• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
183-بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقُنُوتِ
۱۸۳-باب: قنوت نہ پڑھنے کا بیان​


402- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ قَالَ: قُلْتُ لأَبِي: يَا أَبَةِ! إِنَّكَ قَدْ صَلَّيْتَ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ ﷺ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ هَا هُنَا بِالْكُوفَةِ نَحْوًا مِنْ خَمْسِ سِنِينَ، أَكَانُوا يَقْنُتُونَ؟ قَالَ: أَيْ بُنَيّ!َ مُحْدَثٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. و قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: إِنْ قَنَتَ فِي الْفَجْرِ فَحَسَنٌ، وَإِنْ لَمْ يَقْنُتْ فَحَسَنٌ، وَاخْتَارَ أَنْ لاَيَقْنُتَ. وَلَمْ يَرَ ابْنُ الْمُبَارَكِ الْقُنُوتَ فِي الْفَجْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ اسْمُهُ: سَعْدُ بْنُ طَارِقِ بْنِ أَشْيَمَ.
* تخريج: ن/التطبیق ۳۲ (۱۰۸۱)، ق/الإقامۃ ۱۴ (۱۲۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۷۶)، حم (۳/۴۷۲) (صحیح)
۴۰۲- ابومالک سعدبن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ(طارق بن اشیم رضی اللہ عنہ ) سے عرض کیا: ا بّا جان! آپ نے رسول اللہﷺ، ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے صلاۃپڑھی ہے اورعلی رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھی یہاں کوفہ میں تقریباً پانچ برس تک پڑھی ہے، کیا یہ لوگ(برابر) قنوت (نازلہ) پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: میرے بیٹے !یہ بدعت ہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔اورسفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگر فجرمیں قنوت پڑھے توبھی اچھا ہے اور اگر نہ پڑھے تو بھی اچھا ہے، ویسے انہوں نے پسنداسی بات کو کیا ہے کہ نہ پڑھے اورابن مبارک فجرمیں قنوت پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی : اس میں برابرپڑھنا مرادہے نہ کہ مطلق پڑھنا بدعت مقصود ہے، کیونکہ بوقت ضرورت قنوت نازلہ پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ گزرا۔


403- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِاللهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۰۳- ابوعوانہ نے ابومالک اشجعی سے اسی سند سے اسی مفہوم کی اسی طرح کی حدیث روایت کی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
184-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَعْطِسُ فِي الصَّلاَةِ
۱۸۴-باب: صلاۃ میں چھینکنے کا بیان​


404- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا رِفَاعَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيُّ، عَنْ عَمِّ أَبِيهِ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَعَطَسْتُ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ انْصَرَفَ فَقَالَ: مَنْ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلاَةِ؟ فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ، ثُمَّ قَالَهَا الثَّانِيَةَ: مَنْ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلاَةِ؟ فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ، ثُمَّ قَالَهَا الثَّالِثَةَ: مَنْ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلاَةِ؟ فَقَالَ رِفَاعَةُ بْنُ رَافِعٍ ابْنُ عَفْرَاءَ أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: كَيْفَ قُلْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: الْحَمْدُ لِلّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ ابْتَدَرَهَا بِضْعَةٌ وَثَلاَثُونَ مَلَكًا، أَيُّهُمْ يَصْعَدُ بِهَا".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رِفَاعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ فِي التَّطَوُّعِ. لأَنَّ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ التَّابِعِينَ قَالُوا: إِذَا عَطَسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلاَةِ الْمَكْتُوبَةِ، إِنَّمَا يَحْمَدُ اللهَ فِي نَفْسِهِ، وَلَمْ يُوَسِّعُوا فِي أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۲۱ (۷۷۳)، ن/الافتتاح ۳۶ (۹۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۰۶)، وراجع أیضا: خ/الأذان ۱۲۶ (۷۹۹)، و د/الصلاۃ ۱۲۱ (۷۷۰)، ون/التطبیق ۲۲ (۱۰۶۳)، وما/القرآن ۷ (۲۵)، وحم (۴/۳۴۰) (صحیح)
(سند حسن ہے ،لیکن شواہد کی بناپر حدیث صحیح ہے)
۴۰۴- رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ کے پیچھے صلاۃپڑھی ، مجھے چھینک آئی تو میں نے''الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى'' کہا جب رسول اللہﷺ صلاۃپڑھ کرپلٹے توآپ نے پوچھا:صلاۃ میں کون بول رہا تھا؟توکسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات دوبارہ پوچھی کہ صلاۃ میں کون بول رہا تھا؟ اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا،پھرآپ نے یہی بات تیسری بار پوچھی کہ صلاۃ میں کون بول رہا تھا؟رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں تھا اللہ کے رسول ! آپ نے پوچھا:تم نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا:یوں کہاتھا ''الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى'' تونبی اکرمﷺ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے کون لے کر آسمان پر چڑھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- رفاعہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں انس ، وائل بن حجر اورعامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- بعض اہل علم کے نزدیک یہ واقعہ نفل کا ہے ۱؎ اس لیے کہ تابعین میں سے کئی لوگوں کا کہناہے کہ جب آدمی فرض صلاۃ میں چھینکے تو الحمدللہ اپنے جی میں کہے اس سے زیادہ کی ان لوگوں نے اجازت نہیں دی ۔
وضاحت ۱؎ : حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں:'' و أفاد بشر بن عمر الزهراي في روايته عن رفاعة بن يحيى أن تلك الصلاة كانت المغرب ''(یہ مغرب تھی)یہ روایت ان لوگوں کی تردیدکرتی ہے جنہوں نے اسے نفل پر محمول کیاہے۔ مگر دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابی نے یہ الفاظ رکوع سے اٹھتے وقت کہے تھے اور اسی دوران اُنہیں چھینک بھی آئی تھی ، تمام روایات صحیحہ اور اس ضمن میں علماء کے اقوال کی جمع وتطبیق یہ ہے کہ اگرصلاۃ میں چھینک آئے تو اونچی آواز سے ''الحمد للہ''کہنے کی بجائے جی میں کہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
185- بَاب مَا جَاءَ فِي نَسْخِ الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
۱۸۵-باب: صلاۃ میں بات چیت کے منسوخ ہونے کا بیان​


405- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الْحَارِثِ ابْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: كُنَّا نَتَكَلَّمُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي الصَّلاَةِ يُكَلِّمُ الرَّجُلُ مِنَّا صَاحِبَهُ إِلَى جَنْبِهِ، حَتَّى نَزَلَتْ: {وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ} [البقرة: 238] فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ، وَنُهِينَا عَنْ الْكَلاَمِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَمُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالُوا: إِذَا تَكَلَّمَ الرَّجُلُ عَامِدًا فِي الصَّلاَةِ أَوْ نَاسِيًا أَعَادَ الصَّلاَةَ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا تَكَلَّمَ عَامِدًا فِي الصَّلاَةِ أَعَادَ الصَّلاَةَ، وَإِنْ كَانَ نَاسِيًا أَوْ جَاهِلاً أَجْزَأَهُ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ.
* تخريج: خ/العمل فی الصلاۃ ۲ (۱۲۰۰)، وتفسیر البقیرۃ ۴۲ (۴۵۳۴)، م/المساجد ۷ (۵۳۹)، د/الصلاۃ ۱۷۸ (۹۴۹)، ن/السہو۲۰ (۱۲۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۶۱)، حم (۴/۳۶۸)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر البقرۃ برقم: ۲۹۸۶) (صحیح)
۴۰۵- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پیچھے صلاۃ میں بات چیت کرلیا کرتے تھے، آدمی اپنے ساتھ والے سے بات کرلیا کرتاتھا،یہاں تک کہ آیت کریمہ:''وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ'' ( اللہ کے لیے باادب کھڑے رہاکرو) نازل ہوئی توہمیں خاموش رہنے کا حکم دیاگیا اور بات کرنے سے روک دیاگیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود اور معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی صلاۃ میں قصداًیا بھول کر گفتگو کرلے تو صلاۃ دہرائے ۔ سفیان ثوری ، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ اوربعض کا کہنا ہے کہ جب صلاۃ میں قصداًگفتگو کرے تو صلاۃ دہرائے اور اگر بھول سے یالاعلمی میں گفتگو ہوجائے تو صلاۃ کافی ہوگی،۴- شافعی اسی کے قائل ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : رسول اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق مومن سے بھول چوک معاف ہے،بعض لوگوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ ''بشرطیکہ تھوڑی ہو''ہم کہتے ہیں ایسی حالت میں آدمی تھوڑی بات ہی کرپاتاہے کہ اسے یادآجاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
186-بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عِنْدَ التَّوْبَةِ
۱۸۶-باب: توبہ کی صلاۃ کا بیان​


406- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ ابْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِيِّ قَال: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: إِنِّي كُنْتُ رَجُلاً إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ حَدِيثًا نَفَعَنِي اللهُ مِنْهُ بِمَا شَاءَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، وَإِذَا حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ اسْتَحْلَفْتُهُ، فَإِذَا حَلَفَ لِي صَدَّقْتُهُ، وَإِنَّهُ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ، وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ:"مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا، ثُمَّ يَقُومُ فَيَتَطَهَّرُ، ثُمَّ يُصَلِّي، ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللهَ، إِلاَّ غَفَرَ اللهُ لَهُ". ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ: {وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ. [آل عمران: 135]. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي الدَّرْدَائِ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَمُعَاذٍ، وَوَاثِلَةَ، وَأَبِي الْيَسَرِ وَاسْمُهُ: كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، لاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مِنْ حَدِيثِ عُثْمَانَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ. وَرَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ فَرَفَعُوهُ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ. وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمِسْعَرٌ فَأَوْقَفَاهُ، وَلَمْ يَرْفَعَاهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مِسْعَرٍ هَذَا الْحَدِيثُ مَرْفُوعًا أَيْضًا. وَلاَ نَعْرِفُ لأَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ حَدِيثًا مَرْفُوعًا إِلاَّ هَذَا.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۶۱ (۱۵۲۱)، ق/الإقامۃ ۱۹۳ (۱۳۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۱۰)، حم (۱/۲ویأتي عند المؤلف في تفسیر آل عمران برقم: ۳۰۰۶) (حسن)
۴۰۶- اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: میں جب رسول اللہﷺ سے کوئی حدیث سنتا تواللہ اس سے مجھے نفع پہنچاتا، جتناوہ پہنچانا چاہتا۔ اور جب آپ کے اصحاب میں سے کوئی آدمی مجھ سے بیان کرتا تو میں اس سے قسم لیتا۔ (کیا واقعی تم نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺسے خود سنی ہے؟) جب وہ میرے سامنے قسم کھالیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا، مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ابوبکر نے سچ بیان کیاکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے :'' جوشخص گناہ کرتاہے، پھر جاکروضو کرتاہے پھرصلاۃ پڑھتاہے، پھراللہ سے استغفار کرتاہے تو اللہ اسے معاف کردیتاہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی{ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَ مَنْ يَغْفٍرُ الذُّنُوبَ إلاَّ اللهُ وَ لَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَافَعَلُوا وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ} (اور جب ان سے کوئی ناشائستہ حرکت یا کوئی گناہ سرزد ہوجاتاہے تو وہ اللہ کو یادکرکے فوراً استغفار کرتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کون گناہ بخش سکتاہے، اور وہ جان بوجھ کر کسی گناہ پر اڑے نہیں رہتے۔)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے یعنی عثمان بن مغیرہ ہی کی سند سے جانتے ہیں، ۲- اوران سے شعبہ اوردوسرے اورلوگوں نے بھی روایت کی ہے ان لوگوں نے اسے ابوعوانہ کی حدیث کی طرح مرفوعاًروایت کیاہے،اوراِسے سفیان ثوری اور مسعر نے بھی روایت کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت موقوف ہے مرفوع نہیں اور مسعر سے یہ حدیث مرفوعاً بھی مروی ہے اور سوائے اس حدیث کے اسماء بن حکم کی کسی اورمرفوع حدیث کا ہمیں علم نہیں،۳- اس باب میں ابن مسعود، ابوالدرداء، انس ، ابوامامہ، معاذ، واثلہ،اور ابوالیسر کعب بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
187-بَاب مَا جَاءَ مَتَى يُؤْمَرُ الصَّبِيُّ بِالصَّلاَةِ
۱۸۷-باب: بچے کو صلاۃ کا حکم کب دیا جائے گا؟​


407- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ الْجُهَنِيُّ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"عَلِّمُوا الصَّبِيَّ الصَّلاَةَ ابْنَ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُ عَلَيْهَا ابْنَ عَشْرٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَقَالاَ: مَا تَرَكَ الْغُلاَمُ بَعْدَ الْعَشْرِ مِنَ الصَّلاَةِ فَإِنَّهُ يُعِيدُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَبْرَةُ هُوَ ابْنُ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيُّ، وَيُقَالُ: هُوَ ابْنُ عَوْسَجَةَ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۶ (۴۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۱۰)، دي/الصلاۃ ۱۴۱ (۱۴۷۱) (حسن صحیح)
۴۰۷- سبرہ بن معبدجہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' سات برس کے بچے کو صلاۃ سکھاؤ، اور دس برس کے بچے کو صلاۃ نہ پڑھنے پر مارو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ''جولڑکا دس برس کے ہوجانے کے بعد صلاۃ چھوڑ ے وہ اس کی قضا کرے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
188- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُحْدِثُ فِي التَّشَهُّدِ
۱۸۸-باب: آدمی کو تشہد میں حدث لاحق ہوجائے توکیا کرے؟​


408- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْمُلَقَّبُ مَرْدُوَيْهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، أَنَّ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ رَافِعٍ وَبَكْرَ بْنَ سَوَادَةَ أَخْبَرَاهُ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا أَحْدَثَ - يَعْنِي الرَّجُلَ - وَقَدْ جَلَسَ فِي آخِرِ صَلاَتِهِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ فَقَدْ جَازَتْ صَلاَتُهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ، وَقَدْ اضْطَرَبُوا فِي إِسْنَادِهِ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا. قَالُوا: إِذَا جَلَسَ مِقْدَارَ التَّشَهُّدِ وَأَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلاَتُهُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يَتَشَهَّدَ وَقَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ أَعَادَ الصَّلاَةَ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. و قَالَ أَحْمَدُ: إِذَا لَمْ يَتَشَهَّدْ وَسَلَّمَ أَجْزَأَهُ لِقَوْلِ النَّبِيّ ﷺ: وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ وَالتَّشَهُّدُ أَهْوَنُ، قَامَ النَّبِيُّ ﷺ فِي اثْنَتَيْنِ فَمَضَى فِي صَلاَتِهِ وَلَمْ يَتَشَهَّدْ. وقَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: إِذَا تَشَهَّدَ وَلَمْ يُسَلِّمْ أَجْزَأَهُ. وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ حِينَ عَلَّمَهُ النَّبِيُّ ﷺ التَّشَهُّدَ فَقَالَ:"إِذَا فَرَغْتَ مِنْ هَذَا فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ هُوَ الأَفْرِيقِيُّ، وَقَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ، مِنْهُمْ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۷۴ (۶۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۱۰، و۸۸۷۵) (ضعیف)
(سندمیں ''عبدالرحمن بن انعم افریقی ضعیف ہیں، نیز یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث '' تحريمها التكبير وتحليلها التسليم'' کے خلاف ہے)
۴۰۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب آدمی کوسلام پھیرنے سے پہلے حدث لاحق ہوجائے اور وہ اپنی صلاۃ کے بالکل آخر میں یعنی قعدہ اخیرہ میں بیٹھ چکاہوتو اس کی صلاۃ درست ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند کوئی خاص قوی نہیں، اس کی سند میں اضطراب ہے،۲- عبدالرحمن بن زیاد بن انعم، جو افریقی ہیں کو بعض محدّثین نے ضعیف قراردیا ہے۔ ان میں یحییٰ بن سعید قطان اور احمد بن حنبل بھی شامل ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی تشہد کی مقدار کے برابر بیٹھ چکا ہو اور سلام پھیر نے سے پہلے اسے حدث لاحق ہوجائے تو پھر اس کی صلاۃ پوری ہوگئی،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب حدث تشہدپڑھنے سے یا سلام پھیر نے سے پہلے لاحق ہوجائے تو صلاۃ دہرائے ۔ شافعی کا یہی قول ہے، ۵- اوراحمد کہتے ہیں : جب وہ تشہد نہ پڑھے اورسلام پھیردے تو اس کی صلاۃ اُسے کافی ہوجائے گی، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے: ''تَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ ''یعنی صلاۃ میں جوچیزیں حرام ہوئی تھیں سلام پھیرنے ہی سے حلال ہوتی ہیں، بغیرسلام کے صلاۃسے نہیں نکلا جاسکتا اور تشہد اتنااہم نہیں جتناسلام ہے کہ اس کے ترک سے صلاۃ درست نہ ہوگی،ایک بار نبی اکرمﷺ دورکعت کے بعد کھڑے ہوگئے اپنی صلاۃ جاری رکھی اورتشہد نہیں کیا،۶- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: جب تشہد کرلے اور سلام نہ پھیرا ہوتو صلاۃ ہوگئی ، انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس وقت نبی اکرمﷺ نے انہیں تشہد سکھایا تو فرمایا: جب تم اس سے فارغ ہوگئے تو تم نے اپنافریضہ پورا کرلیا۔
وضاحت ۱؎ : امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے کہ آدمی جب تشہدکے بعدبیٹھ چکاہواور اسے صلاۃ کے آخرمیں حدث ہوگیا یعنی اس کا وضوٹوٹ گیا تو اس کی صلاۃہوجائے گی، لیکن یہ روایت ضعیف ہے استدلال کے قابل نہیں اوراگرصحیح ہوتو اسے سلام کی فرضیت سے پہلے پرمحمول کیاجائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
189- بَاب مَا جَاءَ إِذَا كَانَ الْمَطَرُ فَالصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ
۱۸۹-باب: جب بارش ہورہی ہوتو گھرمیں صلاۃ پڑھ لینے کا بیان​


409- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَأَصَابَنَا مَطَرٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"مَنْ شَاءَ فَلْيُصَلِّ فِي رَحْلِهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَسَمُرَةَ، وَأَبِي الْمَلِيحِ عَنْ أَبِيهِ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَخَّصَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُعُودِ عَنْ الْجَمَاعَةِ فِي الْمَطَرِ وَالطِّينِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَبَا زُرْعَةَ يَقُولُ: رَوَى عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ حَدِيثًا. و قَالَ أَبُو زُرْعَةَ: لَمْ نَرَ بِالْبَصْرَةِ أَحْفَظَ مِنْ هَؤُلاَئِ الثَّلاثَةِ: عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، وَابْنِ الشَّاذَكُونِيِّ، وَعَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ. وَأَبُو الْمَلِيحِ اسْمُهُ عَامِرٌ وَيُقَالُ: زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْهُذَلِيُّ.
* تخريج: م/المسافرین ۳ (۶۹۸)، د/الصلاۃ ۲۱۴ (۱۰۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۱۶)، حم (۳/۳۱۲، ۳۲۷) (صحیح)
۴۰۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ بارش ہونے لگی تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' جو چاہے اپنے ڈیرے میں ہی صلاۃ پڑھ لے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، سمرہ، ابولملیح عامر (جنہوں نے اپنے باپ اسامہ بن عمرہذل سے روایت کی ہے) اور عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- بعض اہل علم نے بارش اور کیچڑ میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کی رخصت دی ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
190- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْبِيحِ فِي أَدْبَارِ الصَّلاَةِ
۱۹۰-باب: صلاۃ کے بعد کی تسبیح (اذکار) کا بیان​


410- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ الْبَصْرِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ وَعِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَ الْفُقَرَاءُ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ الأَغْنِيَاءَ يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَلَهُمْ أَمْوَالٌ يُعْتِقُونَ وَيَتَصَدَّقُونَ، قَالَ:"فَإِذَا صَلَّيْتُمْ فَقُولُوا: سُبْحَانَ اللهِ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ مَرَّةً، وَالْحَمْدُ لِلّهِ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ مَرَّةً، وَاللهُ أَكْبَرُ أَرْبَعًا وَثَلاَثِينَ مَرَّةً، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ عَشْرَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّكُمْ تُدْرِكُونَ بِهِ مَنْ سَبَقَكُمْ وَلاَ يَسْبِقُكُمْ مَنْ بَعْدَكُمْ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَبِي الدَّرْدَائِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي ذَرٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَفِي الْبَاب أَيْضًا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَالْمُغِيرَةِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"خَصْلَتَانِ لاَيُحْصِيهِمَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ إِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ: يُسَبِّحُ اللهَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاَةٍ عَشْرًا، وَيَحْمَدُهُ عَشْرًا، وَيُكَبِّرُهُ عَشْرًا، وَيُسَبِّحُ اللهَ عِنْدَ مَنَامِهِ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَيَحْمَدُهُ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَيُكَبِّرُهُ أَرْبَعًا وَثَلاَثِينَ".
* تخريج: ن/السہو ۹۵ (۱۳۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۶۸ و ۶۳۹۳) (ضعیف منکر)


(دس بار'' لا إله إلا الله '' کاذکرمنکرہے ، منکرہو نے کا سبب خصیف ہیں جو حافظے کے کمزوراورمختلط راوی ہیں، آخرمیں ایک بار '' لا إله إلا الله ''کے ذکرکے ساتھ یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحیح بخاری میں مروی ہے )
۴۱۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس کچھ فقیرومحتاج لوگ آئے اورکہا: اللہ کے رسول! مالدار صلاۃ پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں وہ صوم رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں۔ ان کے پاس مال بھی ہے، اس سے وہ غلام آزاد کرتے اور صدقہ دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:'' جب تم صلاۃ پڑھ چکوتو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ ، تینتیس مرتبہ '' الحمد لله'' اور تینتیس مرتبہ ''الله أكبر'' اور دس مرتبہ '' لا إله إلا الله '' کہہ لیاکرو ، تو تم ان لوگوں کو پالوگے جوتم پر سبقت لے گئے ہیں، اورجو تم سے پیچھے ہیں وہ تم پر سبقت نہ لے جاسکیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں کعب بن عجرہ ،انس ، عبداللہ بن عمرو، زید بن ثابت ، ابوالدرداء، ابن عمر اور ابوذر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،نیزاس باب میں ابوہریرہ اور مغیرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ''دوعادتیں ہیں جنہیں جو بھی مسلمان آدمی بجالائے گاجنت میں داخل ہوگا۔ایک یہ کہ وہ ہرصلاۃ کے بعد دس بار '' سبحان الله'' ، دس بار ''الحمد لله'' ، دس بار'' الله أكبر'' کہے، دوسرے یہ کہ وہ اپنے سوتے وقت تینتیس مرتبہ '' سبحان الله''، تینتیس مرتبہ'' الحمد لله'' اور چونتیس مرتبہ'' الله أكبر'' کہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
191- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الدَّابَّةِ فِي الطِّينِ وَالْمَطَرِ
۱۹۱-باب: کیچڑ اور بارش میں سواری پرصلاۃ پڑھ لینے کا بیان​


411- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ الْبَلْخِيُّ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَسِيرٍ، فَانْتَهَوْا إِلَى مَضِيقٍ، وَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ، فَمُطِرُوا، السَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ، وَالْبِلَّةُ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ، فَأَذَّنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَأَقَامَ، أَوْ أَقَامَ، فَتَقَدَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَصَلَّى بِهِمْ، يُومِئُ إِيمَائً: يَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنْ الرُّكُوعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، تَفَرَّدَ بِهِ عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ الْبَلْخِيُّ، لاَ يُعْرَفُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِهِ. وَقَدْ رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّهُ صَلَّى فِي مَاءِ وَطِينٍ عَلَى دَابَّتِهِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۵۱) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ''عمروبن عثمان''مجہول الحال اورعثمان بن یعلی''مجہول العین ہیں)
۴۱۱- یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ ایک سفرمیں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے، وہ ایک تنگ جگہ پہنچے تھے کہ صلاۃ کا وقت آ گیا ،اوپر سے بارش ہونے لگی ، اورنیچے کیچڑ ہوگئی، رسول اللہﷺ نے اپنی سواری ہی پر اذان دی اور اقامت کہی اور سواری ہی پر آگے بڑھے اورانہیں صلاۃ پڑھائی،آپ اشارہ سے صلاۃ پڑھتے تھے، سجدہ میں رکوع سے قدرے زیادہ جھکتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، عمر بن رماح بلخی اس کے روایت کرنے میں منفردہیں۔ یہ صرف انہیں کی سند سے جانی جاتی ہے۔اور ان سے یہ حدیث اہل علم میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے، ۲- انس بن مالک سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے پانی اور کیچڑ میں اپنی سواری پر صلاۃ پڑھی، ۳- اوراسی پراہل علم کا عمل ہے۔احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جب ایسی صورت حال پیش آجائے اور دوسری جگہ وقت کے اندر ملنے کا امکان نہ ہو تو صلاۃ کا قضا کرنے سے بہتر اس طرح سے صلاۃ ادا کرلینا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
192- بَاب مَا جَاءَ فِي الاِجْتِهَادِ فِي الصَّلاَةِ
۱۹۲-باب: صلاۃ میں خوب محنت اورکوشش کرنے کا بیان ۱؎​


412- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاَقَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ حَتَّى انْتَفَخَتْ قَدَمَاهُ، فَقِيلَ لَهُ: أَتَتَكَلَّفُ هَذَا وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ: أَفَلاَ أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/التہجد ۶، وتفسیر الفتح ۲ (۴۸۳۶)، والرقاق ۲۰ (۶۴۷۱)، م/المنافقین ۱۸ (۲۸۲۰)، ن/قیام اللیل ۱۷ (۱۶۴۵)، ق/الإقامۃ ۲۰۰ (۱۴۱۹، ۱۴۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۹۸)، حم (۴/۲۵۱، ۲۵۵) (صحیح)
۴۱۲- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے صلاۃ پڑھی یہاں تک کہ آپ کے پیرسوج گئے توآپ سے عرض کیاگیا: کیا آپ ایسی زحمت کرتے ہیں حالاں کہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئے گئے ہیں؟ توآپ نے فرمایا:'' کیا میں شکرگزار بندہ نہ بنوں؟'' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی زیادہ دیرتک نفل صلاۃ پڑھنے کا بیان ۔
وضاحت ۲؎ : توجب بخشے بخشائے نبی اکرمﷺبطورشکرانے کے زیادہ دیرتک نفل صلاۃپڑھاکرتے تھے یعنی عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت لگاتے تھے توہم گنہگاراُمتیوں کو تو اپنے کو بخشوانے اورزیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی طرف مسنون اعمال کے ذریعے اورزیادہ دھیان دیناچاہئے۔البتہ بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے۔
 
Top