• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِسَبْعٍ
۵-باب: سات رکعت وترپڑھنے کا بیان​


457- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُوتِرُ بِثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، فَلَمَّا كَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ الْوَتْرُ بِثَلاَثَ عَشْرَةَ، وَإِحْدَى عَشْرَةَ، وَتِسْعٍ، وَسَبْعٍ، وَخَمْسٍ، وَثَلاَثٍ، وَوَاحِدَةٍ. قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: مَعْنَى مَا رُوِيَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُوتِرُ بِثَلاَثَ عَشْرَةَ. قَالَ: إِنَّمَا مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ، فَنُسِبَتْ صَلاَةُ اللَّيْلِ إِلَى الْوِتْرِ، وَرَوَى فِي ذَلِكَ حَدِيثًا عَنْ عَائِشَةَ. وَاحْتَجَّ بِمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: أَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ. قَالَ: إِنَّمَا عَنَى بِهِ قِيَامَ اللَّيْلِ يَقُولُ: إِنَّمَا قِيَامُ اللَّيْلِ عَلَى أَصْحَابِ الْقُرْآنِ.
* تخريج: ن/قیام اللیل ۳۹ (۱۷۰۹)، و۴۵ (۱۷۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۲۵)، حم (۶/۳۲۲)
(صحیح الإسناد)
۴۵۷- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے لیکن جب آپ عمر رسیدہ اور کمزور ہوگئے تو سات رکعت پڑھنے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔ ۳- نبی اکرمﷺ سے وتر تیرہ ، گیارہ،نو،سات، پانچ ،تین اور ایک سب مروی ہیں،۴- اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) کہتے ہیں: یہ جو روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ وترتیرہ رکعت پڑھتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تہجد(قیام اللیل) وتر کے ساتھ تیرہ رکعت پڑھتے تھے ،تو اس میں قیام اللیل (تہجد)کو بھی وتر کانام دے دیاگیا ہے، انہوں نے اس سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث بھی روایت کی ہے اور نبی اکرمﷺ کے قول '' اے اہل قرآن!وتر پڑھا کرو'' سے بھی دلیل لی ہے۔ ابن راہویہ کہتے ہیں کہ آپﷺنے اس سے قیام اللیل مرادلی ہے، اور قیام اللیل صرف قرآن کے ماننے والوں پر ہے (نہ کہ دوسرے مذاہب والوں پر)۔
وضاحت ۱؎ : ہمارے اس نسخے اور ایسے ہی سنن ترمذی مطبوعہ مکتبۃ المعارف میں علامہ احمد شاکر کے سنن ترمذی کے نمبرات کا لحاظ کیا گیاہے ، احمد شاکر کے نسخے میں غلطی سے (۴۵۸)نمبر نہیں ہے، اس لیے ہم نے بھی اس کاتذکرہ نہیں کیا ہے ، لیکن اوپر (۴۵۵) مکرر آیاہے اس لیے آگے نمبرات کا تسلسل صحیح ہے )۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِخَمْسٍ
۶-باب: پانچ رکعت وترپڑھنے کا بیان​


459- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَتْ صَلاَةُ النَّبِيِّ ﷺ مِنَ اللَّيْلِ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ، لاَ يَجْلِسُ فِي شَيْئٍ مِنْهُنَّ إِلاَّ فِي آخِرِهِنَّ، فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ الْوِتْرَ بِخَمْسٍ، وَقَالُوا: لاَيَجْلِسُ فِي شَيْئٍ مِنْهُنَّ إِلاَّ فِي آخِرِهِنَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَأَلْتُ أَبَا مُصْعَبٍ الْمَدِينِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ، قُلْتُ: كَيْفَ يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ؟ قَالَ: يُصَلِّي مَثْنَى مَثْنَى، وَيُسَلِّمُ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ.
* تخريج: م/المسافرین ۱۷ (۷۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۸۱) (صحیح)
۴۵۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:ـ نبی اکرمﷺ کی قیام اللیل(تہجد) تیرہ رکعت ہوتی تھی۔ ان میں پانچ رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں، ان (پانچ) میں آپ صرف آخری رکعت ہی میں قعدہ کرتے تھے،پھرجب مؤذن اذان دیتا توآپ کھڑے ہوجاتے اور دوہلکی رکعتیں پڑھتے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوایوب رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔ ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ (جس) وتر کی پانچ رکعتیں ہیں، ان میں وہ صرف آخری رکعت میں قعدہ کرے گا، ۴- میں نے اس حدیث کے بارے میں کہ'' نبی اکرمﷺ نو اور سات رکعت وتر پڑھتے تھے'' ابومصعب مدینی سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ نو اور سات رکعتیں کیسے پڑھتے تھے؟ توانہوں نے کہا: آپ ﷺدو دو رکعت پڑھتے اور سلام پھیر تے جاتے، پھر ایک رکعت وتر پڑھ لیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِثَلاَثٍ
۷-باب: تین رکعت وترپڑھنے کا بیان​


460- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُوتِرُ بِثَلاَثٍ، يَقْرَأُ فِيهِنَّ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنَ الْمُفَصَّلِ، يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِثَلاَثِ سُوَرٍ، آخِرُهُنَّ {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ}. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَيُرْوَى أَيْضًا عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. هَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أُبَيٍّ، وَذَكَرَ بَعْضُهُمْ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ أُبَيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ بِثَلاَثٍ. قَالَ سُفْيَانُ: إِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِخَمْسٍ، وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِثَلاثٍ، وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِرَكْعَةٍ. قَالَ سُفْيَانُ: وَالَّذِي أَسْتَحِبُّ أَنْ أُوتِرَ بِثَلاَثِ رَكَعَاتٍ. وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ: كَانُوا يُوتِرُونَ بِخَمْسٍ، وَبِثَلاَثٍ، وَبِرَكْعَةٍ، وَيَرَوْنَ كُلَّ ذَلِكَ حَسَنًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۰۱) (ضعیف جداً)
(سندمیں حارث اعور سخت ضعیف ہے)
۴۶۰- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے، ان میں مفصل میں سے نو سورتیں پڑھتے ہررکعت میں تین تین سورتیں پڑھتے، اورسب سے آخرمیں {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ}پڑھتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں عمران بن حصین ،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ، ابن عباس، ابوایوب انصاری اور عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔عبدالرحمن بن ابزیٰ نے اسے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔ نیزیہ بھی مروی ہے کہ عبدالرحمن بن ابزیٰ نے نبی اکرمﷺ سے (براہِ راست) روایت کی ہے۔اسی طرح بعض لوگوں نے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے'' ابی'' کے واسطے کا ذکرنہیں کیاہے۔ اور بعض نے ابی کے واسطے کا ذکر کیاہے ۔ ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہی ہے کہ آدمی وتر تین رکعت پڑھے، ۳-سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگرتم چاہو تو پانچ رکعت وتر پڑھو،اور چاہو تو تین رکعت پڑھو، اور چاہو تو صرف ایک رکعت پڑھو۔ اورمیں تین رکعت ہی پڑھنے کو مستحب سمجھتاہوں۔ابن مبارک اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے، ۴- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ لوگ وترکبھی پانچ رکعت پڑھتے تھے ، کبھی تین اورکبھی ایک، وہ ہرایک کو مستحسن سمجھتے تھے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث حارث اعورکی وجہ سے ضعیف ہے ، مگراس کیفیت کے ساتھ ضعیف ہے ، نہ کہ تین رکعت وترپڑھنے کی بات ضعیف ہے ، کئی ایک صحیح حدیثیں مروی ہیں کہ آپﷺ تین رکعت وترپڑتے تھے، پہلی میں '' سبح اسم ربك الاعلى'' دوسری میں ''قل ياأيها الكافرون''اورتیسری میں '' قل هو الله أحد'' پڑھتے تھے۔
وضاحت ۲؎ : سارے ائمہ کرام وعلماء امت اس بات کے قائل ہیں کہ آدمی کو اختیارہے کہ چاہے پانچ رکعت پڑھے، چاہے تین ، یا ایک ، سب کے سلسلے میں صحیح احادیث واردہیں، اوریہ بات کہ نہ تین سے زیادہ وترجائزہے نہ تین سے کم (ایک)تواس بات کے قائل صرف ائمہ احناف ہیں، وہ بھی دورکعت کے بعد قعدہ کے ساتھ جس سے وترکی مغرب سے مشابہت ہوجاتی ہے ، جبکہ اس بات سے منع کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِرَكْعَةٍ
۸-باب: ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان​


461- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، فَقُلْتُ: أُطِيلُ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ؟ فَقَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، وَكَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ وَالأَذَانُ فِي أُذُنِهِ، يَعْنِي يُخَفِّفُ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ: رَأَوْا أَنْ يَفْصِلَ الرَّجُلُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَالثَّالِثَةِ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: خ/الوتر ۲ (۹۹۵)، م/المسافرین ۲۰ (۱۵۷/۷۴۹)، ق/الإقامۃ ۱۰۱ (۱۱۴۴)، (مختصرا) (تحفۃ الأشراف: ۶۶۵۲)، حم (۲/۳۱، ۴۹، ۷۸، ۸۸، ۱۲۶) (صحیح)
۴۶۱- انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا میں فجر کی دورکعت سنت لمبی پڑھوں؟ توانہوں نے کہا: نبی اکرمﷺ تہجد دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور وتر ایک رکعت،اورفجرکی دورکعت سنت پڑھتے (گویاکہ) تکبیر آپ کے کانوں میں ہورہی ہوتی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ، جابر ، فضل بن عباس ، ابوایوب انصاری اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ وتابعین میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ آدمی دو رکعتوں اور تیسری رکعت کے درمیان (سلام کے ذریعہ )فصل کرے ،ایک رکعت سے وتر کرے ۔ مالک، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : '' گویا تکبیرآپﷺ کے دونوں کانومیں ہورہی ہوتی ''کا مطلب ہے کہ فجرکی دونوں سنتیں اتنی سرعت سے ادافرماتے گویاتکبیرکی آواز آپ کے کانوں میں آرہی ہے اورآپ تکبیرتحریمہ فوت ہوجانے کے اندیشے سے اسے جلدی جلدی پڑھ رہے ہوں ۔
وضاحت ۲؎ : نبی اکرمﷺکی وترکے بارے میں وارداحادیث میں یہ صورت بھی ہے ، اوربغیرسلام کے تین پڑھنے کی صورت بھی مروی ہے، اس معاملہ میں امت پر وسعت کی گئی ہے ، اس کوتنگی میں محصور کردینا مناسب نہیں ہے۔نبی اکرمﷺکا اس ضمن میں زیادہ عمل ، وترایک رکعت پڑھنے پر تھا اس کے لیے احادیث وآثار تین ، پانچ اوران سے زیادہ وتروں کی نسبت کثرت سے مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِيمَا يُقْرَأُ بِهِ فِي الْوِتْرِ
۹-باب: وتر میں کون سی سورتیں پڑھی جائیں؟​


462- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِـ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} وَ {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} وَ {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} فِي رَكْعَةٍ رَكْعَةٍ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَيُرْوَى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّهُ قَرَأَ فِي الْوِتْرِ فِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ {وَقُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ}. وَالَّذِي اخْتَارَهُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ: أَنْ يَقْرَأَ بِـ{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} وَ {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} وَ {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ مِنْ ذَلِكَ بِسُورَةٍ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۱۱۵ (۱۱۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۸۷) (صحیح)
۴۶۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ وتر میں {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} و {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} اور{قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} تینوں کوایک ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں علی، عائشہ اور عبدالرحمن بن ابزیٰ ( رضی اللہ عنہم ) جنہوں نے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،بھی احادیث آئی ہیں، اوراسے عبدالرحمن بن ابزیٰ سے بغیراُبی کے واسطے کے براہ راست نبی اکرم ﷺسے بھی روایت کیاجاتاہے، ۲- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ وتر میں تیسری رکعت میں معوذتین اور{ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ } پڑھتے تھے،۳- صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم نے جس بات کو پسند کیا ہے، وہ یہ ہے کہ{ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى } { قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ } اور {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ } تینوں میں سے ایک ایک ہررکعت میں پڑھتے ۔


463- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: سَأَلْنَا عَائِشَةَ: بِأَيِّ شَيْئٍ كَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللهِ ﷺ؟ قَالَتْ: كَانَ يَقْرَأُ فِي الأُولَى بِـ{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} وَفِي الثَّانِيَةِ بِـ{قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَافِرُونَ} وَفِي الثَّالِثَةِ بِـ{قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. قَالَ: وَعَبْدُالْعَزِيزِ هَذَا هُوَ وَالِدُ ابْنِ جُرَيْجٍ صَاحِبِ عَطَاءِ، وَابْنُ جُرَيْجٍ اسْمُهُ: عَبْدُ الْمَلِكِ ابْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ. وَقَدْ رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۳۹ (۱۴۲۴)، ق/الإقامۃ ۱۱۵ (۱۱۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۰۶) (صحیح)
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ، ورنہ عبد العزیز کی ملاقات عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں ہے)
۴۶۳- عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : رسول اللہﷺ وتر میں کیا پڑھتے تھے؟ توانہوں نے کہا :پہلی رکعت میں {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى}، دوسری میں{قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَافِرُونَ}، اور تیسری میں{قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} اور معوذتین ۱؎ پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ عبدالعزیزراویٔ اثرعطاء کے شاگرد ابن جریج کے والدہیں،اورابن جریج کانام عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہے، ۳- یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بطریق: عمرۃ، عن عائشہ ،عن النبی اکرمﷺ روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ' ' قل أعوذ بربّ الفلق'' اور'' قل أعوذ بربّ الناس''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ
۱۰-باب: صلاۃِ وتر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان​


464- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَائِ السَّعْدِيِّ قَالَ: قَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي الْوِتْرِ:"اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلاَ يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لاَ يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْحَوْرَائِ السَّعْدِيِّ، وَاسْمُهُ: رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ. وَلاَ نَعْرِفُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ: فَرَأَى عَبْدُاللهِ بْنُ مَسْعُودٍ الْقُنُوتَ فِي الْوِتْرِ فِي السَّنَةِ كُلِّهَا، وَاخْتَارَ الْقُنُوتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ. وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَإِسْحَاقُ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: أَنَّهُ كَانَ لاَ يَقْنُتُ إِلاَّ فِي النِّصْفِ الآخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَكَانَ يَقْنُتُ بَعْدَ الرُّكُوعِ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۴۰ (۱۴۲۵)، ن/قیام اللیل ۵۱ (۱۷۴۶)، ق/الإقامۃ ۱۱۷ (۱۱۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۴۰۴)، حم (۱/۱۹۹، ۲۲۰)، دي/الصلاۃ ۲۱۴ (۱۶۳۲) (صحیح)
۴۶۴- حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺنے یہ کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں پڑھاکروں، وہ کلمات یہ ہیں: <اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلاَ يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لاَيَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ >(اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرہ میں شامل فرماجنہیں تونے ہدایت سے نوازاہے،مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرماجنہیں تو نے عافیت بخشی ہے، میری سرپرستی فرماکر، ان لوگوں میں شامل فرماجن کی تونے سرپرستی کی ہے، اورجوکچھ تو نے مجھے عطافرمایا ہے اس میں برکت عطافرما،اورجس شرکا تونے فیصلہ فرمادیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ، یقینا فیصلہ توہی صادرفرماتا ہے،تیرے خلاف فیصلہ صادرنہیں کیا جاسکتا،اورجس کا تووالی ہووہ کبھی ذلیل وخوارنہیں ہوسکتا، اے ہمارے رب! توبہت برکت والا اور بہت بلند وبالاہے۔)
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اسے ہم صرف اسی سند سے یعنی ابوالحوراء سعدی کی روایت سے جانتے ہیں، ان کا نام ربیعہ بن شیبان ہے،۳- میرے علم میں وتر کے قنوت کے سلسلے میں اس سے بہتر کوئی اور چیز نبی اکرمﷺسے مروی ہو معلوم نہیں،۴- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۵- اہل علم کا وتر کے قنوت میں اختلاف ہے۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ وتر میں قنوت پورے سال ہے، اور انہوں نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا پسند کیاہے، اوریہی بعض اہل علم کا قول ہے سفیان ثوری ،ابن مبارک ، اسحاق اور اہل کوفہ بھی یہی کہتے ہیں،۶- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ صرف رمضان کے نصف آخر میں قنوت پڑھتے تھے، اور رکوع کے بعد پڑھتے تھے،۷- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، شافعی اور احمدبھی یہی کہتے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : وترکی اہمیت ،اور اس کی مشروعیت کے سبب اس کے وقت ، اورطریقہ نیزنبی اکرمﷺکی وترکے بارے میں جو روایات واردہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے ، کہ صلاۃِوترپورا سال اورہر روزہے ، اورقنوت وترکے بارے میں تحقیقی بات یہی ہے کہ وہ رکوع سے پہلے افضل ہے، اور قنوت نازلہ رکوع کے بعدہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَنَامُ عَنِ الْوِتْرِ أَوْ يَنْسَاهُ
۱۱-باب: وترپڑھے بغیر سوجانے یاوترکے بھول جانے کا بیان​


465- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:"مَنْ نَامَ عَنِ الْوِتْرِ،أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ وَإِذَا اسْتَيْقَظَ".
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۴۱ (۱۴۳۱)، ق/الإقامۃ ۱۲۲ (۱۱۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۹۸)، حم (۳/۳۱) (صحیح)
( سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم متکلم فیہ راوی ہیں لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۴۶۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' جووتر پڑھے بغیر سوجائے، یااسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یاجاگے پڑھ لے ''۔


466- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِهِ فَلْيُصَلِّ إِذَا أَصْبَحَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ السِّجْزِيَّ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ الأَشْعَثِ يَقُولُ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ؟ فَقَالَ: أَخُوهُ عَبْدُاللهِ لاَ بَأْسَ بِهِ. قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللهِ: أَنَّهُ ضَعَّفَ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، و قَالَ: عَبْدُاللهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ثِقَةٌ. قَالَ: وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْكُوفَةِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ. فَقَالُوا: يُوتِرُ الرَّجُلُ إِذَا ذَكَرَ، وَإِنْ كَانَ بَعْدَ مَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (صحیح)
(شواہد ومتابعات کی بناپر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ یہ خود مرسل روایت ہے)
۴۶۶- زید بن اسلم (مرسلاً) کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جووترپڑھے بغیرسوجائے ،اورجب صبح کواٹھے تو پڑھ لے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎ ، ۲- میں نے أ بوداود سجزی یعنی سلیمان بن اشعث کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ان کے بھائی عبداللہ میں کوئی مضائقہ نہیں، ۳- میں نے محمد(بن اسماعیل بخاری) کو ذکر کرتے سنا، وہ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) سے روایت کررہے تھے کہ انہوں نے عبدالرحمن بن زید بن اسلم کو ضعیف قراردیاہے اور کہاہے کہ(ان کے بھائی) عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں، ۴- کوفہ کے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آدمی وتر پڑھ لے جب اسے یاد آجائے، گو سورج نکلنے کے بعد یادآئے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ پہلی حدیث اگرچہ مرفوع ہے مگرعبدالرحمن بن زیدبن اسلم کے طریق سے ہے ، اوروہ متکلم فیہ ہیں، جبکہ ان کے بھائی عبداللہ ثقہ ہیں، یعنی اس حدیث کا مرسل ہوناہی زیادہ صحیح ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے وترکی قضاثابت ہوتی ہے ، اس کے قائل بہت سے صحابہ اورائمہ ہیں، اس مسئلہ میں اگرچہ بہت سے اقوال ہیں مگراحتیاط کی بات یہی ہے کہ وتراگرکسی وجہ سے رہ جائے تو قضاکرلے، چاہے جب بھی کرے ، کیونکہ وترسنن ونوافل صلاتوں کو طاق بنانے کے لیے مشروع ہوئی ہے ، اوراگرکوئی مسافر ہو اوردن بھرمیں کسی وقت بھی دورکعت بھی سنت نہ پڑھ سکاہو تو ایسے آدمی کو وترکی ضرورت ہی نہیں ، پھرعشاء کے بعددورکعت سنت پڑھ لے تب وترپڑھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ فِي مُبَادَرَةِ الصُّبْحِ بِالْوِتْرِ
۱۲-باب: صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کا بیان​


467- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ بْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"بَادِرُوا الصُّبْحَ بِالْوِتْرِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المسافرین ۲۰ (۷۵۰)، د/الصلاۃ ۳۴۳ (۱۴۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۳۲)، حم (۲/۳۷، ۳۸) (صحیح)
۴۶۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ''صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیاکرو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ وترکاوقت طلوع فجرسے پہلے تک ہے جب فجرطلوع ہوگئی تو ادائیگی وترکاوقت نکل گیا۔


468- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"أَوْتِرُوا قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوا ".
* تخريج: م/المسافرین ۲۰ (۷۵۴)، ن/قیام اللیل ۳۱ (۱۶۸۴، ۱۶۸۵)، ق/الإقامۃ ۱۲۲ (۱۱۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۸۴)، حم (۳/۱۳، ۳۵، ۳۷، ۷۱)، دي/الصلاۃ ۲۱۱ (۱۶۲۹) (صحیح)
۴۶۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیاکرو''۔


469- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ فَقَدْ ذَهَبَ كُلُّ صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالْوِتْرُ، فَأَوْتِرُوا قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى قَدْ تَفَرَّدَ بِهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ. وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"لاَ وِتْرَ بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ". وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ: لاَ يَرَوْنَ الْوِتْرَ بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۶۷۳) (صحیح)
۴۶۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' جب فجر طلوع ہوگئی تو تہجد(قیام اللیل) اور وتر کا سارا وقت ختم ہوگیا، لہذا فجرکے طلوع ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سلیمان بن موسیٰ ان الفاظ کے ساتھ منفردہیں، ۲- نیزنبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: فجر کے بعد وتر نہیں، ۳- بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے۔اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں: یہ لوگ صلاۃِفجر کے بعد وتر پڑھنے کودرست نہیں سمجھتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پچھلی حدیث کے حاشیہ میں گزراکہ بہت سے صحابہ کرام وائمہ عظام وترکی قضاء کے قائل ہیں ، اوریہی راجح مسلک ہے ، کیونکہ اگروترنہیں پڑھی تو سنن ونوافل کی جفت رکعتیں طاق نہیں ہوپائیں گی، واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ لاَ وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ
۱۳-باب: ایک رات میں دوبار وتر نہیں​


470-حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُلاَزِمُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ ابْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ:"لاَ وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ، ثُمَّ يَقُومُ مِنْ آخِرِهِ: فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ نَقْضَ الْوِتْرِ، وَقَالُوا: يُضِيفُ إِلَيْهَا رَكْعَةً وَيُصَلِّي مَا بَدَا لَهُ، ثُمَّ يُوتِرُ فِي آخِرِ صَلاَتِهِ، لأَنَّهُ لاَ وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ. وَهُوَ الَّذِي ذَهَبَ إِلَيْهِ إِسْحاقُ. وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ ثُمَّ نَامَ ثُمَّ قَامَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ يُصَلِّي مَا بَدَا لَهُ، وَلاَ يَنْقُضُ وِتْرَهُ، وَيَدَعُ وِتْرَهُ عَلَى مَا كَانَ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَأَحْمَدَ. وَهَذَا أَصَحُّ، لأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدْ صَلَّى بَعْدَ الْوِتْرِ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۴۴ (۱۴۳۹)، ن/قیام اللیل ۲۹ (۱۶۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۲۴)، حم (۴/۲۳) (صحیح)
۴۷۰- طلق بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا:'' ایک رات میں دوباروتر نہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس شخص کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے جورات کے شروع حصہ میں وترپڑھ لیتاہوپھر رات کے آخری حصہ میں قیام اللیل(تہجد)کے لیے اٹھتاہو، توصحابہ کرام اور ان کے بعدکے لوگوں میں سے بعض اہل علم کی رائے وترکو توڑدینے کی ہے، ان کا کہناہے کہ وہ اس میں ایک رکعت اور ملالے تاکہ (وہ جفت ہوجائے) پھر جتنا چاہے پڑھے اور صلاۃ کے آخر میں وتر پڑھ لے۔ اس لیے کہ ایک رات میں دوبار وتر نہیں، اسحاق بن راہویہ اسی طرف گئے ہیں،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب اس نے رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لی پھر سوگیا، پھر رات کے آخری میں بیدار ہوا تووہ جتنی صلاۃ چاہے پڑھے ، وتر کو نہ توڑے بلکہ وتر کو اس کے اپنے حال ہی پررہنے دے۔سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی اور اہل کوفہ اور احمدکایہی قول ہے۔ اوریہی زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ کئی دوسری روایتوں میں مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے وتر کے بعد صلاۃ پڑھی ہے۔


471-حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مُوسَى الْمَرَئِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْوِتْرِ رَكْعَتَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، وَعَائِشَةَ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۱۲۵ (۱۱۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۵۵) (صحیح)
۴۷۱- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ وتر کے بعد دورکعتیں پڑھتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوامامہ ، عائشہ رضی اللہ عنہما اوردیگرکئی لوگوں سے بھی نبی اکرمﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : نووی کے بقول نبی اکرم ﷺ کا وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بیان جواز کے لیے تھا، آپ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے، نہ کرسکتے تھے کہ آپ نے خود فرمایا تھا : ''وتر کو رات کی صلاۃ (تہجد) میں سب سے اخیر میں کردو'' تو آپ خود اس کی خلاف ورزی کیسے کرسکتے تھے، یا پھر یہ مانیے کہ یہ آپ کے ساتھ خاص تھا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء میں اس پر تعامل نہیں پایا گیا۔ واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ عَلَى الرَّاحِلَةِ
۱۴-باب: سواری پر وتر پڑھنے کا بیان​


472-حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ، فَتَخَلَّفْتُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَيْنَ كُنْتَ؟ فَقُلْتُ أَوْتَرْتُ، فَقَالَ: أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ؟ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يُوتِرُ عَلَى رَاحِلَتِهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ عَلَى رَاحِلَتِهِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ يُوتِرُ الرَّجُلُ عَلَى الرَّاحِلَةِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ نَزَلَ فَأَوْتَرَ عَلَى الأَرْضِ. وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: خ/الوتر ۵ (۹۹۹)، وتقصیر الصلاۃ ۷ (۱۰۹۵)، و۸ (۱۰۹۸)، و۱۲ (۱۱۰۵)، م/المسافرین ۴ (۷۰۰)، ن/قیام اللیل ۳۳ (۱۶۸۷-۱۶۸۹)، ق/الإقامۃ ۱۲۷ (۱۲۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۸۵)، ط/صلاۃ اللیل ۳ (۱۵)، حم (۲/۵۷، ۱۳۸)، دي/الصلاۃ ۲۱۳) (صحیح)
۴۷۲- سعید بن یسار کہتے ہیں: میں ایک سفرمیں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ چل رہاتھا، میں ان سے پیچھے رہ گیا، توانہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہاتھا، انہوں نے کہا: کیا رسول اللہﷺکی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟ میں نے رسول اللہﷺکوتو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، ان کا خیال ہے کہ آدمی اپنی سواری پر وتر پڑھ سکتاہے۔ اوریہی شافعی ، احمد، اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ آدمی سواری پر وتر نہ پڑھے ، جب وہ وتر کا ارادہ کرے تو اُسے اُترکر زمین پر پڑھے۔یہ بعض اہل کوفہ کا قول ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : متعدداحادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرمﷺسواری پربھی وترپڑھاکرتے تھے، اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کو ناپسندکرے اور یہ صرف جائزہے نہ کہ فرض وواجب ہے ، کبھی کبھی آپﷺسواری سے اترکر بھی پڑھاکرتے تھے، ہردونوں صورتیں جائزہیں۔
 
Top