• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ فِي قَصْدِ الْخُطْبَةِ
۱۲-باب: خطبہ کے درمیانی ہونے کا بیان​


507- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ، فَكَانَتْ صَلاَتُهُ قَصْدًا، وَخُطْبَتُهُ قَصْدًا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الجمعۃ ۱۳ (۸۶۶)، د/الصلاۃ ۲۲۹ (۱۱۰۱)، ن/العیدین ۲۶ (۱۵۸۵)، ق/الإقامۃ ۸۵ (۱۱۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۶۷)، حم (۵/۹۱، ۹۳-۹۵، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۲)، دي/الصلاۃ ۱۹۹ (۱۵۹۸) (صحیح)
۵۰۷- جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃپڑھتاتھاتوآپ کی صلاۃ بھی درمیانی ہوتی تھی اورخطبہ بھی درمیانی ہوتاتھا۔(یعنی زیادہ لمبا نہیں ہوتاتھا۔)
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عماربن یاسراورابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَائَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ
۱۳-باب: منبرپرقرآن پڑھنے کا بیان​


508- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءِ، عَنْ صَفْوَانَ ابْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ {وَنَادَوْا يَا مَالِكُ}. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ. وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَقْرَأَ الإِمَامُ فِي الْخُطْبَةِ آيًا مِنْ الْقُرْآنِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِذَا خَطَبَ الإِمَامُ فَلَمْ يَقْرَأْ فِي خُطْبَتِهِ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ أَعَادَ الْخُطْبَةَ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۷ (۳۲۳۰)، و۱۰ (۳۲۶۶)، وتفسیر الزخرف ۱ (۴۸۱۹)، م/الجمعۃ ۱۳ (۸۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۸) (صحیح)
۵۰۸- یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کومنبر پرپڑھتے سنا:{ وَنَادَوْا يَا مَالِكُ } ۱؎ (اوروہ پکارکر کہیں گے اے مالک! )
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ، اوریہی ابن عیینہ کی حدیث ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اورجابربن سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اہل علم کی ایک جماعت نے امام کے خطبہ میں قرآن کی کچھ آیتیں پڑھنے کو پسندکیاہے ۲؎ ، شافعی کہتے ہیں: امام جب خطبہ دے اوراس میں قرآن کچھ نہ پڑھے توخطبہ دہرائے۔
وضاحت ۱؎ : الزخرف : ۷۷(''مالک''جہنم کے دروغہ کا نام ہے جس کوجہنمی پکارکرکہیں گے کہ اپنے رب سے کہوکہ ہمیں موت ہی دیدے تاکہ جہنم کے عذاب سے نجات تومل جائے ،جواب ملے گا : یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے رہناہے)
وضاحت ۲؎ : صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرمﷺ خطبہ جمعہ میں ''سورہ ق'' پوری پڑھاکرتے تھے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بطوروعظ ونصیحت کے قرآن کی کوئی آیت پڑھنی چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي اسْتِقْبَالِ الإِمَامِ إِذَا خَطَبَ
۱۴-باب: خطبہ کے وقت امام کی طرف منہ کرنے کا بیان​


509- حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا اسْتَوَى عَلَى الْمِنْبَرِ اسْتَقْبَلْنَاهُ بِوُجُوهِنَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَحَدِيثُ مَنْصُورٍ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ ضَعِيفٌ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، يَسْتَحِبُّونَ اسْتِقْبَالَ الإِمَامِ إِذَا خَطَبَ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلاَ يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شِئيٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۴۵۷) (صحیح)
( یہ سند سخت ضعیف ہے، اس لیے کہ اس میں راوی محمد بن فضل بن عطیہ کی لوگوں نے تکذیب تک کی ہے ، لیکن براء بن عازب اور ابن عمر ، انس اور ابوسعید خدری وغیرہ سے مروی شواہد کی بنا پرصحابہ کایہ تعامل صحیح اور ثابت ہے تفصیل کے لیے دیکھئے : الصحیحۃ ۲۰۸۰)
۵۰۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب منبرپربیٹھتے توہم اپنامنہ آپ کی طرف کرلیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- منصورکی حدیث کوہم صرف محمدبن فضل بن عطیہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- محمدبن فضل بن عطیہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ضعیف اورذاہب الحدیث ہیں، ۳- اس باب میں نبی اکرمﷺسے روایت کی گئی کوئی چیزصحیح نہیں ہے ۱؎ ،۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا عمل اسی پرہے ، وہ خطبے کے وقت امام کی طرف رخ کرنا مستحب سمجھتے ہیں اور یہی سفیان ثوری ، شافعی ، احمداوراسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ۵- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : سندکے لحاظ سے اس باب میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے لیکن متعدداحادیث وآثارسے اس مضمون کو تقویت مل جاتی ہے (دیکھئے الصحیحۃ رقم۲۰۸۰) عام مساجدمیں یہ چیزتوبہت آسان ہے لیکن خانہ کعبہ میں مشکل ہے ، تو وہاں یہ بات معاف ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ إِذَا جَاءَ الرَّجُلُ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ
۱۵-باب: خطبہ کے دوران آدمی آئے توپہلے دورکعت صلاۃ پڑھے​


510- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"أَصَلَّيْتَ؟"، قَالَ: لاَ، قَالَ:"قُمْ فَارْكَعْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ.
* تخريج: خ/التہجد ۲۵ (۱۱۲۶)، والجمعۃ ۳۲ (۹۳۰)، و۳۳ (۹۳۱)، م/الجمعۃ ۱۴ (۸۷۵)، ن/الجمعۃ ۲۱ (۱۴۰۱)، ق/الإقامۃ ۸۷ (۱۱۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۱۱)، حم (۳/۲۹۷، ۳۰۸، ۳۶۹)، دي/الصلاۃ ۱۹۶ (۱۴۰۶) (صحیح)
۵۱۰- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص آیا تو آپ نے اُسے پوچھا: کیا تم نے صلاۃ پڑھ لی؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا:'' اٹھو اور( دورکعت) صلاۃ پڑھ لو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے اوراس باب میں سب سے زیادہ صحیح ہے ۔


511- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ دَخَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَمَرْوَانُ يَخْطُبُ، فَقَامَ يُصَلِّي فَجَاءَ الْحَرَسُ لِيُجْلِسُوهُ، فَأَبَى حَتَّى صَلَّى، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: رَحِمَكَ اللهُ، إِنْ كَادُوا لَيَقَعُوا بِكَ! فَقَالَ: مَا كُنْتُ لأَتْرُكَهُمَا بَعْدَ شَيْئٍ رَأَيْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، ثُمَّ ذَكَرَ أَنَّ رَجُلاً جَاءَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي هَيْئَةٍ بَذَّةٍ، وَالنَّبِيُّ ﷺ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَأَمَرَهُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَالنَّبِيُّ ﷺ يَخْطُبُ. قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: كَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ إِذَا جَاءَ، وَالإِمَامُ يَخْطُبُ، وَكَانَ يَأْمُرُ بِهِ، وَكَانَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِءُ يَرَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ يَقُولُ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ ثِقَةً مَأْمُونًا فِي الْحَدِيثِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا دَخَلَ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ، فَإِنَّهُ يَجْلِسُ وَلاَ يُصَلِّي. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۳۹ (۱۶۷۵)، (مختصرا)، ن/الجمعۃ ۲۶ (۱۴۰۹)، والزکاۃ ۵۵ (۲۵۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۷۲)، حم (۳/۲۵)، (کلہم بدون ذکر قصۃ مروان) (حسن صحیح)
511/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْعَلاَءُ بْنُ خَالِدٍ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: رَأَيْتُ الْحَسَنَ الْبَصْرِيَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ. إِنَّمَا فَعَلَ الْحَسَنُ اتِّبَاعًا لِلْحَدِيثِ. وَهُوَ رَوَى عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۵۱۱- عیاض بن عبد اللہ بن ابی سرح سے روایت ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن (مسجدمیں)داخل ہوئے،مروان بن حکم خطبہ دے رہے تھے ،وہ کھڑے ہوکر صلاۃ پڑھنے لگے ، پہریدار آئے تاکہ انہیں بٹھادیں لیکن وہ نہیں ما نے اورصلاۃ پڑھ ہی لی ، جب وہ صلاۃسے فارغ ہوئے تو ہم نے ان کے پاس آکر کہا: اللہ آپ پررحم فرمائے قریب تھاکہ یہ لوگ آپ سے ہاتھاپائی کربیٹھتے، تو انہوں نے کہا : میں تو یہ دونوں رکعتیں ہرگزچھوڑنے والاتھا نہیں، بعداس کے کہ میں نے رسول اللہﷺکو ایساکرتے دیکھاہے ، پھر انہوں نے بیان کیاکہ ایک شخص جمعہ کے دن پراگندہ حالت میں آیا ،نبی اکرمﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے اسے دورکعت پڑھنے کا حکم دیا ،اس نے دورکعتیں پڑھیں اورنبی اکرمﷺ خطبہ دے رہے تھے ۔
ابن ابی عمر کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ جب مسجد میں آتے اورامام خطبہ دے رہاہوتاتو دورکعتیں پڑھتے تھے ، وہ اس کا حکم بھی دیتے تھے ، اور ابوعبد الرحمن المقری بھی اسے درست سمجھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- میں نے ابن ابی عمر کوکہتے سناکہ سفیان بن عیینہ کہتے تھے کہ محمد بن عجلان ثقہ ہیں اور حدیث میں مامون ہیں، ۳- اس باب میں جابر، ابوہریرہ اورسہل بن سعد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے ، شافعی، احمداوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں اوربعض کہتے ہیں کہ جب کوئی مسجد میں داخل ہواور امام خطبہ دے رہاہوتووہ بیٹھ جائے صلاۃنہ پڑھے ، یہی سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا قول ہے، ۵- پہلاقول زیادہ صحیح ہے۔
۵۱۱/م- علاء بن خالدقرشی کہتے ہیں: میں نے حسن بصری کودیکھا کہ وہ جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوئے اورامام خطبہ دے رہاتھا ،تو انہوں نے دورکعت صلاۃ پڑھی، پھر بیٹھے،حسن بصری نے ایسا حدیث کی اتباع میں کیا، یہ حدیث انہوں نے جابرسے اورجابرنے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے مسجدمیں داخل ہوتے وقت دورکعت ''تحیۃ المسجد''کی تاکیدثابت ہوتی ہے ،اس باب میں اوربہت سی احادیث ہیں حتی کہ تحیۃ المسجدکے لیے مکروہ اوقات کی بھی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ یہ سببی صلاۃ ہے ، ہاں اگرکوئی ایسے وقت مسجدمیں داخل ہوکہ جب کسی فرض وسنت صلاۃ کا وقت تھاتو فرض وسنت صلاۃ سے تحیۃ المسجدکی بھی ادائیگی ہوجائیگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْكَلاَمِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ
۱۶-باب: امام کے خطبہ دینے کی حالت میں گفتگوکرنے کی کراہت​


512- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"مَنْ قَالَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ أَنْصِتْ فَقَدْ لَغَا".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. كَرِهُوا لِلرَّجُلِ أَنْ يَتَكَلَّمَ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ، وَقَالُوا: إِنْ تَكَلَّمَ غَيْرُهُ فَلاَ يُنْكِرْ عَلَيْهِ إِلاَّ بِالإِشَارَةِ. وَاخْتَلَفُوا فِي رَدِّ السَّلاَمِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ. فَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي رَدِّ السَّلاَمِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ ذَلِكَ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: خ/الجمعۃ ۳۶ (۹۳۴)، م/الجمعۃ ۳ (۸۵۱)، د/الصلاۃ ۲۳۵ (۱۱۱۲)، ن/الجمعۃ ۲۲ (۱۴۰۲)، والعیدین ۲۱ (۱۵۷۸)، ق/الإقامۃ ۸۶ (۱۱۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۰۶)، ط/الجمعۃ ۲ (۶)، حم (۲/۲۴۴، ۲۷۲، ۲۸۰، ۳۹۳، ۳۹۶، ۴۸۵، ۵۱۸، ۵۳۲)، دي/الصلاۃ ۱۹۵ (۱۵۸۹) (صحیح)
۵۱۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' جس نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران کسی سے کہا: چُپ رہو تو اس نے لغوبات کی یااس نے اپناجمعہ لغوکرلیا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن ابی اوفیٰ اورجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اسی پرعمل ہے، علماء نے آدمی کے لیے خطبہ کے دوران گفتگوکرنامکروہ جاناہے اورکہا ہے کہ اگر کوئی دوسرا گفتگو کرے تو اسے بھی منع نہ کر ے سوائے اشارے کے،۴- البتہ دوران خطبہ سلام کے جواب دینے اورچھینکنے والے کے جواب میں'' يرحمك الله'' کہنے کے سلسلہ میں اختلاف ہے بعض اہل علم نے دوران خطبہ سلام کا جواب دینے اورچھینکنے والے کے جواب میں '' يرحمك الله'' کہنے کی اجازت دی ہے ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کایہی قول ہے اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اسے مکروہ قراردیا ہے،اوریہیشافعی کاقول ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اسے جمعہ کی فضیلت نہیں ملی بلکہ اس سے محروم رہا،یہ معنی نہیں کہ اس کی صلاۃہی نہیں ہوئی کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ اس کی صلاۃ جمعہ اداہوجائے گی، البتہ وہ جمعہ کی فضیلت سے محروم رہے گا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ پورے انہماک اورتوجہ سے سنناچاہئے، اور خطبہ کے دوران کوئی نارواحرکت نہیں کرنی چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ التَّخَطِّي يَوْمَ الْجُمُعَةِ
۱۷-باب: جمعہ کے دن( دورانِ خطبہ)لوگوں کی گردنیں پھاندنے کی کراہت​


513- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ تَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ اتَّخَذَ جِسْرًا إِلَى جَهَنَّمَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: كَرِهُوا أَنْ يَتَخَطَّى الرَّجُلُ رِقَابَ النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَشَدَّدُوا فِي ذَلِكَ. وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ، وَضَعَّفَهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۸۸ (۱۱۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۹۲)، حم (۳/۴۳۷) (حسن)
(سندمیں رشدین بن سعد اورزبان بن فائد دونوں ضعیف راوی ہیں،لیکن شاہد کی وجہ سے حسن لغیرہ ہے، تراجع الالبانی۴۵، السراج المنیر ۱۵۱۲، والصحیحہ ۳۱۲۲)
۵۱۳- معاذبن انس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:''جمعہ کے دن جس نے لوگوں کی گردنیں پھاندیں اس نے جہنم کی طرف لے جانے والاپل بنالیا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں جابرسے بھی روایت ہے۔ سہل بن معاذبن انس جہنی کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف رشدبن سعدکی روایت سے جانتے ہیں،۲- البتہ اہل علم کا عمل اسی پرہے۔انہوں نے اس بات کو مکروہ سمجھاہے ، کہ آدمی جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھاندے اورانہوں نے اس میں سختی سے کام لیا ہے ۔ اوران کے حفظ کے تعلق سے انہیں ضعیف گرداناہے۔ بعض اہل علم نے رشدین بن سعد پر کلام کیا ہے
وضاحت ۱؎ : یہ ترجمہ ''اتّخَذَ'' معروف کے صیغے کاہے مشہوراعراب مجہول کے صیغے ''اتُّخِذَ'' کے ساتھ ہے، اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا کہ جوجمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھاندے گا وہ جہنم کا پل بنادیاجائے گا جس پر چڑھ کر لوگ جہنم کو عبورکریں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الاِحْتِبَاءِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ
۱۸-باب: امام کے خطبہ دینے کی حالت میں احتباء کرنے کی کراہت کا بیان​


514- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، وَعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُوعَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِءُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو مَرْحُومٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنِ الْحِبْوَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَأَبُو مَرْحُومٍ اسْمُهُ: عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْحِبْوَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ. وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ. مِنْهُمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ: لاَ يَرَيَانِ بِالْحِبْوَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ بَأْسًا.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۳۴ (۱۱۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۹۹)، حم (۳/۴۳۹) (حسن)
۵۱۴- معاذبن انس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے جمعہ کے دن جب کہ امام خطبہ دے رہا ہو گھٹنوں کوپیٹ کے ساتھ ملاکربیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- عام اہل علم نے جمعہ کے دن حبوہ کومکروہ جاناہے، اوربعض نے اس کی رخصت دی ہے، انہیں میں سے عبداللہ بن عمروغیرہ ہیں۔احمداوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، یہ دونوں امام کے خطبہ دینے کی حالت میں حبوہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حبوہ ایک مخصوص بیٹھک کا نام ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ سرین پر بیٹھاجائے اوردونوں گھٹنوں کوکھڑارکھاجائے اور انہیں دونوں ہاتھوں سے باندھ لیاجائے، اس سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح بیٹھنے سے نیندآتی ہے اورہواخارج ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ رَفْعِ الأَيْدِي عَلَى الْمِنْبَرِ
۱۹-باب: منبرپرہاتھ اٹھاکردعامانگنے کی کراہت کا بیان​


515- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ رُوَيْبَةَ الثَّقَفِيَّ، وَبِشْرُ بْنُ مَرْوَانَ يَخْطُبُ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ، فَقَالَ عُمَارَةُ: قَبَّحَ اللهُ هَاتَيْنِ الْيُدَيَّتَيْنِ الْقُصَيَّرَتَيْنِ! لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ وَمَا يَزِيدُ عَلَى أَنْ يَقُولَ هَكَذَا: وَأَشَارَ هُشَيْمٌ بِالسَّبَّابَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الجمعۃ ۱۳ (۸۷۴)، د/الصلاۃ ۲۳۰ (۱۱۰۴)، ن/الجمعۃ ۲۹ (۱۴۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۷۷)، حم (۴/۱۳۵، ۱۳۶، ۲۶۱)، دي/الصلاۃ ۲۰۱ (۱۶۰۱) (صحیح)
۵۱۵- حصین کہتے ہیں کہ بشربن مروان خطبہ دے رہے تھے ، انہوں نے دعا ۱؎ کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، تو میں نے عمارہ بن رویبہ کوکہتے سنا: اللہ ان دونوں چھوٹے ہاتھوں کوغارت کرے،میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھاآپ صرف اس طرح کرتے تھے اس سے زیادہ کچھ نہیں، اورہشیم نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : صحیح مسلم میں ''فی الدعاء''کا لفظ نہیں ہے ، مولف نے اسی لفظ سے اس بات پر استدلال کیاہے کہ خطبہ جمعہ کی حالت میں دعاء میں ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئے، اورمسلم کی روایت کے مطابق حدیث کا مطلب ہے کہ خطبہ میں بہت زیادہ ہاتھ نہیں اٹھاناچاہئے اور وہ جو صحیح بخاری میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺنے دورانِ خطبہ بارش کے لیے دعاکی اور ہاتھ اٹھایا،تو بقول بعض ائمہ یہ استسقاء (بارش کے طلب)کی دعاتھی اس لیے اٹھایاتھا،صحیح بات یہ ہے کہ عمارہ بن رویبہ ''نے مطلق حالت خطبہ میں ہاتھوں کو زیادہ حرکت کی بابت تنبیہ کی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَا جَاءَ فِي أَذَانِ الْجُمُعَةِ
۲۰-باب: جمعہ کی اذان کا بیان​


516- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كَانَ الأَذَانُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ: إِذَا خَرَجَ الإِمَامُ، وَإِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجمعۃ ۲۱ (۹۱۲)، و۲۲ (۹۱۳)، و۲۴ (۹۱۵)، و۲۵ (۹۱۶)، د/الصلاۃ ۲۲۵ (۱۰۸۷)، ن/الجمعۃ ۱۵ (۱۳۹۳)، ق/الإقامۃ ۹۷ (۱۱۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۹۹)، حم (۳/۴۵۰) (صحیح)
۵۱۶- سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺاورابوبکروعمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں(پہلی) اذان اس وقت ہوتی جب امام نکلتااور(دوسری)جب صلاۃ کھڑی ہوتی ۱؎ پھرجب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے توانہوں نے زوراء ۲؎ میں تیسری اذان کا اضافہ کیا ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہاں دوسری اذان سے مراداقامت ہے۔
وضاحت ۲؎ : ز وراء مدینہ کے بازارمیں ایک جگہ کانام تھا۔
وضاحت۳؎ : عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجدسے دوربازارمیں پہلی اذان دلوائی ، اورفی زمانہ لوگوں نے یہ اذان مسجدکے اندرکردی ہے اوردعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اذان عثمان رضی اللہ عنہ کی سنت ہے،اگرکہیں واقعی اس طرح کی ضرورت موجودہوتواذان مسجدسے باہردی جائے، ویسے اب مائک کے انتظام اوراکثرلوگوں کے ہاتھوں میں گھڑیوں کی موجودگی کے سبب اس طرح کی اذان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی، جس ضرورت کے تحت عثمان رضی اللہ عنہ یہ زائد اذان دلوائی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي الْكَلاَمِ بَعْدَ نُزُولِ الإِمَامِ مِنْ الْمِنْبَرِ
۲۱-باب: منبرسے اترنے کے بعد امام کا بات چیت کرنا جائزہے​


517- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُكَلَّمُ بِالْحَاجَةِ إِذَا نَزَلَ عَنِ الْمِنْبَرِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ. قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: وَهِمَ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَأَخَذَ رَجُلٌ بِيَدِ النَّبِيِّ ﷺ، فَمَا زَالَ يُكَلِّمُهُ حَتَّى نَعَسَ بَعْضُ الْقَوْمِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَالْحَدِيثُ هُوَ هَذَا. وَجَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ رُبَّمَا يَهِمُ فِي الشَّيْئِ، وَهُوَ صَدُوقٌ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهِمَ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ فِي حَدِيثِ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَيُرْوَى عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ فَحَدَّثَ حَجَّاجٌ الصَّوَّافُ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلاَةُ فَلاَ تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي" فَوَهِمَ جَرِيرٌ، فَظَنَّ أَنَّ ثَابِتًا حَدَّثَهُمْ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۴۰ (۱۱۲۰)، ن/الجمعۃ ۳۶ (۱۴۲۰)، ق/الإقامۃ ۸۹ (۱۱۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۰)، حم (۳/۱۲۷) (شاذ)
(جریرسے وہم ہواہے ، واقعہ عشاء کا ہے ، نہ کہ جمعہ کا ، جیساکہ مسلم کی حدیث نمبر۳۷۰میں ہے)
۵۱۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺضرورت کی بات اس وقت کرتے جب آپ منبرسے اترتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کو صرف جریربن حازم کی روایت سے جانتے ہیں،اورمیں نے محمدبن اسماعیل بخاری کوکہتے سناکہ جریربن حازم کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے ، اورصحیح وہی ہے جوبطریق: '' ثابت، عن أنس '' مروی ہے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صلاۃ کھڑی ہوئی اورایک آدمی نے نبی اکرمﷺکاہاتھ پکڑاتوآپ برابراس سے گفتگوکرتے رہے یہاں تک کہ بعض لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: حدیث یہی ہے، اور جریر کوکبھی کبھی وہم ہوجاتاہے حالانکہ وہ صدوق ہیں۔ محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ جریربن حازم کو ثابت کی حدیث میں (بھی) جسے ثابت نے انس سے اورانس نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے وہم ہواہے (جو یہ ہے کہ) آپ نے فرمایا: جب صلاۃ کھڑی ہوجائے توتم اس وقت تک نہ کھڑے ہوجب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: نیزحمادبن زید سے روایت کی جاتی ہے کہ ہم لوگ ثابت بنانی کے پاس تھے ، اورحجاج صواف نے یحیی ابن ابی کثیرکے واسطہ سے حدیث بیان کی، جسے یحیی نے عبد اللہ بن ابوقتادہ سے اورعبداللہ نے اپنے والدابوقتادہ سے اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:''جب صلاۃ کھڑی ہوجائے توتم کھڑے نہ ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو'' چنانچہ جریرکو وہم ہوا،انہیں گمان ہواکہ ثابت نے ان سے بیان کیا ہے اورثابت نے انس سے اور انس نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔
5

18- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ بَعْدَ مَا تُقَامُ الصَّلاَةُ يُكَلِّمُهُ الرَّجُلُ يَقُومُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَمَا يَزَالُ يُكَلِّمُهُ، فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَنَا يَنْعَسُ مِنْ طُولِ قِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ لَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۷۸) (صحیح)
۵۱۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صلاۃ کھڑی ہوجانے کے بعدمیں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا کہ آپ سے ایک آدمی باتیں کررہا ہے ، اور آپ اس کے اورقبلے کے درمیان کھڑے ہیں،آپ برابراس سے گفتگوکرتے رہے ، میں نے دیکھا کہ نبی اکرمﷺ کے طول قیام کی وجہ سے بعض لوگ اونگھ رہے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 
Top