِيصَةَ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَقُلْتُ: اللّهُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا، قَالَ: فَجَلَسْتُ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ: إِنِّي سَأَلْتُ اللهَ أَنْ يَرْزُقَنِي جَلِيسًا صَالِحًا، فَحَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، لَعَلَّ اللهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ:"إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلاَتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْئٌ قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الْحَسَنِ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ حُرَيْثٍ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ. وَالْمَشْهُورُ هُوَ قَبِيصَةُ بْنُ حُرَيْثٍ وَرُوِي عَنْ أَنَسِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ هَذَا.
* تخريج: ن/الصلاۃ ۹ (۴۶۶)، ق/الإقامۃ ۲۰۲ (۱۴۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۹۳)، حم (۲/۴۲۵) (صحیح)
۴۱۳- حریث بن قبیصہ کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا: میں نے کہا:اے اللہ مجھے نیک اورصالح ساتھی نصیب فرما، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھنا میسر ہوگیا، میں نے ان سے کہا: میں نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ مجھے نیک ساتھی عطا فرما،توآپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے، جسے آپ نے رسول اللہﷺ سے سنی ہو، شاید اللہ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے: ''قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی صلاۃ کا محاسبہ ہوگا، اگر وہ ٹھیک رہی تو کامیاب ہوگیا، اور اگروہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور نامرادرہا،اور اگر اس کی فرض صلاتوں میں کوئی کمی ۱؎ ہوگی تو رب تعالیٰ (فرشتوں سے) فرمائے گا: دیکھو، میرے اس بندے کے پاس کوئی نفل صلاۃ ہے؟ چنانچہ فرض صلاۃ کی کمی کی تلافی اس نفل سے کردی جائے گی، پھر اسی اندازسے سارے اعمال کا محاسبہ ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے ۲- یہ حدیث دیگراور سندوں سے بھی ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہے،۳- حسن کے بعض تلامذہ نے حسن سے اورانہوں نے قبیصہ بن حریث سے اس حدیث کے علاوہ دوسری اورحدیثیں بھی روایت کی ہیں اورمشہور قبیصہ بن حریث ہی ہے ۲؎ ، یہ حدیث بطریق: '' أَنَسِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ''بھی روایت کی گئی ہے،۴- اس باب میں تمیم داری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ کمی خصوع خضوع اوراعتدال کی کمی بھی ہوسکتی ہے ، اورتعدادکی کمی بھی ہوسکتی ہے ،کیونکہ آپ نے فرمایا ہے ''دیگر سارے اعمال کا معاملہ بھی یہی ہوگا ''توزکاۃ میں کہاں خشوع خضوع کا معاملہ ہے ؟ وہاں تعدادہی میں کمی ہوسکتی ہے ،اللہ کا فضل بڑا وسیع ہے ، عام طورپر صلاۃپڑھتے رہنے والے سے اگرکوئی صلاۃ رہ گئی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ معاملہ فرمادے گا، إن شاء اللہ ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی : ان کے نام میں اختلاف ہے ، ''قبیصہ بن حریث''بھی کہا گیا ہے ، اور ''حریث بن قبیصہ ''بھی کہاگیاہے ، تو زیادہ مشہور''قبیصہ بن حریث''ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
194- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ وَمَا لَهُ فِيهِ مِنَ الْفَضْلِ
۱۹۴-باب: دن ورات میں بارہ رکعتیں سنت پڑھنے کے ثواب کا بیان​


414- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَطَاءِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ: أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي مُوسَى، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَمُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ قَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: ن/قیام اللیل ۶۶ (۱۷۹۵، ۱۷۹۶)، ق/الإقامۃ ۱۰۰ (۱۱۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۹۳) (صحیح) (تراجع الألبانی ۶۲۱)
۴۱۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جو بارہ رکعت سنت ۱؎ پرمداومت کرے گا اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے ۲؎ ، دورکعتیں اس کے بعد، دورکعتیں مغرب کے بعد، دورکعتیں عشاء کے بعد اور دورکعتیں فجر سے پہلے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- سندمیں مغیرہ بن زیاد پر بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے،۳- اس باب میں ام حبیبہ ، ابوہریرہ ، ابوموسیٰ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : فرض صلاتوں کے علاوہ ہرصلاۃ کے ساتھ اس سے پہلے یابعدمیں جوسنت پڑھی جاتی ہے اس کی دوقسمیں ہیں:ایک قسم وہ ہے جس پر رسول اللہﷺنے مداومت فرمائی ہے، انہیں سنت موکدہ یاسنن رواتب کہاجاتاہے، دوسری قسم وہ ہے جس پر آپ نے مداومت نہیں فرمائی ہے انہیں سنن غیرموکدہ کہاجاتاہے، سنن موکدہ کل۱۲رکعتیں ہیں، جس کی تفصیل اس روایت میں ہے، ان سنتوں کوگھرمیں پڑھناافضل ہے۔ لیکن اگر گھر میں پڑھنا مشکل ہوجائے، جیسے گھر کے لیے اٹھا رکھنے میں سرے سے بھول جانے کا خطرہ ہوتو مسجد ہی ادا کرلینی چاہیے۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث میں ظہرکے فرض سے پہلے چاررکعت کاذکرہے اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں دورکعت کاذکرہے، تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے کہ دونوں طرح سے جائزہے، رسول اللہﷺ کاعمل دونوں طرح سے تھاکبھی ایساکرتے اورکبھی ویسا، یا یہ بھی ممکن ہے کہ گھر میں دو رکعتیں پڑھ کر نکلتے اورمسجدمیں پھردوپڑھتے ، یا یہ بھی ہوتاہوگاکہ گھرمیں چارپڑھتے اور مسجد جاکر تحیۃ المسجدکے طورپر دوپڑھتے توابن عمر نے اس کو سنت مؤکدہ والی دوسمجھا، ایک تطبیق یہ بھی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان کردہ واقعہ آپﷺ کا اپنافعل ہے (جو کبھی چارکا بھی ہوتاتھا)مگرعائشہ رضی اللہ عنہا اورام حبیبہ رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث قولی ہے جو امت کے لیے ہے ، اوربہرحال چارمیں ثواب زیادہ ہی ہے۔


415- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ هُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلاَةِ الْفَجْرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عَنْبَسَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَنْبَسَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
* تخريج: م/المسافرین ۱۴ (۷۲۹)، د/الصلاۃ ۲۹۰ (۱۲۵۰)، ن/قیام اللیل ۶۶ (۱۷۹۷، ۱۷۹۸)، ق/الإقامۃ ۱۰۰ (۱۱۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۶۲)، حم (۶/۳۲۶، ۳۲۷، ۴۲۶)، دي/الصلاۃ ۱۴۴ (۱۴۷۸) (صحیح)
۴۱۵- ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جوشخص رات اوردن میں بارہ رکعت سنّت پڑھے گا ،اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دورکعتیں اس کے بعد، دومغرب کے بعد، دوعشاء کے بعد اور دو فجر سے پہلے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: عنبسہ کی حدیث جو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس باب میں حسن صحیح ہے۔ اور وہ عنبسہ سے دیگر اورسندوں سے بھی مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
195- بَاب مَا جَاءَ فِي رَكْعَتَي الْفَجْرِ مِنَ الْفَضْلِ
۱۹۵-باب: فجر کی دونوں سنتوں کی فضیلت کا بیان​


416- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِاللهِ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ عَبْدِ اللهِ التِّرْمِذِيِّ حَدِيثًا.
* تخريج: م/المسافرین ۱۴ (۷۲۵)، ن/قیام اللیل ۵۶ (۱۷۶۰، ۲۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۰۶)، حم (۶/۱۴۹) (صحیح)
۴۱۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''فجر کی دونوں رکعتیں دنیا اور دنیا میں جوکچھ ہے ان سب سے بہتر ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی ،ابن عمر، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
196-بَاب مَا جَاءَ فِي تَخْفِيفِ رَكْعَتَي الْفَجْرِ وَمَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقْرَأُ فِيهِمَا
۱۹۶-باب: فجر کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے اوران سورتوں کا بیان جنہیں رسول اللہﷺان میں پڑھتے تھے​


417- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: رَمَقْتُ النَّبِيَّ ﷺ شَهْرًا، فَكَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ بِـ{قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} وَ {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ}.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَفْصَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَلاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي أَحْمَدَ، وَالْمَعْرُوفُ عِنْدَ النَّاسِ حَدِيثُ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ. وَقَدْ رَوَى عَنْ أَبِي أَحْمَدَ عَنْ إِسْرَائِيلَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا. وَأَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ثِقَةٌ حَافِظٌ. قَالَ: سَمِعْت بُنْدَارًا يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ حِفْظًا مِنْ أَبِي أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيِّ. وَأَبُو أَحْمَدَ اسْمُهُ: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْكُوفِيُّ الأَسَدِيُّ.
* تخريج: ن/الافتتاح ۶۸ (۹۹۳)، ق/الإقامۃ ۱۰۲ (۱۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۸۸)، حم (۲/۹۴، ۹۵، ۹۹) (صحیح)
۴۱۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کو ایک مہینے تک دیکھتا رہا، فجرسے پہلے کی دونوں رکعتوں میں آپ ''قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ ''پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اور ہم ثوری کی روایت کو جسے انہوں نے ابواسحاق سے روایت کی ہے صرف ابواحمد زبیری ہی کے طریق سے جانتے ہیں، (جب کہ) لوگوں (محدثین) کے نزدیک معروف ''عن اسرائیل عن أبی اسحاق'' ہے بجائے ''سفیان ابی اسحاق'' کے ، ۳- اورابواحمدزبیری کے واسطہ سے بھی اسرائیل سے روایت کی گئی ہے، ۴- ابواحمد زبیری ثقہ اور حافظ ہیں، میں نے بُندارکوکہتے سناہے کہ میں نے ابواحمد زبیری سے زیادہ اچھے حافظے والا نہیں دیکھا،ابواحمد کانام محمد بن عبداللہ بن زبیر کوفی اسدی ہے،۵- اس باب میں ابن مسعود ، انس ، ابوہریرہ، ابن عباس، حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
197- بَاب مَا جَاءَ فِي الْكَلاَمِ بَعْدَ رَكْعَتَي الْفَجْرِ
۱۹۷-باب: فجر کی دونوں رکعتوں کے بعد گفتگو کے جائزہونے کا بیان​


418- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَال: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا صَلَّى رَكْعَتَي الْفَجْرِ فَإِنْ كَانَتْ لَهُ إِلَيَّ حَاجَةٌ كَلَّمَنِي وَإِلاَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ الْكَلاَمَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، حَتَّى يُصَلِّيَ صَلاَةَ الْفَجْرِ إِلاَّ مَا كَانَ مِنْ ذِكْرِ اللهِ أَوْ مِمَّا لاَ بُدَّ مِنْهُ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/التہجد ۲۴ (۱۱۶۱)، و۲۵ (۱۱۶۲)، م/المسافرین ۱۷ (۷۷۳)، د/الصلاۃ ۲۹۳ (۱۲۶۲، ۱۲۶۳)، (کلہم بذکر الاضطجاع علی الشق الأیمن)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۱۱) (صحیح)
۴۱۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب فجر کی دورکعتیں پڑھ چکتے اوراگر آپ کو مجھ سے کوئی کام ہوتا تو(اس بارے میں) مجھ سے گفتگو فرمالیتے، ورنہ صلاۃ کے لیے نکل جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے فجرکے طلوع ہونے بعدسے لے کر فجرپڑھنے تک گفتگو کرنا مکروہ قراردیا ہے، سوائے اس کے کہ وہ گفتگو ذکر الٰہی سے متعلق ہو یا بہت ضروری ہو، اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : رسول اکرم ﷺ کے فعل کے بعداب کسی کے قول اوررائے کی کیا ضرورت ؟ ہاں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو لوگوں کوبات کرتے دیکھ کر منع کیا تھا ؟ تو یہ لایعنی گفتگوکا معاملہ ہوگا، بہرحال اجتماعی طورپر لایعنی بات چیت ایسے وقت خاص طور پر، نیز کسی بھی وقت مناسب نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
199- بَاب مَا جَاءَ فِي الاِضْطِجَاعِ بَعْدَ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ
۱۹۹-باب: فجر کی دونوں سنتوں کے بعد لیٹنے کا بیان​


420-حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَلْيَضْطَجِعْ عَلَى يَمِينِهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فِي بَيْتِهِ اضْطَجَعَ عَلَى يَمِينِهِ. وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُفْعَلَ هَذَا اسْتِحْبَابًا.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۹۳ (۱۲۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۳۵)، حم (۲/۴۱۵) (صحیح)
(بعض اہل علم کی تحقیق میں نبی اکرمﷺسے لیٹنے کی بات صحیح ہے، اور قول نبوی والی حدیث معلول ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: إعلام أہل العصر بأحکام رکعتی الفجر: تالیف: محدث شمس الحق عظیم آبادی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ ،تالیف: عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی)
۴۲۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :''جب تم میں سے کوئی فجر کی دورکعت ( سنت) پڑھے تو دائیں کروٹ پر لیٹے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ جب فجر کی دونوں رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تو اپنی دائیں کروٹ لیٹتے، ۴- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ ایسا استحباباً کیاجائے ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے ثابت ہو تا ہے فجرکی سنت کے بعدتھوڑی دیر دائیں پہلوپرلیٹنامسنون ہے، بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے، لیکن یہ رائے صحیح نہیں، قولی اورفعلی دونوں قسم کی حدیثوں سے اس کی مشروعیت ثابت ہے،بعض لوگوں نے اس روایت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اعمش مدلّس راوی ہیں انہوں نے ابوصالح سے عن کے ذریعہ روایت کی ہے اورمدلس کاعنعنہ مقبول نہیں ہوتا، اس کا جواب یہ دیاجاتا ہے کہ ابوصالح سے اعمش کا عنعنہ اتصال پر محمول ہوتا ہے، حافظ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں''ہومدلس ربما دلّس عن ضعیف ولا یدری بہ فمتی قال نا فلان فلاکلام، ومتی قال عن تطرق إلیہ احتمال التدلیس إلافی شیوخ لہ أکثرعنہم کابراہیم وأبي وائل وابی صالح السمّان، فإن روایتہ عن ہذا الصنف محمولۃ علی الاتصال'' ہاں، یہ لیٹنا محض خانہ پری کے لیے نہ ہو، جیسا کہ بعض علاقوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ صرف پہلو زمین سے لگا کر فوراً اٹھ بیٹھتے ہیں، نبی اکرم ﷺ اس وقت تک لیٹے رہتے تھے جب تک کہ بلال رضی اللہ عنہ آکر اقامت کے وقت کی خبر نہیں دیتے تھے۔مگرخیال ہے کہ اس دوران اگرنیندآنے لگے تو اُٹھ جاناچاہئے ، اور واقعتا نیند آجانے کی صورت میں جاکروضوکرناچاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
200- بَاب مَا جَاءَ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ
۲۰۰-باب: جب جماعت کھڑی ہوجائے توفرض کے سوا کوئی صلاۃ جائز نہیں ہے​


421- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو ابْنُ دِينَارٍ، قَال: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبْدِاللهِ بْنِ سَرْجِسَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَهَكَذَا رَوَى أَيُّوبُ وَوَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ فَلَمْ يَرْفَعَاهُ. وَالْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ أَصَحُّ عِنْدَنَا. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ أَنْ لاَ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةَ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ. رَوَاهُ عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ الْمِصْرِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: م/المسافرین ۹ (۷۲۰)، د/الصلاۃ ۲۹۴ (۱۲۶۶)، ن/الإمامۃ ۶۰ (۸۶۶)، ق/الإقامۃ ۱۰۳ (۱۱۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۲۸)، حم (۲/۳۵۲، ۴۵۵)، دي/الصلاۃ ۱۴۹ (۱۱۸۸) (صحیح)
۴۲۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جب جماعت کھڑی ہوجائے ۱؎ تو فرض صلاۃ ۲؎ کے سوا کوئی صلاۃ(جائز) نہیں'' ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن ہے،۲- اسی طرح ایک دوسری سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں ابن بحینہ ، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن سرجس، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اور حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ نے بھی عمرو بن دینار سے روایت کی ہے لیکن ان دونوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے اور مرفوع حدیث ہی ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ۵- سفیان ثوری، ابن مبارک،شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ۶- اس کے علاوہ اور(ایک تیسری) سند سے بھی یہ حدیث بواسطہ ابوہریرہ نبی اکرمﷺ سے مروی ہے۔ اورانہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے - (جیسے) عیاش بن عباس قتبانی مصری ابوسلمہ سے ، اورابوسلمہ نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اقامت شروع ہوجائے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جس کے لیے اقامت کہی گئی ہے۔
وضاحت۳؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ فرض صلاۃ کے لیے تکبیرہوجائے تو نفل پڑھنا جائزنہیں،خواہ وہ رواتب ہی کیوں نہ ہوں، بعض لوگوں نے فجرکی سنت کو اس سے مستثنیٰ کیا ہے، لیکن یہ استثناء صحیح نہیں، اس لیے کہ مسلم بن خالدکی روایت میں کہ جسے انہوں نے عمروبن دینارے سے روایت کی ہے مزیدواردہے،'' قيل يارسول الله ولا ركعتي الفجر قال ولا ركعتي الفجر''اس کی تخریج ابن عدی نے کامل میں یحییٰ بن نصربن حاجب کے ترجمہ میں کی ہے، اور اس کی سند کو حسن کہا ہے، اورابوہریرہ کی روایت جس کی تخریج بیہقی نے کی ہے اور جس میں '' إلا ركعتي الصبح '' کااضافہ ہے: کاجواب یہ ہے کہ اس زیادتی کے متعلق بیہقی خودفرماتے ہیں''هذه الزيادة لا أصل لها''یعنی یہ اضافہ بے بنیادہے اس کی سندمیں حجاج بن نصراورعبادبن کثیرہیں یہ دونوں ضعیف ہیں،اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
201- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ تَفُوتُهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ
۲۰۱-باب: فجرسے پہلے کی دونوں سنتیں چھوٹ جائیں توانہیں صلاۃِ فجر کے بعد پڑھنے کا بیان​


422- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعْدِ ابْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ جَدِّهِ قَيْسٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ، ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي، فَقَالَ: مَهْلاً يَا قَيْسُ! أَصَلاَتَانِ مَعًا؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ، قَالَ:"فَلاَ إِذَنْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ لاَ نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ. و قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: سَمِعَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ مِنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ. وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ مُرْسَلاً. وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ: لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ، قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُو يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ. قَالَ: وَقَيْسٌ هُوَ جَدُّ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، وَيُقَالُ: هُوَ قَيْسُ بْنُ عَمْرٍو، وَيُقَالُ: هُوَ قَيْسُ بْنُ قَهْدٍ. وَإِسْنَادُ هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ: مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ قَيْسٍ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ فَرَأَى قَيْسًا. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۹۵ (۱۲۶۷)، ق/الإقامۃ ۱۰۴ (۱۱۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۰۲)، حم (۵/۴۴۷) (صحیح)
۴۲۲- قیس (بن عمروبن سہل) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نکلے اورجماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی ، تومیں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرمﷺ پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں صلاۃپڑھنے جارہاہوں،توآپ نے فرمایا: قیس ذرا ٹھہرو، کیا دوصلاتیں ایک ساتھ ۱؎ (پڑھنے جارہے ہو؟) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا: تب کوئی حرج نہیں ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم محمد بن ابراہیم کی حدیث کواس کے مثل صرف سعدبن سعید ہی کے طریق سے جانتے ہیں،۲- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح نے بھی یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے، ۳- یہ حدیث مرسلاً بھی روایت کی جاتی ہے، ۴- اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کے مطابق کہاہے کہ آدمی کے فجرکی فرض صلاۃپڑھنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے دونوں سنتیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، ۵- سعد بن سعید یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں، اور قیس یحیی بن سعید انصاری کے دادا ہیں۔ انہیں قیس بن عمرو بھی کہاجاتاہے اور قیس بن قہد بھی، ۶- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس سے نہیں سناہے،بعض لوگوں نے یہ حدیث سعد بن سعید سے اورسعد نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ'' نبی اکرمﷺ نکلے تو قیس کودیکھا''،اوریہ عبدالعزیزکی حدیث سے جسے انہوں نے سعد بن سعیدسے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ : فجرکی فرض کے بعدکوئی سنت نفل تو ہے نہیں، تویہی سمجھا جائیگا کہ تم فجرکے فرض کے بعد کوئی فرض ہی پڑھنے جارہے ہو۔
وضاحت ۲؎ : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صلاۃِ فجرکے بعدسورج نکلنے سے پہلے فجرکی دونوں سنتیں پڑھناجائزہے، اور امام ترمذی نے جو اس روایت کومرسل اورمنقطع کہا ہے وہ صحیح نہیں، کیونکہ یحییٰ بن سعید کے طریق سے یہ روایت متصلاً بھی مروی ہے، جس کی تخریج ابن خزیمہ نے کی ہے اورابن خزیمہ کے واسطے سے ابن حبان نے بھی کی ہے، نیزانہوں نے اس کے علاوہ طریق سے بھی کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
202-بَاب مَا جَاءَ فِي إِعَادَتِهِمَا بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ
۲۰۲-باب: سورج نکلنے کے بعد فجرکی سنت پڑھنے کا بیان​


423- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ فَعَلَهُ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. قَالَ: وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ هَمَّامٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ هَذَا إِلاَّ عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ الْكِلاَبِيَّ. وَالْمَعْرُوفُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ صَلاَةِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۷) (صحیح)
۴۲۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جو فجر کی دونوں سنتیں نہ پڑھ سکے توانہیں سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- ابن عمر سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے ایساکیاہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، ۴- ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے ھمام سے یہ حدیث اس سند سے اس طرح روایت کی ہو سوائے عمرو بن عاصم کلابی کے۔ اوربطریق : '' قَتَادَةَ عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ '' مشہوریہ ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے فجر کی ایک رکعت بھی سورج طلوع ہونے سے پہلے پالی تواس نے فجر پالی۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کی سند میں ایک راوی قتادہ ہیں جومدلّس ہیں، انہوں نے نصربن انس سے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے، نیزیہ حدیث اس لفظ کے ساتھ غیرمحفوظ ہے، عمروبن عاصم جوہمام سے روایت کررہے ہیں،ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں،ہمام کے دیگرتلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے اور اسے ان لفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے اوروہ الفاظ یہ ہیں'' من أدرك ركعة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبحَ'' (جس آدمی نے سورج طلوع ہونے سے پہلے صبح کی صلاۃ کی ایک رکعت پالی اُس نے صبح کی صلاۃ پالی (یعنی صبح کے وقت اور اس کے ثواب کو) نیزیہ حدیث اس بات پربصراحت دلالت نہیں کرتی ہے کہ جواسے صبح کی صلاۃسے پہلے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعدہی لازماً پڑھے، کیونکہ اس میں صرف یہ ہے کہ جو اسے نہ پڑھ سکاہووہ سورج نکلنے کے بعدپڑھ لے، اس کا مطلب یہ ہواکہ جو اسے وقت ادامیں نہ پڑھ سکاہو یعنی سورج نکلنے سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو تووہ اسے وقت قضاء میں یعنی سورج نکلنے کے بعدپڑھ لے، اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے صبح کی صلاۃ کے بعدان دورکعت کو پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اس کی تائیددارقطنی، حاکم اوربیہقی کی اس روایت سے ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں''مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِحتى تَطْلُعُ الشَّمْسُ فَلْيُصَلِّهِمَا''جوآدمی سورج طلوع ہو نے تک فجر کی دورکعت سنت نہ پڑھ سکے وہ ان کو (سورج نکلنے کے بعد) پڑھ لے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
203- بَاب مَا جَاءَ فِي الأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ
۲۰۳-باب: ظہر سے پہلے چار رکعت سنت پڑھنے کا بیان​


424- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ قَالَ: كُنَّا نَعْرِفُ فَضْلَ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَلَى حَدِيثِ الْحَارِثِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ: يَخْتَارُونَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَإِسْحَاقَ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: صَلاَةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى، يَرَوْنَ الْفَصْلَ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وأخرجہ في الشمائل(۴۲) أیضا، وانظر ما یأتي برقم: ۴۲۹ و۵۹۸ (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۳۹) (صحیح)
۴۲۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد دورکعتیں پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عائشہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- ہم سے ابوبکر عطار نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ نے یحییٰ بن سعید سے اوریحییٰ نے سفیان سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ہم جانتے تھے کہ عاصم بن ضمرہ کی حدیث حارث (اعور) کی حدیث سے افضل ہے، ۴-صحابہ کرام اور بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل کاعمل اسی پر ہے۔ وہ پسندکرتے ہیں کہ آدمی ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے۔اوریہی سفیان ثوری ، ابن مبارک، اسحاق بن راہویہ اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ دن اور رات (دونوں)کی صلاتیں دو دو رکعتیں ہیں، وہ ہردورکعت کے بعد فصل کرنے کے قائل ہیں شافعی اور احمدبھی یہی کہتے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث اوراس قول میں کوئی فرق نہیں،مطلب یہ ہے کہ چاررکعتیں بھی دودوسلاموں سے پڑھے، اوریہی زیادہ بہتر ہے، ایک سلام سے بھی جائزہے۔مگردوسلاموں کے ساتھ سنت پر عمل ، درود اوردعاؤں کی مزید فضیلت حاصل ہوجاتی ہے ۔
 
Top